Urdu Gandi Stories

Urdu Gandi Stories

Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Urdu Gandi Stories, Digital creator, .

29/05/2024

تین بہنوں کے ساتھ سیکس
پارٹ1
میرا تعلق گوجرانوالہ سے ھے لیکن جب میں پانچ سال کا تھا تو میرے والد صاحب انتقال کر گئے اور گھر کی زمہ داریاں بڑے بھائی پر آگئیں ۔ گھر کے حالات بھت اچھے تو تھے نہیں لہذا جلد ھی بھائی کام کے سلسلے میں فیصل آباد شفٹ ھو گئے۔ دو سال بعد بھائی نے ھم سب گھر والوں کو بھی فیصل آباد شفٹ کر لیا یوں ھم لوگ فیصل آباد کے ھو کر رہ گئے۔ اور کبھی کبھار اپنے عزیزو اقارب سے ملنے گوجرانوالہ کا رخ بھی کرتے اور اپنے5 مرلے کے آبائی گھر کا چکر بھی لگاتے تاکہ اس کی دیکھ بھال ھوتی رھے۔ میٹرک کرگے۔ کے بعد میں بلکل فری تھا تو سوچا کچھ دن گوجرانوالہ رہ لوں۔ چناچہ میں گوجرانوالہ آ گیا ۔فیصل آباد میں رھنے اور کو ایجوکیشن کی وجہ سے میرے اندر کافی اعتماد آگیا تھا جس کی وجہ سے لڑکے ھوں یا لڑکیاں کسی سے بات سے جھجکتا نھی تھا۔ گوجرانوالہ پہنچ کر میری روٹین یہ تھی کہ رات ساری کزنز کے ساتھ موویز دیکھتا رھتا تاش کھیلتا اور دن کو سوتا رھتا۔ ایک دن مجھے دن بارہ بجے آٹھایا اور بولیں نواب صاحب اُٹھیں اور جا کر علی کو، سکول سے لے آئیں۔ علی میرے 7 سال کے بھانجے کا نام ھے جو کہ کزن باجی کے گھر سے تھوڑی دور ایک پرائیویٹ سکول میں ٹو کلاس میں پڑھتا تھا۔میں نے کہا کیوں باجی آج کیا رکشے والے نے نھی آنا جو میری نیند خراب کر رھی ھیں۔ تو وہ بولی نھی رکشے والے کی بیٹی کی شادی ھے اور وہ ایک ھفتہ چھٹی کرے گا اور تب تک آپ نواب صاحب علی کو سکول سے لائیں گے جبکہ صبح اس کے پاپا اسے سکول چھوڑ دیا کریں گے۔ میں بادل نخواستہ اٹھا اور پیدل ھی سکول کی طرف چل پڑا۔ سکول زیادہ دور نھی تھی بمشکل سات آٹھ منٹ میں سکول پہنچ گیا۔ چھٹی ھونے میں ابھی دس منٹ تھے۔ میں سکول کے پاس ھی ایک شاپ پر بیٹھ گیا اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ تبھی میری نظر دوکان سے تھوڑی دور ایک گلی کی نکڑ پر پڑی۔ جہاں پر ایک لڑکی کھڑی میری طرف دیکھ رھی تھی۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا اور کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ نا پا کر اسی لڑکی کو دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ بھی نکڑ پر کھڑی ادھر اُدھر دیکھتی اور پھر میری طرف دیکھنے لگ جاتی۔ چند منٹ بعد میں نے ھاتھ ھلکا سا ھلا کر اسے اشارہ کیا تو وہ مسکرا کر گلی کے اندر چلی گئی۔ میرا، ارادہ بنا کہ اٹھ کر اس گلی کا، ایک چکر لگانا لیکن اسی وقت سکول کی گھنٹی نے میرا ارادہ ملتوی کروا دیا۔ میں سکول کے گیٹ پر چلا گیا اورچند منٹ بعد ھی علی سکول سے باھر آگیا۔ علی کو لے کر میں گھر کی طرف چلا تو وہ گلی راستے میں ھی آنی تھی۔ میں نے گلی کے سامنے رک کر گلی میں دیکھا تو وہ گلی آگے سے ٹی بن کر لیفٹ اور رائیٹ مڑ رھی تھی جبکہٹی کو سیدھا کراس کر کے دو گھر تھے آگے گلی بند تھی اس کا گھر بلکل سیدھا ٹکر والا تھا اور وہ اس ٹکر والے گھر کے گیٹ پر کھڑی تھی۔ اس نے جیسے ھی مجھے دیکھا مجھے ھاتھ کے اشارے سے بائی بائی کیا اور گھر کے اندر چلی گئی۔ میں بھی علی کو لے کر گھر آگیا ۔ علی کو باجی کے حوالے کر کے میں دوبارہ بستر ہر لیٹ گیا لیکن اب نیند کا کوئی ارادہ نھی تھا۔ میں اس لڑکی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے چونکہ دور سے دیکھا تھا لہذا اس کا چہرہ اچھی طرح نا دیکھ سکا لیکن اس کا جسم بھرا بھرا تھا۔ قد تقریباً پانچ فٹ تھا۔ اب میرا، دل کیا کہ ایک چکر اور باھر کا لگاوں چناچہ ایک بار پھر باھر نکل کر اس کی گلی کی طرف جا رھا تھا۔ اس کی گلی کے سامنے رک کر دیکھا لیکن وہ وھاں نھی تھی اور گیٹ بھی بند تھا۔ میں وھاں سے واپس آگیا اور پی ٹی سی ایل سے کزن کو کال کر کہ کہا کہ میں جاگ گیا ھوں لہذا وہ اپنی بائیک لے کر آجائے تاکہ ھم آوارہ گردی پر نکل سکیں۔ یہ واقعہ 2014 کا ھے خیر کزن ولید جو میری پھپھوکا بیٹا تھا مجھے پک کرنے آ گیا۔ ھم تین کزن ھم عمر تھے جن کی بھت اچھی دوستی تھی باقی کزن چھوٹے تھے۔ ھم تینوں روزانہ رات کو VCR کرائے پر لاتے اور ھر قسم کی وہ فلمیں بھی دیکھتے۔ جن میں وہ فلمیں بھی ھوتی تھیں جن میں آواز نھی ھوتی تھیی۔
اگلے دن میں خود ھی علی کی چھٹی سے زرا پھلے گھر سے نکلا اور آج میں رستہ تبدیل کر کے اس ٹی والی گلی سے جا رھا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ آج پھر وھاں کھڑی ھوگی اور ھوا بھی ایسے ھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو میری طرف آگئی اور مسکرا کر سلام کہا۔ میں نے بھی ادھر، ادھر دیکھ کر سلام کیا، اور اس کا نام پوچھا تو بولی میرا نام یاسمین ھے میں نے کہا میرا، نام سلمان ھے ۔ اتنی بات کر کے میں وھاں سے آگے نکل گیا کیونکہ ڈر تھا کوئی دیکھ نا لے۔ یاسمین ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ جسم بھرا بھرا اور ممے 34 سے 36 ھوں گے۔ تب مجھے سائیزوں کا اتنا پتہ نھی تھا،صرف اندازہ ھی تھا۔ میں گلی میں تھوڑا، آگے گیا تو مجھے ایک چھوٹی سی دکان نظر آئی جو، کسی بابے نے صرف بچوں والی گولیاں ٹافیاں رکھی ھوئی تھیں۔ میں جان بوجھ کر، دکان پر کھڑا ھو گیا تو وہ بھی میرے پیچھے چلتے چلتے دکان پر، آئی اور دکان کے اندر گھس کر بابے سے بولی۔ ابا توں گھر جا، تے روٹی کھا کے آ۔ میں دکان تے بھنی آں۔ تب مجھے سمجھ لگی کہ بابا جی اس کا باپ ھے اور بابا مجھے ذھنی طور پر بھی فٹ نھی لگا تھا۔ میں جان بوجھ کر کچھ بچوں کی چیزیں خریدنے لگ گیا۔ بابا اٹھ کر گھر کی طرف چلا گیا اب وہ دکان میں اکیلی تھی۔ دکان کے اندر جانے کا میں رسک لے نھی سکتا تھا کیونکہ بھری دوپہر تھی ۔ باھر کھڑے کھڑے اس سے بات کرنے لگا۔ میں نے کہا کیا تم ھر ایک سے ایسے ھی بات کرتی ھو جیسے مجھ سے کی تو وہ بولی نھی۔ میں نے آپ کو دو تین دفعہ دیکھا اور مجھے اچھے لگے ھو اس لیے آپ سے بات کی۔ مجھے وہ زیادہ پڑھی لکھی نھی لگی شائید سکول کا منہ بھی نھی دیکھا تھا۔ لیکن میں نے اس سے پوچھا نھی کیونکہ میرے لیے اتناھی کافی تھا کہ وہ ایک جوان لڑکی ھے ۔ خیر اس سے باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ تین بھنیں ھیں اور دو بھائی۔ باپ دماغی طور پر ٹھیک نھی تھا۔ دونوں بھائی مزدوری کرتے ھیں۔ ماں باپ کے ساتھ دکان پر بیٹتھی ھے۔ ایک بھین اس سے بڑی 26 سال کی ھے اور دوسری اس سے چھوٹی 17 سال کی۔ اور اسکی عمر 23 سال ھے۔ اتنی دیر میں اسکی ماں آ گئی تو میں دکان سے ھٹ کر سکول کی طرف نکل گیا۔ علی کو واپس لے کر جاتے ھوئے بھی وہ اسی نکڑ پر کھڑی تھی۔ اس نے مجھے ھاتھ سے بائی بائی کیا اور گلی میں چلی گئی۔ اب میں سوچ رھا تھا کہ کسی طرح یاسمین کو ملوں کہیں اکیلے میں لیکن کوئی حل نھی مل رھا تھا۔ اور اس کے ممے مجھے چین نھی لینے دے رھے تھے۔ اگلے چار دن بھی اسی طرح ھلکی پھلکی بات ھو جاتی لیکن کوئی چانس نھی بن رھا تھا۔ پانچویں دن مجھے بھائی نے فیصل آباد بلوا لیا اور میرے خواب ادھورے رہ گئے۔فیصل آباد آکر یاسمین سے رابطہ بلکل ختم ھو گیا کیونکہ نا تو، اس کے گھر میں فون تھا، اور نہ وہ اتنے امیر تھے کہ موبائل فون رکھتے ۔ تبھی ایک دن بڑے بھائی نے مجھے اطلاع دی کہ انھوں نے گوجرانوالہ میں پرانا گھر بیچ کر کزن کے گھر کے پاس ایک کنال کا پلاٹ لیا ھے اور اب اس پر کنسڑکشن کروانی ھے۔ جس کے لیے گھر والے کچھ عرصہ گوجرانوالہ شفٹ ھونے کا سوچ رھے ھیں۔ پھر ایک دن امی اور بھابی کو لے کر بھائی گوجرانوالہ چلے گئے۔ بھائی کا، ارادہ تھا کہ وہ کزن سسٹر کے گھر کے نزدیک کوئی گھر کرائے پر لے لیں گے اور وھاں رہ کر ھم اپنا گھر بنوا لیں گے۔ میں فلحال فیصل آباد ھی رہ گیا کیونکہ یہاں بھی گھر کو خالی نھی چھوڑا جاسکتا تھا۔ پندرہ دن بعد بھائی نے مجھے سسٹر کے گھر سے کال کی اور کہا کہ ھم نے سسٹر کے گھر کے پاس ایک گھر کرائے پر لے لیا ھے اب تم گوجرانوالہ آ کر مستریوں سے کام کرواو اور میں فیصل آباد واپس آکر اپنی ڈیوٹی کروں گا۔ میں نے بھائی کو کہا کہ میں رات کو، فیصل آباد سے نکلوں گا تو صبح صبح گوجرانوالہ ھوں گا۔ آپ مجھے گھر کا، ایدڑیس سمجھا دیں تاکہ میں سسٹر کی بجائے سیدھا اپنے گھر پہنچوں۔ بھائی نے مجھے ایڈریس سمجھایا تو ایسا لگا جیسے تقدیر مجھ پر مہربان ھو رھی ھے کیونکہ جو ایڈریس بھائی نے بتایا تھا وہ یاسمین کے گھر کے ساتھ والا گھر تھا۔ ایک دم سے یاسمین پھر میرے خوابوں میں آگئی تھی میں شام کو نھانے کے لیے واش روم میں گیا اور یاسمین کے میں کا سوچ کر مٹھ ماری۔ پھر نھانے کے بعد تیار ھو کر اڈے کے لیے نکل پڑا۔ صبح پانچ بجے میں گوجرانوالہ یاسمین کے گھر کے ساتھ والے گیٹ پر کھڑا تھا
میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بھائی نے دروازہ کھولا۔ میں گھر کا جائزہ لے رھا تھا۔ یہ گھر نا صرف یاسمین کے گھر سے جڑا ھوا تھا بلکہ گھر کے اندر دونوں گھروں کے درمیان ایک پانچ فٹ اونچی دیوار تھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ یا تو دونوں گھروں کا ایک ھی مالک ھے یا رشتہ دار ھیں۔ دروازے سے اندر داخل ھوتے ھے دائیں طرف ایک بیٹھک اور بائیں طرف باتھ روم بنا ھوا تھا اس کے بعد کافی کھلا صحن تھا پھر دائیں طرف کچن اور سامنے ٹکر پر دو کمرے بنے ھوئے تھے۔ میرے آنے سے امی اور بھابی بھی اٹھ گئی تھیں۔ انھوں نے مجھے ناشتہ بنا کر دیا جس کے بعد میں بیٹھک میں جا کر سو گیا کیونکہ ساری رات جاگا ھوا تھا۔ دوپہر کو آنکھ کھلی تو اٹھ کر باتھ روم میں نہانے چلا گیا۔ نھا کر باھر نکلا ۔تو ایک نیا چہرہ نظر آیا جو کہ سامنے کمرے میں بیٹھ کر مشین پر کوئی کپڑا سی رھی تھی ۔ لڑکی خوبصورت تھی اور جسم بھی یاسمین کی طرح ھرا بھرا تھا۔ میں کمرے میں آیا تو اس نے مجھے سلام کیا میں جواب دے کر امی کے پاس چارپائی پر بیٹھ گیا۔ امی نے بتایا کہ بھائی فیصل آباد چلا گیا ھے۔ کل سے مستری مزدور آ جائیں گے اور تم وھیں پر کام کی نگرانی کرو گے۔ بھابی کچن میں کھانا بنا رھی تھی۔ مجھے تجسس تھا کہ یہ لڑکی کون ھے۔ اس لیے بھابی کے پاس چلا گیا اور پوچھا بھابی یہ کون ھے۔ بھابی نے میری طرف شک بھری نظروں سے دیکھا اور کہا خیر ھے ۔ میں نے کہا بھابی ویسے ھی پوچھ رھا ھوں ۔ بھابی نے یاسمین کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ساتھ والا گھر مالک مکان کے بھائی کا ھے اُن کی بڑی بیٹی ھے نام کلثوم ھے اور میرے کپڑے سی رھی ھے۔ میں کچن سے نکلا اور دوبارہ امی کے پاس بیٹھ گیا اور کلثوم کو دیکھنے لگا۔ وہ بھی سمجھ گئی تھی کہ میں اسے دیکھ رھا، ھوں اس لیے بار بار مجھے دیکھتی اور پھر کپڑے سینے لگ جاتی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اسے اشارہ کیا، تو وہ مسکرانے لگی۔ لائین کلیئر دیکھ کر میں نے اسے آنکھ ماری تو اس نے بھی مجھے آنکھ مار دی۔ میرے دل میں تو شادیانے بج رھے تھے کیونکہ یاسمین پھلے ھی سیٹ تھی اور اب اسکی بڑی بھین بھی پورا، ریسپونس دے رھی تھی۔ بھابی نے مجھے کھانے کے لیے آواز دی تو میں دوسرے کمرے چلا گیا۔ دل میں سوچ رھا تھا کہ یہ دونوں بھنیں اتنی جلدی سیٹ ھو رھی ھیں خیر ھی ھو۔ کھانے کے درمیان ھی یاسمین اپنی بہن کو بلانے آ گئی اور مجھے دیکھ کر حیران ھوئی میں نے بھی موقع دیکھ کر اسے آنکھ ماری وہ مسکرا کر دوسرے کمرے میں کلثوم کے پاس بیٹھ گئی۔ میں بھی اسی کمرے میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا لیکن دھیان میرا دونوں بہنوں کی طرف ھی تھا۔ کلثوم نے یاسمین کو ڈانٹ کر گھر بھیجا تو، وہ گیٹ سے جانے کی بجائے اندرونی دیوار کے پاس بجری پڑی تھی وھیں سے دیوار پھلانگ کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد امی کسی کام سے سسٹر کے گھر چلی گئی اور بھابی اپنے کمرے میں کپڑے پریس کر، رھی تھیں۔ میں نے موقع دیکھ کر کلثوم سے باتیں شروع کر دیں۔ وہ بھی پڑھی لکھی نھی تھی لیکن دونوں بہنیں بھت فاسٹ تھیں۔ شائید دونوں کو چدوانے کا شوق تھا ورنہ لڑکیاں اتنی جلدی فرینک نھی ھوتیں۔ خیر جو بھی تھا مجھے پکی پکائی دو دو چپڑی ھوئی مل رھی تھیں۔ چند منٹوں میں ھی کلثوم بلکل فرینک ھو گئی تھی بلکہ یہ کہنا پڑے گا کہ یاسمین سے بھی زیادہ کلثوم تیز تھی۔ تبھی بھابی کمرے میں آگئی شائد کپڑے پریس ھو گئے تھے ۔ بھابی میری بہت اچھی دوست بھی تھیں اور میں اپنے رومانس اکثر ان سے شئر کرتا رھتا تھا۔لیکن وہ مجھے ڈانٹتی اور سمجھاتی رھتی تھیں لیکن انھوں نے کھبی بھی بھائی سے میری کوئی شکائت نھی کی۔ مجھے کلثوم سے باتیں کرتا دیکھ کر انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا لیکن میں بھی ڈھیٹ بن کر بیٹھا رھا۔ تھوڑی دیر میں کلثوم نے کپڑے سی لیے اور بھابی کو دیئےاور کہنے لگی بھابی آپ ایک دفعہ پہن کر چیک کر لیں۔ بھابی نے کپڑے پکڑے اور اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔ موقعہ مناسب تھا میں نے آگے بڑھ کر کلثوم کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ جیسے پہلے ھی تیار تھی اس نے آگے بڑھ کر مجھے جھپی ڈال لی۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کو، اوپر اٹھایا اور اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں پر رکھ دئیے۔ اس نے بلکل مزاحمت نھی کی بلکہ میرا ساتھ دے رھی۔ اب میں اس کو کس بھی کر رھا تھا اور میرے ھاتھ اس کے مموں کو دبا رھے تھے۔ چند منٹ بعد میں نے اسے پیچھے ہٹا دیا کیونکہ بھابی کسی بھی وقت آسکتی تھیں۔ کلثوم بولی رات کو بیٹھک میں سونا اور دروازہ کھلا رہنے دینا۔ میں پورے بارہ بجے آوں گی۔ میں انتظار کروں گا۔ یہ کہ کر میں جان بوجھ کر کمرے سے باھر آگیا کیونکہ میرے دل میں چور تھا، اور میں نہی چاہ رھا تھا کہ بھابی کو شک ھو جائے۔ میں بیٹھک میں آکر بیٹھ گیا اور ڈیک پر گانے لگا لیے۔
دوبارہ جب میں بیٹھک سے نکلا تو کلثوم اپنے گھر چلی گئی تھی اور بھابی کہیں جانے کی تیاری میں تھی۔ بھابی نے مجھے دیکھا، اور بولی چلو مجھے اماں کے گھر چھوڑ آو اور شام کو لے آنا۔ میں گلی میں جا کر رکشہ لے آیا اور بھابی کو اُن کے میکے چھوڑنے کے بعد بازار کی طرف چلا گیا۔ میرا دل تھا کہ مارکیٹ سے کنڈوم خرید لوں ۔ یہ سوچ کر ایک دوست کی دکان پر جا کر کنڈوم خریدے۔ اب میں نے موقع غنیمت جانا اور دوبارہ گھر کا، رخ کیا کیونکہ گھر خالی تھا تو شائد ایک بار پھر موقعہ مل جاتا۔ گھر پہنچ کر میں نے جان بوجھ کر، دروازہ زور سے کھولا تاکہ ھمسائیوں تک آواز جا سکے۔ اور یہ ہی ھوا تھوڑی دیر بعد یاسمین نے دیوار سے جھانکا تو میں صحن میں چارپائی پر لیٹا تھا۔ میں نے اسے اشارہ کیا تو وہ دیوارسے ھمارے صحن میں آ گئی۔ میں اٹھ کر اندر کمرے میں آگیا کیونکہ ڈر تھا کہ ھمسائیوں میں سے کوئی دیکھ نہ لے۔ اندر داخل ھو کر پہلے میں نے کلثوم کے بارے میں پوچھا کیونکہ اگر وہ آ گئی تو یاسمین چلی جائے گی بلکہ دونوں چلی جائیں گی۔ یاسمین نے بتایا کہ ککثوم اور امی کسی رشتےدار کے گھر فوتگی پر گئی ھوئی ھیں اور شام کو آئیں گی۔ گھر پر صرف ابا اور چھوٹی بہن رجو ھے۔میں نے اسے کھینچ کر گلے سے لگا لیا۔ اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں پر رکھ دئیےاور اس کی کمر پر ھاتھ پھیرنے لگا۔ وہ بھی پوری طرح ساتھ دے رھی تھی۔ یاسمین کاجسم کلثوم کے مقابلے میں زیادہ بھرا ھوا تھا اور اس کے ممے بھی کافی بڑے تھے شائد 36 سائز تھا۔ کمر پر ھاتھ پھیرتے ھوئے میرا ھاتھ اس کے ھپس پر لگا تو وہ بھی کافی بڑے تھے۔ یاسمین کی کسنگ بتا رھی تھی کہ وہ اس کام میں ایکسپرٹ ھے۔ میں نے ھاتھوں سی اس کے بُنڈ دبا کر اسکی چوت کو اپنے لن کے ساتھ جوڑا میرا شیر تو پہلے ھی تیار کھڑا تھا یاسمین نے بھی بلاتکلف اپنی چوت کو میرے لن پر رگڑنا شروع کر دیا۔ میں نے اسکی قمیض کو اوپر کیا اور اسکے ممے کھینچ کر برا، سے باھر نکالے۔ اس کے ممے تو جیسے پہلے ھی آزاد ھونے کے لیے بےچین تھے۔ اس کےپنک کلر کےنپل بھی بہت بڑے تھے۔ میں نے انھیں منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ میری کوشش تھی کہ پورے منہ میں لے لوں لیکن ان کا سائز میرے منہ سے کہیں بڑا تھا۔ میں باری باری دونں مموں کو چوستا کبھی ان پر ھلکے ھلکے دانتوں سے کاٹتا تو وہ تڑپ جاتی۔ اب اس نے خود ہی میرے لن کو شلوار کے اور سے پکڑ کر اپنے پھدی پر رگڑنا شروع کر دیا اور میرے لن کا بھی بس نہی چل رھا تھا کہ اسکی شلوار پھاڑ کر اندر گھس جائے۔ میں نے اس کے مموں کو چھوڑ کر اسکی قمیض اور پھر برا بھی اتار دی۔ لیکن وہ ابھی تک میرے لن کو ھاتھ میں پکڑے شلوار کے اوپر سے مسل دھی تھی۔ میں نے اسکی بے چینی محسوس کرتے ھوئے شلوار کا ناڑا کھول کر شلوار نیچے کی اور اپنا لن اسکے ھاتھ میں پکڑا دیا۔ وہ اب اور مستی اور زور سے مسل رھی تھی۔ میں نے اسے پکڑ کربھابی کے بیڈ پر بیٹھا دیا اور لن اس کے پاس ھاتھ میں پھر سے پکڑا دیا۔ اس نے میرے لن کو غور سے دیکھا اور بڑے پیار سے مسلنے لگی۔ میں نے کیا یار اس کو تھوڑا پیار کرو بیچارا کتنے مہینوں سے تمھارے لیے تڑپتا ھے اور لیک ھوتا ھے۔ وہ میری بات سن کر مسکرائی اور بولی چل فیر اج ایدا، انتظار ختم کروائیے۔ اتنا کہ کر اس نے میر لن کی ٹوپی پر پیار کیا اور بولی یار ھے بڑا وڈا تے ملائم۔ میں نے کہا تے فیر انوں پیار کر کے ھور ملائم کر تا کہ اے تیری تلے لگی اگ نوں بجھا سکے۔ میری بات سن کر اس نے میرے لن کی ٹوپی کو منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی ۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے شراب پی لی ھو ایسا نشہ کہ بیان نھی کر سکتا۔ میں نے اس کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر دبایا تو میرا لن آدھے سے زیادہ اس کے منہ میں تھا۔ پھر وہ خود ھی پورا، منہ میں لے کر چوستی کبھی آگے پیچھے کرتی اور کھبی منہ کے اندر روک کر اس پر گولمول زبان پھیرتی۔ میرا لن پھٹنے والا ھو رھا تھا جب اچانک کمرے کا، دروازہ ھلجا سا کھٹکھا۔ دروازے کی آواز، سن کر جیسے میری جان نکل گئی ھو اس نے بھی ایک دم سے منہ پیچھے ھٹایا اور پریشان ھوگئی۔ اتنا مجھے یاد تھا کہ میں نے گیٹ کو لاک کیا تھا اس لیے یہ جو کوئی بھی ھے یاسمین کے گھر سےدیوار پھلانگ کر آیا ھے۔میرا، دماغ گھوم رھا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

