Dr Khalid Dogar Free Eye Camping
We Povide Facility of Free Cataract Operations to Poor and Needy People locally at Faisalabad and other station through Free Eye Camping
23-6-2024 سمندری سے رجانہ جانے والی سڑک پر موٹی کِکر سٹاپ کے قریب واقع چک نمبر ۳۷۳گ ب بمباں فری آئی کیمپ پہنچنے پر منتظمین کی جانب سے خیر مقدم
کِکر ایک کانٹوں والا درخت ہے اور کسی سٹاپ کا نام موٹی کِکر میں نے کوئی پچاس سال قبل اُس وقت پہلی مرتبہ سُنا جب لائل پور سے حاصل پور جاتے وقت بس کے کنڈیکٹر نے موٹی کِکر کی سواریوں کو اُترنے کے لئے تیار ہو جانے کا نعرہ لگایا- اُس کے بعد کئی مرتبہ یہاں سے گُزرنا ہوا لیکن موٹی کِکر مجھے کہیں نظر نہیں آئی- البتہ موٹی کِکر سٹاپ کا بورڈ نظر آتا رہا
موٹی کِکر سٹاپ چک نمبر ۳۷۳ بمباں اور ۳۷۴ کے درمیان میں واقع ہے اور چک نمبر ۳۷۴ کا ہی نام موٹی کِکر ہے لیکن سٹاپ کا بورڈ چک ۳۷۳ کی جانب لگا ہوتا تھا اور اُس طرف مُجھے موٹی کِکر کا درخت نظر نہیں آیا-
مقامی لوگوں نے بتایا کہ درخت تو کوئی پندرہ سال قبل کٹ گیا تھا اُس کا جڑوں والا حصہ موجود رہا جو حال میں ہی سڑک کو کشادہ کرتے وقت اُکھاڑ دیا گیا
مورخہ 3 جولائی بروز بدھ جماعت اسلامی جہلم ویلی نے اہلیان جہلم ویلی کے لیے عید مِلن پارٹی کا اہتمام کیا ہے۔ اس پارٹی کے میزبان محترم امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان جناب ڈاکٹر محمد مشتاق خان ہوں گے۔ سابق امرا جناب عبدالرشید ترابی صاحب اور جناب سردار اعجاز افضل خان بطور مہمان شریک ہوں گے۔آپ کو خاندان سمیت شرکت کی پُرخلوص دعوت ہے۔ خواتین کے لیے الگ انتظام ہو گا۔ ماوں ،بہنوں اور بیٹیوں سے بھی شرکت کی استدعا ہے۔
امید ہے کہ اس مجلس میں شریک ہو کر خدمت کا موقع فراہم کریں گے۔ جزاک اللہ
22-6-2024 یقین کریں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ کر زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم بے بس لو اِن گلیوں اور بازاروں میں جانے سے ہی مِلتے ہیں
اپنے کلینک پر اگر ہم مریض مفت بھی دیکھ لیں تب بھی یہ بے بس لوگ ہم تک پہنچنے اور مفت اپریشن کروانے کی سکت نہیں رکھتے
چک نمبر ۱۳۰ج ب جھوک چوغتہ ضلع چنیوٹ فری آئی کیمپ میں آنے والے مریضوں کا معائنہ کیا جا رہا ہے
آج ہم نے ضلع چنیوٹ کے گائوں چک نمبر ۱۳۰ج ب جھوک چوغتہ میں جا کر فری آئی کیمپنگ کی- سفید موتیا کے منتخب شدہ مریضوں کو اپریشنز کے لئے واپڈا ٹائون فیصل آباد لایا یا
اپریشن مکمل کرنے کے بعد اِن مریضوں کو جروری ہدایات دے کر پُر تپاک طریقہ سے رُخصت کیا گیا
اِس فری آئی کیمپ کے مقامی میزبانی شمش و قمر فائونڈیشن کے رضا کاروں نے کی
سیال شریف کے پیر صاحب کے مرید یہ نوجوان ضلع چنیوٹ کے مختلف دیہات میں فری آئی کیمپنگ کے دوران مقامی انتظامات سنبھالتے ہیں اور سفید موتیا کے منتخب کئے جانے والے مریضوں کو واپڈا ٹائون لانے اور واپس لے جانے کے بھی انتظامات کرتے ہیں
ہم غریب مستحق افراد کو سفید موتیا کے مفت اپریشن کی سہولت فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں- ہہمارے ذرائع محدود ہیں آئیں آپ بھی غریب ضرورتمند لوگوں کی اِس خدمت میں ہمارا ساتھ دیں
ہماری ٹیم فیصل آباد اے سو کلومیٹر کے اندر پھیلے ہوئے ضلع ننکانہ، شیخوپورہ، چنیوٹ، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور فیصل آباد کے مختلف دیہات میں جا کر معائنہ کے بعد سفید موتیا کے مریضوں کا انتخاب کرتی ہے اور پھر اِن مریضوں کو سفید موتیا کے اپریشن کے لئے واپڈا ٹائون فیصل آباد لایا جاتا ہے
اس کے علاوہ ملک بھر کے دور دراذ کے علاقوں میں تین روزہ فری آئی کیمپوں کی صورت ہم اسی علاقہ میں اپریشن تھیتڑ بنا کر وہیں اپریشن کرتے ہیں
ایک اپریشن کا کُل خرچہ بمع تمام لوازمات دس ہزار روپے کے لگ بھگ ہے جب کہ دوسری جگہ پر جا کر ایک فری آئی کیمپ جِس میں چالیس سے پچاس تک سفید موتیا کے اپریشنز کئے جاتے ہیں کا کُل خرچہ چار سے پانچ لاکھ روپے تک ہوتا ہیں
ہہمارے ذرائع محدود ہیں آئیں آپ بھی غریب ضرورتمند لوگوں کی اِس خدمت میں ہمارا ساتھ دیں
فیصل آباد کر گردونواح کے علاقہ میں آپ بھی اپنے علاقہ کے غریب لوگوں کے مفت اپریشن کروا سکتے ہیں- ہم اپنی گاڑی میں آ کر معائنہ کرکے سفید موتیا کے مریضوں کا انتخاب کریں گے آپ اُنہیں واپڈا ٹائون پہنچانے کا بندوبست کریں اپریشن ہم بالکُل مفت کریں گے
ماناوالہ فیصل آباد میں میرے پرائیویٹ کلینک پر آنے والے غریب مریضوں کو بھی مفت اپریشن کی سہولت دی جاتی ہے
ٹیلیفون برائے رابطہ
Dr. Muhammad Khalid Dogar 03457866668
22-6-2024چک نمبر ۱۳۰ج ب جھوک چوغتہ فری آئی کیمپ میں پہنچنے پر میزبانوں کی جانب سے پُرتپاک استقبال
