PAIGHAM-e-ISLAAM
All post's are uploaded here from Holy Quran and Sahih Ahdees
کل میں الیاس قادری صاحب کی ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ میز پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے انکے ایک مقلد نے ان سے پوچھا بابا جانی آپ پہلے نیچے بیٹھ کر کھاتے تھے اور اب آپ میز پر بیٹھ کر کھا رہے ہیں تو الیاس قادری صاحب نے جواب دیا کہ انکے گھٹنے میں تکلیف رہتی ہے تو ڈاکٹر نے انکو نیچے بیٹھنے سے منع کیا ہے لہذا مفتی صاحب سے مشورہ کرنے کے بعد اب وہ میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور نماز بھی کرسی پر پڑھتے ہیں۔
اس میں کچھ یاددہانی ہے اور میرے لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ سند ہو جائے۔
1 قادری صاحب کو درد ہوئی انہوں نے درد والی جگہ پر ہاتھ رکھ کر وہ بابا جی کے ٹھلو والا دم نہیں کیا بلکہ ڈاکٹر کے پاس گئے۔
2 قابل غور بات یہ ہے کہ قادری صاحب مر کر نہیں بلکہ زندہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی نہیں بلکہ اپنی تکلیف کو دور نہیں کر سکے۔
3 بلکہ قادری صاحب کو درد ہوا تو انہوں نے اس فیلڈ کے انسان سے رابطہ کیا نہ کسی دربار پر گئے نہ کوئی تعویز لیا کیونکہ انکو پتہ ہے اس مسئلہ کا حل کوئی زندہ اور اسی فیلڈ کا بندہ کر سکتے ہیں۔
4 قادری صاحب کسی مردہ ڈاکٹر کی قبر پر بھی نہیں گئے۔ بلکہ زندہ ڈاکٹر کے کلینک پر گئے۔اھل عقل کیلئے اسمیں نشانیاں ہیں.🧏
اور نصیحت تو عقلمند قبول کرتے ہیں۔📖📗
نصیحت کرتے رہو نصیحت ایمان والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
تھوڑا سا نہیں بہت زیادہ سوچیں ۔
شکریہ ❣️
فضیلة الشيخ محمد عزير شمس رحمه الله: ايک مثالی شخصیت
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفر اللہ
محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی اور ابو تیمیہ مجتبیٰ عالم بن محمد عارف کی مرتب کردہ کاوش " محقق دوراں فضیلة الشيخ محمد عزير شمس رحمه الله: حيات و خدمات " چند روز پہلے مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد سے خرید کی ۔ صحت اور موسم کی مناسبت سے تھوڑا تھوڑا مطالعہ جاری رکھا ۔ آج حاصل مطالعہ سپرد قلم ہے ۔ یہ کتابی کاوش ' آیک سو سے زائد عرب و عجم کے شیوخ کی تحریروں پر مشتمل ہے '. جو شیخ محترم کی آنا فانا وفات حسرت آیات پر ہر صاحب تحریر کے دلی دکھی جذبات کی عکاسی ہے ۔
فنا فی العلم ، جامع العلوم و الفنون ، میمنی الصغیر محمد عزیر شمس رحمہ اللّٰہ 11 جمادی الاولی 1376ھ مطابق 15 دسمبر 1956 ء بمقام صالح ڈانگہ ضلع مرشد آباد ( مغربی بنگال ، بھارت) میں طلوع ہوئے اور 18 ربیع الاول 1444ھ مطابق 15 اکتوبر 2022 ء مکہ مکرمہ سعودی عرب میں غروب ہونے ( انا للہ و انا الیہ راجعون)۰ آپ کی موت نے بتایا کہ" مخلص اہل علم " کی موت کا کیا غم ہوتا ہے ، موت العالم موت العالم کی حقیقت سمجھ آئی ۔
