Uchripk
media adults, entertainment web, recipes and much more
Parveen shakir best poetry
Parveen shakir nice ghazal
23 مارچ کو جہازوں سے جو دُھواں نکالا گیا تھا
وہ اس مہینے پیٹرول،گیس اور بجلی کے بلوں میں
عوام سے ہی نکالا جائے گا 🥴
پاکستانی پاسپورٹ کا شمار دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹوں میں ہوتا ہے اور اکثر پاکستانیوں کو اپنے ہاں آنے کے لیے کڑی شرائط کے بعد ویزا دیتے ہیں۔ کیا ہم بھی کبھی ترقی کریں گے
کون جیتے گا میچ
ھو جائے مقابلہ
Has Usman Dar made the right decision in the current situation?
Proud Of Pakistan
“I promised to marry her when she was cured of cancer”
https://uchripk.com/gemini-download-now-uchripk/
“I promised to marry her when she was cured of cancer, they gave us the bad news that she had only a few months to live, we planned everything in just 20 days, we got married ... It was the most beautiful day of my life to see her smile despite everything. A week later my wife passed away and this is the photo that always lifts my spirits.” More Detail
https://uchripk.com/gemini-download-now-uchripk/
#کشمیر
اسپیشل کشمیر ڈے پر میری پرانی تحریر
عالمی اردو فکشن
علامتی و تجریدی افسانہ نشست 2019
افسانہ : 2
مصنف :بابا جیونا ۔حاصل پور
بینر : عبدالباسط
~~~ لبنی کی آنکھیں زندہ ہیں ~~~
ہر طرف دکھ پریشانی اور مایوسیوں کے سائے تھے۔ رات کی تاریکی میں گاؤں کی گلیوں میں اچانک شیطانی طاقتوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ بے شک اس فرعونیت اور کفر کے حملے کی سرپنچ کو کچھ کچھ خبر تھی مگر اکیلا گاؤں کا سرپنچ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پایا تھا اور ایک دن روئے زمین پر مالک دوجہان کی طرف سے بنائی گئے جنت نظیر گاؤں پر شیطانی قوتوں نے خود کو زمینی خدا سمجھنے والوں کی آشیرباد سے دھاوا بول دیا۔ اس شیطانی فوج میں کچھ بھیڑیے سور اور لگڑ بگڑ بھی شامل تھے جو رات کی تاریکی میں گاؤں کے گھروں میں گھس کر کہنہ بوسیدہ لکڑی کے تختوں کی اوٹ میں حجاب اور برقعے لپیٹے اپنی عصمت لتٹ جانے کے ڈر سے چھپی فاختاؤں جیسی نوعمر دوشیزاؤں کو نوچ ڈالتے۔
گاؤں کی پاکیزہ روحیں متبرک صافوں سے اپنے سرڈھانپے، سبز پیلیے چولے پہنے سہم کر فانی اجسام کے تہہ خانوں میں سر چھپائے مصلوں پر بیٹھی اللہ کو صدائیں دے رہی تھیں۔ رات کا گہرا اندھیرا اور آسمان میں ٹھاٹھیں مارتا کسی ساحرہ کے طلسم جیسا جادوئی سناٹا پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔ ہر طرف گہرے سبز پیڑوں اور درختوں کی شاخیں تیز ہواؤں سے خاموشی کا سینہ چیر کر کسی مسیحاء کو آوازیں دے رہی تھیں۔
ایسا محسوس ہوتا تھا یہ تیز ہوائیں درختوں کی ٹہنیوں کو کھینچ کھینچ کر زمین پر لٹادینے کی کوشش میں ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ٹھنڈی سرد ہوائیں سینہ تان کر کھڑے درختوں سے کہہ رہی ہوں بستی کے مردوں کی طرح تمھیں بھی شیطانی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہیئیں۔ پہاڑوں پر اگے چھوٹے چھوٹے معصوم پھول، پودے رنگ برنگی بیلیں اور کچنار کی کچی کلیاں مرجھا کر گاؤں کے قبرستان میں بکھرے خزاں آلود پتوں کے ساتھ زندگی کی آخری ہچکیاں بھر رہی تھیں۔
شیرخوار اپنی ماؤں کے بنجر کلیجوں سے لپٹ کر دور افق پر ڈھلتے شام کے سورج کے زرد رنگوں کی طرح انجان سے اندھیرں کی نذر ہو چلے تھے۔ گاؤں کا سرپنچ اپنی کچی کٹیا کی چھت پر کھڑا شہر کی طرف رخ کرکے چیخ چیخ کرشہر کی رنگین روشنیوں میں محو لطف و سرور ومستی کچھ لونڈوں کو مدد کے لیے پکار کر گاؤں میں ہونے والے بھیڑیوں کے حملے سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا۔ دیے کی مدھم روشنی میں بند دروازے پہ نظریں جمائے لبنیٰ اپنے گیارہ ماہ کے اکلوتے بچے کو بھوک پیاس افسردگی اور انجانے ڈر سے سکڑتی خشک چھاتی سے دودھ کی کچھ بوندیں نچوڑ کر پلانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
تین دن پہلے جمیل اپنی بیوی کی پیشانی پہ آخری بوسہ دے کر لٹھ پکڑے گلی میں دندنانے بھیڑیوں اور شیطانوں کو اپنے گاؤں سے نکالنے گیا تھا اور لوٹ کر نہ آیا۔ ذرا سی ہوا دروانے کے کواڑ ہلاتی تو لبنیٰ جمیل کے لوٹ آنے کی امید لیے دروازے کو تکنے لگتی۔ آخر کار لبنیٰ کی آنکھوں سے امید کے بادل ہٹنا شروع ہوگئے۔ اب لبنیٰ صرف اپنے شوہر کی لاش پر ماتم کرنا چاہتی تھی وہ جمیل کو اپنی آنکھوں کے سامنے کفن دے کر قبر کا پیٹ بھرنا چاہتی تھی۔
