Wali News

this page based on news all over the world

12/08/2024

Asslam o aliakum.
Goood Morning
وقت اعتبار اور عزت ایسے پرندے ہیں
جو اڑ جائیں تو وآپس نہیں آتے.

13/05/2024
02/03/2023

معروف اداکار افتخار ٹھاکر نے کہا ہے کہ ہماری فلم سپر پنجابی کی نمائش پی ایس ایل میچز کی وجہ سے اب مارچ میں نہیں ہوگی۔

فلمساز صفدر ملک، سہیل ملک، ممتاز احمد کے ساتھ الحمراء ہال میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ جن فلمسازوں نے عید پر فلموں کی نمائش کا اعلان کیا ہے، ہم ان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عید پر اپنی فلم ریلیز نہیں کریں گے تاکہ ہر فلم کو بزنس کا بھرپور موقعہ مل سکے۔

افتخار ٹھاکر نے بتایا کہ اگلے پراجیکٹ میں تین غیر ملکی فنکار بھی شامل ہوں گے جن سے معاہدے کے بعد ان کے نام کا اعلان کردیا جائے گا۔

اداکار کا مزید کہنا تھا کہ سپر پنجابی کے ذریعہ ہم نے پولیو قطرے پلانے کا پیغام بھی دیا ہے۔ فلم کی کاسٹ میں محسن عباس حیدر، صائمہ بلوچ، قیصر پیا، افتخار ٹھاکر، سلیم البیلا، سہیل سمیر اور دیگر فنکار شامل ہیں۔

اس موقع پر فلمساز صفدر ملک کی اگلی فلم جنے لاہور نئیں ویکھیا کا بھی اعلان کیا گیا۔

02/03/2023

پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا یہ قصور ناقابل معافی ہے کہ انہوں نے لڑکھڑاتی اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا اور ان مسائل کی کالک اپنے چہروں پر مل لی جو تبدیلی سرکار کے پیدا کردہ تھے۔ مثال طور پر آپ آئی ایم ایف والے عمران دور کے معاہدے کو ہی لے لیجئے اور آئی ایم ایف کے پاس جاتے وقت اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ویڈیو نیٹ سے تلاش کرکے سن لیجئے کہ وہ کیا ارشاد فرمارہے تھے۔

ان کے حامی یقیناً آج بھی ان ارشادات کی تشریح کرتے ہوئے لمبی لمبی چھوڑیں گے۔

پی ڈی ایم اتحادیوں کا دوسرا جرم یہ ہے کہ اس حکومت نے سال بھر ہونے کو آیا مگر این ڈی ایم اے کا تھرڈ پارٹی آڈٹ نہیں کروایا۔ تھرڈ پارٹی آڈٹ اس لئے بھی ضروری تھا کہ کورونا وبا میں ملی امداد میں سے کھربوں روپے کے گھپلے ہوئے تھے۔ گھپلوں کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ این ڈی ایم اے کے اس وقت کے سربراہ نے سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ کورونا کے ایک مریض پر 26 لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں۔

ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے بنچ کی زبانیں تالو سے جالگیں۔ کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ جنرل افضل سے پوچھ سکے۔ مائی باپ کیسے ایک مریض پر 26 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں ذرا سمجھایئے تو؟

پی ڈی ایم اتحادیوں کا تیسرا جرم یہ ہے کہ اس نے خود عمران خان کے اپنے دور میں سامنے آنے والے مالیاتی سکینڈلز پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی مثلاً ان کے دور میں سامنے آنے والا ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے سکینڈل، اس سکینڈل کی وجہ سے ہی عمران خان نے اپنے وزیر صحت عامر کیانی کو وزارت سے ہٹایا چند دنوں بعد پارٹی میں اہم عہدہ دیا پھر دوبارہ وزیر بنادیا۔ دوسرا سکینڈل راولپنڈی رنگ روڈ کا تھا زلفی بخاری اس سکینڈل کی وجہ سے مستعفی ہوئے تھے۔

اس سکینڈل کا ایک کردار آج کل لندن میں مقیم ہے اور سوشل میڈیا پر "خاموش مجاہدین" کی بھیجی خبروں سے اپنے یوٹیوب چینل اور ٹیوٹر اکائونٹ کا پیٹ بھرتا ہے۔

