حرآ طارق
From eyes of a sneaked in stranger ; People , Waves , Gossips and Humor of UOG
The Right equation 🧸
20/02/2024
ساری رات ، طوفانی ہوائیں شور مچاتی رہیں تھیں ۔ اور صبح کے وقت
تیز بارش برس رہی تھی ۔ میں اپنے آپ کو سفید لباس پہننے پہ کوستے ہوئے ، تیز تیز سیڑھیاں پھلانگ کر اسٹیشن پہ پہنچی ۔ سفید جوتوں اور سفید پتلون کا ستیاناس ہو چکا تھا ۔
سیٹ پہ بیٹھ کر میں نے افسوس سے خود کو دیکھا ۔ جب پتہ تھا بارش ہو رہی ہے تو کیا ضرورت تھی حرا یہی کپڑے پہننے کی ? اور میرے نئے قیمتی جوتے ۔ کیچڑ میں لتھڑ چکے تھے ۔
دور ہو کر بیٹھیں ۔ مجھے یہ کپڑے باقی دن بھی چلانے ہیں ۔ حد ہوتی ہے !
کسی خاتون کی کٹیلی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تو میں نے چونک کر دیکھا ۔ سامنے والی سیٹ پہ بیٹھی ، وہ مٹیالے سوٹ والی خاتون اپنے ساتھ آ کر بیٹھنے والی عورت پہ بگڑ رہی تھیں ۔
جب آپ کو پتہ ہے آپ کے کپڑے گیلے ہیں ، دوسرے کے لازمی برباد کرنے ہیں ?
دوسری عورت ، جو بڑی سی چادر کی بکل مارے ہوئی تھی ، شرمندہ ہو کر ادھر اُدھر مدد طلب نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔ صاف واضح تھا ، اُسکے لیے یہ صورتحال پریشان کن تھی ۔
باجی ۔ میں ۔ میں تو دور ہو کر بیٹھی ہوں آپ سے ۔
وہ پنجابی لہجے میں صفائی دینے کی کوشش کرنے لگی ۔
آپ نے میرا سوٹ ہی خراب کر دیا ہے ۔ برقع گیلا ہے آپ کا ۔
خاتون بدستور تلملائی ہوئی تھیں ۔ مسافر خاموشی سے جھگڑا دیکھ رہے تھے ۔
عورت نے اپنی نم آنکھیں چادر سے رگڑیں ۔ سیٹ سے اُٹھ کر ذرا آگے آ کر ، ہینڈل کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی ۔
خاتون نے ہنکارا بھرا ۔ اور منہ پھیر لیا ۔
مسافر ، اب بھی خاموشی سے ایک دوسرے کو چور نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔
ایک مٹی ۔۔۔ ایک آسمان ۔۔۔ مختلف لوگ ۔۔۔ اجنبی ۔۔۔
اجنبی جو اکٹھے سفر کر رہے تھے ۔۔۔
ایک اجنبی ، دوسرے اجنبی کو شرمندہ کر رہا تھا ۔۔۔ حالانکہ بارش تو سب پہ اُتری تھی ۔۔۔ کپڑے تو سب کے ہی خراب ہوئے تھے ۔۔۔۔
جوتے تو سب کے ہی کیچڑ سے اٹے ہوئے تھے ۔۔۔
مہیب خاموشی تھی ۔۔۔ بے چینی تھی ۔۔۔ جیسے کُچھ ۔۔۔ کُچھ غلط ہو اور ہمیں پتہ ہو ۔۔۔ لیکن ہم ٹھیک نہ کر پا رہے ہوں ۔۔۔
جیسے الجھن ہو ، سلجھ نہ رہی ہو ۔۔۔
جیسے جواب پتہ ہو ، لیکن سوال حل نہ ہو رہا ہو ۔۔۔
آنٹی?
میرے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی اپنی نشست سے کھڑی ہو گئی ۔ میں نے گردن موڑ کر دیکھا ۔
یہاں بیٹھ جائیں ۔
نہیں ۔ نہیں بیٹا ۔ وہ بوکھلا گئی ۔
بیٹھ جائیں ۔ وہ ملائمت سے مسکرائی ۔ اور اُس عورت کا ہاتھ پکڑ کر اسے میرے برابر بٹھا دیا ۔ ایسے ۔۔ جیسے پزل کے ٹکڑے اپنی اپنی جگہ پہ آ کر گرے ۔
عورت نے فوراً اپنا برقع سمیٹا ۔ جیسے اُسے خوف ہو میں بھی بگڑ پڑوں گی ۔
آنٹی ۔ پرسکون ہو کر بیٹھیں ۔ میں نے کہا ۔
بیٹا میرا ۔۔۔ وہ برقع گیلا ۔
نہیں آنٹی ۔ ٹھیک ہے ۔ بارش ہے باہر ۔ آپ پرسکون ہو کر بیٹھیں ۔ میں نے نرمی سے اُسے تسلی دی ۔
ہینڈل کا سہارا لے کر کھڑی لڑکی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں میری طرف مسکراہٹ اچھالی ۔ میں بھی مسکرا دی ۔ایسے ۔۔۔ لمحے کے دسویں حصّے میں ۔۔۔ سوال حل ہو گیا ۔۔۔۔سکون سا اُتر آیا منظر میں ۔
وہ لڑکی سمجھدار تھی ۔۔۔
اُس لڑکی کو سوال حل کرنا آتا تھا ۔۔۔
مسافر ، خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔
عورت کے پریشان تاثرات ، اب تشکر کے جذبات میں بدل رہے تھے۔
دن خنک تھا ۔ باہر تیز بارش برس رہی تھی ۔۔۔ چند اجنبی اکٹھے میٹرو میں سفر کر رہے تھے ۔۔۔♥️
حرآ طارق
Facts Check!
Let's be honest.