آج ہم نے ضلع چنیوٹ کے گائوں چک نمبر ۱۳۰ج ب جھوک چوغتہ میں جا کر فری آئی کیمپنگ کی- سفید موتیا کے منتخب شدہ مریضوں کو اپریشنز کے لئے واپڈا ٹائون فیصل آباد لایا یا
اپریشن مکمل کرنے کے بعد اِن مریضوں کو جروری ہدایات دے کر پُر تپاک طریقہ سے رُخصت کیا گیا
اِس فری آئی کیمپ کے مقامی میزبانی شمش و قمر فائونڈیشن کے رضا کاروں نے کی
سیال شریف کے پیر صاحب کے مرید یہ نوجوان ضلع چنیوٹ کے مختلف دیہات میں فری آئی کیمپنگ کے دوران مقامی انتظامات سنبھالتے ہیں اور سفید موتیا کے منتخب کئے جانے والے مریضوں کو واپڈا ٹائون لانے اور واپس لے جانے کے بھی انتظامات کرتے ہیں
۱۲-۸-۲۰۲۳ نکیال سیکٹر آزاد کشمیر فری آئی کیمپنگ کے لئے جاتے ہوئے منگلہ جھیل کنارے اسلام گڑھ کے قریب والئی کشمیر ہوٹل میں ڈِنر
--------------------------------------------------
اسلام گڑھ گُزرنے کے بعد والئی کشمیر ہوٹل میں بیٹھ کر میر ی ٹیم ممبرز نے گھر سے ساتھ لائے ہوئے برگر کھائے جب کہ میں نے کھانا کھایا – سالن فریز کیا گیا تھا لیکن میں ٹھنڈا سالن بھی رُغبت سے کھا لیتا ہوں – مئی میں ہم اسلام گڑھ میں فری آئی کیمپ کر رہے تَھے تو ایک رات اِس ہوٹل میں کھانا کھانے آئے تھے- آج جاتے ہوئے اِس پر نظر پڑ گئی تو یہیں کھانے کے لئے رُک گئے وگرنہ ہمارا پروگرام تھا کہ کوٹلی میں جا کر کھانے کے لئے رُکیں گے
یہاں سے آگے ہمارا سارا رستہ دریائے پونچھ کے کنارے تھا- رستہ میں گُل پور بھی آیا جہاں ہم تین سال قبل فری آئی کیمپنگ کے لئے آئے تو قریبی پہاڑی پر واقع صدیوں پرانے تھروچی فورٹ تک بھی گئے- گُل پور سے سہنسہ، ہولاڑ اور کہوٹہ سے ہوتا ہوا رستہ راولپنڈی کو جاتا ہے –کوٹلی والے راولپنڈی جانے کے لئے یہی رستہ استعمال کرنتے ہیں- ہم رات بارے بجے کوٹلی پہنچے تو بائی پاس پر الخدمت کوٹلی کے ذمہ دار محمد آصف اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے- کوٹلی میں گرم گرم چائے پی کر سُستی دُور کی اور نکیال جانے والے رستہ پر ہو لئے- کوٹلی میں کافی گرمی اور حبس تھا نکیال کی جانب چڑھائی چڑھنے لگے تو کُچھ سکون محسوس ہوا
24-9-2023لنڈی کوتل فری آئی کیمپ
زندگی کے تین یادگار دِن آفریدی بھائیوں کے ساتھ گزارنے کے بعد رُخصتی
23-9-2023تبلیغی مرکز لنڈی کوتل میں--جہاں ہم طورخم سے واپسی پر نمازِ عصر کی ادائیگی کے لئے رُکے-------------------------------
ہم نے ۲۲ تا ۲۴ستمبر الخدمت ہسپتال لنڈی کوتل میں فری آئی کیمپ کا انعقاد کیا فری آئی کیمپ کی دوسری شام ۲۳ ستمبر کو ہم لنڈی کوتل سے طورخم کی جانب گئے اور یادگار وقت گزارا------------------------------------- طورخم سرحد کا وزٹ اور زعفران آفریدی کی بریفینگ ---------------------------------------------- آج لنڈی کوٹل میں فری آئی کیمپ کے دوسرے روز ہم اپنے میزبانوں کے ساتھ طورخم کی جانب گئے- مچنی پوسٹ پر ریٹائرڈ حوالدار زعفران آفریدی نے بڑی اچھی اور تفصیلی بریفنگ دی جِس سے اِس علاقہ کو سمنجھنا آسان ہو گیا- برفینگ سے پہلے اور بعد بھی زعفران آفریدی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی جاری رہی کیونکہ وُہ میری فوجی بیک گرائونڈ سے واقف تھا پشاور سے 34 کلومیٹر دور مچنی چیک پوسٹ پر سیاحوں کو درہ خیبر کی تاریخی اور جغرافیائی معلومات کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سرحد کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جاتی ہے۔ زعفران آفریدی گذشتہ تین دہائیوں سے یہاں آنے والے سیاحوں کو یہ تفصیلی بریفنگ دے رہے ہیں، جو ’مچنی بریفنگ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ وہ فرنٹیئر کانسٹیبلری میں حوالدار کے عہدے سے ابھی ریٹائر ہوئے ہیں لیکن انہیں بریفنگ کے لیے دوبارہ کم تنخواہ پر رکھا گیا ہے کیونکہ مچنی بریفنگ کے لیے ان کے علاوہ کوئی شخص دستیاب نہیں اور ان کی بریفنگ کے بغیر سیاحت ادھوری رہتی ہے۔ زعفران اپنی بریفنگ کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں ’وہ سامنے علاقہ آپ کو جو نظر آتا ہے، یہ مکمل طورخم ہے۔ یہ سامنے جو اورنج رنگ کا شیڈ نظر آتا ہے جس کے ساتھ ہی دختوں کا ایک جھنڈ ہے، یہ پاکستان کا طورخم گیٹ اور پوسٹ ہے۔‘ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں پار علاقوں کا نام طورخم ہے۔ ’درختوں کے اس طرف افغانی طورخم ہے۔ اس پہاڑ کے اوپر سفید والی باضابطہ پوسٹ ہے۔ جنوب والی پوسٹ 'کافر کوٹ' پوسٹ ہے اور اس کے ساتھ والی سفید پوسٹ 'شمالی کافر کوٹ' پوسٹ ہے۔‘ مچنی چیک پوسٹ کے سامنے ایک پہاڑ پر دیوار موجود ہے جس کے بارے میں زعفران بتاتے ہیں کہ ‘ان دونوں کے درمیان ایک پرانی دیوار ہے جو ایک پوسٹ سے دوسری چیک پوسٹ تک ملتی ہے۔ ’یہ دیوار ۲۰۰۰ سال پرانی ہے۔ اس کے ساتھ قدیم بدھ مت خانقاہوں کی نشانی ہے اور سولہویں صدی میں مغلوں کے بادشاہ اکبر نے اس دیوار کو ایک قلعے میں تبدیل کیا۔