Rawalpindi city

Rawalpindi city

Rawalpindi, a beautiful city of Paksitan

03/06/2024

راولپنڈی اور گردونواح میں شدید آندھی گرج چمک بارش اور ژالہ باری

کے بغیر شدید گرمی جاری ہے😅

30/03/2024

انگریز دور میں راولپنڈی سے مری و سرینگر وغیرہ تک ایک سواری کو لے جانے والے اکے / یکے " Ekkas جاتے تھے .. مضبوط بیلوں والی بیل گاڑیاں سینکڑوں من وزنی لوہے کے گارڈر اور دیگر سامان بھی لے کر جاتی تھیں ۔۔
راولپنڈی صدر کے جی ٹی ایس اڈے کے ساتھ واقع اس تاریخی تانگہ سٹینڈ کو کینٹ بورڈ راولپنڈی میں چھپے لینڈ مافیا نے گرا دیا ہے ۔.

راجہ جانی آپ کہہ رہے ہیں کہ اتنی بلندی تک تانگے کیسے جاتے تھے ۔۔ آپ گھوڑا گلی جائیں ۔۔ آپ کو گھوڑا گاڑیوں اور بیل گاڑیوں کو لے کر جانے والی پرانی کچی روڈ کے نشانات بھی نظر آ جائیں گے ۔۔

Old photo of Murree, 'Ekka' with passenger and baggage, coming from Cashmere (Kashmir) to Murree, 1903 AD
An 'ekka' coming from Srinagar in Kashmir, to Murree in Punjab,taken by James Ricalton in c. 1903.

This is a view of the heavily-laden ekka, halted for the photographer on a hill road, with a European passenger seated up front with the driver. It is described by Ricalton in 'India Through the Stereoscope' (1907), "An ekka has no springs; that great pouch below the axle is to hold fodder for the horse. The compartment above the axle is for baggage; the third space is for passengers, often containing five or six with heads thrust out on every side, reminding one of a market crate of poultry; so that the general aspect of a well-stocked traveling ekka is a snarl or conglomeration of horse, humanity, rags and ropes. Seven days and one hundred and fifty-five miles of ekka travel leave impressions mental and physical not soon to be forgotten." This is one of a series of 100 photographs designed to be viewed through a special binocular viewer, producing a 3D effect. The series was sold together with a book of descriptions and a map with precise locations to enable the 'traveller' to imagine that he was really 'touring' around India. Stereoscopic cameras, those with two lenses and the ability to take two photographs at the same time, were introduced in the mid 19th century and revolutionised photography.

18/03/2024

اکثر لوگ اپنی ذاتیں بدل لیتے ہیں مگر آپ اپنے یا کسی کے درست *شجرہِ نسب کو کیسے تلاش کر سکتے ہیں* ؟