تیسرا سکینڈل گندم بیرون ملک فروخت کرنے اور پھر ملک میں کمی ہونے پر مہنگے داموں بیرون ملک سے منگوانے کا تھا۔ پانچواں چینی کا سکینڈل۔ چھٹا بحریہ ٹائون والے ملک ریاض کے لندن میں ضبط شدہ سرمائے کو سپریم کورٹ کے جرمانے میں ایڈجسٹ کرواکے گوجر خان میں القادر یونیورسٹی کے لئے رقبہ لینے کا ہے جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ ٹرسٹی ہیں۔

ایک بڑا سکینڈل پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے مالیاتی امور کے حوالے سے ہے۔ عمران خان نے امریکہ میں مقیم اپنے خالہ زاد اسی بیاسی سالہ ڈاکٹر نوشیروان برکی کو ہسپتال کا سربراہ بنایا ہوا تھا موصوف سال میں کتنے دن امریکہ سے پشاور آتے اور دس برسوں میں ان کی کل حاضریاں کتنی ہیں ان دس برسوں، چلیں پونے دس برس کہہ لیجئے، کے دوران انہوں نے کُل حق خدمت کیا وصول کیا۔

اس بارے اگر مزید کچھ جاننا چاہتے ہیں تو پشاور کے معروف صحافی عرفان خان کی رپورٹ سوشل میڈیا پر تلاش کرکے پڑھ لیجئے۔ توشہ خان اور ٹیریان خان کیس الگ ہیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں کیس سیاسی انتقام پر مبنی ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ توشہ خانہ والے معاملے میں عمران خان کہتے ہیں کہ جو چیزیں میں نے خریدیں وہ رکھوں یا بیچوں کسی کو کیا۔ یہاں تک تو بات "درست" ہے مگر جو چیزیں ان کی اہلیہ ظاہر کئے بغیر لے گئیں ان کا کیا ہوگا۔ اسی طرح دیگر معاملات کے ساتھ گھریلو کاروباری خاتون علیمہ خان کو عدالتی حکم پر دی گئی رعایت والا معاملہ ازسرنو دیکھنے کی ضرورت تھی۔

ٹیریان خان والے کیس میں عمران کہتے ہیں کہ چونکہ میں اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں اس لئے کاروائی نہیں بنتی ان کے وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کررہے ہیں اسی طرح پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ایک سیکرٹری جو "کے ٹی" کے نام سے بیوروکریسی میں معروف ہیں کے معاملات پر اب تک کیوں گرفت نہیں کی گئی۔

پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا یہ جرم بھی ناقابل معافی ہے کہ ایک شخص جو خود سنگین مقدمات میں ملوث ہے وہ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر بھاشن دیتا ہے۔ کسی مقدمہ کے ملزم کے خاندان میں سانحہ ہوجائے اور وہ عدالت میں پیش نہ ہو تو اس کی ضمانت منسوخ ہوجاتی ہے یہاں ججز ملزم کا انتظار کرتے ہیں کہ کب وہ تشریف لائے دیدار کرائے اور سند ضمانت لے جائے۔

سوال یہ ہے کہ اتنا لاڈلہ اور اپنا پن کیوں؟ کیوں اس شخص سے بھی عام ملزموں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا حالانکہ وہ تو اب بھی کہتاہے کہ میں دو نہیں ایک پاکستان کا قائل ہوں اور اسی لئے ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہوں۔

پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو چاہیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب نئی حکومت تشکیل دی تھی تو فوری طور پر ایک قومی کمیشن بناتے جو 2018ء کے عام انتخابات میں باجوہ رجیم کی مینجمنٹ کو عوام کے سامنے لاتا۔ ان پی ڈی ایم والوں کا ایک جرم یہ بھی ہے کہ یہ پونے چار سال تسلیاں دیتے رہے کہ سرکاری محکموں میں مختلف منصبوں پر کھپائے گئے سابق فوجی افسروں کو فوراً رخصت کرکے ان کی جگہ مطلوبہ اہلیت کے لوگوں کو لائیں گے لکن گیارہواں ماہ ختم ہونے کو ہے اور اس ضمن میں کچھ نہیں ہوا۔

اس سنگین جرم کا کیا کرنا ہے جو اتحادی حکومت سے سرزد ہوا کہ اس نے وعدے کے باوجود عمران خان کے دور میں آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کی دستاویزات کو پارلیمنٹ میں پیش کیا نہ عوام کے سامنے لاپائی۔