دوران الیکشن ، عمران خان جیل میں تھا ۔ پارٹی پہ پابندی عائد ، انتخابی نشان بھی نہیں ملا پرانا ۔
اب بلے کا انتخابی نشان نہ دینا ، الگ چال ہے ۔ ہمارے حلقے میں بوڑھیاں پوچھتی پھر رہی تھیں ، پتر ، عمران دا نشان کی اے?
اب آبادی کے ایسے طبقے کو ، جو ضعیف ہے ، یہ پریشانی تو پڑی رہی کہ پہلے بلا یاد رکھ کے جاتے تھے ، مہر لگا دیتے تھے ۔ اب والا نشان کیا ہے ۔
پھر بھی PTI نے خاطر خواہ آگاہی پھیلائی انتخابی نشانات کے بارے ۔
جلسے جلوس بھی نہیں ہوئے ۔ معمول کے مطابق کمپئین بھی نہیں چلی ۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ یہاں سے کوئی کارکن نکلے گا ، وہاں سے پولیس نکلے گی ۔۔۔
لیکن عوام کا PTI کے حق میں turnout حیران کن تھا ۔ یہ بات واضح ہے، اُس شخص کو عوام میں مقبولیت حاصل ہے ۔ وہ کسی کو بھی کھڑا کرے گا ، کسی کی بھی حمایت کرے گا ، عوام اُس ہی کے امیدوار کو ووٹ دے گی ۔
ہم اندھے نہیں ہیں ۔ کہ دیکھ نہ پائیں ۔ رنگ کیسے بدل رہے ہیں ۔
ہم بیوقوف نہیں ہیں ، کہ سمجھ نہ پائیں ، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔
ہمیں خبر تھی ۔۔۔ الیکشن کا نتیجہ کیا نکلنا تھا ۔
پھر بھی ، ہم اُس جمہوریت کو رو رہے ہیں ، جس کے بارے ہمیں سو فیصد یقین ہے ، کہ اس ملک میں اُسکا کوئی وجود نہیں ۔
اِس وقت اگر کوئی موجودہ صورتحال پہ تبصرہ کرتے وقت مایوس نہیں ہے ، دل گرفتہ نہیں ہے ۔۔۔ تو بھئی ، وہ بندہ کسی باہر کے ملک میں بیٹھا ہے ۔
ایسے میں کوئی کیوں روۓ کہ ملک سے ، تاریخ کا سب سے بڑا brain drain چل رہا ہے ۔۔۔ یا اگر نوجوانوں کی اکثریت ، نوکری ، پڑھائی ، رہائش کے لیے مایوسی سے باہر کا رخ کر رہی ہے ، تو کسی کو کیوں تشویش ہو ۔۔۔۔?
یہاں تک کہ ایسے لوگ جو سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ہیں ، باہر جانے کا چھکا مارنے کے چکر میں ہیں تو کیا ہی کیا جائے اس بارے ?
یہ ۔۔۔ خوف ہے ۔۔۔
یہ بد دلي ہے ۔۔۔
یہ چڑچڑا پن ہے ۔۔۔ کہ نوجوان اب یہاں نہیں رہنا چاہتے ۔۔۔ وہ کسی دوسرے ملک میں تیسرے درجے کے شہری بن جائیں گے اگر یہ ڈھارس ہو کہ گھر والوں کو پیسے بھیج سکیں گے اچھے ۔
باہر کی دنیا میں جنگ چل رہی ہے پہلے بھی ۔ معیشت ، جاں به لب ہے ۔عمران خان کے آنے سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہنی تھیں ۔ عمران خان کیا ، نواز شریف ، بلاول ۔۔۔ کسی کے آنے سے حالات بہتر نہیں ہونے تھے کیونکہ وقت ہی Worldwide Political Chaos کا ہے ۔
پر اگر آنکھوں کے سامنے ، popular support رکھنے والے کسی کردار کے ساتھ یوں ہو رہا ہے ۔۔۔
پھر ، اُمید رکھنا حماقت ہے ، کہ سادے پانی کی کوئی نہر بھی بہے گی ۔۔۔
پھر توقع کرنا فضول ہے ، کہ اگلے پانچ سال تک کوئی بھی صبح روشن طلوع ہو گی ۔۔۔۔
پھر یقین رکھنا مضحکہ خیز ہے ، کہ پاکستان میں جمہوریت کا نظام رائج ہے ۔۔۔
خدا بھلا کرے ، پاپ کارن خرید کر بیٹھنا چاہیے تھا ۔۔۔ کیوں کہ (فلم تو چل ہی رہی ہے)
حرآ طارق
Picture credits : TRT World
ماں کا دل ♥️
ہم اسلام آباد سے گاؤں واپس آ رہے تھے ۔ دن روشن اور پرسکون تھا ۔ سڑک ہموار ، مزاج خوشگوار ۔ بس میں مسافر ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔
مزاحفي کی گود میں سالار سو رہا تھا ۔ اور میں ، اپنے فون پہ شطرنج کھیل رہی تھی ۔ منظر انتہائی ، خوبصورت سا تھا ۔
لیکن پھر ۔۔۔
یکا یک ، کوئی آواز آئی۔ بس کے پہیے چرچرائے ۔ پل بھر میں 180 کے زاویے پہ گھومی ۔ مسافروں کی چیخیں نکلنے لگیں ۔ جوان مضطرب ، بوڑھے استغفار کرنے لگے ۔ سب گھبرا گئے ۔
سالار نے زور زور سے رونا شروع کر دیا ۔
ایک ۔۔۔ وحشت کا عالم تھا ، جو ہر طرف طاری ہو گیا ۔