محکمہ مال کے ریکارڈ میں موجود قیمتی راز

اگر کسی کو اپنا شجرہ نسب معلوم نہیں ہے تو آپ اپنے آباؤ اجداد کی زمین کا خسرہ نمبر لے کر (اگر خسرہ نمبر نہیں معلوم تو موضع اور یونین کونسل کا بتا کر بھی ریکارڈ حاصل کر سکتا ہے ) اپنے ضلع کے محکمہ مال آفس میں جائے یہ آفس ضلعی کچہریوں میں ہوتا ہے اور جہاں قدیم ریکارڈ ہوتا ہے اس کو محافظ خانہ کہا جاتا ہے ۔ محافظ خانہ سے اپنا 1872ء / 1880ء یا 1905ء کا ریکارڈ (بندوبست) نکلوائیں ۔1872ء / 1880ء یا 1905ء میں انگریز نے جب مردم شماری کی تو انگریزوں کو کسی قوم سے کوئی غرض نہ تھی ہر ایک گائوں میں جرگہ بیٹھتا جس میں پٹواری گرداور چوکیدار نمبردار ذیلدار اس جرگہ میں پورے گائوں کو بلاتا تھا۔ ہر ایک خاندان کا اندراج جب بندوبست میں کیا جاتا تو اس سے اس کی قوم پوچھی جاتی اور وہ جب اپنی قوم بتاتا تو پھر اونچی آواز میں گاؤں والوں سے تصدیق کی جاتی اسکے بعد اسکی قوم درج ہوتی۔ یاد رہے اس وقت کوئی شخص اپنی قوم تبدیل نہیں کرسکتا تھا بلکہ جو قوم ہوتی وہی لکھواتا تھا۔
نائی ، موچی ، کمہار ، ترکھان ، لوہار ، جولاہا ، ملیار ، چمیار ، ترک ، ڈھونڈ ، سراڑہ ،ملیار، قریشی، ڈوگر،کھرل، مہر، چوہدری،بھٹی ، اعوان ،جاٹ، ارائیں، راجپوت ، سدھن ،ٹوانہ، بلوچ، وٹو، کانجو، کھٹڑ، گجر ،سید، مغل ، کرلاڑل ، خٹک ، تنولی ، عباسی ، جدون ، دلزاک ، ترین وغیرہ وغیرہ اور دیگر بے شمار اقوام ان بندوبست میں درج ہیں اور اپنے ضلع کے محکمہ مال میں جاکر اس بات کی تصدیق بھی کریں اور اپنا شجرہ نسب وصول بھی کریں ۔وہی آپکے پاس آپکی قوم کا ثبوت ہے خواہ آپ کسی بھی قوم میں سے ہوں اگر آپ کے بزرگوں کے پاس زمین تھی تو ان کا شجرہ نسب ضرور درج ہو گا ۔
ہندوستان میں سرکاری سطح پر زمین کے انتظام و انصرام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ، جو شیر شاہ سوری سے لے کر اکبر اعظم اور انگریز سرکار سے لے کر آج کے دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ پنجاب میں انگریز حکمرانوں نے محکمہ مال کا موجودہ نظام 1848ء میں متعارف کرایا ۔
محکمہ مال کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گائوں کو ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ قرار دے کر اس کی تفصیل، اس گائوں کے نام کی وجہ ، اس کے پہلے آباد کرنے والے لوگوں کے نام، قومیت ،عادات و خصائل،ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل ، رسم و رواج ، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گائوں کے معاملات طے کرنے جیسے قانون کا تذکرہ، زمینداروں ، زراعت پیشہ ، غیر زراعت پیشہ دست کاروں ، پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض ،انہیں فصلوں کی کاشت کے وقت شرح ادائیگی اجناس اور پھر نمبردار، چوکیدار کے فرائض وذمہ داریاں ، حتیٰ کہ گائوں کے جملہ معاملات کے لئے دیہی دستور کے طور پر دستاویز شرط واجب العرض تحریر ہوئیں جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔
جب محکمہ کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے زمین کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگانواں ،کرنال وغیرہ سے بدون مشینری و جدید آلات پیمائش زمین شروع کر کے ضلع اٹک دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں تمام ندی نالے ،دریا، رستے ، جنگل ، پہاڑ ، کھائیاں ، مزروعہ ، بنجر، آبادیاں وغیرہ ماپ کر پیمائش کا اندراج ہوا۔ ہر گائوں کی حدود کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے ، جس شکل میں موقع پر موجود تھے ان کو نمبر خسرہ ،کیلہ الاٹ کئے گئے اور پھر ہر نمبر کے گرد جملہ اطراف میں پیمائش ’’کرم‘‘ (ساڑھے5فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لئے ہر گائوں کی ایک اہم دستاویز’’ فیلڈ بک‘‘ تیار ہوئی۔ جب ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ (حد موضع) قائم ہو گئی تو اس میں نمبر خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر خسرہ کی پیمائش چہار اطراف جو کرم کے حساب سے برآمد ہوئی تھی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا اور اصولوں کے تحت وضع کر کے اندراج ہوئے۔ اس کتاب میں ملکیتی نمبر خسرہ کے علاوہ گائوں میں موجود شاملات، سڑکیں ، راستے عام ، قبرستان ، بن ، روہڑ وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر خسرہ الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کر کے الگ الگ رقبہ برآمدہ کا اندراج کیا گیا۔ اکثر خسرہ جات کے وتر، عمود کے اندراج برائے صحت رقبہ بھی درج ہوئے پھر اسی حساب سے یہ رقبہ بصورت مرلہ ، کنال ،ایکڑ، مربع ، کیلہ درج ہوا اور گائوں ، تحصیل ، ضلع اور صوبہ جات کا کل رقبہ اخذ ہوا۔ اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام تحصیلدار اور افسران بالا کی جانب سے ہوا تھا۔ اس کا نقشہ مساوی ہائے کی صورت آج بھی متعلقہ تحصیل آفس اور ضلعی محافظ خانہ میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری کپڑے پر نقشہ تیار کر کے اپنے دفتر میں رکھتا ہے۔ جب نیا بندوبست اراضی ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔
اس پیمائش کے بعد ہر ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام درج ہوئے۔ ان لوگوں کا شجرہ نسب تیار کیا گیا اور جس حد تک پشت مالکان کے نام صحیح معلوم ہو سکے ، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا ، جو آج بھی اتنی موثر ہے کہ کوٸی بھی اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کرنے کی کوشش کرے مگر کاغذات مال کا ریکارڈ کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا۔ تحصیل یا ضلعی محافظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے ،یہ ریکارڈ پردادا کے بھی پردادا کی قوم ، کسب اور سماجی حیثیت نکال کر سامنے رکھ دے گا۔ بہرحال یہ موضوع سخن نہیں ۔ جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے، ان کے وارثوں کے نام شجرے کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثتی مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے ۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔
شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت جسے جمع بندی کہتے ہیں اور اب اس کا نام رجسٹر حقداران زمین تبدیل ہوا ہے، وجود میں آیا ۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام ،نمبر کھیوٹ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوا۔ ہر چار سال بعد اس دوران منظور ہونے والے انتقالات بیعہ ، رہن ، ہبہ، تبادلہ ، وراثت وغیرہ کا عمل کر کے اور گزشتہ چار سال کی تبدیلیاں از قسم حقوق ملکیت، کاشت کار کی تبدیلی ، رجسٹر گرداوری کی تبدیلی یا زمین کی قسم کی تبدیلی وغیرہ کا اندراج کر کے نیا رجسٹر حقداران تیار ہوتا ہے اور اس کی ایک نقل ضلعی محافظ خانہ میں داخل ہوتی ہے ۔ اس دستاویز کے نئے اندراج کے لئے انتہائی منظم اور اعلیٰ طریقہ کار موجود ہے ۔ اس کی تیاری میں جہاں حلقہ پٹواری کی ذمہ داری مسلمہ ہے ،وہاں گرداور اور حلقہ آفیسر ریونیو سو فیصد پڑتال کر کے نقائص برآمدہ کی صحت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ ضابطے کے مطابق افسران مذکور کا متعلقہ گائوں میں جا کر مالکان کی موجودگی میں اس کے اندراج کا پڑھ کر سنانا اور اغلاط کی فہرست جاری کرنا ضروری ہے، جن کی درستی کا پٹواری ذمہ دار ہوتا ہے۔ آخر میں تحصیلدار سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ اب یہ غلطیوں سے مبرا ہے۔
رجسٹر حقداران زمین کے ساتھ رجسٹر گرداوری بھی تیار ہوتا ہے، جس میں چار سال کے لئے آٹھ فصلات کا اندراج کیا جاتا ہے۔ مارچ میں فصل ربیع اور اکتوبر میں فصل خریف مطابق ہر نمبر خسرہ، کیلہ موقع پر جا کر پٹواری مالکان و کاشتکاران کی موجودگی میں فصل کاشتہ و نام مالک ،حصہ بقدر اراضی اور نام کاشتکار کا اندراج کرتا ہے۔ ہر فصل کے اختتام پر ایک گوشوارہ فصلات برآمدہ تیار کر کے اس کتاب کے آخر میں درج کیا جاتا ہے کہ کون سی فصل کتنے ایکڑ سے کتنی برآمد ہوئی۔ اس کی نقل تحصیل کے علاوہ بورڈ آف ریونیو کو بھجوائی جاتی ہے ، جس سے صوبہ اور ملک کی آئندہ برآمدہ اجناس کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اس رجسٹر میں نہری اور بارانی علاقوں کی موقع کی مناسبت سے اقسام زمین نہری، ہیل، میرا، رکڑ ، بارانی اول ، بنجر ، کھندر وغیرہ کے علاوہ روہڑ ، بن ، سڑکیں، رستہ جات ، قبرستان ، عمارات اور مساجد وغیرہ بھی تحریر کی جاتی ہیں۔ یہ رجسٹر ریونیو کی اہم دستاویز ہے اور مطابق قانون اس کی جانچ پڑتال گرداور سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک موقع پر کر کے نتائج تحریر کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ رجسٹر انتقالات میں جائیداد منتقلہ کا اندراج کیا جاتا ہے۔ اس میں نام مالک ، جس کے نام جائیداد منتقل ہوئی، گواہان ، نمبر کھیوٹ ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ حصہ منتقلہ ، زر ثمن ، پٹواری مفصل تحریر کرتا ہے ،گرداور جملہ کوائف تصدیق کرتا ہے اور ریونیو آفیسر (تحصیلدار) بوقت دورہ پتی داران، نمبرداران کی موجودگی میں تصدیق کر کے فیصلہ کرتا ہے ۔ پرت پٹوار پر حکم لکھتا ہے اور پرت سرکار برائے داخلہ تحصیل دفتر ہمراہ لے جاتا ہے ۔ کاغذات مال متذکرہ کے علاوہ بھی کئی دستاویزات ہوتی ہیں، جن سے جملہ ریکارڈ آپس میں مطابقت کرتاہے اور غلطی کا شائبہ نہیں رہتا۔ جو کاغذات ہر وقت استعمال میں رہتے ہیں ان کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے ،ورنہ پٹواری کے پاس ایک’’لال کتاب‘‘بھی ہوتی ہے،جس میں گائوں کے جملہ کوائف درج ہوتےہیں جیسے اس گائوں کاکل رقبہ،مزروعہ کاشتہ،غیر مزروعہ بنجر، فصلات کاشتہ،مردم شماری کا اندراج ، مال شماری جس میں مویشی ہر قسم اور تعدادی نر، مادہ ، مرغیاں ، گدھے ، گھوڑے ، بیل،گائے،بچھڑے غرض کیا کچھ نہیں ہوتا۔ جس طرح یہ محکمہ بنا اور اس کے قواعدوضوابط بنائے گئے اور متعلقہ اہلکاران و افسران کی ذمہ داریاں مقرر ہوئی تھیں، اگر ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تو اس سے بہتر نظام زمین کوئی نہیں۔ یہ نظام انگریز کے دور میں بہترین اور 1964-65ء تک نسبتاً بہتر چلتا رہا...

