Sindh Updates Point
Sindh updates Point
لوگوں کا غم دیکھا تو میں اپنا غم بھول گیا۔
we won't smoke gold leaf ci******es any more
راڻيپور واقعي جي جاچ ڪرڻ
ايس ايس پي خيرپور پاڻ راڻيپور ٿاڻي پهچي ويو...
ايس ايس پي خيرپور مير روحل کوسي سان فون تي ڳالهه ٻولهه ٿي آهي جنهن چيو ته سڀاڻي فوت ٿيل نياڻي جي قبر ڪشائي ڪرڻ لاءِ ليٽر لکندس ۽ پوسٽ مارٽم ڪرايو ويندو.
هن ٻڌايو ته ان واقعي جي هر رخ کان جاچ ڪئي ويندي. هن چيو ته اهو واقعو اسد شاهه ۽ فياض شاهه وارن جي گهر ۾ ٿيو جنهن جي جاچ پاڻ ڪري رهيو آهيان..نياڻي جي موت ڪارڻ بابت ڪا به ڳالهه پڪ سان چوڻ وقت کان اڳ واري ڳالهه ٿيندي....
Copied...
کسی کو پتا ہے ٹیکس لگانے والے خود کتنا ٹیکس دیتے ہیں، عام عوام ہی پس اور گھس رہی ہے
"یاجوج ماجوج"
پاکستانی عوام کا حکومت پاکستان سے سوال سرکاری اداروں کے 189000 ملازمین نے صرف اس ایک سال میں 8ارب 19 کروڑ کی بجلی مفت استعمال کی تو مجھے محمد صالح عباد کی کتاب سلطنت عثمانیہ کا زوال، یاد آ گئی۔ کتاب کے ابتدائیے میں اس زوال کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک جگہ پر و ہ لکھتے ہیں کہ اس سلطنت کو اس کی افسر شاہی کا یاجوج ماجوج کھا گیا۔ صالح عباد لکھتے ہیں کہ یہ یاجوج ماجوج کا لشکر تھا، وسائل چاٹتا چلا گیا اور بحران سے دوچار ریاست کے لئے ممکن نہ رہا اس لشکر کا پیٹ بھر سکے۔ یعنی وہی ہوا جو ہمارے ہاں ہو تا رہا ہے۔ قرض کا پہاڑ کھڑا ہوگیا ہے، ہر قسم کی بالادست اشرافیہ مزے میں ہے، غیر معمولی تنخواہیں ہیں، پلاٹ ہیں، ہوش ربا مراعات ہیں لیکن عوام کو ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے اپنا کنواں خود کھودنا پڑتا ہے۔ اسے معلوم نہیں اربوں ڈالر کا یہ قرض کہاں سے آیا اور کہاں گیا۔
بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ قرض ملتے ہی عوام کے لیے بجلی قریب پچاس روپے فی یونٹ کر دی گئی اور فکری افلاس کا یہ عالم ہے کہ ریڈیو کو چلانے کے لیے بجلی کے بل میں پندرہ روپے کا ٹیکس ڈال دیا گیا لیکن افسر شاہی کی مراعات کم کرنے کا کوئی سوچ ہی نہیں رہا۔ چار پیسے کشکول میں آتے ہی کروڑوں کی مالیت سے گاڑیاں خرید کر اسسٹنٹ کمشنروں کو دی جا رہی ہیں جن کی اہلیت یہ ہے کہ سبزیوں کے ریٹ ان کے بس میں ہیں نہ پٹرول پمپوں کے پیمانے پورے ہیں۔ بس مراعات ہیں اور افسر شاہی ہے۔
کبھی کبھی تو باقاعدہ خوف آتا ہے کہ کیا ہم بھی اپنے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہوا۔ قرض لے لے کر اور بے رحمی سے کھا کھا کرایک وقت آیا کہ سلطنت عثمانیہ کا دیوالیہ نکل گیا۔ قرض کا پہاڑ کھڑا تھا لیکن اس قرض سے سلطنت میں ایسا کچھ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا جس سے اتنا زر مبادلہ حاصل ہو پاتا کہ قرض کی ادائیگی ہی ہوتی رہتی۔ چنانچہ 1875میں فرمان رمضان، جاری کیا گیا اور دنیا کو بتا دیا گیا کہ سلطنت عثمانیہ کے پاس آپ کا قرض ادا کرنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ وہ دیوالیہ ہوگئی ہے۔ سلطنت کا جغرافیائی سقوط تو بعد میں جا کر ہوا لیکن اس کی معاشی خود مختاری کا خاتمہ اس فرمان رمضان کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ (آج میرے جیسا آدمی بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم نے پاکستان میں جو اتنا قرض کا پہاڑ کھڑا کر لیا ہے تو یہ قرض لگا کہاں؟ کس نے کھایا؟)
جب نوبت یہاں تک آن پہنچی تو جنہوں نے قرض دے رکھے تھے وہ اکٹھے ہو گئے کہ اب سلطنت عثمانیہ کی معاشی پالیسیاں ہم ترتیب دیں گے۔ اب اہم فیصلے ہم کریں گے۔ طے پایا کہ اب ٹیکس کب کہاں اور کتنا لگنا ہے اس کا فیصلہ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلامت نہیں کریں گے بلکہ اس کا فیصلہ وہ کریں گے جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کو قرض دے رکھا ہے۔ چنانچہ چند ہی سال بعد 1881 میں مجبوری کے عالم میں سلطنت عثمانیہ نے معاشی سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کیے اور فرمان محرم، جاری کر دیا گیا۔ فرمان محرم گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اب سلطنت عثمانیہ کے سٹیٹ بنک، پر سلطنت کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ اب مالیاتی بندوبست کو عالمی مالیاتی قوتیں براہ راست دیکھیں گی۔ انہی کا عملہ آئے گا۔ وہی پالیسیاں بنائیں گے۔ وہی ٹیکس کا تعین کریں گے، وہی ٹیکس وصول کریں گے۔ (آج ہمارا سٹیٹ بنک خود مختار ہو چکا ہے، ہماری پالیسیاں ہم نہیں بنا رہے۔ ہمارا وزیر اعظم کہتا ہے پٹرول بجلی اس لیے مہنگے کرنے پڑے کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا۔ کب کہاں کتنا ٹیکس لگنا ہے اس کا فیصلہ آئی ایم ایف کر رہا ہے) افسر شاہی کا یہ یاجوج ماجوج کا لشکر ہمیں نو آبادیاتی ورثے میں ملا ہے۔ یہ وسائل کو امانت نہیں مال غنیمت اور عوام کو شہری نہیں رعایا سمجھتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے ایک معاشی بحران سے دوچار ملک ہے اور سرکاری اداروں کے 189000 ملازمین صرف اس ایک سال میں 8ارب 19 کروڑ کی بجلی مفت استعمال کرتے ہیں۔ ہم بھی بنیادی طور پر زرعی معیشت ہیں لیکن زراعت پر بات کرنا توہین سمجھتے ہیں اور پینڈو، کا لفظ تحقیر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ زرعی معیشت کو ہم انڈسٹریلائز نہیں کر سکے۔ شہریوں کو شراکت اقتدار کا تاثر نہیں دیاجا سکا۔ اپنے ہی شہریوں سے محکوموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ وسائل صرف ایک طبقے کی میراث بن چکے ہیں۔ افسر شاہی کا یاجوج ماجوج کا لشکر سب کچھ چاٹتا جا رہا ہے۔
ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟ (آصف محمود)
صدر میں تجاوزات کیخلاف آپریشن
دوپہر کو پتھارا مافیا نے سیکشن افسر کو دھمکی دی شام کو ڈی ائی جی نے ہٹا دیا
گزشتہ روز ٹریفک پولیس نے صدر ایمپریس مارکیٹ میں ٹھیلے پتھارے ہٹانے کیلئے آپریشن کیا