کچھ جرائم اور بھی ہیں مثلاً اسی پی ڈی ایم کے رہنما ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اگر پڑوسیوں سے آزادانہ تجارت کا اصول اپنایا جائے تو مہنگائی میں فوری طورپر 40 فیصد کمی لائی جاسکتی ہے۔ گیارہ ماہ میں پڑوسیوں سے آزادانہ تجارت کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی؟

ان سارے جرائم کی سادہ اور ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ عمران خان کو مسلط کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا گیا۔ کیوں دیا محفوظ راستہ؟ جواباً حب الوطنی اور ریاست کے بھاشن سنانے کی بجائے پوراسچ بولنے کی ضرورت ہے۔

پی ڈی ایم مہنگائی کیوں کم نہیں کرپائی۔ یہ بھی ایک سوال ہے۔ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کے جرائم گنوانے کی تمہید طویل ہوگئی۔

ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ وہ گھریلو کاروباری خاتون علیمہ خان آجکل امریکہ کے دورہ پر ہیں اور سینئر امریکی حکام سے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کررہی ہیں۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے پچھلے برس بقول عمران خان ان کی حکومت گرائی تھی۔ چلیں خیر ہے عمران خان اس موقف پر چار یوٹرن لے چکے اس لئے اس قصے کو اٹھارکھئے۔

مگر یہ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادی سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں ان سے تو یہ تک نہیں ہوپایا کہ وہ عدالتی نظام میں اصلاحات لے آتے لیکن کیا صرف پی ڈی ایم اور اتحادی ہی مجرم ہیں؟ اُن کے جرائم بھی ہیں اور سنگین نوعیت کے ہیں۔ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کو محفوظ راستہ دینے کا مجرم کون ہے یا کون کون ہیں؟

مکرر عرض کروں یہ سیاست پر ریاست بچانے کی قربانی والا بھاشن اب اپنا اثر کھوچکا ہے اس کی مزید تبلیغ نہ کی جائے تو اچھا ہے۔ ویسے اگر پی ڈی ایم اور اتحادی سیاست پر ریاست کو ترجیح نہ دیتے تو کون سا قیامت ٹوٹ پڑنا تھی؟ زیادہ سے زیادہ کیا ہونا تھا یہی جو آج ہورہا ہے یا اس سے کچھ زیادہ سنگین ہوتا؟

کیااس ریاست نے معروف معنوں میں شفیق ماں کا حق ادا کرنے کی کبھی زحمت کی۔ یہ ریاست تو اپنے ہی بچوں کو اپنا رزق بناتی آرہی ہے۔ پی ڈی ایم اور اتحادی پچھلے سال اپریل سے قبل تسلی دیا کرتے تھے کہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے ایک قومی پارلیمانی کمیشن بنائیں گے۔ گیارہ ماہ گزرنے میں چند دن ہیں کہاں ہے وہ قومی کمیشن؟ کیوں بلوچستان میں آتش فشاں آج بھی سلگ رہا ہے؟

پی ڈی ایم اور اتحادیوں میں تو اتنی جرات نہیں کہ ایک فین کلب کو مختلف اداروں سے ملتی سہولت کاری کو ہی روک سکیں۔ یہ تو اس بات کو بھی عوام کے سامنے نہیں رکھ سکتے کہ پچھلی حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل میں فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ انتخابات (2023ء والے) نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔ پھر عمران خان دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے نئی مردم شماری پر انتخابات کے فیصلے سے بھاگ کیوں نکلے؟

معاف کیجئے گا پی ڈی ایم اور اتحادیو آپ ناکام لوگ ہیں اتنے ناکام کہ ایک سکہ بند دروغ گو اور اس کے فین کلب کے جھوٹے پروپیگنڈے کا منہ توڑ تو کیا سادہ جواب بھی دینے سے قاصر ہیں۔ آپ تو لوگوں کو یہ تک نہیں بتاسکتے کہ موصوف جب ملک کے وزیراعظم اور عارف علوی صدر منتخب ہوئے تھے دونوں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے مفرور تھے۔

