Saif Asdaque Faiz

Director & Founder: TAHREEK PAIGHAM-E-ISLAM

22/11/2023

रामदेव को सुप्रीम कोर्ट की चेतावनी: झूठे दावे से बाज़ आ जाओ वरना हर दावे पर एक करोड़ का जुर्माना!!!

19/11/2023

:

05/11/2023

*پہنچی وہی پے خاک جہاں کا خمیر تھا 🇸🇦۔سعودیہ بڑھتے ہوۓ ناقابل تشویش عمل جو امت مسلمہ کے لیے حیران کن ثابت ہورہے ہیں. 🇸🇦سعودی عرب نے🇮🇱 اسرائیل کو بیرونی حملوں سے بچانے کے لیے🇸🇦 ملک میں امریکی فضائی دفاعی نظام کی تعیناتی کی اجازت دے دی ہے،🫵😡➖ سعودی وزیر دفاع*
*🇸🇦🇺🇸🇮🇱🇪🇭فریقین نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور🇸🇦 مملکت میں اضافی فضائی دفاعی نظام تعینات کیا جائے گا، کیونکہ یمن سے🇮🇱 اسرائیل کی طرف داغے جانے والے میزائل🇸🇦 سعودی عرب کی سرزمین پر پرواز کرتے ہیں۔🫵*

23/10/2023
07/09/2023

A very important video related to voter cards
*Please listen to it and act on it*

28/08/2023

*Karnataka Muslim woman Collector with black burkha at an independent function attended as Chief*
*Guest , very proud moment.* *Maasha'a Allaah !!! 💐💐💐*

25/08/2023

Musalman ka Bachcha Sirf Panchar hi Nahin Banata Balke Chand Par Bhi Kamindein hai.

23/08/2023

ہزار لائق آدمیوں کی موت سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا، جتنا ایک نالائق آدمی کے صاحب اختیار ہوجانے سے پہنچتا ہے
(فاتح مصر)
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ

17/08/2023

#इस्लाम_का_यही_हुसन_है जो लोगों को अपनी तरफ खींच रहा है।। तस्वीर एक बड़े कंपनी के ऑफिस की है, जहाँ ceo से ले कर चिरमैन तक अपने ऑफिस के गार्ड के पीछे नमाज़ पढ़ रहें हैं,इस्लाम सबसे बेहतर है इसको बस किताबों में पढ़ने के बजाए अमल में लाइये।

14/08/2023

اے اہل وطن شام و سحر جاگتے رہنا

اغیار ہیں آمادۂ شر جاگتے رہنا

04/08/2023

وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر

20/07/2023

*حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو کیا دیا ؟؟؟*
* مسجدوں میں روشنی کا انتظام کرایا۔
* اماموں،موذنوں اور اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کیں۔
* ہجری سن نافذ کیا۔
*حرم اور مسجدنبوی کی توسیع کی۔
* نئے صوبے و شہر قائم کئے۔
* دفاع، پولیس،ڈاک، تعلیم، مالیات،محاصل کے محکمے قائم کئے۔
* حساب کتاب(اکاؤنٹس) کا شعبہ قائم کیا۔
* عدالتی نظام کی بنیاد رکھی۔ ججوں کا تقرر کیا۔
* جیل کا تصور دیا۔
* گھوڑوں کی پرورش و تربیت کا شعبہ قائم کیا۔
* فوج کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا،
* فوجی چھاؤ نیاں بنوائیں۔
* مکہ مدینہ کے درمیان سرائیں اور چوکیاں بنوائیں۔
* مردم شماری کرائی،
* زمین کی پیمائش کرائی۔
* آب پاشی کا نظام بنوایا۔
* دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور ضرورت مندوں کے لئے وظائف جاری کئے۔
* آپ نے حکمراں طبقے کا احتساب کرنے کا تصور دیا۔
* گورنروں اور سرکاری عہدیداروں کے اثاثے ظاہر کرنے اور ان میں ناجائز اضافوں پر کارروائی کرنے کا تصور دیا۔
* نا انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ شروع کیا۔
* آپ کے عدل کی وجہ سے عدل، عدل ِفاروقی کہلایا۔
* آپ خود راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے۔
آپ کے دسترخوان پر کبھی 2 سالن نہیں رکھے گئے۔
آپ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر یونہی سو جاتے تھے۔
سفر کے دوران جہاں نیند آتی، کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے۔
آپ کے کرتے پر 14 پیوند تھے، ان میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔
آپ نرم اور باریک کپڑے سے نفرت کرتے تھے اور موٹا کھردرا لباس پہنا کرتے تھے۔
کسی کو،سرکاری عہدے پر فائز کرتے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا لیتے اور اگر اس کے اثاثوں میں ناجائز اضافہ ہوجاتا تو آپ اس کا کڑاحتساب کرتے۔

کسی کو گورنر بناتے وقت نصیحت فرماتے کہ۔ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دروازے پر دربان نہ رکھنا اور حاجت مندوں پر دروازہ کھلا رکھنا۔
شہادت کے وقت مقروض تھے، چنانچہ وصیت کے مطابق آپ کا واحد مکان فروخت کرکے آپ کا قرض ادا کردیا گیا
آپ کا یہ قول، ا انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ”مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے انہیں کب سے غلام بنالیا“
میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کی سزا عمر کو بھگتنا ہوگی۔
فرماتے تھے ظالم کو معاف کردینا مظلوموں پر ظلم ہے۔
آپ کی مہر پر لکھا تھا ” عمر! نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے“
دنیا کے عظیم سپہ سالار سکندر اعظم کی سلطنت بھی اس کی وفات کے 5 سال بعد ختم ہوگئی جب کہ فاروق اعظم نے جہاں جہاں اسلام کا پرچم لہرایا،وہاں آج بھی اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ جو علاقہ فتح کرتے وہاں عدل و انصاف کا نظام رائج کرتے۔ سکندر اعظم کا نام کتابوں میں سمٹ گیا ہے، جب کہ حضرت عمر کے بنائے ہوئے نظام آج بھی دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے، پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور، بیوہ یا ضرورت مند کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی بے اختیار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو عظیم تسلیم کرتی ہے، وہ انہیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے، ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت، فہم و تدبر، سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیت، جنگی حکمت عملی، منفرد انداز حکمرانی اور روحانیت کا وہ حسین امتزاج ہے کہ جس نے انہیں تاریخ عالم کا منفرد فاتح اور عادل حکمران بنادیا✨۔