آپریشن کے بعد شام میں ٹریفک سیکشن آفیسر کو ہٹانے کی انٹری چل گئی
آپریشن کے دوران ٹھیلے ،پتھارے مالکان نے ٹریفک پولیس افسر کو ہٹانے کی دھمکی دی
ٹریفک پولیس افسر نواز سیال خفیہ طور پر وڈیو بناتا رہا
یہ تمھارا کام نہیں ہے،تم روڈ پر ٹریفک دیکھو،ٹھیلے کا مالک
ہمیں تنگ نہ کرو ہم بڑے لوگوں کے پاس جائے گا،ٹھیلے مالک
فوٹیج میں ٹھیلے کا مالک کی جانب سے پولیس افسر کو دھمکاتا دکھائی دے رہا ہے
شہر بھر میں پتھارے مافیا کا راج برقرار دیکھائی دینے لگا
ان مافیاز کے خلاف ایکشن کرنے اور نہ کرنے کی دونوں صورتوں میں پولیس افسر عتاب کا شکار ہیں
صدر میں پتھاروں کے خلاف کارروائی کرنے پر ایس او کو گھر روانہ کردیا گیا ، زرائع
*حیدرآباد سینٹرل جیل کے سی ایم او ڈاکٹر احمد علی زرداری کے زوجہ کے گھر سے پراسرار طور پر لاش برآمد*
سائين جي ايم سيد شيخ اياز جي باري مين ٻڌائيندي
حیدرآباد قاسم آباد سادھو واھ گیٹ پر ٹرانسپورٹ مافیا کی بدماشی عید کے بعد وین کا کرایا 1000 روپے جب کے فرنٹ سیٹ 1100 روپے جب کے وین کا کرایا صرف 500 ہئا کرتا ہے لوگوں کی مجبوری کا فاعدہ لیتے ہوئے عوام سے من پسند کرایا لیکے مجبوری کا فاعدہ اٹھایا جا رہا ہے دن دھاڑے عوام کو لوٹا جا رہا ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں سب اعلی افسران حکومت اپنے حصے سے مطلب رکھے ہوئے ہیں عوام بے بس و لاچار ان ڈاکئوں کے ھاتھوں لٹ رہی ہے۔
یہ ہوتا ہے انصاف۔۔
ملزم ایک 15 سالہ لڑکا تھا۔ ایک اسٹور سے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ پکڑے جانے پر گارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی۔ مزاحمت کے دوران اسٹور کا ایک شیلف بھی ٹوٹا۔
جج نے فرد ِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا "تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟"
"بریڈ اور پنیر کا پیکٹ" لڑکے نے اعتراف کرلیا۔
"کیوں؟"
"مجھے ضرورت تھی" لڑکے نے مختصر جواب دیا۔
"خرید لیتے"
"پیسے نہیں تھے"
"گھر والوں سے لے لیتے"
"گھر پر صرف ماں ہے۔ بیمار اور بے روزگار۔ بریڈ اور پنیر اسی کے لئے چرائی تھی۔"
"تم کچھ کام نہیں کرتے؟"
"کرتا تھا ایک کار واش میں۔ ماں کی دیکھ بھال کے لئے ایک دن کی چھٹی کی تو نکال دیا گیا۔"
"تم کسی سے مدد مانگ لیتے"
"صبح سے مانگ رہا تھا۔ کسی نے ہیلپ نہیں کی"
جرح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع کردیا۔
"چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری بہت ہولناک جرم ہے۔ اور اس جرم کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ عدالت میں موجود ہر شخص، مجھ سمیت۔ اس چوری کا مجرم ہے۔ میں یہاں موجود ہر فرد اور خود پر 10 ڈالر جرمانہ عائد کرتا ہوں۔ دس ڈالر ادا کئے بغیر کوئی شخص کورٹ سے باہر نہیں جاسکتا۔" یہ کہہ کر جج نے اپنی جیب سے 10 ڈالر نکال کر میز پر رکھ دیئے۔