‘ انہوں نے مزید بتایا، ’اس دیوار کے پیچھے قلعہ بھی موجود ہے لیکن وہ ویران پڑا ہے اور اس کی اب صرف نشانیاں باقی ہیں۔ شمالی کافر کوٹ پوسٹ کے ساتھ موبائل ٹاور ہے۔ اس کے اوپر ایک دوسرا ٹاور بھی ہے اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا گاؤں اول خان کلے ہے۔ ’یہ پاکستان کا آخری گاؤں ہے جو بارڈر کے سامنے ہے۔ اگر جنوبی کافر کوٹ سے اوپر دیکھیں تو آپ کو اس علاقے کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ نظر آئے گا جیسے شمشاد سر کہتے ہے۔ جب روس نے حملہ کیا تھا تو انہوں نے یہاں ایک آبزرویشن پوسٹ بنائی تھی۔ س بریفنگ میں زعفران مچنی چیک پوسٹ سے نظر آنے والی ہر تعمیر کا ذکر کرتے ہیں۔ طورخم سے جلال آباد 77 کلومیٹر جبکہ کابل 207 کلومیٹر دور ہے۔ پاکستان نے 2006 میں طورخم سے جلال آباد کا روڈ افغانستان کے لیے بطور تحفہ بنایا تھا، آج بھی اس روڈ کی حالت اچھی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد 2610 کلومیٹر طویل ہے، جس میں سے 1410 کلومیٹر سرحد خیبر پختونخوا جبکہ 1200 کلومیٹر بلوچستان میں واقع ہے۔ ضلع خیبر میں یہ سرحد 110 کلومیٹر طویل ہے۔ زعفران کے مطابق تاریخی باب خیبر کا افتتاح 1963 میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے کیا تھا------------------------ ۔23-9-2023 تیمور کا پھانسی گھر ------------------------------------------------ آج ۲۳ ستمبر ۲۰۲۳ بروز ہفتہ لنڈی کوٹل میں فری آئی کیمپ کے دوسرے دِن کا کام مکمل کرکے طورخم گئے تو مچنی قلعہ اور طورخم کے درمیان بائیں ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنا یہ پھانسی گھاٹ بھی دیکھنے کا موقع مِل گیا-اِن ظالم بادشاہوں کا ظلم و ستم دیکھ کر سر شرم سے جھُک گیا خیبر پختونخوا میں طورخم بارڈر تک کا سفر بلند پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی سڑک سے گزرتے ہوئے آتا ہے۔ انہی پہاڑوں میں سے ایک کی چوٹی پر واقع ہے تیمور لنگ کا پھانسی گھاٹ، جو صدیوں سے ویران پڑا ہے۔ تاریخ کے مطابق مشہور بادشاہ چنگیز خان اور ہلاکو خان کے رشتہ دار تیمور شاہ لنگ کا زمانہ 1335 عیسوی سے 1405 عیسوی تک تھا۔ گمان ہے کہ 1381 میں مغربی افغانستان کے صوبہ ہرات کو فتح کرنے کے بعد یہ پھانسی گھاٹ ان کے دور حکومت میں بناتا گیا تھا جس کا مقصد ان کے دشمنوں یا خلاف جانے والوں کو ’کرب ناک موت‘ دینا تھا۔ ’جس طرح چنگیز خان اور ہلاکو خان تاریخ میں سفاک بادشاہ گزرے ہیں، تو تیمور لنگ کا بھی انہیں سے رشتہ ہے۔ تاریخ میں ان کو ظالم اور جابر بادشاہ کہا جاتا ہے۔‘ جنگجو حکمران تیمور لنگ نے 50 سال تک جنگیں لڑیں جس میں کئی ممالک فتح کیے۔ خیبر پختونخوا میں طورخم بارڈر تک کا سفر بلند پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی سڑک سے گزرتے ہوئے آتا ہے۔ انہی پہاڑوں میں سے ایک کی چوٹی پر واقع ہے تیمور لنگ کا پھانسی گھاٹ، جو صدیوں سے ویران پڑا ہے۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان کے رشتہ دار تیمور شاہ لنگ کا زمانہ 1335 عیسوی سے 1405 عیسوی تک تھا۔ گمان ہے کہ 1381 میں مغربی افغانستان کے صوبہ ہرات کو فتح کرنے کے بعد یہ پھانسی گھاٹ ان کے دور حکومت میں بناتا گیا تھا جس کا مقصد ان کے دشمنوں یا خلاف جانے والوں کو ’کرب ناک موت‘ دینا تھا۔ ’جس طرح چنگیز خان اور ہلاکو خان تاریخ میں سفاک بادشاہ گزرے ہیں، تو تیمور لنگ کا بھی انہیں سے رشتہ ہے۔ تاریخ میں ان کو ظالم اور جابر بادشاہ کہا جاتا ہے۔‘ ۔---------------------------------------------------- ۲۳-۹-۲۰۲۳ لنڈی کوٹل اور طورخم کا سُور پُل--------------------------------------- کیا آپ دُنیا کے کسی ایسے پُل کو جانتے ہیں جِس کے نیچے سے دو بار گُزرنا ہے لنڈی کوٹل اور طورخم کا سُور پُل ماضی میں اگر کسی غیر مشہور چیز کی اہمیت کا احساس دلانا ہو تو بتایا جاتا ہے کہ اِس کے متعلق تو نیلام گھر میں بھی طارق عزیز نے پوچھا تھا ہماری طرف تو یہ طریقہ متروک ہو چکا ہے لیکن لنڈی کوتل میں فری آئی کیمپ کے دوران ہم سے بار بار پُوچھا گیا کیا ہم سور پُل کے متعلق جانتے ہیں؟ سور پُل تو وُہ ہے جِس کے متعلق بیلام گھر میں سوال کیا گیا تھا کہ ایسا پُل کہاں ہے جِس کے نیچے سے سڑک کو دو بار گُزرنا پڑتا ہے؟ آج لنڈی کوتل سے طورخم جاتے ہوئے یہ پُل یعنی سور پُل بھی دیکھ ہی لیا یہ پُل در اصل سو سال قبل بناءی جانے والی پشاور تا طورخم ریلوے لائن کے لئے ہے - جو دو پہاڑیوں کے درمیان بنایا گیا ہے اور اِس پُل کے نیچے سے ایک نالہ بھی گُزرتا ہے سڑک نالہ کے ایک کنارے پر اِس پُل کے نیچے سے گُزر کر آگے جاتی ہے اور پھر نالے کے اوپر بنائے گئے پُل کو پار کرکے دوسرے کنارے واپس آ جاتی ہے اور ایک بار پھر سور پُل کے نیچے سے گُزرتی ہے بہرحال مقامیوں اور وزیٹرز کے لئے طورخم کا یہ ایک مزید قابلِ دید مقام قرار دے لیا جاتا ہے اور ہم نے بھی سُور پُل اُس وقت دیکھ ہی لیا جب ہم لنڈی کوٹل میں میں فری آئی کیمپ کی دوسری شام طورخم کی جانب گئے
