Srinagar Time
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Srinagar Time, Media/News Company, saeed abad kapwara kashmir, Kupwara.
منی پورمیں ہندو اکثریتی قبیلے نے دو عیسائی خواتین کوبرہنہ کرکے گھمایا
ورش زدہ بھارتی ریاست منی پور میں میتی(ہندو) قبیلے کے افراد نے دو کوکی(عیسائی) خواتین کو برہنہ کر کے سڑک پر گھمایا۔ شرمناک واقعے کی ویڈیو شوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں دو خواتین کو برہنہ حالت میں گائوں کی سڑک پرگھماتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ضلع کانگ پو کپی کے گائوں بی فینوم میں پیش آیاتھا۔ منی پور میں 3مئی سے جاری تشدد میں اب تک ڈیڑھ سو کے قریب افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔بی فینوم گائوں میں میتی اور کوکی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے بعد میتی برادری کے لوگوں نے کوکی خواتین کو کپڑے اتارنے پر مجبور کیا ۔
کوکی خواتین کو دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے خود کو بے لباس نہیں کیا تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔ریاست میں جنسی تشدد کے تمام واقعات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش اور متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا۔ بیان میں بھارتی حکام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ منی پور میں انٹرنیٹ کی فوری بحالی کو بھی یقینی بنائیں۔
تحریک شباب المسلمین سٹوڈنٹس ونگ کی یوم الحاق پاکستان کے موقع پر ریلی کا انعقاد ۔
ریلی میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی شرکت اور پاکستان کے حق میں اور بھارت مخالف نعروں فضا گونج اٹھی ۔
تفصیلات کے مطابق تحریک شباب المسلمین سٹوڈنٹس ونگ جموں وکشمیر کے زیر اہتمام لال چوک اپر اڈا میں یوم الحاق پاکستان ریلی کا انعقاد کیا
19 جولائی 1947 کی "قراردادِ الحاق پاکستان" کی تجدید کیلئے دارالحکومت میں پاسبانِ حُریت جموں کشمیر کے زیر اہتمام سیمینار اور ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ شہریوں کی کثیر تعداد کی شرکت۔
سردار محمد ابراہیم خان سمیت 1947 کے اجلاس کے شرکاء کو شاندار خراج عقیدت پیش، مملکت خداد پاکستان کشمیری عوام کی اُمنگوں کا مرکز ہے۔ سیمینار سے مقررین کی گفتگو
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی 19 جولائی 1947 کو کشمیری قیادت نے سردار محمد ابراہیم خان کے گھر آبی گزرگاہ سرینگر میں الحاق پاکستان کی تاریخی قرارداد متفقہ طور پر پاس کر کے ریاست کے عوام کے سیاسی مستقبل کا تعین کردیا تھا۔ مقررین نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے متعصب اور ظالم ہندو لیڈروں کی سازشوں ، چالوں اور انگریز کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بھانپتے ہوئے بروقت قیام پاکستان کا مطالبہ کیا اور اپنے رفقاء سمیت آزاد ملک کیلئے بے مثال جدوجہد کا آغاز کرکے اہل کشمیر کو اسلام کے نام پے بننے والی نئی ریاست پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دی۔ بھارتی نیتاؤں کی سازشوں اور اوچھے ہتھکنڈوں کے بیچ ان مشکل ترین حالات میں کشمیری قیادت نے قائد اعظم کے فیصلے کی قرارداد کی منظوری سے توثیق کی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد کو پاس کیا ۔ مقررین نے کہا کہ آج بھارت کے اندرونی حالات سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم اور ہندوؤں کے درمیان دو تہذیبوں اور دو مختلف نظریوں کی کشمکش گزشتہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے جاری ہے۔ آج بھی بھارت کے اندر کروڑوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ پورے ہندوستان میں ہندوتوا کا جادو اور وحشت سر چڑھ کر بول رہی ہے نام نہاد جمہوری بھارت میں سوائے برہمنوں کے کوئی قومیت، مذہب اور طبقہ محفوظ نہیں ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ بدترین سلوک ہندوتوا کے پیروکاروں کا اصل چہرہ بے نقاب کررہا ہے۔ مقررین کا مزید کہنا تھا کہ جموں کشمیر کے عوام مملکت خداد پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے ہیں ۔ کشمیری عوام آج ان اسلاف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے ہندوتوا کی سازشوں کے بیچ قرارداد الحاق پاکستان کو پاس کیا ۔ پاسبان حریت کے زیر اہتمام شہریوں نے 19 جولائی 1947 کی قرارداد کی تجدید کے لیئے شہر کی مرکزی شاہراہ پر سنٹرل پریس کلب سے ساتھرا موڑ تک پیدل مارچ بھی کیا۔۔۔۔۔۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی ’لٹیری دلہن‘ جن پر شادیاں کر کے زیور اور نقدی چرانے کا الزام ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے بڈگام ضلع میں داناس گاؤں کے رہنے والے ثنااللہ گنائی نے راجوری ضلع کی ایک خاتون سے شادی کی تو کچھ عرصہ بعد وہ روایت کے مطابق اپنے میکے چلی گئیں۔
کئی روز تک جب وہ واپس نہیں لوٹیں تو ثنااللہ نے پتہ کرنا شروع کیا۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی بیوی پہلے خاوند سے طلاق شدہ ہیں اور دو بچوں کی ماں ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بھی شادی کر چکی ہیں۔
انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح کی دستاویز پر ان کا جو نام درج ہے وہ ان کا اصلی نام نہیں ہے۔
ضلع بڈگام میں ایک علاقے ’خان صاحب‘ کی کئی بستیوں سے تین ایسے شہری ہیں جنھوں نے مذکورہ خاتون کے خلاف پولیس میں شکایت درج کی تھی۔
ضلع پولیس کے سربراہ طاہر گیلانی نے بتایا کہ ’پہلی بار جب ایک شخص نے عدالت سے رجوع کیا تو ہم نے مقدمہ درج کر لیا، لیکن خاتون نے پیشگی ضمانت کروائی اور رہا ہو گئیں۔
’بعد میں مزید دو شکایات پر تفتیش کے دوران ہم نے انھیں گرفتار کر لیا۔ اس معاملے پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘
تاہم خاتون کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ انھوں نے گرفتاری سے ایک روز قبل جموں میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میری شادی ہوئی تھی لیکن بات نہیں بنی اور طلاق ہو گئی، پھر میں نے دوسری شادی کشمیر میں کی، اگر تیسری شادی ثابت ہو گئی تو مجھے پھانسی دی جائے۔‘
تاہم پولیس نے انھیں جعل سازی کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے۔
چالیس سالہ ثنااللہ گنائی پیشے سے مزدور ہیں۔ غربت اور دیگر وجوہات کی بنا پر ان کی شادی میں تاخیر ہوئی تو ان کی ملاقات ایک مقامی شہری عبدالحمید سے ہوئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس نے مجھے کچھ تصویریں دکھائیں اور کہا کہ راجوری میں ایک لڑکی ہے۔ راجوری پہنچ کر میری ملاقات جاوید بکروال سے ہوئی۔ لیکن جب میں لڑکی کے گھر پہنچا تو یہ وہ لڑکی نہیں تھی جس کی تصویر دکھائی گئی تھی۔‘
واضح رہے کہ کشمیر سے راجوری کا سفر طویل اور دشوارگزار ہے۔ راجوری دراصل جموں صوبے کا مسلم اکثریتی ضلع ہے جو لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے۔
ثنااللہ کہتے ہیں کہ ’ہم چند لوگ ہی بارات لے کر راجوری گئے تھے جس کے لیے ٹرانسپورٹ پر 20 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ چار لاکھ کے زیور تھے اور 24 ہزار کا فون بھی گفٹ کیا۔
’گھر پر چھوٹی سی دعوت بھی رکھی جس پر 35 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ میں تو برباد ہو گیا۔‘
ثنااللہ کہتے ہیں کہ اپنی شادی کے لیے وہ کئی سال سے پیسے جوڑ رہے تھے۔ ’میں دن میں مزدوری کرتا تھا اور رات کو کھیتوں یا کارخانوں کی رکھوالی بھی کیا کرتا تھا۔
’مجھے حیرت ہے کہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے 32 ہزار کی نقدی اور جو تحفے دیے وہ انھیں بھی اُڑا لے گئی۔‘
بڈگام میں راجوری کی اس خاتون کا ایک عرف بھی عام ہو گیا ہے اور انھیں وہاں ’لٹیری دلہن‘ کہا جاتا ہے۔
بھارت میں ٹرانسفارمر کا خوفناک دھماکہ، 15 افراد ہلاک
بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں ٹرانسفارمر کا زوردار دھماکہ ہو ا ہے جس کے نتیجے میں 15 افراد لقمہ اجل بن گئے۔بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے چمولی قصبے میں ترقیاتی کام جاری تھا کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کے قریب ٹرانسفارمر ہوا۔ اس زوردار دھماکے سے 15 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ چمولی پولیس نے واقعے کی تصدیق کردی ہے۔
یہ واقعہ چمولی قصبے کے قریب پیش آیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ پہلے ٹرانسفارمرمیں دھماکہ ہوا اورپھر لوگ اس کی زد میں ا?گئے۔ جائے واقعہ پر ریسکیو کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جس جگہ دھماکہ ہوا ہے وہاں نمامی گنگا پروجیکٹ پر کام چل رہا ہے۔کرنٹ لگنے سے 15 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک پولیس سب انسپکٹر اور 3 گارڈ بھی شامل ہیں۔ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔
گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقے تھلیچی کے قریب شاہراہ قراقرم پر سیاحوں سے بھری بس کھائی میں گرنے سے 5 افراد جاں بحق اور 12 سیاح زخمی ہوگئے
جاں بحق ہونے والوں میں 3 خواتین، ایک بچہ اور ایک مرد شامل ہیں، زخمیوں کو مقامی ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے، مقامی لوگوں نے ریسکیو میں مدد کی، ہائی روف گاڑی لاہور سے گلگت آرہی تھی جس میں 18 سیاح سوار تھے۔
یاست جموں وکشمیر کے دونوں اطراف رہنے والے کشمیریوں نے یوم الحاق پاکستان جوش و جذبے کے ساتھ منایا ۔ اس سلسلہ میں آزادجموں وکشمیر کے تمام ضلعی و تحصیل ہیڈکوارٹرز پر یوم الحاق پاکستان کے حوالہ سے تقاریب کا انعقاد کیا گیا، کشمیریوں اور پاکستان کے مقدس رشتے اور 19جولائی1947کوسرینگر میں کشمیریوں کی جانب سے منظور ہونے والی قراردادالحاق پاکستان پاکستان کی تکمیل کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کا اظہار کیا گیا۔