26/05/2024

دوست کی بڑی بہن کو زبردستی چودا

ہیلو دوستو میرا نام یاسر ہے اور میں راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہتا ہوں۔

آج میں اپنے گاؤں کے دوست زاہد کی بڑی بہن فوزیہ کی چدائی کی کہانی سنانے جا رہا ہوں جس کو میں نے دوران سفر زبردستی چود ڈالا۔

کافی سال پہلے کی بات ہے میرے دوست زاہد سیالکوٹ کا رہنے والا تھا اور میرا اچھا دوست تھا ۔ایک دن مجھے سیالکوٹ جانا تھا تو زاہد نے مجھے کال کی کہ یاسر میری بڑی بہن فوزیہ کو بھی ساتھ لیتے آؤ زاہد کی بڑی بہن فوزیہ راولپنڈی میں نوکری کرتی تھی ۔میں نے کہا جی اچھا ضرور لے آؤں گا ۔

میں نے اس دن جان بوجھ کر رات کو سفر کرنے کا انتخاب کیا اور رات نو بجے زاہد کی بہن فوزیہ کو کال کی اور کہا دس بجے تک تیار رہنا میں دس بجے ہاسٹل سے پک کرنے آجاؤں گا۔

میں رات دس بجے راولپنڈی فوزیہ کے ہاسٹل کے باہر پہنچ گیا اور کال کی اور کہ باجی باہر آجائیں۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا ایک 28 سالہ سانولی اور نارمل جسم کی لڑکی بیگ اُٹھائے ہاسٹل سے نکل رہی ہے میں نے گاڑی سے اتر کر فوزیہ کا بیگ ڈگی میں رکھا اور فوزیہ میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئ۔

ہم دونوں کا سفر شروع ہو گیا اور فوزیہ مجھ سے نارمل باتیں کرنے لگی اور فیملی کا پوچھنے لگی۔سردیوں کی راتیں تھیں اور ہلکی سی دھند تھی اور میں بھی جان بوجھ کر گاڑی آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ فوزیہ کے ساتھ وقت زیادہ گزرے۔فوزیہ کو رات اکیلے اپنے ساتھ بیٹھے دیکھ کر میرے لن میں گرمی چڑھ رہی تھی اور میں اپنے دوست زاہد کی بہن فوزیہ کی پھدی چودنے کے بہانے سوچنے لگا۔

کچھ دیر کے بعد فوزیہ سو گی تھی میں نے موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے گاڑی کے گیئر تبدیل کرنے کے بہانے فوزیہ کی ٹانگوں پر ہاتھ پریس کرنے لگا مگر فوزیہ گہری نیند میں تھی اور میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اپنا ہاتھ فوزیہ کی ٹانگوں کے درمیان میں رکھ کر فوزیہ کی پھدی کو پریس کرنے لگا۔ایک دم سے فوزیہ آٹھ گئ اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولی یاسر شرم نہیں آتی اپنے دوست کی بڑی بہن کے ساتھ گندی حرکتیں کرتے ہوئے

میں نے کہا اب دوست کی بہن بہت نمکین اور سیکسی ہے تو کیا کروں دل کر گیا ہے تمہاری پھدی کو چود ڈالوں

فوزیہ بولی یاسر بدتمیز میں تمہاری بڑی بہن ہوں اور بہن کی عزت کرنا سیکھو

میں نے کہا سگی بہن تو نہیں ہو تمہاری پھدی اور بھی تو کوئی چودتا ہو گا تم راولپنڈی میں اکیلی رہتی ہو تو تمہاری پھدی کونسا بچ گئی ہو گئی۔

