Afzal Child Care Clinic
Best place to get your children medical treatment.
💐💐💐
ڈاکٹر نائلہ مجاہد*
ایم بی بی ایس
(فاطمہ جناح میڈیکل کالج و یونیورسٹی لاہور)
*چائلڈ سپیشلسٹ*
(فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور)
ماہر امراض بچگان و نوزائیدگان
ایکس رجسٹرار سر گنگا رام ہسپتال لاہور
ایکس رجسٹرار چلڈرن ہسپتال لاہور
"اپنے بچوں کو صحت مند اور محفوظ زندگی دیں "
📍کلینک ایڈریس: لنگڑیال روڈ چوہدری حاجی نذیر پلازہ نزد اقبال اکیڈمی سکول کوٹلہ
اوقات کار :
صبح 10 سے دوپہر 2بجے
شام 6 سے رات 8 بجے
---------
📞 مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں۔
0326 0364259
0334 4609123
کھانسی ایک بہت عام علامت ہے اسکی کٸ وجوہات ہو سکتی ھیں جس میں گلے کی سوزش سے لے کر نمونیا شامل ہیں۔
جب بچوں کو گلے میں انفیکشن، فلو، ٹنسلائٹس اور اوپری سانس کی نالی کے انفیکشن ہوتے ہیں تو ساتھ کھانسی بھی ہوتی ہے ۔
شواہد اور ریسیرچ یہ بتاتی ہے کہ کھانسی کا علاج کھانسی کے شربت سے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان شربت سے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں
بنیادی انفیکشن کا علاج کیا جانا چاہیے، کھانسی کا نہیں۔
ان میں سے زیادہ تر انفیکشن وائرل ہوتے ہیں اور اینٹی بائیوٹکس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
کھانسی چند دنوں میں اور بعض صورتوں میں ایک یا دو ہفتے تک خود بخود بہتر ہوجاتی ہے۔
اگر بچے کی اوپری سانس کے انفیکشن کی دیگر علامات بہتر ہو رہی ہیں، والدین کو کھانسی کے بارے میں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کھانسی کے لیے آپ گھریلو ٹوٹکے جیسے ایک سال سے بڑے بچوں میں شہد دے سکتے ہیں...
بچوں میں شوگر کی تشخیص اور علاج بہت پیچیدہ ہوتا اور اس کے لیے سپیشلسٹ ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر خدانخواستہ کسی بچے کو شوگر کا مسئلہ ہے اور اس دوران اس کو کوئی انفیکشن ہو جاتا ہے جیسا کہ ڈائریا یا چھاتی کا انفیکشن تو اس کے جسم کے اندر جو تبدیلی انفیکشن سے اتی ہے اس کی وجہ سے شوگر لیول بےقابو ہو سکتا ہے جسکو ڈاٸبیٹک کیٹو ایسی ڈوسسس( DKA) کہتے ہیں . یہ بہت خطرناک پیچیدگی ہے جس میں بچے کی جان بھی جا سکتی ہے۔
اس پوسٹ کے اندر کچھ ہدایت دی گئی ہیں کہ خدانخواستہ کسی بچے کو اگر شوگر ہے اور اس کو کوئی انفیکشن ہو جاتا ہے تو اس نے اس دوران ان ہدایات پر عمل کرنا ہے ۔یہ ہدایات بہت ضروری ہیں اور سب لوگوں کو اسکا پتہ ہونا چاہیے , خاص کر جن کی فیملی میں یا جن کے اپنے بچوں کو شوگر کامسلہ ہے ۔
تمام ڈاکٹرز , نرسز ,اور پیرامیڈیکل سٹاف کو اس بات کا علم بہت ضروری ہے تاکہ وہ والدین کو صحیح طریقے سے رہنمائی دے سکیں۔
کریڈٹ ! ڈاکٹر سمیہ افتاب
(پیڈیا ٹرک ڈیبٹالوجسٹ اینڈ اینڈوکرائنالوجسٹ چلڈرن ہاسپٹل لاہور)
الرجی ایک ایسی بیماری ہے جس میں ہمارا جسم مختلف ماحولیاتی چیزوں جیسے دھول، دھواں، ٹھنڈی ہوا، وائرل انفیکشنز کا ردعمل ضرورت سے زیادہ شدت کے ساتھ دیتا ہے۔
الرجی بنیادی طور پر ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کی بے ضابطگی کا نام ہے۔ الرجی مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتی ہے جیسے سینے کی الرجی جس میں کھانسی ، سینے کی جکڑن اور سینے سے سیٹیوں جیسی آوازیں کا آنا شامل ہے۔ الرجی ناک کی بھی ہو سکتی ہے جو کہ فلو اور ناک سے پانی بہنے کی علامات کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ الرجی جلد کو متاثر کر سکتی ہے جس میں جلد کی خارش اہم علامت ہے۔ الرجی آنکھوں کو متاثر کر سکتی ہے جو آنکھوں کے درد اور سرخی کا سبب بن سکتی ہے۔
الرجی والے افراد کو سال بھر مسائل ہوتے ہیں لیکن سردیوں کا موسم ان کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
اس وقت ہم فضائی آلودگی کی وجہ سے سموگ جیسے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں جس سے الرجی کا مساٸل اور بڑھ گۓ ہیں۔ سردیوں کے موسم میں عموماً گھر کے دروازے کھڑکیاں بند رہتی ہیں جس سے وینٹیلیشن کم ہو جاتی ہے ۔نتیجاتأ گھر ک اندر الرجی کروانے والے عوامل بڑھ جاتے ہیں۔
الرجی کے مسائل کو کم کرنے کے لیے چند اہم چیزیں جوآپ کر سکتے ہیں!!!
1. گھر سے باہر جاتے وقت ماسک کا استعمال کریں، خاص طور پر سموگ کے موسم میں
2. گھر میں کمروں کی روزانہ صفائی کریں۔بہتر ہے ویکیوم کلینرکا استعمال کریں۔
3. اپنے بستر اور تکیےکی چادروں ,کمبل کو گرم پانی سے دھوئیں اور ڈسٹ مائٹ پروف کور کا استعمال کریں۔
4. کمرے کی مناسب وینٹیلیشن ہو ۔
5. کتے بلی اور دوسرے پرندوں کو پالنے سے گریز کریں کیونکہ انکے پر یا بال ,فضلہ الرجی کروا سکتے ہیں۔
6. مناسب مقدار میں پانی پیں
7.گھر میں قالین نہ لگواٸیں
7. اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اینٹی الرجک دوا.
