Maha Gul Novels

Maha Gul Novels

Urdu novels Go subscribe my YouTube channel for more novels https://youtube.com/@urdunovelsbymahagul

21/08/2023

𝘿𝙤𝙣’𝙩 𝙘𝙤𝙥𝙮 𝙥𝙖𝙨𝙩𝙚 𝙬𝙞𝙩𝙝𝙤𝙪𝙩 𝙢𝙮 𝙥𝙚𝙧𝙢𝙞𝙨𝙨𝙞𝙤𝙣 𝙖𝙣𝙙 𝙣𝙖𝙢𝙚…
کچھ خواب سجل مسکانوں کے
کچھ بول کبت دیوانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نا ملے
کچھ حرف شکستہ جانوں کے
کچھ نیر وفا کی شمعوں کے
کچھ پر پاگل پروانوں کے
پھر اپنی گھائل آنکھوں سے
خوش ہو کر لہو چھڑکایا تھا
مٹی میں ماس کی کھاد بھری
اور نس نس کو زخمایا تھا
اور بھول گئے پچھلی رات میں
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا
ہر بار گگن نے وہم دیا
اب کے برکھا جب آئے گی
ہر بیچ سے کونپل پھوٹے گی
اور ہر کونپل پھل لائے گی
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے آنکھوں میں
کچھ خاکستر سے گجرے تھے
اور دور افق کے ساگر میں
کچھ ڈوبتے ڈوبتے بجرے تھے
اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری
اور جسم پہ چوگ کا چولہ ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے
کوئی ماسا ہے کوئی تولہ ہے
اِس تاک میں یہ اُس گھات میں وہ
ہر اور ٹھگوں کا ٹولہ ہے
اب گھاٹ نہ گھر دیوار نہ در
اب پاس رہا ہے کیا بابا
بس تن کی گٹھڑی باقی ہے
جا یہ بھی تُو لے جا بابا
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تُو اپنا قرض چکا بابا
ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
---------------------
ماضی
یہ ایک زرد روشنی میں ڈوبے کمرے کا منظر تھا—جس کی چار دیواری پر جا بجا کاغذات چپکے ہوئے تھے—کہی کچھ لوگوں کی تصویریں لگی تھی جن میں سے کچھ کو سیاہ اور کچھ کو سرخ رنگ سے سرکل کیا گیا تھا—دیوار کا کوئی ایسا حصہ نا تھا جو ان کاغذوں یا تصویروں سے خالی ہوتا—زمین پر پڑے کارٹن کے ڈبوں کے اوپر فائلوں کے انبار لگے ہوئے تھے—نظریں ان سے سرکتی کمرے کے بیچ کے مناظر پر آتی تو وہاں دائرے کی صورت میں گول میز کے اردگرد دس کرسیاں لگی ہوئی تھیں—جن میں سے پانچ پر وہ لوگ اپنی نشست سنبھالے بیٹھے تھے
میز پر بکھرے کاغذات کو اپنے اگے پھیلائے— وہ پانچوں ایک ہاتھ میں ہائی لائٹر پکڑے—کاغذات پر اہم پوائنٹس کو ہائی لائٹ کرتے جا رہے تھے جبکہ بائیں ہاتھ کی انگلیاں تیزی سے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چل رہی تھیں—
ایجنٹ نائن—نیو کیس کی کیا ایپڈیٹ ہے"—کمرے کی خاموش فضا میں ڈریگو کی بھاری آواز گونجی تو کاغذ اور لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چلتی ایجنٹ نائن کی انگلیاں تھمی تھیں—
"سر معاملہ تھوڑا سیریس ہے— بہت سے لوگ سامنے آرہے ہیں—اور مجھے لگ رہا ہے یہ کیس مزید اور چلا تو یہ اور بھی بہت سے لوگوں کو بے نقاب کرنے والا ہے"--- ایجنٹ نائن کے جواب پر ڈریگو نے ہنکارہ بھرتے—اپنے سامنے پڑی فائل کو بند کیا تھا—
تبھی فون کی رنگ پر ڈریگو نے ٹیبل پر پڑے اپنے فون کو اٹھایا تھا—سکرین پر جگمگاتے نام کو دیکھ وائلڈ وولف کے ہاتھ تھمے تھے—
بھوری شہد رنگ آنکھوں میں جیسے تپش اتری تھی—
"السلام و علیکم سر"—
"وعلیکم السلام—یہ مجھے کیا سننے کو مل رہا ہے ڈریگو—تم نے مافیا کے بندوں پر ہاتھ ڈالا ہے—تم لوگ پاگل ہو—بنا کسی آفیشل نوٹس کے بنا کسی کے پرمیشن کے تم بلیک ورلڈ کے لوگوں کو مارتے پھر رہے ہو—تمہیں ذرا سا بھی اندازہ ہے تمہاری یہ حرکت ہم سب کے لیے کتنی مشکل پیدا کر سکتی ہے"--- سپیکر پر لگے فون سے گونجتی کرنل ضیاء کی غصے بھری آواز پر ڈریگو کے عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی تھی— کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے—اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے— اپنی گہری سنجیدہ آنکھوں کو فون کی سکرین پر ٹکایا تھا—
"آپ کو جو بھی سننے کو مل رہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے—لیکن یہ بات غلط ہے کہ ڈریگو نے مافیا کے بندوں پر ہاتھ ڈالا ہے—جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈریگو نے ان کے قدموں سے زمین کھینچی ہیں—انہیں منہ کے بل گرایا ہے-- رہی بات پرمیشن کی تو ٹیم بننے سے پہلے میں ہر طرح کے کیس کو سولو کرنے کی پرمیشن لے چکا تھا اس لیے میں معتصم چوہدری اب کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوں—خاص کر حق اور سچ کے لیے لڑتے ہوئے تو بالکل نہیں—کوئی اس جنگ میں میرے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے تو ٹھیک نا بھی ہونا چاہے تب بھی ٹھیک—مگر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے سوال اٹھاتا ہے تو یاد رکھے کہ میں صرف متعصم چوہدری نہیں ڈریگو ہوں—سوال اٹھانے والا یا اعتراض کرنے والا مجھے اپنے مقابل پائے گا—اور آخری بات مشکل پیدا کرنے کی تو بے فکر رہے یہ مشکل صرف حق اور سچ کے لیے لڑنے والوں کے لیے پیدا ہوگی—ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے کے لیے( لہجہ دھیمہ مگر تپش زدہ تھا—جس کی تپش نے دوسری جانب کال پر موجود کرنل ضیاء کو بری طرح جھلسایا تھا—متعصم چوہدری کی بات پر وہ بری طرح تلملائے تھے)—سنا نہیں آپ نے کیا دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے—تو وہ اپنے دوستوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے ( اب کہ لہجہ سرد تھا—ذومعنی تھا کہ اس کا مطلب سمجھتے—کرنل ضیاء ٹھٹھکے تھے)
"تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن تمہیں صرف عورتوں سے ریلیٹیڈ کیس سولو کرنے کی پرمیشن ملی تھی"—اپنے لہجے کو حتی الامکان قابو پاتے انہوں نے جواب دیا تو ٹیبل کے گرد بیٹھے سبھی نفوس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ رینگی تھی—
"اس کنٹریکٹ میں ایسا کچھ لکھا تھا کرنل صاحب( ہنسی میں ڈوبا طنزیہ لہجہ جو کہ کرنل ضیاء کے چودہ طبق روشن کر گیا تھا) جہاں تک مجھے یاد ہے اس میں تو صرف اتنا لکھا تھا کہ آئی ایس آئی اور آرمی کی جانب سے میجر متعصم چوہدری کو الگ ٹیم بنانے اور اس ٹیم کے ساتھ مل کر اپنے طریقے سے کیس سولو کرنے کی پرمیشن دی جاتی ہے—ایسا ہی کچھ تھا نا"--- کہنیاں ٹیبل کی سطح پر ٹکاتے— مونچھوں تلے دبے عنابی ہونٹوں پر دل جلا دینے والی مسکراہٹ سجائے سوالیہ اور کچھ جتاتے لہجے میں کہتے وہ کرنل ضیاء کو مٹھیاں بھنچنے پر مجبور کر گیا تھا—
سہی تو کہہ رہا تھا وہ اس نے صرف بات کی تھی کہ وہ اپنے ملک کی عورتوں کو انصاف دلانے چاہتا ہے – وہ ان کے مجرموں کو اپنے طریقے سے سزا دینا چاہتا ہے—لیکن یہ بات اس کنٹریکٹ میں نہیں لکھی تھی—اور ٹیم بننے کے بعد بھی اس نے ایسے ہی کیس سولو کیے تھے— انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ڈریگو کے ہاتھوں بیوقوف بن چکے ہیں—
"ہمم—ایسا کچھ نہیں لکھا تھا—لیکن اب وہ لوگ خاموش تو نہیں بیٹھیں گے نا— مجھے تو صرف اس بات کی فکر ہے کہ کہی تمہاری اس حرکت کی سزا ہماری عوام کو نا بھگتنی پڑے—اگر تم ہمیں اپنے پلین کے بارے میں بتا کر کرتے تو ہم بھی تمہاری مدد کرتے اور شاید جہاں تم نے وکرم خانزادہ کے بھائی اور اس کی ٹیم کو ختم کیا وہاں ہم اسے بھی ختم کرپاتے خیر نیکسٹ ٹائم ایسا کچھ ہو تو ایٹلیسٹ ہمیں انفارم کرنا تمہارا فرض بنتا ہے"--- اپنی بات کہتے وہ فون رکھ چکے تھے جبکہ وہاں کمرے میں کچھ پل کے لیے خاموشی چھا گئی تھی—