فوزیہ بولی نہیں میں نے کبھی ایسا گندہ کام نہیں کیا

میں نے کہا آج کر لو فوزیہ پلیز مجھے تمہاری پھدی چودنے دو

فوزیہ غصے میں آ گئی اور بولی بکواس بند کرو اور چپ کر کہ گاڑی چلاؤ

ہم گجرات کراس کر رہے تھے کہ فوزیہ بولی مجھے پیشاب آیا ہے کسی جگہ گاڑی روکو رات ساڑھے گیارہ کا وقت ہو رہا تھا میں نے ایک ویران سی جگہ گاڑی روکی اور فوزیہ کو کہا کر لو کچھ دیر بعد فوزیہ پیشاب کرنے کے بعد گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی میں نے پوچھا اگلی سیٹ پر کیوں نہیں بیٹھی تو فوزیہ بولی تم میرے ساتھ گندی حرکتیں کر ریے ہو تو بہتر ہے میں پیچھے ہی بیٹھ جاؤں اور مجھ سے غلطی ہوئی جو تمہارے ساتھ گھر جانے کی غلطی کی ہے۔

میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ آج فوزیہ کی پھدی ضرور ماروں گا۔ فوزیہ کے گاؤں کے قریب ایک چھوٹا سا جنگل تھا اور میں نے سوچ لیا تھا وہاں جا کر فوزیہ کی زبردستی چوت چود دوں گا بعد میں جو ہوا دیکھ لوں گا۔

میں نے فوزیہ کے گاؤں جانے کے لیے جان بوجھ کر ایسا راستہ لیا جو جنگل کے درمیان سے گزر کر گاؤں جاتا تھا جیسے ہی میں جنگل میں عین درمیان پہنچا کچھ درختوں کے پاس سڑک سے ہٹ کر گاڑی روک دی۔

فوزیہ:- یاسر گاڑی کیوں روکی ہے؟

میں نے کہا فوزیہ آج مجھے تیری پھدی پر شہوت چڑھ چکی ہے مجھے اپنے لن کی گرمی تیری پھدی پر اتارنے دے

یہ کہہ کر میں گاڑی سے اترا اور پچھلی سیٹ پر دروازہ کھول کر بیٹھ گیا اور گاڑی لاک کر دی ۔فوزیہ پیچھے سرکنے لگی اور بولی یاسر بھائی پلیز میں تمہارے دوست کی بہن ہوں اور میں نے کبھی ایسا گندہ کام نہیں کیا ہے پیچھے ہٹو نہیں تو میں شور مچا دوں گی۔

میں نے کہا اچھا ہے تیری پھدی کی سیل کھولنے کا مزا آئےگا اور جتنا مرضی شور مچاؤ یہاں کوئی نہیں ہے۔

یہ کہہ کر میں نے زبردستی اپنے دوست زاہد کی بہن فوزیہ کے منہ پر چما لیا اور فوزیہ نے مجھے دھکا دیا مگر میں نے فوزیہ کو پچھلی سیٹ پر لٹا دیا اور اس کے اوپر چڑھ کر فوزیہ کے منہ پر کسنگ کرنے لگا اور ساتھ ہاتھ فوزیہ کی شلوار میں ڈال کر فوزیہ کی پھدی میں انگلی ڈال دی اور فوزیہ کو چومنے لگا۔

فوزیہ پورا زور لگا رہی تھی منہ آگئے پیچھے کر رہی تھی اور ساتھ رو رہی تھی مگر میں نے کوششیں جاری رکھیں اور اپنی شلوار کا ناڑا کھول دیا اور فوزیہ کی بھی آدھی شلوار اتارنے میں کامیاب ہو گیا۔

اب فوزیہ کی پھدی ننگی ہو گئی تھی اور میرا ٹائٹ لن کو میں نے فوزیہ کی پھدی کے سوراخ پر رکھ دیا اور رگڑنے لگا فوزیہ اپنی پھدی سرکانے لگی اور میں مزید لن اسکی پھدی پر رکھ کر رگڑنے لگتا۔اب میں نے زور دار تھپڑ فوزیہ کے منہ پر مارا اور کہا گشتی تیری پھدی میں لن آج ڈالوں گا۔

فوزیہ رونے لگی اور مزاحمت بھی کم ہو گئی۔فوزیہ کی پھدی ہلکی ہلکی گیلی تھی اور میں نے اپنا سات انچ کا موٹا لمبا کوڑا آپنے دوست زاہد کی بہن فوزیہ کی گرم کنواری چُوت کے سوراخ پر رکھ دیا اور فوزیہ کی ٹانگوں کو پکڑ کر زور دار گھسا فوزیہ کی پھدی میں مارا فوزیہ درد سے چیخ اٹھی

آہ آہ اوہ ماں آہ آہ اوہ اوہ اف آہ میری پھدی پھٹ گئی آہ آہ اوہ اوہ اف آہ یاسر بھائی پلیز باہر نکالو آہ میں درد سے مر جاؤں گی

میں نے فوزیہ کی بات ان سنی کر دی اور ایک اور زور دار جھٹکا فوزیہ کی کنواری پھدی میں مارا تو میرا لن آدھا فوزیہ کی گرم کنواری پھدی میں تھا آف کیا گرم چوت تھی میرے دوست زاہد کی بہن فوزیہ کی اف ،، میں نے فوزیہ کی پھدی میں جھٹکے لگاتے چدائی شروع کر دی اور فوزیہ کی پھدی بےرحمی سے پوری طاقت سے چودنے لگا فوزیہ رو رہی تھی مگر میں نے اسکے رونے کی پروا کیے بنا اپنا کام جاری رکھا اور فوزیہ کو چودنے لگا۔

اب کچھ دیر بعد فوزیہ نارمل ہو گئی تو میں نے کہا فوزیہ قمیض اوپر کر تیرے ممے چوسنے ہیں اور ساتھ ساتھ تیری پھدی چودوں گا۔ فوزیہ نے قمیض اوپر کر دی اس نے سکن کلر کا بریزئیر پہنا ہوا تھا میں نے فوزیہ کے ممے چوسنے شروع کر دیے اور اب فوزیہ مزے سے میرا ساتھ دے رہی تھی۔

میں نے پوچھا مزا آرہا ہے چدوا کر فوزیہ بولی یاسر ہاں بہت لیکن تم نے میرا ریپ کر دیا ہے مجھے تم نے زبردستی چودا ہے مگر اب مجھے تمہارا سے پھدی مروا کر مزا آرہا ہے۔

فوزیہ کے منہ سے لفظ پھدی سن کر مجھے مزید جوش چڑھ گیا اور میں نے فوزیہ کی پھدی سے لن باہر نکالا اور فوزیہ کو گاڑی میں فل ننگا کر دیا اور خود بھی سب کپڑے اتار دئے اور اگلی دونوں سیٹوں کے درمیان زاہد کی بہن فوزیہ کو گھوڑی بنا دیا اور آسکی پھدی میں اپنا لن ڈال کر چودنے لگا۔اب فوزیہ خود میرے لن پر پھدی مارے جا رہی تھی اور بولی یاسر آہ آہ اوہ اوہ اف آہ آہ میری پھدی کو میں نے اپنے شوہر کے لیے بچا کر رکھا تھا مگر تم نے مجھے زبردستی چود کر اپنے لن کی غلامی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔فوزیہ نے میرے ہاتھ اپنے مموں پر رکھ دیے اور میرے لن پر پھدی مارنے لگی۔

یاسر آف آہ آہ اوہ اوہ اف تمہارا لن کتنا بڑا اور موٹا ہے آہ آہ آف میری پھدی کو تم نے کھول کر رکھ دیا ہے آہ چودو اب جب تک راولپنڈی ہوں تم سے پھدی چدوایا کروں گی۔

کچھ دیر کے بعد فوزیہ زور زور سے میرے لن پر پھدی مارنے لگی اور بولی آہ یاسر میری پھدی فارغ ہو گی ہے۔

میں نے فوزیہ کو سیٹ پر لیٹا دیا اور اسکے بعد فوزیہ کی ٹانگیں اٹھا کر زور زور سے فوزیہ کی پھدی چودنے لگا ۔میرے لن میں فل مستی چڑی ہوئی تھی اور میں زور زور سے فوزیہ کی پھدی مار رہا تھا۔گاڑی میں فوزیہ کی پھدی چدنے کی آوازیں اور فوزیہ کی لذت اور درد بھری سسکیاں گونج رہی تھی۔

مسلسل فوزیہ کی پھدی چودتے مجھے لگا میری منی اب فوزیہ باجی کی پھدی میں نکلنے والی ہے میں نے جھٹکوں کی سپیڈ مزید بڑھا دی اور کچھ سیکنڈ میں میرے لن سے منی کی پچکاریاں فوزیہ باجی کی پھدی میں نکلنے لگیں آہ آہ اوہ اوہ اف آہ آہ یاسر بھائی آہ آہ اوہ اوہ اف آہ آہ آہ یہ گرم گرم کیا نکال دیا میری پھدی میں آہ آہ اوہ اوہ میں پریگننٹ ہو جاؤں گی۔میں زور زور سے گھسے مارتے بولا نہیں ہوگی فکر نہ کرو اور میں نے منی کا آخری قطرہ بھی فوزیہ کی پھدی میں نکال دیا اور اسکے بعد لن باہر نکالنے لگا تو فوزیہ بولی رکو کچھ دیر میری پھدی میں لن ڈال کر ایسے ہی رکھو مجھے مزا آرہا ہے۔

میرے دوست کی بہن فوزیہ چد چکی تھی اور اس کے بعد فوزیہ نے باہر ننگی نکل کر پیشاب کیا اور دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔میںںنے میں نے کہا فوزیہ کپڑے پہن لو تو فوزیہ بولی ایک بار اور میری پھدی چودو مجھے سکون سہی سے دو۔