بالفرض مان لیتے ہیں کہ وہ وہ مقدمہ سیاسی تھا تو دوسروں کے خلاف جو مقدمات ایجنسیوں کی رپورٹوں پر درج ہوئے وہ کیسے درست ہوگئے۔ اس لئے پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو چاہیے کہ اپنے سنگین جرائم، کمزوریوں، فیصلہ سازی سے محرومی اور اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دینے پر عوام سے معافی مانگیں اور مستعفی ہوجائیں کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی ویسے اس سے زیادہ اور کیا قیامتیں ٹوٹیں گی بدنصیبوں پر؟

02/03/2023

سپریم کورٹ کے تمام ججز اہلیت اور حیثیت کے اعتبار سے برابر ہوتے ہیں اور ان کی قانونی رائے اور فیصلے بھی برابر وزن رکھتے ہیں۔ ان میں کسی کو تھوڑی یا کسی کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ ہاں اکثریت کی رائے وزن کے اعتبار سے حاوی ضرور ہوتی ہے۔

حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو اگر غور سے ملاحظہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تکنیکی بندوبست کو عدلیہ کے جوڈیشل مائنڈ پر حاوی کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ جیسا کہ الیکشن پر سوؤ موٹو پر نو ججز کا لارجر بنچ بنایا گیا جس پر پہلے دن سے ہی اعتراضات، تحفظات اور مطالبات اٹھنے شروع ہوگئے اور یوں دو ججز نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو بنچ سے علیحدہ کر لیا جبکہ دو کو ان کی رائے کی پاداش میں کر دیا گیا اور اس طرح بنچ سکڑ کر پانچ کا رہ گیا۔

اور یہ سب کچھ ڈرامائی طور پر ہوا۔ تحفظات، اعتراضات اور مطالبات بھی کسی حد تک سکڑے مگر فیصلہ متعلق پشینگوئیاں آخر میدان جیت گئیں جیسا کہ فیصلہ سے ایک دن قبل تک اس بات کی پشینگوئی حرکت میں تھی کہ تین دو کی اکثریت سے فیصلہ آنے والا ہے، جس کی بنیاد ججز کا دوران سماعت آراء کا اظہار تھا جو سچ ثابت ہوا اور یوں اب ایک عدالتی فیصلہ اپنی آئینی طاقت سے آئین پر عملدرآمد کے لئے آئینی اداروں کو مجبور کرتا ہوا متحرک ہو چکا ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ جس طرح حکومت کی طرف سے بھی ایک تکنیکی بندوبست پہلے سے ہی الیکشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا اسی کی طرز پر سپریم کورٹ کے بندوبست نے اب اس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئین میں تو واضح لکھا ہوا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے یا معطل ہونے کی صورت میں نوے دن کے اندر الیکشن کروائے جائیں گے اور اس کا طریقہ کار اور اختیارات کا حل بھی دیا گیا ہے مگر حکومت اپنی یہ ذمہ دار پوری کرنے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہونے کے پیش نظر اس کو طول دیتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

اب فیصلہ تو بہت ہی واضح اور سادہ ہے سپریم کورٹ نے الیکشن کروانے بارے اپنے فیصلہ میں تین ججز کی رائے سے تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار واضح کر دیا ہے لیکن اپنے اختیار سماعت پر اٹھنے والے سوالات ابھی بھی جوابات ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔ جن کی نشاندہی پر سوو موٹو لیا گیا ان کو شدید تنقید کی زد میں آ جانے کی وجہ سے بنچ سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنا پڑا اور دو ججز نے جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے جن میں جسٹس اطہر من اللہ اور یحییٰ آفریدی نے اپنی اختلافی نوٹ میں سوو موٹو اختیار کو ہی ناقابل سماعت لکھا جس کی بنیاد پر وہ بھی بنچ کا حصہ نہ رہ سکے مگر ان کی آراء کو ججمنٹ کا حصہ کہا گیا ہے۔ اور ان کی آراء سے ہی اتفاق کرتے ہوئے دو ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔

بہرحال اب فیصلہ آ چکا ہے جو حتمی ہے اور حکومت اس پر عمل کروانے کی پابند ہے اور اس پر من عن عمل ہونا بھی چاہیے مگر حکومت کی اپنی مجبوریاں ہیں جن کا بندوبست ہر حال حکومت کو ہی کرنا ہے جن میں مالی اور سیکورٹی مسائل بھی بہت بڑا بندوبست ہے جس کا الیکشن سے پہلے ہر حال میں پورا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت تعطل کا جواز پیش کر سکتی ہے مگر اس کی پاداش میں ہو سکتا ہے ان کو کچھ قربانیاں بھی دینی پڑیں۔

