Babar Dogar
Beautiful world is all around us , My theme is to share those common things with you people that you
وکلا سے جو ہو سکتا تھا انہوں نے کیا، غلط کیا، آپ اپنے دل پر ھاتھ رکھ کر بتائے کے کبھی کسی سرکاری ھسپتال کے ڈاکٹر آپکے ساتھ ھسپتال میں تمیز کے ساتھ پیش آے؟ کیا ڈاکٹر سرکاری ھسپتال میں ویسے ہی تمیز کےُساتھ پیش آتے ھیں جیسا کے اپنے پرائیویٹ کلینک میں؟ ہرگز نہی۔ اس ملک میں جسکی جتنی اوقات وہ اتنا ھی چُُونا لگا رھا ھے۔ پاکستانی معاشرا اس وقت اس حد تک بے لگام ھو چکا ھے جہاں انصاف طاقتور کے گھر کی لونڈی بن چکا ہے - اگر آپ چاہتے ہیں کے آپکےسر پر جُوتے نا پڑیں تو آپکو طاقتور ہونا پڑے گا ۔ اس ملک میں آج تک طاقتور مزید مضبوط جبکہ غریب ویسے ہی جوتے کھا رھا ہے جیسے اسے ذبردستی ٹرکوں میں ڈال کر اس ملک میں لایا گیا تھا۔یہ ملک آج تک طاقتور کے حق میں ہی انصاف کرتا آیا ہے اور غریب کا مقدار صرف جوتے کا حقدار- انصاف کا گلا اسی دن ھی گھُٹ گیا تھا جب محمّد علی جناح نے بغیر کسی تعمل کے گورنر جنرل کے عھدے کا حلف لیا تھا، اس وقت اس نکٹھو قوم کو اس بات کی سمجھ آجانی چاہیے تھی کے یہ ملک صرف طاقت کے حصول کے لئے حاصل کیا گیا ہے اور اس میں راج وہی کرے گا جو طاقتور ہوگا- بہتر تو یہ ہوتا کے محمّد علی جناح صاحب اقتدار کی بجاے اقدار کی طرف جاتے مگر انہوں نے بھی اقتدار کا ہی دامن چوما، بہتر تو یہ ہوتا کے وہ اپنی بجاے کسی اور کو انتظامی معملات کا سربراہ بناتے تاکے مستقبل کے لئے یہ مثال بن جاتی کے کے اس ملک کا حصول صرف ذاتی طاقت کے حصول کے لئے نہی کیا گیا تھا- afsos کے مگر ایسا نہی ہوا- یہی وہ وجہ ہے کے آج تک طاقتور ہمیشہ اقتدار پر قابض ہوتا رہا اور غریب پستا رہا اور پستا رہے گا- اس ملک میں بچاؤ کا واحد راستہ طاقت کا حصول ہے، یہی طاقت آپکو انصاف بھی فراہم کرتی ہے، صحت کی سہولت سے لے کر ہر چیز آپکے قدموں میں رکھتی ہے جسکی آپکو ضرورت ہے- آپکو شائد یہ باتیں مایوسی کی باتیں لگ رہی ہونگی پر ایسا ہے نہی، میں بھی آپکی طرھ ایک انقلابی تھا لیکن تاریخ کا جب مطالعہ کیا تو پتا چلا کے جس قوم میں نسل دار نسل غلامی، جو قوم میر جعفر اور میر صادق ہی پیدا کر سکی، قوم ہمیشہ طاقتور کا ساتھ دیتی رہی ، آپ تاریخ کا مطالعہ کر لیں ہم نے ہر اس حکمران کا ساتھ دیا جس نے ہمیں چونا لگایا، ہماری تاریخ ہمیں صرف اور صرف غلامی کا ہی درس دیتی ہے، اس زمین سے صرف غلام پیدا ہوتے ہیں انقلابی نہی، اور غلاموں میں سے وہی غلام فائدہ میں رہا ہے جو نوکر شاہی ہو، اسی لئے تو یہ ملک شاہ اور اسکے موہروں کی طاقت کا سرچشمہ رہا ہے - میں نے بڑے بڑے دانشور ظلم کے خلاف خاموش دیکھے ہیں کیونکے وہ شاہی غلام ہیں، شاہ سے وفاداری میں ہی انکی سرداری ہے، اسی لئے میرے بھائیوں اور بہنوں آپ پریشان مت ہو، وکیل ڈاکٹر کا سر پھوڑے یا ڈاکٹر وکیل کا گھٹنہ، یہ چلتا رہے گا، یہ طاقت کے اور انصاف کے حصول کی جنگ ہے اور اس میں نہ ہار ہے نہ جیت ہے، آپ میری یہ بات لکھ لیں کے نہ تو کسی ڈاکٹر کے خلاف کوئی کاروائی ہوگی اور نہ ہی کوئی وکیل اندر ہوگا، اگر کچھ ہوگا تو تو بس غریب کا علاج اور اسکے لئے انصاف نہی ہوگا- آپ سکون کا سانس لیجئے کے یہ جوتےآج ڈاکٹرز کو پڑے ہیں جو کل وکیلوں کے ماتھے پر لگے تھے، آپ سکون کریں کے آج کا دن ٹل گیا آج آپکو جوتا نہی پڑا، پر فکر نہ کریں کل آپکی باری ہے،،،،،،
بابر ڈوگر
١١ دسمبر لندن
This is the cinema that we were missing in Pakistan. Sir Sarmad has nailed it. Only a humble gentleman like him can touch these topics.
میں کافر یا غدار؟
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں پاکستان سیمینار منقعد ہوا جس میں پاکستان اور دیگر ممالک سے آے پاکستانی ریسرچرز نے پاکستان سے مطلق مختلف موضوعات پر اپنے مقالے پیش کیے، اس ناچیز کو بھی یہ شرف حاصل ہوا کے میں اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ دیگر لوگوں کے ساتھ شیر کر سکوں، میرے لئے سب سے خوشی کا مقام پروفیسر طارق رحمان سے ملنا تھا جو کے میری کافی سالوں سے حسرت تھی جو کے اس ریسرچ کانفرنس میں الله نے پوری کر دی، الله نے پاکستان کو عظیم ذہنوں سے نوازا ہے، اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس پاکستان کانفرنس میں دنیا کے بہترین پاکستانی دماغ (اس ناچیز کے علاوہ) پاکستان سے مطلق ٹوپکس پر اپنی ریسرچ شیر کر رہے تھے،اس سے پہلے میں انگلینڈ کی بہترین ریسرچ کانفرنسز میں جا چکا ہوں اور یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کے پاکستانی ریسیچر جو کے یونیورسٹی اف آکسفورڈ میں اپنی ریسرچ پیش کر رہے تھے ان کا میعار کسی بھی ترھا سے کسی سے کم نہ تھا، افسوس اس امر کا ہے کے پاکستانی حکومت نے آج تک ایسے ریسرچرز کی مدد نہیں لی جو پاکستان کے کرپٹ نظام پر ریسرچ اور اسکو بہتر کرنے کی تجاویز دے سکتے ہیں اور اس پر عمل کرکے ہم ایک ایک کرکے سب محکمے ترقی کی رہ پر ڈال سکتے ہیں، مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسا ہو سکتا ہے کیونکے پاکستان کا جو نظام ہے وہ گدھے اور گھوڑے میں تفریق رکھتا ہے جو میں آگے جا کر بیان کرونگا،
ایک سوال جو کے میرے ذھن میں اس دن سے آج تک دھنسا ہوا ہے کے وہ کیا بات ہے کے ایسے بہترین ذہنوں کے ہوتے ہوۓ پھر بھی پاکستانی قوم میں اخلاقیات اور انسانیت دور دور تک دکھائی نہی دیتی، وہ کیا بات ہے کے ہر سال آکسفورڈ، کیمبرج، لندن اسکول اف اکنامکس ، کنگزکالج اور دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے فارغ ال تحصیل دماغ بھی پاکستان کی کایا نہی پلٹ سکے، وہ کیا بات ہے کے پاکستان میں ٧٠ سال سے کوئی محمّد علی جناح، کوئی گاندھی، کوئی نیلسن منڈیلا، کوئی مارٹن لوتھر کنگ نہیں پیدا ہو سکا جو اس قوم کی تقدیر بدل سکے؟ یہی دھرتی دنیا کے بہترین دماغ پیدا کرتی ہے اور اسی دھرتی سے ایسی ایسی ظلم کی کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جسکی دنیا میں نظیر نہی ملتی، پی ایچ ڈی میں میرا ایک چیپٹر پوسٹ colonialism پر بھی ہے جسکو آسان الفاظ میں (شاہ سے وفاداری کا نظام) گورے کے نظام کے موجودہ اثرات بھی کہا جاتا ہے، گورے کے نظام جو کے اس نے غلاموں پر راج کرنے کے لئے بنایا تھا اس کا بنیادی اسٹرکچر کچھ ایسا تھا کے غلاموں میں سے جو زہین غلام گورے کے زیادہ قریب تھا اسکو اتنی ہی مراعات ملتی تھی،اور سب غلاموں کی کوشش تھی کے وہ گورے کے قریب ہوں تاکے باکی غلاموں پر انکا روب دبدبہ ہو، بہترین گدھوں کا انتخاب (انڈین سول سروس) کرنے اور انکو بہترین سہولیات دے کر عام لوگوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا، جو زہین گدھا، سرکار کے جتنا قریب تھا اتنی ہی اسکی مراعات اور دبدبہ تھا، آج گورے کو انڈیا چھوڑے ہوۓ ٧٢ سال ہو گئے لیکن آج بھی گورے کا وہی نظام پاکستان پر راج کر رہا ہے، آج کے پاکستان میں بھی ظلم کی وہی داستان ہر گلی ہر کوچے سے ملتی ہے جو آج سے ٧٢ سال پہلے ملتی تھی، شائد گورے کے ہوتے ہوۓ کسی غریب کو انصاف مل جاتا مگر اس مملکت خدادا (جو حادثاتی یا خدائی معجزے پر وجود میں آیا) جسکو اسلام کے نفاذ کے دھوکے پر کچھ شرفا جنکی سیاست کانگریس میں نہی چلی، وہ رائل انڈین آرمی کے مسلمان افسر جو صرف مسلمان ہونے کیوجہ سے ترقی سے محروم ہو رہے تھے اور وہ مسلمان جج جو چیف بننے کے سپنے دل میں لے کر پاکستان بنانے کی تگو دو میں لگے ہوۓ تھے ان سے کسی نے نہی پوچھا کے کروڑوں لوگ جو اس پار ہجرت کرینگے انکا کوئی پلان بنایا تھا آپ نے؟ کاش کے کوئی ہمارے قائد سے پوچھ لیتا کے اتنے لوگ جو اس ہجرت میں قتل ہوۓ اسکا ذمدار کون ہے؟ لاکھوں عورتیں جنکی عزتیں بے ابرو ہوئی اسکا گناہ کسکے سر پر ہے؟ وہ لوگ جنہوں نے سب کچھ ہوتے ہوۓ اپنا گھر چھوڑا اور انکے بچے بھوک سے بلکتے رہے اور آپ جہاز پر بیٹھ کر آ گئے؟ کاش کے کوئی ان سے یہ سوال کر لیتا کے آپ نے یہ پلاننگ کیوں نہیں کی، آپ ہجرت کے اس قتل عام اور انسانیت سوزواقعات کے قصور وار ہیں، آپ کس طرھ سے حکومت کر رہے ہیں ان لوگوں پر؟ کیا آپ نے یہ سب حکومت کے لئے کیا تھا؟ گورے کے نظام میں سوال کرنے والا غدار اور پاکستان میں سوال کرنے والا غدار اور کافردونوں کہلاتا ہے بس اتنا سا فرق پڑا ہے نیا دیس بننے میں، باکی سب ایک جیسا ہے کچھ بھی تو نہیں بدلہ؟ میرے باپ دادا نے اسی خاطر اپنے باپ دادا کا دیس چھوڑا تھا کے یہاں سب مسلمان مل کر بھائی بھائی کی ترھا رہینگے، روکھی سوکھی کھانے کے سپنے لئے اس دس میں آ بستے ہیں، ٨٠ سال سے اس ملک پر وہی خود غرض سیاست دان، وہی کرپٹ جج، وہی جنرل حکومت کر رہے ہیں جنکی حکومت کرنے کی ہوس نے اس ملک کی بنیاد رکھی، آج ٨٠ سال بعد بھی میں صحت کے لئے اپنی جیب سے علاج کرواتا ہوں، بچوں کی تعلیم کے پیسے خود دیتا ہوں،انصاف پیسے سے خریدتا ہوں، ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہوں اور بدلے میں کیا ملتا ہے مجھے؟ یہی سوال جب میں سوچتا ہوں تو جواب ملتا ہے کے یہ ملک محکوم رہنے کے لئے نہی بلکے حکمرانی کرنے کے لئے بنا تھا، اس میں زندہ رہنا ہے تو حکمران یا حکمران کے قریب رہنا ہے، آج آکسفورڈ اور دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے پڑھا دماغ شائد اس بات کو سمجھ چکا ہے، وہی خواب دل میں سجاے ڈگری تھامے پاکستان جاتا ہے کے وہ شاہ کے قریب ہوگا اسکا دبدبہ ہوگا اسکا روب ہوگا، اسکی مراعات ہونگی، یہ دماغ اس چیز کو سمجھ چکا ہے کے شاہ کی وفاداری کیوں ضروری ہے، اس معاشرے میں انصاف، صحت اور باکی سب کچھ صرف شاہ کی قربت سے ہی مل سکتا ہے، میں نے آج تک شاہ کے قریب لوگوں کو انصاف کے لئے دربدر، صحت اور تعلیم کے لئے ذلیل ہوتے نہیں دیکھا، گزشتہ ٨٠ سال سے اگر کسی کو مراعات نہی ملی تو غریب کو نہی ملی، جوتے پڑے تو غریب کو پڑے، قتل ہوا تو غریب ہوا، انصاف نہی ملا تو غریب کو نہیں ملا،قصور اس میں غریب کا ہی ہے کیونکے وہ نہ تو شاہ کے قریب ہو پایا اور نہ ہی اپنی اولاد کو اس قابل کر پایا کے وہ شاہ کے قریب ہو سکیں، پھر اسکو انصاف کیسے ملے؟ آج کا پاکستان کا بہترین دماغ بس یہی سوچ رہا ہے کے وہ شاہ کے زیادہ قریب کیسے ہو سکتا ہے، وہ کونسی ڈگری ہے جسکو لے کر وہ تمام حسرتیں پوری کر سکتا ہے جنکی بچپن سے اس نے تمنا کی ہے، یہ سلسلہ اس دھرتی پر آج سے نہی بلکے پچھلے ١٠٠٠ سال یا اس سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے اور ہم اور آپ یہ سوچ رہے ہیں کے یہ نظام پلک جھپکتے بدل جائے گا؟ نظام تو شائد آنے والے کچھ سالوں میں بدل جائے مگر یہ غلامانہ سوچ شائد بدلتے بدلتے صدیاں بیت جائیں، اگر بدلنا ہی ہے تو سوچ کو بدلیں سوچ بدل گئی تو نظام خود بدل جائے گا،
شائد مجھے اس سوال کا جواب مل گیا ہے، آجکا بہترین دماغ یہ بات سمجھ چکا ہے کے اگر انصاف چاہیے تو شاہ کی قربت ضروری ہے، پاکستان میں کسی غریب کو نہ کبھی انصاف ملا اور نہ ہی کبھی ملے گا، یہ ملک شاہ کے لئے بنا تھا غریب کے لئے نہی،
ایک طرف تو یہ سوچ ہے مگر دوسری طرف ہے کیا؟ یہ بہترین دماغ اگر اس نظام پر سوال کرے تو غدار کہلاتا ہے اور اگر غدار ثابت نہ ہو تو کفر کا فتویٰ اس پر لازم ہے، آج کا بہترین دماغ یہ بات سمجھ چکا ہے کے اگر مجھے انصاف ، صحت، اور دیگر سہولیات چاہیئں تو مجھے شاہ کے قریب ہونا ہے، اگر میں شاہ کے قریب ہوتا ہوں تو شائد دنیا کی نظر میں میں قابل رشک ہوں لیکن اپنی نظر میں میں غدار بھی ہوں اور کافر بھی!
اگر آپ چاہتے ہیں کے آپکے بچے ایسے قتل نہ ہو، آپکو صحت اور انصاف ملے تو آپ بھی شاہ کے قریب ہوں اسی میں ہی بھلائی ہے، دنیا فانی ہے اس نے صرف شاہ ہی کی مانی ہے !