زندگی کی قیمتی سانسوں کو قیمتی تر بنانے کے لیے آپ کی حیات مستعار بارے مختلف تاثراتی مضامین سے اخذ کردہ چند باتیں نظر نواز قارئین کی جا رہی ہیں شاید کہ اتر جائے کسی کے دل میں کوئی بات ۔
اللہ تعالٰی نے جناب عزیر شمس رحمہ اللّٰہ کو وافر مقدار میں علم ، معرفت ، ذہانت ، ذکاوت ، فطانت ، اور زیرکی عنایت فرمائی تھی ۔ لفظ عبقری آپ کی شخصیت پر من کل الوجوہ فٹ ہوتا تھا ۔ حفظ و استحضار کی ایسی قوت کہ انسان حیران رہ جائے۔ جب بھی کسی شخصیت کا ذکر کرتے نام کے ساتھ ہی رساں سے سن وفات بیان کرتے ، چاہیے وہ شخصیت صدیوں قدیم ہو یا ماضی قریب سے ۔ جس کتاب کا ذکر کرتے اس کے مالہ و ماعلیہ کے ساتھ ساتھ مختلف ایڈیشن اور مختلف ایڈیشنوں کے فروق بھی سامنے لاتے۔ آپ کے سرعتِ مطالعہ ، وسعت اطلاع اور علمی گہرائی کی کوئی حد نہ تھی ۔ ذی علم ہونے کے باوجود آپ کی شخصیت میں کوئی تکبر ، انا، اکڑپن نہیں تھا ، بلکہ وافر مقدار میں حلم ، متانت ، سنجیدگی ، اخلاق عالیہ ، اوصاف حمیدہ ، تواضع ، خاکساری ، انکساری ، مہمان نوازی ، فروتنی اور عاجزی سے سرفراز تھے ۔ جس کا بین ثبوت کہ آپ اپنا دل اور دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا رکھتے تھے ۔
محقق دوراں علامہ عزیر شمس رحمہ اللّٰہ علیہ کا اوڑھنا بچھونا کتاب تھا, علمی تراث تھا ، ان کے بغیر وہ جی نہیں سکتے تھے۔ کتابوں کے بغیر انہیں نیند نہیں آتی تھی ۔ آپ عصر حاضر کے شیخ الکل فی الکل تھے ۔ جس فن بارے گفتگو کرتے اس کا حق ادا کر دیتے ، اور کی کوئی حد نہ تھی ۔ جملہ علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب کے میمنی الصغیر تھے۔ اردو ادب گویا گھر کی لونڈی تھی ۔ علم العروض مشکل ترین فن آپ کی انگلیوں بلکہ چٹکیوں کا کھیل تھا ، علم العروض پر آپ غضب کی کمانڈ رکھتےتھے ۔
امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی علمی تراث کو گوشہ خمول سے منصئہ شہود پر لانا ، ان کے افکار ، سیرت و کردار کو بطور مثال پیش کرنا آپ نے زندگی کا مشن بنا رکھا تھا ۔ آپ نے امامین کے دستی خط کی پہچان میں اس قدر مہارت حاصل کر رکھی تھی کہ دنیا میں کوئی بھی آپ کا مد مقابل نہ تھا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ پر کام کرنے کی خاطر دنیا بھر میں 80 تا 82 لائبریریوں کی 700 تا 800 جلدوں کی فہرست کھنگالی، چاہیے وہ عربی ، اردو ، فارسی ، انگریزی ، جرمن یا فرنچ ہی کیوں نہ ہو ۔ اس خاطر انگلستان ، امریکہ ، جرمنی فرانس ، ترکی ، مصر ، پاکستان ، ہندوستان ، غرض ہر ملک ہر اس لائبریری تک پہنچے جہاں امام ابن تیمیہ کا کوئی نادر ع نایاب مخطوطہ موجود تھا ۔
آپ کی زندگی نظم وضبط اور پابندئ وقت کا بہترین نمونے تھی: آرام کے اوقات ، مطالعہ کے اوقات ، مسائل پوچھنے ، راہنمائی چاہنے والوں کے آنے کے اوقات ، دروس کے اوقات ، غرض ہر کام کا ایک وقت مقرر ، آغاز و اختتام میں ایک منٹ کی کمی بیشی پسند نہ تھی ۔