یوم الحاق پاکستان کے موقع پر آزادکشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں جموں وکشمیر لبریشن کمیشن کے زیراہتمام تقریب بلدیہ ہال اپراڈہ میں منعقد ہوئی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے 19جولائی1947کو منظور ہونے والی قرارداد الحاق پاکستان کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی اور پاکستان وکشمیر کے تاریخی رشتوں کو پروان چڑھانے کا عزم کیا اور کہاکہ اس تقریب کا مقصد نوجوان نسل کی فکری لام بندی کرنا ہے کشمیری پاکستان سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ، مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام اپنے شہیدوں کے جنازے سبز ہلالی پرچم میں دفنا کر پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں،مضبوط پاکستان ہی کشمیرکی آزادی کا ضامن ہے ۔ 19جولائی1947کو کشمیری قیادت نے قیام پاکستان سے قبل اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ جوڑکر جورشتہ قائم کیا کشمیری اسکو مقدم رکھتے ہیں ،ہر لحاظ سے مضبوط و مستحکم پاکستان کشمیرکی آزادی کا ضامن ہے ۔ مقررین نے کہاکہ سید علی گیلانی کا مشہور نعرہ' ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے 'ریاست کا سب سے مقبول نعرہ ہے ۔
انہوں نے کہاکہ ہندوستان کشمیریوں کی پاکستان سے محبت کو اپنے بدترین ظلم و جبر سے کم نہ کر سکا ہے ۔ انسانی تاریخ کے بدترین مظالم نے کشمیریوں کی پاکستان کے ساتھ کمٹمنٹ پر حرف نہ آنے دیا ہے ،تقریب کے اختتام پر ریلی بھی نکالی گئی
ریاست بھر کی طرح ضلع نیلم میں بھی 19 جولائی یوم الحاق پاکستان منایا گیا
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان کے وجود کا حصہ ہے اور کشمیری عوام الحاقِ پاکستان چاہتے ہیں ، کشمیری عوام بھارتی جبر و ستم کو گزشتہ کئی دہائیوں سے برداشت کر رہی ہے مگر بھارت کے جبر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہے ، بھارت اوچھے ہتھکنڈوں اور کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرکے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بندوق سے دبا دینا چاہتی ہے مگر بھارت اس میں مسلسل ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔
مقررین نے تقریب میں شریک نوجوانوں کے لئے بطور خاص نظریہ الحاق پاکستان کے اغراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ مقررین نے کہا کہ تحریک آزادی کشمیر اور نظریہ الحاق پاکستان ہماری منزل ہے جس کے حصول کیلئے ہماری نسلوں نے قربانی دی ہے اور آج کے دن ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
مظفرآباد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوم الحاق پاکستان کی مناسبت سے آزاد جموں وکشمیر کلچرل اکیڈمی کے زیر اہتمام محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
شعراء نے الحاق پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں قومی ہیروز کی سیاسی جدوجہد، شہدا کی قربانیوں اور کشمیریوں کی پاکستان سے لازوال محبت کا تذکرہ و احوال اپنے کلام میں بہترین انداز میں پیش کیا۔اور تحریک آزادی ء کشمیر کے ہر مرحلے پر قوم کی رہنمائی کی اور آج کی محفل مشاعرہ میں بھی ہمارے شعرا نے تحریکِ آزادی کشمیر اور ملک و قوم کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ملی و حدت اور قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے سلسلے میں پُراثر کلام کے ذریعے رہنمائی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی قوم کے ارتقاء اور ترقی میں اہل قلم اور شعرا کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔پاکستان کے تصور و تخلیق میں بھی علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا قلمی فکری و انقلابی کردار اور قائداعظم محمد علی جناح کی دانشمندانہ قیادت کا ر فرما ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ملک و قوم کو درپیش مسائل غربت، جہالت، اقربا پروری اور دہشت گردی کے گرداب سے نکالنے میں اہل قلم نے موثر کردار ادا کیا اور کرتے رہیں گے۔
پاکستان معاشی اصلاحات پر عملدرآمد سے اعتماد بحال کرے: ڈائریکٹر آئی ایم ایف
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولی کوزک کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کر کے اعتماد بحال کرے۔
نیوز کانفزنس میں آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولی کوزک نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی، پست شرحِ نمو اور زرِ مبادلہ کی ضرورت بڑے چیلنجز ہیں، سیلاب نے پاکستان کے معاشی مسائل مزید گمبھیر کیے۔
مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان کیساتھ اگلا قدم اٹھا سکیں گے: آئی ایم ایف
جولی کوزک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ قرض پروگرام کے نویں جائزہ اجلاس پر آئی ایم ایف نے مذاکرات کیے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن نے مزید بتایا کہ پاکستان کے ساتھ نویں جائزہ اجلاس کے لیے اسٹاف لیول معاہدے پر بات چیت ہوئی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم حکومتِ پاکستان سے معاشی اصلاحات پر عمل درآمد چاہتے ہیں، پاکستان کو متاثرینِ سیلاب کی مدد کے لیے گنجائش دی گئی۔