بابر ڈوگر
٥ سپتمبر ٢٠١٩
لندن
عید مبارک
here is my story of visiting my dream city.
subscribe to my youtube channel: https://www.youtube.com/babardogar
#
This lady deserve a noble prize for peace. A lay who has lost 2 sons and son in law by Military major. To get justice and to get authorities attention 2 of her daughters set them selves on fire. Though military court martial and hanged that major however the path for justice wasn't easy. Read the full story below or click the wiki link:
https://en.wikipedia.org/wiki/Mai_Jindo
یہ 5 جون 1992 تھا، سندھ ٹنڈو بہاول کے گاؤں میں ایک حاضر سروس میجر ارشد جمیل نے پاک فوج کے دستے کے ساتھ چھاپا مار کر 9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے لے جا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا، فوج نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق بھارت کے ادارے ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ (را) سے تھا، لاشیں گاؤں آئیں تو کہرام مچ گیا ہر ماں اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہی تھی ان کے بین دل دہلا رہے تھے، ان ماؤں میں ایک 72 سال کی بوڑھی عورت مائی جندو بھی تھی، اس کے سامنے اس کے دو بیٹوں بہادر اور منٹھار کے علاوہ داماد حاجی اکرم کی لاش پڑی تھی مگر وہ خاموش تھی، عورتیں اسے بین کرنے پر اکسا رہی تھیں ، مائی جندو سکتے کے عالم میں بیٹوں اور داماد کے سفید ہوگئے چہرے دیکھے جا رہی تھی،،
ہر شخص کہہ رہا تھا کہ خاموشی سے میتیں دفنا دی جائیں قاتل بہت طاقتور تھے ان غریب ہاریوں کا ایسی طاقت والوں سے کیا مقابلہ، مائی جندو کو بار بار رونے کے لیے کہا گیا تو اس نے وحشت ناک نگاہوں سے میتیوں کی طرف دیکھا اور بولی بس ! مائی جندو ایک ہی بار روئے گی ,جب بیٹوں کے قاتل کو پھانسی کے پھندے میں لٹکتا دیکھے گی، سب جانتے تھے ایسا ممکن نہیں تھا مگر آخر لوگ خاموش ہوگئے، مائی جندو کی بیٹیاں کُرلا رہی تھیں مگر مائی جندو ساکت بیٹھی قتل ہونے والوں کو تکے جا رہی تھی،
جنازے اٹھے تو مائی جندو نے سر کی چادر کمر سے باندھی سیدھی کھڑی ہوئی اور لہو ہوتے جگر کے ساتھ بیٹوں کو الوداع کیا،،
مسئلہ یہ تھا کہ یہ ٹنڈو بہاول کا دور دراز کا گاؤں تھا اور تب دریائے سندھ کے اس کنارے پر قتل ہونے والوں کی ویڈیو بنانے کے لیے موبائل کیمرہ نہیں آیا تھا، ملک اور سندھ بھر میں خبر چلی کہ دشمن کے ایجنٹ مار کر ملک کو بڑے نقصان سے بچا لیا گیا جس جس نے پڑھا سُنا اس نے شکر کیا ، جب سارا ملک شکرانہ ادا کر رہا تھا تب مائی جندو نے احتجاجی چیخ ماری