ڈرائیور نے بروقت بریک لگائی ۔ بس کے پچھلے حصے سے دھوں نکلنے لگا ۔ کالا ۔ سیاہ کڑوا دھواں ۔
اُس لمحے میں نے دھیان سے دیکھا ۔۔۔ لوگ کلمے کا ورد کر رہے تھے ۔۔۔ چیخ و پکار مچی ہوئی تھی اور مزاحفی ۔۔۔
مزاحفی سالار کو سینے میں چھپائے ، بے چینی سے تڑپے ۔ حرا ۔ میرا سالار ۔ میرا سالار ۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ سالار کو کہاں بحفاظت غائب کرے ۔
لوگ کھانس رہے تھے ۔ باہر بھاگ رہے تھے ۔ مزاحفی کو سالار کی پڑی تھی ۔
تم اِسکو لے کر فوراً باہر جاؤ ۔ اُس نے ، بچہ مجھے تھمایا ۔ باہر جاؤ ۔ دھواں ۔ میرا بچہ ۔
میں کسی مشینی انداز میں سالار کو بازوں میں تھام کر اُٹھ گئی ۔۔۔
لیکن میرا ذہن ۔۔۔ جیسے اٹک سا گیا ہو ۔۔۔
وہ اگر موت تھی ۔۔۔ تو سب کے لیے ، خطرناک تھی ۔۔۔
وہاں اگر دھواں تھا ۔۔۔ سب کا دم گھونٹ رہا تھا ۔۔۔۔
لیکن مزاحفی کو کسی چیز کی فکر نہیں تھی ۔ خود اپنی بھی نہیں ، سوائے سالار کے ۔۔۔
جہاں لوگ استغفار کر رہے تھے ، اُس کے لبوں سے سالار کی سلامتی کی دعائیں نکل رہی تھیں ۔۔۔
ہم ہاسٹل میں تھے ۔ کمرے میں بلی کا بچہ آیا ۔ سب لڑکیاں اُس سے کھیلنے لگیں ۔ یونہی بے دھیانی میں کسی نے دروازہ بند کر دیا ۔
اب باہر بلی دروازہ نوچے ۔ چکر لگائے ۔ اُس کا بس نہ چلے ، کیسے اپنا بچہ باہر لائے ۔
لڑکیوں نے دروازہ کھولا ، تو وہ اپنے بچے پہ جھپٹی ۔ اور اُسے اٹھا کر لے گئی ۔۔۔
یونہی میں گھر میں سامان اٹھا کر لا رہی تھی ۔ ٹیبل پڑا تھا راستے میں ۔ آنکھوں کے سامنے سامان تھا ، رستہ نظر نہیں آیا ۔ ٹھوکر لگی زور سے ۔
اماں تیزی سے کمرے میں آئیں ۔
کیا ہوا ۔ ہائے ۔ چوٹ زیادہ لگ گئی? تم مجھے دکھاؤ ۔
اب وہ آہ بھریں میرا زخم دیکھ کے ۔ کلسیں ۔ اِس قدر پریشان ہوں کہ میں کیسے ٹھیک کروں اسے ۔۔۔
میں قدم زمین پہ رکھوں ، وہ سسکی بھریں ۔ اُنہیں مجھ سے زیادہ درد ہوا تھا مجھے چوٹ لگنے کا ۔۔۔۔
اللہ ، ماؤں کے دل جانے کس مٹی سے تخلیق کرتا ہے ۔۔۔ جو پھیل جاتا ہے ۔۔۔ اولاد کی خاطر ۔۔۔
نرم پڑ جاتا ہے ، محبت میں ۔۔۔۔
سہم جاتا ہے ، تڑپ اٹھتا ہے ۔۔۔ بچے کی تکلیف دیکھ کر ۔۔۔۔
ماں کا دل ۔۔۔۔ جو بے چین ہو جاتا ہے ۔۔۔ اولاد کو مشکل میں دیکھ کے ۔۔۔
اس لمحے ۔۔۔ مجھے احساس ہوا ۔۔۔ اماں حاجرہ ، کیسے پہاڑیوں کے درمیان دوڑی ہوں گی ۔۔۔ کہ ریت ہے ۔۔۔ تپش ہے ۔۔۔ بچہ پیاسا ہے ۔۔۔
کیسے اضطراب میں انہوں نے چکر لگائے ہوں گے ۔۔۔ ایک بار نہیں ، دو بار نہیں ۔۔۔سات بار ۔۔۔
کیسی تڑپ ہو گی اُن کے سینے میں ۔۔۔۔
قصہ یوں ہے ۔۔۔
دنیا ، زندگی ، رنگ و بو ۔۔۔۔ سب بے معنی ہے ۔۔۔۔
بامعنی ہے ۔۔۔ وہ محبت ، جو بے غرض ہے ۔۔۔
وہ کردار ، جو مہربان ہیں ۔۔۔
وہ سارے دل ۔۔۔ جو ماؤں کے ہیں ♥️
حرآ طارق
Amidst Evergreen Chaos, A repost:
گرگ صفت !
کم سنی کے دنوں کی بات ہے یہ
دادی امّاں سنایا کرتی تھیں ۔۔۔
قصہ اک ایسے بھیڑیے کا جو
اوڑھ کر کھال بھیڑ کی خود پہ
ریوڑوں کا شکار کرتا تھا ۔۔۔
پہلے بہلاتا ایک اک کو وہ ۔۔۔
دھار کر مہربان روپ کوئی ۔۔۔
بانٹ دیتا دھیان كتے کا ۔۔۔
اور دھوکے سے وار کرتا تھا ۔۔۔
اور ہم اُسکی وارداتوں کو
سن کے تالی بجایا کرتے تھے ۔
بھیڑوں کی بے وقوفی پہ ہنستے ۔۔۔
اور تمسخر اڑایا کرتے تھے ۔۔۔
ہاں مگر ، رات کی خموشی میں ۔۔۔
سوچتی تھی میں ، اُس سے گھائل پھر
کوئی دکھیاری بھیڑ بھی ہو گی ۔۔۔
جانتی ہو گی اس کو مخلص جاں
اپنا محسن سمجھ رہی ہو گی ۔۔۔
جھپٹا ہو گا جب اس کی شہہ رگ پہ ۔۔۔
کون (con) کے اختتام پہ ، روحیٓ
دھیڑتا ہو گا ٹانکے ریشوں کے ۔۔۔
بھیڑ کتنی دکھی ہوئی ہو گی ۔۔۔۔
کس طرح بے بسی کے عالم میں ۔۔
آخری سانس اُس نے لی ہو گی ۔۔۔!