زمین ریکارڑ سے بہترین شجرہ نسب کا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا۔

23/02/2024

lo g

17/02/2024

Han g hun dasoo

28/09/2023

اینکر عمران ریاض کی نئی تصویر جاری❤️اس تصویرو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے فیس بک تو ماشاءالله ماشاءالله
سے بھر گئی ہے صدقے مرشد قربان لوو یو 😘😘😘 💯

💞

15/07/2023

پیٹرول 9 روپے سستا

Photos from Rawalpindi city's post 06/07/2023

*راولپنڈی جیسا میں نے دیکھا*
راجہ فخر الاسلام

یہ زیادہ پرانے وقتوں کی بات نہیں 1960 سے 1980 کے درمیان کی بات ھے راولپنڈی ایک چھوٹا سا (آج کے مقابلے میں) اور انتہائی پرسکون شہر تھا ۔ نہ یہ بے ہنگم ٹریفک اور نہ اتنا ہجوم ۔
میرے دادا جی فوج سے بطور جمعدار (نائب صوبیدار) ریٹائرمنٹ کے بعد جی ایچ کیو میں ہی اے کے ڈیوٹی دے رہے تھے اس لئے انھوں نے نئی ابادی نمبر 1 ٹینچ بھاٹہ (موجودہ جان کالونی جو اونچی جگہ پر ھے) میں مکان خریدا کیونکہ یہ جی ایچ کیو کے نزدیک تھا اور وہ پیدل آتے جاتے تھے۔
اسوقت گھر عموماً ایک جیسے ہی تعمیر کیے جاتے تھے جس کے فرنٹ میں بیٹھک، ساتھ میں انٹرس والا دروازہ آگے ڈیوڑھی جس پر چھت بھی ہوتا تھا اور کھلی بھی۔ اس کے آگے کنواں اسوقت تقریباً ہر گھر میں کنواں ہوتا جس کے منہ پر دونوں سائیڈوں پر چھوٹے سے ستون بنے ہوتے تھے جس میں ایک موٹا سریا لگا ہوتا جس کے درمیان لکڑی کی پھرکی لگی ہوتی جس پر رسے سے ڈبہ باندھ کر کنواں سے پانی نکالا جاتا تھا۔ کہیں کہیں محلے گاؤں میں بڑے کنواں ہوتے تھے جہاں سے سارے لوگ پانی بھرتے تھے یا پھر ماشکی مشک میں پانی بھر کر لوگوں کے گھر میں ڈالتا تھا۔
کنواں کے سامنے ایک چھوٹی سی چار دیواری بنی ہوتی تھی جس کے اوپر چھت نہیں ہوتا جو نہانے کے لئے استعمال ہوتی تھی اس کے ساتھ کھلا صحن جس پر چھت نہیں ہوتی تھی تاکہ دھوپ اور ہوا وغیرہ لگ سکے۔ اس کے آگے برآمدہ اور رسوئی (کچن) ہوتا تھا ۔ آگے جگہ کے مطابق ایک یا دو کمرے ہوتے تھے۔ صحن کی دیواریں چھوٹی ہوتیں تھیں اور عورتیں گھر کے کام کاج کے بعد ٹپائی یا چارپائی رکھ کر حالات حاضرہ پر باتیں کرتیں تھیں اس کے علاؤہ یہ دیواریں ایک دوسرے کے گھر سالن میٹھا وغیرہ کے تبادلے کے لئے بھی استعمال ہوتیں تھیں نمک مرچ یا کوئی گھر کی ضرورت کی چیز بھی ہمسایوں سے یہیں سے مانگی جاتی تھیں۔
زیادہ تر گھروں میں لیٹرین وغیرہ نہیں ہوتی تھیں اور رفع حاجت کے لئے عورتیں رات کو اور مرد حضرات صبح کھیتوں میں جاتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد گھر کی چھت پر لیٹرینیں بننا شروع ہو گئیں جن کی صفائی کے لئے روز جمدار اور جمدارنیاں آتی تھیں اور ٹین میں گند اٹھا کر لے جاتیں تھیں۔ بعد میں گھر کے اندر کمروں میں اٹیچ واش روم بن گئے ۔
ہمارے گھر کے سامنے شمال کی طرف کھیت اور ڈھلان میں برساتی نالہ جس کے سامنے اونچائی پر اینٹوں کا پڈھا تھا۔ نالے سے اوپر چڑھو تو سامنے کھیت ہی کھیت اور اسوقت کمال آباد اور غازیہ آباد وغیرہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ وہاں تھور کے پودے جس کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں جگہ جگہ لگے ہوئے تھے۔ کھیتوں کے آگے ایک پہاڑی نما ٹبے پر بابا گروٹی کی خانقاہ تھی اور نیچے راستہ جراحی (اسوقت صاف پانی کا نالہ تھا ) تھی جہاں عورتیں گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر کپڑے دھوتی تھیں اور بچے بڑے نہاتے تھے۔ گروٹی اور جراحی کے راستے میں گڈوی والوں کے چند گھر تھے یہ لوگ شادی یا بچے کی پیدائش پر محلوں میں جا کر گڈوی بجا کر گیت گا کر پیسے کماتے تھے ۔
مشرق کی طرف ابادی نہ ہونے کے برابر تھی یہ پیپلز کالونی کافی بعد جا کر بنی۔ ڈھوک سیداں چوک میں اومنی بس سٹاپ بننے کے بعد آمنے سامنے ہوٹل اور چند دوکانیں بن گئیں ۔ ڈھوک سیداں سے سیدھا راستہ گرجے کھیری مورتی وغیرہ کی طرف جاتا تھا راستے میں ہر طرف کھیت تھے اسی طرح ڈھوک سیٹ کے دائیں جانب راستہ چاکرے نون اور پھر گولڑہ موڑ پر پشاور روڈ سے ملتا تھا بعد میں یہاں حاجی کیمپ بن گیا راستے میں ہر طرف کھیت ہی کھیت اور ہریالی ہی ہریالی تھی۔ چوک سے بائیں جانب راستہ بکرا منڈی کی طرف نکل جاتا تھا۔
ٹینچ سے مغرب کی طرف بائیس نمبر چونگی کی طرف رستہ جاتا تھا۔ بائس نمبر کے دائیں طرف ہارلے سٹریٹ جو اسوقت رہائشی علاقہ تھا اس کے آگے بابا گوراں والے کی زیارت جہاں لوگ جمعرات کے دن چراغ جلاتے تھے پھر بکرا منڈی ، دھمیال چکری کی طرف نکل جاتا تھا۔ قائد اعظم کالونی ، لیاقت کالونی اشرف کالونی کا وجود نہیں تھا بلکہ موجودہ قائد اعظم کالونی کے پاس لکھن گاؤں ہوتا تھا۔ دھمیال روڈ پر مسروٹ ڈیم تھا جہاں دن کے وقت لوگ جاتے تھے چکری روڈ پر آگے رنیال ، میرا اور چہان تک اومنی بسیں چلتیں تھیں دور دور تک اکا دکا گھر تھے ہر طرف کھیت اور ہریالی تھی ان علاقوں میں ویرانی کی وجہ سے لوگ شام کو بلکل سفر نہیں کرتے تھے ۔
بائیس نمبر چونگی سے سیدھا راستہ جی ایچ کیو ، سی ایم ایچ ، لالکرتی ، کچہری کی طرف نکل جاتا تھا ۔ بائیس نمبر چونگی میں ٹانگوں کا بڑا اڈا تھا جہاں شیڈ اور گھوڑوں کے پینے کے لئے پانی کے حوض بنے ہوئے تھے۔ یہاں سے ٹانگے کچہری ، صدر ، راجہ بازار کی طرف جاتے تھے ۔ ٹینچ سے ٹانگے بھی ان ہی روٹس پر چلتے تھے۔ بائیس نمبر چونگی کے ساتھ اس سیدھے رستے میں بائیں جانب بڑی سی نرسری ، پھر دھوبی گھاٹ ، پھر سی ایم ایچ۔ اسوقت سی ایم ایچ کے اندر راستہ پبلک کے لئے عام تھا اور اس کے درمیان سے گزر کر بچے سامنے سی بی سکول جاتے تھے دائیں جانب گورا قبرستان کے ساتھ ایک رستہ ڈھیری چوک اور دوسرا راستہ ٹاہلی موہری چوک نکل جاتا تھا۔
بائس نمبر کے سیدھے کے تھوڑے آگے جا کر جی ایچ کیو آ جاتا تھا اور آگے لالکرتی جہاں پہلے ایوب ہال اس کے سامنے سی بی سکول اور آگے بائیں جانب تصویر محل سینما اور لالکرتی بازار تھا۔
لالکرتی کی طرف مڑنے کی بجائے سیدھا جائیں تو ایوب ہال کے ساتھ کانونٹ سکول آتا تھا اور یہ رستہ کچہری کی طرف نکل جاتا تھا۔ کچہری سے پہلے دائیں جانب روڈ اڈیالہ کی طرف جاتا تھا جس کے شروع میں دائیں جانب آرمی پبلک سکول اور 501 ورکشاپ کا فٹبال گراؤنڈ تھا۔ بائیں جانب 501 اور 502 ورکشاپ ان کے سامنے تلسہ روڈ جس پر سینٹ میری سکول تھا اڈیالہ روڈ پر کہیں کہیں تھوڑی بہت ابادی تھی اور ان علاقوں میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ گورفر اڈیالہ روڈ پر جیل بننے سے تھوڑی بہت ٹریفک نظر آنے لگی۔ گورفر کے آگے اونچی جگہ پر اڈیالہ گاؤں تھا۔