میں نے گاڑی سے باہر نکل کر پیشاب کیا اور ادھر ادھر کا جائزہ لیا پھر لن پانی سے دھویا اور گاڑی کی سیٹ کو ٹشوز سے صاف کیا کیونکہ فوزیہ کی پھدی کا خون سیٹ پر لگا ہوا تھا۔

اب میں گاڑی میں بیٹھ گیا تو فوزیہ نے میرے لن کو پکڑا اور سہلانے لگی۔ میں نے فوزیہ کا سر جھکا کر لن اسکے ہونٹوں کے قریب کر دیا اور فوزیہ کو کہا چل لوڑا چوس

فوزیہ بولی نہیں یاسر

میں نے کہا ایک بار چوس مزا آتا ہے تو چوسنا

فوزیہ نے میرے لن پر زبان پھیرنا شروع کر دی اور پھر لن کو چوسنے لگی اب فوزیہ مزے لے لے کر میرا لؤڑا چوس رہی تھی۔

اتنے میں فوزیہ کے ابو کی کال آگئی اور پوچھا کہاں ہو تو میں نے کہا بس 30 منٹ تک پہنچ جائیں گے۔

کال بند ہونے کے بعد میں نے فوزیہ کو سیٹ پر گھوڑی بنایا اور اب لن ڈال کر فوزیہ کی کمر کو پکڑ کر چودنا شروع کر دیا۔فوزیہ کی پھدی بہت گیلی تھی اور میں زور زور سے فوزیہ کو چود رہا تھا۔کچھ منٹ بعد فوزیہ بولی یاسر میری پھدی فارغ ہو رہی ہے تم بھی جلدی منی میری پھدی میں نکال دو ۔

میں زور زور سے فوزیہ کو چودنے لگا اور کچھ سیکنڈ کے بعد میرے لن سے منی کا فوارہ فوزیہ کی پھدی میں نکلنے لگا۔۔

فوزیہ:- آہ آہ اوہ اوہ اف آہ میری پھدی کو سکون مل گیا

میں نے کہا میرے لن کو بھی تھوڑا سکون ملا ہے دل تو کرتا ہے فوزیہ تیری جم کر ساری رات چوت ماروں۔

فوزیہ کی پھدی مارنے کے بعد میں نے لن فوزیہ کی شلوار سے صاف کیا اور دونوں کپڑے پہن کر تیار ہو کر گاؤں کی جانب روانہ ہوگئے۔

گاؤں پہنچ کر فوزیہ کی بھابی فوزیہ کے کپڑوں اور جسم کو عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔جیسے وہ جان چکی ہو کہ اسکی نند فوزیہ چدوا کر آرہی ہے۔

اس رات ہم سو گئے صبح ناشتہ کر کہ میں اپنے گاؤں نکل گیا پھر فوزیہ کا مجھے میسج آیا اسکی بھابی کو اندازہ ہو گیا ہے تم نے مجھے راستے میں چودا ہے۔

لیکن فوزیہ بولی بھابی میری دوست ہے رازدان ہے فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔میری بھابی کی پھدی بھی کبھی تم سے چدواؤ گی۔

پھر اسکے بعد میرے دوست زاہد کی بہن فوزیہ اور اسکی بیوی ثمینہ کی چدائی کا نارکنے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہ

26/05/2024

باجی کے گھر میں
میرا نام شازیہ ہے اور میں لاہور کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں میری عمر اس وقت بیس سال کے قریب ہے اور یہ واقعہ جو میں آپ کے سامنے پیش کررہی ہوں یہ دو سال پہلے کا ہے جب میں بی اے کررہی تھی میری بڑی بہن ناذیہ کی عمر مجھ سے تین سال زیادہ ہے اس کی شادی چھ ماہ پہلے زمیندار گھرانے کے ایک لڑکے سے ہوئے ہے جو گاﺅں میں اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی کی نگرانی کرتے ہیں شادی کے دو ماہ بعد میری بہن ناذیہ میکے آئی تو اس نے مجھے کہا کہ میں گرمیوں کی چھٹیاں اس کے ہاں گزاروں جس کی میں نے حامی بھر لی
گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو میں ان کے گھر چلی گئی جب ان کے گھر پہنچی تو دوپہر کا وقت تھا اور سخت گرمی تھی گھر پہنچتے ہی میں نے نہا کر کپڑے تبدیل کئے اس کے بعد کھانا کھایا میرے بہنوئی فاروق بھی کھانے کے وقت گھر آگئے اور انہوں نے لنچ ساتھ میں کیا تھوڑی دیر کے بعد وہ دوبارہ کھیتوں کو چلے گئے
اب میں اپنی باجی کے گھر کے بارے میں بتادوں یہ گھر نہیں بلکہ ایک محل تھا جو گاﺅں سے ذرا ہٹ کر کھیتوں میں ہی بنایا گیا تھا ڈبل سٹوری اس گھر کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی تھی کہ گاﺅں میںبھی ایسے گھر بن سکتے ہیں میری باجی نے مجھے رہنے کے لئے اپنے ساتھ والا کمرہ دیا جس کے ساتھ ایک اور کمرہ تھا جس میں ان کا دیور ایوب رہتا تھا جو عمر میں مجھ سے دو اڑھائی سال بڑا ہوگا اور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور چھٹیاں گزارنے یہاں آیا ہوا تھا
جس روز میں یہاںپہنچی اس دن میں کافی تھکی ہوئی تھی اس لئے جلدی سو گئی اگلی صبح تقریباً پانچ بجے باجی نے مجھے اٹھایا اور چائے دی جس کے بعد مجھے کہا کہ چلو صبح کی سیر کو چلتے ہیں میں حیران ہوگئی کہ باجی اس وقت اٹھ گئی ہیں شادی سے پہلے تو اس وقت ان کی نیند شروع ہوتی تھی خیر میں چپ رہی اور ان کے ساتھ سیر کو چل دی صبح صبح ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس پر چل کر کافی مزہ آرہا تھا دس پندرہ منٹ کی واک کے بعد باجی کہنے لگی کہ چلو واپس چلتے ہیں مگر میںنے ان سے کہا کہ آپ چلیں میں آجاتی ہوں میں مزید کچھ وقت یہاں گزارنا چاہتی تھی باجی واپس چلی گئیں اور میں چلتے چلتے کھیتوں میں چلی گئی ایک جگہ میری نظر پڑی تو میں ٹھٹھک کر رہ گئی میں نے دیکھا ایوب ٹیوب ویل میں ننگا نہا رہا ہے اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا میں ایک درخت کی اوٹ میں ہوگئی اور اسے دیکھنے لگی میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی مرد کو ننگی حالت میں دیکھا تھا مجھے شرم بھی محسوس ہورہی تھی لیکن میں کھڑی رہی ایوب میری اس جگہ موجودگی سے بے خبر نہا رہا تھا اس نے پانی میں ڈبکی لگائی اور پھر باہر نکل کر کھڑا ہوگیا میری نظر جیسے ہی اس کی ٹانگوں کے درمیان گئی میرے منہ سے اوئی ماااا۔۔۔۔۔نکل گیااس سے پہلے میں نے تصویروں میں کسی مرد کے لن کو دیکھا لیکن اپنی حقیقی لائف میں پہلی بار کسی شخص کو ننگا کھڑے دیکھ رہی تھی ایوب کا بڑا سا کالا لن اس کی ٹانگوں کے درمیان جھول رہا تھا اس کے لن کے گرد کالے رنگ کے بال بھی کافی زیادہ تھے اس کے لن کے نیچے دو بال بھی نیچے جھول رہے تھے وہ میری موجودگی سے بے خبر اپنے جسم پر صابن ملنے لگا اس نے اپنی لن پر صابن ملا اور پھر پانی میں ڈبکی لگا کر باہر نکل کر کپڑے پہن لئے اس کے بعد گھر کی طرف چل دیا میں کچھ دیر وہاں رکی اور پھر میں بھی گھر کی طرف چل پڑی اس کو ننگی حالت میں دیکھ کر میں کافی گرم ہوچکی تھی گھر پہنچی تو باجی نے ناشتہ لگا دیا تھا میں ٹیبل پر آئی تو ایوب بھی آگیا اور میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا مجھے کافی شرم محسوس ہورہی تھی ناشتے کے بعد میرے بہنوئی فاروق کسی کام سے شہر چلے گئے اور باجی نے ایوب کو کہا کہ وہ شازیہ کو اپنا فارم ہاﺅس دکھا لائے جس پر ایوب کہنے لگا کیوں نہیں چلو شازیہ تمہیں اپنا فارم ہاﺅس دکھاتے ہیں صبح اس کو ننگی حالت میں دیکھنے کے بعد مجھے اس کے پاس بیٹھنے پر بھی شرم محسوس ہورہی تھی اب باجی نے مجھے اس کے ساتھ جانے کو کہہ دیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس وقت میری کیا حالت ہوگی خیر میں انکار نہ کرسکی اور اس کے ساتھ ہولی ہم لوگ پیدل ہی فارم ہاﺅس کی طرف چل دیئے فارم ہاﺅس گھر سے کچھ فاصلے پر تھا راستے میں باتوں باتوں میں میں نے محسوس کیا کہ ایوب کافی ہنس مکھ ہے راستے میں ہم لوگ باتیں کرتے گئے کچھ دیر کے بعد ہم لوگ فارم ہاﺅس پہنچ گئے جہاں اس نے مجھے اپنے کنو اور مالٹے کے باغ دکھائے اور اس کے بعد اپنے ڈیری فارم لے گیا اور کہنے لگا آﺅ میں تم کو ڈیری فارم دکھاتا ہوں اس نے بتایا کہ اس فارم میں آسٹریلین گائے ہیں جو بہت زیادہ دودھ دیتی ہیں ڈیری فارم کے ایک کونے پر ایک بیل چل رہا تھا جس کے بارے میں اس نے فخر سے بتایا کہ اس علاقے میں اس نسل کا بیل صرف ہمارے پاس ہے اس کو خریدنے کے لئے لوگوں نے ہمیں لاکھوں روپے کی آفر کی لیکن ہم نے اسے نہیں فروخت کیا ابھی باتیں کررہے تھے کہ بیل گائیوں کے پاس پہنچ گیا اور اچانک اس نے ایک گائے کی دم کو سونگھنا شروع کردیا تھوڑی دیر کے بعد اس کا بڑا سا لن باہر نکل آیا اور وہ گائے کے اوپر چڑھ گیا میں یہ سین دیکھ کر بہت شرمندہ ہوئی اور ایوب سے کہا چلو مجھے گھر جانا ہے
کیوں کیا ہوا ‘ ایوب نے پوچھا
یہ سب کیا دکھا رہے ہو تم مجھے
یہ سن کر ایوب کے چہرے پر ایک مسکان سی آگئی اور وہ کہنے لگا ارے اس میں کون سی بات ہے سانڈ کا کام ہے وہ گائے کو نئی کرتا ہے دیکھا نہیں تم نے وہ اپنا کام کررہا ہے
بیل ابھی تک گائے کے اوپر چڑھا ہوا تھا اور ایوب اسی کی طرف دیکھ رہا تھا یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا اس لئے وہاں سے واپس کو چل دی ایوب بھی ساتھ ہوگیا اور کہنے لگا کہ یہ نیچرل بات ہے اس کے چہرے پر اب بھی عجیب سی مسکراہٹ تھی میں نے اپنے قدم تیز تیز اٹھانا شروع کردیئے ایوب نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی اور چلتے چلتے کہنے لگا دیکھو شازیہ یہ نیچرل بات ہے انسان بھی یہی کچھ کرتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے بیڈ روم میں کرتے ہیں اور کوئی ان کو نہیں دیکھتا میں خاموشی سے چلتی رہی اور گھر آکر اپنے کمرے میں چلی گئی کمرے میں جاکر میری حالت خراب ہونے لگی میں گرم ہورہی تھی صبح صبح ایوب کو ننگی حالت میں دیکھنے کے بعد اب بیل اور گائے کا لائیو سیکس شو دیکھ کر میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں مجھے نہیں معلوم کس وقت مجھے نیند آگئی دوپہر کے وقت باجی نے مجھے اٹھایامیں نے دوپہر کا کھانا کھایا اور شام کو فاروق بھائی بھی آگئے ہم لوگوں نے مل کر کھانا کھایا اس دوران فاروق بھائی کہنے لگے شازیہ یہاں کی زندگی بھی عجیب سی لگے گی تم کو یہاں لوگ صبح سویرے اٹھ جاتے ہیں اور رات کو جلدی سوجاتے ہیں کھانے کے بعد میں اپنے اور باجی فاروق بھائی کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ ایوب باہر نکل گیا شائد وہ سگریٹ وغیرہ پینے کے لئے باہر گیا تھا میں اپنے کمرے میں آگئی ذہن میں صبح ایوب کو ننگے دیکھنے اور بیل اور گائے کے سیکس کے سین چل رہے تھے جس سے میں کافی گرم ہورہی تھی میرے جسم میں عجیب سی بے چینی ہورہی تھی کچھ دیر بستر پر لیٹی سونے کی کوشش کرتی رہی لیکن نیند نہ آئی جس پر میں نے سوچا کہ باہر چل کے تازہ ہوا میں کچھ دیر چہل قدمی کرتی ہوں یہ سوچ کر میں اپنے کمرے سے باہر آگئی گھر کے چاروں طرف برآمدہ تھا جس میں تمام بلب آف تھے میں برآمدے میں چہل قدمی کررہی تھی کہ باجی کے کمرے کی کھڑکی کے پاس پہنچی تو اندر سے کچھ آوازیں سنائی دیں جس پر میں کھڑکی کے پاس ہی رک گئی کمرے کے اندر نیلے رنگ کا زیرو کا بلب جل رہا تھا میں نے دیکھا کہ فاروق بھائی بیڈ کے پاس کھڑے ہیں انہوں نے دھوتی پہن رکھی ہے جبکہ میری باجی بیڈ کے اوپر بیٹھی ہوئی ہیں انہوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی ہے فاروق بھائی نے باجی کا بازو پکڑ کر ان کو اٹھایا اور ان کے ہونٹوں پر کس کردی اور کہنے لگے میری رانی آج تو بہت سیکسی لگ رہی ہو
آہستہ بولوساتھ کمرے میں نازی ہے وہ سن لے گی
وہ سو گئی ہوگی تو اس کی فکر نہ کر آج تو میں تمہاری لمبی چدائی کروں گا
چھوڑو بھی ابھی کل تو کیا تھا ‘ باجی نے خود کو فاروق بھائی سے چھڑاتے ہوئے کہا