کس قدر موت بے یقیں ہو گی ۔۔۔!
ویسا ہی ایک بے نشاں ریوڑ ۔۔۔
مجھ کو اپنی یہ قوم لگتی ہے ۔۔۔
بانٹتی ہے جو دکھ اسیروں سے ۔۔۔
اور اپنا اُنہیں سمجھتی ہے ۔۔۔
شام کے دھندلکے سے پہلے پہل
اس کو سب مہرباں بتاتے ہیں ۔۔۔
اسکے سب مسئلے اُنہی کے ہیں ۔۔۔
حل کریں گے وہ سب گلے شکوے۔۔
اسکے دکھ درد وہ سمجھتے ہیں ۔۔۔
مان کر اُن کو محرمِ حالات۔۔۔
کلمہ پڑھ لیتے ہیں سبھی اُن کا ۔۔۔
موند لیتے ہیں آنکھ رستوں سے ۔۔۔
کر لیا کرتے ہیں یقیں اُن کا ۔۔۔
کوئی شک بھی نہیں کیا کرتا ۔۔۔
کہ یہ کردار ۔۔۔ مطلبی سے ہیں ۔۔۔
انکے حلیے ، ہیں مختلف ہم سے ۔۔۔
اور خدوخال اجنبی سے ہیں ۔۔۔
جن کو بڑھ کر گلے لگاتے ہیں ۔۔۔
اُن کے دل بھیڑیوں کے جیسے ہیں ۔۔۔!!
حرآ طارق 🌃
سماجی رابطے کی apps پہ موجود ہمارا ڈیٹا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے ۔۔۔
چند دن پہلے ، مجھے ایک دوست نے میسج کر کے کہا ، تم گاؤں پہنچ گئی ? مجھے حیرت ہوئی ۔ کیونکہ میں پچھلے دو دن سے سفر میں تھی ، اور اس کو خبر نہیں کی تھی ۔ واقعی اس وقت مجھے گھر پہنچے دس بیس منٹ ہوئے تھے ۔
میں نے پوچھا ، تمہیں کیسے معلوم ?
اس نے سکرین شاٹ بھیجا ۔ کہ Snapchat نے بتایا ۔ تم کہاں سے کہاں کا سفر کر رہی تھی آج ۔
میری تو سٹی گم ہو گئی ۔
میں تو خوامخواہ کسی کو بھی add کر لیتی تھی SC پہ جب نیا فون تھا ، اور ایک عرصے سے میں نے یہ بھی دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ میرے ساتھ add کون کون ہے ۔
یہ خیال ، کہ میری location ، میری لسٹ کے ہر بندے تک جا رہی ہے ۔۔۔ مجھ پہ کپکپی طاری کر گیا ۔
فوراً سے پہلے میں نے ، سیٹنگ میں جا کر پرائیویسی تبدیل کر دی ۔
دوسری بار ، مجھے ایک لڑکی کی طرف سے friend request آئی جو میری کالج کی سہیلی تھی ۔ اب یہ میرے ساتھ پہلے سے add تھی فیس بک پہ ۔
میں نے اس سے پوچھا ، بدتمیز تم نے مجھے unfriend کیا تھا ?
وہ ٹکر ٹکر میرا چہرہ دیکھنے لگی ۔
نہیں ، میں نے تو نہیں کیا ۔
میں نے فون دکھایا اُسے ، کہ کل تمہاری request آئی ہے ۔
دو منٹ میں اُسکا دماغ گھوم گیا ۔ شہر کا نام ، کالج کا نام ، جائے پیدائش ، پڑھائی کے مضامین یہاں تک کہ تصویر بھی اُسکی تھی ۔
مجھ سے قسم اٹھوا لو ، یہ میرا اکاؤنٹ نہیں ہے ! وہ رونے والی ہو گئی ۔
ہم نے وہ ID رپورٹ کر دی اور دوسروں سے بھی کروائی ۔ لیکن محض یہ خوف کہ کوئی کس قدر آسانی سے شناخت چوری کر کے ، ہمارے معاملات پہ اثر انداز ہو سکتا ہے ، میرے ذہن میں کئی سوال کھڑے کر گیا ۔
تیسرا واقعہ ، پرسوں پیش آیا ۔
میں اور سنی کام کر رہے تھے ۔ میں نے اُسکا گوگل اکاؤنٹ مانگا ۔ اور اُسکا فارم فل کیا ۔ آگے تصویر مانگ رہے تھے ، میں نے اسے کہا ، WhatsApp کرو ۔
اب وہ ابھی دیکھ رہا تھا فون سے کہ کونسی بھیجوں ۔ اِدھر میرے پاس Google photos کا آپشن آیا ۔ میں نے کلک کیا ۔۔۔
عمومی تصویریں ، فنکشن کی ، آفس کی ، ۔۔۔ پورا البم کھل گیا ۔
وہ مجھے دیکھے ، کہ یہ کیا ہوا ?
میں نے اسے بتایا ، یہ گوگل فوٹوز ہیں ۔ تمہارا اکاؤنٹ جس کے پاس بھی ہو گا ، اُسکی access ہو گی ان پہ خودبخود ۔
لہٰذا اگر کسی کو بھی دینا پڑے اکاؤنٹ ، خود موجود رہ کر کام کروانا کس قدر اہم ہے ۔ اور اپنی نگرانی میں logout کروانا بھی کس قدر اہم ہے ۔
کیونکہ صرف تصویریں ہی نہیں ، گوگل اکثر پاس ورڈ ، اہم emails اور لوکیشن بھی محفوظ رکھتا ہے ۔
ہر application کی سیٹنگ میں ، کُچھ اختیارات محفوظ ہوتے ہیں ۔ جیسے ، کیا آپ اسے اپنے call record تک رسائی دیں گے? گیلری اور تصویروں تک رسائی دیں گے? کیا یہ آپ کی location پتہ رکھ سکتی ہے ?