"اس لڑکے کا کیا نام تھا—کچھ پتہ چلا کہ کہاں گیا وہ"---
"کیان خانزادہ نام ہے اس کا—ہمیں جو خبر ملی تھی اس کے مطابق وہ بچہ اور اس کی ماں وہاں نہیں ہونی چاہیے تھی—لیکن ہمارے پہنچنے سے کچھ دیر پہلے ہی شاید وہ وہاں آئی تھی— وہ اکیلی آئی تھی بچہ ساتھ نہیں تھا—اور ہماری بھی کوشش تھی کہ اسے وہاں سے صحیح سلامت باہر نکالیں گے-- لیکن ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی اس کا شوہر اسے قتل کر چکا تھا—شاید وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہوگیا تھا—اسے ڈر ہوگا کہ کہی وہ ان کے راز ہمیں نا بتا دے"--- یمان شاہ نے جواب دیتے افسوس سے سر جھٹکا تھا—
"ایجنٹ نائن اب آپ جائیں—اور جو بھی ایپڈیٹ ہوگی—وہ ایجنٹ ذی کو فارورڈ کرتے رہیں گا"---
"جی سر"—وہ دونوں یک زبان کہتے اپنی جگہ سے اٹھتے باہر کی جانب بڑھے تھے—جبکہ ڈریگو اب ایجنٹ ون ذیرو تھری کی جانب متوجہ ہوا تھا—
"ان فائلز کو—اور باقی کے ثبوتوں کو محفوظ کرنے کے لیے جو چپ آپ بنا رہے ہیں—اس کام میں ذرا تیزی لائیں— کیونکہ اب ہمارے پاس وقت نہیں—ہمیں جلد از جلد ان چہروں کو بے نقاب کر کہ لوگوں کے سامنے لانا ہے"---- کمرے کی خاموش فضا میں بھاری گہری سوچ میں ڈوبی آواز گونجی تھی—
جس پر ایجنٹ ون ذیرو تھری نے سر اثبات میں ہلایا تھا—جبکہ وہ تینوں سنجیدہ نظروں سے اپنے سامنے پڑے کاغذات کو دیکھ رہے تھے—
کمرے کی خاموش فضا میں ان کے تیزی سے چلتے قلم اور کی بورڈ پر چلتی انگلیوں سے پیدا ہونے والے شور سے ارتعاش پیدا ہو رہا تھا—
"کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جنہیں دفن کرنے کے لیے انسان کو اپنے اندر شاید بہت سی قبریں کھودنی پڑتی ہیں—اور محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے علاؤہ ان رازوں کا بوجھ شاید کوئی اور نا اٹھا سکے"--- یہ آخری مدھم لہجے میں کہے گئے ڈریگو کے الفاظ تھے جو اس کمرے میں گونجے تھے پھر وہاں خاموشی چھاگئی تھی-- ڈھلتی رات کے ساتھ ان رازوں کو اپنے سینوں میں دفن کرنے میں جتے رہے تھے
_______________
"اہمم—ایجنٹ ذی میرا رستہ چھوڑیں گی مجھے باہر جانا ہے"--- ایجنٹ نائن کی آواز پر وہ جو دروازے کے بیچوں بیچ دونوں بازو کمر پر ٹکائے پشت کیے کھڑی تھی—ہونٹوں پر مچلتی ہنسی کو دبائے سنجیدہ تاثرات سجائے پلٹی تھی—
"ہمشہ رستہ چھوڑنے کی کی بات کرتے ہیں انسپکٹر صاحب—کچھ ساتھ چلنے کی بھی کر لیا کریں"—آنکھوں میں چمک لیے شوخ لہجے میں کہا تو ایجنٹ نائن نے بری طرح پہلو بدلا تھا—
"دیکھیں بہن—میرا بیٹا گھر انتظار کر رہا ہے—رات کا کھانا وہ میرے ساتھ ہی کھاتا ہے— مجھے دیر ہوئی تو وہ بھوکا سوجائے گا—مہربانی کر کہ میرا رستہ چھوڑیں"—نظریں ایجنٹ ذی کے پیچھے دروازے پر ٹکائے جتانے والے انداز میں کہا تو ایجنٹ ذی نے ہونٹ کا کنارہ دانتوں تلے دبائے خاموش نظروں سے ان کے چہرے کو دیکھا تھا—
ان کے چہرے پر جو چیز توجہ کا باعث بنتی تھی وہ تھیں ان کی ڈارک براؤن بڑی بڑی آنکھیں—ان کے چہرے کے سبھی نقوش میں وہی سب سے دلکش تھیں—ان کی سادگی اور ان آنکھوں پر ہی تو وہ دل ہاری تھیں—
"آپ کے بیٹے کی بھی آنکھیں آپ جیسی ہیں نا( کھوئے کھوئے لہجے میں سرگوشی نما آواز میں کہا تو اس بار ان کی سخت نظریں ایجنٹ ذی کے چہرے پر پڑیں تھیں تو وہ چونکی تھی پھر سنبھل کر سر جھٹکا تھا)—مجھے لے جائیں اپنے گھر اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا کر اسے سلایا کروں گی—انتظار میں کر کیا کروں گی آپ کا"—ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھاتے—خود میں ہمت مجتمع کرتے انہوں نے ایک ہی سانس میں جیسے اپنے دل کی بات ان کے سامنے رکھی تھی لیکن اپنی بات پر ایجنٹ نائن کے چہرے کے سرخ پڑتے تاثرات دیکھ انہیں حماقت کا احساس ہوا تھا—
"میری بیوی نے اپنا بچپن اور مجھ سے مل جانے تک اپنی زندگی سوتیلی ماں سے ماریں کھا کر گزاری تھی—جب وہ بیوی کے روپ میں میرے سامنے آئی تھی تب میں نے سوچا کہ کوئی اس قدر بھی معصوم ہو سکتا ہے اور کیا کوئی اس معصوم صورت کو دیکھ اس پر ظلم کرنے کا حوصلہ کر سکتا ہے بھلا—لیکن میری بیوی نے سہا تھا ظلم بنی کسی جرم کے بنا کسی گناہ کے—اس دن میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اسے دنیا جہاں کی خوشیاں دوں گا اس کی ساری تکلیفوں کا مداوا کروں گا—اسے کبھی وہ تکلیفوں سے بھرا ماضی یاد نا آنے دوں گا—لیکن( سخت لہجے میں کہتے ان کی زبان لڑکھڑائی تھی—ڈارک براؤن آنکھیں پل میں سرخ انگارا ہوئیں تھیں)—پھر ایک دن ہمیں پتہ چلا اسے کینسر ہے—اپنی بیماری کے ہر دن وہ مجھے اس بات کی اجازت دیتی تھی کہ میں اس کے بعد شادی کر لوں—اپنا گھر پھر سے بسا لوں—لیکن پتہ کیا( اب کے ان کے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ رینگی تھی)--- اپنی موت سے کچھ دیر پہلے جیسے وہ اپنے بیٹے کو سینے سے لگا کر بلک بلک کر روتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی نا کہ" میرے بیٹے کا خیال خود رکھیئے گا—کسی اور کے حوالے مت کیجئے گا"—تب مجھے احساس ہوا کہ میں صرف اسے آسائشیں اور پیار ہی دے پایا تھا—اس کے تکلیف زدہ ماضی کا ازالہ نہیں کر پایا تھا—مجھے اس کی آنکھیں نہیں بھولتی جو تڑپ تڑپ کر اپنے بیٹے کے ایک ایک نقوش کو چھو رہی تھیں— مجھے میری بیوی سے بہت محبت تھی اور بہت محبت ہے—اور اس کے بعد ہم باپ بیٹا ایک دوسرے کے لیے کافی ہیں—آپ سے گزارش ہے کہ مہربانی کر کہ دوبارا میرے رستے مت آئیں گا—میں اس ٹیم کو چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن اگر آپ کی یہی حرکتیں رہی تو میں فیصلہ لینے پر مجبور ہوجاؤ گا"--- سرد ٹھٹھرا دینے والے لہجے میں کہتے—انہیں کندھے سے تھام کر دائیں جانب کرتے دھاڑ کی آواز سے دروازا بند کرتے وہاں سے نکلتے چلے گئے تھے—
جبکہ وہ اپنی جگہ بت بنی وہی کھڑی رہ گئیں تھیں—وہ اپنی باتوں سے انہیں بہت کچھ باور کروا گئے تھے—وہ اگر انہیں مجبور کر کہ خود سے باندھ بھی لیتی تو وہ بتا گئے تھے کہ وہ اپنے بیٹے کے معاملے میں خود کے علاؤہ کسی پر یقین نہیں کریں گے اور اپنی بیوی کے علاؤہ کسی سے محبت بھی—ان کا لہجہ صرف سرد نہیں تھا وہ منت بھرا اور اس قدر ہتک آمیز تھا کہ وہ اب خود سے بھی نظریں نہیں ملا پا رہی تھیں—
-----------------
حال
گاڑی چلاتے ہوئے ہناش احمد کی ساری حسیات اپنے بائیں جانب بیٹھی آفت نما میڈم پر تھیں
کب کس بات پر بنا بھڑکے ہی وہ اسے تھپڑ رسید کر دے وہ نہیں جانتا تھا اس لیے اب وہ ذرا محتاط ہو کر بیٹھا تھا—نظریں سامنے کچی سڑک پر ٹکائے وہ کبھی چور نظروں سے کھڑکی سے باہر دیکھتی کسویٰ چوہدری کو بھی دیکھ لیتا تھا—
یہ شاید اس کی زندگی کا پہلا سفر تھا جو وہ اتنی خاموشی سے کر رہا تھا— لیکن نجانے کیوں یہ خاموشی بھی بھلی بھلی لگ رہی تھی
ابھی وہ اس بھلی بھلی لگتی خاموشی پر مسکرا بھی نہیں پایا تھا کہ وہ اس کی جانب پلٹی تھی— جس پر وہ تیز کی طرح سیدھے ہو کر بیٹھتے—سوالیے نظروں سے کسوی چوہدری کو دیکھنے لگا تھا—
"پنچائیت گاؤں میں ہی ہیں نا یا چاند پر شفٹ ہو گئی"--- دبے دبے لہجے میں وہ چلا کر گویا ہوئی تو ہناش احمد نے آنکھیں پھاڑے کسوی شاہ کے چہرے کو دیکھا تھا—