بالی ووڈ کی معروف ڈانسر و اداکارہ راکھی ساونت نے عادل خان درانی سے شادی کے بعد اپنی زندگی کے پہلے رمضان اللّٰہ تعالیٰ سے خصوصی دعا مانگی۔
راکھی ساونت نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو رمضان المبارک کی مبارکباد دی ہے۔
اُنہوں نے اپنی پوسٹ کے کیپشن میں لکھا کہ’ یااللّٰہ، میری مدد فرما، یہ میرے پہلے رمضان ہیں اور میں نہیں جانتی روزے کیسے رکھے جاتے ہیں، میں اکیلی رہوں گی، تو میری مدد فرما‘۔
لمحہ با لمحہقومی خبریںبین الاقوامی خبریںتجارتی خبریںکھیلوں کی خبریںانٹرٹینمنٹصحتدلچسپ و عجیبخاص رپورٹ
فائل فوٹو
فائل فوٹو
بالی ووڈ کی معروف ڈانسر و اداکارہ راکھی ساونت نے عادل خان درانی سے شادی کے بعد اپنی زندگی کے پہلے رمضان اللّٰہ تعالیٰ سے خصوصی دعا مانگی۔
راکھی ساونت نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو رمضان المبارک کی مبارکباد دی ہے۔
اُنہوں نے اپنی پوسٹ کے کیپشن میں لکھا کہ’ یااللّٰہ، میری مدد فرما، یہ میرے پہلے رمضان ہیں اور میں نہیں جانتی روزے کیسے رکھے جاتے ہیں، میں اکیلی رہوں گی، تو میری مدد فرما‘۔
کچھ روز قبل راکھی ساونت نے رمضان المبارک میں روزے رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عمرے کے لیےدستاویزات تیار کروا رہی ہیں تاکہ رمضان میں عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کرسکیں۔
واضح رہے کہ رواں برس کے آغاز میں راکھی ساونت نے اسلام قبول کرنے کا دعویٰ کیا اور پھر اپنے دوست عادل درانی سے شادی کی تھی لیکن اب دونوں میں علیحدگی ہوگئی ہے۔
جرمنی سے بھارت پہنچی پرواز میں دورانِ لینڈنگ ہنگامی صورتحال
جرمنی سے بھارتی شہر بنگلور پہنچی لفتھنسا ایئر کی پرواز میں لینڈنگ کے دوران ہنگامی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔
ایوی ایشن ذرائع کے مطابق فرینکفرٹ ایئر پورٹ سے لفتھنسا ایئر کی کارگو پرواز ایل ایچ 8474 نے 23 مارچ کی رات مقامی وقت کے مطابق 10 بج کر 26 منٹ پر ٹیک آف کیا۔
بوئنگ 777 طیارہ بھارت کے بنگلور انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈنگ اپروچ پر 11500 فٹ کی بلندی پر 700 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار پر تھا کہ ایئر ٹریفک کنٹرول کو کاک پٹ سے ہنگامی صورتِ حال کے سگنل موصول ہوئے۔
واشنگٹن سے لندن برٹش ایئر ویز کی پرواز میں دھواں، ہیلی فیکس میں ہنگامی لینڈنگ
تاہم طیارہ 10 منٹ بعد مقامی وقت کے مطابق دن 11 بج کر 6 منٹ پر بحفاظت لینڈ کر گیا۔
بھارت میں اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کو نااہل قرار دے دیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ روز ایک بھارتی عدالت نے راہول گاندھی کو ہتک عزت کیس میں مجرم قرار دیا تھا۔
خبر ایجنسی کے مطابق کانگریس کے رہنما راہول گاندھی پر الیکشن مہم میں مودی سرنیم رکھنے والوں کو چور کہنے کا الزام تھا۔
عدالت نے راہول گاندھی کو 2 سال قید کی سزا سنا کر فوری ضمانت منظور کرلی تھی۔
انڈیا کی حکومت اور کسانوں کا احتجاج: دہلی کے گرد ’جنگی سطح کی قلعہ بندی
انڈیا کے دارالحکومت دہلی کی دوسری ریاستوں سے ملنے والی سرحدوں پر آہنی کیلوں، سلاخوں، خاردار تاروں، پتھروں اور عارضی دیواروں کا استعمال کیا جارہا ہے تاکہ زرعی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کسان دہلی میں داخل نہ ہو سکیں۔
حکومت کے نئے زرعی قوانین سے پیدا ہونے والے تناؤ کے نتیجہ میں کیے جانے والے ان اقدامات کو بعض کسانوں نے ’جنگی سطح‘ کی تیاری کہا ہے۔
تین ماہ سے جاری یہ احتجاج وزیر اعظم نریندر مودی کو درپیش اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی حکومت نے قوانین کو معطل کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن کسان چاہتے ہیں کہ ان کو مکمل طور پر منسوخ کر دیا جائے۔
(1969) سے لیکر آج 2020 تک سری نگر میں مظلوموں کی لاشیں اٹھتی رہیں لیکن آو آئی سی خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے. سری نگر میں مظالم پر اب اسے عملی قدم اٹھانے ہیں وگرنہ یہ قائم رہنے کا اخلاقی جواز کھو دے گی
یوم جمہوریہ پر ہزاروں احتجاجی کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ: کسانوں نے دلی کے لال قلعہ کی فصیل پر اپنا پرچم لہرا دیا.
بھارتی یوم جمہوریہ پر کسانوں نے لال قلعے پر
مختلف رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے انڈیا کے ہزاروں احتجاجی کسان دارالحکومت نئی دہلی میں اپنے ٹریکٹروں سمیت داخل ہو گئے ہیں۔ کسانوں کو دارالحکومت میں داخلے سے روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے ہیں۔
کسانوں نے حکومت کی جانب سے دارالحکومت کی داخلی اور اندرونی سڑکوں پر رکھے گئے کنٹینرز اور سیمنٹ کے بھاری بیریکیڈ ٹریکٹروں کے ذریعے ہٹا کر راستہ کھول دیا ہے۔
پولیس کسانوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے جگہ جگہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کر رہی ہے۔ کسانوں اور پولیس کے درمیان شہر میں کئی جگہ جھڑپیں ہوئی ہیں اور اس دوران ایک کسان کی ہلاکت کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔
اب سے کچھ دیر قبل کسانوں کے ایک بڑا ہجوم لال قلعہ تک پہنچ گیا ہے اور سینکڑوں مظاہرین قلعہ کی فصیل کے اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں روایتی طور پر یوم آزادی کے روز قومی پرچم لہرایا جاتا ہے۔اد رہے کہ انڈیا کے 72ویں یومِ جمہوریہ کے موقع پر دارالحکومت نئی دہلی میں کسان ٹریکٹر ریلی کا انعقاد کر رہے ہیں۔ اس ریلی کو ٹریکٹر پریڈ کا نام دیا گیا ہے۔
پنجاب ہریانہ، مغربی اتر پردیش، راجستھان اور کئی دیگر ریاستوں سے ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹر لے کر دلی کے نواح میں پہنچ چکے ہیں اور اب وہ مختلف اطراف سے دارالحکومت میں داخل ہو رہے ہیں۔ دارالحکومت میں اس وقت موجود ٹریکٹروں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے۔ کسان اس ریلی کو ’کسانوں کی طاقت‘ کا مظاہرہ قرار دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ انڈیا کے کسان حکومت کی جانب سے بنائے گئے نئے زرعی قوانین کے خلاف گذشتہ دو ماہ سے احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے۔ یہ احتجاج دلی کے نواح میں تین مختلف مقامات پر جاری ہے جس میں ہزاروں کی تعداد کسان اور ان کے خاندان شریک ہیں۔
اُن کا مطالبہ ہے کہ یہ متنازع قوانین واپس لیے جائیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ ان سے انھیں اپنے اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں مل سکے گا اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں کا قبضہ ہو جائے گا۔
مختلف کاشتکار تنظیموں نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ ان کی ٹریکٹر ریلی مکمل طور پر پُرامن ہو گی اور ٹریکٹروں پر کوئی سیاسی پرچم نہیں لہرایا جائے گا۔
پولیس نے کسانوں کو اس ریلی کے لیے شہر کے تین نواحی علاقوں میں محدود پریڈ کی اجازت دی ہے لیکن کسان دلی کا احاطہ کرنے والی مرکزی رنگ روڈ پر ریلی نکالنے پر مصر ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کسان رنگ روڈ کی طرف بڑھیں گے یا نہیں۔
چین نئی بیرونی سرمایہ کاری میں پہلے نمبر پر، امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا
چین: غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے اعلیٰ منڈی
اتوار کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چین نے نئی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
گزشتہ سال بیرون ملک مقیم کمپنیوں کی طرف سے امریکہ میں ہونے والی نئی سرمایہ کاری میں تقریباً نصف کے قریب کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے اس کی پہلی پوزیشن جاتی رہی۔
اس کے برعکس، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق چینی فرموں میں براہ راست سرمایہ کاری 4 فیصد بڑھی، جو اسے عالمی سطح پر پہلے نمبر پر لے آئی۔
بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونے والی مسجد احمد اللہ شاہ کےنام سے منسوب
ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونے والی مسجد احمد اللہ شاہ کےنام منسوب ہوگی۔
انڈو اسلامک کلچرل فاونڈیشن کے مطابق احمد اللہ شاہ 1857 کی جنگ آزادی کے جنگجو تھے۔
آئی سی ایف کے سیکریٹری اطہر حسین کے مطابق مسجد کے نام کے حوالے سے بےشمار تجاویز موصول ہوئیں تاہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مسجد کو احمد اللہ شاہ کے نام منسوب کیا جائے گا۔
احمد اللہ شاہ جنگ آزادی ہند 1857 کے ایک رہنما تھے۔ مولوی احمد اللہ شاہ کو اودھ کے علاقے میں بغاوت کا مرکزی رہنما تصور کیا جاتا ہے۔
مسلمان ہونے کے ناطے وہ فیض آباد کے مذہبی اتحاد اور گنگا جمنا ثقافت کا ایک مظہر بھی تھے۔ جنگ آزادی ہند 1857ء میں کئی شاہی شخصیات جیسے نانا صاحب اور خان بہادر خان روہیلہ بھی احمد اللہ شاہ کے ساتھ شریک ہوئے۔
انگریز کبھی بھی مولوی کو زندہ نہیں پکڑ سکے۔ انہیں پکڑنے کے لیے چاندی کے 50 ہزار سکوں کا اعلان کیا گیا تھا، آخر پاواین کے راجا جگن ناتھ سنگھ نے مولوی احمد اللہ شاہ کو قتل کیا اور ان کا سر قلم کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا۔
راجا جگن ناتھ کو اعلان شدہ انعام دیا گیا، اگلے دن مولوی احمد اللہ شاہ کے سر کو کوتوالی کے باہر لٹکا دیا گیا تھا۔
اس مسجد میں بیک وقت 2000 لوگ نماز پڑھ سکیں گے جبکہ خواتین نمازیوں کے لیے بھی یہاں ایک الگ جگہ بنائی جائے گی جبکہ مسجد کے احاطے میں ہی ایک اسپتال بھی تعمیر کیا جائے گا۔ ایک کمیونٹی کچن اور انڈو اسلامک ثقافت ریسرچ سینٹر بھی مسجد کے قریب بنایا جائے گا۔
اس وقت مسجد کے نام کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں نے بھی جنم لیا تھا کہ مسجد کا نام کیا ہوگا؟ تاہم اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ مسجد کو 1857 کی جنگ آزادی کے جنگجو احمد اللہ شاہ کےنام منسوب ہوگی۔
یاد رہے کہ ایودھیا میں متنازع بابری مسجد کو ہندو شدت پسند گروہوں نے 6 دسمبر 1992 کو منہدم کر دیا تھا اور اس کے بعد ہی اس قطعہ زمین کی ملکیت کے حوالے سے ایک مقدمہ الہٰ آباد کی ہائیکورٹ میں درج کروایا گیا تھا۔