اس سوو موٹو کے دوران کچھ اور بھی پہلو زیر غور آئے جن میں سے چند تو جن کا پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے ججز کا اختلافی نوٹ ہے جو چار کی تعداد میں تین ججز کے فیصلے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا ہے اور پھر آئینی اور قانونی آراء بھی ہیں جن کی بنیاد صدر پاکستان کے اپنے وکیل کا اعتراف کہ صدر پاکستان الیکشن کروانے کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں رکھتے اور ہائی کورٹس کے زیر التوا پیٹیشنز اور کئی ایک اور بھی ایسے نکات ہیں جن سے اس فیصلے پر تنقید کے دروازے ابھی بھی کھلے ہیں جو اس پر عمل کروانے میں حائل ہونے کا کوئی قانونی اور آئینی جواز تو نہیں رکھتے مگر اخلاقی اعتبار سے یہ اپنے وجود کو بہرحال محسوس ضرور کروایں گے۔

اب اسی فیصلے پر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ فیصلہ تین چار کی نسبت سے آیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر نظر ثانی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف سے یہ آواز آ رہی ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے دو تین کے اکثریت سے الیکشن کروانے کا حکم صادر کیا ہے۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حکومت نوے دنوں میں الیکشن نہ کروا کر حکم عدولی کر رہی ہے تو ان کو پھر سے عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا اور اس صورت حال میں سپریم کورٹ کو دوبارہ سے اس پر اپنی رائے دینی پڑے گی۔ جس پر دوبارہ تمام فریقین اپنا اپنا مؤقف رکھنے کا حق رکھتے ہیں اور پھر اس پر بھی بنچ بننے کا دوبارہ سے مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔

اور بنچز کی تشکیل کا اختیار پہلے سے ہی اعتراضات کی زد میں آ چکا ہے اور اس پر خود عدالت کے سینئر ترین جج، جسٹس فائز عیسیٰ جو اگلے چیف جسٹس ہونگے نے سوال اٹھا دئے ہیں اور اس پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کر کے ان سے اس بابت میں پالیسی بھی پوچھی ہے جس پر وہ لاجواب رہے اور انہوں نے کل اپنی عدالت کو وکلاء سے معذرت کرتے ہوئے برخواست کر دیا کہ اس طرح بنچز کے توڑ موڑ سے سوالات جنم لیتے ہیں جو انصاف کے ہوتے ہوئے دکھنے میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔ اس بات کا اظہار وہ پہلے بھی چیف جسٹس کے نام خط میں کرتے رہے ہیں اور اب یہ معاملہ عدالت میں نوٹسز تک پہنچ چکا ہے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ اس معاملے دو ہائیکورٹس میں بھی پیٹیشنز زیر التوا ہیں اور ان کا فیصلہ آنے تک حکومت انتظار کرے گی اور اس کے آنے کے بعد وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ البتہ الیکشن کمیشن ابھی سے اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے متعلقہ اختیاراتی عہدوں سے مشاورت شروع کر دے گا اور الیکشن کے انعقاد کے لئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں لگ جائیں گے مگر ان کو فنڈنگ اور وسائل کو مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جو الیکشن کے انعقاد کے لئے ناگزیر ہیں۔ اور الیکشن کمیشن وسائل کے بغیر الیکشن کا انعقاد نہیں کروا سکتا۔

یہ الیکشن فوبیا جو ایک خاص طبقے کے حواس پر طاری ہے وہ موجودہ معاشی بدحالی کی صورتحال میں ہمارے مسائل کا حل قطعاً بھی نہیں کہا جا سکتا جس کی وجہ یہ ہے کہ ان دو صوبوں میں پہلے بھی پی ٹی آئی کی ہی حکومت تھی اور مرکز میں وہ دو وٹوں کے فرق کے ساتھ موجود تھے اور اگر وہ اپنی اس پارلیمانی طاقت سے پہلے کوئی فائدہ یا کوئی معاشی حل دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو اب کون سی ان کے پاس گیدڑ سنگھی آ جائے گی جس سے وہ بہتری کی یقین دہانی کروا سکتے ہیں۔