آج کل بہت سے بچے گلے کی سوزش کے ساتھ آرہے ہیں۔ والدین ایک سوال بار بار پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں اپنے بچوں کو گلے کی سوزش میں اینٹی بائیوٹک کب دینے کی ضرورت ہے؟
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف جراثیموں میں مزاحمت کا مسئلہ پوری دنیا میں بڑھتا جا رہا ہے اور اگر مزاحمت موجودہ رفتار سے بڑھتی رہے تو عام , کم لاگت والی اینٹی بائیوٹکس کام نہیں کریں گی۔ اس سب کی بڑی وجہ اینٹی بائیوٹک کا بے دریغ استعمال ہے۔ اس کی وجہ ڈاکٹرز بھی ہو سکتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ والدین خود ہی دوائیں میڈیکل سٹورز سے خرید کر استعمال کرتے ہیں۔
بچوں میں اینٹی بائیوٹکس کا زیادہ استعمال نہ صرف اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کا باعث بنتا ہے بلکہ اس کے کئی طریقوں سے مضر اثرات ہوتے ہیں جنہیں ہم وقت کے ساتھ جان رہے ہیں۔
گلے کی سوزش وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہو سکتی ہے پپض
گلے کی خرابی میں بیکٹیریل اور وائرل انفیکشن کے درمیان فرق:
1.. بیکٹیریل انفیکشن عمومأ صرف ایک شخص کو متاثر کرے گا جبکہ وائرل انفیکش میں خاندان کے بہت سے افراد متاثر ہوتے ہیں کیونکہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے
2. بیکٹیریل انفیکشن میں میں 100 یا اس سے زیادہ کا تیز بخار، جبکہ وائرل انفیکشن میں عمومأ بخار نہیں ہوتا یا کم 100 سے کم درجہ کا بخار ہوتا ہے۔
3. بیکٹیریل گلے کی سوزش صرف گلے کو متاثر کرے گی جبکہ وائرل انفیکشن میں دیگر علامات بھی ہو سکتی ہیں جیسے فلو، کھانسی اور چھینکیں وغیرہ
4۔بیکٹریل انفیکشن میں اگر آپ گلے کے پچھلے حصے کو دیکھیں تو بڑھے ہوئے ٹانسلز یا سفید جھلی نظر آسکتی ہے جبکہ وائرل انفیکشن میں صرف گلے کی سرخی ہوتی ہے۔
5. گلے میں خراش اگر بیکٹیریا کی وجہ سے ہو تو گردن میں لمف نوڈ یا گلٹیاں محسوس کی جا سکتی ہے جو دبانے پر تکلیف دہ ہوتی ہیں، جبکہ یہ وائرل انفیکشن میں یہ نہیں سوجتی۔
بیکٹیریل گلے کی سوزش ہو تو اینٹی بائیوٹکس لینے کی ضرورت ہوتی ہے ,لیکن وائرل گلے کی سوزش میں اینٹی بائیوٹک نہیں کھانی چاہیے۔
گلے میں خراش کے دوران اھم ہدایات :
1. پانی میں نمک ڈال کر اس سے غرغرارے کریں۔ اس سے گلے کا درد اور سوزش کم ہو جائے گی۔
2. شہد، ہربل چاۓ بھی گلےکو راحت دیتی ہے
3. بھاپ لیں ۔اس سے گلے کی خراش بہتر ہوتی ہے
4. لوزینجز (Lozanges )
5. پیناڈول بھی لے سکتے ہیں
کچھ خرافات/غلطیاں جن کا خاتمہ ضروری ہے۔ نئی ماؤں اور بچوں کو اس مخمصے سے باہر نکلنے دیں ”'کے ہم نہیں تو بچے ایسے ہی پالے ہیں'“
تمام والدین کو آگاھ کریں۔ صدقہ جاریہ ہے ۔جزاك الله
1- ہر رونے میں پیناڈول دینا کے کوٸ تو تکلیف ہو گی .
2- بمشکل 3 ماہ کے بچے کو سیریلیک، گلوکو بسکٹ، کسٹرڈ وغیرہ دینا۔
3- دانتوں میں بائیو 21 دینا۔ یہ بہت راحت بخش ہے۔ لیکن ایف ڈی اے نے منظوری نہیں دی۔ یہ دانتوں کی اینکیلوسس کا سبب بن سکتا ہے۔
4- شیر خوار بچوں کے جسم کے بالوں کو ختم کرنے کے لیے آٹے کا گولا قسم کی چیز رگڑنا۔
5- بچے کا سر بنانے کے عمل کے لیے پلیٹ کو سر کے نیچے رکھنا۔ فلیٹ ہیڈ سنڈروم کا سبب بن سکتا ہے۔
6- ایک سال کی عمر سے پہلے شہد دینا بچے میں بوٹولزم کروا سکتا ہےجس میں جسم کے پٹھے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
7- ایک سال سے پہلے گائے کا دودھ دینا۔ گائے کے دودھ کی ساخت اور اس کا بچے کے گردے پر اثر ہے۔ اور اس کی وجہ سے بچے میں آئرن کی کمی ہوتی کیونکہ گاۓ کے دودھ میں آئرن کم ہوتا ہے اور جو ہوتا ہے وہ جزب نہیں ہو پاتا۔
8- ایک سال سے پہلے ضرورت سے زیادہ چینی اور نمک بچے کو دینا ۔
9- چھ ماہ سے پہلے پانی دینا۔ جیسا کہ مدر فیڈ کے معاملے میں اس کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔
10- کاجل/سورما لگانا۔ آنکھوں میں انفیکشن، آنسو کی نالی میں رکاوٹ اور آنکھوں کے دیگر مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
11- فینرگن یا دیگر سکون آور ادویات دینا تاکہ بچہ سویا رہے,چار سال سے پہلے یہ سیرپ بچے کا سانس بھی بندکروسکتا ہے ۔
13- ماں کا یہ تصور کبھی بھی بچے کی خوراک کافی نہیں ہے۔ 'پیٹ نہیں بھرتا' اور پھر کھلا دودھ شروع کروا دینا
14- ایک سال کی عمر کے بعد ضرورت سے زیادہ دودھ دینا ۔
15- چھوٹے بچے کو ہونٹوں/گال پر بوسہ دینا بچے میں انفیکشن کا باعث بن سکتا ہے خاص کر جب آپکا گلا خراب یا فلو ذکام ہو۔
16- بچے کی نشوونما کا دوسرے بچوں سے موازنہ کرنا۔
17- واکر کا استعمال۔ آپ اس کے نتائج پر تحقیق کر سکتے ہیں۔
18- اوور لیئرنگ یا زیادہ کپڑے پہنا دینا۔جو بچے کو زیادہ گرم کرنے اور پانی کی کمی کا باعث بن سکتی ہے۔
19- وٹامن ڈی سپلیمنٹ کو خاطرناک سمجھنا۔ خصوصی دودھ پلانے والے بچے میں اس کی اہمیت کے بارے میں تحقیق کریں۔
20-پیداٸیش پر وٹامن کے کا انجیکشن نہ لگوانا کہ بچے کودرد ہوگا ۔ وٹامن کے کی کمی سے بچے میں خون پتلا ہوجاتا ہے اور دماغ میں بھی خون بہ سکتا ہے
21-بچے کی ناف پر تیل اور ایسی چیزیں لگانا ۔ناف کے انفیکشن اوردیر سے گرنے کا سبب بنتی ہیں
22-بچے کو ٹھنڈا گرم کے چکر میں اھم غزاٶں جیسے انڈہ ,دہی ,چاول اور سٹرس فروٹس سے محروم رکھنا
23- بچے کو خاص طور پردوسال سے پہلے موباٸل یا ٹی وی کارٹون دکھانا ۔۔یہ بچے میں آٹزم جیسے مساٸل پیدا کر سکتا ہے
24-بچے کی گروتھ کے لیے عرق ,گٹھی جیسی چیزیں دینا ۔انکی ساٸنسی افادیت ثابت نہیں ہو سکی
25-کوالیفاٸیڈ ڈاکٹر کے کہنے کے باوجود نارمل ڈلیوری پر اصرار کرنا۔ اگر اس دوران بچے کو دماغی آکسیجن کی کمی ہو جاۓ تو بچہ سی پی چاٸلڈ بن سکتاہے۔
26-بچے کی ویکسینیشن نہ کروانا یا ویکسینشن میں تاخیر کرنا۔ ویکسینشن مفت ہے اور بچے کو بارہ خطرناک جان لیوا بیماریوں سے بچاتی ہے
27- میڈیکل سٹور پر جاکر سیلز مین سے بچے کا مسلہ بتا کر دواٸ لینا خاص کر اینٹی باٸیوٹیکس اور ایک بچے کی دواٸ دوسرے بچے پر آزمانا
تمام والدین کو آگاھ کریں۔ صدقہ جاریہ ہے ۔جزاك الله
بچوں کی صحت سے متعلق مزید معلومات اور آگاہی کے لیے ھماری پوسٹس روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے رہیں...
