Loud speker
تعلیم ہمارا بنیادی حق پے،ہمیں پین کتاب کے ساتھ ساتھ ایک سکول ایک کالج ایک یونیورسٹی چاہئے،اور ہم یہ چاہتے ہیں،پامیر خان ایک بچے کی سوچ سے
پٹھان کیش ہونے میں بہت سستا ہے پٹھان کو دنیا نے اپنی مفادات کے لیے ہر طرح کی پلیٹ فارم کیش کیا
دنيا اک ویرانہ ہے
اگر آپ کی سوچ ویران ہو
آفسر نگار خان
اپنی ضرورت کی سامان اٹھائے اور نکل جائیں سیلاب زدہ علاقوں سے حکومت کی انتظار میں موت کی انتظار مت کیجئے
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکاں ہے کچھ تو خیال کر
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بارشیں سیلاب تباہیاں شوباز اور تبدیلی سرکار کی خاموشیاں ہم ایسے دیس کے باسی ہیں جہاں کھلے عام شہریوں کی جان و مال کی تحقیر ہو رہی ہیں
وويل دلته خلک پېسي ګټي پښتنو تاسو ته پته شته خو بيا هم ورشي که څه قابليت درکوي دلته ئې ښکاره کړي پېسي اوګټي
Find the best global talent. One marketplace, millions of professional services. Browse. Buy. Done.
دلیل یہ ہے کہ شحصی خوشی چاہئے دلیل یہ ہے کہ اجتماعی سوچ مر چکی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ شحصی خوشی اجتماعیت میں ہیں دلیل یہ ہے کہ ہر شحص کامیاب نہیں ہو سکتا ہے دلیل یہ ہے کہ اجتماعی سوچ اجتماعی کامیابی ہے دلیل یہ ہے کہ اجتماعی کامیابی شحصی کامیابی ہیں۔ دلیل یہ ہے اجتماعی سوچ پر کیسے کام کیا جائے جہاں ہر کسی کو اپنی پڑی ہو۔ دلیل یہ ہے کہ ایسی اقوام تنزلی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ سوچ دیا جائے۔ دلیل یہ ہے کہ سوچ پر نہیں کسی کی کامیابی دیکھ کر ہماری سوچ بدل جاتی ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ ہم از قوم بہت تیزی سے تباہی کی طرف محو سفر ہیں۔
خدا حافظ ہو تمہارا
تصویر آپ کی توجہ کے لیے کیونکہ دلیل یہ ہے کہ آپ شارٹ کٹ اور چکاچوند پر یقین رکھتے ہو۔
افسر نگار خان
بدلتا اسماں
خود سے سوال کرتا ہے
کیا مجھے اتنا بدلنا چاہئے
کچھ دیر سوچ کے بعد کہتا ہے
میں کونسا وجود ہوں
خیال ہی تو ہوں
اور
خیال بدلتے رہتے ہیں
افسر نگار خان
پاکستان میں غربت جس تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں آنے والی نسل خشک میوہ جات کو صرف تصویروں دیکھ پائے گی۔۔۔۔۔
غربت ٹیک ہے مگر قحط قیامت ہے لہذا سبزیاں اور اناج اگایا کیجئے۔۔۔۔
ہائی بریڈ اور درآمد شدہ بیچ چھوڑ دیجئے ورنہ انسانوں اور جانوروں کی طرح ہماری زمین بھی بیمار پڑ جائے گی
خان صاحب نے پروپیگنڈوں کو مکار باجیاں ہائیر کئے ہیں۔۔۔۔مذہبی کارڈ طارق جمیل کے باجیوں کی شکل میں استعمال کر رہا ہے
چلتی زندگی خالی سڑک اور میں
صبح سویرے کہوں یا رات کی آخری پہر مگر ہے تو وقت کی سوئی جو چلتی رہتی ہیں۔ شاید کسی کو معلوم ہو کہ اس کی چلتی زندگی کی سوئی کہاں اٹھک جائیں اس رواں زندگی کی پرستش کیسے کیا جائے مہنگی زندگی کو کہاں اور کیسے زیادہ اور صحت مند کیا جائے یہ سوچ اب ہی پڑ گیا جب سامنے آنے والا کھانستا ہے مگر اس عمر میں ایکسرسائز اس لیے کرتا ہے تا کہ یہ مہنگی اور بے وفا کاروان کچھ وقت دنوں سالوں کے لیے اور کھینچا جائے۔ کہتے ہیں یادیں رہ جاتی ہے۔ میں نہیں مانتا ہوں کیونکہ یاد کرنے والوں کی سڑک بھی خالی ہو جاتی ہیں۔ کیا مطلب کیا فایدہ کیا کچھ معلوم نہیں ہے مگر زندگی ایک خوبصورت عذاب ہے۔
بدنامی زوال اور عدالتی موت کا وقت ہوا چاہتا ہے