"کیا وہ پاگل تھی( اپنی سوچ پر اس نے خود پر ملامت کرتے سر کو نفی میں ہلایا تھا) شاید گجنی کی طرح یادداشت کا مسئلہ ہو—خود ہی تو کہا تھا کہ آہستہ چلاؤں گاڑی—اور پورے گاؤں کا چکر لگا کر پنچائیت جاؤں کیونکہ گاؤں دیکھنا تو ایک ساتھ دو کام ہو جائیں گے"--- یہ بات وہ صرف دل میں ہی دہرا سکا تھا ہونٹوں پر لا کر تھپڑ کھانے کا حوصلہ ہناش احمد میں شاید اب نہیں تھا—
ابھی وہ اپنی ہی سوچو میں گم تھا کہ اپنے چہرے پر پڑنے والے زوردار تھپڑ پر وہ ہوش میں آیا تھا—گاڑی کو دیک دم بریک لگی تھی—بائیں گال پر ہاتھ رکھتے اس نے بے یقینی سے کسوی چوہدری کو دیکھا تھا جو سرخ چہرہ لیے غصے سے ہناش احمد کو گھور رہی تھی
"سن لیا کیا"—ہونٹوں نے ہلکی سی جنبش کی تھی—
"تمہاری اتنی ہمت کہ تم مجھے—کسوی چوہدری کو گھور گھور کر دیکھو—دوبارا ایسے دیکھا تو یہ ٹچ بٹن جیسی آنکھیں نکال کر ہاتھ میں رکھ دوں گی"--- انگلی اٹھائے وارن کرنے والے انداز میں کہتی دونوں بازو سینے پر باندھتے—سیٹ سے پشت ٹکا کر بیٹھی کر آنکھیں موند گئیں
جبکہ وہ ناسمجھی سے کسوی چوہدری کو دیکھتے—اپنا گال سہلاتے—منہ پھلا کر رخ سیدھا کرتے گاڑی سٹارٹ کر گیا تھا—
"گجنی نہیں—منجولیکا ہے"—دانت پیس کر کسوی شاہ کو گھور کر دیکھتے گاڑی آگے بڑھائی تھی
_____________--
"السلام و علیکم"--- نسوانی آواز پر پنچائیت میں بیٹھے لوگ آواز کی جانب متوجہ ہوئے تھے جہاں وہ
پیچ رنگ کی پاؤں کو چھوتی فراک میں ملبوس— گلے میں دوپٹہ لپیٹے اور کندھوں پر براؤن کلر کی شال پھیلائے—ہونٹوں پر نرم مسکراہٹ اور سیاہ بڑی بڑی آنکھوں میں چمک لیے گردن اکڑائے کھڑی تھی—
جبکہ ہناش احمد منہ پھلائے—مؤدب سے انداز میں ہاتھ باندھے اس کے دائیں جانب تھوڑے سے فاصلے پر کھڑا تھا—
ایک انجان چہرے کو دیکھتے وہاں بیٹھیں لوگوں میں سرگوشیاں ہونا شروع ہوئی تھیں
"یقیناً آپ لوگوں نے مجھے پہچانا نہیں ہوگا—کیونکہ آپ لوگ صرف میرے دادا اور دادی کی آمد سے باخبر تھے میری نہیں—اپنا تعارف میں خود کروادیتی ہوں"—ہونٹوں پر پراسرار سی مسکراہٹ سجائے ایک ایک قدم درخت کے نیچے لگی پانچ کرسیوں پر بیٹھے نفوس کی جانب قدم بڑھاتے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہتی وہ وہاں ارگرد کھڑے لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ چکی تھی
جبکہ سامنے پانچ کرسیوں کے بیچ بیٹھے سردار عاصم چوہدری کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق اتری تھی—چہرے کی رنگت لمحے کے لیے بدلی تھی—
"میں کسویٰ چوہدری ہوں—متعصم چوہدری کی دوسری بیٹی—کسویٰ متعصم چوہدری—اور اب سے اس پنچائیت کی ہونے والی نئی سردار"--- ٹھہرے مگر سرد لہجے میں کہتے اس نے اطراف میں نظریں گھمائیں تھیں
جبکہ اس کی بات پر عاصم چوہدری اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھے جسے دیکھتے—ہناش احمد نا محسوس انداز میں چند قدم آگے آتے کسوی کے قریب کھڑا ہوا تھا—
" تو متعصم چوہدری کا سارا خاندان لوٹ ہی آیا پاکستان—پہلے بیٹا—اب ماں باپ اور بیٹی—چلو اچھا ہے—اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے کہاں ساری عمر باہر کے دھکے کھائے جاتے ہیں--- لیکن جو تم نے آخری بات کی نا لڑکی وہ ذرا قابل اعتراض ہے—گاؤں کا سردار تمہارے سامنے کھڑا ہے— میرے ہوتے کوئی اور سردار نہیں بن سکتا ایک لڑکی تو بالکل نہیں"—طنزیہ لہجے میں کہتے ان کا لہجہ حتک آمیز ہوا تھا جس پر پیچھے کھڑے ہناش احمد نے اپنی گہری آنکھوں کو اٹھاتے خونخوار نظروں سے عاصم چوہدری کو گھورا تھآ جبکہ کسوی نے ستائشی انداز میں کندھے اچکائے تھے—
" ہم لوٹ آنے کے لیے ہی گئے تھے بابا جی—اور رہی بات اپنے ملک کی—یہ ملک بھی ہمارا اپنا ہے اور یہ گاؤں بھی—دونوں کسی کے باپ کی جاگیر نہیں جو ہمیں روک سکے—اگر ہیں تو ثابت کرے—لیکن ثبوت کے ساتھ وہ کیا ہے نا متعصم چوہدری کی بیٹی ہوں—حق اور سچ کو ہی مانتی ہوں—اور ثبوت بھی مانگتی ہوں—اور جو لوگ اپنے ہی ملک میں دھکے مکے کھاتے رہیں ہو انہیں شیوا نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کو باتیں کریں"--- عاصم چوہدری کے چہرے کا رنگ تو سرخ پڑ رہا تھا جبکہ اس کی اتنی دیدہ دلیری دیکھ ہناش احمد نے بھی چونک کر اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا—
وہ بول رہی تھی اور عاصم چوہدری کی آنکھوں کے سامنے ماضی کے وہ لمحے لہرائے تھے جب جب متعصم چوہدری اس کے مقابل آیا تھا—
"آخری بات آپ کے لیے چاہے جتنی بھی قابلِ اعتراض کیوں نا ہے لیکن آپ کو قبول تو کرنی پڑے گی-- کیونکہ اصولوں اور رواجوں کے مطابق گاؤں کا سردار اور پنچائیت کا سر پنچ اگر کوئی بن سکتا ہے تو وہ ہے متعصم چوہدری کی اولاد اور وہ میں ہوں—تو آپ یا کوئی اور مجھ سے میرا حق نہیں چھین سکتا"—کندھے اچکائے سنجیدہ لہجے میں کہتی وہ عاصم چوہدری کے چہرے کے بگڑتے تاثرات کو سرے سے اگنور کرتی ان کے دائیں جانب سے نکلتی پیچھے جا کر ان کی چھوڑی جگہ سنبھال چکی تھی
جسے دیکھتے اطراف میں بیٹھے لوگ اپنی نشستوں سے اٹھے تھے—
"یہ کیا گستاخی ہے—یہ سردار کی جگہ"—
"سردار کی جگہ پر سردار ہی ہے"--- سامنے کھڑے شخص کے غصے بھرے لہجے میں دوبدو جواب دیتی وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھتی پرسکون انداز میں بیٹھ گئی تھی—
"یہ بات درست ہے کہ سردار متعصم چوہدری کی نسل سے ہی بن سکتا—لیکن سردار صرف لڑکا بن سکتا—لڑکی نہیں—بلاؤ اپنے بھائی کو اور کہو اسے کے سردار بنے—سنبھالے گاؤں کے معاملات—ہمیں کوئی اعتراض نہیں"—عاصم چوہدری غصے سے پلٹتے—دبے دبے لہجے میں دھاڑا تو کسوی چوہدری نے آبرو آچکا کر اسے دیکھا تھا—
"تم—ادھر آؤ(عاصم چوہدری کو نظر انداز کرتے ان کے پیچھے کھڑے ہناش احمد کو دیکھتے مخاطب کرتے انگلی کے اشارے سے اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا)"
"مجھے پیاس لگی ہے ٹھنڈا پانی لاؤ"--- وہ جو اس کے قریب آکر کھڑا ہوا تھا اس شان بے نیازی میں دیے گئے آڈر پر اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا تھا
ایک نظر کسوی کو دیکھتے—گردن ترچھی کرتے—ہجوم کی صورت میں کھڑے لوگوں کو دیکھا تھا—
وہ کیسے اسے وہاں اکیلے چھوڑ کر چلا جاتا— جبکہ وہ آڈر دے کر اب عاصم چوہدری کی جانب تھی—
"مت بھولئے عاصم صاحب کہ میں کس کی بیٹی ہوں—میرے ساتھ کھیل کھیلنے کی کوشش بھی مت کیجئے گا—سٹوڈنٹ میں چاہے لاء کی ہوں—لیکن لوگوں کے سوفٹویئر ایپڈیٹ کرنا مجھے بہت اچھے سے آتا ہے—میں ماضی دہرانا نہیں چاہتی ورنہ بتاتی کہ ایک لڑکی کا سردار اور پنچائیت کا سر پنچ ہونا اس مرد سے کافی بہتر ہو جو سالوں پہلے اس پنچائیت میں اپنی حرکتوں کی وجہ دوسروں کو ذلیل کرنے کی کوشش میں خود ذلیل ہوا ہو—اور نا ہی اس بات کو جسے میرے باپ نے پردے میں رکھا ہو"--- سرد سپاٹ لہجے میں کہتی وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی—
جبکہ عاصم چوہدری مٹھیاں بھنچے غصے سے نتھنے پھلائے گھور کر اسے دیکھ رہا تھا