یہ چوک کراس کر کے سیدھے ہاتھ پر کچہری، بائیں جانب مڑیڑ چوک اور سیدھے راستے پر تھوڑا آگے جا کر بائیں جانب جھنڈا چیچی جس کو گکھر راجہ جھنڈا خان نے آباد کیا تھا۔ اس سے آگے دائیں جانب چکلالہ سکیم تھری اور پھر آگے پرانا ایرپورٹ آ جاتا تھا جس کے دائیں جانب کچھ ابادی تھی۔
کچہری سے آگے جی ٹی روڈ (اب جہلم روڈ ) شروع ہو جاتی جس کے بائیں جانب چیف آف آرمی سٹاف ہاؤس اور سڑک کے دائیں جانب سی او ڈی کی باؤنڈری وال ھے اس سے آگے بائیں جانب ایوب پارک موجودہ نیشنل پارک ا جاتا تھا۔ ایوب پارک اسوقت راولپنڈی کی سب سے بڑی تفریح گاہ تھی جس میں داخل ہونے کے بعد جھیل پر بنی چھوٹی سی پلی آتی تھی جس کو کراس کر کے بائیں جانب جھیل تھی اور اس میں لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ سامنے ایک کیفے ٹیریا تھا جس کے پیچھے باغیچے کے ساتھ جھیل پر ایک چھوٹی سی پلی تھی جس کو کراس کر سامنے ایک بلڈنگ ہوتی تھی جس میں شیشے میں پانی میں رنگ برنگی مچھلیاں تھیں اور کچھ نوادرات تھے۔ پارک میں مختلف اقسام کے جھولے تھے جو سب کے سب فری تھے جن میں پینگ، گول چکر والے جھولے ، سیڑھیوں پر چڑھ کر سلپ ہونے والے۔
آس پاس چند چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں جن کے ٹاپ پر چھتریاں بنی ہوئی تھیں جن کے اندر سیمنٹ کے بنے بنچ تھے۔ لوگوں کے بیٹھنے کے لئے بنچ پارک میں مختلف جگہوں پر بنے ہوئے تھے ۔ ایوب پارک سے نکل کر آگے جہلم روڈ پر سواں کے پاس فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال تھا جو کافی اونچائی پر تھا سواں پر پل کراس کر روات کی طرف نکل جاتے تھے جو اسوقت ایک چھوٹا سا اڈا تھا اس کے دائیں جانب روات قلعہ ھے جو گکھڑوں سے منسوب ھے یہاں پر گکھڑ سلطان سارنگ خان اور اس کے سولہ بیٹے مدفون ہیں جنھوں نے اسلام شاہ سوری کے ساتھ جنگ میں شہادت حاصل کی ۔ بائیں جانب راستہ کلر سیداں کی طرف نکل جاتا ھے اور تھوڑا سا جی ٹی روڈ پر آگے جا کر دائیں جانب راستہ چک بیلی کی طرف نکل جاتا ھے۔
بائیس نمبر چونگی کے بائیں جانب راستہ آر اے بازار صدر گوالمنڈی راجہ بازار مڑیڑ چوک مری روڈ کی طرف نکل جاتا ھے ۔ یہاں ٹانگوں کے اڈے کے ساتھ بڑا سا گراؤنڈ اور سامنے سرکاری کواٹرز تھے۔ آر اے بازار کی طرف سامنے عام پبلک رستہ تھا۔ تھوڑا سا آگے جا کر بائیں جانب آر اے بازار اور دائیں جانب جی ایچ کیو تھا ۔ آر اے بازار میں اسوقت سی بی پرائمری سکول تھا جو کہ اب ایف جی ہائی سکول بن چکا ھے۔ تھوڑا سا آگے آر اے بازار پولیس چوکی تھی جو اب پولیس سٹیشن بن چکی ھے۔
آر اے بازار کراس کر کے ہم مال روڈ پر پہنچ جاتے ہیں جس کے دائیں جانب روڈ کچہری پہنچ جاتی ھے۔ کچہری والی روڈ کے دائیں جانب راولپنڈی کلب اور کرکٹ سٹیڈیم ہوتا تھا جس کی کوئی چاردیواری نہیں تھی یہاں پر کرکٹ کے انٹر نیشنل میچ ہوتا تھے بائیں جانب فلش مین ہوٹل اس کے آگے چوک ھے جو بائیں جانب مڑیڑ چوک کی طرف اور دائیں جانب جی ایچ کیو کی طرف جاتا ھے یہ جی ایچ کیو والا روڈ بھی اسوقت پبلک روڈ تھا اور اس پر عام ٹریفک چلتی تھی جو لالکرتی اور آر اے بازار کی طرف جاتی تھی ۔ چوک کے پار دائیں جانب آرمی ہاکی سٹیڈیم تھا جس میں لوکل کے علاؤہ انٹرنیشنل میچ بھی ہوتے تھے اس کے منسلک فٹبال گراؤنڈ تھا جہاں سکولوں اور کالجوں کی ٹیموں کے درمیان مقابلے ہوتے تھے ۔ تھوڑا سا آگے جا کر پرل کانٹیننٹل ہوٹل آتا تھا اس کے ساتھ اندر بھی جی ایچ کیو کے ساتھ پبلک روڈ تھی۔ جی ایچ کیو کے ساتھ آرمی میوزیم تھا وہ بھی پبلک کے لئے عام تھا۔ ہوٹل کے تھوڑا سا آگے سرسید کالج تھا
مال روڈ کے اس چوک کے سامنے کشمیر روڈ تھا جبکہ بائیں جانب روڈ جو پشاور روڈ سے جا ملتا تھا اس پر اوڈین اور پلازہ سینما تھے جن کے سامنے بڑا سا باغیچہ تھا اور سایہ دار درخت تھے باغیچے کے اندر بیٹھنے کے لئے سیمنٹ کے بنے بینچ تھے جہاں لوگ گرمیوں میں دن کے وقت آرام کرتے تھے شام کو اس باغیچے میں مالشی تیل کی شیشیاں اٹھا کر پہنچ جاتے اور لوگوں کو گھاس پر لٹا کر ان کی مالش کرتے تھے ۔ ان سینما کے ساتھ کنٹونمنٹ بورڈ کا دفتر تھا۔ سامنے ایم ایچ تھا کنٹونمنٹ بورڈ اور ایم ایچ کے درمیان سڑک اسوقت پبلک کے لئے عام تھی دائیں جانب ایم ایچ کا واحد گیٹ تھا اور بائیں جانب ایک سکول تھا ۔ ایم ایچ کے ساتھ مینٹل وارڈ تھا جو عابد مجید روڈ کے ساتھ ٹچ کرتا تھا۔ مینٹل وارڈ کے بائیں جانب تھوڑا سا آگے ایک چھوٹا سا باغیچہ بنا ہوا تھا اس کے آگے فٹبال کا گروانڈ ۔ گروانڈ کے دائیں جانب سڑک پر آرمی یونٹ کا گیٹ اور نیچے رستہ نالے کے ساتھ عابد روڈ مجید پر موجودہ آرمی میڈیکل کالج کے پاس نکل آتا تھا جبکہ نالے کے دائیں جانب دھوبی گھاٹ ہوتا تھا۔ آرمی میڈیکل کالج کے ہال میں اسوقت گریزین سینما ہوتا تھا جس کے ٹکٹ انتہائی سستے تھے ۔
کنٹونمنٹ بورڈ سے آگے پشاور روڈ کی طرف چلیں تو دائیں جانب تکونہ باغ (رومی پارک ) اور بائیں جانب ایم ایچ تھا۔ رومی پارک میں ایک چبوترہ کسی کی یادگار کے طور پر بنا ہوا تھا ۔ رومی پارک صاف ستھرا اور سایہ دار درختوں سے بھرا ہوا تھا ۔ یہاں بچوں کے لئے مختلف قسم کے پبلک جھولے لگے ہوئے تھے ساتھ ساتھ سیمنٹ کے بینچ کچھ فاصلے پر لوگوں کے بیٹھنے کے لئے بنے ہوئے تھے ۔ رومی پارک کے اندر سوئمنگ پول بھی تھا جو اسوقت عام پبلک بھی استعمال کرتی تھی۔ رومی پارک کے سامنے پشاور روڈ سے لنک روڈ ایم ایچ کے ساتھ اندر جاتی تھی جو عابد مجید روڈ کہلاتی تھی اس کے دائیں جانب بہت بڑا پولو گراؤنڈ تھا جہاں آرمی کی ٹیمیں پولو میچ کھیلتی تھیں اور عام دنوں آس پاس کے علاقوں کے لڑکے کرکٹ کھیلتے تھے رات کو ڈرائیونگ سیکھنے کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا ۔ رومی پارک کی بائیں جانب روڈ ٹرانزٹ کیمپ جہاں فوجی حضرات دور دراز آرمی یونٹوں میں جانے کے لئے رکتے تھے ۔ٹرانزٹ کیمپ کے ساتھ دائیں طرف ریلوے لائن کے اوپر پل تھا جو کراس کر کے دتہ امرال میں داخل ہو جاتے تھے جبکہ سیدھا راستہ بیکری چوک ، الہ آباد (بیکری چوک سے بائیں جانب) ڈھوک حسو اور گنج منڈی راجہ بازار) بیکری چوک کے دائیں جانب).