اس چیخ نے پرنٹ میڈیا کی سماعتیں چیر کے رکھ دیں، مائی جندو بوڑھی تھی جسمانی لحاظ سے کمزور مگر وہ تین مقتولوں کی ماں تھی اس نے طاقت کے مرکز سے جنگ کا فیصلہ کیا اور اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر قاتلوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، سوشل میڈیا کی غیر موجودگی میں یہ جنگ آسان نہ تھی مگر نقارے بج چکے تھے کشتیاں جل چکی تھیں اور واپسی محال تھی، اخباروں اور صحافیوں کے ہمراہ مائی جندو نے اس چیخ کو طاقتی مراکز کے سینوں میں گھونپ دیا، پہلی جھڑپ ختم ہوئی اور گرد چھٹی تو معلوم ہوا کہ قتل ہونے والے دہشت گرد نہ تھے بلکہ میجر ارشد جمیل کا ان کے ساتھ زرعی زمین کا جھگڑا تھا، جس کی سزا میں انہیں قتل ہونا پڑا تھا،
24 جولائی 1992 کو جنرل آصف نواز اور نواز شریف نے ملاقات کی اور جنرل آصف نواز نے میجر ارشد جمیل کا کورٹ مارشل کرنے کا حکم دیا، 29 اکتوبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد جمیل کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی،
میجر نے پاک فوج کے سپہ سالار کو رحم کی اپیل کی جو 14 ستمبر 1993 کو مسترد ہوئی، اس کے بعد رحم کی اپیل صدر فاروق لغاری سے کی گئی جو 31 جولائی 1995 کو مسترد تو کی گئی لیکن سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا، اس کے بعد میجر ارشد جمیل کے بھائی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج سعید الزمان صدیقی نے حکم امتناع جاری کیا اور سزا روک دی،
سزائے موت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 کو مائی جندو کی دو بیٹیوں نے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے جسم پر تیل چھڑک کر خود سوزی کر لی، ان کو نازک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ بچ نہ سکیں،
بالآخر 28 اکتوبر 1996 کو طاقت کی دیوار مائی جندو کے مسلسل دھکوں کے سامنے ڈھیر ہوگئیں،
یہ حیدر آباد سنٹرل جیل تھی جب مائی جندو کو پھانسی گھاٹ لایا گیا،
سامنے تختہ دار پر اس کے گاؤں کے 9 بیٹوں کا قاتل کھڑا تھا،
دار کا تختہ کھینچا گیا تو قاتل میجر کا جسم دار پر جھول گیا عین اسی وقت سامنے کھڑی مائی جندو کی بوڑھی مگر زورآور آنکھ سے ایک اشک نکلا اور اس کے رخسار کی جھریوں میں گُم ہوگیا
A letter for my Son.
گھٹیا ڈیم اوراچھی قوم:
چیف جسٹس آف پاکستان اور پرائم منسٹر آف پاکستان نے ڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے. یہ ان دونوں کی پاکستان کے خلاف ایک عظیم سازش ہے. اصل میں اس ڈیم سے دو عدد پائپ نکلیںگے ایک پائپ بنی گالا جبکے دوسرا پائپ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ٹینکی میں نصب کیا جائیگا. اس ڈیم میں جتنا پانی ذخیرہ ہوگا وہ کسی بھی پاکستانی کے کام نہی آئیگا بلکے صرف ان دونوں حضرات کے غسل خانے کی ضرورت پوری کرے گا.میں نے تو یہاں تک سنا ہے کے ڈیم سے جو بجلی بنے گی وہ لوڈشیڈنگ ختم کر دیگی. بھائی اب بندا ان دونوں سے پوچھے کے ابھی پچھلے برس ہی میں نے نیا UPS لگوایا ہے اسکا کیا ہوگا؟ میرا تو ہوگیا نہ نقصان؟ اور ویسے بھی اچھا ہے لوڈشیدڈنگ ہے، نہی تو اتنی مہنگی بجلی ہے اگر ٢٤ گھنٹے لائٹ آے تو بل بوہت زیادہ آے بجلی کا. ویسے بھی لائٹ جاتی ہے تو الله کی یاد اور قیامت کی گرمی کا احساس کرکے ایمان تازہ رہتا ہے.