اکثر والدین ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کا بچہ اپنی عمر کے مطابق گروتھ کررہا ہے یا نہیں؟؟
اس سوال کو ہم تفصیل سے دیکھتے ہیں۔
تمام والدین اپنے بچے کے لیے سے پہلے مشاہدہ کرنے والے ہوتے ہیں اس لیے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے بچے کی گروتھ انکی عمر سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں اور انہیں کب چائلڈ سپیشلسٹ سے چیک اپ کروانا چاہیے۔
میں ریڈ فلیگ( Red Flag) کہلانے والے اہم نکات پر بات کرتے ہیں 'جو جب بھی کسی بچے میں نظر آٸیں تو فوری طور پر قریبی ماہر اطفال سے چیک اپ کروائیں۔ یہ علامات بچے میں گروتھ اور بڑھوتری کی ایمرجینسی ہیں کیونکہ آپ پہلے ہی بہت وقت گزار چکے ہیں اور مزید تاخیر بچے کی مستقبل کی صلاحیتوں کو متاثر کرے گی۔
1..کسی بھی عمر میں اگر بچے میں کوئی ایسی مہارت ہو جو پہلے بچہ سیکھ چکا ہو وہ بھول جاۓ جیسا کہ بچہ پہلے بیٹھتا تھا اور اب بیٹھنا چھوڑ دیا ہے۔
2.کسی بھی عمر میں والدین دیکھتے ہیں کہ بچہ انسانی چہرے یا چیزوں پر فوکس نہیں کر پاتا یا انکی طرف نہیں دیکھتا۔
3.کسی بھی عمر میں والدین محسوس کریں کے بچہ صیح سن نہیں پا رہا یا آوازوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔
4. اگر اٹھارہ ماہ کی عمر تک کوٸ لفظ نہ بولے
5. بچہ شروع سے ایک ہی ہاتھ استعمال کرے ۔ عمومأ داٸیں یا باٸیں ہاتھ کی عادت تین سال کے بعد آتی اگر ایک سال سے پہلے آجاۓ تو مطلب دوسری ساٸڈ کی کمزوری ہے
6. بچہ سرف پنجوں کے بل چلے اور مکمل پاٶں زمین پر نہ رکھے
7. بچے کے سر کا سائز بہت بڑا ہو یا بہت چھوٹا
8. بارہ ماہ تک مکمل بیٹھ نہ سکے
9.بچہ اٹھارہ ماہ تک نہ چلے یا یا بچیوں میں چلنا دو سال تک نہ شروع ہو
10. ڈھائی سال پر بچہ دوڑ نہ سکے
دوسروں کو بھی آگاھ کریں ,یہ صدقہ جاریہ ہے ۔جزاک اللہ
اللہ ہم سب کے بچوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے !!! آمین!!!!
آجکل ڈینگی بخار کے بہت کیسز آرہے ہیں۔ دیر سے تشخیص مریض کی جان بھی لے سکتی ہے ۔
ڈینگی بخار کی ابتداٸ معلومات , ہدایات اور خطرناک علامت خود بھی پڑھیں اور دوست احباب کے ساتھ شیر کریں۔جزاك الله
موسم کی تبدیلی اور فلو!!!
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ حالیہ بارشوں کے بعد موسم کافی حد تک تبدیل ہوا ہے۔ جب کبھی موسم میں تبدیلی آتی ہے تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگوں کو نزلہ زکام ہو جاتا ہے۔ آپ سب نے کبھی نہ کبھی ضرور سوچا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے کہ گرمی کے موسم سے سردیوں میں تبدیلی اور سردیوں سے گرمیوں کی شروعات , دونوں ہی نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اوسطاً ایک بالغ شخص کو سال میں دو سے چار بار فلو کا مسلہ ہوتا ہے اور بچوں کو سال میں بارہ بار تک فلو ہو سکتا ہے۔
تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فلو کے انفیکشن موسم کی تبدیلیوں کے ساتھ زیادہ ہوجاتے ہیں۔
موسم کی تبدیلی کے ساتھ فلو ہونے کی سائنسی وجہ یہ ہے کہ ماحولیاتی درجہ حرارت میں تبدیلی واٸرس کو بڑھوتری کے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے اور انکے ایک سے دوسرے انسان میں منتقلی کو بھی آسان کرتی ہے . دو سو سے زیادہ واٸرس دریافت ہو چکے ہیں جو انسان میں فلو کا سبب بنتے ہیں . ہیومن رائنو وائرس اس موسمی فلو کا سبب بننے والا سب سے اھم وائرس ہے۔
موسم کی تبدیلی سے الرجک لوگوں میں بھی فلو کے انفیکشن بھی بڑھ جاتے ہیں۔
انفلوئنزا وائرس بھی سرد موسم میں فلو کا سبب بنتا ہے۔
موسم کی تبدیلی انسان کی قوت مدافعت (Immunity ) کوبھی وقتی طور پر کم کر دیتی ہے اور جراثیم اسکا فاٸدہ اٹھاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم خود اور بچوں کو فلو کے انفیکشن سے کیسے بچا سکتے ہیں؟
اسکا واحد اور بہترین جواب بار بار ہاتھ دھونا ہے۔ باقاعدہ ورزش ، اچھی ہائیڈریشن اور فلو سے متاثرہ افراد سے فاصلہ رکھنا, ہماری فلو زکام سے حفاظت کرتا ہے۔
ویکسین بھی ایک آپشن ہو سکتی ہے۔
اگر فلو ہو جائے تو گھبرائیں نہیں۔ اینٹی بائیوٹکس فلو میں بالکل بھی مؤثر نہیں ہیں لہذا براہ کرم انہیں نہ لیں۔ بس پیناڈول لیں، آرام کریں، اچھی ہائیڈریشن رکھیں، باہر جاتے وقت ماسک کا استعمال کریں تاکہ آپ اسے دوسروں تک نہ پھیلائیں۔ کچھ دنوں ہمارا جسم واٸرس پر خود ہی قابو پا لیتا ہےاور ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
بچوں میں فلو کا دورانیہ بڑوں کی نسبت زیادہ اور کھانسی کی کافی شکایت ہوتی ہے۔ کھانسی کے لیے بچوں بھاپ دلواٸیں ' نیبولاٸز بھی کر سکتے ہیں ۔
بعض اوقات فلو کا واٸرس نمونیا کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے برونکولاٸٹس کہتے ہیں۔اسکی اھم علامات میں بچوں کی سانس کی رفتار میں تیزی ہے ۔نارمل سانس کی رفتار بچے کی عمر کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے ۔زیادہ سے زیادہ سانس لینے کی رفتار ایک منٹ میں دوماہ کی عمر تک ساٹھ , دوسے بارہ ماہ کی عمر تک چالیس ,ایک سے پانچ سال تک تیس ہے اور اس سے بڑوں میں پچیس ہے ۔ اگر بچے میں سانس کی رفتار اس سے تیز ہو رہی ہے تو ڈاکٹر کو ضرور چیک کرواٸیں۔۔
جسم پر بننے والے ان نشانوں کو دھپڑ یا وہیل کہتے ہیں اور اس حالت کو چھپاکی (urticaria) کہتے ہیں۔مریض کو جسم پر بےتحاشہ خارش کا مسلہ ہوتا ہے ۔یہ دھپڑ بنتے اور غاٸب ہوتے رہتے ہیں اور درمیان میں ایسے لگتا ہے جیسے بالکل غاٸب ہو گۓ ہوں۔
یہ ایک الرجک ردعمل ہے.