بقول ثناءاللہ صادق تیمی ، " آپ کا طریقہ یہ تھا کہ اگر کسی کی تحقیق و تصنیف میں کوئی خامی دیکھتے تو اسے قلمبند کرتے اور مصنف کو اپنے استدرکات بھیج دیتے " ----- گویا آپ المؤمن مرآة المؤمن كى زنده عملة مثال تھے ۔ شیخ عزیر شمس رحمہ اللّٰہ شہرت و ناموری سے بہت بھاگتے تھے۔ تواضع و انکسار سے معمور ایک سادہ انسان تھے ، سادگی اس قدر کہ پرانی چپل پہن کر گھومتے پھرتے ، کوئی عار نہ ہوتی۔ ظاہری شان و شوکت کا نہ شوق رکھتے تھے نہ ہی فرصت پاتے تھے ۔ ہفتہ بھر آئینہ دیکھنے ، مونچھیں برابر کرنے کی قطعا فکر نہ ہوتی تھی ۔ اپنے حال میں مست ، دنیاوی تکلفات سے بے نیاز اپنے منصوبوں میں جتے رہتے، جس کا نتیجہ آپ کر تحریر قابل دید اور قابل داد ہوتی ۔
جناب ثناء اللہ صادق تیمی کے ساتھ آپ کے لائیو لیکچرر میں ہر موضوع بارے معلومات کی فراوانی سامعین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی، اللہ تعالٰی مرحوم کی جملہ حسنات قبول فرمائے اور طالبان علم اور جوہان تحقیق کو ان کی طرح بھرپور محنت ، اخلاق و تواضع ، علم کی وسعت و گہرائی اور زہد و تقویٰ نصیب فرمائے ( آمین ثم آمین)
ایک لائیو لیکچر میں آپ نے یہ روایت بیان فرمائی ۔ روایت کے ضعف کی بناء پر جناب ثناء اللہ صادق صاحب سے گزارش کی کہ شیخ محترم سے اس روایت کی صحت بارے دریافت فرمائیں اور انہوں نے کھلے دل سے اس کا ضعیف ہونا قبول فرمایا ، آپ کی علمی برتری اور مقبولیت عامہ کی فضیلت ، صحیح بات قبول کرنے میں ہرگز آڑ نہ تھی
وللہ الحمد
قیامت کے دن جو حالتِ سجدہ میں پکارے گا: یارب! میری امت، میری امت! اس ہستی اقدس پرکروڑوں درود و سلام۔
صلى الله عليه وسلم
کچھ اس کتاب کے بارے میں
نام کتاب : معلومات و مضامین قرآنی
تالیف.: فضلیۃ الشیخ حافظ محمد یونس السدیس حفظہ اللّٰه
نظرثانی: فضلیۃ الشیخ حکیم مدثر محمدخاں حفظہ اللّٰه
ناشر: شعبہ نشرواشاعت اسماعیل ایجوکیشن کمپلکس،حافظ آباد
قران کریم غور و فکر اور نصیحت کرنے کی کتاب ہے اور یہ غور و فکر اور نصیحت طے شدہ طریقہ کار اور قواعد و ضوابط کی روشنی میں کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی مراد تک پہنچنے کی امید کی جا سکتی ہے لیکن اگر یہ غوروفکر طے شدہ قواعد و ضوابط سے آزاد ہو کر کیا جائے تو گم راہی کا خطرہ یقینی ہو جاتا ہے، لہذا قران حکیم کی منظم انداز میں تعلیم و تعلم امت مسلمہ کا اہم ترین فریضہ ہے ۔
قران مجید کا صحیح فہم حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ کے علماء نے ہر دور میں بھرپور کاوشیں کی ہیں کوششیں کی ہیں اور اس کی تعلیمات و ہدایات دوسروں تک پہنچانے کے لیے اپنی ظاہری اور باطنی صلاحیتوں کا ہر ہر پہلو سے استعمال کیا ہے۔ ہر دور اور زمانہ کے حالات کے مطابق نئے اسلوب اور نئے انداز کے بیان کے مطابق اس کی تعبیر و تفصیل کی جاتی رہی ہے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے۔
قرآن مجید کی یہ تحریری خدمت معلومات و مضامین قرآنی کے نام سے آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔اس میں انھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ ہر سورت کا نام
٭ اس کے نام کا معنی
٭سورت کی ترتیب تلاوت
٭سورت کا ترتیب نزول