ہم تو ڈوبے ہے صنم اور آخری بال
کہتے خان صاحب آخری بال کھیلنے سے ڈرتا ہے خان صاحب نے آخری بال کئ بار کھیلا مگر بہت کم لوگوں کو نظر ایا۔ دن ساڑھے دس بجے شروع ہوا قومی اسمبلی کا اجلاس رات کو بارہ بجے تک خود نہیں گیا نہ وقت کی مشین میں سپیڈ ڈالا گیا تھا بلکہ خان صاحب اپنے آخری بال کو رگڑا رہا تھا اتنا رگڑا رہا تھا تاکہ بال میں آگ لگ جائے جس بال میں آگ لگ جائے وہ بال نہیں گولا بن جاتی ہیں خان صاحب اپنی بال سے گولا بنانا چاہتے تھا تاکہ پوری سیسٹم کو جلایا جائے مگر خان صاحب کو علم نہیں تھا۔ کہ مخالف ٹیم ہر طرح کی تیاری سے لیس ہے کیونکہ وہاں کپتان آصف زرداری تھا زرداری کی ٹیم میں کئ تجربہ کار کھلاڑی شامل تھے جو خان صاحب کی ہر چال پر نظر رکھتے تھے۔ اپوزیشن لیڈر کی دو مینٹ چوالیس سکنڈ تقریر سے لیکر شاہ محمود قریشی کی پانچ گھنٹے وہی باتیں بار بار دہرانا چھوٹی چھوٹی باتوں پر اجلاس کی کاروائی روکنا حکومتی ارکان کا اجلاس کے اندر نازیبا نعرے لگانا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا صحافیوں کو گالی دینا یہ سب کچھ بال رگڑنے کے لیے پلان تھا مگر مخالف ٹیم کی کپتان زرداری نے صرف دو ہی باتوں سے گیم کا فیصلہ اور خان صاحب کی پلاننگ پر پانی پھیر دیا خان صاحب آخری بال اس لیے رگڑا رہا تھا تاکہ ہنگامہ ہو جائے اور یہ خان صاحب اور اس کی ٹیم کو برابر معلوم تھا کہ کہی نہ کہی سے چنگاری نکل جائے گی ایک ہی چنگاری کافی تھا اس سیسٹم کو جلانے کے لیے ایک چنگاری کافی تھا مارشلا لانے کے لیے لیکن مخالف ٹیم برف کی بھاٹ پر بیھٹے ہوئے تھے اور یوں بال کی رگڑائی نے الٹا باؤلر کو نقصان سے دو چار کیا یوں باؤلر بال پھینکتے ہی بیٹسمین نے اتنا لمبا چکا مار دیا کہ بال گراؤنڈ سے باہر چلا گیا خان صاحب کی سوشل میڈیا ٹیم نے مختلف چھوٹے چھوٹے پوسٹ لکھے ہیں کہ ایک ایماندار آدمی نکالنے ملک کو امریکہ کی ہاتھوں دینے کے لیے رات کو بارہ بجے تک عدالت تک کھلا رکھا ہوا تھا وغیرہ وغیرہ وہ ہر یوتھیا آگے شئیر کرتا رہا تھا مگر وہ یوتھیا کیا جس کو اس سیسٹم آئین کا علم ہو یا خود سے سوال پوچھے کہ بھائی مخالف ٹیم تو دن ساڑھے دس بجے ایا تھا رات بارہ بجے تک میچ کون لے گیا یہ سوچنے کی صلاحیت جس میں نہیں ہو تو آئین اور سیسٹم کو سمجھنا آسان نہیں ہے یہی آئین کا حصہ کہ اگر ملک میں سیاسی یا دوسرا ہنگامی حالات ہو مکننہ سے لیکر انتظامیہ الرٹ رہتی ہیں چونکہ آپ کا ملک کچھ دن سے سیاسی بد مزگی کا شکار تھا تو آپ کی فورسز بھی بارڈر پر الرٹ تھی مگر وہ یوتھیا کیا جس کی دماغ میں ایسے سوالات آئیں ویسے بھی جو لوگ امتحان میں نکل کرنے کی عادی ہو وہ کتاب کھلنے کی زحمت نہیں کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ امتحانی ہال میں کوئی ہنگامہ ہو تاکہ کسی طرح پاس ہو جائے یا امتحان ہی ملتوی ہو۔ خان صاحب نے ملک کی سالمیت داعو پر لگائی تھا وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے۔۔ یہ تمام حرکات قابل سماعت ہیں اگر کوئی عدالت میں چیلنج کرے تو؟
افسر نگار خان
Well come 🍎 to new members
سهار (سهر...سحر)شو
آدمی اور انسان میں کیا فرق ہے؟
زندگی امید سے نہیں عمل سے جیو
امید دھوکہ ہے
سردیوں میں بارش کی دعا مانگتی ہے
اک لڑکی ہے ہواؤں میں ہوا مانگتی ہے
اوراق اڑ گئے
مگر کہانی اب بھی باقی ہے
میری ہر رگ میں
خون کے زمرے زرے میں