"جب لڑکیاں گھر داری چلا سکتی ہیں—بچے پیدا کر سکتی ہیں—ان کی پرورش کر سکتی ہیں—تن تہناگھر کی صفائی سے لے کر کھانا پکانے تک—کپڑے دھونے سے لے کر استری کرنے تک—بچوں کو سکول بھیجنے سے رات سلانے تک—آپ مردوں کے کپڑوں سے لے کر جوتوں کی پالش تک کر سکتی ہیں—دن بھر تھکی ہاری ہونی کے باوجود رات آپ کے گھر آنے پر اپنی تھکن کی پرواہ کیے بغیر خدمت میں جت سکتی ہیں—جب ماہانہ خرچ کو سوچ سمجھ کر خرچ کرتے پورا مہینہ چلا سکتی ہے وہ کیا بس ایک پنچائیت میں فیصلہ نہیں کر سکتی—مانا کہ یہ سب کرنے کے باوجود بھی عورت مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی—کیونکہ یہ بات بھی سچ ہے کہ مرد کا رتبہ عورت سے زیادہ ہے—اور میں یہاں مقابلے کی بات کر بھی نہیں رہی—میں بات حق کی کر رہی ہوں—یہ جگہ میرا حق—میرے بھائی کو اس کا حق نہیں چاہئیے—لیکن مجھے چاہئے—یہ جگہ میرے بابا دادا کی تھی—میں اسے کسی اور کو نہیں دے سکتی—یا تو پھر گاؤں سے پنچائیت کا نظام ختم کیا جائے یا تو یہ جس کا حق ہے اسے دیا جائے—بات ختم"----
"میری بیوی جو بھی کہے گی سچ کہے گی—مگر قرآن پاک پر ہاتھ نہیں رکھے گی—
مُعتَصِم چوہدری اپنے رب کی نازل کہ گئی کتاب کی دل و جان سے عزت کرتا ہے—
وہ کتاب رب نے ہماری رہنمائی کے لیے اتاری ہے—
اس میں میرے رب نے ہم جیسے لوگوں کے لیے پیغام بھیجا ہے تا کہ ہم نصیحت پکڑے—اس کے بتائے رستے پر چلے—
نا کہ یہاں اپنے کردار کی صفائیاں پیش کرنے کے لیے اسے استعمال کریں—
جس نے سچ بولنا ہوتا ہے وہ اپنی گردن پر دشمن کی تلوار کو دیکھ کر بھی بول دے گا—
اور جس نے جھوٹ بولنا ہوتا ہے وہ اپنے ضمیر کو مار کر اس پاک کتاب پر ہاتھ رکھ کر بھی بول دیتا ہے—
اور میرا ایمان اور کردار اتنا مضبوط ضرور ہے کہ میں اپنے رب پر یقین رکھ کر سچ بول کر حالات کا سامنا کروں—
کیونکہ میری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے—
اور مُعتَصِم چوہدری جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں"—اسی جگہ پنچائیت میں اسے سخت باور کرواتے لہجے میں کہے گئے متعصم چوہدری کے الفاظ عاصم چوہدری کے کانوں میں گونجے تھے
"وہ کمبخت بھی ایسے ہی لفظوں کے جال بچھاتا تھا"--- وہ چپ ہوئی تو عاصم چوہدری نے جبڑے بھنچتے—بڑبڑا کر کہا تو کسوی چوہدری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی تھی
"اور اب یہ کسوی چوہدری کو وراثت میں مل گیا ہے"--- عاصم چوہدری کے قریب ہوتے سرگوشی نما لہجے میں کہتی وہ ہونٹوں پر دل جلا دینے والی مسکراہٹ سجائے پیچھے ہوئی تھی—
"دیکھو لڑکی بات تمہاری بھی صحیح ہے—تمہارا حق ہے—لیکن اس سے پہلے تمہیں ثابت کرنا ہوگا کہ تم اس قابل ہو یا نہیں—ہم تمہیں ایک مہینے کا وقت دیتے ہیں—تم پنچائیت میں بیٹھوں گی—لوگوں کے معاملات دیکھو گی سمجھو گی—گاؤں میں لوگوں کے مسائل کو دیکھو گی-- پھر ہم فیصلہ کریں گے— ہم کیا فیصلہ گاؤں والوں کا ہوگا—اگر تم انہیں سردار کے حق میں قبول ہوئی تو وہ اپنے رائے دے دیں گے—اور اگر عاصم چوہدری کے حق میں ووٹ گئے تو سردار وہی رہیں گے— فیصلہ جو بھی ہو پنچائیت کا نظام یونہی چلتا رہے گا—کیونکہ یہی نظام گاؤں کے حالات کو بہتر بنائے ہوئے ہیں—اگر یہ نظام نا رہا تو لوگ باغی ہو جائے گے—گاؤں والے اپنے مسائل لے کر کہا جائیں گے"--- وہاں موجود عاصم چوہدری کے قریب کھڑے ان کے ساتھی نے پرسوچ لہجے میں بات کہی تو کسوی چوہدری نے سمجھنے کے انداز میں سر اثبات میں ہلایا تھا
ایک نظر عاصم چوہدری کے چہرے پر ڈالتے وہ جس شاہانہ انداز میں وہاں آئی تھی اسی انداز میں اپنی گاڑی کی جانب بڑھی تھی—
ہناش احمد گاڑی میں آکر بیٹھا تو وہ دائیں ہاتھ کو بائیں کی ہتھیلی پر رکھتی اپنے نیلز کا جائزہ لے رہی تھی—مخروطی لمبی انگلیوں پر بلیک نیل پینٹ سے رنگے نیلز کافی بھلے لگ رہے تھے—پھر اسی انداز میں اس نے بائیں ہاتھ کے نیلز کو دیکھا تھا—
اسے دیکھتے ہناش کو یاد آیا کے کسوی نے اسے پانی لانے کا کہا تھا لیکن وہ نہیں گیا تھا
پانی کا پوچھنے کے ارادے سے ہناش نے اس کی جانب چہرہ کیا تو وہ سر سیٹ کی پشت سے ٹکائے چہرہ دوسری جانب کیے—شاید آنکھیں موند چکی تھی—
ہناش احمد کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا—وہ جب کرسی پر جا کر بیٹھی تھی تو اس کے سامنے عاصم چوہدری کھڑا تھا—ہناش کہی پیچھے ہی چھپ گیا تھا—وہ اشارہ پانی لانے کے لیے نہیں—اسے اپنے پاس بلانے کے لیے کیا گیا تھا—یہ بات سوچتے اس کے چہرے پر حیرت اور پھر نرم مسکراہٹ بکھری تھی
"منجولیکا ڈرتی بھی ہے"—سرگوشی نما لہجے میں کہتے اس نے گاڑی آگے بڑھائی تھی لیکن اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پر ساکت ہوئے تھے—
"منجولیکا سننے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے—دوبارا اس واہیات نام سے پکارا تو منہ نوچ لوں گی تمہارا"--- سپاٹ لہجے میں کہتی وہ ایک دم سے چلائی تو ہناش احمد کو اپنے جسم سے روح نکلتی محسوس ہوئی تھی—اپنی جگہ سے اچھلتے وہ کھڑکی سے لگا تھا— وہ اسے خونخوار نظروں سے گھورتی دوبارا سر سیٹ کی پشت سے ٹکاتی آنکھیں موند چکی تھی—
جبکہ ہناش احمد کو اپنا دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا—
سینے پر ہاتھ رکھے—خشک پڑتے ہونٹوں کو تر کرتے—اس بیچارے نے دل ہی دل میں تھپڑ سے بچ جانے پر شکر ادا کیا تھا
______________

18/08/2023

𝑫𝒐𝒏’𝒕 𝒄𝒐𝒑𝒚 𝒑𝒂𝒔𝒕𝒆 𝒘𝒊𝒕𝒉𝒐𝒖𝒕 𝒎𝒚 𝒏𝒂𝒎𝒆 𝒂𝒏𝒅 𝒑𝒆𝒓𝒎𝒊𝒔𝒔𝒊𝒐𝒏...
کسی بھی گروپ یا یوٹیوب چینل کو ناول پوسٹ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے
ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ کہ اب غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
اور سر پر ہے ساہوکار کھڑا
یہاں بوند نہیں ہے ڈیوے میں
وہ باج بیاج کی بات کرے
ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
وہ ڈھورا اناج کی بات کرے
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کریں
جب دھرتی صحرا صحرا تھی
ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں
اور سُر سنگیت میں سوئے تھے
تب ہم نے جیون کھیتی میں
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے
____________________________
صبح کے دس بج رہے تھے—نیلے آسمان پر سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا—جسم جھلسا دینے والی دھوپ میں وہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر کھدر کا کپڑا بچھائے—پھٹے پرانے کپڑے پہنے—ٹانگیں سمیٹے بیٹھا ہوا تھا—
دھوپ کی تپش سے دھندلاتی ڈارک براؤن آنکھیں نامحسوس انداز میں اطراف کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں—نظریں دائیں جانب سے سرکتی سامنے کی جانب اٹھی تو لمحے کے لیے ان میں کئی تاثرات ابھرے تھے—
سگنل ریڈ ہونے پر وہ بائیک اس کے سامنے رکی تھی— جس پر بیٹھا شخص اپنے تین سے چار سال کے بچے کو اپنے آگے بٹھائے ہوئے تھا—بائیک رکنے پر دھوپ بچے کے چہرے پر پڑی تو اس شخص نے اپنا دایاں ہاتھ بچے کے چہرے کے آگے پھیلاتے اسے دھوپ سے بچانے کی کوشش کی تھی—
دیکھنے میں وہ عام سا منظر تھا مگر عام سا تھا تو نہیں—سلطان کے لیے تو نہیں
آنکھوں میں درد—حسرت—تکلیف نجانے کتنے تاثرات ابھرے تھے—آنکھوں میں کرچیاں سی چبھتی محسوس ہوئی تو اس نے گہری سانس بھرتے خود پر قابو پاتے نظریں گھمائی تھیں—
مگر دل نے بری طرح بے چین ہوتے سینے میں پہلو بدلا تھا—گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی تو سلطان نے سر اٹھائے—ڈارک براؤن آنکھوں کو نیلے آسمان پر ٹکایا تھا—
نجانے کتنی حسرتیں—کتنے شکوے سختی سے بھنچے ہونٹوں میں دب گئے تھے—جبکہ آنکھیں نا چاہتے ہوئے بھی نم ہوئیں تو کئی سال پہلے کے مناظر یاداشت کے پردے پر لہرائے تھے—