اس کی وجہ خوراک (انڈے، مونگ پھلی وغیرہ)،درخت,پودے,حشرات,
دواٸیاں، اور یہاں تک کہ وائرل انفیکشن بھی ہو سکتے ہیں۔
اس حالت کا علاج الرجی کی ادویات کے استعمال سے کیا جاتا ہے۔ کچھ سنگین صورتوں میں ہمیں سٹیراٸڈ ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔
اہم یہ ہے کہ محرک عنصر کی نشاندہی کریں اور اس سے بچیں تاکہ مستقبل میں دوبارہ ہونے سے روکا جا سکے۔
اس وقت ہمارے ملک کے اکثر علاقوں میں آشوب چشم(Conjunctivitis) کی وبا پھیلی ہوٸ ہے . کراچی سے شروع ہو کر اب یہ پنجاب میں پھیل رہی ہے.
کالج ,سکول، بازار ، ریسٹیورنٹ یا کسی بھی جگہ جاٸیں تو آپکو اسکا متاثرہ شخص نظر آے گا.
کرونا کی وبا کی طرح اب بھی سوشل میڈیا پہ کافی شوقیہ ڈاکٹر بھی پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے خود سے لوگوں کا علاج شروع کر دیا ہے. جس کے دل میں جو آ رہا ہے وہ ٹوٹکا بنا کر شیئر کر رہا ہے اور جس کو جس قطرے سے "شفاء" مل رہی ہے وہ آگے دوسروں کو بانٹتا نظر آ رہا ہے. لہذا مریض تک درست معلومات اور علاج کی فراہمی مشکل ہو گئی ہے.اھم چیز یہ ہے کچھ چیزیں لوگ ایسی بھی سوشل میڈیا پر پھیلا دیتے ہیں جو لوگوں میں آنکھوں کے نقصان اور آنکھوں کےمستقل مساٸل کا باعث بن رہی ہیں
کچھ گزارشات اور بنیادی ہدایات ہیں جن کو آپ سمجھ لیں گے اور دوسروں تک پہنچاٸیں گے تو انشااللہ ہم اس بیماری کو ساٸینسی انداز سے نہ صرف جان پاٸیں گے بلکہ اسکاچھٹکارا بھی ممکن ہے
۔آشوب چشم بنیادی طور پر آنکھ کی ڈیلے کے سفید حصے پر موجود ایک سفید جھلی جسے کنجیکٹاٸیوا (Conjuntiva)کہتے ہیں اسکی سوزش ہے
۔ اسکی کٸ وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے واٸرس ,الرجی یا انفیکشن وغیرہ
۔اسکی علامات میں آنکھ کا سرخ ہونا آنکھ سے پانی آنا ,آنکھ میں خارش اور درد شامل ہےوائرس کے باعث ہونے والا آشوب چشم دونوں آنکھوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس صورت میں نیند سے بیدار ہونے پر متاثر فرد کی پلکیں آپس میں چپکی ہوئی ہو سکتی ہیں۔ آنکھوں سے خارج ہونے والا مواد عام طور پر صاف شفاف ہوتا ہے۔ بیکٹیریا کے باعث ہونے والا آشوب چشم اکثر پہلے صرف ایک آنکھ کو متاثر کرتا ہے۔ آنکھ عموماً کافی سْرخ ہو جاتی ہے اور اس میں زرد یا سبز مواد دیکھا جا سکتا ہے، جس سے اکثرو بیشتر آنکھ کے پیوٹوں پر پرت جم جاتی ہے.
الرجی کے باعث ہونے والا آشوب چشم عموماً ماحول میں موجود الرجی پیدا کرنے والے عام عناصر کے باعث ہوتا ہے جیسے پودوں کے پولن، گھاس، درختوں کے پولن، یا جانور۔ یہ دونوں آنکھوں کو متاثر کرتا ہے اور اس میں کم یا پھر بالکل ہی کوئی مواد خارج نہیں ہوتا
- ابھی جو وبا پھیلی ہوٸ ہےاسکا سبب وائرس ہے جس اڈینو واٸرس بہت اھم ہے
۔تمام واٸرس کی طرح یہ بھی ایک شخص سے دورے شخص میں بہت تیزی سے منتقل ہوتا ہے اور وباٸ شکل اختیا کر لیتا ہے
۔ بیماری کا دورانیہ ہفتہ سے دس دن ہے جس کے بعد یہ خودبخود ختم ہو جاتی ہے
۔اگر کوٸ دواٸ استعمال نہ بھی کی جاٸ تو اپنی مدت پوری کرنےکے بعد دس دن کے اند یہ خود سے ٹھیک ہو جاتی ہے
- دوائی کا بنیادی مصقد بیماری کی علامات اور شدت کم کرنا یا اس سے ہونے والی پیچیدگیوں کا علاج ہے. بیماری کے دورانیے علاج سے کم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ واٸرل بیماری ہے اور اینٹی باٸیوٹیکس اس میں کام نہیں کرتی
۔اگر بیماری کی پیچیدگی کی صورت میں بیکٹریل انفیکشن ہوگیا ہے تو اس صورت میں آپکا ڈاکٹر اینٹی باٸیوٹیکس دے گا
-ٹوٹکے جیسے سرمہ، عرق گلاب سے مکمل اجتناب کریں کیونکہ یہ وائرس کو ختم تو نہیں کر سکتے البتہ علامات کی شدت میں اضافہ ,بیماری کا دورانیہ کو بڑھانے اور مزید پیچیدگیوں کا سبب بن سکتے ہیں
- سوشل میڈیا پہ پھیلاۓ جانی والی دوا یا کوئی بھی قطرے کسی مستند ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہرگز استعمال نہ کریں کیونکہ ہر قطرہ ہر مریض کے لیے نہیں ہوتا. ہر انسان میں بیماری کی نوعیت اور علامات مختلف ہوتی ہیں اور قطروں کا فیصلہ فیس بک، فون یا میسج پر نہیں کیا جا سکتا بلکہ مکمل معائنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے.