لبنیٰ جمیل کا آخری دیدار کرنا چاہتی۔ اس گھبراہٹ اور گھٹن کے ماحول میں جب لبنیٰ نے دیکھا کہ اس کی گود میں لیٹے معصوم کے رونے اور ہچکیوں کی آواز آنا بند ہوگئی ہے تو وہ اور ڈر گئی اس نے اپنے بچے کے گال تھپتھپائے بخار کمزوری اور نقاہت سے بلبلاتے بچے کی آنکھوں کی پتلیاں بھی سفید ہونے لگیں۔ تھرما میٹر میں اترتے پارے کی طرح بچے کا رنگ سرخ سے زردی مائل ہونے لگا۔ رات کے اس پہر اکیلی لبنیٰ کبھی آسمان کی طرف دیکھتی اور کبھی دروازے کی طرف جمیل کے چلے جانے کے بعد لبنیٰ نے تین دن بنا کچھ کھائے پیے اسی ایک جگہ بیٹھ کر گزار دیے تھے۔
آخر کار لبنیٰ نے گھر سے باہر نکلنے کا فیصلہ۔ وہ اپنی گود میں دم توڑتے اپنے اکلوتے بچے کو لے کر دروازے کی طرف بڑھی جیسے ہی اس نے گھر کے باہر قدم رکھا تو گلی کے مکانوں کی چھتوں پر لشکر کفر کے گدھ پر پھیلائے انسانی گھروں کے مقفل دروازوں پہ تاک لگائے بیٹھے تھے۔ ہر گھر کے بند دروازے پر فرعونی بھیڑیے سور اور لگڑ بگڑ ہاتھوں میں ترشول، تیر، بھالے اور نیزے پکڑے بدبودار لباس میں کھڑے منہ سے آگ کے گولے نکال رہے تھے۔
لبنیٰ کی سہیلی نسرین کے گھر کو لگائی گئی آگ سے آسمانوں کی طرف اٹھنے والے دھویں کے سیاہ بادل آسمانوں میں بیٹھے سب کے پروردگار سے شکایت کرنے میں مصروف تھے۔ گلی میں ہو کا عالم تھا۔ پتہ نہیں کس گھر میں کون زندہ تھا کرفیو لگے کو آج پچاس دن ہو چلے تھے۔ کسی کے زندہ بچ رہنے کا خیال بھی دیوانے کے خواب جیسا تھا۔ لبنیٰ رونا چاہتی تھی مگر درد پریشانی اور محرومی نے صبر کی شکل کی اختیار کر لی تھی۔ لبنیٰ کو بس اپنے شیر خوار بچے کی فکر لاحق تھی۔
وہ ہر قیمت پر اپنے بچے کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی۔ مگر گاؤں کے سبھی دروازے بند تھے۔ سرپنچ کے گھر کی طرف چند قدم چلنے کے بعد لبنیٰ سہم گئی جب ایک بھیڑیے نے پیچھے سے لبنیٰ کا دوپٹہ پکڑ کر کھینچا۔ خونخوار بھیڑیے کے نتھنوں سے نکلتی گرم ہوا لبنیٰ کی پیشانی پہ منڈلاتے ننگے بالوں کو چھیڑا۔ لبنیٰ ڈری نہیں بلکہ اس نے اس وحشی کے منہ پر تھوک دیا۔ غصے سے بھیڑیے کے منہ سے لعاب بہنے لگا اس کی آنکھیں دوزخ کی حامیہ آگ کی طرح انگارے برسانے لگیں۔
شیطانی لشکر کا بھیڑیا لبنیٰ کو بالوں سے پکڑ کر گاؤں کی پتھریلی زمین پہ گھسیٹنے لگا لبنیٰ کے بدن سے رسنے والا لہو چھوٹے چھوٹے پتھروں پہ ملمع کاری کرتے ہوئے ڈھلوان کی طرف بہنے لگا گویا قربانی پہ کسی انجان قصاب نے بڑا جانور زبح کردیا ہو۔ یا کسی جزیرے میں دریا کنارے پیاس بجھانے آئی ہرن مگر مچھ کی شکنجے میں جا پھنسی ہو۔ شکار کو دیکھ کر دو لگڑ بگڑ اور سور بھی اس طرف آنکلے۔ لبنیٰ کا شیرخوار کنکروں پہ ایڑھیاں رگڑ رہا تھا۔
لبنی تکلیف سے بے نیاز اپنے بچے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ لنبی کی چھاتی سے دودھ کی جگہ خون بہنے لگا لبنی کے جسم کے کس حصے کو کس جانور نے نوچ کر بھوک مٹائی لبنی کو کچھ پتہ نہ تھا۔ کوئی لبنیٰ کا منہ نوچ کر لے گیا، کوئی ٹانگ، کسی نے گردن میں دانت گاڑھ دیے کسی نے کولہے اور خون آلود چھاتی پر اپنے ناخن پیوست کردیے لبنیٰ کی کی کھلی آنکھوں کے علاوہ تمام جسم بے جان تھا وہ مر چکی تھی مگر اس کی آنکھیں اپنے بچے کو دیکھ رہی تھیں۔
ادھر انسانی دنیا کی سب سے مہذب سمجھی جانے والی بیٹھک جاری تھی۔ لبنیٰ کے خاندان کی دوسری بستیوں میں شیطان کو بہترین حاکم تسلیم کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ لبنی کے تین بھائیوں کے علاوہ باقی بستیوں نے شیطان کے شہر کو دنیا کی سب سے بڑی کاروباری منڈی کہہ کر اپنی اپنی مجبوریاں بیان کر دیں تھیں۔ لبنیٰ کا ایک بھائی چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتا رہا تھا یہ شیطان ہے یہ صرف ایک گاؤں کو نہیں پوری دنیا کو جہنم بنا دینا چاہتا ہے۔
وہ تنہا لبنیٰ کے باقی خاندان، ہمسائیوں اور سپر پاورز کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا ہمارے گاؤں سے شیطانی افواج کو نکالو۔ میرے گاؤں میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ عورتوں کی عصمت لٹ رہی ہے۔ میرے گاؤں میں کھانا نہیں ادویات نہیں۔ پچاس دن سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ رابطے کا کوئی نظام باقی نہیں رہا ڈاک خانے جلا دیے گئے انٹرنیٹ اور باقی مواصلاتی نظام درہم برہم کردیا گیا۔ اگر لڑائی ہوئی تو یہ دنیا کی بھیانک ترین لڑائی ہوگی۔
صرف میرے گاؤں کو ہی نہیں پوری دنیا کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میں اللہ اور اللہ کے رسول کا ماننے والا اور موت کو برحق سمجھنے والا سچا مسلمان ہو ں اگر میں اکیلا لڑوں گا تو یاد رکھنا میں خون کے آخری قطرے اور آخری گولی تک لڑوں گا۔ دنیا کی سب سے بڑی کاروباری منڈی کو ڈھونڈتے رہ جاؤ گے۔ میں تمھارے اس کاروباری شہنشاہ کو انسانی کھوپڑیوں پر کھڑا ہوکر انسانی گوشت کا کاروبار یا حکومت نہیں کرنے دوں گا.