بابا آپ نا جائیں نا—میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گا"--- کمرے میں اس کی رونے کے باعث بھاری ہوئی آواز گونجی تو الماری کو اپنی جگہ سے سرکاتے— مقصود صاحب کے ہاتھ تھمے تھے—
پولیس کی وردی پہنے جو جا بجا خون سے رنگی ہوئی تھی—بکھرے بال اور آنکھوں میں سرخی لیے سختی سے ہونٹ بھنچے انہوں نے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا
اور پھر گہری سانس بھرتے الماری کو ایک نظر دیکھتے وہ سلطان کی جانب آئیں تھے—
"دیکھو میرے بہادر بیٹے—تمہارے بابا کا جانا ضروری ہے—بہت زیادہ ضروری—ہمیں اپنے ملک کو بچانا ہے اس سے پہلے دیر ہو جائے—تم اپنا خیال رکھنا—اور مجھ سے وعدہ کرو سلطان—اگر میں واپس نا آسکا تو تم مجھ تک پہنچو گے—ڈریگو ٹیم کا حصہ بنو گے—جو سچ ہم سامنے لانے والے ہیں اگر اس میں ہم ناکام ہو جائیں تو تم اسے سامنے لاؤ گے—اپنے علاؤہ کسی پر یقین نہیں کرو گے—وردی پہنے کسی بھی شخص کا نہیں--- میں جا رہا ہوں— اگر میں نا آسکا تو تمہیں آنا ہوگا مجھے بچانے اس ملک کو بچانے--- ہمیں اس سیاہ دنیا کو ختم کرنا ہے اس سے پہلے اس سیاہ دنیا کہ سیاہی ہمارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے"--- وہ اسے کندھوں سے تھامے جھنجھوڑ رہے تھے—اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے تھے—اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا—اسے بس
مقصود صاحب کا سرخ پڑتا چہرہ اور کپکپاتے ہاتھوں کی لرزش اپنے کندھوں پر محسوس ہو رہی تھی— جبکہ وہ اپنی جگہ ساکت ہوتے خاموش نم آنکھوں سے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا—جو پیچھے ہوتے کچھ بڑبڑائے جا رہے تھے
الماری کو پیچھے کرتے وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے تھے—پاس رکھے بیگ سے باریک سا آلہ نکالتے زمین پر پھیرا تو وہ جگہ اوپر کو ابھری تھی جس پر انہوں نے سرعت سے اسے ہٹایا تو ایک چھوٹا سا پیکٹ نظر آیا جسے انہوں نے جلدی سے تھامتے—کسی خزانے کی مانند اپنے سینے سے لگایا تھا—سلطان کو ان کے چہرے پر بکھرتی خوشی دیکھ کر حیرت ہوئی تھی وہ ایک چھوٹا سا پیکٹ کیا اتنا خاص تھا—تعجب سے اس نے خاموشی سے بیڈ پر بیٹھتے اپنے باپ کو دیکھا تھا—جو اب اس کاغذ کو زمین پر الٹا رہا تھا تو اس میں سے ایک دو چھوٹے سے کاغذ اور یو ایس بی کے علاؤہ کچھ نا تھا جسے دیکھ ان کے چہرے پر سکون بکھر گیا تھا-- —جبکہ سلطان کے لیے یہ بات بہت عجیب تھی اسے مقصود صاحب کے چہرے پر بکھری بے انتہا خوشی اور آنسوؤں سے تر چہرے کو دیکھتے ان کی ذہنی حالت پر شعبہ ہوا تھا—
بیڈ سے اترتے وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتا ان کے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا—
"بابا زین کہہ رہا تھا کہ آپ غدار ہیں—آپ نے دھوکہ دیا ہے ملک کو—آپ دشمن کے ساتھ مل گئے ہیں"—وہ اتنی کم آواز میں بولا تھا کہ اسے لگا تھا کہ وہ اس کی بات نہیں سن سکے ہوگے لیکن سلطان کی بات پر مقصود صاحب کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ رینگی تھی—پیکٹ کو بند کرتے انہوں نے اپنی وردی کے بٹن کھولتے اندر پہنی ایک شرٹ میں اڑسا تھا
اور پھر دونوں ہاتھ بڑھاتے انہوں نے دس سالہ سلطان کو اٹھاتے اپنی گود میں بٹھایا تھا—دونوں ٹانگیں زمین پر پھیلاتے پشت دیوار سے ٹکائی تھی—
"تم بچے ہو—لیکن سمجھدار ہو—اور شاید میں تمہیں بعد میں یہ باتیں نا سمجھا سکوں اور کوئی شاید تمہیں نا بتائے—اسی لیے میں تمہیں بتا رہا ہوں—مجھے دھیان سے سنو سلطان—یہ جو کرسیاں سنبھالے ہوئے حکومت کر رہے ہیں نا یہ سب ہمیں نوچ رہے ہیں—بیچ رہے ہیں—ان کے ہوتے تم ملک سے وفا نبھاؤ گے تو غدار قرار دے دیے جاؤ گے—یہ جو وردی پہنے ہوئے ہیں سب ایک سے نہیں ہیں—وہ ہمیں بیچ رہے ہیں اس زمین کو بیچ رہے ہیں—ان پر یقین نا کرنا—سب بہروپئیں ہیں—ان کو پہچاننا ہیں اور ان کو ان کے انجام تک پہچانا ہے—اس سے پہلے دیر ہو جائے—یہ جال بچھائیں گے سیراب دیکھائیں گے گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے—لیکن ہمیں یقین رکھنا ہے خود پر اور ہم سب کے ایک ہونے پر—یہ ملک ہمارا ہے—ہم نے جانیں اور عزتیں قربان کر کہ اسے حاصل کیا ہے—یہ ہمیں ایک دوسرے کے مقابل لائیں گے تو یاد رکھنا ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونا ہے نا کہ مقابل — پہلے ہم نے غیروں سے دشمنوں سے ملک آزاد کروایا تھا اور اب اپنوں سے کروانا ہے جو ضمیر بیچ چکے ہیں—جن کے دلوں سے ایمان اور خدا کا خوف ختم ہو گیا ہے جو حکمرانوں اور محافظوں کے روپ میں بھیڑیئے بیٹھیں ہیں--- میں جا رہا ہوں لوٹ نا سکا تو یاد رکھنا تمہارا باپ جہاں بھی ہوگا تمہارا انتظار کریں گا—تم آنا سلطان—مجھے تمہارا انتظار رہے گا"--- سلطان کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھامے وہ ایک ایک لفظ ٹھہر کر بول رہے تھے—اپنی بات مکمل ہونے پر وہ اسے کھڑا کرتے خود بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے—
سیاہ چھوٹے سے بیگ میں سامان رکھتے—انہوں میں پلٹ کر سلطان کو دیکھا تھا—
"اگر ہم نا رہیں—تو ایک دن آئیں گا وہ سب جان جائیں گا—اگر وہ نا جان سکا تو تم اس کے پاس جانا—اور اسے کہنا—دیواروں کے کان ہوتے ہیں—قبریں راز دفن کیے ہوئے ہیں—درخت کے سائے تلے جہنم دہک رہی ہے—اسے بتانا—اگر وہ بچ گیا پھر تم تینوں آنا—ایک دوسرے کے ساتھ—کندھے سے کندھا ملائے—کسی پر یقین نا کرنا—وہ دیکھنا جو تمہاری آنکھیں دکھائے اور وہ سننا جو تمہارے کان سنے—نا کہ لوگ تمہیں دیکھائے اور سنائے"--- وہ ان سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اسے سمجھ نہیں آرہی وہ نہیں سمجھ پارہا ان الجھی ہوئی باتوں کو—وہ انہیں کہنا چاہ رہا تھا کہ رک جائیں لیکن نہیں کہہ پارہا تھا—وہ انہیں کہنا چاہتا تھا کہ ان کے علاؤہ اس کے پاس ہے ہی کون—وہ اس کا واحد رشتہ ہے— وہ انہیں نہیں کھو سکتا—لیکن اس کی زبان گنگ تھی—سرخ و سفید چہرے پر آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے
دروازا بند ہونے سے پہلے آخری آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی—
"میرا آدمی آئیں گا—اور تمہیں بورڈنگ چھوڑ آئیں گا—تم وہی رہںا—وہاں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی—کبھی نا سوچنا باپ بے آسرا چھوڑ گیا—تمہیں محفوظ کر کہ جا رہا ہوں—وہ تم پر ہمیشہ نظر رکھیں گے—تمہیں مدد کی ضرورت پڑی تو وہ آئیں گے اور جب انہیں تمہاری ہوگی تب بھی — تو یاد رکھنا سلطان—تمہیں آنا ہے سلطان—ہمیں تمہارا انتظار رہے گا—دیر نا کرنا بیٹا"---- دروازا بند ہو گیا تھا—پیچھے بند کمرے میں وہ زمین پر بیٹھا ٹانگیں سمیٹے بند دروازے کو تک رہا تھا—مقصود صاحب کے الفاظ بار بار کانوں میں گونج رہے تھے
اور پھر کوئی آیا تھا اسے چھوڑ گیا تھا بورڈنگ— پھر وہ اپنی کالج کی پڑھائی تک وہی رہا تھا—اور ہر رات کو وہ اپنی ڈائری میں مقصود صاحب کے کہے الفاظوں کو دہراتا رہتا تھا—نجانے کتنی ڈائریاں ان الفاظوں سے بھری جا چکی تھی اور نجانے انہیں لکھتے ہوئی کتنی وحشت اور بے بسی تھی جو سلطان کے دل میں اتری تھی اور پھر وہی ڈیرے جمائے ہمیشہ کے لیے سما گئی—