فاروق بھائی نے ان کو پھر پکڑا اور ان کو کسنگ کرنے لگے چند منٹ کے بعد انہوں نے باجی کے کپڑے اتار دیئے اور خود بھی دھوتی اتار دی وہ باجی کو کسنگ کررہے تھے اس کے ساتھ وہ باجی کے چیتڑوں پر اپنے ہاتھوں سے تھپڑ مارہے تھے جس کی کافی آواز آرہی تھی اس کے بعد دونوں نے ایک لمبی سی جپھی ڈالی پھر کسنگ کرنے لگے اس کے بعد فاروق بھائی نے باجی کو بیڈ پر بٹھا دیا اور خود کھڑے ہی رہے اب ان کا لن میرے سامنے تھا جو کافی لمبا اور کالے رنگ کا تھا اور اس کے گرد کافی بال تھے اب باجی نے فاروق بھائی کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اس کو لالی پاپ کی طرح چوسنے لگیں مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا تھا فاروق بھائی نے باجی کو بالوں سے پکڑ رکھا تھا اور وہ باجی کے سر کو آگے پیچھے کررہے تھے باجی نے اپنے ہاتھ فاروق بھائی کی پیٹھ کر رکھے ہوئے تھے اور ان کو آہستہ آہستہ سے ہلا رہی تھی تھوڑی دیر بعد فاروق بھائی کہنے لگے اب بس کر نہیں تو میں چھوٹ جاﺅں گا جس پر باجی نے ان کا لن اپنے منہ سے نکال دیا اور خود بیڈ پر لیٹ گئیں فاروق بھائی بھی بیڈ پر آگئے اور باجی کے مموں کے ساتھ کھیلنے لگے ان کو کسنگ کی پھر باجی کے جسم کے دوسرے حصوں پر کسنگ کرنے لگے پھر وہ اپنا منہ باجی کی ٹانگوں کے درمیان لے گئے اور باجی کی چوت کو چومنے لگے باجی کے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آواز نکل آئی تھوڑی دیر ایسے ہی رہنے کے بعد وہ اٹھے اور باجی کی ٹانگوں کے درمیان آگئے انہوں نے باجی کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور اپنا لوہے کے راڈ جیسا لن باجی کی پھدی پر رکھا اور پھر پوری طاقت سے اس کو اندر ڈال دیا باجی کے منہ سے اوئی ئی ئی ئی ئی ئی میں مر گئی کی آواز نکلی لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے مزے کی ہلکی ہلکی سی آوازیں آنے لگی اس کے بعد فاروق بھائی زور زور سے دھکے دینے لگے فاروق بھائی اپنے لن کو پورا باہر لاتے اور جیسے ہی زور سے اندر کرتے باجی آہ ہ ہ کرتی جس سے فاروق بھائی کے گھسے کی طاقت اور بڑھ جاتی ہر گھسے سے باجی کے ممے بھی ہل رہے تھے اوہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہاںںںں اوہ ہ ہ ہ ہ ام م م م م اف ف ف باجی کے منہ سے مسلسل مزے کی آوازیں نکل رہی تھیں باجی نے اپنے بازو فاروق بھائی کے جسم کے گرد لپیٹ رکھے تھے جن کی پکڑ ہر گھسے کے ساتھ ہی سخت سے سخت ہوتی جارہی تھی تھوڑی دیر ایسے ہی گھسے مارنے کے بعد فاروق بھائی اوپر سے اٹھ گئے انہوں نے اپنا لن پھدی سے نکال لیا اور باجی سے کہنے لگے اب گھوڑی بن جا جس پر باجی حکم بجا لائی اور الٹی ہوکر اپنے بازو بھی بیڈ پر لگا لئے انہوں نے اپنے گٹنے ٹیک لئے جس پر ان کی پھدی بھی مجھے صاف نظر آنے لگی ایسے گھوڑی بننے کے بعد باجی کہنے لگی آجا راجا گھوڑی پر چڑھ جا فاروق بھائی اس کے پیچھے گھٹنے ٹیک کر کھڑے ہوگئے اور اپنا لن چوتڑوں کے درمیان سے ان کی پھدی پر سیٹ کرنے لگے انہوں نے اپنا لن ایک ہی جھٹکے سے باجی کی پھدی کے اندر ڈال دیا اور اس کو تیزی سے حرکت دینے لگے جس سے کمرے میں پچ پچ کی آوازیں آنے گلی ہر جھٹکے سے باجی کے ممے نیچے سے ہل رہے تھے جن کو کبھی کبھی فاروق بھائی اپنی رفتار تیز کرکے پکڑتے اور پھر ان کو چھوڑ کر پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ گھسا مارتے تھوڑی دیر کے بعد فاروق بھائی نے اپنا لن پھر باہر نکالا اور کہنے لگے رانی آج مزہ آگیا آج میں پیچھے سے بھی کروں گا جس پر باجی کہنے لگی
رحم کرو راجا میں مر جاﺅں گی
آج نہیں چھوڑو ں گا
پھر تھوڑا سا تیل لگا لیں اپنے لن پر جس پر فاروق بھائی چل کر ڈریسنگ ٹیبل پر گئے اور تیل کی شیشی پکڑ کر لے آئے اور بوتل کو کھول کر اپنی ہتھیلی پر تیل ڈال کر اپنے لن کو ملنے لگے اب ایسی پوزیشن میں تھے کہ فاروق بھائی کی کمر میری طرف آگئی مجھے نہیں معلوم کہ کیا کررہے تھے صرف مجھے باجی کی قدرے زور سے آواز سنائی دی ” میں مررررر گئی“ ہائے“
”چپ کر اور تھوڑا سا رہ گیا ہے“ فاروق بھائی کی آواز آئی
انہوں نے اور تھوڑا زور لگایا اور پھر کہنے لگے لے اب پورا لن تیری گانڈ کے اندر چلا گیا ہے اب آئے گا مزہ ‘ پھر وہ آگے پیچھے ہونے لگے اور باجی کی آواز بھی آنے لگی ہائے ئے ئے ئے میں مر گئی اور نہیں تھوڑا آہستہ اور نہیں نہ ہ ہ ہ ہ میں مر گئی آہ ہ ہ اب جلدی کرو اور پھر چند منٹ کے بعد فاروق بھائی کی آواز آئی میں چھوٹنے لگا ہوں اور چند سیکنڈکے بعد فاروق بھائی پیچھے ہوئے اور بیڈ پر لیٹ گئے اور باجی جو گھوڑی بنی ہوئی تھیں وہ بھی لیٹ گئیں فاروق بھائی باجی سے کہنے لگے
کیسا لگا رانی
آج تو آپ نے مار ہی ڈالا ‘ باجی نے کہا اور ساتھ ہی فاروق بھائی کو کسنگ کرنے لگیں
میں چپکے سے اپنے کمرے میں آگئی اگلی صبح میں واک کے لئے نکلی تو اسی جگہ جاکر رک گئی جہاں کل ایوب کو نہاتے ہوئے دیکھا تھا آج بھی وہ وہیں موجود تھا اورنیکر پہنے ہوئے تھا وہ اپنے جسم کو تیل کی مالش کررہا تھا میں ایک درخت کی اوٹ میں کھڑی ہوکر اس کو دیکھنے لگی اس نے جسم کے بعد اس نے نیکر میں ہاتھ ڈالا اور اپنے لن کو تیل کی مالش کرنے لگا جس سے اس کے لن میں حرکت ہوئی اور وہ نیکر سے ہی دیکھنے لگا وہ شائد کھڑا ہورہا تھا اس کے بعد اس نے نہانا شروع کردیا آج اس نے نیکر نہیں اتاری تھی میں گھر کو لوٹ آئی اور ناشتے کے بعد کمرے میں آگئی اس رات بھی کھانا حسب معمول جلدی کھایا اور اپنے کمرے میں آگئی مجھے نیند نہیں آرہی تھی تھوڑی دیر کے بعد میں پھر باہر آئی اور اسی کھڑکی کے پاس کھڑی ہوگئی جہاں سے فاروق بھائی کی آواز آرہی تھی اب کیا شرما رہی ہے دیکھ میرا لن کیسے پھدک رہا ہے تیری پھدی کے اندر جانے کے لئے اور تیری پھدی بھی بے چین ہے اپنے اس لور کے لئے
اب چپ بھی کر بے شرم کہیں کے اور پھر کمرے سے سیکسی آوازیں آنے لگیں اوئی ماں اتنے زور سے تو نہ کرو
تیری چوت اتنی چکنی ہے کہ خود کو روک نہیں سکتا آج میں دوسری پوزیشن میں کرتا ہوں میں نے دیکھا آج فاروق بھائی اور باجی دونوں کے منہ ایک دوسرے کی شرم گاہ پر تھے اور دونوں کے منہ سے آوازیں آہ ہ ہ ہ ہ م م م م م م آہ ہ یس آو و و گڈ“ آرہی تھیں تھوڑی دیر کے بعد باجی کہنے لگیں اب آجاﺅ
کہاں پھدی منہ یا گانڈ
جہاں تم چاہو میرے راجا
پھر آج بھی گانڈ
پھر میں نے دیکھا باجی کرسی کے اوپر بازو رکھ کر کھڑی ہوگئیں اور فاروق بھائی نے ان کی گانڈ میں اپنا لن ڈال کر ان کو چودنا شروع کردیا ابھی ان کا کھیل جاری تھا اور میں ان کو بغور دیکھ رہی تھی میں اس وقت کا فی ہاٹ ہوچکی تھی اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے پیچھے کوئی کھڑا ہوا ہے میں نے مڑ کر دیکھا تو ایوب میرے پاس ہی کھڑا اندر کا منظر دیکھ رہا تھا میں نے اس کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے پکڑ لیا اور ایک ہاتھ میرے منہ پر رکھ کر مجھے تقریباً اٹھائے ہوئے میرے کمرے میں لے آیا اور کمرے کا دروازہ بند کردیا اور بولا کیا دیکھ رہی تھی میں شرم سے مری جاری تھی میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کو چھپا لیا چند لمحے بعد ہنستے ہوئے بولا اس میں شرمندہ ہونے والی کون سی بات ہے تمام مرد اور عورتیں یہ کام کرتی ہیں مرد کا کام ہی اپنی عورت کی چدائی کرنا ہے اس وقت میں کافی ہاٹ تھی اور میرے ہونٹ خشک ہورہے تھے ایوب نے مجھے آہستہ سے چھوا اور میرے بدن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا مجھے اس کا بہت مزہ آنے لگا اچانک وہ اپنا منہ آگے لایا اور میرے ہونٹوں پرکس کردی اس سے پہلے کہ مجھے کچھ سمجھ آتا کہ کیا ہورہا ہے اس نے میری شلوار اتار دی اور میرے منع کرنے کے باوجود زبردستی میری قمیص تھی اتار دی میں نے نیچے کچھ بھی نہیں پہن رکھا تھا اس لئے شلوار اور قمیص اترتے ہی پوری ننگی ہوگئی میں فوری طورپر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم کو چھپانے کی کوشش کی میں نے اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لئے اور ٹانگوں سے اپنی پھدی کو چھپا لیا ایوب نے میرے ہاتھ پیچھے کئے اور اپنی دھوتی بھی اتار کر مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور میرے جسم پر کسنگ کرنے لگا اس کا لن پوری طرح کھڑا ہوچکا تھا اور مجھے چبھ رہا تھا وہ میرے اوپر ہی لیٹا ہوا تھا کسنگ کرتے کرتے ایوب کہنے لگا ” تو بہت چکنی ہے شازی تیرے ممے انار جیسے ہیں اور تیرے گلابی ہونٹ کتنے سیکسی ہیں اور تیری گانڈ۔۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس نے میری گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا اور پھر اپنی ایک انگلی میری گانڈ کے اندر گھسا دی درد کی ایک لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی میں نے اپنے منہ سے نکلنے والی چیخ کو بہت مشکل سے کنٹرول کیا کیوں کہ ساتھ والے کمرے میں باجی اور فاروق بھائی موجود تھے اگر وہ سن لیتے تو کام بہت خراب ہوجاتا اس کے بعد ایوب نے اپنا لن میرے ایک ہاتھ میں پکڑا دیا اور بولا دیکھ میرا لن کتنا تگڑا ہے اس کے بعد اس نے اپنا ایک ہاتھ میری ٹانگوں کے درمیان میں گھسا دیا اور پھر بولا تیری چوت کتنی چکنی ہے اس نے اپنی ایک انگلی میری چوت کے اندر ڈال دی جو گیلی ہوچکی تھی پھر اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر آہستہ سے بولا تیری چوت میرے لن کی بھوکی ہے مجھے اس بات کی فکر ہورہی تھی کہ جیسے کچھ دیر پہلے میں اور ایوب دوسرے کمرے میں باجی اور فاروق بھائی کی آواز سن رہے تھے اسی طرح باجی اور فاروق بھائی بھی اس کمرے سے ہماری آواز سن سکتے تھے میں نے ایوب اور کان میں آہستہ سے کہا دیکھیں دوسرے کمرے میں باجی اور فاروق بھائی ہے وہ سن لیں گے جس پر ایوب کو بھی خطرے کا احساس ہوا جس پر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے بھی کھڑا کر کے چلنے لگا میں نے کہا ” کہاں“ تو کہنے لگا ” میرے پیچھے آﺅ“اس نے اپنی دھوتی جبکہ میں نے اپنی شلوار اور قمیص اٹھائی اور کمرے سے نکل آیا ہم دونوں ننگے تھے میں اس کی رہنمائی میں کمرے سے تقریباً بیس قدم کے فاصلے پر ایک اور کمرے میں چلی گئی جو گیسٹ روم کی طرح تھا جس میں دو بیڈ تھے اور اٹیچ باتھ روم تھا کمرے میں آتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور اپنی دھوتی اور میرے ہاتھ سے شلوار قمیص پکڑ کر نیچے پھینک دی اور مجھے بیڈ پر لٹا دیا اس کے بعد میرے جسم پر کسنگ کرنے لگا میرے ہونٹ‘ گردن‘ گالوں‘ بازوﺅں ‘ میرے مموں پیٹ اور پھر۔۔۔۔۔۔اس کے گرم ہونٹ میری پھدی کے ہونٹوں پر آگئے اس نے پہلے میری پھدی کے ہونٹوں کو چوسا پھر اپنی زبان اس کے اندر ڈال دی میرے پورے جسم کے اندر مزے کی ایک لہر سی دوڑ گئی میں ہواﺅں میں اڑ رہی تھی میں نے اس کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا چند منٹ بعد اس نے اپنا منہ ہٹایا اور میرے جسم کے اوپر والے حصے پر لے آیا اور پھر بیٹھ کر اپنا لن پکڑا اور میرے منہ کے اوپر اس کی ٹوپی رکھ دی جو بہت گرم تھا اور اس کے اندر سے ایک عجیب قسم کی بو آرہی تھی اور اس کے سوراخ سے مائع نکل رہا تھا پھر وہ مجھے کہنے لگا اس کو چوسو مزہ آئے گا میں کوئی مزاحمت نہ کرسکی اور اس کے لن کو منہ میں ڈال لیا اس کا صرف ٹوپا ہی میرے منہ میں تھا اس وقت میرے ذہن میں ایک دن پہلے والا سین آگیا جب باجی فاروق بھائی کا لن چوس رہی تھی میں نے اسی طرح لن کو چوسنا شروع کردیا کچھ دیر بعد ایوب نے مجھے روک دیا اور اپنا لن میرے منہ سے نکال لیا اس نے مجھے لٹایا اور پھر میرے ٹانگوں کے پاس آگیا اس نے میری ٹانگوں کو کھولا اور اپنے لن کو میری پھدی کے اوپر رکھ کر بولا ” اب میں اپنے لن کو تمہاری پھدی سے چسواﺅں گا“
نہیں بابا نہیں اتنا لمبا اور موٹا میں نہیں یہ میرے اندر نہیں جاسکتا یہ تو فاروق بھائی سے بھی بڑا ہے میں مر جاﺅں گی“ میرے منہ سے غیر ارادی طورپر نکل گیا
ایوب کے منہ پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور پھر وہ کہنے لگا چپ کر دیکھا نہیں بھیا کیسے بھابھی کو چود رہے تھے اب میں تجھے اسی طرح چودوں گا آج سے تو میری بیوی اور میں تیرا خاوند اب تو صرف مجھ سے ہی اپنی پھدی اور گانڈ مروائے گی
اچانک مجھے میری ٹانگوں کے درمیان درد سا محسوس ہوا جیسے کوئی گرم لوہے کی چیز میری پھدی کے اندر جارہی ہے میں نے دیکھا ایوب کچھ زور لگا رہا ہے میری آنکھوں سے آنسو نکل کر میرے گالوں پر آگئے میں نے ایوب سے التجا کی کہ اب بس کرے مگر وہ ہنسا اور مزید زور لگا دیا میری پھدی میں تکلیف مزید بڑھ گئی میں نے چیخ مارنے کے لئے منہ کھولا تو اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور ان کو چوسنے لگامیری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آگیا جو چند سیکنڈ تک رہا پھر آہستہ آہستہ اندھیرا ختم ہونے لگا لیکن درد تھا کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ایوب مسلسل میرے ہونٹ چوس رہا تھا اور اپنے ایک ہاتھ سے میرے مموں کو مسل رہا تھا اس کے ناک سے ہوںںںں ہوںںںں کی آواز آرہی تھی پھر اس نے میرے کان میں ہلکے سے کہا ”تیری چوتکا پردہ پھٹ گیا ہے میرا لن تیری پھدی کے اندر چلا گیا ہے اب میں تیری جم کر چدائی کروں گا اس کے بعد اس نے اپنے جسم کو تھوڑا سا اوپر کیا اور اپنی ہپ کو اوپر اور نیچے کی طرف حرکت دینے لگا ہر بار جب وہ اپنی ہپ نیچے کی طرف لاتا تو اس کا لن میری پھدی کے اندر کسی چیز کے ساتھ ٹکراتا پانچ چھ منٹ کے بعد مجھے بھی مزہ آنے لگا میں نے اپنی ٹانگیں مزید اوپر کیں اور اس کے گرد لپیٹ لیں وہ مجھے کتنی دیر تک پمپنگ کرتا رہا کچھ دیر بعد وہ پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا ” اب تو گھوڑی بن جا میں تیری گانڈ ماروں گا“ میں نے اس کے لن کو دیکھا تو بہت خطرناک لگ رہا تھا میں نے ایوب کی بات سن کر کہا کبھی نہیں جس پر وہ کہنے لگا گانڈ مارنے اور مروانے کا مزہ کچھ اور ہی ہے میری جان
مزہ تو تم کو ملے گا اور میں درد سے مر جاﺅں گی ’ میں نے اس کو جواب دیا
وہ پھر بولا اپنی گانڈ مروا کے دیکھ کتنا مزہ ملتا ہے تجھے دیکھا نہیں تیری باجی کتنے مزے سے گانڈ مرواتی ہے
اس کی بات سن کر میں بھی گھوڑی کی طرح ہوگئی اور اپنی گانڈ اس کے سامنے کردی تو اس نے کہا اس کو میرے لئے کھولومیں نے اس کے حکم کے مطابق اپنی گانڈ کو کھولنے کے لئے تھوڑا سا زور لگا اس وقت میرے کندھے بیڈ پر تھے اور میرا منہ تکیے کے اوپر تھا اس نے میرے ہاتھ میرے سر کے اوپر کردیئے پھر میرے پیچھے آگیا اور میری گانڈ کے اندر ایک انگلی ڈال دی پھر دوسری تیسری اور پھر چوتھی بھی ڈال دی اور پھر ان کو تھوڑی دیر ہلاتا رہا مجھے کچھ درد بھی ہورہا تھا اور مزہ بھی آرہا تھا پھر اس نے اپنا لن میری گانڈ کے اوپر رکھا اور اس کو اندر کرنے کی کوشش کرنے لگا مجھے باجی کی بات یاد آگئی میں نے ایوب سے کہا کہ تھوڑا تیل لگا لو مگر ایوب نے کہا یہاں تیل نہیں ہے تو ڈر مت میں تھوک لگا لیتا ہوں اس نے اپنا منہ میرے چوتڑوں کے پاس کیا اور میری گانڈ کے اوپر تھوک دیا پھر اپنا لن میری گانڈ کے اوپر رکھ دیا اور اس کو نیچے کی طرف دبانے لگا اس کا لن تھوڑا سا اندر گیا تو مجھے کافی تکلیف ہوئی اور میں نے اپنے چوتڑ ہلا کر اس کا لن باہر کردیا اس نے پھر میرے چوتڑ سیدھے کئے اور مجھے نہ ہلنے کی ہدایت کرکے اپنا لن میری گانڈ کے اندر ڈالنے لگا میرا منہ تکیئے کے اندر دھنس گیا اور میرا چہرا درد سے سرخ ہوگیا ” اوئی ئی ئی ماں میں مر گئی میں مر گئی نکالو اس کو “ میرے منہ سے نکلا مگر ایوب نے میری کوئی بات نہ سنی اور میرے مموں کو پکڑ کر مزید زور لگانے لگا اور پھر کہنے لگا کم آن کم آن لے اس کو اپنی گانڈ کے اندر “ میرے آنسو بدستور جاری تھے مگر وہ نہ رکا اور آخر کار اس کا لمبا اور سخت لن میری گانڈ میں پورا چلا گیا جس پر اس کے منہ سے نکلا ”یس س س س “
وہ کچھ دیر رکا اور پھر اپنے لن کو حرکت دینے لگا اس کا لن جب بھی میری گانڈ کے اندر جاتا تکلیف ایک دم بڑھ جاتی اور جب لن باہر آتا تو اس میں کچھ کمی ہوجاتی وہ آہستہ آہستہ اپنے کام میں جتا رہا اس کے ہاتھ ابھی میرے مموں پر تھے جب وہ میرے اندر اپنا پورا لن ڈال دیتا تو مجھے اپنی پھدی کے اوپر اس کے ٹٹے ٹکراتے ہوئے محسوس ہوتے اور اس کے بال مجھے چبھتے چند منٹ بعدمیرا درد کم ہوگیا اور پھر اس نے میرے بال پکڑ کر میرا منہ اوپر کیا اور کہنے لگا اب تیری گانڈ ڈھیلی ہوگئی ہے اب تجھے بھی مزہ آئے گا اس کے بعد اس نے اپنے جھٹکوں کی رفتار ایک دم بڑھ ا دی دس منٹ کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اس کے لن سے میری گانڈ کے اندر کچھ مائع نکل رہا ہے چند لمحے بعد مجھے لگنے لگا کہ ایوب کا لن کچھ ڈھیلا ہورہا ہے اس کے بعد اس نے میری گانڈ سے اپنا لن نکال لیاوہ میرے اندر ہی فارغ ہوگیا تھا مجھے اس وقت بہت زیادہ پین ہورہی تھی میں نے ایوب سے کہا کہ میں درد سے مرے جارہی ہوں میری چوت میں بھی جلن ہورہی ہے اس نے مجھے کس کیا اور کہنے لگا جانو ڈر مت کچھ بھی نہیں ہوگا یہ کہہ کر اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا پھر ہم دونوں بیڈ کے اوپر لیٹ گئے تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد اس نے ایک بار پھر مجھے چودا اور اس نے پھر اپنے لن کا رس میری گانڈ کے اندر ہی چھوڑا اس کے بعد میں اپنے اور وہ اپنے کمرے میں جاکر سو گئے اگلی صبح باجی نے ناشتے کے لئے اٹھایا میں نے ناشتہ کیا اور پھر کمرے میں جاکر سو گئی باجی نے مجھے مورننگ واک کے لئے کہا مگر میری گانڈ اور چوت کے اندر درد ہورہی تھی میں نے نیند کا بہانہ کیا اور اپنے کمرے میں جاکر سو گئی شام کو اٹھی تو کھانا کھانے کے بعد جب سو گئے تو پھر ایوب میرے کمرے میں آگیا اور مجھے لے کر اسی کمرے میں چلا گیا جہاں ہم نے پھر دو بار سیکس کیا اس کے بعد پورا مہینہ ہم لوگ مزے کرتے رہے جب مجھے مینسز ہوئے ان دنوں میں بھی ہم لوگ ملتے رہے ان دنوں ایوب صرف میری گانڈ مارتا ایک مہینے کے بعد میں واپس اپنے گھر آگئی اگلے سال بھی میں چھٹیاں گزارنے اپنی باجی کے گھر گئی اور خوب مزے کئے

Website