- جو بیماری 10 دن میں خودبخود ختم ہو جانی ہے اس میں اپنی مرضی سے کسی قطرے کا غلط استعمال آپ کو زندگی بھر کے لیے کسی پیچیدگی میں مبتلا کر سکتا ہے. یاد رہے ان قطروں کے سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوتے ہیں جن کی فیس بک پہ نسخے بانٹنے والوں کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوتی.
- نوے فیصد سے زیادہ لوگوں میں یہ بیماری بغیر کسی علاج اور بغیر کسی پیچیدگی کے خود بخود ختم ہو جاتی ہے.
- البتہ دس فیصد سے بھی کم لوگوں میں بعد میں کچھ پیچیدگیاں رہ سکتی ہیں جو کئی ماہ تک طویل ہو سکتی ہیں. ایسے لوگوں کو ضرور مستند آئی اسپیشلسٹ کو چیک کروانا چاہئیے
۔بیماری کا پھیلاٶ آنکھ سے نکلنے والے پانی سے ہوتا ہے جو ہاتھ لگانے ,یا چیزیں شیر کرنے سے پھیل سکتا ہے ,کسی کو دیکھنے سے یہ بیماری نہیں پھیلتیہاتھوں کو صابن اور پانی کے ساتھ اچھی طرح دھوئیں اور ا نفیکشن کی منتقلی کو روکنے کے لیے الکوحل سے بنے ہوئے، ہاتھ صاف کرنے والے محلول کا استعمال کریں۔ ہاتھ صاف کرنے والے محلول کو آنکھوں میں جانے سے بچائیں، کیوں کہ وہ آنکھوں میں سوزش کا باعث بنے گا چھوٹے بچوں کو یہ بیماری زیادہ متاثر کر رہی ہے لہذا گھر میں کوئی بھی فرد اگر متاثر ہو گیا ہے تو چھوٹے بچوں کو چھونے سے گریز کریں. اور گھر کے افراد مشترک چیزیں مثلاً تولیہ، تکیہ، سرمہ دانی اور میک اپ وغیرہ استعمال نہ کریں.
-بیماری سے متاثرہ سکول جانے والے بچوں کو گھر پہ ہی رکھا جائے اور جب تک آنکھوں میں سرخی یا رطوبت موجود ہو دوبارہ سکول نہ بھیجا جائے اور اگر کسی وجہ سے سکول بھیجنا لازم ہو تو ان بچوں کو باقی کلاس سے الگ ذرا فاصلے پہ رکھا جائے تا کہ بیماری کا پھیلاؤ کم سے کم ہو
۔کالے چشمے پہننے سے نہیں بلکہ احطیاط سے ہی بیماری کا پھیلاٶ کنٹرول کیا جا سکتا ہے
- والدین بچوں کی آنکھ میں قطرے ڈالنے سے پہلے اور بعد میں اچھی طرح ہاتھ دھوئیں تا کہ وائرس ایک سے دوسرے فرد میں منتقل نہ ہو.
- متاثرہ فرد سے ہاتھ ملا کر سلام کرنے سے پرہیز کریں
۔متاثرہ شخص بار بار اپنی انکھیں مَلنے سے گریز کرے
- متاثرہ مریض کے قطرے کوئی دوسرا فرد استعمال نہ کرے کیونکہ اس سے بھی وائرس ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتا ہے
۔سوٸمنگ پول مت نہانے جاٸیں
۔کانٹیکٹ لینز کا استعمال نہ کریں
- صبح شام دو منٹ کے لیے برف سے آنکھوں کی ٹھنڈی ٹکور کریں اس سے آنکھوں کی سوزش اور سُرخی کم ہو جاتی ہے
- آنکھوں کو جلن، خشکی اور خارش سے بچانے کے لیے مصنوعی آنسو یا lubricants کا استعمال کر کے علامات کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے. رہنمائی کے لیے کچھ قطروں کے نام لکھ رہا ہوں
1) Lubricant Eye drop like
OptheezE/D, Tear Aid E/D, Polytears E/D, Hylo E/D,Tear Plus E/D (use any of these drops) etc.
(ان میں سے کوٸ بھی ایک قطرہ دن میں چار یا پانچ مرتبہ۔۔۔حسبِ ضرورت)
2) Lacrilube E/Oint
اس مرہم کو رات کو آنکھوں میں استعمال کریں۔
اس کے علاوہ کوئی بھی دوا مستند ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال نہ کریںآنکھوں کی صفائی!!
اگر آنکھوں کی چپچپاہٹ یا آنکھوں سے نکلنے والے مواد کو کسی گرم کپڑے سے صاف کرلیا جائے تو آشوب چشم میں مبتلا فرد بہتر محسوس کرتا ہے۔ متاثرہ آنکھ کو صاف کرنے کے لیے، گرم، گیلا تولیہ یا کوئی صاف ستھرا کپڑا استعمال کریں اور بڑی نرمی سے آنکھ سے نکلے یا جمے ہوئے مواد کو صاف کریں۔ ہر بار آنکھ کی صفائی کے لیے صاف ستھرا کپڑا استعمال کریں۔ اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو صاف کر لیں۔
- اگر آنکھ میں درد,دھندلا پن یا آنکھ سے گاڑھا مواد خارج ہوتو فوراً آئی اسپیشلسٹ کو چیک کروائیں. کیونکہ یہ پیچیدہ مرض کی علامت ہے. اور اس معاملے میں موبائل یا وٹس ایپ پہ مشورہ کرنے سے گریز کریں.