14-6-2024 اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں شوکت علی ڈوگر اور پروفیسر عابد مجید ڈوگر کے ساتھ اپنے آبائی گھر چک نمبر ۲۳۲رب باوے والا میں لگائے جانے والے فری آئی کیمپ میں
9-6-2024 بیٹیاں اللہ کی رحمت
ابو سات سال قبل اللہ کو پیارے ہو گئے
امی کی نظر پہلے ہی بہت کمزور ہو تھی
ابو کی وفات کے بعد امی تھوڑے عرصہ میں بالکُل نابینا ہو گئیں
میں کئی جگہ لے کر گئی- نظر بند ہونے کی وجہ دونوں آنکھوں میں سفید موتیا بتایا گیا
اپریشن کے لئے ہمارے پاس رقم ہی کبھی پوری نہ ہو سکی
اور امی جان سات سال سے دیکھنے سے یکسر قاصر ہیں
--------------------------------------------
یہ باتیں ہیں اِس پیاری سے بیٹی کی جو رات کے اِس وقت واپڈا ٹائون فیصل آباد میں امی کا ہاتھ پکڑے میرے ساتھ اپریشن تھیتڑ سے باہر آرہی ہے
----------------------------
اِن کا تعلق جھنگ سے کُچھ فاصلہ پر دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع ایک بستی سے ہے-
آج ہماری ٹیم نے چنڈ بھروانہ جھنگ کے ارد گرد کی دو بستیوں علی پور سیداں اور بستی حسن خان میں فری آئی کیمپنگ کی
وہیں ایک فری آئی کیمپ میں یہ بیٹی اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے ہمارے پاس پہنچیں
سفید موتیا کے دوسرے مریضوں کے ساتھ اِن کو بھی اپریشن کے لئے واپڈا ٹائون فیصل آباد لایا گیا
دونوں آنکھوں کے اپریشن کرکے لینز دال دیئے ہیں
دعا کریں کہ اللہ اِن بی بی جی کو بینائی عطا فرمائے
23-5-2024 واپدا ٹائون فیصل آباد سے راولہ کوٹ آزاد کشمیر
--------------------
یہ تیئس مئی کو واپڈا ٹائون فیصل آباد سے راولہ کوٹ آزاد کشمیر جاتے وقت چکری گائوں کے قریب کی ایک تصویر ہے یہاں ہم موٹروے چھوڑ کر روات سے ہوتے ہوئے راولہ کوٹ پہنچے تھے------------------------------------------------
آج مقامی فری آئی کیمپ میں اپریشن کے لئے آنے واے مریضوں کی تعداد کم تھی- ہم نے یہ اپریشن نمازِ طہر سے پہلے ہی مکمل کر لئے عمران ڈوگر بھی ٹرک لے کر ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ پہنچ گیا- ٹرک پر سامان لادنے کے بعد کھانا کھایا گیا- نمازِ ظہرادا کرکے ہم دو بجے سے پہلے راولاکوٹ کے لئے روانہ ہو گئے
کھانا کھانے کے کُچھ دیر بعد ہمیں پیاس ضرور تنگ کرتی ہے آج ساہیانوالہ انٹرچینج پر موٹروے پر چڑھنے لگے تو ایک دوکان پر ملتانی قلفیاں نظر آگئیں عمران ڈوگر قلفیاں لنے گیا تو اُسے وہاں ٹھنڈے دودھ والی بوتلیں مِل گئیں – لیکن اِس بوتلوں میں دودھ پانی مِلا اور کُچھ پھیکا تھا- ایس لئے میں نے تو قُلفی ہی پسند کی جب کے باقی سب نے دودھ ہی پسند کیا-
تین بجے کے بعد ہم سیال موڑ ریسٹ ایریا پہنچے تو پیاس پھر تنگ کرنے لگی- ریسٹ ایریا کے آئوٹ لیٹ کی جانب درختوں کے چھائوں سڑک پر سایہ کئے ہوئے ہے کسی دوسرے ریسٹ ایریا کے قریب ایسا نہیں دیکھا ریسٹ ایریا سے موٹروے پر چڑھنے سے پہلے ٹرکوں کی ایک لمبی لائن اِس سایہ کے نیچے کھڑی تھی اور ٹرکوں کے ڈرائیور ٹرکوں سے اُتر کر درختوں کے نیچے جا کر سئے پڑے تھے ہم نے بھی وہاں رُک کر گھر سے لایا جانے والا ٹھنڈا ٹھار پانی پیا تو ایک سکون سا مِل گیا
نمازِ عصر ہم نے بلکسر اور نیلہ دُلہا انٹرچینجز کے درمیان واقع منی ریسٹ ایریا میں ادا کی اور یہی ساتھ لایا جانے والا فریز کیا ہو شربت بھی نوشِ جاں کیا- اِس سخت گرمی کے موسم میں اِس ٹھنڈے شربت نے کلیجہ تھنڈا کر دیا
چکری ایریا سے ہم نے موٹروے چھوڑ دیا اور چکری گائوں کے قریب سے گُزر کر روات جانے والی سڑک پر پہنچ گئے- پہلی مرتبہ اِس سڑک پر کوئی چھ سات قبل سفر کیا تھا جب ہم راولہ کوٹ کے ایک دوسرے گائوں پوٹھی مکوالاں میں فری آئی کیمپ کیا تھا- یہ ایک سنگل روڈ ہے جو بارانی علاقوں میں سے گُزر کر جاتی ہے- لیکن بارانی ہونے کے باوجود یہاں سڑک کے ارد گرد فصلوں کی کاشت اچھی ہے
سڑک کی پہلے تو بہتر صورتحال تھی لیکن تین چار سال سے صورتحال پہلے جیسی نہیں رہی اب دوبارہ مرمت وغیرہ کی جا رہی ہے اور اِس پر سفر زیادہ مزے دار نہیں رہا
موہڑہ ، شاہدھیری متعدد دیہات میں سے گُزر کر ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سفر کافی کم رفتاری سے طے ہوا گگن موڑ تک یہ سڑک کوئی زیادہ اچھی نہیں لیکن اُس کے بعد اِس کی حالت کافی بہتر ہو جاتی ہے اور ہماری سپیڈ بھی بہتر ہو گئی- گگن گائوں کے بعد ایک سڑک چونترہ اور اڈیالہ میں سے ہو کر راولپنڈی جاتی ہے