(منقول)
🕋

14/07/2023

#قرآن_سوزی: اسلام سے حسد کا نتیجہ
اسلام ایک محسود الخلائق دین ہے،یعنی ہرزمانے میں لوگوں نے اس سے حسد کیا گیا۔حسد اسی سے ہوتا ہے جس کے اندر خوبی وکمالات ہوں اور حاسد اس سے مقابلے کی تاب نہ رکھتا ہو۔یا اس کی چمک دمک اور رونق و کشش کے آگے اس کا چراغ نہ جلتاہو۔اب آپ ملاحظہ فرمائیں:اس وقت دنیامسلمانوں کے علاوہ جتنی قومیں ہیں، مذہب سے ان کا رشتہ برائے نام رہ گیا ہے۔ مغرب کی حیثیت ان کے نزدیک ایک ’’روایت‘‘ کی رہ گئی ہے،اور اس کا ذکر محض ایک قومی شناخت کی حیثیت سے کیا جاتا ہے ۔ مثلاً اب مسلمانوں کے علاوہ دنیا میں دو بڑے مذہبی گروہ بستے ہیں۔ایک عیسائی ، دوسرے ہندو۔ عیسائیوں میں اس وقت غالب تعداد ان لوگوں کی ہے جو خدا کا انکار کرتے ہیں، جو نبوت و رسالت کے قائل نہیں ہیں اور جن کے یہاں آخرت میں انسان کے محاسبے کا کوئی تصور نہیں ہے ، مذہب سے ان کا تعلق رسمی ہے۔ ہزار میں سے دو چار آدمی ہیں جوہفتے میں ایک دن چرچ چلے جاتے ہیں، اسی طرح سال میں ایک بار قومی تہوار کی طرح کرسمس مناتے ہیں ؟ جس میں اکثر عبادت و بندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ پوری طرح تفریح اور کھیل کود کا رنگ غالب رہتا ہے اور اسے ایک جشن طرب کی طرح منایاجاتا ہے ۔ ہندؤوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی مذہبی کتابوں سے قطعاً نا بلد ہیں، عام ہندو کا حال یہ ہے کہ عمر گزر جاتی ہے وہ ویدوں، اپنشدوں پرانوں، گیتا اور رامائن وغیرہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے، بس! کچھ پوجا کی تقریبات منعقدہوتی ہیں، کچھ پر شور اور ہنگامہ خیز تہوار ہوتے ہیں، اس سے زیادہ مذہب سے اس گروہ کا کچھ تعلق نہیں۔ ہند و مذہب کے ماننے والوں کے لیے ایک دشواری یہ بھی ہے کہ اس مذہب کی کوئی آئیڈیا لوجی نہیں ہے، اس لئے جو خدا کا انکار کرتے ہیں ، مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں وہ بھی ہندو سمجھے جاتے ہیں اور جو لوگ توحید کے قائل اور بت پرستی کے مخالف ہیں، جسے آریہ سماجی وہ بھی ہندو ہیں، جومورتی پوجا کرتے ہیں وہ بھی ہندو ہیں، یہاں تک کہ ہندؤں کے بعض ایسے فرقے ہیں جن کے یہاں خدا کی تعداد کروڑں تک پہنچتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ ہندو ازم کو مذہب نہیں تہذیب مانتا ہے ۔ویسے بھی ان کے سارے معاملات دیومالائی تصورات پر ہیں جن کاحقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اب رہی بات عیسائیوں اور یہودیوں کی تودین ومذہب کے احکام وتعلیمات، حلال و حرام کےاصول و قوانین ،جائز وناجائز کے فکروخیال سے ان دو کتابی کہی جانے والی قوم کا بھی نہ کوئی تعلق باقی رہا اور نہ ہی ان چیزوں سے انھیں کوئی سروکار ،اس سے اگر استثنا ہیں تومسلمان۔ مسلمانوں کے پاس ان کی آسمانی کتاب اپنی اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے پر مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ہر مسلمان قران مجید پڑھ سکتا ہے۔شاید ہی کوئی پڑھا لکھا مسلمان ایسا ہوجو قرآن مجید کی تلاوت سے بالکل ہی محروم ہو۔ اس لیے بہت ساری کوتاہیوں کے باوجودیہ کتاب ہر گھر میں موجود ہے۔زمانے نے اسے تسلیم کرلیا ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔یہ نبیوں کا اعجاز ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنی کتابوں کے حافظ ہوتے تھے مگر صاحب قرآن حضور ﷺ کا یہ اپنی امت پر کرم واحسان ہے کہ نبیوں کا یہ کمال اپنے امتیوں کو عطا فرمادیا یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں لاکھ لوگوں نے اس قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کر رکھاہے؎ نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں
وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں
اور یہ قرآن مقدس ہی واحد خدائی کتاب ہے جس کی حفاظت اللہ رب العزت نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۹)بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حفاظ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی شاید ہی کوئی آبادی ایسی ہو جس میں دوچار علما قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر سے واقف نہ ہوں۔ مسجدوں میں قران مجید کا درس دیا جاتا ہے اور دینی مدارس میں پوری تحقیق کے ساتھ قران مجید کا ایک ایک حرف پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔پھر قرآن مجید کے احکام وقوانین کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہیںاور اس کے بنیادی نوعیت کے احکام سے عام مسلمان بھی آگاہ ہیں۔اسلام اور قرآن کے اسی حُسن نے ایک زمانے کوجہاں اپناگرویدہ بنا رکھاہےاور لوگ اس کی طرف جوق در جوق کھنچتے چلے آرہے ہیں’’ کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘‘کےمصداق قرآن اور صاحب قرآن ﷺ پر آئے دن نِت نئے حملے ہورہےہیں۔
قرآن پاک کی توہین اور اس کے جلانے کا معاملہ کوئی دنیا میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔تاتاریوں نے بغداد،نیشاپور اور خراسان وغیرہ جیسے عظیم اسلامی شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعدجہاں لائبریریوں میں آگ لگایا وہیں قرآن کریم کے نسخوں کو بھی انھوں نے نہیں چھوڑا۔اسپین میں مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد جہاں عیسائیوں نے مساجد اور مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی وہیں ان کے پوپ اور پادریوں نے قرآن مجید کو بھی آگ کے حوالے کیا۔اسی طرح سوئیڈن میں قرآن پاک کو جلانے کی ناپاک جسارت کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوئی ہے ۔اس کی راجدھانی اسٹاک ہوم میں قرآن سوزی کی جسارت کرنے والے نسل پرست اور مسلم دشمن عناصر پہلے بھی یہ مذموم حرکت کر چکے ہیں ۔