عمران خان کو کیوں فوراً ہٹایا گیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
انگریزی تحریر : جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال . اردو ترجمہ : احمد عزیر
میں آپ کو بتاؤں کہ عمران خان نے ایسا کیا جُرم کیا کہ امریکہ کو اُسے فوراً اسکے عہدے سے ہٹانا پڑا اور اگر امریکہ ایسا نہ کرتا تو اسے کس قسم کے نقصانات اٹھانے پڑ سکتے تھے۔
اس کو سمجھنے کے لیے پہلے دو تصورات کا احاطہ کرتے ہیں۔
1) پیٹرو ڈالر کیا ہے؟ یہ 1974 میں شاہ فیصل اور صدر نکسن کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔
اس معاہدے کے تحت سعودی عرب ذمہ داری یہ تھی کہ اوپیک کے تمام ممالک کو تیل امریکی ڈالر میں فروخت کرنے پر راضی کرے اور کوئی دوسری کرنسی یا سونا قبول نہ کرے۔ فروخت سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی امریکی بینکوں یا فیڈرل ریزرو میں جمع کی جائے گی جس سے USD کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کو تیل خریدنے کے لیے پہلے USD خریدنا پڑتا ہے اور یہ انتظام USD کو مضبوط رکھتا ہے۔
بدلے میں سعودی کرنسی ایک ڈالر = 3.75 ریال مقرر کی گئی تھی، سعودی معیشت کی حالت جیسی بھی ہو امریکی ڈالر اور ریال کی شرح یہی رہے گی اور یہی وجہ ہے کہ آج 48 سال بعد ہی ایک ڈالر , تین اعشاریہ پچھتر ریال کے برابر ہے۔ دوسرا امریکہ نے گارنٹی دی کہ آل سعود اقتدار میں رہے گا، حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
امریکہ کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا تھی کہ اوپیک ممالک میں سے کوئی بھی اس معاہدے سے کسی صورت بھی باہر نہ نکلے۔ عراق اور لیبیا نے بغاوت کی اور ہم سب جانتے ہیں ان کی حالت کیا ہوئی۔
2) 1953 میں ہندوستان اور سوویت یونین (روس) کے درمیان ہندوستانی روپیہ-روبل تجارت کا معاہدہ ہوا۔
جس کے تحت روس سے ہندوستانی خریداری کے لیے وہ ہندوستانی روپے میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے ہندوستانی روپے کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا اور کرنسی مضبوط رہے گی -
دوئم ہندوستان سے روسی خریداری کے لیے روسی روبل میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے روبل کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی مضبوط رہتی ہے۔
ایک ہندوستانی بینک روس میں ایک شاخ کھولے گا اور روس کا ایک بینک تجارت کی سہولت کے لیے ہندوستان میں ایک شاخ کھولے گا - یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ معاہدہ 1953 میں ہوا تھا جو 1974 میں پیٹرو ڈالر کے معاہدے سے پہلے ہوا تھا۔
عمران خان پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے جنہوں نے 2019 میں پاکستانی روپے اور چینی یوآن میں لین دین کا چین سے معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں سیمی کنڈکٹر، ٹرانسفارمرز، نشریاتی آلات اور الیکٹرونکس آلات شامل تھے۔ اگرچہ امریکہ اس سے خوش نہیں تھا، لیکن وہ چپ رہا کیونکہ اس میں تیل کا لین دین شامل نہیں تھا۔
عمران خان نے 2022 میں تیل کے لیے پاکستانی روپے اور روسی روبل کا معاہدہ کرنے کے بالکل قریب تھا۔
یاد رکھیں پیٹرو ڈالر کا معاہدہ 1974 کا ہے۔ اور امریکہ پاکستان کے اس معاہدے کو کبھی قبول نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اگر دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کرتے ہیں تو USD کمزور ہو جائے گا اور امریکی معیشت میں گراوٹ آجائے گی اور وہ مزید سپر پاور نہیں رہے گا۔
اگر عمران خان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو اگلے الیکشن ہارنے کی قیمت پر بھی پاکستان امریکی غلامی سے نکل آتا اسی لئے امریکہ کو اسے فوری طور پر ہٹانا پڑا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
عمران خان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ابھی تک صدام حسین اور معمر قذافی کے پاس نہیں پہنچا جس کی حتی المقدور کوششیں جاری ہیں.
اگر عمران خان دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوتا ہے اور اپنی دوسری مدت میں وہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو روپے کی یہ مسلسل قدر میں کمی رک جائے گی .
پاکستان IMF کو ادائیگی کرنا شروع کر دے گا اور تبادلوں کی شرح بحال ہو جائے گی اور پاکستان دو سے تین سال میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکے گا۔
سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر حب الوطنی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے سوچیں.
