Azm-e-Nau
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Azm-e-Nau, Media/News Company, .
دین کا علم علماء سے ہی سیکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم یوں کہتے ہیں کہ دین کو اسکے خالص چشموں اور مستند علماء ہی سے سیکھنا چاھیے توعموما پڑھے لکھے احباب کیجانب سے ایک رد عمل اَتا ھے کہ مولوی نے دین کی ٹھیکہ داری سنبھال رکھی ھے وہ چاھتا ہی نہیں کہ دیگر طبقات ازخود دین سیکھیں کہ سوال اسکی روزی روٹی کا ھے۔
حالانکہ امرِ واقعہ یہ ہیکہ دین کی سمجھ بوجھ تفقہ اور کماحقہ اسکے مسایل کا سمجھنا الگ چیز ھے اور عام سادہ ترجمہ قراَن یا فضایل کی احادیث کا سیکھ لینا بالکل جدا قصہ!محلہ کی جھاندیدہ اورعمررسیدہ بوڑھیاں اپنے تجربہ اور مہارت کی بنا پر بھت سے امراض کے ایسے ٹوٹکے بیان فرماتی ہیں کہ حاذق طبیب اور ماہرڈاکٹر بھی پانی بھریں انکے سامنے،تاہم انکی یہ مسلمہ لیاقت انہیں کسی طور یہ حق عطا نہیں کرتی کہ کسی سنگین نوعیت کے مریض کا قضیہ انکے سپرد کردیا جاے، بلکہ ایسے نازک مواقع پر خوب دہیان سے چھانٹ پہٹک اور تحقیق کرکے ہی کسی طبیب کا انتخاب کیا جاتا ھے۔
بعینہ یھی حال دینی امور کا ھے بھت ممکن ھے کہ کوئ بھائ صاحب اپنی عمر کا ایک حصہ اللہ والوں میں گزارکر روحانیت کے بلند مرتبہ پر فایز ھوں اور انکی بزرگی مسلمہ ھو تاہم انکی یہ عظمت انہیں ناتو فتوی دینے کی قوت بخشتی ھے ناہی دین کی تشریح کا حق تفویض کرتی ھے۔ بلکہ وہ احکامات کے باب میں کسی عامی کیطرح ایک عالم اور مفتی سے پوچھکر عمل کرنے کے پابند ہیں،
اَجکل کا بڑا فتنہ اور المیہ میڈیا ھے اس شعبہ سے وابستہ غالب اکثریت[نمایاں چہرے] دین بیزار اور مغربیت زدہ ہی ھوتے ہیں ایسے میں جن گنے چنے چہروں کو دین کے حق میں بات کرنے کا یہ پلیٹ فارم میسر ھے وہ اپنی حق گوئ کی بدولت بھت جلد عوام الناس کے دلوں میں جگہ بنالیتے ہیں اور ہیرو کا سا مرتبہ پالیتے ہیں۔تب پہر انکی ھربات مستند مان لی جاتی ھے اورانکی ذاتی سوچ پورے دیندار طبقہ کی ترجمان تصورکرلی جاتی ھے۔یہ ایک نہایت خطرناک رحجان پروان چڑھ رھا ھے اور اسکے نتایج کسی طور اچھے نہیں۔
ابہی ایک صاحب نے ایک مشہور کالم نگار کے مضمون کی بابت استفسار کیا حمیت کے جذبات سے مغلوب ان صاحب نے ھندوستان میں بسے کروڑوں مسلمانوں کو خطاکار اور عاصی ثابت کردکھایا اور قراَن وحدیث سے اپنے تییں دلایل بھی لاکھڑے کیے۔موصوف کا نقطہ نظر اسقدر سطحی اور بے اصل ھے کہ اسکی روسے تمام ھندی مسلمانوں کا ایمان خطرہ میں پڑ چکا ھے! قطع نظر اسکے کہ موصوف کا بیانیہ کسقدر لایق التفات ھے سوچنے کی بات یہ ہیکہ ہم اسلام اور دین کی تشریح کے باب میں اَخر اتنے لابالی کیوں ھوتے جارھے ہیں کہ جس شخص کو دس سطریں درست عربی پڑھنا لکھنا نا اَتی ھوں ہم اسکو اتھارٹی تسلیم کرلیتے ہیں ؟ وہ ٹھوکر کھاتا ھے اپنی ذاتی راے کو دین بناکر پیش کرتا ھے تولازما اسکی روک تھام دینی فریضہ ھے۔جب اس غبار کو دور کرنے مولوی بات کرتا ھے تو یار لوگ پہر خفا ھوجاتے ہیں کہ دیکھا! اولا تو تم خود کچھ کام ڈھنگ کا نہیں کرتے اب اگر اگلا کچھ انقلابی تجدیدی نوعیت کا کارنامہ سرانجام دے رھا ھے تو تم سدا کے جیلسی اس سے خار نکالنے نازل ھوجاتے ہو! اب بتلایے کہ ایسے میں چپ سادھ لینا کونسی خدمت ھوگی اسلام کی؟ اور ایسے مناظر ملت اور مفکر اسلام کی تصحیح ناکیجاوے تو یہ کیسا حلیہ دین کا بگاڑ کررکھ دیں؟ کیا ہی عمدہ ھو کہ ایسے میڈیائ مفکرین خود کو صحافت تلک ہی محدود رکہیں قراَن وحدیث کی تشریح وتطبیق کاکام اپنے ذمہ نالیں۔
فیس بکی یاداشتیں