ہماری نمازِ مغرب ابھی رہتی تھی اور اب ہمارا ارادہ تھا کہ نمازِ مغربین کی صورت نمازِ مغرب اور عشاء اکٹھی ادا کر لیں جِس کی سفر کے دوران اجازت ہے- ہم ایک گائوں بھال میں رُکے مسجد کے مینار نظر آرہے تھے لیکن وہاں پہنچنے کا رستہ نظر نہیں آرہا تھا- ایک دوکاندار سے رستہ پوچھا تو اُس نے کہا کہ اُس کی دوکان میں سے ہی گُزر کر چلے جائیں- دوکان میں سے گُزر کر دوسری جانب پہنچے ہوئے تو ہمیں احساس ہوا کہ پہلی مرتبہ یہاں سے گُزرتے ہوئے شاید ہم نے یہاں نماز ادا کی تھی-دیکھا تو وُہی مسجد تھی لیکن ہمیں اب گائوں کا نام بھول گیا تھا دیکھنے پر ہی یاد آیا
مسجد میں ساٹھ ستر بچے پسارے پر پڑھ رہے- سخت گرمی میں بھی پنکھے بھی بند تھے اور وہاں رُکنا بھی محال تھے ہم نے بمشکل نماز ادا کی لیکن غریب بچے قرآن پاس کے درس میں مگن تھے- پتہ چلا کہ یہ سب کُچھ بجلی کے بِل زیادہ آنے کی وجہ سے ہے- دِلی صدمہ ہوا کہ حالات کِس جانب جا رہے ہیں
بھال گائوں کے بعد ہم کالی پڑی، موہڑہ پڑی، ڈھوک بدھال، ڈھوک بھٹیاں، اور میرا موہرا متعدد دیہات میں سے گُزرے جِن کی حالت کافی بہتر تھی اِن کے بعد ہرکا موڑ آیا جِس کے بعد چند کلومیٹر طے کرنے کے بعد بگا شیخاں نامی گائوں کے قریب جی ٹی روڈ آگئی جی ٹی روڈ کے ساتھ اِس سڑک کا مقامِ اتصال روات سے کُچھ پہلے ہے- یہاں ایک ہوٹل مدینہ ہوٹل کے نام کا ہے ہم کبھی کبھار یہاں کشمیر آتے جاتے چائے یا کھانے کے لئے رُکتے ہیں- آج رات کا کھانا تو ہمارے ساتھ ہی تھا اور پروگرام تھا کہ کہوٹہ اور آزاد پتن کے درمیان کسی گائوں میں رُک کر کھانا کھالیں- لیکن مدینہ ہوٹل کی یاد آئی تو باہمی مشورہ سے یہیں رُکنے کا فیصلہ کر لیا
ہمیں کھانے میں آدھے گھنٹے سے کُچھ زیادہ وقت ہی لگ گیا اسی دوران اپنے میزبان شوکت صاحب سے بھی رابطہ ہو گیا – اِس سے قبل ہم نے اُن کو فری آئی کیمپ سائٹ پر پہچنے کا رات دو یا تین بجے کا وقت دیا تھا – لیکن چونکہ ہم فیصل آباد میں کم اپریشنز ہونے کی وجہ سے جلدی چل پڑے اور دوسرے سفر بھی کٹتا رہا اِس لئے اب ہمارا ندازہ تھا کہ ہم رات بارہ بجے کے لگ بھگ وہاں پہنچ جائیں گے- جہاں فری آئی کیمپ لگایا جانا تھا وُہ جگہ گائوں سے کُچھ دور اور سڑک کے نزدیک واقع ہے- شوکت صاحب نے بتایا کہ وُہ وڑک پر ہی ہمیں خوش آمدید کہنے کے لئے موجود ہوں گے
روات میں سے گزرنے کے بعد ہم اسالم جانے والی سڑک پر مُڑ گئے دارُالحکومت کو جانے والی یہ سڑک سالہا سال سے کوئی اچھی حالت میں نہیں- کاک پُل سے ہم کہوٹہ روڈ پر مُڑے تو اُس کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ مِلی- کوئی سال قبل بھی اِس سڑک کی یہی کیفیت تھی- دس بجے کے لگ بھگ ہم نے سہالہ ریلوے کراسنگ کراس کیا تو مُجھے یہاں کا اکتالیس سال پرانا واقع یاد آ گیا-
یہ جولائی ۱۹۸۳ کی بات ہے میں کشمیر آرمی سیلکشن اینڈ ریکروٹمنٹ تھا اور کشمیر میں کسی مقام پر فوجی بھرتی کاکام مکمل کرکے واپس راوپلنڈی آ رہا تھا جہاں ہمارا مستقل ہیڈ کوارٹر یتھا میں اُس وقت یونیفارم میں تھا سہالہ ریلوے کراسنگ بند تھا اور گاڑیوں کی لمبی لائن تھی اور اِن گاڑیوں میں بہت سی وُہ گاڑیاں بھی تھیں جو کہوٹہ ایٹمی پلانٹ [ تب اسے کے آر ایل کی بجائے اسی نام سے جانا جاتا تھا] کے ملازمین تھے جِن کو یہ گاڑیاں راولپنڈی سے صبح شام آنے جانے کی سہولت فراہم کرتی تھیں-
فوجی جیپ میرا ڈرائیور چلا رہا تھا جب کے میں ساتھ بیٹھا تھا- میری جانب ایک موٹر سائیکل سوار کھڑا تھا-مُجھ پر نظر پڑتے ہی اُس نے مجھے سلام کیا اور پوچھنے لگا سر آپ کھاریاں سے کب ادھر آ گئے ہیں- مُجھے ادنازہ ہو گیا کہ یہ کھاریاں میں چھٹے ارمرڈ ڈویزن کی کسی یونٹ کا فوجی ہے اور شاید اِس علاقہ کا رہنے والا ہے اور آج کل چھٹی آیا ہوا ہے- میں نے اُس کے متعلق پوچھا تو بتانے لگا کہ اُس کا تعلق ون ایف ایف سے ہے اور وُہ ایک ایجنسی میں پوسٹ ہو کر یہاں کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کی حفاظت پر تعینات ہے- میں نے پوچھا کہ تمہاری یہاں کیا ڈیوٹی ہے بتانے لگا کے یہاں چار حفاظتی حصار یا سرکل ہیں اُس کا تعلق سب سے باہر والے یعنی چوتھے سرکل سے ہے اور ایک سرکل کو دوسرے سرکل کی مصرفیات سے کُثھ آگہی نہیں ہوتی ہر کسی کو اپنے کام سے کام رکھنا ہوتا ہے اتنے میں ٹرین آ گئی پھاٹک کُھل گیا اور وُہ مجھے سالم کرکے موٹرسائیکل آگے لے گیا
کہوٹہ گُزرنے کے کُچھ دیر بعد سڑک کی حالت کُچھ بہتر ہو گئی- گیارہ بجے کے لگ بھگ ہم نے کہوٹہ شہر کراس کیا- روات میں کھانا کھا کر چلے تھے اور اب پیاس اور معدہ میں جلن سے ہونے لگی تھی-کہوٹہ سے کولڈ ڈرنکس لے کر پیئے
آزاد پتن سے تھوڑا پہلے سڑک کُچھ خراب تھی- رات بارہ بجے سے چند منٹ پہلے ہم نے آزاد پتن پر دریائے جہلم پار کیا اور آزاد کشمیر میں داخل ہو گئے- یہاں سے گوئیں نالہ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہم ساڑھے بارہ بجے رات کیمپ سائٹ پر پہنچے تو ہمارے میزبان شوکت صاحب، قاری آصف صاحب اور جمشید صاحب اپنے ساتھیوں سمیت راولہ کوٹ جانے والی سڑک پر کھڑے ہمارے منتظر تھے- اُنہوں نے بتایا کہ کیمپ کُچھ بلندی پر واقع ایک گھر میں لگایا جائے گا