۲۰۲۰ء سے ، سوئیڈن کے پڑوسی ملک ڈنمارک کی پارٹی ’ سٹرام کرس ‘ نے سوئیڈن کے متعدد شہروں میں قرآن جلانے کی ناپاک جسارت کرتی آ رہی ہے ۔ اپریل ۲۰۲۲میں ’ سٹرام کرس ‘ کے لیڈر راسموس پالوڈن نے قرآن پاک کے متعدد نسخے جلانے کا اعلان کیا تھا ، اس کے نتیجے میں سویڈن کے شہروں میں قرآن پاک کی منصوبہ بند بے حرمتی کی گئی اور اس توہین کے خلاف جگہ جگہ فسادات پھوٹ پڑے تھے ، خاص طور پر ۲۰۲۰ اور ۲۰۲۲ءکے سوئیڈن کے فسادات ۔ ڈنمارک میں قرآن پاک کی بےحرمتی کو قانوناً جائز قرار دیا گیا ہے ، وہاں کی سخت گیر سیاسی پارٹی ’’ سٹرام کرس‘‘ کے کارکنان قرآن سوزی کی ناپاک حرکتیں کرتے رہتے ہیں ، بلکہ اس پارٹی کا سربراہ راسموس اپنی ریلیوں اور اپنے اجلاس میں قرآن پاک ، اسلام اور نبی ٔاکرم ﷺ کے خلاف مغلظات بھی بکتا رہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ڈنمارک سے اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے ۔ سوئیڈن اور ڈنمارک سے لگے چھوٹے سے ملک ناروے میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ جب سے سخت گیر لیڈر لارس تھورسن ۲۰۱۹ءمیں ’’اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے ‘‘گروپ کا سربراہ بنا ہے ، اس گروپ نے ناروے میں اپنی ریلیوں میں قرآن کو بار بار جلانا شروع کر دیا ہے ۔ یہ گروپ قرآن کے نسخوں کو پھاڑنے اور ان پر نعوذ باللہ تھوکنے کا بھی مجرم ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے نسل پرست ہیں جو قرآن پاک کی بے حرمتی اور اسلام و پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کو ’’آزادیٔ اظہار رائے ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔قابل غور بات یہ بات یہ ہے کہ اس کے رد عمل میں مسلمانوں نے کبھی بائبل یا کسی مذہبی کتاب کو نذرآتش کرنا تو کجا ،اس کی بات بھی نہیں کی۔اللہ نے جنھیں عقل سلیم عطا فرمایا ہے وہ اس سے سبق لے سکتے ہیں کہ کون فسادی اور دہشت گردانہ ذہن رکھتا ہے مسلمان یا اس کے مخالفین؟
اصلاً اسلام کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے یہ اس کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔برطانیہ اور فرانس میں گزشتہ دس سالوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ برطانیہ میں تقریباً 7.5 ملین، فرانس میں 5 ملین اور جرمنی میں 4 ملین سے زائد مسلمان مقیم ہیں۔ ان بڑے ممالک کے علاوہ اسپین، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، یونان وغیرہ میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے جن میں اکثریت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ فرانس سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک مراکش، الجیریا اور تیونس نژاد باشندوں کی بڑی تعداد فرانس میں مقیم ہے جن کی آبادی میں ۶؍ فیصد شرح سے اضافہ ہورہا ہے، ان میں اکثریت ۲۰؍ سے ۲۵؍سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ فرانس میں مسلمان آبادی کی تیز گروتھ کے پیش نظر ایک اندازے کے مطابق ۲۰۲۷ء تک فرانس کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہوگا۔ اسی طرح برطانیہ میں گزشتہ ۳۰؍سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں ۳۰؍گنا اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر ۲۵؍لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اگر برطانیہ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا توچند سالوں میں اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا جس کا واضح ثبوت پاکستانی نژاد مسلمان صادق خان کا لندن کا میئر منتخب ہونا ہے۔ یورپی یونین کے ملک بلجیم کی آبادی کا۲۵؍ فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ جرمنی میں گزشتہ ایک سال میں ۴؍ ہزار سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں اور جرمن حکومت نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو ۲۰۵۰ء تک جرمنی مسلم اکثریتی ملک بن جائے گا۔ان اعداد و شمار سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یورپی یونین کے ۲۷؍ممبر ممالک کی اوسط شرح پیدائش صرف ’’۱.۳۸‘‘ فیصد ہے مگر مختلف ممالک سے یورپی ممالک میں رہائش اختیار کرنے والے مسلمانوں نے یورپ کی گرتی ہوئی شرح پیدائش کو سہارا دے رکھا ہے۔
برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک اور امریکہ میں اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کئی سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کے اسلام کی طرف مائل ہونے کی بڑی وجہ مغربی معاشرے میں مسلسل پھیلتی ہوئی بے راہ روی اور فحاشی ہے جس سے وہ تنگ آچکے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی ممالک میں اسلام قبول کرنے والی غیر مسلم خواتین کی اکثریت نے صرف اس لیے اسلام قبول کیا کہ وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی تھیں،کیونکہ انھیں عفت وعصمت، قدرومنزلت اور چین وسکون کی تلاش ہے جو انھیں اسلام ہی کے دامن آغوش میں نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اسلام کے حوالے سے حالات بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔
دنیا میں مختلف مذاہب کی آبادی کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ۷؍ ارب ۱۶؍ کروڑ سے زائد کی مجموعی آبادی تقریباً ۳۱.۴% (۲؍ ارب ۲۰؍ کروڑ) عیسائیوں اور ۲۳.۲% (ایک ارب ۶۰؍کروڑ) مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۵۰ء تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا اور مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر ۲؍ ارب ۷۶؍کروڑ تک جاپہنچے گی جس میں شمالی افریقن اسلامی ممالک کی آبادی کی شرح گروتھ سب سے زیادہ ہوگی۔ دنیا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یورپ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اسلام کے سونامی کو روکا نہ گیا تو وہ ایک دن پورے مغرب کو اپنے ساتھ بہالے جائے گا، اس لئے یہ مغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف ہر وہ اقدامات کررہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی پیش رفت روکنے میں مددگار و معاون ثابت ہوں۔ ان مغربی ممالک کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو تفرقے کی بنیاد پر باہمی طور پر لڑواکر کمزور کردیا جائے جس کی ایک کڑی شدت پسندداعش وغیرہ جیسی تنظیمیںہیں جو مسلمانوں کا قتلِ عام کرتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ دشمن طاقتوں کی آلہ کار بننے کے بجائے باہمی اختلافات بھول کر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔
گزشتہ چند سالوں میں اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۰ء کے دوران ایک کروڑ ۲۵؍ لاکھ سے زائد افراد اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرچکے ہیں جبکہ ۲۰۰۱ء میں نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد دگنی ہوچکی ہے اور قرآن پاک دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ حال میں سعودی عرب میں متعین برطانوی سفیر سائمن کولینز کے قبول اسلام نے مغرب میں تہلکہ مچادیا ہے۔ عراق اور شام سمیت کئی اسلامی ممالک میں سفارتی خدمات انجام دینے والے سائمن کولینز وہ پہلے برطانوی سفار ت کار ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں اسلام قبول کرکے اپنی شامی نژاد اہلیہ ہدیٰ مجارکیش کے ساتھ حج ادا کیا اور اس طرح وہ اسلام قبول کرنے والی مقبول شخصیت بن گئے۔ اِن سے قبل سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی سالی لورین بوتھ نے اسلام قبول کرکے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔
چند ماہ قبل امریکہ کے شہرکیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے معروف و مشہور عیسائی پادری فادر ہیلیریون ہیگی( Hilarion Heagy)نے عیسائیت ترک کرنے کے بعد اسلام قبول کر لیا ہے۔ ہیگی، جنہوں نے اب اپنا نام تبدیل کر کے عبداللطیف رکھ لیا ہے۔ عبداللطیف، ایک امریکی پادری جو پہلے روسی آرتھوڈوکس راہب تھے، اور اپنے پیروکاروں میں مہربان، مقدس اور غیر معمولی صبر کرنے کی وجہ سے عزت حاصل کی تھی۔واضح رہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد پادری ہلیرین ہیگی نے مسلمانوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا، وہ ارادہ رکھتا تھا کہ قرآن پاک میں سے غلطیاں نکال کر مسلمانوں سے مناظرے کرے گا۔لیکن غلطیاں ڈھونڈنے کی کوشش میں اس کا دل دین اسلام کی جانب راغب ہو گیا، اس نے تسلیم کیا کہ دین اسلام ہی دین حق اور دین فطرت ہے اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔
ابھی ابھی۲۰۲۳ء میں جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والےایک بڑے مشہوراور بااثر پادری رچمنڈ کو مسلسل خواب کے ذریعہ اسلام کی دعوت دی گئی اور اس نےعین گرجا گھرمیں اپنے سینکڑوں پادری ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیا ۔اپنا اسلامی نام ابراہیم رکھا اور صرف تین ماہ کے بعدخصوصی مہمان کی حیثیت سے سعودی عرب آئے اور حج کی سعادت حاصل کی۔ساتھ ہی اس بات کا عہد کیا کہ واپسی کے بعدوہ ساؤتھ افریقہ میں اپنے لاکھوں مداحوں میں اسلام کی دعوت کا فریضہ انجام دیں گے۔ انھوں نے خود اپنی کہانی جس انداز میں بیان کیا اور جبل نور پر جو ان کی ایمانی کیفیت تھی ، اس میںہم جیسے رسمی اور خاندانی مسلمانوں کے لیے ایک درس اور بڑا سبق بھی تھا ۔سوشل میڈیا پر ان کی یہ ویڈیو خوب وائریل ہوئی اور ساری دنیا تک ان کے ذریعہ اسلام کی حقانیت پہنچی۔
یہ چندمثالیں تھیںورنہ اس کے علاوہ دنیا بھر میں نہ جانے کتنےپوپ ،پادری،پنڈت،مختلف مذاہب کے روحانی پیشوا،اسپورٹس مین،فلم اسٹارز اور سلیبیریٹیز(celebrities )کی بے شمار تعداد ہے جو آئے دن دامن اسلام میں آتے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دشمنانِ اسلام بوکھلاہٹ سے دوچار ہوکرکبھی اسلامی قوانین،کبھی پیغمبر اسلام اور کبھی قرآن پاک کی توہین کرکے مسلمانوں کو احساسِ کمتری کا شکار بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسی فضا تیار ہو کہ مسلمان اپنی کتابِ مقدس و پیغمبر اسلامﷺ کی ناپاک توہین کے خلاف ردعمل بھی چھوڑ دیں ۔ بالفاظ دیگر وہ توہین کی ان حرکتوں کو نظرانداز کرنے لگیں ، اس طرح ان کے دلوں سے ’’کتاب ‘‘اور’’ صاحبِ کتابﷺ‘‘ کی عظمت نکل جائے ۔ جب قرآن اور رسول ﷺ کی عظمت دلوں سے نکل جائے گی تو اسلام کہاں بچے گا ! لہٰذا مسلمانوں کو یہ چاہیے کہ وہ احتجاج اورردعمل کے ساتھ ’’قرآن ‘‘کومضبوطی سے پکڑ لیں ، اور ’’سنتِ رسولﷺ ‘‘کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں ۔ مسلم تنظیمیں احتجاج کے ساتھ ساتھ لوگوں کو’’ قرآن وسنت ‘‘کی طرف بلائیں اورامت کو تلاوتِ قرآن، فہم قرآن،قانونِ قرآن پر عمل کی تاکید کریں۔ جس قدرقرآن سے ہمارا رابطہ مضبوط ہو گا، اسی قدر قرآن دشمنوں کی سازشیں اور منصوبے خاک میں ملیں گے ۔اللہ کریم مسلم ممالک کو بھی توفیق بخشے کہ وہ سویڈن ، ڈنمارک اور ناروے سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیں اور قرآ ن سوزی کے مجرم کے خلاف سخت ترین کارروائی کے لیے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں ۔ اگر قوم مسلم منافقت میں مبتلا رہتی ہے ،عملی اعتبار سے اپنے اندر تبدیلی نہیں لاتی اور قرآن وسنت سے وابستہ نہیں ہوتی تو ذلت ورسوائی ان کا مقدر ہوگا۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے ؎
ڈقرآن سوزی: اسلام سے حسد کا نتیجہ