بریکنگ
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد گرفتار
پنجاب پولیس نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو گرفتار کر لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کو گرفتار کرکے اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہےتاہم انھیں کہاں سے گرفتار کیا گیا ہے اس بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔
گرفتاری کے بعد نجی ٹی سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا کہ ’100-200 لوگ سیڑھیاں لگا کر دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئے ہیں اور بدتمیزی کی ہے، تمام ملازمین کو مارا ہے اور مجھے زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے آئے ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ آج ہی میاں طاہر نے میری ضمانت لی۔ شیخ رشید نے الزام لگایا کہ ’یہ سب کچھ مسلم لیگ ن اور رانا ثنا اللہ کے کہنے پر ہو رہا ہے۔‘
یاد رہے شیخ رشید احمد کے خلاف پی پی راولپنڈی کے ڈویژنل صدر راجہ عنایت الرحمان نے مقدمہ درج کروایا تھا۔
انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیل کی دوسری بڑی بندرگاہ خرید لی ہے اوراسرائیلی وزیر اعظم نے اس سودے کو اسرائیل و انڈیا کے لیے ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا جبکہ گوتم اڈانی کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل میں مزید سرمایہ کاری کریں گے۔
یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اڈانی گروپ کو مشکلات کا سامنا ہے اور دنیا میں سرمایہ کاری پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی ’ہنڈن برگ‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایشیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں اڈانی گروپ کا نام نیچے آ گیا ہے۔
اسی لیے اڈانی گروپ کی جانب سے اسرائیل کے سب سے بڑے تفریحی مقام اور دوسری بڑی تجارتی بندرگاہ کی خریداری پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ اڈانی گروپ اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ گزشتہ عشرے میں اسرائیل میں کسی بھی غیر ملکی کمپنی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔
اڈانی گروپ دنیا میں بندرگاہیں بنانے اور ان کا نظم و نسق چلانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اسرائیل کی اس بڑی بندرگاہ کو پٹّے پر دینے کے لیے ٹینڈر گذشتہ برس جولائی میں کھلے تھے اور اس مقابلے میں اڈانی گروپ اور سپیشل اکنامک زون لمیٹڈ اوّل قرار پائے تھے۔
اس لیز یا پٹّے کی معیاد سنہ 2054 تک ہے۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی بندرگاہ کی آمدن میں 70 فیصد حصہ اڈانی گروپ کا ہوگا جبکہ اس کی 30 فیصد ملکیت اسرائیلی کمپنی، گودات کے پاس ہو گی۔
حالیہ معاہدے کے حوالے سے اسرائیلی اخبار ہاریٹز میں گذشتہ جولائی میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹینڈر جیتنے کے لیے اڈانی گروپ نے جو پیشکش کی تھی، کوئی بھی دوسری کمپنی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
اس مضمون کے مطابق ’حائفہ کی بندرگاہ کو پٹًے پر لینے کے لیے اڈانی گروپ دو سال سے کوشش کر رہا تھا اور جب اس گروپ نے بولی لگائی تو یہ دوسرے نمبر پر آنے والی بولی سے 55 فیصد زیادہ تھی۔ اسرائیل کا اندازہ تھا کہ یہ سودا 870 ملین ڈالر تک کا ہوگا، لیکن اڈانی گروپ نے ایک اعشاریہ 18 ارب ڈالر کی پیشکش کر دی جو کہ اسرائیلی حکومت کے اندازوں سے کہیں زیادہ تھی۔‘
جب اسرائیلی کمپنیوں کو معلوم ہوا کہ اڈانی گروپ نے اتنی بڑی سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی ہے تو انھوں نے اپنے ٹینڈر واپس لے لیے۔
اخبار کا مزید کہنا تھا کہ اڈانی گروپ کی جانب سے اتنی غیر متوقع پیشکش سے واضح ہو گیا تھا کہ گوتم اڈانی کی نظر میں یہ محض ایک تجارتی معاہدہ نہیں تھا بلکہ وہ اس سرمایہ کاری کو اسرائیل اور انڈیا کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بندرگاہ کی فوجی اہمیت کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔
اسرائیل میں مقیم انڈین صحافی ہریندر مشرا کے مطابق ’ یہ کوئی معمولی (کاروباری) معاہدہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سٹریٹیجِک فیصلہ ہے۔ مسٹر اڈانی کی پیشکش اتنی بڑی تھی کہ اسرائیلی کمپنیاں اور خود اسرائیلی حکومت حیران ہو گئی تھی کیونکہ اس بندرگاہ کی حالت بہت خراب ہے۔ نہ صرف سہولیات اور یہاں پر موجود تعمیراتی ڈھانچہ بلکہ انتظامی اعتبار سے بھی اس بندرگاہ کی حالت غیر ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھیں تو (آپ کو لگتا ہے کہ) اڈانی گروپ کی طرف سے اتنی بڑی پیشکش کے پیچھے کوئی بڑی وجہ موجود ہے۔ بندرگاہ پر ابھی تک کام ہو رہا ہے۔‘
انڈیا کی مختلف بندرگاہوں پر 13 ٹرمینل کا نظم و نسق اڈانی گروپ کے پاس ہے اور ملک کی کل تجارتی آمدن میں اس گروپ کا حصہ 24 فیصد ہے۔
مغربی ممالک میں اڈانی پورٹ کی کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔
اس تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی حائفہ بندرگاہ میں اڈانی گروپ کی سرمایہ کاری سے ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا اور اڈانی گروپ بحیرہ روم کے ممالک میں تجارتی اعتبار سے ایک بڑا ایشیائی کھلاڑی بن جائے گا۔