"میں آؤں گا بابا—سلطان دیر نہیں کرے گا—وہ آئیں گا"--- سڑک کا منظر بدل چکا تھا— کئی گاڑیاں معمول کے مطابق آ جا رہی تھیں
کہ تبھی کوئی اس کے قریب آکر بیٹھا تو سلطان نے کوفت سے نظریں گھمائیں تو وہ ٹھٹھکا تھا
پنتالیس یا پچاس سال کے لگ بھگ کی عورت اس کے قریب سطان کے بچھائے گئے کپڑے پر اسی کے انداز میں بیٹھی تھی
جبکہ اس کی نظریں سامنے سڑک پر ٹکی ہوئی تھیں—سلطان کے دیکھنے پر اس نے نظریں ترچھی کرتے سلطان کی جانب دیکھا تو سلطان کو اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک محسوس ہوئی تھی—
جسے دیکھتے اس عورت نے سر پر لیے پھٹے پرانے دوپٹے کو ٹھیک کرتے ایک سائیڈ سے تھامتے چہرے کو ڈھانپتے—ڈوپٹے کا کونا ہونٹوں میں دبایا تھا—
"اتنی دیر کون کرتا ہے چھوڑے—اگر ہم یہ راز لیے ہی دفن ہو جاتے—تو پھر نجانے کتنی خاک چھاننی پڑتی تجھے-- مارا کتنے دنوں سے پیغام بھیج رے تجھ کو—لیکن تجھ کو کج سمجھ ہی نا آوے—چل اب آگیا ہے تو جلدی سے مارے پیچھے آ"--- آنکھیں سلطان کے چہرے پر ٹکائے اپنی بات مکمل کرتے—اس نے زمیں پر رکھی اپنی پوٹلی اٹھائی تھی--اپنی جگہ سے اٹھتے وہ آگے بڑھی تھی— جسے دیکھتے—وہ بھی سرعت سے اٹھتا زمین پر بچھا کپڑا سمیٹنے لگا تھا—دائیں بازو میں کپڑے کو اکٹھا کر کہ دبوچتے—جبکہ بائیں ہاتھ میں سکوں سے بھرا کٹورا تھامتے—اس عورت کی جانب بڑھا تھا-۔
"میرے بابا کہاں ہیں—میں جانتا ہوں وہ زندہ ہیں—ڈریگو ٹیم کے چالیس لوگوں میں سے صرف بتیس لوگوں کی لاشیں ملی تھیں اور میرے بابا ان میں سے نہیں تھے— کوئی کہہ بھی دیتا کہ ان کی لاش ملی ہے تب بھی میں یقین نہیں کرتا—کیونکہ میں جانتا ہوں—وہ کہی گئے تھے—کسی مشن پر—ڈریگو سر جانتے تھے کہ وہ کہاں ہیں—جب وہ مجھ سے آخری بار ملے تھے تب"---- سڑک سے گزرتے تنگ ویران گلیوں میں گزرتے وہ اس سے ایک قدم پیچھے چلتے دھیمے مگر بے چین لہجے میں گویا ہوا تو آگے چلتی عورت بے ساختہ رکی تھی—
"کیا تم نے انہیں بتایا تھا جو تمہیں کہا گیا تھا"--- عورت کی بات اور سرد لہجے پر اس نے نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا—
تنگ گلی کے بیچوں بیچ وہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے—
وہ دو تم تک پہنچ گئے ہیں نا—تم نہیں گئے لیکن قسمت انہیں تم تک کھینچ لائی ہے تو جو الفاظ تمہارے پاس امانت تھے وہ ان کے حقداروں تک تمہیں پہنچا دینے چاہئیں"—یہ بات کرتے اس عورت نے چونک کے دائیں بائیں نا محسوس انداز میں دیکھا تھا جس پر سلطان بھی محتاط ہوا تھا—گردن ترچھی کر کہ دائیں جانب دیکھا تو وہاں کوئئ نا تھا—جبکہ بائیں جانب دیکھنے پر وہ چونکا تھا بظاہر تو وہاں کوئی نا تھا لیکن ایسا محسوس ہوا تھا جیسے کوئی نظر رکھے ہوئے ہیں ابھی وہ ادھر ہی دیکھ رہا جب وہ عورت آگے بڑھتی اس کے سینے سے لگی تھی—
جس پر وہ بری طرح ہڑبڑایا تھا لیکن اگلے ہی لمحے وہ ٹھٹھکا تھا---
نظریں بائیں جانب رکھو لڑکے(سخت لہجے پر سلطان نے نظریں بائیں جانب کی تھی—جبکہ ہاتھ پہلوں میں لٹکے ہوئے تھے)—جب ان سے ملو تو کہنا—ایجنٹ ذی نے اپنا حق اور فرض ادا کیا( یہ کہتے اس نے دائیں جانب اپنا ہاتھ نا محسوس انداز سے سلطان کے کرتے کے اندر کرتے اس کے سینے پر لگایا تھا ہلکی سی چبھن محسوس کرتے سلطان چونکا تھا مگر نظریں بائیں جانب ہی مرکوز رکھی تھیں)—تنہارے سبھی سوالوں کے جواب اس میں ہے-- میرے پیچھے ہٹتے تم یہاں سے اپنے بائیں جانب جاؤ گے اور میں دائیں جانب"--- سرگوشی نما آواز پر سلطان نے سر اثبات میں ہلایا تھا—اور عورت کے پیچھے ہٹتے بنا اس کی جانب دیکھے وہ بائیں جانب بڑھا تھا—
جبکہ اس عورت نے دوپٹے کا پلو دانتوں میں دبائیں—خاموش نظروں سے اگے بڑھتے سلطان کو دیکھا تھا—ہونٹوں پر مدھم سی زخمی مسکراہٹ رینگی تھی—جھریوں زندہ آنکھوں کے گوشے ہلکے نم ہوئے تھے—
"تم بھی یونہی آگے بڑھ گئے تھے—تم نے بھی پلٹ کر نا دیکھا تھا—اور میں جیتے جی مر گئی تھی اور آج تمہارے بیٹے نے بھی پلٹ کر نا دیکھا—میں آج بھی مر گئی"----
سر جھٹکتے وہ تیزی سے دائیں جانب بڑھی تھی—
گلی سے نکلتے وہ ابھی تھوڑا ہی آگے آیا تھا کہ اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا—آگے بڑھتے اس کے قدم تھمے تھے—ایڑیوں کے بل پیچھے پلٹتے اس نے ہونٹ کا کنارہ دانتوں تلے دبایا تھا—
کوئی تھا جو ان پر نظر رکھے ہوئے تھا—تو پھر کیوں انہوں نے اس بات کو اتنی آسانی سے نظر انداز کیا—اس بات پر سلطان کا ماتھا ٹھٹھکا تھا---
جو کوئی بھی نظر رکھے ہوئے تھا وہ جانتا تھا کہ ہمیں احساس ہو گیا ہے اسی لیے شاید اس نے رستہ بدلا ہو—مطلب انہوں نے جان کر مجھے بائیں جانب بھیجا وہ جانتی تھی کہ وہ اب اس طرف نہیں ہوگے"--- یہ بات سوچتے سلطان کی آنکھیں حیرت سے کھلی تھیں— کپڑے اور کٹورے کو پھینکتے وہ بھاگنے کے انداز میں اس جانب بھاگا تھا
گلی میں داخل ہوتے—اس کا دل جیسے سینے کی دیور توڑ کر جیسے باہر آنے کو تھا—
بائیں جانب دیکھا تو گھر کے باہر بچے تھے تو وہ بنا وقت ضائع کیے دائیں جانب بڑھا تھا—
آگے جاتے اس کے قدم جیسے زمین نے جکڑے تھے
وہ عورت منہ کے بل زمین پر گری ہوئی تھی جبکہ جسم سے بھل بھل بہتا خون مٹی میں جذب ہو رہا تھا—
کچھ فاصلے پر ایک مرد کی لاش تھی—جس کے چہرے پر کئی ضربوں کے نشان تھے—نظریں آدمی سے سرکتی اس عورت پر آئیں تو گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتے سلطان کو اس کے جسم میں زندگی کی رمق محسوس ہوئی تھی—
"اشہد ان لاالہ الااللہ محمد رسول"--- سرگوشی سے بھی کم آواز میں ٹوٹے پھوٹے لفظ ہونٹوں سے ادا ہوئے تو سلطان بے جان ہوتا پیچھے کو گرنے کے انداز میں بیٹھتے دیوار سے پشت ٹکا گیا
آنکھوں کی پھیلی پتلیاں اس عورت کے خون سے تر چہرے پر ٹکی تھیں—جبکہ اپنے اندر سناٹا سا چھاتا محسوس ہو رہا تھا—
_____________________________________

یہ منظر سفید روشنیوں میں نہائے آفس کا تھا—جس کی سفیدی میں ڈوبی دیواروں پر ہلکا سا گولڈن ٹچ دیا گیا تھا--- آفس کے بیچو بیچ پر پندرہ کرسیوں پر مشتمل جہازی سائز ٹیبل پر ہر کرسی کے سامنے سیاہ فائل رکھی ہوئی تھی—جبکہ کرسیوں پر بیٹھے سیاہ لباسوں میں ملبوس لوگ خاموشی سادھے روبوٹ انداز میں بیٹھے ہوئے تھے
آفس کی خاموشی کو درازا کھلنے کی آواز کے ساتھ الآرا خانزادہ کی ہیل کی ٹک ٹک اور کیان خانزادہ کے بھاری بوٹوں کی آواز نے توڑا تھا—جیسے جیسے ان کے قدموں کی آواز قریب ہو رہی تھی کرسی پر بیٹھے سبھی لوگوں نے نامحسوس انداز میں پہلو بدلا تھا—کچھ نے خشک پڑتے ہونٹوں کو تر کیا تھا اور کچھ نے ٹائی کی ناٹ کو ڈھیلی کیا تھا—
وقت ضائع کیے بغیر تم لوگ مجھے جلدی سے بتاؤ گے کہ کیا ٹاسک ہے میرے لیے"--- سربراہی کرسی پر بیٹھتے وہ سرد لہجے میں گویا ہوئی تو کرسی کے دائیں جانب بیٹھے شخص نے سر اثبات میں ہلاتے اپنے سامنے رکھی فائل کو کھولا تھا
جبکہ کیان نے کرسی پر بیٹھتے—ٹانگ پر ٹانگ جماتے کمر کرسی کی پشت سے ٹکاتے سپاٹ نظریں اس شخص کے چہرے پر ٹکائیں تھیں
"میم آپ کو جو ٹاسک"---
میرا وقت ضائع مت کرو جلد بتاوکے ٹاسک کیا ہے"—کہنیاں ٹیبل کی سطح پر جماتے دونوں ہاتھ ٹیبل پر مارتے ہوئے تیز لہجے میں کہا تو کمرے کی خاموشی میں ارتعاش پیدا ہوا تھا جبکہ وہ شخص ہڑبڑا کر جلدی سے فائل الآرا کی جانب سرکا چکا تھا—
"لاہور—بلاسٹ کرنا کے آپ کو—چھوٹا سا بلاسٹ—ریلوے اسٹیشن پر— ہالف کے ایم کو کور کرے گا یہ بلاسٹ"--- ایک سانس میں بات مکمل کرتے اس شخص نے گہری سانس لی تھی—