بیماری کو ساٸنسی انداز میں سمجھیں اوراپنے دوست احباب کو بھی سمجھاٸیں, تب ہی ھم انشااللہ اس وبا سے نکلیں گے۔
اللہ تعالٰی ہماری انکھوں کا نور اور بصیرت سلامت رکھے. آمین
Dr awais afzal
Eye specialist
بچوں کی صحت سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر ہماری پوسٹس دیکھتے رہیں۔
ویڈیو میں آپکو ایک بچہ دیکھایا گیا ہے جو لنگڑا کر چل رہا ہے ۔یہ کوٸ پیداٸیشی معزور بچہ نہیں بلکہ دو ماہ پہلے بالکل نارمل کھیلتا کودتا بچہ تھا ۔ بچے کو بخار ہوا جس کے لیے گاٶں میں قریبی کلینک وغیرہ پر لے جایا گیا۔ بچے کو کولہے کے گوشت میں انجیکشن لگایا گیا اور بچے نے اس ٹانگ پر وزن ڈالنا چھوڑ دیا ۔
اس بیماری کو ٹرومیٹک نیوراٸیٹس کہا جاتا جس میں انجیکشن ہمارے پٹھوں کو دماغ سے جوڑنے والی نسوں جو پٹھوں کے درمیان سے گزر رہی ہوتی ہیں , نقصان پہنچا دیتا ہے۔ نتیجہ پھر معزوری کی شکل میں نکلتا ہے ۔
بچوں میں پٹھوں کے انجیکشن(Intramuscular) کے لیےوالدین کو ہدایات ::
اصول یہ ہے کہ جتنا ممکن ہو گاؤں کے میٹرک فیل ڈاکٹر سے انجیکشن لگوانے سے بچیں۔
اگر کسی مستند ڈاکٹر کی طرف سے مشورہ دیا جائے توبچوں کو گوشت میں انجیکشن لگواتے وقت ان ہدایات پر عمل کریں::
۔ڈاکٹر کو مطلع کریں اگر بچے کو پچھلے انجیکشن کے دوران یا کسی بھی دوائی سے الرجی ہو یا الرجک ریکشن ہواہو
۔اگر بچے کو ہیموفیلیا یا اس جیسی کوئی خون بہنے والی بیماری, پلٹلیٹس کی کمی ہو تو ڈاکٹر کو مطلع کریں، ایسی صورت میں پٹھوں کے انجیکشن لگوانے سے پٹھوں کے اندر خون نکل کر جم سکتا ہے انجیکشن لگواتے وقت جو چیزیں بہت اھم ہے انجیکشن لگانے کی جگہ ہے اور یہ بچے کی عمر اور پٹھوں کے سائز پر منحصر ہے
۔عام اصول یہ ہے کہ اٹھارہ ماہ سے کم عمر کے بچے کے لیے ران کا باہر والہ حصہ پر لگاٸیں
۔اٹھارہ مہینوں سے تین سال تک انجیکشن کندھےکے پٹھوں میں لگانا چاہئے اگر پٹھے کاسائز مناسب ہو ورنہ ران میں لگاٸیں
۔تین سال کے بعد سے کندھے کے پٹھوں میں انجکشن لگانا چاہیے پٹھوں کے انجیکشن کو کولہوں میں لگانے سے عام طور پر گریز کیا جاتا ہے کیونکہ اہم اعصابی نروز اور خون کی شریانیں اس جگہ سے گزرتی ہیں اور انجکشن انہیں نقصانپہنچاسکتا ہے۔ پٹھوں میں انجکشن لگوانے کے بعد کم از کم بیس منٹ تک ہسپتال میں رہیں تاکہ منفی ردعمل دیکھا جا سکے اور بروقت اس کا علاج کیا جا سکے
تمام والدین کو آگاہ کریں۔جزاك الله
بچوں کی صحت سے متعلق مستند معلومات کے لیے ہماری روزانہ کی بنیاد پر پوسٹس پڑھتے رہیں...
بچوں میں بہت سی بیماریاں موروثی اور جینیاتی ہوتی ہیں خاص طور پر بچوں میں دماغی امراض جیسے دماغ کا سکڑ جانا ,سی پی بچے یا پھر شدید مرگی کے متاثر بچے ۔
اس کی ایک اہم وجہ کزن میرج ہے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ کزن میرج صرف خالہ یا چچا کی طرف شادی نہیں ہوتی بلکہ اس میں سیکنڈ کزنز جو آپکے والدین کے فرسٹ کزنز ہیں انکے بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔
فیملی ہسٹری لیتے ہوئے اکثر لوگ کزنز میرج کی نسبت میاں بیوی کے بلڈ گروپ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر شوہر اور بیوی کا بلڈ گروپ مختلف ہو تو بچوں میں موروثی بیماری کی وجہ یہی ہے۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بلڈ گروپ کا مختلف ہونا کوئی موروثی بیماری نہیں پیدا کرتا ۔ صرف ایک بیماری ہے کہ اگر والد کا بلڈ گروپ پازیٹو اور ماں کا نیگیٹو بلڈ گروپ ہو جس میں نوزائیدہ بچے میں یرقان کا مسلہ ہو سکتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ماں کو ہر حمل کے دوران اوراگر بچے کا بلڈگروپ پازیٹو آے تو ڈیلیوری کے بعد 72 گھنٹے میں” اینٹی ڈی نامی“ انجکشن لگوانا چاہیے۔ میاں بیوی کے مختلف بلڈ گروپس کا اسکے علاو بچے کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
پیغام !! کزنز میرج پر کوٸ پابندی نہیں لیکن خاص کر اگر آپکے اپنے یا آپکے رشتہ داروں اور انکے بچوں میں کوٸ جنیاتی یا موروثی مرض ہے تو ضرور اس سے اجتناب کریں۔کچھ بیماریوں کے ٹیسٹ بھی کرواۓ جا سکتے ہیں جیسے کہ تھیلے سیمیا کی بیماری تو انکا شادی سے پہلے ٹیسٹ کروالیں۔
اللہ سب کو صحت مند اولاد سے نوازے اور ایسی پریشانیوں سے بچاۓ۔آمین
عام طور پر ھم سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ ڈاکٹر اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نو مو لود اور ایک سال سے چھوٹےبچے کو گا ئے کا دودھ بالکل نہ دیں , لیکن کبھی اسکی سائنسی وضا حت نہیں دی ۔ہمارے محلے میں تو سب لوگ بچوں کو گا ئے,بھینس ,یا بکری کا دودھ پلالتے ہیں ۔
جواب !!! سب سے پہلی بات یہ کہ گا ئےکا دودھ قدرت نے گا ئے کے بچھڑ ے کے لئے بنا یا ہے ۔ بچھڑے کی غذا کی ضرو ریات انسان کے بچے سےبا لکل مختلف ہیں ۔ گا ئے کے بچھڑے کا معدہ اور نظام ہضم انسان کے نا زک بے بی سے بالکل مختلف ہے ۔ جس طر ح ایک با لغ انسان گا ئے کی غذا ہضم نہں کر سکتا اسی طر ح بے بی کا معدہ بھی بچھڑ ے کا خوراک ہضم نہیں کر سکتا ۔اس لئے ما ں کا دودھ ایک نو مو لود بچےکے لئے بہتر ین غذا ہے ۔اگر ما ں کا دودھ کسی وجہ سے میسرنہیں ہے تو دوسرے نمبر پر فا رمو لا یا ڈبے کا دودھ ہے ۔اگر چہ ڈبے کا دودھ گا ئے کے دودھ سے ہی بنا یا جاتا ہے مگر اس کو ایک بہت پیچیدا طر یقہ سےگزار کر ما ں کےدودھ کے سا خت کے قریب ترکیا جا تا ہے ۔ اس کے علا وہ مندرجہ ذیل سا ئنسی وجو ھا ت پر غور کر یں ۔ گا ئے کے دودھ میں ائرن بہت کم مقدار میں ہے اور جس شکل میں ہےا میں بہت کم مقدار میں جذب ہو تا ہے۔ گا ئے کے دودھ میں پروٹین اورمنرل کی مقدر بہت زیا دہ ہے جوکہ نو مو لود بے بی کے گردوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ اور گائےکےدودوھ میں جو لیپڈ کی مختلف شکل مو جود ہے ۔وہ انسا نی بے بی کے لئے مو زوں نہیں ۔اور ایک انتہا ئی ہم چیز گائے کادودھ بہت ابتدائی عمر میں دینے سے کاو ملک الرجی کا رسک بہت بڑھ جا تا ہے ۔ جس سے بے بی کے آنت سے خون بہتا ہےجو بظا ہر پا خانے میں نظر نہیں آ تا 'مگر اگر ما ئیکرو سکوپ کے اندر دیکھیں تو یہ اوکلٹ بلڈ کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ اس سے نہ صرف آنت کو نقصآن ہو تا ہےبلکہ خون میں مو جو د رہا سہا ائرن بھی پا خا نے کے راستے ضا ئع ہو جا تا ہے ۔ اگر گا ئے کا دودھ پینے والا بچہ بظا ہر صحت مند نظر آ ئے تو اس ک یہ مطب یہ نہیں کہ اس کی ذہنی اور جسما نی صحت بہتر ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم ا س میں ائرن کی کمی ہے ۔اور ائرن ذہنی صحت اور ائی کیو کے لئے ضروری ہے ۔اور اس طرح ہی بھی اندازہ لگا نا اسان نہیں کہ بچے کے گر دوں پر کتنا بو جھ ہے -ایک اور چیز کی وضا حت ضروری ہے ۔ کیو نک بچھڑے کےلئے