ہم عموماً بغیر سوچے سمجھے ، سارے اختیارات ان کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں ۔ نتیجتاً ، ہمارا ڈیٹا ، جانے کن کن کے ہاتھوں تک پہنچتا ہے ۔
نہ صرف ڈیٹا ، بلکہ ہم فون پہ کیا کُچھ کھول رہے ہیں ، یہ معلومات بھی ان تک پہنچتی ہے ۔ ہماری activity کو دیکھ کر ، ہمیں اشتہارات دکھنے شروع ہو جاتے ہیں ۔
انسٹا گرام پہ کوئی کپڑوں کی دکان دیکھ لی ، تو فیس بک کھولتے ہی سامنے کپڑوں کے اسٹال آنے لگیں گے ۔
گوگل پہ سرچ کر لیا کہ فلاں بیگ کتنے کا ہے ۔ تو اور app اپنے الوگریثم کی مدد سے خود ہی بیگ دکھانے لگے گی ۔۔۔
شناخت کی چوری ، ڈیٹا کی چوری ۔۔۔ اور ہمارے علم کے بغیر ، اُس کا پھیلاؤ ۔ ہماری ذات کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
سب سے بڑی بات کہ ہم کس وقت کہاں موجود ہیں ۔۔۔ یہ تو کچھ ایسی apps بھی پتہ کر رہی ہوتی ہیں جن کا واسطہ ہی نہیں اس معلومات سے ۔ اب میسنجر کو کیوں درکار ہے ہماری location? یا SNapchat کو کیوں نشر کرنا پسند ہے ہم کہاں کا سفر کر رہے ہیں ?
ایڈیٹنگ کی کسی app کو ہمارے کال لاگ میں کیوں دلچسپی ہے ? اور کسی مزید بے مقصد app کو ہمارے کیلنڈر کا حساب کیوں رکھنا ہے ?
آج ایک دوست کا ، SC نے نوٹیفکیشن دیا کہ وہ کہاں سے کہاں سفر کر رہا ہے ، تو خیال آیا لکھنے کا ۔۔۔ کہ apps کو کس حد تک ڈیٹا تک رسائی دینی ہے ، اِسکا علم رکھیں ۔
اپنے معاملات کی اشاعت کرتے وقت ، باخبر رہیں ، کہ اطلاع کس کس تک پہنچے گی ، دائرہ کس قدر وسیع ہے ، اور نتائج کس قدر سنگین ہو سکتے ہیں ۔
اپنے ڈیٹا کی حفاظت خود کریں ۔
محتاط رہیں ، محفوظ رہیں ۔
حرآ طارق
سر اکثر کہا کرتے تھے ۔۔۔
Nothing is permanent in International Relations ۔۔۔ friendships ۔۔۔ agreements ۔۔۔ circumstances ۔۔۔; literally anything can change any day !
یقینی واقعی کُچھ نہیں ہے ۔
روس نے یوکرین پہ حملہ کیا تو عمومی رائے یہی تھی کہ روس ، یوکرین کے مقابلے میں دیو ہیکل ہے ۔۔۔ طاقتور ہے ۔۔۔اُس کا زیادہ حصہ غضب کر لے گا ۔ جنگ ہر طرف پھیل جائے گی ۔۔۔ ایٹمی ہتھیار استعمال ہوں گے ۔۔۔
مگر حالات یوں ہیں کہ سال گزر جانے کے بعد بھی ، جنگ ، محدود ہے ۔ Low intensity conflict ہے ۔ بڑھ کر ساری دنیا میں نہیں پھیلی ۔
نہ ہی روس ، فیصلہ کن جیت حاصل کر سکا ہے ۔۔۔ ایٹمی ہتھیاروں تک بات پہنچی ہی نہیں ۔
یوکرین نے اب تک ٹکر دی ہے روس کو ۔
لیکن فلسطین - اسرائیل کے معاملے میں جانے مجھے کیوں خوف ہے ۔۔۔ کہ فلسطین مزید زمین گنوا دے گا ۔
ابتدا میں ، اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ، اُس زمین میں دو ملکوں کو آباد کیا جانا تھا ۔ عرب ممالک کی چڑھائی کے بعد ، اسرائیل نے فلسطینیوں پہ زندگی تنگ کر دی ۔
عرب ممالک خود تو شکست کے بعد ، معاہدے کر کے پیچھے ہٹ گئے ۔ فلسطینی تباہ حالت میں رہ گئے ۔
ہر جھڑپ کے بعد ۔۔۔ اسرائیل مزید طاقتور بن کر پھیلتا گیا ۔۔۔ فلسطین مزید کمزور ہوتا گیا ۔۔۔
اب بھی حماس آخر کب تک جنگ جاری رکھ لے گا ? اسرائیل کے ساتھ امریکہ ہے ۔۔۔ فلسطین کے ساتھ تو زبانی کلامی بھی ایران کے سوا ملک نہیں آٹھ رہے ۔۔۔
آخر کو یہ بھی ایک LIC بن جائے گا ۔۔۔ ایک محدود رقبے تک محدود تنازعہ ، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پہ ہجرت ہو گی ۔ فلسطینی ، آس پاس کے ممالک میں پناہ گزیر ہونے پہ مجبور ہو جائیں گے ۔ اور اسرائیل ، رہی سہی غزہ سٹرپ بھی ہضم کر جائے گا ۔۔۔۔
مجھے خواہش ہے ، جو کچھ ظاہراً نظر آ رہا ہے مجھے ، ویسا نہ ہو ۔۔۔ اُمید بھی ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں کُچھ بھی یقینی اور پائیدار نہیں ہوتا ۔ عین ممکن ہے جنگ بڑھ جائے اور انجام فلسطین کی جیت ہو ۔۔۔
مگر پھر یاد آتا ہے ۔۔۔ یہ وہ دور ہے ۔۔۔ جب فرشتے بھی نہیں اترتے ۔۔۔ کیونکہ مسلمان خود دشمنوں کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے گا ۔۔۔
اللہ رحم کرے!