صوبوں میں چند ماہ پہلے حکومت بن جانے سے قومی الیکشن میں پھر سے ایک آئینی بحران کا خدشہ بھی وجود پا سکتا ہے۔ پہلے بھی اسمبلیوں کو توڑنے والی اس ناکام حکمت عملی نے آئینی بحران کو ہوا دی ہوئی ہے۔ آئین ہر ادارے کو اختیار دیتا ہے اور ان اختیار کا استعمال بھی اس کا صوابدیدی اختیار ہے اور کوئی اور ادارہ اس پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ پارلیمان، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سب آئینی ادارے ہیں اور سب کے اختیارات اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور کسی کو بھی دوسرے کے اختیارات کے اندر دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے اور وہ بھی آئین کی روح کے خلاف بندوبست کے ذریعے سے۔

اداروں کے آئینی اختیارات کے استعمال میں بھی آئینی روح سے زیادہ کوئی اور روح بولتی ہوئی نظر آتی ہے اور یہ سب کچھ اسی آئین کی موجودگی میں زمانے کی آنکھ نے دیکھا ہے۔ جس کے شواہد چیخ چیخ کر دہائی مچا رہے ہیں مگر ان پر کوئی کان دھرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ اور فائز عیسیٰ بھی اسی عدالت کے قابل احترام ججز ہیں اور ان کی آراء بھی عوام کے سامنے ہیں۔ اسی طرح پچھلے پچہتر سالوں کے فیصلے اور خاص کر پچھلے پانچ چھ سال کے فیصلے بھی عوام کے سامنے ہیں جن پر نظام عدل کے اندر سے شہادتیں موجود ہیں جن کی آج تک کسی بشر نے نفی نہیں کی جو کسی نادیدہ، ناقابل بیان اور غیر آئینی بندوبست کی دلیل ہیں۔

تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ اداروں کے آئینی اختیارات اپنی جگہ مگر ان کے استعمال کے پیچھے نادیدہ طاقتوں کے بندوبست سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جس کی بنیاد پر ادارے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرنا باعث شرف سمجھتے ہیں اور اگر اس بار بھی یہ بندوبست کامیاب نہ ہو سکے تو ممکن ہے کہ پھر سے اسی نادیدہ طاقت کو ہی کوئی بندوبست تجویز کرنا پڑے۔ ایسے تکنیکی بندوبست جو آئینی اختیارات کے نام پر وجود پاتے ہیں ان کے آئینی اور قانونی ہونے سے انکار تو نہیں مگر ان کا آئین کی روح اور اکثریتی جوڈیشل رائے سے متصادم اور اس پر حاوی ہوتا ہوا دکھائی دینا قابل افسوس ضرور ہے۔

Want your establishment to be the top-listed Arts & Entertainment in Burewala?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Telephone

Website

Address


Kot Sadat
Burewala

Other Arts & Entertainment in Burewala (show all)
Dragon ball forever Dragon ball forever
Mujahid Colony Burewala
Burewala, 61010

I am Video , Audio, Music and Gaming Editor follow me on YouTube . link is here 👇👇👇 https://www.youtube.com/channel/UCtlaX-fFW2d9DBp-c5F2J1g

Bade ache lgty hai 2 Bade ache lgty hai 2
Burewala, 61010

me engineer

Unusual React Unusual React
Burewala
Burewala, 61010

plzz follow my page Hi my friends, please check our new compilation. Here is moments people funny

Ali Moment Maker Ali Moment Maker
Burewala, 61010

Videography Photography Tiktoker

Mera watan  official Mera watan official
459 Eb
Burewala, 61010

Pics & Videos Pics & Videos
Punjab Burewala Kot Addu
Burewala, 5400

Entertainment

tahir4art tahir4art
Burewala

watercolorist

Friends Forever9 Friends Forever9
Burewala

Hi, Welcome To My Page: Hamare Group MeiN Islamic Turkish Series Turkish Drama's Upload Kiye Jate

TTBs TTBs
Burewala

Team The Brother's

Short Clip Short Clip
Gaggoo Mandi
Burewala, 61010

AHMAD EDITX AHMAD EDITX
Burewala

https://www.youtube.com/channel/UChUmeHg-n8pP5PXaI9da-eA Subscribe my Chanel for more font editing

lamput cartoon lamput cartoon
Chak #287 E. B
Burewala, 61010

welcome to my page,this page entertain to you and give you smile.!