جسامت کا جلد بڑھنا زیا دہ ضروری ہے ۔اس لئے قدرت نے گا ئے کے دودھ میں پر و ٹین ا ور منرل کی مقدار انسانی حد سے زیادہ رکھا ہے ۔انسان کے لئے پہلی ترجیح دماغ اور ذہنی صحت ہے اس لئے ماں کے دودھ میں سینکڑوں ایسے اجزا ہیں ۔جو دماغ کے نشو نما میں مددکرتے ہیں۔۔ ایک سال کی عمر میں بچے کا ہا ضمہ اورگردے اتنے میچو ر ہو تے ہیں کہ بے بی آرام سے گا ئے کا دودھ ہضم کرسکتا ہے ۔ ہمار ا کام بچو ں کی صحت کے بارے میں جدید سا ئنسی معلوما ت فرا ہم کرناہے۔
بچو ں کو جو بھی وا لدین پلا ئیں ان کی مر ضی ہے ۔ اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔آ مین ۔مزید کو ئی شکوک وشبہا ت ہو ں تو سوال ضرور بھیجے ۔
بچوں کی صحت سے متعلق مزید معلومات اور رہنماٸ کے لیے ہمارا پیج ضرور وزٹ کریں۔
ڈاکٹر نائلہ مجاہد
افضل چائلڈ کیئر کلینک کوٹلہ
Pakistan Pediatric Association Punjab
میں ایک ماہر اطفال ہونے کے ناطے بچوں میں نظر آنے والی ایک بہت ہی عام حالت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جسے پٹیریاسس البا (Pityriasis alba)کہتے ہیں جو چہرے پر سفید دھبوں کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بہت عام ہے اور 5 فیصد بچوں میں دیکھا جاتا ہے۔زیادہ تر چھے سے بارہ سال کے بچوں میں پایا جاتا ہے.یہ ایک جلد کی مکمل بے ضرر حالت ہے۔ اس کی صحیح وجہ کا طب میں ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے لیکن آسان الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جلد کی الرجی کی ایک قسم ہے۔ مہینوں کے اندر یہ بغیر کسی علاج کے خود ہی غائب ہو جاتا ہے۔ اس پر پوسٹ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اور نیم حکیم اس میں کیلشیم کا شربت بچوں کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی وجہ بچوں میں کیلشیم کی کمی ہے۔ نہیں، یہ بالکل غلط بات ہے اور کیلشیم کا اس حالت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیلشیم کے شربت آپ کے پیسے اور وقت کو ضائع کر دیں گے۔جسم میں بہت زیادہ کیلشیم کی مقدار ,مضر اثرات جیسے معدے کی خرابی، گردوں کی پتھری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
برائے مہربانی اس پیغام کو دوسرے تمام والدین کے ساتھ شیئر کریں تاکہ وہ اس قسم کے غلط علاج، پیسے , وقت کے ضیاع اور ادویات کے مضر اثرات سے بچ سکیں۔
جزاک اللہ اور دعاٶں میں یاد رکھیں...
تمام والدین کے لیے بہت اہم پوسٹ! براہ کرم اپنے پانچ منٹ نکالیں اور ان سلائیڈوں کو پڑھیں۔
اس پوسٹ میں ان تمام بیماریوں کے بارے میں بنیادی معلومات کا احاطہ کیا گیا ہے جن سے بچوں کو حکومت کی جانب سے مفت فراہم کی جانے والی ویکسین کے انجیکشن سے بچایاجا سکتا ہے،
نیز ویکسین کب اور کیسے لگائیں اور اس کے بارے میں تمام تفصیلات عام آدمی کی زبان میں بیان کی گئی ہیں۔ دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔ جزاک اللہ
بچوں کی مساٸل سے متعلق رہنماٸ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ھمارے معلوماتی پیغام پیج پر پڑھتے رہیں ۔
ڈاکٹر نائلہ مجاہد
چاٸلڈ اسپیشلیسٹ
بچوں کی ویکسینز کے حوالے سے ان ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ضرور ملاحظہ فرمائیں اور اپنے بچوں کی زندگی کو بیماریوں سے محفوظ بنائیں۔ شکریہ۔
بچوں میں دانتوں کی صفاٸ اور اسکے بنیادی اصول.....
بچوں کی مساٸل سے متعلق رہنماٸ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ھمارے معلوماتی پیغام پیج پر پڑھتے رہیں
ڈاکٹر نائلہ مجاہد
چاٸلڈ اسپیشلیسٹ۔
بہت سے والدین کی طرف سے پوچھا جانے والا ایک بہت عام سوال یہ ہے کہ ھم اپنے چھوٹے بچے کو ٹھوس غذائیں کیسے شروع کروائیں!!!
نئے والدین کے لیے خاص طور پر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہوتا ہے اور وہ کافی الجھن میں پڑ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں دودھ سے ٹھوس غزاٶں کی منتقلی میں تاخیر ہو جاتی ہے ۔اسکا نتیجہ بچوں کےمساٸل جیسے خون کی کمی، قبض اور مکمل طور پر دودھ پر انحصارکی صورت میں ہوتا ہے۔
اس تحریر میں ہم بچے کو دودھ سے ٹھوس غزا پر منتقل کرنے کے بنیادی اصولوں پر بات کریں گے۔
چھے ماہ کی عمر پرآپ اپنے بچے کو ٹھوس غزا شروع کروا سکتے ہیں۔
کھانے کے لیے جو چیزیں دی جاسکتی ہیں ان میں انڈہ، دہی، پھل جیسے سیب کیلا، ابلا ہوا آلو، چاول کی کھیر، دال کھچڑی، ابلی ہوئی سبزیاں جیسے گاجر، گوشت کاقیمہ اور یخنی شامل ہیں ۔
غزا کوشروع میں گاڑھی لیٹی کی شکل میں بنا کر دیا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اسکا ٹھوس پن بڑھایاجاتا ہے ۔
ٹھوس غزا دن میں چار بار دو سے تین چمچ دے کر شروع کریں۔
چینی نہ ڈالیں۔
نمک نہ ڈالیں۔
آپ ضرورت کے مطابق دودھ اور گھی/آٸل ڈال سکتے ہیں۔
بچے میں ٹھوس غزا کھانے کی مقدار زیادہ کم ہو سکتی ہے لہذا اگر بچے ایک یا دو دن ٹھوس غذا لیناکم کر دیتے ہیں تو پریشان نہ ہوں۔
بچوں میں پیٹ بھرجانے کی علامات منہ بند کرلینا اور کھانے سے منہ موڑنا ہیں,زبردستی ہرگز نہ کریں۔
مختلف کھانے کی چیزیں دیں تاکہ بچہ کا ذائقہ وسیع ہو۔
بچے کو خود کھانے دیں, کرسی پر بٹھاٸیں اور سامنے کھانا پیش کر کے اپنی مرضی کرنے دیں۔
پانی چھ ماہ کی عمر کے بعد دیا جا سکتا ہے لیکن چھ اونس یا سو بیس ملی لیٹر سے زیادہ نہ دیں۔
شروع میں ٹھوس چیزیں دیتے وقت بچہ نکالے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لینا شروع کر دے گا اس لیے صبر سے کام لیں۔
بچوں کی مساٸل سے متعلق رہنماٸ کے لیے روزانہ کی بنیادی پر ھمارے معلوماتی پیغام پڑھتے رہیں ۔
امرود میں موجود وٹامنز ہماری آنکھوں کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں.