اسلام ایک محسود الخلائق دین ہے،یعنی ہرزمانےمیں لوگوں نے اس سے حسد کیا گیا۔حسد اسی سے ہوتاہے جس کے اندر خوبی وکمالات ہوں اور حاسد اس سے مقابلے کی تاب نہ رکھتا ہو۔یا اس کی چمک دمک اوررونق و کشش کے آگے اس کا چراغ نہ جلتاہو۔اب آپ ملاحظہ فرمائیں:اس وقت دنیامسلمانوں کے علاوہ جتنی قومیں ہیں، مذہب سے ان کا رشتہ برائے نام رہ گیا ہے۔ مغرب کی حیثیت ان کے نزدیک ایک ’’روایت‘‘ کی رہ گئی ہے،اور اس کا ذکر محض ایک قومی شناخت کی حیثیت سے کیا جاتا ہے ۔ مثلاً اب مسلمانوں کے علاوہ دنیا میں دو بڑے مذہبی گروہ بستے ہیں۔ایک عیسائی ، دوسرے ہندو۔ عیسائیوں میں اس وقت غالب تعداد ان لوگوں کی ہے جو خدا کا انکار کرتے ہیں، جو نبوت و رسالت کے قائل نہیں ہیں اور جن کے یہاں آخرت میں انسان کے محاسبے کا کوئی تصور نہیں ہے ، مذہب سے ان کا تعلق رسمی ہے۔ ہزار میں سے دو چار آدمی ہیں جوہفتے میں ایک دن چرچ چلے جاتے ہیں، اسی طرح سال میں ایک بار قومی تہوار کی طرح کرسمس مناتے ہیں ؟ جس میں اکثر عبادت و بندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ پوری طرح تفریح اور کھیل کود کا رنگ غالب رہتا ہے اور اسے ایک جشن طرب کی طرح منایاجاتا ہے ۔ ہندؤوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی مذہبی کتابوں سے قطعاً نا بلد ہیں، عام ہندو کا حال یہ ہے کہ عمر گزر جاتی ہے وہ ویدوں، اپنشدوں پرانوں، گیتا اور رامائن وغیرہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے، بس! کچھ پوجا کی تقریبات منعقدہوتی ہیں، کچھ پر شور اور ہنگامہ خیز تہوار ہوتے ہیں، اس سے زیادہ مذہب سے اس گروہ کا کچھ تعلق نہیں۔ ہند و مذہب کے ماننے والوں کے لیے ایک دشواری یہ بھی ہے کہ اس مذہب کی کوئی آئیڈیا لوجی نہیں ہے، اس لئے جو خدا کا انکار کرتے ہیں ، مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں وہ بھی ہندو سمجھے جاتے ہیں اور جو لوگ توحید کے قائل اور بت پرستی کے مخالف ہیں، جسے آریہ سماجی وہ بھی ہندو ہیں، جومورتی پوجا کرتے ہیں وہ بھی ہندو ہیں، یہاں تک کہ ہندؤں کے بعض ایسے فرقے ہیں جن کے یہاں خدا کی تعداد کروڑں تک پہنچتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ ہندو ازم کو مذہب نہیں تہذیب مانتا ہے ۔ویسے بھی ان کے سارے معاملات دیومالائی تصورات پر ہیں جن کاحقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اب رہی بات عیسائیوں اور یہودیوں کی تودین ومذہب کے احکام وتعلیمات، حلال و حرام کےاصول و قوانین ،جائز وناجائز کے فکروخیال سے ان دو کتابی کہی جانے والی قوم کا بھی نہ کوئی تعلق باقی رہا اور نہ ہی ان چیزوں سے انھیں کوئی سروکار ،اس سے اگر استثنا ہیں تومسلمان۔ مسلمانوں کے پاس ان کی آسمانی کتاب اپنی اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے پر مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ہر مسلمان قران مجید پڑھ سکتا ہے۔شاید ہی کوئی پڑھا لکھا مسلمان ایسا ہوجو قرآن مجید کی تلاوت سے بالکل ہی محروم ہو۔ اس لیے بہت ساری کوتاہیوں کے باوجودیہ کتاب ہر گھر میں موجود ہے۔زمانے نے اسے تسلیم کرلیا ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔یہ نبیوں کا اعجاز ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنی کتابوں کے حافظ ہوتے تھے مگر صاحب قرآن حضور ﷺ کا یہ اپنی امت پر کرم واحسان ہے کہ نبیوں کا یہ کمال اپنے امتیوں کو عطا فرمادیا یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں لاکھ لوگوں نے اس قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کر رکھاہے؎ نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں
وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں
اور یہ قرآن مقدس ہی واحد خدائی کتاب ہے جس کی حفاظت اللہ رب العزت نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۹)بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حفاظ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی شاید ہی کوئی آبادی ایسی ہو جس میں دوچار علما قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر سے واقف نہ ہوں۔ مسجدوں میں قران مجید کا درس دیا جاتا ہے اور دینی مدارس میں پوری تحقیق کے ساتھ قران مجید کا ایک ایک حرف پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔پھر قرآن مجید کے احکام وقوانین کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہیںاور اس کے بنیادی نوعیت کے احکام سے عام مسلمان بھی آگاہ ہیں۔اسلام اور قرآن کے اسی حُسن نے ایک زمانے کوجہاں اپناگرویدہ بنا رکھاہےاور لوگ اس کی طرف جوق در جوق کھنچتے چلے آرہے ہیںوہیں’’ کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘‘کےمصداق قرآن اور صاحب قرآن ﷺ پر آئے دن نِت نئے حملے ہورہےہیں۔
قرآن پاک کی توہین اور اس کے جلانے کا معاملہ کوئی دنیا میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔تاتاریوں نے بغداد،نیشاپور اور خراسان وغیرہ جیسے عظیم اسلامی شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعدجہاں لائبریریوں میں آگ لگایا وہیں قرآن کریم کے نسخوں کو بھی انھوں نے نہیں چھوڑا۔اسپین میں مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد جہاں عیسائیوں نے مساجد اور مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی وہیں ان کے پوپ اور پادریوں نے قرآن مجید کو بھی آگ کے حوالے کیا۔اسی طرح سوئیڈن میں قرآن پاک کو جلانے کی ناپاک جسارت کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوئی ہے ۔اس کی راجدھانی اسٹاک ہوم میں قرآن سوزی کی جسارت کرنے والے نسل پرست اور مسلم دشمن عناصر پہلے بھی یہ مذموم حرکت کر چکے ہیں ۔