گذشتہ برس جب یہ معاہدہ طے پایا تھا تو گوتم اڈانی نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’یہ معاہدہ سفارتی اور تجارتی اہمیت کا حامل ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں حائفہ میں موجود ہوں، اس مقام پر جہاں سنہ 1918 میں انڈیا کی گھڑ سوار فوجوں نے عسکری تاریخ کی سب سے بڑی مہم کی سربراہی کی تھی۔‘
14 جولائی کو جب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کے دورے پر تھے تو اس وقت ایک غیر متوقع سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جو سفارتی دنیا میں ایک بہت بڑا قدم تھا۔
اس سربراہی کانفرنس میں جو بائیڈن ، اسرائیلی وزیر اعظم ، نریندر مودی اور متحدہ عرب امارات کے حکمران محمد بن زائد نے شرکت کی تھی۔
اس کانفرنس کا مقصد امریکہ، اسرائیل، انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے مابین تجارت کو فروغ دینا تھا۔ اس کانفرنس کو چین، ایران اور پاکستان کے درمیان قائم ہونے والے اتحاد کے مقابل اتحاد کے طور پر بھی دیکھا گیا۔
کانفرنس کے نتائج بھی جلد ہی سامنے آنا شروع ہو گئے اور جس دن یہ کانفرنس منعقد ہوئی اسی روز گوتم اڈانی نے حائفہ بندرگاہ کی نجکاری کی پیشکش قبول کر لی تھی۔
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ ’ اس بندرگاہ کی نجکاری کا سودا مسٹر اڈانی نے اسی روز کر لیا تھا جس روز ان چار ممالک نے یہ کانفرنس منعقد کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے کے لیے امریکہ کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا تھا کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی چینی کمپنی اس بندرگاہ کا سودا کر لے۔‘
جولائی سنہ 2019 میں حائفہ کے نزدیک واقع ایک اور بندرگاہ چین نے 25 سال کے پٹّے پر حاصل کر لی تھی۔ چونکہ امریکہ اسرائیل کا بہت بڑا اتحادی ہے، اسی لیے چین کی اس سرمایہ کاری پر امریکی انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی تھی۔
امریکہ کو خوف تھا کہ افریقہ اور مشرقی ایشا کے ممالک کے بعد چین اسرائیل میں بھی اپنی موجودگی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ قومی سلامتی کے امور میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کو اسرائیل کی طرف سے ہمیشہ تعاون حاصل رہا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی اور گوتم اڈانی
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ حائفہ کی بندرگاہ کے ’معاہدے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے کیونکہ امریکہ چین کو (اسرائیل میں سرمایہ کاری) کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتا۔ امریکہ اسرائیل پر مسلسل دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ چین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرے۔ لیکن اس کے جواب میں اسرائیل کا کہنا تھا کہ اگر ٹینڈر طلب کیے جانے کے وقت کوئی اور کمپنی آگے نہیں آتی تو سودا اس (چینی) کمپنی کے ساتھ ہو جائے گا جس نے ٹینڈر جمع کر دیا ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ نے یہ یقینی بنایا کہ جو بھی ہو جائے یہ بندرگاہ چین کے ہاتھ میں نہیں جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ انڈیا اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، اس لیے اسرائیل میں چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ انڈیا کے لیے بھی پریشانی کا باعث تھا۔
اسرائیل میں عشرے کی سب سے بڑی سرمایہ کاری
اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اڈانی گروپ کے ساتھ معاہدہ اسرائیل میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی سب سے بڑی مثال ہے۔
حائفہ کی بندرگاہ کا محل وقوع عسکری اعتبار سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ بندرگاہ بحیرہ روم میں ایشیا اور یورپ کے مشترکہ مفادات کا ایک بڑا مرکز ثابت ہو سکتی ہے۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حائفہ کی بندرگاہ کے فعال ہو جانے کے بعد سوئز کینال کی اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔
ہریندر مشرا کے مطابق اس بندرگاہ پر ’انڈیا کی آمد اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اگر اس بندرگاہ کو اس خطے کا مرکز بننا ہے تو اسرائیل کا اپنے پڑوسی ممالک (لبنان، اردن اور شام) کے ساتھ تعاون میں بھی اضافہ ہو گا۔ ان ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں، لیکن اگر انڈیا اس بندرگاہ کے منصوبے میں شامل ہو جاتا ہے تو اسرائیل کے ہمسایہ ممالک کو قریب لانا زیادہ آسان ہو جائے گا۔‘
کہا جا رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں اڈانی گروپ یہاں ریل کی پٹری بھی بچھائے گا جس کے بعد اردن کے راستے حائفہ اور سعودی عرب بھی ریلوے کے ذریعے آپس میں منسلک ہو جائیں گے۔
اسرائیل
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
حائفہ کی تاریخ اور انڈیا
منگل کو معاہدے کے اعلان کے موقع پر گوتم اڈانی کی موجودگی میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اس مقام پر اس معاہدے کا طے پانا ایک سنگ میل ہے۔
’انڈیا نے آج سے سو برس پہلے اس شہر کو آزاد کرایا تھا اور انڈیا آج پھر اس بندرگاہ کے راستے اسرائیل کو معاشی طور پر مضبوط کر رہا ہے۔‘