رومی پارک سے تھوڑا سا آگے پشاور روڈ پر باتیں جانب سپریم کورٹ کا دفتر تھا جو بعد میں سواں کیمپ کے روڈ کی بائیں جانب پہاڑی پر شفٹ ہو گیا اور اس کے بعد اسلام آباد میں ۔ پشاور روڈ پر آگے دائیں جانب پولیس چوکی (جو اب ٹینچ ڈھوک سیداں روڈ پر شفٹ ہو چکی ھے) کے ساتھ ریس کورس گراؤنڈ تھا جہاں پر ہر سال 6 ستمبر یوم دفاع بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا تھا پبلک کو عام اجازت تھی اور ریس کورس گراؤنڈ پبلک سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور جگہ جگہ آرمی ، ٹینکوں ، مشین گن کھڑی ہوتی تھیں جن میں بچے بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے تھے ۔ درمیان میں سلامی کا چبوترہ بنا ہوتا تھا جس پر صدر مملکت ، اور دیگر حکومتی اراکین بیٹھے ہوتے تھے ۔ چبوترے کے سامنے سے آرمی کے مختلف کور رجمنٹ کے دستے صدر مملکت کو گارڈ آف آنر پیش کرتے ہوئے گزرتے آخر میں کمانڈو کا دستہ سلامی پیش کرتا جس کی ان شان ہی نرالی ہوتی تھی اس کے بعد فضا یکایک جنگی جہازوں کی آواز سے گونج اٹھتی تھی ایرمارشل قیادت کرتے اور یہ جہاز ہوا میں قلابازیاں کھاتے ہوئے سلامی پیش کرتے پھر کمانڈو فضا سے پیرا شوٹ کے ذریعے اترتے تھے۔
ریس کورس گراؤنڈ پشاور روڈ کی بائیں جانب قاسم مارکیٹ سے آگے چان ماریاں کا بڑا گراؤنڈ ہوتا جس کے سامنے ٹیلے بنے ہوتے تھے ان پر فوجی جوان فائرنگ کی پریکٹس کرتے تھے اس گروانڈ کے بائیں جانب کعب لائن جس میں فوجی افسران کے ذاتی مکان بنے ہوئے تھے اس کے آگے بس اللہ کا نام اور کھیت تھے۔ کعب لائن کے ساتھ راستہ ڈھوک چوہدریاں اور عزیز آباد کی طرف نکل جاتا تھا۔
ریس کورس گراؤنڈ کے آگے پشاور روڈ پر چوہڑ چوک پھر چوہڑ ڈپو جس کے اندر اومنی بسیں دن کی مشقت کے بعد آرام کرتیں اور صبح پھر کام کاج کو نکل جاتیں ۔ ڈپو کے دائیں جانب آلہ آباد کا علاقہ تھا ۔ پشاور روڈ پر تھوڑا سا آگے جا کر دائیں جانب روڈ پیر ودھائی کی طرف مڑ جاتی تھی اور اس پر بائیں جانب ریلوے کیرج فیکٹری تھی۔ پشاور روڈ پر اس سے آگے بائیں جانب کوہ نور مل پھر گولڑہ موڑ جہاں سے گولڑہ شریف کی طرف رستہ نکل جاتا تھا۔ گولڑہ موڑ سے تھوڑا سا آگے پشاور روڈ کے بائیں جانب پہلے گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل کالج کے پروفیسر صاحبان کے سرکاری گھر تھے اس کے بعد کالج کا مین گیٹ ۔ گیٹ میں داخل ہوتے ساتھ بائیں جانب بہت بڑا ہال تھا جو کالج فنکشن کے لئے استعمال ہوتا تھا اس سے آگے بڑا سا برآمدہ جس کے سامنے بڑا سا گراؤنڈ جس میں لڑکے فارغ وقت میں ہاکی، فٹبال اور کرکٹ کھیلتے تھے ۔ برآمدے کے بائیں جانب کیفے ٹیریا اور بہت بڑا ہاسٹل تھا جس میں دوسرے شہروں اور دور دراز کے علاقوں کے لڑکے دوران تعلیم رہتے تھے۔ برآمدے کے دائیں جانب آفس اور لائبریری ۔ اس کے آخر میں نیچے سیڑھیاں اتر کر ڈبل سٹوری کے پانچ چھ بلاک جو کلاس روم کے طور پر استعمال ہوتے تھے اور ان کے نیچے ورکشاپ میٹل ورک، ووڈ ورک، فاؤنڈری ، مشین شاپس، آٹو ورکشاپ ، ایر کنڈیشنڈ اور الیکٹرانک ورکشاپ وغیرہ ۔
یہ ٹیکنیکل کالج اسوقت ایشیا کا سب سے بڑا کالج تھا اور یہاں لڑکے مختلف علاقوں سے آ کر نہ صرف تھیوری بلکہ پریکٹیکل کام سیکھتے تھے اور یہاں سے پورے ملک کو سکل مین پاور مل جاتی تھی لیکن افسوس جنرل ضیاء الحق مرحوم نے صرف اس سوچ کے ساتھ کہ یہاں کے طلباء ہر حکومت کے خلاف سٹرائیک میں پیش پیش ہوتے ہیں کالج کو ختم کر کے یہاں ملٹری ای اینڈ ایم کالج بنا دیا یہ ملٹری کالج تو کہیں بھی بن سکتا لیکن قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا اس کے بعد سے لوگوں کا ٹیکنیکل تعلیم کی طرف سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے رجحان کم ہو گیا کیونکہ پرائیویٹ ٹیکنیکل کالجوں میں اس طرح کی پریکٹیکل سہولت میسر نہیں تھیں اور طلباء صرف رٹا لگا کر تھیوری پاس کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کو جاب کم ہی ملتی تھی۔
واپس آتے ہیں مال روڈ اور کشمیر روڈ پر ۔ کشمیر روڈ پر اگلے چوک سے پہلے دائیں جانب جنرل پوسٹ آفس)جی پی او) تھا جس کے سامنے لیٹر بکس لگا ہوا تھا اور مسافروں کے لئے انتظار گاہ بنی ہوئی تھی ۔ پوسٹ آفس کے پیچھے سرکاری کواٹرز بنے ہوئے تھے۔ چوک کے دائیں بائیں جانب حیدر روڈ تھی۔ دائیں جانب کچھ خاص نہیں تھا بائیں جانب چند قدم آگے دائیں جانب سیروز سینما تھا جس کے آگے درخت کے نیچے لوبیا چاٹ والا ہوتا تھا جس کا زبردست ذائقہ تھا۔ سیروز سینما کے آگے چوراہے کے بائیں جانب فیروز سنز پبلک لائبریری تھی اور دائیں جانب روڈ بینک روڈ سے گزر کر کنٹونمنٹ ہسپتال سے گزر کر ہاتھی چوک پہنچ جاتی تھی جہاں چھوٹا بازار ، باؤ محلہ ہوتا تھا ہاتھی چوک کی دوسری طرف کھوکھے نما تھڑے پر تلی ہوئی مچھلی ملتی تھی۔ ہاتھی چوک والی روڈ آگے ریلوے روڈ سے جا ملتی تھی۔ ریلوے روڈ سے پہلے یہاں پر فوجی یونیفارم بوٹ وغیرہ کی دوکانیں تھیں۔حیدر روڈ کے اگلے چوراہے پر دائیں جانب ایبٹ آباد کی ویگنوں کا اڈہ اور سامنے کینٹ پبلک سکول تھا اس طرف سکول کا چھوٹا دروازہ جو صرف صبح اور چھٹی کے وقت کھلتا تھا دوسری طرف محفوظ روڈ کی طرف سکول کا مین گیٹ تھا۔محفوظ روڈ ریلوے بکنگ آفس اور ریلوے اسٹیشن کی طرف نکل جاتا تھا ۔