٭ آیات کی تعداد
٭اس سورت سے پہلے گزری ہوئی آیات کی تعداد اور بعد میں آنے والی آیات کی تعداد
٭ سورت کے الفاظ کی تعداد
٭ اس سورت سے پہلے گزرے ہوئے الفاظ کی تعداد اور اس کے بعد آنے والے الفاظ کی تعداد
٭ سورت کے حروف کی تعداد
٭ ان سے پہلے گزرے ہوئے حروف کی تعداد اور بعد میں آنے والی حروف کی تعداد
٭ سورت کے رکوع کی تعداد
٭ سورت کا مقام نزول مکی مدنی
٭ سورت کی فضیلت
٭سورت کے مضامین
٭ سورت کے اہداف و مقاصد
اور کئی جگہ دیگر ضروری اور اضافی معلومات درج کی گئی ہیں جن سے عوام و خواص فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اس کتاب سے سرکاری سکولوں ،کالجوں اور یونی ورسٹیز کے طلبہ و طالبات اپنے مضمون ترجمۃ القرآن المجیدمیں استفادہ کرسکتے ہیں۔یوں تو اس موضوع کی متعدد کتب دست یاب ہیں اور بہت سے اہل علم نے اس عنوان سے داد تحقیق دی ہے مگر ہر گل را بوئے دیگر است کے مصداق آپ بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
✍️ حکیم مدثر محمد خاں حفظہ اللّٰه
۲۳ رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ الموافق ۳ اپریل ۲۰۲۴ء
*اہلِ حافظ آباد کے لیے عظیم خوش خبری*
*29ستمبر 2023 کا عظیم الشان تاریخ ساز خطبہ جمعہ
جامع مسجد ریاض الجنہ ، اسماعیل ایجوکیشن کمپلیکس نزد سوزوکی شو روم بائی پاس حافظ آباد میں
ہمارے محبوب شخصیت پروفیسر ڈاکٹر
" خالد ظفر اللہ حفظہ اللہ "
ایمانی تاریخی روحانی اصلاحی فکری تحقیقی تربیتی خطبہ جمعہ ارشاد فرمائے گے*
*اہلِ حافظ آباد سے بڑھ پور شرکت کی اپیل کی جاتی ہے*
*پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفراللہ حفظہ اللّٰه ______*
*ایک تعارف*
*نام:* ☘️
پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفراللّٰه (حفظہ اللہ )بن محمد داؤد رحمہ اللہ بن مولانا عطاء اللّٰه شہید رندھاوا رحمۃ اللّٰہ علیہ ( بھینی سدھواں والے)
ڈاکٹر صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ایک عظیم علمی خاندان کے وارث ہیں، علم اور اہل علم کے قدردان ہیں، ان کی دینی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔
*تاریخ / جائے پیدائش:* 🎓
24 اپریل 1957ء چک نمبر 463 گ ب، سمندری فیصل آباد
*تعلیم* 📚
ایم اے اسلامیات، پی ایچ ڈی، انقرہ یونی ورسٹی ترکی
*آغاز سروس:* 🌼
11 دسمبر 1984ء بحیثیت لیکچرار اسلامیات، گورنمنٹ کالج جرانوالہ
*اختتام سروس:*🤝
31 جولائی 2016ء بحیثیت پروفیسر آف اسلامیات، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج، فیصل آباد
*موجودہ مصروفیات:* 📜
ریٹائرمنٹ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ عمر بھر کے علمی تحقیقی و تصنیفی جاری منصوبہ جات کی تکمیل مثلاً میرے اسلاف_ چند منتخب شخصیات، قلم کے آنسوؤں کی زد میں (آپ کے ہاتھوں میں)، صحیح بخاری کے تحریری مآخذ_ از قلم ڈاکٹر فؤاد سزگین۔ ترکی سے اردو ترجمہ کتاب و سنت کے مطابق نماز ترکی ترجمہ و تکمیل _ ، اسلام میں ترک نماز کا حکم _ (ترکی ترجمہ _ نیا ایڈیشن)، مقالات (قومی و عالمی کانفرنسوں میں پیش کردہ مقالات (زیر ترتیب) مقالات حدیث (زیر ترتیب)، اصول حدیث (زیر ترتیب)، برصغیر میں خدمات حدیث(مقالہ پی ایچ ڈی برائے طبع، زیر غور) وغیرہ