۲۰۲۰ء سے ، سوئیڈن کے پڑوسی ملک ڈنمارک کی پارٹی ’ سٹرام کرس ‘ نے سوئیڈن کے متعدد شہروں میں قرآن جلانے کی ناپاک جسارت کرتی آ رہی ہے ۔ اپریل ۲۰۲۲میں ’ سٹرام کرس ‘ کے لیڈر راسموس پالوڈن نے قرآن پاک کے متعدد نسخے جلانے کا اعلان کیا تھا ، اس کے نتیجے میں سویڈن کے شہروں میں قرآن پاک کی منصوبہ بند بے حرمتی کی گئی اور اس توہین کے خلاف جگہ جگہ فسادات پھوٹ پڑے تھے ، خاص طور پر ۲۰۲۰ اور ۲۰۲۲ءکے سوئیڈن کے فسادات ۔ ڈنمارک میں قرآن پاک کی بےحرمتی کو قانوناً جائز قرار دیا گیا ہے ، وہاں کی سخت گیر سیاسی پارٹی ’’ سٹرام کرس‘‘ کے کارکنان قرآن سوزی کی ناپاک حرکتیں کرتے رہتے ہیں ، بلکہ اس پارٹی کا سربراہ راسموس اپنی ریلیوں اور اپنے اجلاس میں قرآن پاک ، اسلام اور نبی ٔاکرم ﷺ کے خلاف مغلظات بھی بکتا رہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ڈنمارک سے اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے ۔ سوئیڈن اور ڈنمارک سے لگے چھوٹے سے ملک ناروے میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ جب سے سخت گیر لیڈر لارس تھورسن ۲۰۱۹ءمیں ’’اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے ‘‘گروپ کا سربراہ بنا ہے ، اس گروپ نے ناروے میں اپنی ریلیوں میں قرآن کو بار بار جلانا شروع کر دیا ہے ۔ یہ گروپ قرآن کے نسخوں کو پھاڑنے اور ان پر نعوذ باللہ تھوکنے کا بھی مجرم ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے نسل پرست ہیں جو قرآن پاک کی بے حرمتی اور اسلام و پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کو ’’آزادیٔ اظہار رائے ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔قابل غور بات یہ بات یہ ہے کہ اس کے رد عمل میں مسلمانوں نے کبھی بائبل یا کسی مذہبی کتاب کو نذرآتش کرنا تو کجا ،اس کی بات بھی نہیں کی۔اللہ نے جنھیں عقل سلیم عطا فرمایا ہے وہ اس سے سبق لے سکتے ہیں کہ کون فسادی اور دہشت گردانہ ذہن رکھتا ہے مسلمان یا اس کے مخالفین؟
اصلاً اسلام کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے یہ اس کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔برطانیہ اور فرانس میں گزشتہ دس سالوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ برطانیہ میں تقریباً 7.5 ملین، فرانس میں 5 ملین اور جرمنی میں 4 ملین سے زائد مسلمان مقیم ہیں۔ ان بڑے ممالک کے علاوہ اسپین، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، یونان وغیرہ میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے جن میں اکثریت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ فرانس سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک مراکش، الجیریا اور تیونس نژاد باشندوں کی بڑی تعداد فرانس میں مقیم ہے جن کی آبادی میں ۶؍ فیصد شرح سے اضافہ ہورہا ہے، ان میں اکثریت ۲۰؍ سے ۲۵؍سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ فرانس میں مسلمان آبادی کی تیز گروتھ کے پیش نظر ایک اندازے کے مطابق ۲۰۲۷ء تک فرانس کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہوگا۔ اسی طرح برطانیہ میں گزشتہ ۳۰؍سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں ۳۰؍گنا اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر ۲۵؍لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اگر برطانیہ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا توچند سالوں میں اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا جس کا واضح ثبوت پاکستانی نژاد مسلمان صادق خان کا لندن کا میئر منتخب ہونا ہے۔ یورپی یونین کے ملک بلجیم کی آبادی کا۲۵؍ فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ جرمنی میں گزشتہ ایک سال میں ۴؍ ہزار سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں اور جرمن حکومت نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو ۲۰۵۰ء تک جرمنی مسلم اکثریتی ملک بن جائے گا۔ان اعداد و شمار سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یورپی یونین کے ۲۷؍ممبر ممالک کی اوسط شرح پیدائش صرف ’’۱.۳۸‘‘ فیصد ہے مگر مختلف ممالک سے یورپی ممالک میں رہائش اختیار کرنے والے مسلمانوں نے یورپ کی گرتی ہوئی شرح پیدائش کو سہارا دے رکھا ہے۔
برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک اور امریکہ میں اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کئی سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کے اسلام کی طرف مائل ہونے کی بڑی وجہ مغربی معاشرے میں مسلسل پھیلتی ہوئی بے راہ روی اور فحاشی ہے جس سے وہ تنگ آچکے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی ممالک میں اسلام قبول کرنے والی غیر مسلم خواتین کی اکثریت نے صرف اس لیے اسلام قبول کیا کہ وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی تھیں،کیونکہ انھیں عفت وعصمت، قدرومنزلت اور چین وسکون کی تلاش ہے جو انھیں اسلام ہی کے دامن آغوش میں نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اسلام کے حوالے سے حالات بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔
دنیا میں مختلف مذاہب کی آبادی کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ۷؍ ارب ۱۶؍ کروڑ سے زائد کی مجموعی آبادی تقریباً ۳۱.۴% (۲؍ ارب ۲۰؍ کروڑ) عیسائیوں اور ۲۳.۲% (ایک ارب ۶۰؍کروڑ) مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۵۰ء تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا اور مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر ۲؍ ارب ۷۶؍کروڑ تک جاپہنچے گی جس میں شمالی افریقن اسلامی ممالک کی آبادی کی شرح گروتھ سب سے زیادہ ہوگی۔ دنیا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یورپ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اسلام کے سونامی کو روکا نہ گیا تو وہ ایک دن پورے مغرب کو اپنے ساتھ بہالے جائے گا، اس لئے یہ مغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف ہر وہ اقدامات کررہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی پیش رفت روکنے میں مددگار و معاون ثابت ہوں۔ ان مغربی ممالک کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو تفرقے کی بنیاد پر باہمی طور پر لڑواکر کمزور کردیا جائے جس کی ایک کڑی شدت پسندداعش وغیرہ جیسی تنظیمیںہیں جو مسلمانوں کا قتلِ عام کرتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ دشمن طاقتوں کی آلہ کار بننے کے بجائے باہمی اختلافات بھول کر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔
گزشتہ چند سالوں میں اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۰ء کے دوران ایک کروڑ ۲۵؍ لاکھ سے زائد افراد اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرچکے ہیں جبکہ ۲۰۰۱ء میں نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد دگنی ہوچکی ہے اور قرآن پاک دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ حال میں سعودی عرب میں متعین برطانوی سفیر سائمن کولینز کے قبول اسلام نے مغرب میں تہلکہ مچادیا ہے۔ عراق اور شام سمیت کئی اسلامی ممالک میں سفارتی خدمات انجام دینے والے سائمن کولینز وہ پہلے برطانوی سفار ت کار ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں اسلام قبول کرکے اپنی شامی نژاد اہلیہ ہدیٰ مجارکیش کے ساتھ حج ادا کیا اور اس طرح وہ اسلام قبول کرنے والی مقبول شخصیت بن گئے۔ اِن سے قبل سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی سالی لورین بوتھ نے اسلام قبول کرکے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔
چند ماہ قبل امریکہ کے شہرکیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے معروف و مشہور عیسائی پادری فادر ہیلیریون ہیگی( Hilarion Heagy)نے عیسائیت ترک کرنے کے بعد اسلام قبول کر لیا ہے۔ ہیگی، جنہوں نے اب اپنا نام تبدیل کر کے عبداللطیف رکھ لیا ہے۔ عبداللطیف، ایک امریکی پادری جو پہلے روسی آرتھوڈوکس راہب تھے، اور اپنے پیروکاروں میں مہربان، مقدس اور غیر معمولی صبر کرنے کی وجہ سے عزت حاصل کی تھی۔واضح رہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد پادری ہلیرین ہیگی نے مسلمانوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا، وہ ارادہ رکھتا تھا کہ قرآن پاک میں سے غلطیاں نکال کر مسلمانوں سے مناظرے کرے گا۔لیکن غلطیاں ڈھونڈنے کی کوشش میں اس کا دل دین اسلام کی جانب راغب ہو گیا، اس نے تسلیم کیا کہ دین اسلام ہی دین حق اور دین فطرت ہے اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔
ابھی ابھی۲۰۲۳ء میں جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والےایک بڑے مشہوراور بااثر پادری رچمنڈ کو مسلسل خواب کے ذریعہ اسلام کی دعوت دی گئی اور اس نےعین گرجا گھرمیں اپنے سینکڑوں پادری ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیا ۔اپنا اسلامی نام ابراہیم رکھا اور صرف تین ماہ کے بعدخصوصی مہمان کی حیثیت سے سعودی عرب آئے اور حج کی سعادت حاصل کی۔ساتھ ہی اس بات کا عہد کیا کہ واپسی کے بعدوہ ساؤتھ افریقہ میں اپنے لاکھوں مداحوں میں اسلام کی دعوت کا فریضہ انجام دیں گے۔ انھوں نے خود اپنی کہانی جس انداز میں بیان کیا اور جبل نور پر جو ان کی ایمانی کیفیت تھی ، اس میںہم جیسے رسمی اور خاندانی مسلمانوں کے لیے ایک درس اور بڑا سبق بھی تھا ۔سوشل میڈیا پر ان کی یہ ویڈیو خوب وائریل ہوئی اور ساری دنیا تک ان کے ذریعہ اسلام کی حقانیت پہنچی۔
یہ چندمثالیں تھیںورنہ اس کے علاوہ دنیا بھر میں نہ جانے کتنےپوپ ،پادری،پنڈت،مختلف مذاہب کے روحانی پیشوا،اسپورٹس مین،فلم اسٹارز اور سلیبیریٹیز(celebrities )کی بے شمار تعداد ہے جو آئے دن دامن اسلام میں آتے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دشمنانِ اسلام بوکھلاہٹ سے دوچار ہوکرکبھی اسلامی قوانین،کبھی پیغمبر اسلام اور کبھی قرآن پاک کی توہین کرکے مسلمانوں کو احساسِ کمتری کا شکار بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسی فضا تیار ہو کہ مسلمان اپنی کتابِ مقدس و پیغمبر اسلامﷺ کی ناپاک توہین کے خلاف ردعمل بھی چھوڑ دیں ۔ بالفاظ دیگر وہ توہین کی ان حرکتوں کو نظرانداز کرنے لگیں ، اس طرح ان کے دلوں سے ’’کتاب ‘‘اور’’ صاحبِ کتابﷺ‘‘ کی عظمت نکل جائے ۔ جب قرآن اور رسول ﷺ کی عظمت دلوں سے نکل جائے گی تو اسلام کہاں بچے گا ! لہٰذا مسلمانوں کو یہ چاہیے کہ وہ احتجاج اورردعمل کے ساتھ ’’قرآن ‘‘کومضبوطی سے پکڑ لیں ، اور ’’سنتِ رسولﷺ ‘‘کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں ۔ مسلم تنظیمیں احتجاج کے ساتھ ساتھ لوگوں کو’’ قرآن وسنت ‘‘کی طرف بلائیں اورامت کو تلاوتِ قرآن، فہم قرآن،قانونِ قرآن پر عمل کی تاکید کریں۔ جس قدرقرآن سے ہمارا رابطہ مضبوط ہو گا، اسی قدر قرآن دشمنوں کی سازشیں اور منصوبے خاک میں ملیں گے ۔اللہ کریم مسلم ممالک کو بھی توفیق بخشے کہ وہ سویڈن ، ڈنمارک اور ناروے سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیں اور قرآ ن سوزی کے مجرم کے خلاف سخت ترین کارروائی کے لیے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں ۔ اگر قوم مسلم منافقت میں مبتلا رہتی ہے ،عملی اعتبار سے اپنے اندر تبدیلی نہیں لاتی اور قرآن وسنت سے وابستہ نہیں ہوتی تو ذلت ورسوائی ان کا مقدر ہوگا۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے ؎
ڈرو خدا سے ہوش کرو ، کچھ مکر و ریا سے کام نہ لو
یا اسلام پر چلنا سیکھو یا اسلام کا نام نہ لو