حرآ طارق
ہجوم 🌪️
3/08/23
باجی ۔۔۔ یہ کنگھی خریدو گی ۔۔۔? صرف پچاس کی ہے ۔۔۔ آٹھ نو سالہ بچے نے مجھے متوجہ کرتے ہوئے کہا تو میرا ماتھا ٹھنکا ۔ ایک تو گرمی سے بُرا حال تھا ، دوسرا یہ ہر سڑک پہ کچھ نہ کچھ فضول بیچنے والے پھیری گرد ۔
میں بگڑ گئی ۔
یہ کونسی جگہ ہے کنگھیاں بیچنے کی ? سہ منزلہ مال کے سامنے کون ایسی چھوٹی چیز بیچتا ہے ۔۔۔?
تمہیں لگتا ہے تیزی سے گزرتی گاڑیوں میں بیٹھے لوگ ، خصوصی طور پہ یہ کنگھی خریدنے رکیں گے ۔۔۔? کوئی ایسی چیز بیچو جو اشد ضرورت کی ہو ۔ تم ٹشو رکھ لو ، یا ۔۔۔چلو پانی کی بوتلیں ۔۔۔ ہونہہ ۔
وہ ٹکر ٹکر مجھے دیکھنے لگا ۔ ایسا جواب کسی نے نہیں دیا ہو گا ۔
لیکن مجھے کونسا پرواہ تھی ۔ مجھے واحد فکر ، سڑک پار کر کے اپنی گاڑی تک پہنچنے کی تھی ۔۔۔
عجیب حبس بھرا دن تھا ۔ سورج عین سر پہ تھا ۔ بازار میں خلقت جیسے ٹوٹی پڑی تھی ۔ بھانت بھانت کے لوگوں کا ایک جم غفیر تھا ۔ دکانوں کے باہر لگے رنگا رنگ اشتہارات ، خریداروں کو مائل کر رہے تھے ۔۔۔رکشے ، یہاں وہاں حرکت کرتے نظر آ رہے تھے ۔۔۔
اِس بھیڑ میں مجھے وحشت ہو رہی تھی ۔۔۔۔
وقت انسان کو کس قدر بدل دیتا ہے ۔۔۔ وہی میں تھی ۔۔۔ بھیڑ میں روشن بلب کی طرح چمکتی ۔۔۔ زندگی سے لبریز چیخیں مارتی ۔ شعلے سی بھڑکتی ۔ میرے ارد گرد کرداروں کا ایک ہجوم تھا ۔ شادی اور پھر عبدااللہ کے آنے کے بعد تو میں مزید زندگی سے بھر گئی ۔۔۔
مجھے گھلنا ملنا شدید پسند رہا ۔ بھیڑ بھاڑ سے ویسی ہی دلچسپی رہی ۔
مگر پچھلے چار سال سے میں کسی پر ہجوم جگہ پر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ دس سے زیادہ لوگوں کی موجودگی میں میرا دم گھٹنے لگتا ۔ جسم ٹھنڈا پڑ جاتا ۔ اور چکرا کر گر جاتی ۔
چار سال پہلے ہی وہ سانحہ ہوا تھا ۔۔۔ میں عبداللہ کے ساتھ بازار آئی تھی ۔ سفید شلوار قمیض میں وہ روئی کا گڈا لگ رہا تھا ۔۔۔۔اس قدر پیارا ۔۔۔ اس قدر حسین ۔۔۔
گو وہ اب چار سال کا ہو گیا تھا مگر پھر بھی اُسکی زبان ابھی صاف نہیں ہوئی تھی ۔ وہ پورے فقرے نہیں بولتا تھا ۔۔۔
بولتے بولتے تتلا جاتا ۔۔۔ اس لیے بس اکثر بولتا ۔۔۔۔" اماں ۔۔۔?" اور میں خود ہی اندازہ کر لیتی کہ اِسے کیا چاہیے ہو گا ۔۔۔
ابھی بھی یونہی ہوا ۔۔۔
اماں ، ? اُس نے بھولی سی شکل بنا کر ائس کریم کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
لیتے ہیں نا میری جان ۔ مجھے ڈھیروں ڈھیر پیار آ گیا ۔ میں نے اُسکے گال چوم ڈالے ۔ پھر سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔
اندر وہ رش تھا کہ الامان ۔ عورتوں نے جیسے ساری خریداری اِس ایک رات کو ہی کرنی تھی ۔ چھت میں نصب چمکتی روشنیوں کا عکس ، فرش پہ پڑ رہا تھا ۔ یہاں وہاں رنگ برنگ دوپٹے لہرا رہے تھے ۔۔۔ مسکراہٹیں ۔ قہقہے ۔۔۔ میرا موڈ خوشگوار ہو گیا ۔ چہل پہل بیحد پسند تھی مجھے ۔
عبداللہ ، والہانہ انداز میں سیڑھیوں کے پاس کھڑے ، مکی ماؤس سے لپٹ رہا تھا ۔ میں آئس کریم پیک کروا رہی تھی۔
اچانک ۔۔۔ فضا میں دھماکے کی آواز گونجی ۔۔۔ سب لرز کر رہ گئے ۔ لمحے کے اندر اندر ایک اور کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا ۔ ہال دھوئیں سے بھرنے لگا ۔ عقبی حصے میں آگ بھڑک اٹھی تھی ۔
۔ لوگ افترتفری میں بھاگنے لگے ۔ عورتیں ، بچے چیخنے لگے۔
عبداللہ ۔۔۔ میں متوحش ہو کر زمین سے اُٹھی ۔ سیاہ دھوئیں میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ۔
عبداللہ!! میں گلا پھاڑ کر چلّائی ۔ مگر آواز ہجوم میں گھٹ رہی تھی ۔ لوگ ایک دوسرے کو بری طرح دھکے دے رہے تھے ۔ میری آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو گیا ۔ میں دیوانہ وار سیڑھیوں کی طرف لپکی ۔ جہاں میں نے اسے دیکھا تھا ، مگر اب وہاں الٹا ہوا بینچ پڑا تھا ۔