کشمیر روڈ پر اگلا چوک بینک روڈ پر تھا ۔ بینک روڈ اور حیدر روڈ کے درمیان کشمیر روڈ کی بائیں طرف ایک بلڈنگ کے فرسٹ فلور پر برلاس کیفے تھے۔ بینک روڈ کے بائیں جانب کریم سموسے والا ہوتا جس کے سموسے ذائقہ دار اور مشہور تھے۔ اس سے آگے بائیں جانب نیشنل بینک تھا جس کے سامنے مسافروں کے لئے انتظار گاہ بنی ہوئی تھی جس کے پیچھے کھانے پینے کے ڈھابے بنے ہوئے تھے ۔ نیشنل بینک سامنے سڑک کے سامنے سپورٹس کی دوکان تھی۔ بینک روڈ پر جہاں اب گکھڑ پلازہ بنا ھے وہاں صرف ایک کریانے کی دوکان تھی اس سے آگے بائیں جانب قندھارا موٹرز کا دفتر اور دائیں جانب کیپیٹل سینما ہوتا تھا ۔ کیپیٹل سینما کے ساتھ دائیں جانب روڈ ریلوے روڈ پر نکل جاتی تھی دائیں جانب ریلوے اسٹیشن جہاں آپ فری آ جا سکتے تھے کوئی پارکنگ فیس وغیرہ نہیں ہوتی تھی ویسے بھی لوگ سواری کے لئے سائیکل ، ویسپا، موٹر سائیکل ، ٹانگہ اور مورس ٹیکسی استعمال کرتے تھے ۔ رمضان میں کھوجے مار سٹیشن پر مسافر بن کر کھانا کھاتے تھے۔
ریلوے روڈ پر کھانے پینے کے ہوٹل مسافروں کو چارپائی بستر بھی دیتے تھے ۔ یہاں پر کشمیر کی بسوں کا اڈہ تھا۔ سب سے بارونق جگہ پوڑیوں والا پل تھا جو ریلوے لائن کے اوپر بنا ہوا تھا ۔ اس پر طوطے سے فال نکالنے والے ، ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والے نجومی، زمرد یاقوت کے پتھروں والی انگوٹھیاں ، سقلہ، سرما، کان سے میل نکالنے والے غرض طرح طرح کے لوگ بیٹھے ہوتے تھے ۔ راجہ بازار پیدل اور سائکل پر جانے والوں کے لیے یہ شارٹ کٹ رستہ تھا ۔ پل کے اوپر سے گوالمنڈی دتہ امرال صدر سٹی صدر روڈ کا خوبصورت نظارہ ملتا تھا۔ پل کے دوسری طرف ٹانگے والے راجہ بازار کے لئے کھڑے ہوتے تھے اسوقت ان کا کرایہ صرف ایک آنہ تھا۔ پل سے اترنے کے بعد دائیں جانب گوالمنڈی بائیں جانب رتہ امرال اور سامنے سٹی صدر روڈ جو فوارہ چوک راجہ بازار کی طرف جاتا تھا ۔ سٹی صدر روڈ پر اسوقت عموماً سریا ، لکڑی ، ماربل اور چپس کی دوکانیں ہوتی تھیں ۔
کشمیر روڈ پر اگلا چوک کی طرف آدم جی روڈ اور دوسری طرف ہاتھی چوک کی طرف۔ سیدھا روڈ کامران مارکیٹ باؤ محلہ ، ملٹری اکاونٹس آفس سے آگے گوالمنڈی اور پوڑھی پل کی طرف دوسرا راستہ کامران مارکیٹ کے پیچھے سی بی گرلز کالج تھوڑ سا آگے ڈینیز بوائے ہائی سکول کی طرف سے مڑیڑ حسن چوک جس کے دائیں جانب لانگ روٹ کی ویگنوں کا اڈہ ہوتا تھا جو بعد میں موتی محل سینما کے پیچھے اور اب کچھ سواں کیمپ اور کچھ پیر ودھائی شفٹ ہو گیا ھے۔مڑیڑ چوک سے کچھ پہلے روڈ کی بائیں جانب ریلوے لائن کے ساتھ واہ فیکٹری وغیرہ کی ویگنوں کا اڈہ ہوتا تھا ۔
آدم جی روڈ کے شروع میں کشمیر روڈ کی دائیں جانب اور جی ٹی ایس کے اڈے کے ساتھ ٹانگوں کا شیڈ اور گھوڑوں کے پینے کے لئے پانی کی حوضیاں ہوتی جہاں سے ٹانگے مختلف جگہ جاتے تھے۔ آدم جی روڈ کے بالکل شروع میں بائیں جانب جی ٹی ایس کا مین اڈہ ہوتا تھا جہاں سے ملک کے طول و عرض کے لئے بسیں جاتی تھیں ۔ جی ٹی ایس اڈے کے سامنے میر جی میڈیکل سٹور اور چند قدم آگے بائیں جانب پونچھ ہاؤس کی عالی شان بلڈنگ ھے۔ آدم جی روڈ کے آخر سے بائیں جانب روڈ مریڑ حسن چوک اور پھر مری روڈ (جو غالباً کسی زمانے میں پہلوی روڈ کہلاتا تھا) ۔ مریڑ حسن کا ریلوے پل کراس کرنے کے بعد دائیں جانب سنگیت اور چند قدم آگے ریالٹو سینما تھا۔ جس کے پیچھے کچھ عرصے بعد سرسید روڈ پر موتی محل سینما بنا جس کی دو گیلریاں ہوتی تھیں ۔ ہال کے درمیان رنگوں والا چھت پر بلب لگا ہوا تھا جس کو آن کیا جاتا تو ایسے لگتا جیسے ہال کی طرف موتی گھوم رہے ہیں ۔ سرسید روڈ پر میڈیکل کالج اور وقار انساء گرلز کالج تھا ۔ سرسید روڈ آگے ایک طرف سے پرانے ایرپورٹ اور دوسری طرف سے ڈھوک کبھا، کوڑاں نے احاطہ اور کمیٹی چوک اس کے علاؤہ ڈھوک کبھے کی طرف نہ مڑھنے کی صورت میں سیدھا سلطان کے کھو (کنواں) کی طرف نکل جاتا تھا ۔ نام تو اس جگہ کا چاہ سلطان تھا لیکن یہاں پر بڑا سا کنواں ہوتا تھا جس لوگ پانی بھرتے تھے اس لئے اس کا نام سلطان دا کھو مشہور ہو گیا۔
ریالٹو سینما سے آگے گزر کر مری روڈ پر دائیں طرف اسلامیہ بوائز ہائی سکول اور بائیں جانب کمپنی باغ (موجودہ لیاقت باغ) ہوتا تھا جہاں ملک کے طول و عرض چلنے والی پرائیویٹ بسوں کا اڈہ ہوتا تھا جو مریڑ حسن چوک سے بائیں جانب مڑ کر کچہری سے جی ٹی روڈ پر چڑھ جاتی اور براستہ سواں روات سے اپنی اپنی منزل پر چلی جاتی تھیں پشاور کی طرف جانے والی بسیں ریلوے روڈ کے ساتھ ہوتے ہوئے پشاور روڈ پر چڑھ جاتی تھیں ۔ اسوقت ساری ٹریفک کا انہی روٹوں پر زور تھا۔ بعد میں یہ اڈہ پیر ودھائی شفٹ ہونے کے بعد اندرون شہر ٹریفک کا زور کم ہو گیا۔
کمپنی باغ عیدوں پر میلے لگتے تھے جس میں عالم لوہار مرحوم جگنی اور سیف الملوک سناتے تھے موت کا کنواں ایک اور دلچسپ تماشا تھا بڑے بڑے جھولے ہوتے تھے جن کے درمیان سیڑھی دار پول لگے ہوتے تھے ان پول پر جھولے والے چڑھ کر جھولوں کے ساتھ لٹک کر سپیڈ تیز کرتے تھے اور جب روکنا ہوتا تو مخالف جانب لٹک کر سپیڈ آہستہ کر کے روک لیتے تھے اس کے علاؤہ چھوٹے بچوں کے لئے گول دائرے میں گھومنے والے جھولے ہوتے تھے جن پر لکڑی کے مختلف جانور بنے ہوتے تھے بچے ان جانوروں پر بیٹھ کر جھولے لیتے تھے