اسرائیل میں 23 ستمبر کے دن کو ’یوم حائفہ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران سنہ 1918 میں اسی روز برطانوی راج کی جانب سے لڑتے ہوئے انڈیا کے گھڑ سوار فوجیوں نےحائفہ کو ترک اور جرمن فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔
2 گھنٹے قبل
گوتم اڈانی اور بنیامن نیتن یاہو،تصویر کا ذریعہGAUTAM_ADANI/TWITTER
انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیل کی دوسری بڑی بندرگاہ خرید لی ہے اوراسرائیلی وزیر اعظم نے اس سودے کو اسرائیل و انڈیا کے لیے ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا جبکہ گوتم اڈانی کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل میں مزید سرمایہ کاری کریں گے۔
یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اڈانی گروپ کو مشکلات کا سامنا ہے اور دنیا میں سرمایہ کاری پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی ’ہنڈن برگ‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایشیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں اڈانی گروپ کا نام نیچے آ گیا ہے۔
اسی لیے اڈانی گروپ کی جانب سے اسرائیل کے سب سے بڑے تفریحی مقام اور دوسری بڑی تجارتی بندرگاہ کی خریداری پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ اڈانی گروپ اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ گزشتہ عشرے میں اسرائیل میں کسی بھی غیر ملکی کمپنی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔
اڈانی گروپ دنیا میں بندرگاہیں بنانے اور ان کا نظم و نسق چلانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اسرائیل کی اس بڑی بندرگاہ کو پٹّے پر دینے کے لیے ٹینڈر گذشتہ برس جولائی میں کھلے تھے اور اس مقابلے میں اڈانی گروپ اور سپیشل اکنامک زون لمیٹڈ اوّل قرار پائے تھے۔
اس لیز یا پٹّے کی معیاد سنہ 2054 تک ہے۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی بندرگاہ کی آمدن میں 70 فیصد حصہ اڈانی گروپ کا ہوگا جبکہ اس کی 30 فیصد ملکیت اسرائیلی کمپنی، گودات کے پاس ہو گی۔
حالیہ معاہدے کے حوالے سے اسرائیلی اخبار ہاریٹز میں گذشتہ جولائی میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹینڈر جیتنے کے لیے اڈانی گروپ نے جو پیشکش کی تھی، کوئی بھی دوسری کمپنی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
گوتم اڈانی
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اس مضمون کے مطابق ’حائفہ کی بندرگاہ کو پٹًے پر لینے کے لیے اڈانی گروپ دو سال سے کوشش کر رہا تھا اور جب اس گروپ نے بولی لگائی تو یہ دوسرے نمبر پر آنے والی بولی سے 55 فیصد زیادہ تھی۔ اسرائیل کا اندازہ تھا کہ یہ سودا 870 ملین ڈالر تک کا ہوگا، لیکن اڈانی گروپ نے ایک اعشاریہ 18 ارب ڈالر کی پیشکش کر دی جو کہ اسرائیلی حکومت کے اندازوں سے کہیں زیادہ تھی۔‘
جب اسرائیلی کمپنیوں کو معلوم ہوا کہ اڈانی گروپ نے اتنی بڑی سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی ہے تو انھوں نے اپنے ٹینڈر واپس لے لیے۔
اخبار کا مزید کہنا تھا کہ اڈانی گروپ کی جانب سے اتنی غیر متوقع پیشکش سے واضح ہو گیا تھا کہ گوتم اڈانی کی نظر میں یہ محض ایک تجارتی معاہدہ نہیں تھا بلکہ وہ اس سرمایہ کاری کو اسرائیل اور انڈیا کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بندرگاہ کی فوجی اہمیت کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔
اسرائیل میں مقیم انڈین صحافی ہریندر مشرا کے مطابق ’ یہ کوئی معمولی (کاروباری) معاہدہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سٹریٹیجِک فیصلہ ہے۔ مسٹر اڈانی کی پیشکش اتنی بڑی تھی کہ اسرائیلی کمپنیاں اور خود اسرائیلی حکومت حیران ہو گئی تھی کیونکہ اس بندرگاہ کی حالت بہت خراب ہے۔ نہ صرف سہولیات اور یہاں پر موجود تعمیراتی ڈھانچہ بلکہ انتظامی اعتبار سے بھی اس بندرگاہ کی حالت غیر ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھیں تو (آپ کو لگتا ہے کہ) اڈانی گروپ کی طرف سے اتنی بڑی پیشکش کے پیچھے کوئی بڑی وجہ موجود ہے۔ بندرگاہ پر ابھی تک کام ہو رہا ہے۔‘
چین کا خوف اور امریکی دباؤ
انڈیا کی مختلف بندرگاہوں پر 13 ٹرمینل کا نظم و نسق اڈانی گروپ کے پاس ہے اور ملک کی کل تجارتی آمدن میں اس گروپ کا حصہ 24 فیصد ہے۔
مغربی ممالک میں اڈانی پورٹ کی کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔
اس تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی حائفہ بندرگاہ میں اڈانی گروپ کی سرمایہ کاری سے ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا اور اڈانی گروپ بحیرہ روم کے ممالک میں تجارتی اعتبار سے ایک بڑا ایشیائی کھلاڑی بن جائے گا۔
گذشتہ برس جب یہ معاہدہ طے پایا تھا تو گوتم اڈانی نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’یہ معاہدہ سفارتی اور تجارتی اہمیت کا حامل ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں حائفہ میں موجود ہوں، اس مقام پر جہاں سنہ 1918 میں انڈیا کی گھڑ سوار فوجوں نے عسکری تاریخ کی سب سے بڑی مہم کی سربراہی کی تھی۔‘
14 جولائی کو جب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کے دورے پر تھے تو اس وقت ایک غیر متوقع سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جو سفارتی دنیا میں ایک بہت بڑا قدم تھا۔
صدر جو بائیڈن