عبداللہ ۔۔۔! میں پوری قوت سے دھاڑی ۔ کھانس کھانس کر میرا اپنا حال برا ہو رہا تھا ۔
میڈم ۔ باہر نکلیں ۔۔۔ آگ پھیل رہی ہے ۔۔۔ کسی ورکر نے مجھے چیخ کر بتایا ۔
میرا بیٹا ۔۔۔ میرا بچہ ۔۔۔وہ ۔۔۔
میں روہانسی ہو رہی تھی ۔
میڈم پلیز ۔ ہم دیکھتے ہیں کسی کے ساتھ باہر نکل گیا ہو گا ۔ آپ باہر نکلیں ۔ وہ میرا بازو پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا ۔
کیسے گرتے پڑتے میں سیڑھیاں اُتری ۔ خارجی دروازے پہ بھیڑ تھی ۔ آخری سیڑھی اترتے ہوئے میں لڑکھڑا کر گری ۔ میرا ہاتھ بھیگ گیا ۔
کراہتے ہوئے میں سیدھی ہوئی ۔۔۔ دھوئیں میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا ۔۔۔ تو روح فنا ہونے لگی ۔۔۔ میرا ہاتھ سرخ ہو رہا تھا کسی کے خون سے ۔۔۔
زمین پہ کچلی مسلی حالت میں پڑا وہ وجود کس کا تھا ۔۔۔۔? جو بند آنکھوں سمیت بے جان پڑاتھا ۔۔۔وہ کس کے لب تھے جن سے " اماں " کی آواز آیا کرتی تھی ۔۔?
عبد ۔۔۔۔ میرا دل جیسے رک سا گیا ۔۔۔ لوگوں کی چیخیں ۔۔۔ بچاؤ بچاؤ کی آوازیں ۔۔۔ سائرن ۔۔۔ سب ۔۔۔سب طرف خاموشی چھا گئی ۔۔۔ میں جہاں تھی ، وہیں تھم گئی ۔۔۔
ہر طرف دھند چھا رہی تھی ۔۔۔ کالی ۔۔۔ سیاہ دھند ۔۔۔
" بس پیچھے کسی دکان میں شارٹ سرکٹ ہوا ۔۔۔ آگ لگی ۔ لوگوں کی دھکم پیل میں بچہ دوسری منزل سے گرا ۔ پیروں کے نیچے آ کر قیمہ بن گیا ۔ وہیں موقعے پہ جان ختم ہو گئی بہن ۔۔۔ ہسپتال جانے کی نوبت ہی نہیں آئی ۔ "
میں خاموشی سے ، کسی خاتون کو عبداللہ کی موت کا قصہ دہراتے ہوئے سن رہی تھی ۔
عورتیں مجھے گلے لگا کر بین کر رہی تھیں ۔۔۔ مجھے ہر ایک وجود سے نفرت ہو رہی تھی ۔۔۔
میرا بچہ آگ سے نہیں مرا تھا ۔۔۔ دھکم پیل سے مرا تھا ۔۔۔ وہ سب لوگ قاتل تھے ۔۔۔
وہ دن تھا کہ مجھے ۔۔۔ مجمعے سے وحشت ہونے لگی ۔
کیا ستم ہے نا ۔۔۔۔ انفرادی طور پر انسانوں کا برتاؤ کس قدر مختلف ہوتا ہے ۔۔۔ وہ سلجھا پن ۔۔۔ملائمت ۔۔۔ شائستگی ۔۔۔ جو سب کے مزاج سے جھلکتا ہے ۔۔۔ آفت میں کیسے غائب ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
ہجوم میں ۔۔۔ انسان کا اصل جھلک کر باہر آتا ہے ۔۔۔ جہاں کوئی غور سے کسی ایک کردار کو نہیں دیکھ رہا ہوتا ۔۔۔ سو اپنی اصلیت کے ساتھ برتاؤ کرنے کی سہولت ہوتی ہے ۔۔۔۔لہٰذا ۔۔۔ منظر میں ۔۔۔
صرف طاقت باقی رہ جاتی ہے اور مفاد ۔۔۔۔
ایک بے نتھے بیل کی مانند ہوتا ہے ہجوم ۔ اور مفاد ، سرخ جھنڈے کی مثل ، نظر آتا ہے اُسے ۔۔۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے ۔۔۔جب یہ سرخ جھنڈا لہرایا جائے ۔۔۔
مجھے احساس ہوا ، انسان کیسے ۔۔۔ اخلاقیات ۔۔۔تحمل ۔۔۔ سب کچھ بھول سکتا ہے ۔۔۔ اور مصیبت کے لمحے ۔۔۔ ہنستے مسکراتے لوگ کیسے ایک وحشی ہجوم بن سکتے ہیں ۔۔۔
چار سال میں ،میں نے کتنے سائیکالوجسٹ بدلے ۔ کتنے لوگوں سے مشورے لئے ۔ نہ میری آنکھ سے کبھی آنسو ٹپک سکے ۔۔۔ نہ میرے اندر کسی پرہجوم جگہ جانے کا حوصلہ پیدا ہو سکا ۔
یہی نہیں ، میں ایک انتہائی بد لحاظ ، بد تمیز عورت بن گئی ۔۔۔ ہر ایک کو کھری کھری سناتی ۔ لوگ مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی کترانے لگے ۔
شام کے دھندلکوں میں ۔۔۔ رات کی تاریکی میں ۔۔۔
رہ رہ کر دل کو یاد آتا ۔۔۔ کیسے پیار سے بولتا تھا ۔۔۔" اماں ۔۔۔? " اور آخری بار تو مجھے پکار بھی نہیں سکا تھا ۔۔۔
اللہ دے ناا تے دے دے باجی ۔۔۔ ایک عورت نے میرے سامنے ہاتھ پھیلایا تو میں چونکی ۔ اُس نے ایک کمزور سے بچے کی انگلی تھام رکھی تھی ۔ جس کا بدن نیکر کے سوا کسی بھی کپڑے سے بے نیاز تھا ۔
چھی! میں ناک پہ ہاتھ رکھ کر ہٹی !