لیاقت باغ سے آگے سیدھا روڈ کمیٹی چوک ناز سینما وغیرہ کی طرف چلا جاتا تھا جبکہ بائیں جانب جو لیاقت روڈ کہلاتا ھے فوارہ چوک راجہ بازار کی طرف نکل جاتا ھے ۔ اس روڈ پر چند قدم آگے دائیں طرف راولپنڈی کے قدیم گورڈن کالج کا مین گیٹ آتا ہے ۔ کالج کی دوسری طرف روڈ پر جنگ اخبار کا دفتر جو بعد میں شفٹ ہو کر ریالٹو سینما کے سامنے بلڈنگ میں آ گیا ۔ کچھ آگے چل کر راولپنڈی کی مشہور ڈش سیور پلاؤ تھا۔ لیاقت روڈ کی طرف سے راجہ بازار کی طرف سے آگے گوالمنڈی کی طرف جان والی سڑک آتی تھی جس کو کراس کر کے بائیں جانب نشاط سینما آ جاتا تھا جبکہ دائیں جانب جی ٹی بسوں کا چھوٹا سا اڈہ تھا۔ تھوڑا سا آگے جا کر بائیں ہاتھ پر امپریل سینما جو اب امپریل مارکیٹ بن گیا ہے سامنے ٹرنک بازار اور آگے فوارہ چوک جس کے بائیں جانب ٹانگوں کا اڈہ تھا اور یہ سٹی صدر روڈ کہلاتی تھی ۔فوارہ چوک کے بلکل سامنے روز سینما اور اس کے ساتھ ڈسٹرکٹ ہسپتال (سول ہسپتال) آگے تحصیل آفس اور پھر ناولٹی سینما سے آگے روڈ رتہ امرال کی طرف چلی جاتی تھی
فوارہ چوک کے روز سینما کے ساتھ بائیں جانب گنج منڈی اس روڈ کے بائیں طرف ٹرکوں کے اڈے اور دائیں جانب سودا سلف کی بڑی بڑی دوکانیں ۔ آگے یہ روڈ سیدھا پل پا کر کے ڈھوک حسو، بیکری چوک ، ویسٹریج اور الہ آباد وغیرہ کی طرف نکل جاتا تھا ۔
فوارہ چوک سے سیدھا پرانے قلعے کی طرف بائیں ہاتھ پہلے لنڈا بازار پھر نمک منڈی اور حبیب بینک کے جس کے ساتھ مری والی بسوں کا اڈہ ۔ دائیں ہاتھ اسوقت سبزی منڈی جو بعد میں پیر ودھائی شفٹ ہو گئ لیکن اب پیاز آلو وغیرہ کے بڑھے آڑھتی یہاں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ پرانے قلعے کے ساتھ اندر کی طرف بازار کلاں ،موتی بازار، اردو بازار، بھابڑا بازار اور لال حویلی کے ساتھ بوہڑ بازار ۔ بھابڑا بازار کی تنگ گلیوں میں سجان سنگھ کی شاندار حویلی تھی۔ اُردو بازار میں لوگ دور دور سے اپنی سائیکلوں ، اومنی بسوں اور ٹانگوں میں کتابیں کاپیاں خریدنے آتے تھے جو کہ محلے کی دوکانوں سے کافی سستی مل جاتیں تھیں ۔ راجہ بازار لوگ مہینے کا سودا سلف اور سبزیاں وغیرہ بھی خریدنے آتے تھے۔ پرانا قلعہ گکھڑ راجہ جھنڈا خان نے بنوایا تھا جس کے اب شاید تھوڑے بہت آثار موجود ہوں لیکن نام اب بھی زندگی ھے۔
پرانے قلعے سے آگے خورشید سینما تھا جس کے آگے جامع روڈ جس پر قدیم جامع مسجد ھے ۔ جامع مسجد سے چند قدم آگے بائیں طرف والا روڈ خیابان سرسید اور پیر ودھائی کی طرف نکل جاتا ھے جبکہ سیدھا روڈ بنی چوک اور محلہ وارث خان کی طرف جاتا تھا ۔ بنی چوک سے سیدھا راستہ سید پور روڈ کہلاتا تھا اور اس کے شروع میں بائیں جانب گورنمنٹ ڈگری کالج ، کالی ٹینکی اور ہولی فیملی ہسپتال تھے ۔ یہ روڈ گکھڑ راجہ سید خان نے سید پور گاؤں تک بنوایا اس لئے سید خان کی وجہ سے یہ روڈ سید پور روڈ کے نام سے مشہور ہو گیا ۔ دائیں بائیں کھلی جگہ اور کھیت تھے۔
اب ہم پھر لیاقت باغ واپس مری روڈ پر آتے ہیں لیاقت باغ سے آگے دائیں جانب ایک خانقاہ اور سکول تھا پھر کمیٹی چوک آ جاتا تھا جس کے دائیں جانب گلستان اور شبستان سینما تھے اور اس سے آگے ڈھوک کبھہ سے پرانا ایرپورٹ ۔ شبستان سینما کے بائیں جانب کوڑوں کا احاطہ اور ٹی بی ہسپتال تھا۔ کمیٹی چوک کے بائیں جانب روڈ بوہڑ بازار کی طرف نکل جاتی تھی ۔ مری روڈ پر بائیں جانب جہاں مہاراجہ ہوٹل ھے وہاں راجہ شاہد ظفر کے والد ظفر الحق آف ددھوچھہ کا گھر تھا جو سوشل سماجی اور سیاسی میٹنگ کے لئے استعمال ہوتا تھا ۔ آگے تیلی محلہ آریہ محلہ وارث خان ناز سینما اور سنٹرل ہسپتال (بے نظیر ہسپتال) کے سٹاپ آتے تھے ۔ سنٹرل ہسپتال سے چند قدم پہلے دائیں جانب روڈ سلطان کے کھو کی طرف جاتی تھی ۔ اس کے آگے چاندنی چوک جو ایک گول دائرے کی شکل میں بنا ہوا تھا اس کے بائیں جانب روڈ کمرشل مارکیٹ اور سید پور روڈ کی طرف نکل جاتی تھی۔ چاندنی چوک سے آگے رحمان اباد، سکستھ روڈ کے سٹاپ آتے تھے جہاں پر پرانا پاسپورٹ آفس ہوتا تھا سکستھ روڈ کے آگے بائیں جانب نیو ملپور تھا جو گکھڑوں کے مختلف گاؤں اسلام آباد میں آنے سے گکھڑ یہاں اور سید پور روڈ پر آباد ہو گئے تھے ۔
آگے کھلے کھیت پھر شمس آباد کے ساتھ فوجی یونٹ اوجری کیمپ اور پھر فیض آباد جہاں راجہ ایوب صاحب کا بنوایا ہوا یتیم خانہ اور سڑک کی دوسری طرف چھوٹی سی مسجد اور چند دوکانیں ۔ پیر ودھائی کی طرف سے آنے والے روڈ کے بائیں جانب تھوڑی سی ابادی تھی۔
راولپنڈی میں اسوقت اندرون شہر آنے جانے کے لئے اومنی اور ڈبل ڈیکر بسوں کا جال بچھا ہوا تھا جو صدر، راجہ بازار، کوہ نور مل، گولڑہ شریف ، نور پور شاہاں (بری امام) آبپارہ ، چک شہزاد ، راول ڈیم ، کچہری ، مورگاہ ، لالکرتی ، بائیس نمبر چونگی ، ٹینچ بھاٹہ، بکرا منڈی، دھمیال ، مسروٹ ڈیم اور چہان چکری روڈ وغیرہ ۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سواری ٹانگہ تھی جن کا جال پورے شہر میں پھیلا ہوا تھا اس کے بعد مورس ٹیکسی تھی غرض شہر کے اندر کسی جگہ بھی جانے کے لئے سستی سواری موجود تھی۔
راجہ بازار اور بڑی مارکیٹیں مغرب کے بعد بند ہو جاتی تھیں ۔ محلے وغیرہ کے بازار عشاء کے بعد بند ہو جاتے تھے۔ لوگ عشاء کے بعد جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے کے عادی تھے ۔
یوم آزادی اور عید میلاد النبی پر ٹینچ، لالکرتی ، صدر، راجہ بازار، رتہ امرال اور چوہڑ کے علاقے خصوصی طور پر سجائے جاتے تھے اور ان کا آپس میں باقاعدہ مقابلہ ہوتا تھا ۔

Videos (show all)

موتی بازار راولپنڈی میں بارش کا پانی جمع ہو گیا
پریڈ گراونڈ میں پی ٹی آئی کے جلسے کی جھلک

Website