"اس کے علاوہ میں اسٹور انتظامیہ پر 1000 ڈالر جرمانہ کرتا ہوں کہ اس نے ایک بھوکے بچے سے غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے، اسے پولیس کے حوالے کیا۔ اگر 24 گھنٹے میں جرمانہ جمع نہ کرایا گیا تو کورٹ اسٹور سیل کرنے کا حکم دے گی۔"
فیصلے کے آخری ریمارک یہ تھے: "اسٹور انتظامیہ اور حاضرین پر جرمانے کی رقم لڑکے کو ادا کرتے ہوئے، عدالت اس سے معافی طلب کرتی ہے۔"
فیصلہ سننے کے بعد حاضرین تو اشک بار تھے ہی، اس لڑکے کی تو گویا ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اور وہ بار بار جج کو دیکھ رہا تھا۔
("کفر" کے معاشرے ایسے ہی نہیں پھل پھول رہے۔ اپنے شہریوں کو انصاف ہی نہیں عدل بھی فراہم کرتے ہیں)🖤
Online besti
سندھ کارڈ کھیلنے والی مافیا کہاں سوئی ہئی ہے سندھ ڈوب رہا ہے نا نیکال کا سسٹم، نہ کوئی رلیف لوگوں کے کچے پکے مکانات گر گئے۔ کیا سندھ کی عوام کے پیسے ھڑپ کرنے والے اپنے محلوں میں شراب و شباب کے نشے میں دھت پڑے موسم کے مزے لیتے ہوئے انتظار کر رہے ہیں باھر ممالک کے لوگ/این جی اوز آکر غریبوں کے لئے شیلٹر کا بندوبست بھی کریں گے اور بہت ساری فنڈنگ کرکے ان کے بھی زر میں ازافا کریں گے؟
ایسا ایک بھی حکمران ہے جس نیں اپنی ایکڑوں پے بنی اوطاقیں غریبوں ووٹروں کو دی ہو کے یہاں شیلٹر لو جب تک بندوبست ہو کوئی لعنت ہے ایسے حکمرانوں پر اور افسوس ہے ان ووٹروں پر جو انکے جھانسے میں آکر اپنی نسلیں تباح کر دیتے ہیں اگر قیامت میں حکمران سے پوچھا جائیگا تو رایا سے بھی پوچھا جائے گا کیوں کے وہ وڈیرہ وہاں بتائے گا کے اے خدا یہ لوگ جانتے تھے میں ظالم ہوں حکمرانی کے لئے نااھل ہوں انکے ووٹ ملنے سے اقتدار ملے گا مگر انکو ہی نقصان دوں گا انکے ہی حق کھائون گا مگر یہ خوشامدی مجھے ووٹ دیتے تھے اور جب میں پاور میں آتا تھا تو اور بھی ظالم ہو جاتا تھا انکے ساتھ ہی ناجائزیاں کرتا تھا
h
سهوڻ شريف جي جبل جو ميهن ۾ هڪ خوبصورت منظر
😭😭😭
We Welcome our Beloved PPP Chairman President in Hyderabad.
Bakhtawar Bhutto Zardari
Tariq Hussain MediaCell NA225 PPP Javed Nayab Laghari Yasir Qureshi Jawaid Laghari
Welcome Welcome PPP Chairman Bilawal Bhutto Zardari President Asif Ali Zardari Welcome
Bakhtawar Bhutto Zardari Fans
Javed Nayab Laghari
Yasir Qureshi
Ali Haider Shah
توھان ماٺھو کي ماري سگهو ٿا سوچ کي ن
Javed Nayab Laghari
Yasir Qureshi
Javed Nayab Laghari
30 Nov 2018. PPP Foundation Day Jalsa.
Happy Birthday .
Javed Nayab Laghari
پیپلز یوتھ سندہ کے صدر Javed Nayab Laghari کی جانب سے تمام عالم کے مومنین کو جشن عید میلادالنبی مبارک ہو
Javed Nayab Laghari
President Javed Nayab Laghari Chaired Divisional Council meeting of Sukkur & Larkano Division at Sukkur
Chairman
Javed Nayab Laghari
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا گلگت بلتستان میں عوام سے خطاب