اووو"—الآرا کے ہونٹ سیٹی کی شیپ میں واہ ہوئے تھے جبکہ وہ بیٹھے کیان خانزادہ کے دل نے سینے میں بری طرح پہلو بدلا تھا—
دل میں ملال بڑھا تھا—سیاہ آنکھوں میں عجیب سی وحشت اتری تھی—سپاٹ چہرے بے چینی کے تاثرات ابھرے تھے—مگر وہ لمحوں میں خود پر قابو پاتا کرسی کی پشت سے ٹیک ہٹاتا آگے ہوا تھا—
"اِٹس ٹو ایزی—بٹ آئی ڈونٹ لائک دی تھنگس ڈیٹ آر ایزی ٹو ڈو"--- فائل کو بند کرتے—بائیں ہاتھ سے ٹیبل کی سطح پر گھماتے— گھومتی فائل کے درمیان میں شہادت کی انگلی جمائی تھی—
"نو میم—یہ اتنا آسان نہیں—اس بار اس بلاسٹ کے بارے میں ہمارے علاؤہ کوئی نہیں جانتا—اس بلاسٹ میں کوئی آپ کی مدد نہیں کرے گا—پہلے اگر کبھی بلاسٹ کرنے کی نوبت آتی تھی تو ہم اس ملک کے محافظوں کے کچھ ایسے لوگ خرید لیتے تھے جو ہمارے اس پلین میں ہمارے لیے رکاوٹوں کو دور کرتے تھے—اور کبھی اگر ہم نے بلاسٹ کیا بھی ہے تو ان محافظوں کے کہنے پر بھی کیا جب ان کے ملک میں کچھ سیاسی تناوپھیلا ہو تو عوام کا اس سے دیہان بھٹکانے کے لیے—دونوں صورتوں میں وہ ہمیں سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں—لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں—کوئی بھی اس بارے میں نہیں جانتا سوائے اس کے کہ اس بارے میں کسی ایسے بندے کو پتہ چل جائے جو اپنے ملک سے وفادار ہو—آپ کو محتاط رہنا ہوگا"----
"انٹرسٹنگ—ویل سبھی جانتے ہیں اور سب کو معلوم بھی ہونا چاہئے کہ الارا خانزادہ کو کسی کی ضرورت نہیں— وہ خود کے لیے بھی اکیلی کافی ہے اور دوسروں کے لیے بھی"--- کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے—ٹانگ پر ٹانگ جماتے—مغرورانہ لہجے میں جواب دیا تو کیان خانزادہ نے سختی سے ہونٹ بھنچے تھے—
"اب تم لوگ خود نکلو گے یا میں دفعہ کروں"--- بھاری کرخت آواز پر وہ سب ہڑبڑا کر اپنی نشستوں سے اٹھے تھے—
"سر میم کے پاس جو فائل ہے اس کے ڈاکومنٹس کی کاپیز کے علاؤہ ہمارے پاس ایگریمنٹ کی کاپیز بھی سب کے پاس موجود ہیں—جس پر ہمیں سائن چاہیے—کیونکہ اس ایگریمنٹ"—
"تمہیں شاید میری بات سمجھ نہیں آئی( اپنی نشست سے اٹھتے—دونوں ہاتھوں سے لانگ کوٹ کو پیچھے کرتے کمر پر لگے پسٹلز کو نکالا تھا)— اور تم جیسے نا سمجھو کی کیان خانزادہ کی دنیا میں کوئی ضرورت نہیں"--- اس سے پہلے وہ سامنے والے پر گولی چلاتا الآرا نے اپنا دایاں ہاتھ کیان کے بازو پر رکھتے—اسے روکا تھا—
سرد نظروں سے ان لوگوں کو گھورتے جانے کا اشارہ کیا تو وہ سب سرعت سے اپنی اپنی فائل اٹھاتے—آفس سے نکلتے چلے گئے تھے—
دروازا بند ہونے کی آواز پر الآرا نے پیچھے ہوتے سرد نظروں سے کیان خانزادہ کو دیکھتے—ٹیبل پر پڑے کرسٹل کلر کے فش نما ڈیکوریشن پیس کو اٹھا کر پوری قوت سے ٹیبل پر مارا تھا—
________________
"واٹس رانگ ود یو کیان—میرے سائن کرنا ضروری تھے—کیوں تم نے انہیں روکا"--- سختی سے مٹھیاں بھنچتے غصے میں چلا کر کہتے اس نے کرسی کو ٹھوکر ماری تھی—
کیان کے انکار کے بعد وہ اس کے انکار کو ان سب کے سامنے جھٹلا نہیں سکتی تھی—وہ لوگ کبھی بھی ان لوگوں کے سامنے کسی بھی بات پر اپنا اختلاف ظاہر نہیں کر سکتے تھے—یہ رول تھا—باس اور اس کے ماتحت کے درمیان اگر کسی بات پر کوئی پیچیدگی ہو بھی جاتی تھی تو وہ انہیں اپنے لوگوں پر عیاں نہیں کرتے تھے—ان کا ماننا تھا یہ چیز لوگوں کو ان کی کمزوری دے سکتی ہے—دشمن اس بات کا فایدہ اٹھا سکتا ہے—انہیں اپنے مسئلے آپس میں ہی سلجھانے ہوتے تھے—چاہے بحث کر کہ چاہے بحث کرنے والے کو ختم کر کہ
الآرا کے چیخنے چلانے کی پرواہ کیے بغیر وہ پرسکون سا اسے دیکھ دہا تھا
پھر وہ آگے بڑھا تھا—بھاری مضبوط چھوٹے چھوٹے قدم لیتے وہ خود سے کچھ قدم دور پشت کیے کھڑی الآرا کے قریب جاتے اس کے روبرو کھڑا ہوا تو الآرا نے غصے سے سرخ پڑتی شہد رنگ آنکھوں کو اٹھاتے کیان خانزادہ کو دیکھا تھا—
"بظاہر تو آنکھیں تھیں—لیکن کیان خانزادہ ان سے شکست کھا جاتا تھا"
دایاں ہاتھ بڑھاتے—الآرا کے چہرے کے بائیں جانب بکھرے بالوں کو نرمی کان کے پیچھے اڑسا تھا—
ہاتھ پیچھے سرکاتے کوٹ کی جیب میں اڑسا تھا—
"وہ سائن ضروری نہیں تھے—الارا خانزادہ کے لیے تو بالکل نہیں—تم اس دنیا میں رہ کر بھی اسے نہیں جان سکتی الآرا— اس شخص کو چاہے تم باپ کہو لیکن میری بات یاد رکھنا وہ تمہیں بھی اپنے نفع کے لیے استعمال کر سکتا ہے— دنیا کوئی بھی ہو—کوئی کسی سے مخلص نہیں—وہ شخص جو اس سیاہ دنیا کو چلاتا ہے اس کا کنگ بنا بیٹھا ہے اس کی جگہ لینے کے لیے اس کی بیٹی کو ٹاسک کرنا ہوگا وہ ایگریمنٹ کے ساتھ—واؤ(اس بات پر وہ استہزائیہ ہنسی ہنسا تھا جبکہ سیاہ آنکھیں سنجدگی لیے ہوئیں تھیں)
وہ ایگریمنٹ صرف تمہیں قید کرنے کے لیے ہے تا کہ تم پھر کبھی اس دنیا سے نا نکل سنو—وہ صرف تمہیں اپنا پابند بنا کر اپنے اشاروں پر"---- نرم بھاری لہجے میں وہ اپنی بات مکمل کرتا کہ الآرا نے گردن نفی میں ہلائی تھی—
سٹریٹ بالوں کے درمیان میں بنائی گئی مانگ سے دونوں جانب سے بالوں کو تھامتے کانوں کے پیچھے اڑستے—سر نفی میں ہلاتے—ہونٹ بھنچتے وہ دو قدم پیچھے ہوئی تھی—
"فار گاڈ سیک کیان—بند کرو اپنا یہ لیکچر—میں الآرا خانزادہ ہوں—میں اس سیاہ دنیا کا حصہ اور اس سیاہی میں ڈوبی ہوئی ایک لڑکی ہوں—میں اس دنیا کے لیے ہی بنی ہوں اور مجھے یہی رہنا ہے—ہمیشہ( انگلی اٹھائے دبے دبے لہجے میں چلا کر کہتی وہ اسے لمحے کے لیے ساکت کر گئی تھی—شہد رنگ آنکھوں میں وحشت و جنون دیکھتے—کیان خانزادہ کو لگا جیسا اس کا ضمیر اس پر ہنسا ہو)—تم میرے لیے فیصلے لینا بند کرو کیان—مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں اس کے لیے تمہارے مشوروں اور فیصلوں کی ضرورت نہیں"--- اس کی آواز پر وہ ہوش میں آیا تھا—اور بغور اسے دیکھا تھا وہ چیخ رہی تھی—مگر اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے جن کر وہ مٹھیاں بھنچ کر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی—
ریلیکس مائے ڈیول کوئین—میں صرف تمہیں سمجھا رہا ہوں—
"کبھی خود کو کسی چیز کے لیے اذیت نا دینا—کوئی چیز نہیں مل رہی—وہ تمہارے پاس نہیں ہے تو یہ بڑی بات نہیں ہے الآرا—سب کچھ مل جانا ضروری نہیں ہوتا— کبھی کبھی کچھ چیزوں کے لیے ضد نہیں کرتے وہ جا رہی ہو تو جانے دینا چاہیے—میری بات سمجھ آرہی ہے نا الآرا—کبھی کبھی جانے دینا ہی ہمارے لیے ٹھیک ہوتا ہے"--- وہ اس کے سامنے کھڑا—نظریں الآرا کے چہرے پر جمائے نرم لہجے میں کہہ رہا تھا مگر اس کا ذہن کہی اور تھا—آنکھوں کے پردے میں کوئی اور منظر لہرا رہا تھا—
خون میں لت پت—زخموں سے چور وجود تھے—دہکتی ہوئی آگ تھی—
تب شاید وہ وہاں بے حس تھا—وہ اس تپش کو محسوس نہیں کر پا رہا تھا—مگر آج کیان خانزادہ کو اس آگ کی دہکتی ہوئی تپش اپنے دل میں محسوس ہو رہی تھی اپنی روح اس میں جھلستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی—
"اہمم—میں اووریکٹ کر گئی--- پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے مجھے—تم یا اختر بابا ایسے روکتے ہو مجھے یا کوئی بات کرتے ہو تو مجھے بے چینی ہوتی ہے—اور خاص کر تم جب کہتے ہو تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ میں اس سب کے لائق نہیں—میں کچھ کر نہیں سکتی—پھر میری ضد اور انا"--- گہری سانس لیتے کندھے آچکا کر کہتی وہ پلٹی تھی جبکہ اس کی بات پر جیسے وہ ہوش میں آیا تھا—