سید سیف الدین اصدق چشتی
بانی تحریک پیغام اسلام جمشیدپور

Want your organization to be the top-listed Government Service in Jamshedpur?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

A very important video related to voter cards*Please listen to it and act on it*
*Karnataka Muslim woman Collector with black burkha at an independent function attended as Chief* *Guest , very proud mo...
Musalman ka Bachcha Sirf Panchar hi Nahin Banata Balke Chand  Par Bhi Kamindein hai.
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرےاقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر
یونیفارم سول کوڈ کے نام پر خود کے ساتھ پوری قوم کو ہراساں کرنے والے حضرات جناب ڈاکٹر شاہ شمیم الدین منعمی صاحب سجادہ نشی...
#Paigam_e_Islam_English_School Reopening session 23-24
#Eid_Milan_Program: Nafraton ke Mahaol Mein Mahabbat Ki Khushboo Phalane ke Koshish Jari Rahegi:
#Separate_Arrangement_For_Women:After Maghrib to 10:00pm
#Gulf_Countries men Job Karne Walon  Ke Naam  Ek Khaas Paigham:

Category

Telephone

Address


Paigham-e-Islam Masjid & Islamic Center
Jamshedpur
GULABBAGHPHASE-2

Other Social Services in Jamshedpur (show all)
Niraj k yadav Niraj k yadav
Jamshedpur

समाज की सेवा करना ही मेरी प्रथम कर्तब्य.

Dharmbir Dharmbir
Jamshedpur

Royal Rajput

Locality Locality
Jamshedpur, 832107

Satya

Ānki Røy Ānki Røy
Mango Jamshedpur
Jamshedpur

This is the official page of the young Activist Anki Maharaj Known As Anki Roy..

Shri durga ta**ra by dasji Shri durga ta**ra by dasji
Jamshedpur

तँत्र, मंत्र, यंत्र,आयुर्वेद, आध्यात्मिक जानकारी दिया जाता है एवँ गुप्त विद्या सिखाया जाता

Swachh Bharat Swachh Bharat
Plot No. 13 Usha More, Gamharia, Pin-832108
Jamshedpur, 832108

Our motto is "Clean India", our organization working on recycling waste management, and we are located in Jamshedpur, India. We accept your household, commercial, industrial waste ...

Shudra nahin Rudra Shudra nahin Rudra
Jamshedpur, 831011

ABVP Kolhan ABVP Kolhan
Jamshedpur

Official Twitter handle of Akhil Bharatiya Vidyarthi Parishad (ABVP) Kolhan - The world's Largest S

Sunil Kisku Sunil Kisku
Jamshedpur

Vijoy Kumar Singh, Ex Commissioner, Kolhan Vijoy Kumar Singh, Ex Commissioner, Kolhan
Jamshedpur

A social activist and enviormentalist who perfomed green drive in district of chaibasa, jharkhand

Karm Khali Karm Khali
Parsudih
Jamshedpur, 831002

Information about all types of job vacancies and recruitment for all/ Employment News/ Rojgar Samachar