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اس سربراہی کانفرنس میں جو بائیڈن ، اسرائیلی وزیر اعظم ، نریندر مودی اور متحدہ عرب امارات کے حکمران محمد بن زائد نے شرکت کی تھی۔
اس کانفرنس کا مقصد امریکہ، اسرائیل، انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے مابین تجارت کو فروغ دینا تھا۔ اس کانفرنس کو چین، ایران اور پاکستان کے درمیان قائم ہونے والے اتحاد کے مقابل اتحاد کے طور پر بھی دیکھا گیا۔
کانفرنس کے نتائج بھی جلد ہی سامنے آنا شروع ہو گئے اور جس دن یہ کانفرنس منعقد ہوئی اسی روز گوتم اڈانی نے حائفہ بندرگاہ کی نجکاری کی پیشکش قبول کر لی تھی۔
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ ’ اس بندرگاہ کی نجکاری کا سودا مسٹر اڈانی نے اسی روز کر لیا تھا جس روز ان چار ممالک نے یہ کانفرنس منعقد کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے کے لیے امریکہ کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا تھا کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی چینی کمپنی اس بندرگاہ کا سودا کر لے۔‘
جولائی سنہ 2019 میں حائفہ کے نزدیک واقع ایک اور بندرگاہ چین نے 25 سال کے پٹّے پر حاصل کر لی تھی۔ چونکہ امریکہ اسرائیل کا بہت بڑا اتحادی ہے، اسی لیے چین کی اس سرمایہ کاری پر امریکی انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی تھی۔
امریکہ کو خوف تھا کہ افریقہ اور مشرقی ایشا کے ممالک کے بعد چین اسرائیل میں بھی اپنی موجودگی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ قومی سلامتی کے امور میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کو اسرائیل کی طرف سے ہمیشہ تعاون حاصل رہا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی اور گوتم اڈانی
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ حائفہ کی بندرگاہ کے ’معاہدے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے کیونکہ امریکہ چین کو (اسرائیل میں سرمایہ کاری) کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتا۔ امریکہ اسرائیل پر مسلسل دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ چین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرے۔ لیکن اس کے جواب میں اسرائیل کا کہنا تھا کہ اگر ٹینڈر طلب کیے جانے کے وقت کوئی اور کمپنی آگے نہیں آتی تو سودا اس (چینی) کمپنی کے ساتھ ہو جائے گا جس نے ٹینڈر جمع کر دیا ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ نے یہ یقینی بنایا کہ جو بھی ہو جائے یہ بندرگاہ چین کے ہاتھ میں نہیں جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ انڈیا اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، اس لیے اسرائیل میں چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ انڈیا کے لیے بھی پریشانی کا باعث تھا۔
اسرائیل میں عشرے کی سب سے بڑی سرمایہ کاری
اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اڈانی گروپ کے ساتھ معاہدہ اسرائیل میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی سب سے بڑی مثال ہے۔
حائفہ کی بندرگاہ کا محل وقوع عسکری اعتبار سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ بندرگاہ بحیرہ روم میں ایشیا اور یورپ کے مشترکہ مفادات کا ایک بڑا مرکز ثابت ہو سکتی ہے۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حائفہ کی بندرگاہ کے فعال ہو جانے کے بعد سوئز کینال کی اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔
ہریندر مشرا کے مطابق اس بندرگاہ پر ’انڈیا کی آمد اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اگر اس بندرگاہ کو اس خطے کا مرکز بننا ہے تو اسرائیل کا اپنے پڑوسی ممالک (لبنان، اردن اور شام) کے ساتھ تعاون میں بھی اضافہ ہو گا۔ ان ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں، لیکن اگر انڈیا اس بندرگاہ کے منصوبے میں شامل ہو جاتا ہے تو اسرائیل کے ہمسایہ ممالک کو قریب لانا زیادہ آسان ہو جائے گا۔‘
کہا جا رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں اڈانی گروپ یہاں ریل کی پٹری بھی بچھائے گا جس کے بعد اردن کے راستے حائفہ اور سعودی عرب بھی ریلوے کے ذریعے آپس میں منسلک ہو جائیں گے۔
اسرائیل
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
حائفہ کی تاریخ اور انڈیا
منگل کو معاہدے کے اعلان کے موقع پر گوتم اڈانی کی موجودگی میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اس مقام پر اس معاہدے کا طے پانا ایک سنگ میل ہے۔
’انڈیا نے آج سے سو برس پہلے اس شہر کو آزاد کرایا تھا اور انڈیا آج پھر اس بندرگاہ کے راستے اسرائیل کو معاشی طور پر مضبوط کر رہا ہے۔‘
اسرائیل میں 23 ستمبر کے دن کو ’یوم حائفہ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران سنہ 1918 میں اسی روز برطانوی راج کی جانب سے لڑتے ہوئے انڈیا کے گھڑ سوار فوجیوں نےحائفہ کو ترک اور جرمن فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔
ایک لڑکی کی شادی کو 7 سال کا عرصہ بیت گیا۔ مگر وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھی۔ اسکے خاندان ، دوستوں میں، جتنی بھی اسکے ساتھ کی لڑکیاں تھیں سب کوئی 2 کوئی 3 اور کوئی 4 بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔
حتیٰ کہ اسکے سسرال میں اسکی نند، دیور جنکی شادیاں اسکے بعد ہوئیں وہ بھی اب صاحب اولاد ہو چکے تھے۔