ہم نے دیکھا کہ اُس کان تک پہنچنے والی سڑک کافی ڈھلوان ہے اور تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اُس میں چند ایسے موڑ ہیں جِس پر لوڈڈ ٹرک کا اوپر جانا بہت مُشکل ہے- ٹرک سے سامان اُتار کر ایک گاڑی کیں لوڈ کیا وزن کم کرکے ہم ٹرک اوپر لے ہی گئے
چونکہ یہاں ہم پہلی مرتبہ فری آئی کیمپ کر رہے تھے اِس لئے ہمارے منتظمین پوری طرح کیمپ کے انتظامات سے آگاہ نہیں تھے اپریشن تھیتڑ کے لئے بالائی منزل پر ایک کمرہ منتخب کیا گیا تھا جب کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ مریضوں کا معائنہ اور اپریشنز نیچے والی منزل پر ہی کئے جائیں کیونکہ موتیا کا اپریشن کروانے اکثر لوگ بڑی عمر والے یا بیمار ہوتے ہیں اُن کے لئے بالائی منزل پر چڑھنا ایک مسئلہ ہو سکتا ہے- سکریننگ تو ہم نے باہر لان میں ہی کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن باقی انتظامات کے لئے بالائی منزل پر ہی جانا پرا
اپریشنز کے لئے منتخب کیا جانے والا کمرہ کافی اچھی حالت میں تھا لیکن سامان سے بھرا پڑا تھا اُس خالی کرواتے اور دھوتے ہوئے ہی دو بج گئے ہم نے فیصلہ کیا کہ اب آرام کر لیا جائے اور اپریشن تھیتڑ کی سٹلائزیشن اگلے روز صُبح کے وقت کر لیں گے
23-5-2024 فیصل آباد بھی اُن شہروں میں شامل ہے جو ہیٹ ویو کا شکار ہے
یہ میں واپڈا ٹائوں فیصل آباد میں آج کا آکری اپریشن کر رہا ہوں
یہ اپریشن مکمل کرنے کے بعد انشاء اللہ ہم اپنی اگلی منزل راولہ کوٹ آزاد کشمیر میں فری آئی کیمپنگ کے لئے جانے کے لئے ٹرک کی لوڈنگ شروع کر دیں گے
انشاء اللہ ہم آزاد پتن اور راولہ کوٹ کے درمیان واقع گائوں میدان میں چوبیس تا چھبیس مئی تیں روزہ فری آئی کیمپ کریں گے
اِس فری آئی کیمپ کے محرک ہمارے محترم دوست اور عبدالواحد منظر ہیں جب کہ مقامی انتظامات ڈاکٹر عمران عباسی اور واجد محمود کے اہلِ خانہ سنبھالیں گے
۲۱-۵-۲۰۲۴ چک نمب۳ ۳۸ب ڈبورہ کے مریضوں کو اپریشنز کے بعد واپڈا ٹائون سے رُخصت کرتے ہوئے
19-5-2024گوجرانوالہ فری آئی کیمپ سے واپس پر شِیخوپورہ ٹول پلازہ کے قریب داجل کے دوستوں کے ساتھ--------جو پورے پنجاب کو گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈی ٹھار شردائی پلاتے ہیں----------------------------------------------
کھیالی گوجرانوالہ سے فیصل آباد
ہم کھیالی سے روانہ ہوئے تو عین دوپہر کا تپتا ہوا وقت تھا- ٹرک سے باہر گرمی عروج پر تھی اور ٹرک تو گرمی میں مزید تپ جاتا ہے-
گوجرانوالہ سے شیخوپورہ کے درمیان کا علاقہ اُن علاقوں میں شامل ہے جو میں نے فوجی نوکری کے دوران تفصیل سے دیکھا- اگرچہ اب بہت تبدیلیاں آ چُکی ہیں لیکن یہاں سے گُزرتے ہوئے میں اکتالیس سال قبل مئی ۱۹۸۳ کے اُس دور میں محسوس کرنے لگا جب میں پہلی مرتبہ فوجی مشقوں کے دوران یہاں آیا اور کئی دِن رات انہی دیہات کے کھیتوں میں لگے اپنے عارضی فوجی خیموں میں گزارے جِن کی جگہ تقریبا ایک دو بعد تبدیل ہوتی رہتی تھی-
جہاں پہلا ٹول پلازہ بنایا گیا ہے یہاں سڑک سے ہٹ کر دائیں جانب کوٹ بھانا شاہ کا گائوں ہوتا تھا اُس کے بعد مرالی والہ گائوں ہے جِس کے قبرستان میں قبروں کے درمیان لیٹ کر ہم نے ایک رات گزاری تھی- مرالی والہ گُزرنے کے بعد ایک راجباہ آتا ہے جو اب بھی موجود ہے- پھر گھمن والہ کا بڑا گائوں تھا جب اب بڑا قصبہ بن چُکا ہے گھمن والہ سے ایک سڑک جو مرید کے کی جانب سے آتی تھی قل دیدار سنگھ کو جاتی تھی تب یہ کچی لیکن ہموار سڑک ہوتی تھی- اِس کے ارد گرد سایہ دار درختوں کی قطار تھی- اب سڑک پکی ہو چُکی ہے لیکن درخت غائب ہو گئے ہیں
اب ہمین گرمی کافی تنگ کر رہی تھی گھمن والہ سے کُچھ پہلے ہمیں قُلفیاوں والا نظر آ گیا اُس سے قُلفیاں لے کر کھائیں اور آگے چل پڑے
اُس زمانہ میں جے سنگھ نام کا ایک چھوٹا سا اڈا ہوتا تھا اب وُہ مجھے نظر نہیں آیا ابتہ ایک بینک پر کوٹ جے سنگھ برانچ کا نام لکھا ہوا تھا- اِس اڈا سے دو تین کلومیٹر اندر جا کر ہم نے دو تین دِن گزارے تھے- ہمارے ریکی آفیسر ایک سُپر سیڈڈ میجر تھے جو اکثر نگیٹو ذہنیت والے بن جاتے ہیں اُس نے ہمارے رہائشی ٹینٹ درختوں کی اُس جانب لگوائے جہاں دوپہر کو دوسری جانب چلا جاتا اور اگر وقت مِلتا تو تپتی دھوپ میں تپتے ٹینٹ میں لیٹنا بظاہر ناممکن تھا لیکن میرے سمیت بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کر آفیسرز دھوپ میں بھی یہاں ریلکس کر لیتے لیکن ہمارے بریگیڈ کمانڈر سعیدالزماں جنجوعہ اور ایک میجر صاحب جو دو سال کہیں سٹاف ڈیوٹی پر گزار کر آئے تنگ ہوتے- بریگیڈیر سعیدالزماں ایک نفیس انسان تھے اُنہوں اِس کا یہ حل نکالا کہ وُہ دوپہر کو آرام ہی نہیں کرتے تھے اور اکثر یونٹس کے وزٹ اور ریکی وغیرہ کے لئے نِکل جاتے