28 سال کی طویل عدالتی جنگ کے بعد بھارت کی سپریم کورٹ نے اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کے ایک بینچ نے مندر مسجد کے اس تنازعے کا متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم فریق کو ایودھیا کے اندر کسی نمایاں مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے ایک متبادل پانچ ایکڑ زمین دی جائے۔
عدالت نے مرکز اور اتر پردیش کی ریاستی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس متبادل زمین کا انتظام کریں۔
مقبوضہ کشمیر: کل بھارتی یوم جمہوریہ بطور یوم سیاہ منانے کا اعلان
مقبوضہ کشمیر میں کل بھارتی یوم جمہوریہ بطور یوم سیاہ منایا جائے گا اور اس موقع پر مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال ہوگی۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس اور حریت تنظیموں نے ہڑتال کی اپیل کی ہے، حریت رہنماؤں نے کشمیریوں سے گھروں اور دکانوں پر سیاہ پرچم لہرانے کی بھی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ بھارتی افواج کشمیریوں پر جبر و دباؤ کی پالیسی پر مسلسل عمل پیرا ہیں۔میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ جھوٹے الزامات میں بے گناہ شہریوں کو ہراساں کرکے گرفتار کیا جاتا ہے۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارتی جیلوں میں قید کشمیریوں کی حالت زار افسوسناک ہے۔
حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی جیلوں میں قید کشمیریوں پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
امریکا میں پاکستانی نژاد صائمہ محسن پہلی وفاقی پراسیکیوٹر مقرر
واشنگٹن: امریکا میں پہلی بار مسلمان خاتون کو وفاقی پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا ہے اور یہ اعزاز ایک اپکستانی کے حصے میں آیا ہے۔
امریکا میں پہلی بار پاکستانی نژاد مسلمان خاتون صائمہ محسن کو مشی گن میں وفاقی پراسیکیوٹر مقرر کردیا گیا ہے۔ موجودہ وفاقی پراسیکیوٹر یکم فروری کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے جس کے بعد یہ عہدہ 52 سالہ پاکستانی قانون دان سنبھال لیں گی۔
موجودہ وفاقی پراسیکیوٹر نے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ خوشی ہے میرے بعد ایک قابل پراسیکیوٹر کو اپنی خدمات دینے کا موقع مل رہا ہے جو پہلی تارک وطن مسلم خاتون وفاقی پراسیکیوٹر بنیں گی۔واضح رہے کہ پاکستانی نژاد صائمہ محسن 2002 سے امریکا کے محکمہ انصاف کے ساتھ منسلک ہیں اور اس وقت اٹارنی آفس میں ملازمت کر رہی ہیں اس کے علاوہ وائلنٹ اینڈ آرگنائزڈ کرائم یونٹ، ڈرگ ٹاسک فورس اور جنرل کرائمز یونٹ میں فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔
برازیل: کووڈ 19 کی سماجی بندش کے دوران طلاقوں میں ریکارڈ اضافہ
یو ڈی جنیرو: برازیل میں2020 کے کووڈ 19 میں لاک ڈاؤن کی باعث لوگوں کی اکثریت گھروں تک محصور رہی جہاں خانگی تنازعات نے ایک نیا موڑ لیا اور ریکارڈ تعداد میں طلاقیں ہوئی ہیں۔
برازیل کے نیشنل کالج آف نوٹریز کے مطابق میاں بیوی لاک ڈاؤن میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے اکتا گئے اور کورونا وائرس کی بیزارگی نے انہیں مزید چِڑچِڑا کردیا۔ یہاں تک کہ طلاق کےراستے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔
برازیل لاطینی امریکا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں 2020 کے آخری چھ ماہ میں 43,859 طلاقیں واقع ہوئی ہیں جو 2019 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 15 فیصد زائد ہیں۔ ان اعداد کی تصدیق کالج آف نوٹریز نے کی ہے۔ تاہم کالج کا کہنا ہے کہ یقیناً کووڈ 19 کی ابتدا میں بھی یہی کچھ ہوا ہوگا جو عملے کی غیرحاضری کی باعث ریکارڈ پر نہیں آسکا ہے۔
لیکن اس میں طلاق کی آن لائن رجسٹریشن کا بھی دخل ہوسکتا ہے کیونکہ شادی شدہ جوڑے آن لائن جاکر کسی ویب سائٹ پر درخواست دے کر رشتہ ختم کرنے کو قدرے آسان سمجھتے ہیں۔
انڈیا: خواتین کو گھریلو کام پر معاوضے کی ادائیگی کی تحریک زور پکڑنے لگی
انڈیا میں ایک فلم سٹار کی جانب سے قائم کردہ ایک نئی سیاسی جماعت نے وعدہ کیا ہے کہ اگر اسے ووٹ دے کر منتخب کیا گیا تو وہ شادی شدہ گھریلو خواتین کو گھریلو کام کاج کرنے کے عوض تنخواہ دینا لازم بنائیں گے۔
ایک معروف قانون ساز نے اس خیال کو سراہا اور کہا کہ اس سے ’گھریلو خواتین کے کام کاج پر انھیں پیسے ملیں گے۔ ان کی خودمختاری اور طاقت بڑھے گی اور اس طرح اس سے سب کے لیے بنیادی آمدن عام ہو گی۔‘
یہ ایک دلچسپ بحث ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک میں خواتین آمدن کے معاملے میں مردوں سے پیچھے ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین ایسے کام کاج کرتی ہیں جس کے بدلے انھیں پیسے نہیں ملتے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق عراق میں خواتین ہر روز بغیر تنخواہ کے 345 منٹ کام کرتی ہیں جبکہ تائیوان میں یہ وقت 168 منٹ فی دن ہے۔ دنیا بھر کی اوسط کو دیکھا جائے تو مرد بغیر تنخواہ 83 منٹ کام کرتے ہیں جبکہ خواتین اس سے تین گنا زیادہ 265 منٹ گھریلو کام کاج میں گزار دیتی ہیں۔