جہاں ہر وقت اسے لوگوں کی اور سسرال والوں کی چبھتی نظروں اور چبھتے سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہیں وہ خود بھی ہر پل اپنی سونی گود کی وجہ سے دکھی اور پریشان رہتی۔ اسکی رپورٹس میں بھی ڈاکٹروں نے تقریباً نا امیدی ظاہر کی۔ جس پر ہر وقت وہ دکھی رہنے لگی۔ مگر دل میں ایک امید بھی رہتی کہ الله سے بڑا کوئی ڈاکٹر نہین۔وہ چاہے تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
کبھی بہت زیادہ دل اداس ہوتا تو چھپ کر اپنے کمرے میں جی بھر کر رو لیتی۔
کوئی بھی اسکی تکلیف کو نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ وہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے خود کتنی تکلیف اور اذیت سے گزر رہی ہے۔۔
سسرال والے تو باتیں کرتے ہی تھے مگر سسرالی رشتہ دار ہمسائیوں کی باتیں جلتی پہ تیل کا کام کرتیں۔
اور اسکی ساس وہ باتیں بعد میں کر دیتیں کہ دل چاہتا وہ مر جائے۔ یا کہیں دور چلی جائے ان لوگوں سے۔
پھر وہ ہر نماز میں رو رو کر بس الله سے ایک ہی فریاد کرنے لگ گئی کہ وہ اسے اولاد کی نعمت سے نواز دے۔
وقت گزرنے کے ساتھ جب اسکی دیورانی کے ہاں چوتھے بچے نے جنم لیا تو ساس کے طعنوں میں اور شدت آ گئی۔
کہ یہ تو بانجھ ہے۔ میرا بیٹا بے اولاد رہے گا۔
پھر وہ وقت آیا کہ گھر میں اسکے شوہر کی دوسری شادی کی بات ہونے لگی۔
ایک دن وہ اپنے دیور کے بچے کو گود میں لے کر پیار کر رہی تھی کہ نہ جانے اسکے دل کو کیا ہوا۔وہ بچے کو وہیں لٹا کر اپنے کمرے میں آئی اور ایسا روئی کہ سب گھر والے جمع ہو گئے۔ اسکے دل کی حالت سمجھے بنا سب یہ سوچنے لگے کہ یہ دیور کے بچوں سے جلتی ہے۔ حسد کرتی ہے۔
مگر ان جاہلوں کو کون سمجھاتا کہ الله نے تو اسکو ایسا دل دیا ہی نہیں جو کسی سے جلنے والا ہو۔ وہ تو ان لوگوں میں سے تھی جو اپنی خوشیاں بھی کسی اور کی جھولی میں ڈال دیں۔ جو اہنے منہ کا نوالا دوسروں کے منہ میں ڈال دیں۔
وہ تو بچے کو پیار کرتے وقت اپنی سونی گود سے اس قدر دلگرفتہ ہوئی تھی کہ خود پہ قابو نہ رکھ سکی کہ آج اسکے آنسو بھی سب بند توڑ کر بہنے
واحد ایک اسکے شوہر تھے جنہوں نے اسکو کبھی طعنہ نہیں مارا تھا۔
ایک دن کس نے کہا کہ اپنے شوہر کے ٹیسٹ بھی کرواؤ۔
پہلے تو اس بات پہ بہت ہنگامہ ہوا لیکن پھر اسکے شوہر نے ہی کہا کہ کروانے میں کیا حرج ہے۔
الله کی کرنی کہ جب رپورٹ آئی تو وہ ٹھیک تھی۔ پھر تو گھر میں ایک طوفان آ گیا کہ بس اب اسکو فارغ کرو۔ ہم تمہاری دوسری شادی کریں گے۔ لیکن میرے شوہر کسی صورت مجھے طلاق دینے کو تیار نہ ہوئے۔
اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ شادی کر لیں۔ مگر وہ اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا تھا۔ سو کسی صورت نہ مانا۔
ایک دن کسی نے ایک پیر کا کہا کہ وہ بڑا پنہچا ہوا پیر ہے۔
اس سے اپنی بہو کو الله الله کرواؤ ۔ جب اسکی ساس نے بات کی تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ چاہے آپ جو مرضی کر لیں۔ بے شک گھر سے نکال دیں لیکن کسی پیر کے پاس نہ جائے گی۔
اس پر اسکی ساس نے بہت لعن طعن کی۔
اس نے وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ایسی رقت طاری ہوئی کہ کچھ بولا نہ جائے۔ پھر سجدے میں گر کر الله سے فریاد کی۔!
یا الله اگر تو نے مجھے بے اولاد رکھنا تھا تو تُو نے مجھے اس دنیا میں عورت کے روپ میں کیوں بھیجا۔
عورت تو پوری ہی اولاد سے ہوتی ہے
پھر میرے وجود کو ادھورا کیوں رکھا۔
یا الله ساری دنیا کے ڈاکٹر چاہے جو مرضی کہتے رہیں، مجھے بس تیرا ہی آسرا ہے۔
یا الله میری وجہ سے میرے شوہر کو اس تکلیف اس محرومی سے نہ گزار۔
یا الله تُو تو ہر چیز پہ قادر ہے۔
تُو نے حضرت مریم علیہ اسلام کو بنا مرد کے شوہر کے ماں کے مقام پہ کھڑا کردیا۔
اور ان سے اپنے محترم نبی کو بنا باپ کے پیدا فرمایا۔
یاالله تجھے حضرت مریم کا واسطہ مجھے صالح اولاد کی نعمت عطا فرما۔
یا الله اولاد کے بنا میں ایک ادھوری عورت ہوں۔
یا الله مجھے پورا کردے۔
یا الله مجھے پورا کردے۔
اس رات سجدے میں رو رو کر اس نے ایسی فریاد کی کہ اسکی آہ و بکا سن کر کائنات کی ہر چیز اسکی شائد سفارشی بن گئی۔ اور الله پہ اسکا بھروسہ جیت گیا۔
اور چند ہفتوں بعد وہ ہوا جسکی کسی کو امید بھی نہ تھی۔
ڈاکٹر بار بار اسکی رپورٹس دیکھ رہے تھے۔ پھر اسکو زندگی کی نوید سنائی گئی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ بنا کسی کی پرواہ کیے وہ یہ سنتے ہی ہاسپٹل کے فرش پہ ہی سجدہ ریز ہو گئی۔
اس لیے چاہے کچھ بھی ہو جائے کبھی بھی کسی بھی حالات میں مایوس مت ہوں۔ الله بڑا کارساز ہے۔ لوگ کچھ بھی کہیں۔ بس الله پہ بھروسہ رکھیں۔ نہ کبھی کسی کا برا سوچیں نہ برا کریں۔ دل کی زمین کو ہمیشہ پاک صاف رکھیں۔
اور اللہ پاک پر ہمیشہ بھروسہ رکھیں۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the club
Website
Address
Bahawalpur
63100
Rehman Street Phase 1
Bahawalpur, 63100
Subscribe for Watching Famous tiktoker and Celebrity Leak videos
Shahdara
Bahawalpur, 63100
Welcome to our channel. Here you can find information around the globe.
Bahawalpur, 63100
Entertain by watching content Be Happy Always Keep smile on your Face 😈😈
Asif Town Bwp
Bahawalpur
See horror, thriller, action and nature based Hollywood and Bollywood movies