تتلے عالی تب بھی ایک برا اڈا تھا اب کافی بڑا بن گیا ہے یہاں سے کاموکی اور نوشہرہ ورکاں کی جانب سڑکیں جاتی ہیں- تتلے عالی کی بعد اک چھوٹا گائوں سڑک سے نظر آتا تھا نام تو اُس کا محل تھا لیکن اُس کے مکانوں کی دیواریں گوبر کی پاٹحیوں [اُپلوں] سے بھری ہوتیں-
تتلے عالی کے بعد مجھو چک، رتالی ورکاں، بیگ پور، ہردے ڈوگراں، دھیردے ڈوگراں کے جانے پہچانے دیہات کے پاس سے گُزرتے ہوئے ایک بجے کے لگ بھگ ہم شیخوپورہ شہر پہنچ گئے-
ہم عام طور شیخوپورہ بتی چوک میں سے گُزنے کی بجائے بائی پاس کا رُخ کرتے ہیں لیکن آج دوپہر کے وقت چونکہ گرمی کی وجہ ہم سیدھے گُزرتے چلے گئے- شیخوپورہ ٹول پلازہ سے کُچھ پہلے ڈیرہ غازی خان والوں کا سردائی پوائنٹ تھا- وہاں رُک کر سردائی پی-ہم سردائی چسکے کے لئے بلکہ گرمی سے مجبور ہو کر پیتے ہیں لیکن سخت گرمی اور پیاس میں یہ سردائی چسکا بھی دے ہی دیتی ہے- سردائی والے داجل شہر کے ایک نواحی گائوں سے تعلق رکھنے والے نِکلے- اُن علاقوں میں ہم عرصہ دراز سے فری آئی کیمپنگ کے لئے جا رہے ہیں- اُن سے تعارف ہوا تو وُہ بہت خوش ہوئے
پونے تین بجے ہم گھر پہنچ گئے- بیگم ساحبہ بھی کُچھ کام کے سلسلہ میں گزشتہروز اسلام آباد گئی تھیں وُہ بھی ہم سے کُچھ ہی دیر پہلے پہنچیں تھیں- نمازِ ظہر ہم نے گھر پہنچ کر ہی ادا کی-
19-5-2024 کھیالی گوجرانوالہ فری آئی کیمپ میں اپریشن شدہ مریضوں کی پٹیاں کھولی جا رہی ہیں
آج فری آئی کیمپ کا آخری دِن ہے کام مکمل کرکے انشاء اللہ ہم واپڈا ٹائون فیصل آباد کے لئے واپسی کا سفر شروع کریں گے
پیر سے جمعرات تک فیصل آباد اور گردونواح کے دیہات میں فری آئی کیمپنگ کریں گے اور انشاء اللہ جمعرات کو بعد دوپہر راولہ کوٹ آزاد کشمیر کے لئے روانہ ہو جائیں گے جہاں چوبیس تا چھبیس مئی تین روزہ فری آئی کیمپ کیا جائے گا
16-5-2024گوجرانوالہ فری آئی کیمپ کے لئے جاتے ہوئے شیخوپورہ سے گوجرانوالہ تک کا سفر اور پرانی فوجی یادیں
-------------------------------------------------------------------------------
ہم چھ بجے نمازِ عصر ادا کرنے اور ٹرک میں ڈیزل ڈلوانے کے بعد گوجرانوالہ کی جانب چل پڑے-------------------------------------------------------شیخوپورہ سے گوجرانوالہ کا سفر اور پرانی فوجی یادیں
شیخوپورہ اور گوجرانوالہ اور یہاں سے حافظ آباد کی جانب کا علاقہ ہم نے چالیس بیالس سال قبل دو سال تک فوجی مشقوں کے دوران بہت اچھی طرح کھنگالا- ہمارا قیام اگرچہ آبادیوں سے باہر کھیتوں میں لگائے گئے اپنے فوجی خیموں میں ہوتا تھا لیکن یہ اکثر دیہات میرے اچھی طرح کے دیکھے ہوئے ہیں-اور بہت سے دیہات کے نام اور اُن سے وابستہ باتین اب بھی یاد ہیں- یہ سڑک سالہا سال نہیں بلکہ دہائیوں تک خراب حالت میں رہی مجھے یاد فروی ۱۹۸۷ میں تربیلہ سے ٹرانسفر ہو کر فیصل آباد آیا تو یہ سڑک زیرِ مرمت یا زیرِ تخریب تھی اور دو سال پہلے تک یہی حالت رہی- گزشتہ سال دسمبر میں گوجرانوالہ چھائونی میں فری آئی کیمپ کے لئے جاتے ہوئے کسی کے کہنے پر اِس پر سفر کیا تو خوشگوار حیرت ہوئی اب یہ موٹروے جیسی ہی ہے
دھیردے ڈوگراں کے قریب مریدکے کی طرف جانے والی سڑک ہے اور جہاں سے یہ سڑک نکلتی ہے وہاں ایک پیر صاحب کا دارلسلام نام کا ڈیرہ اب بھی قائم ہے – یہاں سے ایک دوکلومیٹر بعد سید وارث شاہ کے نام کا ٹول پلازہ ہے جِس سے آگے بیگ پور کا گائوں ہے وہاں ہم نے کوئی ایک ہفتہ گزارہ تھا - اُس گائوں کے ایک زمیندار چدھڑ صاحب سے ملاقات بھی رہی- دراصل ہمارے ۹آرمرڈ بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیر محمد حسین اعوان کو کھیتوں میں ہل چلاتے چدھڑ صاحب کے بیل اچھے لگے تو بریگیڈیر صاحب بیل دیکھنے قریب چلے گئے وہاں چدھڑ صاحب سے باتین اور تعارف ہوا تو بریگیڈ صاحب چدھڑ صاحب سے باتین کرتے کرتے اپنے ے خیمے تک آ گئے وہیں فیلڈ کرسیاں منگوا کر چدھڑ صاحب کو بٹھا کر فیلڈ میس کی چائے پلائی اور ساتھ چدھڑ صاحب کے حقہ پر باری بھی دینے لگے اور حقے اور چائے پر لگی ہمارے قیام تک جاری رہی- چدھڑ نے قریب ہی واقع اپنی حویلی میں کھانے پر بلایا جو بریگیڈیر صاحب نے قبول کر لی حالانکہ فوجی مشقوں کے دوران بریگیڈیر صاحب سختی سے ہمیں سولین سے دُور رہنے کی تاکید کرتے تھے ہم صرف سولین کی مدد یا کسی کام میں ہاتھ بٹانے کے لئے اُن کے پاس جا سکتے تھے- یہ نومبر ۱۹۸۳ کی بات ہے تب وہاں میرے ساتھ ۵۵کیولری کے کیپٹن بہادر شیر محسود بھی تھے جو دو ماہ بعد شہید ہو گئے بریگیڈیر اعوان میجر جنرل بنے اور جنرل ضیا کے ساتھ بہاول پور طیارے حادثہ میں شہید ہوئے- ۳۸ کیولری کے کیپٹن شمیم ہمارے جی تھری تھے- بریگیڈ میجر ۲۵ کیولری کے میجر پرویز بشیر تھے اور ڈی کیو چھ لانسرز کے جلال الدین مرزا تھے- یہاں سے گُزرتے ہوئے یہ ساتھی اور اُن کی باتین بہت یاد آئیں