_________________
اپنے کمرے کی دہلیز پر بیٹھے—نظریں سامنے اپنے ماں باپ کے کمرے کے بند دروازے پر ٹکائے وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اپنے قریب کسی کی موجودگی کو محسوس کرتے گردن اٹھائے دیکھا تھا—
"دروازا کھول کیوں نہیں لیتی—کب تک ایسے بند دروازے پر نظریں جمائے بیٹھی رہو گی—یاد آرہی ہے ماں باپ کی تو کمرے میں چلی کیوں نہیں جاتی"--- نور بیگم نے نرمی سے ہاتھ اس کے بالوں میں پھیرتے نرم لہجے میں کہا تو کسویٰ کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ رینگی تھی—جواب دیے بنا نظریں خاموشی سے بند دروازے پر ٹکا دی تھیں
"کیوں خود کو تکلیف دے رہی ہو میری دھی رانی— دروازا کھول لے اور کر لے خود کو اس بند دروازے کی تکلیف سے آزاد—شاید پھر صبر اجائے"—
"نہیں دادو—تکلیف صرف تکلیف ہی ہوتی ہے-- کبھی کبھی اسے سہہ لینے سے صبر کر لینے سے اس کی اذیت کم نہیں ہوتی—نا ہی وہ سہہ لینا ہمیں مضبوط کرتا ہے نا ہی ہمارے بکھرے ہوئے وجود کو جوڑ دیتا ہے—وہ صرف درد کا باعث ہی ہوتی ہے صرف و صرف اذیت"--- سیاہ موٹی آنکھوں میں درد چھلکا تھا—جب کہ نم لہجے کی اذیت کو اوپر آتے ہناش احمد نے بھی محسوس کیا تھا
"مجھے ڈر ہے دادو—یہ کمرہ جو میرے ماں باپ کے وجود کی خوشبو لیے ہوئے ہے میرے دروازا کھولنے پر کہی وہ خوشبو بکھر نا جائے—میرا دل کر رہا ہے میرے پاس کوئی ایسا جادو ہو—جس سے یہ دروازا بھی نا کھلے اور میں اندر چلی جاؤں(اس بات پر اس کے ہونٹوں پر زخمی سے مسکراہٹ بکھری تھی جیسے خود کی بیوقوفی پر مزاق اڑایا ہو)اور پھر اس کمرے میں رچی میرے ماں باپ کی خوشبو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود میں چھپا لوں"--- چہرہ اٹھائے نظریں نور بیگم کے چہرے پر ٹکائے زخمی لہجے میں کہتے اس نے گردن موڑتے اپنے کمرے کی جانب دیکھا تھا
"وہاں میری بہن میرے ساتھ ہوتی تھی—میری آپی—میرے بابا کی آیت— یہاں اس جگہ( انگلی سے اپنے دائیں جانب زمین پر اشارہ کیا تھا)جب بابا دوپہر میں آکر سوتے تھے تب-- یہاں ہم تینوں بہن بھائی بیٹھ جاتے تھے—انتظار کرتے تھے کہ کب بابا اٹھے گے دروازا کھولیں گے اور ہم تینوں کو اٹھائے گے— بابا جانتے تھے کہ ہم ان کے لیے باہر بیٹھے ہیں—وہ ہمارے لیے جلدی اٹھ جاتے تھے وہ اپنی نیند پوری نہیں کرتے تھے—لیکن اب میں پچھلے تین گھنٹوں سے یہاں بیٹھی ہوں—کل بھی رات تک انتظار کیا—لیکن اب یہ دروازا نہیں کھلا دادو—میں روئی بھی تب بھی کوئی تڑپ کر میری آواز پر دروازا کھولتا باہر نہیں آیا—بابا کو میں بھول گئی ہوں—وہ اپنی کسوی کو بھول گئے ہیں شاید"---- اس کے باتوں پر نور بیگم کو اپنا دل پھٹتا محسوس ہوا تھا—تبھی تڑپ کر آگے بڑھتے اسے باںہوں میں سمیٹا تھا جبکہ وہ سپاٹ چہرہ لیے بند دروازے کو دیکھ رہی تھی
خود پر نظروں کی تپش محسوس کرتے کسوی نے گردن ترچھی کرتے بائیں جانب دیکھا تھا
خود کو ٹکٹی باندھ کر دیکھتے—ہناش پر نظر گئی تو وہ ہڑبڑا کر نظریں جھکا گیا تھا
"دادو—آج کھانے میں ساری میری فیورٹ ڈیشیز بنائیں گا میں گاؤں گھوم کر آتی ہوں"--- نور بیگم کو کندھوں سے تھام کر کھڑا کرتے ہوئے نرم لہجے میں کہا تو وہ چادر کے پلو سے آنسو پونچھتی سر اثبات میں ہلاتی—پلٹ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی—جس پر ہناش نے سر کو خم دیتے سلام کیا تو وہ جواب دیتی سیڑھیاں اترنے لگی تھی
"تمہیں کس ٹائم آنے کو کہا تھا"--- ہناش احمد کے قریب جاتے دونوں بازو کمر پر ٹکاتے سخت لہجے میں استفسار کیا تو اس کے گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی تھی—
"جب آپ سو کر"—ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی—کہ کسوی کا ہاتھ اٹھا تھا—اور کل کی طرح اس کے چہرے پر نشان چھوڑتا چلا گیا تھا—
"میں نے جلدی آنے کو کہا تھا"—انگلی اُٹھائے سخت لہجے میں کہا تو ہناش احمد نے ہونکوں کی طرح منہ کھولے— بایاں ہاتھ گال پر ٹکاتے—اپنی میڈم کو دیکھا تھا—
"سوری میڈم—اب چلیں ہم"--- گال سے ہاتھ ہٹاتے—دائیں جانب کو ہوتے کسوی کو چلنے کا اشارہ کیا تو اس نے آبرو آچکا کر سوالیہ نظروں سے ہناش احمد کو دیکھا تھا جس پر اس بیچارے کی شکل پر ناسمجھی کے تاثرات ابھرے تھے—
"ہم نے کہا جانا ہے ہناش احمد "
"میڈم پنچائیت ہی جانا ہے آپ نے کہا تھا"—نا محسوس انداز میں قدم پیچھے سرکاتے—نظریں کسوی کے ہاتھ پر رکھتے—جواب دیتے احتیاطاً وہ اسے یاد بھی کروا رہا تھا کہ اس نے خود پنچائیت جانے کا ہی کہا تھا
"پنچائیت کا کیا ٹائم ہوتا ہے"—ہناش احمد کے جواب پر سر اثبات میں ہلاتے اگلا سوال داغا تو اس بیچارے نے سہمی نظروں سے کسوی کو دیکھا تھا—
"میڈم پنچائیت ظہر کے بعد عصر سے کچھ دیر پہلے بیٹھتی ہے اور کبھی کبھار عصر کے بعد مغرب کی نماز سے پہلے تک"--- دوبارا تھپڑ نا پڑے اس لیے احتیاطاً وہ اس کے جواب کے مطابق جتنا جانتا تھا مکمل جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا—
"رائٹ ظہر کے بعد عصر سے پہلے—تو ڈفر انسان ابھی عصر کا وقت ہے کیا"--- کسوی کے نرم لہجے پر ابھی وہ سکون کا سانس بھی نا لے پایا تھا کہ وہ ایک دم سے چلائی تو ہناش احمد نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا تھا—
"نن—نہیں جی ابھی تو دو بجے ہیں—میں تو اس لیے آیا کہ آپ نے کہا تھا جلدی آؤں"— خود پر ضبط کرتے جواب دیا تو کسوی چوہدری نے ستائشی انداز میں آبرو اچکائے تھے—
"مگر تم پھر بھی لیٹ آئے ہو ڈفر—لیکن خیر اب آگئے ہو تو پنچائیت جانے سے پہلے کچھ کام کر لو"--- کسوی کی بات پر اس نے نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا—
"حویلی کے صحن کی صفائی—جھاڑو لگاؤ یا بیسٹ یہی ہے کہ پائپ پکڑو اور صحن کو دھو دو—کام والی آئی تھی لیکن وہ تو چھوٹی سی بچی تھی مجھے اچھا نہیں لگا کہ وہ یہ کام کرے—تو جب تک کوئی اور نہیں مل جاتی تب تک تم یہ کام کرو گے—کچھ تو فائدہ ہو تمہارا"--- سیاہ گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے انہیں پیچھے کمر پر پھیلایا تھا—دوپٹے کو ٹھیک سے سیٹ کرتی شاہانہ انداز میں سیڑھیاں اترتی وہ ہناش احمد پر حکم صادر کرتی اس کے چودہ طبق روشن کر چکی تھی—
کسوی چوہدری کے پیچھے سیڑھیاں اترتے ہناش احمد کے اس وسیع صحن پر نظر گئیں تو آنکھوں کے آگے تارے گھوم گئے
"مم—میم میں گارڈ"--- گلے سے پھنسی پھنسی آواز نکلی جس کا گلہ کسوی چوہدری نے بے رحمی سے گھونٹا تھا
"گارڈ تم حویلی میں داخل ہونے تک تھے—اب تو غلام ہو—ویسے بھی کل تم نے خود کہا تھا کہ میرا ہر کام کرو گے"--- کندھے آچکا کر کہتی وہ بائیں جانب کچن کی جانب بڑھی گئی
ہناش احمد نے گردن ترچھی کرتے پیچ کلر پہنے آگے بڑھتی کسوی چوہدری کو دیکھا تھا—پشت پر بکھرے ویوی کرل بالوں کو دیکھتے—دل سینے میں ڈوب کر ابھرا تھا—
سر جھٹکتے—گہری سانس بھرتے ہناش احمد نے صحن کی جانب قدم بڑھائے تھے
___________
Subscribe this channel
https://youtube.com/?si=veb9zZCVQw8QSnl7

Videos (show all)

Upcoming episodeMaha Gul Novelsمیں بتاؤ ان ہاتھوں کی لکیروں میں کیا ہےشاہ میر نے ویسے ہی سر جھکائے دیا کو مخاطب کیالیکن ...