نڈیا میں نوکری کرنے کے بجائے اپنا گھر سنبھالنے والی خواتین کی تعداد 16 کروڑ ہے۔ باقی دنیا کی طرح وہ گھر کی صفائی کرتی ہیں، کھانا پکاتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں اور گھر کی جمع پونجی کے ساتھ خاندان کے مالی اخراجات کو دیکھتی ہیں۔ وہ اپنے گھر میں پانی، کھانے، آگ لگانے کے لیے لکڑی اور دیگر اشیا کا بندوبست بھی کرتی ہیں اور اس کے ساتھ اپنے بچوں کے علاوہ خاوند کے خاندان کا بھی خیال رکھتی ہیں۔
خواتین ہر روز گھریلو کام کاج میں 297 منٹ گزارتی ہیں۔ جبکہ مرد صرف 31 منٹ اس نوعیت کے کاموں کو دیتے ہیں۔ ایک چوتھائی مرد اپنا وقت بغیر تنخواہ گھریلو کام کاج میں گزارتے ہیں جبکہ 80 فیصد خواتین ایسا کرتی ہیں۔
قانونی ماہر گوتم بھاٹیا کہتے ہیں کہ بغیر تنخواہ گھریلو کام کاج کا مطلب ’جبری مزدوری‘ ہے۔ دلی یونیورسٹی کی ریسرچ سکالر ارپن تلسیان کہتی ہیں کہ ’بغیر تنخواہ کیے گئے گھریلو کام کاج کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔‘
بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ نصف صدی سے قبل انڈیا کی عدالتیں گھریلو خواتین کے بغیر معاوضہ کیے گئے کام کاج کے عوض انھیں معاوضہ دے رہی ہیں، لیکن صرف ان کے مرنے کے بعد۔
انڈیا
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
کنگز کالج لندن میں قانون اور انصاف کی پروفیسر پرابھا کوتسوران نے سنہ 1968 سے 2021 کے درمیان ایسے 200 مقدمات کا جائزہ لیا ہے۔ ان مقدمات کو اس انڈین قانون کے تحت درج کروایا گیا ہے جس میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور دیگر جرمانوں کی طرح گاڑی تیز چلانے پر جرمانہ عائد ہوتا ہے۔
انھیں یہ علم ہوا کہ ملک کی عدالتوں نے ’گھریلو کاموں کے لیے اجرت‘ سے متعلق ایک ’مضبوط‘ قانونی فریم ورک تیار کیا ہے: ججوں نے سڑک حادثات میں جاں بحق ہونے والی خواتین کے بلا معاوضہ کام کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے معاوضے کا تعین کیا اور اس معاوضے کو انھیں ادا کروایا جن کا ان خواتین پر انحصار تھا۔
گھریلو کام کاج کی قیمت طے کرنے کے لیے ججز نے ان کی زندگی میں دوسرے مواقع دیکھے جن میں وہ کچھ اور کر سکتی تھیں اور اپنا کریئر بنا سکتی تھیں۔ خاتون کا گھر پر کام کرنے کا فیصلہ، ہنر یا بغیر ہنر کام کے بدلے کم از کم معاوضہ، تعلیمی قابلیت اور عمر کے ساتھ معاوضہ طے کرنے کے لیے یہ بھی دیکھا گیا کہ آیا اس خاتون کے بچے تھے یا نہیں۔
دسمبر میں ایک عدالت نے ایک 33 سالہ خاتون کے لیے 17 لاکھ کے معاوضے کا اعلان کیا جن کی ہلاکت ایک ٹریفک حادثے میں ہوئی تھی۔ یہ طے کیا گیا کہ انھیں ماہانہ پانچ ہزار روپے تنخواہ مل سکتی تھی۔
سپریم کورٹ نے مرحوم گھریلو خاتون جس کی عمر 34 سے 59 سال تھی، اس کے لیے نو ہزار ماہانہ تنخواہ کی رقم کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ 62 سے 72 سال عمر کی خواتین کے لیے اس سے کم رقم طے کی گئی ہے۔ عمر کے ساتھ معاوضہ کم ہوتا ہے کیونکہ عدالتوں کے مطابق بچوں کے بڑے ہو جانے کے بعد خواتین بچوں کی دیکھ بھال میں کم وقت گزارتی ہیں۔
جہاں بھی ممکن ہو ججز نے کوشش کی ہے کہ اس معاوضے کو مہنگائی کے مطابق رکھا جائے۔ ایک فیصلے میں ججز نے شادی کو ’برابری کی معاشی شراکت‘ قرار دیا جس کا مطلب ہے کہ گھریلو خواتین کی آمدن ان کے خاوند کی تنخواہ کا نصف ہو گی۔
پروفیسر کوتسوران نے اس نوعیت کا سب سے پُرانا فیصلہ سنہ 1966 میں دیکھا جس میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ اپنی اہلیہ کی دیکھ بھال کے لیے خاوند کی تنخواہ اس کے اخراجات جتنی بنتی ہے۔ اس دلیل کے ساتھ شوہر کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔
پروفیسر کوتسوران کا کہنا ہے کہ چند مقدمات میں عدالت کی جانب سے طے کردہ معاوضے بہت کم تھے ’لیکن بغیر تنخواہ کیے گئے کام کو تسلیم کرنے کا اصول نوکری کے برابر سمجھا گیا جو کہ اہم ہے۔‘
انڈیا
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے: اگر ایک خاندان کو گھریلو خواتین کی موت کے بعد اس کے بغیر تنخواہ والے کام کے عوض معاوضہ مل سکتا ہے تو اس خاتون کی زندگی میں یہ رقم کیوں نہیں دی جاتی؟
پروفیسر کوتسوران کے مطابق وکلا ان فیصلوں کو استعمال کر سکتے ہیں تاکہ آئین و قانون اور فیملی لا میں اصلاحات لا سکیں جس سے نہ صرف کسی مشکل صورتحال میں بلکہ عام زندگی میں بھی ایسی خواتین کے بغیر آمدن کیے گئے کام کو تسلیم کیا جا سکے۔
اگر گھر پر موجود خواتین کو ان کے کام کاج کے عوض پیسے دیے جاتے ہیں تو اس سے انڈیا میں خواتین کی کام کاج میں شمولیت کی گِرتی شرح بھی بہتر ہو سکتی ہے۔
پروفیسر کوتسوران کہتی ہیں کہ ’میں گھریلو خواتین کے لیے تنخواہ کا مطالبہ نہیں کر رہی بلکہ ایک وسیع مہم کی دلیل پیش کر رہی ہوں جس کا مقصد گھر کے کام کے بدلے پیسے دینا ہے۔ اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ خواتین کو ایسے کام کی طرف لانا ہے جس سے آمدن ہوتی ہے۔‘