شام کو اگر وقت ملتا تو میں اور کیپٹن شمیم چہل قدمی کرتے ایک دومیل دُور واقع ایک راجباہ تک چلے جاتے- اور پھر نہر کنارے چلتے چلتے جوگی والہ گائوں آجاتا- وہاں ایک پرانا ٹوٹا پھوٹا کینال بنگلہ بھی تھا نمازِ مغرب وہیں ادا کرکے ہم جب واپس بریگیڈ فیلڈ ہیڈ کوارٹر میں اپنے فیلڈ میس پہنچتے تو اندھیرا پھیل چُکا ہوتا- بیگ پور میں چند دِن گزار کر ہم دھیردے ڈوگراں سے مریدکے جانے والی سڑک پر چلے گئے جہاں ہم اور ہمارا بریگیڈ فیلڈ ہیڈ کوارٹر ملیاں کلاں کے پاس ہوتا تھا جب کہ ہماری یونٹ ارد گرد کے دیہاتی علاقہ میں پھیلی ہوئی تھیں- ہمار ۹ آرمرڈ بریگیڈ یں آرمرڈ کی دو یونٹس ۳۳ کیولری اور ۵۵ کیولری تھیں- تب ۳۳ کیولری کو لیفٹیننٹ کرنل احسن سلیم حیات کمان کر رہے تھے احسن سلیم بہت محنتی انسان تھے اور ہماری دوستی کتابوں کی وجہ سے تھی وُہ پڑھنے کے بہت شوقین تھے بعد میں فور سٹار جنرل بن کر چیئرمین جوائنٹ سٹاف کمیٹی بھی رہے-تب پرویز مشرف بھی لیفٹننٹ کرنل تھے ۳ ایس پی آرٹلری رجمنٹ سے وابستہ تھے لیکن زیادہ تر مارشل لاء ڈیوٹی پر راولپنڈی میں ہی مقیم ہوتے – اُن کی یونٹ کے دیگر آفیسرز کے علاوہ لیفٹننٹ زبیر ہمارے ساتھ تھے وُہ بھی باجوہ کے ساتھ ہی فور سٹار جنرل بنے اور چیئر مین جوائنٹ سٹاف کمیٹی رہے- یہیں میری پہلی اور آخری مُلاقات ۱۳ لانسرز کے لیفٹیننٹ کرنل شجاع خانزدہ شہید اور اُن کے ساتھ چند دِن پہلے کاکول سے پاس آئوٹ ہو کر آنے والے نوجوان بلکہ ابھی چھوٹے بچے نوید مختار سے ہوئی- نوید مختار کا تعلق شیخوپورہ کے ماناوالہ کے قریب واقع گائوں محمد پورہ کے ایک آرائین خاندان سے ہے وُہ ہمارے کمانڈر محمد حسین اعوان کے دوست بریگیڈیر مختار کے بیٹے ہیں وُہ زیادہ عرصہ میرے ساتھ ہی رہے اور لاہور میں مقیم اپنی یونٹ کے آفیسرز میس میں کھانے کی دعوت دی کہ وُہ چاندی کے برتنوں میں کھانا کھلائیں گے- لفٹننٹ کرنل شجاع خانزادہ کا تعلق حضرہ اٹک کے قریب ایک گائون سے ہے وُہ وزیرِ داخلہ پنجاب بنے اور ایک بم دحماکہ میں شہید ہو گئے- نوید مختار لیفٹننٹ جنرل بن کر پہلے کور کمانڈر کراچی اور پھر ڈی جی آئی ایس آئی رہے
دسمبر ۱۹۸۳ کے اوائل میں انہی فوجی مشقوں کے اگلے مرحلہ میں ہم ننکانہ صاحب کی جانب چلے گئے اور اُس سفر کی اپنی ہی یادیں ہیں وہاں فری آئی کیمپنگ کے لئے جاتے ہوئے وہاں کے بڈھا گائوں کی کہانی اور ننکانہ کے علاقہ میں گرنے والے اپنے ہی کاپٹر کی باتیں سناتا رہتا ہوں اُس ہیلی کاپٹر میں سات فوجیوں کے ساتھ ہمارے ساتھی پائلٹ کیپٹن شفقت اور میجر محمود دونوں شہید ہو گئے تھے
بیگ پور کے بعد رتالی وارکاں، موکو چک، تتلے عالی، گھمن والا اور مرالی والا کے قریب سے گزرتے پرانی باتوں کو یاد کرتے ہم ساڑھے چھ بجے شام اِس سڑک پر گوجرانوالہ کی جانب بنائے ٹول پلازہ پر پہنچ گئے جِس کا نام مولانا ظفر علی خان کے نام پر رکھا گیا ہے- مرالی والا، تتلے عالی اور گھمن والہ کے ارد گرد کے علاقوں میں ہم نے ۱۹۸۳ اور ۱۹۸۴ کی گرمیوں کی فوجی مشقیں کی تھیں
نمازِ مغرب کی اذان سے کُچھ پہلے ہم کھیالی گائوں پہنچ اپنے میزبان محمد نواز چوہان ایم پی اے کے ڈیرہ پر پہنچ گئے جہاں فری آئی کیمپ لگایا جانا تھا- نواز چوہان صاحب کے سیکرٹری علی خالد ہمارے منتظر تھے
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the organization
Telephone
Website
Address
Dogar Welfare Trust Wapda Town
Faisalabad
0092
Garden Moh, Street No 22 Near Nurani Mosque
Faisalabad, 31000
Idara Khidmat Tahafz e Quran is working on saving Quran Kareem on unexpected behurmati in Faisalaba
Faisalabad
instaGram Followers Available in cheap Rates Likes,views Also Available Deal in All Type Of Platfo
D Ground
Faisalabad, 38000
I am providing services of Virtual Assistant of your online Business and promote your business through Social Media
Milat Road
Faisalabad, 38000
This is Educational and social platform for people and moral stories.
Faisalabad, 38000
dedicated to sharing the passion for science, technology, and research.
Faisalabad, 36000
I am most powerful man of this world because my Allah is my helper.
Faisalabad, 37000
To achieve a big goal, struggle constantly and never give up, you will be successful in sha Allah
Faisalabad, 38000
If you don't design your own life plan, chances are you'll fall into someone else's plan. And guess
Faisalabad Satiana Road
Faisalabad
Iam 17 years old send all viral videos My what’s app no;03040980393