ان دونوں حضرات نے بوہت غلط فیصلہ کیا ہے لوگوں سے مدد مانگ کر، بھلا بھکاری بھی کسی سے مدد مانگتا ہے؟ بھائی جب قرض لے کر پاکستان کو سرخرو کیا جا سکتا ہے تو پھر اپنے لوگوں سے مدد مانگنے کا کیا فائدہ؟ اگر یہ قرض لے لیتے ہیں تو قرض کونسا انہوں نے اپنی جیب سے ادا کرنا ہے؟ اگلی حکومت جانے اور قرض جانے؟
ڈیم بنانے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں جو نوکریاں پیدا ہونگی وہ کسی پاکستانی کو نہی بلکے ان دونوں کے رشتے داروں میں تقسیم ہونگی. میں نے تو یہاں تک سنا ہے کے اس ڈیم سے مزدوروں سے لیکر انجینئرز تک کے لوگوں کو دن رات کام کرنا پڑے گا، اب آپ ہی بتایے گھر میں فارغ بیٹھے رہنا اچھا ہے یا اتنی گرمی میں کام کرنا؟ ویسے بھی ان لاکھوں نوکریوں کا کیا فائدہ جب یہ نوکریاں سرکاری نہ ہوں؟ ٧ سال کے بعد پھر ان لوگوں نے بیروزگار ہو جانا ہے؟ ڈیم بننے میں 7 سال لگ جائینگے جبکے چیف صاحب اور عمران خان اس سے کیی سال پہلے ریٹائر ہو جائینگے. اور ویسے بھی زندگی کا کیا بھروسہ؟ اس سے تو اچھا ہے میٹرو بس بنا لیتے؟
اب آپ ہی مجھے بتائیں کے اگر ڈیم بن گیا تو اس سے کتنے لاکھوں ایکڑ اراضی کاشت کے قابل ہو جائیگی؟ اب اسکے لئے زیادہ کسانوں کی ضرورت پڑے گی آپ ہے بتایے ہمیں، کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کے آپ کے بچے کسان بنیں؟ اگر اناج زیادہ ہوگیا تو الله کے رزق کی بیحرمتی ہو گی یا تو زیادہ والا اناج پھینکنا پڑے گا یا ایکسپورٹ کرنا. بھائی اب اگر یہی زیادہ والا اناج اگر ایکسپورٹ کرنا پڑ گیا تو خدا نہ خواستہ کیا ہمارا اناج مرتد گورے لوگ کھائینگے، کھیتی کریں ہم اور ہمارا اناج کھائیں گورے؟ ایسا ہم نہی ہونے دینگے.
اب آپ ہی بتائیں کے قدرت کا راستہ کوئی روک سکتا ہے؟ کہتے ہیں کے ڈیم سیلاب کو روک سکتا ہے؟ بھائی یہ سیلاب قدرت کا عذاب ہوتا ہے اگر اسکو روک لیا تو قدرت غصہ ہوگی اور کوئی زیادہ بڑا عذاب نازل کر سکتی ہے اور پانی کا راستہ روکنا کوئی اچھی بات ہے کیا؟ ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کے پانی پلانا ثواب کا کام ہے، اب آپ ہی بتائیں کے اگر ڈیم بن گیا تو سمندر تو پیاسا مر جائیگا؟ اگر ہم نے دریا کا راستہ روک لیا تو سمندر کی پیاس کون بجھاہے گا؟ ہم نہی لیتے کسی کی آہ.
مجھے تو ہنسی اتی ہے ان دونوں حضرات پر ان کو پیسا خرچ کرنا بھی نہی اتا، اب آپ ہی بتائیں کے ١٢٠٠ ارب روپے سے کتنی میٹرو بن سکتی ہیں؟ کتنے صحافی خریدے جا سکتے ہیں کتنے پل بن سکتے ہیں کتنی سڑکیں بن سکتی ہیں؟ اور تو اور ہم لوگوں نے تو اگلے چالیس پچاس سال بعد مر جانا ہے پھر ہمیں کیا فائدہ اس ڈیم کا؟
میری پرائم منسٹر پاکستان اور چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کے اس قوم کے حال پر رحم کریں. انکے بچوں کا نہی اپنے بچوں کا سوچیں. آپ دونوں حضرات کی زندگی الله کی رحمت سے اچھی گزر رہی ہے کسی چیز کی آپکو کمی نہیں ہے پھر کیا ضرورت ہے اس عوام کے بارے میں سوچنے کی؟ اس عوام کے بارے میں جسنے بھی سوچا ہے اس پر قدرت کا عذاب ہی نازل ہوا ہے. اس قوم کے حال پر رحم کریں اور اسکو اسکے حال پر چھوڈ دیں. یہ گھٹیا ڈیم ہماری اعلیٰ قوم کو تکسیم کر رہا ہے. جب انکو اپنی نسلوں کا خیال نہی تو آپ کون ہوتے ہیں انکی نسلوں کے بارے میں سوچنے والے؟
بابر ڈوگر
١٤ سپتمبر ٢٠١٨
This is Pakistan ❤️❤️