’انڈیا میں خواتین کے حقوق کی مہم کئی بڑے مسائل پر مرکوز ہے لیکن شادی کے تعلق میں محنت مزدوری جیسے بڑے سوال نہیں پوچھے جاتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اس مسئلے پر خواتین کی کوئی بڑی تحریک نہیں پائی جاتی۔ زیادہ تر اشرافیہ سمجھتی ہے کہ شادی شدہ گھریلو خواتین کے لیے تنخواہ ممکن نہیں یا یہ رجعت پسند عمل ہو گا۔ لیکن گھریلو کام کاج کو تسلیم کرنے کے لیے یہ ایک وسیع سیاسی بحث بن سکتی ہے۔‘
’انڈین گھرانوں میں لاکھوں خواتین کے ذمے اپنا گھر سنبھالنا ہوتا ہے اور یہ خواتین خود کو تنخواہ ملنے کی بات کا خیر مقدم کر سکتی ہیں۔‘
لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا، اس حوالے سے بہت سے سوالات ہیں۔
یہ تنخواہ پیسوں کی صورت میں دی جانی چاہیے، ریاست کو سبسڈی دینی چاہیے یا ملکی سطح پر ایک بنیادی آمدن کا ڈھانچہ ہونا چاہیے؟ خواتین کے بغیر آمدن کام کو تسلیم کرنے کے لیے کیا خاندانی قوانین میں تبدیلی لانی ہوگی؟ وہ مرد جو گھریلو کام کرتے ہیں کیا انھیں بھی اس کا معاوضہ ملنا چاہیے؟ اس آمدن کی سکیم میں کیا خواجہ سراؤں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے؟ گھریلو خواتین کو تنخواہ ملنے کے غیر ارادتاً کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
پروفیسر کوتسوران کہتی ہیں کہ ’گھریلو خواتین کے لیے تنخواہوں کا مطالبہ کرنے یا اس کی تحریک چلانے سے پہلے ہمیں اس پر مسلسل بحث کرنا ہو گی۔‘
نیراگونگو: افریقہ کی جان لیوا ’آگ کی جھیل‘ جسے مقامی لوگ ’جہنم کا دروازہ‘ قرار دیتے ہیں
وسطی افریقہ میں چھُپی یہ سلگتی ہوئی ایک جھیل جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ منظر فلم ’لارڈ آف دی رنگز‘ سے مستعار لیا گیا ہے۔
یہ جھیل کرہِ ارض کے وسط تک جانے کا راستہ ہے جہاں مائع چٹانوں کا درجہ حرارت 1000 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ’شیطان کی ہانڈی میں سوپ اُبل رہا ہوں۔‘
ماہر آتش فشاں بینوئٹ سیمٹز کے مطابق عوامی جمہوریہ کانگو میں چُھپے اس آتش فشاں ’نیراگونگو‘ میں دہکتی ہوئی آگ کا یہ گڑھا دنیا کے سب سے بڑے اور زندہ آتش فشاؤں میں سے ایک ہے۔ ماہر آتش فشاں سمیٹس نینوئٹ نے تقریباً پانچ برس تک اس آتش فشاں پر تحقیق کی ہے۔
260 میٹر چوڑے اس آگ کے تالاب کو آتش فشاں کے دھانے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں تقریباً 60 لاکھ کیوبک میٹر لاوا موجود ہے جو کہ 2500 اولمپک سوئمنگ پولز کو بھرنے کے لیے کافی ہے۔
نیراگونگو نامی یہ آتش فشاں سنہ 2002 سے مستقل پھوٹ رہا ہے اور اسی لیے اسے دنیا کے سب سے متحرک آتش فشاؤں میں شامل کیا گیا ہے۔جب لاوا پھٹتا ہے تو آتش فشاں کی گہرائی میں اس کے مرکز سے گیس بھی خارج ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ ٹھنڈا ہو کر دوبارہ اس کے اندر ڈوب جاتا ہے۔
لاوے کے گرم اور پھر سرد ہونے کے اس مسلسل عمل کی وجہ سے اس میں کسی آبشار جیسی آواز پیدا ہوتی ہے جس کے دوران گیس کے دھماکے بھی سنائی دیتے ہیں جو سلگتے ہوئے لاوے کے شعلوں کو دس میٹر تک فضا میں بلند کرتے ہیں۔یہ آتش فشاں شہر کے انتہائی قریب ہے۔ یہاں سے شہر صرف 18 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں کی واحد خاتون گائیڈ روتھ امرونگی کا کہنا ہے کہ ’اس شہر کے لوگ خوفزدہ بھی ہیں اور اسے نظر انداز بھی کرتے ہیں۔‘
’ہم ایک ایسی چیز کے قرب میں رہتے ہیں جو ایک خوفناک تباہی کا باعث بن سکتی ہے، لیکن ہم اپنی زندگیاں خوف میں نہیں گزار سکتے۔‘
’اگر ہم نتائج کی پرواہ کرتے رہیں گے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس آتش فشاں کی مثبت بات یہ ہے کہ یہاں سیاح آتے ہیں۔ محققین اور میڈیا بھی آتا ہے جس کی وجہ سے یہاں ملازمتیں ملتی ہیں اور مقامی کاروبار کی مدد ہو جاتی ہے۔‘
کئی لوگ یقین رکھتے ہیں کہ یہ ’جہنم کی روحوں کا ٹھکانہ ہے۔‘ جبکہ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک دوسری دنیا کی طرف جانے کا راستہ ہے جہاں پر’گناہ گاروں کی روحوں کو جلایا جاتا ہے۔‘
دوسری جانب نیک لوگوں کی روحیں قریب ہی روانڈا میں موجود ایک دوسری پہاڑی ’کاریسمبی‘ میں جاتی ہیں جو کہ ایک غیر متحرک آتش فشاں ہے جو برف سے ڈھکا ہوا ہے۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نیراگونگو میں لاوا اس وقت پھوٹتا ہے جب بُری روحیں ناراض ہو جاتی ہیں۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو مقامی افراد آتش فشاں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے عبادات کرتے ہیں۔
ایسی افواہیں بھی ہیں کہ گذشتہ صدیوں میں ان عبادات کے دوران کنواری لڑکیوں کو بھی اس آتش فشاں کے اندر پھینکا جاتا تھا۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the business
Telephone
Address
Kupwara
193222
Srinagar , Anantnag, Baramulla
Kupwara
Kashmir News Insider The Voice of Voice less. We Always Belive in Truth News.
Tekipora Lolab
Kupwara
Haqeeqat News Point Her khaber ki Haqeeqat aap tak support us for enquiries call.6005177502