تمام احباب شرکت فرما کر خطبہ جمعہ کی رونق کو دوبالا کریں اور ثواب دارین حاصل کریں
سویڈن ختم ہو جائے گا
لیکن
رب کا قرآن مومنوں کے سینوں میں قیامت تک محفوظ رہے گا
فضیلت الشیخ ، عالم و فاضل ، حضرت مولانا محترم جناب
ابو عمار محمد یاسر عرفات حفظہ اللہ
جامع مسجد ریاض الجنہ اسماعیل ایجوکیشن کمپلیکس میں 28 اپریل 2023 کا خطبہ جمعۃ المبارک ارشاد فرمائیں گے
جملہ احباب کو شرکت کی بھرپور دعوت دی جاتی ہے
بروز سوموار
مؤرخہ 18 اپریل
بعد نماز تراویح
26 رمضان المبارک
27 ویں رات
ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ھے؟
جواب ملا۔
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ھے۔ ۔
۔آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے۔
1️⃣ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے۔۔
2️⃣(سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استمعال کرتے تھے۔
3️⃣اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے۔
4️⃣اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔
5️⃣کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔
6️⃣جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔
7️⃣گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔
آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔
مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔
آج تو اسکول کے بچوں کے دو یا تین یونیفارم ضرور ہوتے ہیں۔
آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔
8️⃣ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔۔
آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا...
9️⃣غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے۔
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے..
اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں
غریب ہوں۔
*آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے.*
*ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.*
"سچ بات یہ ہے کہ پہلے درجہ بندی کم تھی معاشرتی اسٹیٹس کم و بیش ایک جیسا تھا ، توکل بہت تھا، باہمی ہمدردی زیادہ تھی، مل کر رہنا اچھا سمجھتے تھے جبکہ آجکل تنہائی پسندی ہے، علم کم مگر عمل بہتر تھا ۔
اس دور میں اللہ کی نعمتیں بدرجہا زیادہ ہیں لیکن اکثر شکر ، توکل اور باہمی تعلقات کمزور ہیں .
اللّہ کریم ہم سب کو کامل ہدایت بخشیں آمین اور دین اسلام کو سمجھنے اور سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 🥀
منقول
حاجی نصیر رنجھا صاحب بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے
خلفاء راشدین سے محبت کیجئے اور اپنے ایمان کو محفوظ کیجئے
غم ، حزن ، کرب اور پریشانی سے نجات کے لیے اس دعا کو کثرت سے پڑھیں ۔