امرود کے فوائد کی بات کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ امرود اپنے اندر حیرت انگیز فائدے رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف ہمیں بیماریوں سے حفاظت فراہم کرتا ہے بلکہ امرود میں موجود وٹامنز ہماری آنکھوں کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں اور یہ قبض جیسی بیماری سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔یہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریضوں کے لئے بے حد فائدہ مند ہوتا ہے۔ ہم اسے اپنی خوراک کا حصہ بناکر ان بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
۔ 1 امرود کے صحت سے متعلق فوائد
امرود ہمیں کن کن بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں؛
۔ 1 قوت مدافعت بڑھائیں
امرود وٹامن سی سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ بھوک کو بڑھاتا ہے۔ وٹامن سی ہمارے جسم کے عام انفیکشن سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔اس کے علاوہ وٹامن سی آنکھوں کی روشنی کے لئے بھی اچھا ہوتا ہے۔
۔ 2 ذیابیطس سے بچاتا ہے
۔1 امرود میں فائبر اعلی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔جو ذیابیطس کی نشوونما کو روکتا ہے۔
۔ 2 فائبر بلڈشوگر کی سطح کو تیزی سے کنٹرول کرتا ہے۔
۔ 3 امرود کا استعمال دل کی صحت کے لئے
امرود میں اعلی مقدار میں سوڈیم اور پوٹاشیم موجود ہوتا ہے۔ یہ ہائی بلڈپریشر کو متوازن بنانے اور کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔ امرود کولیسٹرول کی سطح کو کم کرتا ہے جو دل کی بیماری کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ تاہم یہ پھل دل کی صحت کے لئے بہت مفید ہے۔
۔ 4 امرود کا استعمال قبض کے لیے
امرود میں غذائی ریشہ موجود ہوتا ہے۔ یہ ہمارے ہاضمے کو بہتر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ قبض کو دور کرتا ہے اور ہمارے معدے کے مسائل کو حل کرتا ہے۔
۔ 5 امرود کا استعمال آنکھوں کے لئے
امرود میں وٹامن اے موجود ہوتا ہے۔ یہ انکھوں کی روشنی کے لئے بہت مفید ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف آنکھوں کی روشنی کو بہتر بناتا ہے بلکہ موتیا سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
۔ 6 امرود کا استعمال تناؤ سے نجات کے لیے
امرود میں میگنیشیم بھی پایا جاتا ہے جو ہمارے اعصابی نظام اور پٹھوں کے لئے مفید ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سخت کام یا ورزش کے بعد ایک امرود کا استعمال کرنا چاہیےتاکہ آپ کے اعصابی نظام کو مدد مل سکے۔
۔ 7 امرود کا استعمال حمل میں
اس میں فولک ایسڈ اور وٹامن بی 9 موجود ہوتا ہے۔ حاملہ خواتین کو یہ کھانے کو کہا جاتا ہے۔ یہ بچے کی اعصابی نظام کی نشوونما میں مدد کرتا ہے۔
۔ 8 امرود کا استعمال دانتوں کے لئے
امرود اینٹی بیکٹریل اور اینٹی سوزش خصوصیات رکھتے ہیں۔ یہ انفیکشن سے لڑتے ہیں۔ جو لوگ امرود کے پتوں کو چباتے ہیں وہ درد سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ اس سے سوجن اور مسوڑھوں کو آرام ملتا ہے۔
۔ 9 امرود کا استعمال کھانسی میں
دوسرے پھلوں کے مقابلے میں امرود میں وٹامن سی اور آئرن بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔ یہ وائرل انفیکشن سے بچنے اور نزلہ کھانسی کے لئے مفید ہیں۔ یہ بلغم سے چھٹکارا پانے میں مدد کرتا ہے
۔ 10 امرود کا استعمال وزن میں کمی
امرود وزن میں کمی کے لئے بھی مفید ہے۔یہ کولیسٹرول کی سطح کو بھی کم کرتا ہے۔ امرود میں کم کیلوریز ہوتی ہیں یہ دیگر کم کیلوری والے اسنیکس کے جگہ، وٹامنز اور معدنیات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں. اس لیے آپ پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ وزن میں کمی کے لیے بھی استعمال کریں۔
امرود ناقابل یقین حد تک مزیدار اور غذائی اجزاء سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ پھل کیلوری میں کم ہوتا ہے، فائبر سے بھرا ہوا ہے، اور صحت مند غذا میں ایک بہترین اضافہ بھی ہے...
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the practice
Telephone
Website
Address
Azad Kashmir
50990
Opening Hours
Monday | 10:00 - 15:00 |
18:00 - 21:00 | |
Tuesday | 10:00 - 15:00 |
18:00 - 21:00 | |
Wednesday | 10:00 - 15:00 |
18:00 - 21:00 | |
Thursday | 10:00 - 15:00 |
18:00 - 21:00 | |
Friday | 10:00 - 15:00 |
18:00 - 21:00 | |
Saturday | 10:00 - 15:00 |
18:00 - 21:00 | |
Sunday | 10:00 - 15:00 |
18:00 - 21:00 |
Barnala Azad Kashmir
Azad Kashmir
medical information and health tips
Mirpur Azad Kashmir
Azad Kashmir, 05827
nursing home services mirpur azad Kashmir
Umeed Clinic Kothi Morr Bhimber Azad Kashmir
Azad Kashmir, 10040
Health care with Homeopathy
Bagh Azad Kashmir
Azad Kashmir
وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُۖ❤ RAJA USAMA🔥 ❤🌸Calligraphy
Azam Eye Care Kothimor Bhimber Azad Kashmir Opposite To Habib Metro Bank
Azad Kashmir
Vision specialist Strabismus specialist Low vision specialist Diagnosis of ocular complication
Dhirkot Azad Kashmir
Azad Kashmir
Khan Dental clinic and lab near Dar kot main bazar azad kashmir dental X-ray available