کس قدر بو آ رہی ہے تم سے ۔۔۔
ااور کم از کم اسکو جوتے ہی پہنا دیتی اِسے۔۔۔ تپتی سڑک پہ گھسیٹ رہی ہو ساتھ اُسے ۔ اپنا نہیں تو اُسکا خیال کر لو ۔۔۔۔
عورت نے مایوس سا منہ بنایا ۔۔۔ اور دوسری طرف چل دی ۔
اُسکا روز کا دھندا تھا ۔ جس قدر مفلوک الحال نظر آتی ، اُس ہی قدر کمائی ہونی تھی ۔ بچہ ساتھ میں ، اشتہار کے طور پہ تھا ۔ کہ لوگ مزید ترس کھائیں ۔
وہ اب میرے سامنے چلتی ہوئی ایک اور گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ بچہ لڑکھڑاتے ہوئے چل رہا تھا ۔
میں نے سر جھٹک کر قدم بڑھائے ۔ اور سڑک پار کرنے لگی ۔ فضا میں ہارن گونجا ۔ پیچھے سے ایک سیاہ گاڑی تیزی سے آئی ۔ میں گھبرا کر پلٹی ، ڈرائیور بریک لگانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ مگر شاید وہ فیل ہو چکے تھے ۔ بچہ سڑک کے عین بیچ میں تھا ۔۔۔ میں نے بیقراری سے جست لگائی ۔ اُسے اپنے بازوں میں سمیٹ لیا ۔ گاڑی پوري قوت سے آ کر مجھ سے ٹکرائی ۔۔۔ لوگوں کی چیخیں بلند ہوئیں ۔
میرا وجود بلند ہوا اور سڑک پہ دھم سے گرا ۔میرے سر سے خون بہنے لگا ۔۔۔جھلس ۔۔۔جلن ۔۔۔رگڑ ۔۔۔۔تکلیف ۔۔۔۔
ہر شے پہ وہی منحوس سیاہ دھند چھانے لگی ۔۔۔ ایک تاریکی تھی ۔۔۔جو ہر طرف پھیل رہی تھی ۔۔۔سکوت ۔۔۔خاموشی ۔۔۔
پیروں پہ نمی کا احساس ہوا تو میری حسیات بیدار ہونے لگیں ۔۔۔ وہ میرے پیروں سے سر ٹکائے رو رہی تھی۔۔۔
آہ ۔۔۔ میں کراہی ۔
باجی ۔۔۔ باجی میں کیویں تاہاڈا شکریہ ادا کراں ۔۔۔ باجی توہاں میرا بچہ بچا لیا باجی ۔۔
میں تاہاڈی غلام ۔۔۔ میری باقی زندگی توہاں قربان ۔۔۔
وہ لڑکا جسے میں نے کنگھیاں بیچنے پہ ڈانٹا تھا ، وہیں تھا ۔۔۔ عورتیں ۔۔۔ جو میرے پاس پانی لئے بیٹھی تھیں ، مرد جو ایمبولینس کو کال کر رہے تھے ۔۔۔
بچے ۔۔۔۔اور جانے کون لوگ ۔۔۔ لوگ جنہیں میں نہیں جانتی تھی ، سو میرے لئے وہ ہجوم کی مانند ہی تھے ۔۔۔
مگر ہجوم خود ، بری شے تو نہیں ۔۔۔ انسان ۔۔۔وقت ۔۔۔ حالات ۔۔۔ اِسے اچھا یا بُرا بناتے ہیں ۔۔۔
مفاد پرست ہو تو وحشت ہے ۔۔۔مگر
جہاں کہیں مہربان کردار نظر آ جائیں۔۔۔ ہجوم ، ہجوم نہیں رہتا ۔۔۔محبت کا حلقہ بن جاتا ہے ۔۔۔
وہ سب بھی ہجوم کا حصہ تھے ۔۔۔ میں خود بھی ہجوم کا حصہ ہوں ۔۔۔ اور عین ممکن ہیں معجزے ۔۔۔۔ خوب ممکن ہے اجنبیت کا محبت میں بدل جانا ۔۔۔
ہجوم کا ، کردار بن جانا ۔۔۔۔
میں نے اپنے بازوں میں بھرے وجود کو دیکھا ۔۔بھوری آنکھوں والا بچہ ۔۔۔بہ حفاظت تھا۔
دل نے ایک سکون کی سانس خارج کی ۔۔۔مجھے لگا ۔۔۔ جیسے عبداللہ نے ابھی ابھی کہا ہو ۔۔۔۔" اماں ۔۔۔۔? "
میں نے آنکھیں موندیں ۔۔۔میرے آنسو پلکوں کی دہلیز توڑ کر بہہ نکلے ۔۔۔
حرآ طارق ❤️
گرگ صفت
کم سنی کے دنوں کی بات ہے یہ
دادی امّاں سنایا کرتی تھیں ۔۔۔
قصہ اک ایسے بھیڑیے کا جو
اوڑھ کر کھال بھیڑ کی خود پہ
ریوڑوں کا شکار کرتا تھا ۔۔۔
پہلے بہلاتا ایک اک کو وہ ۔۔۔
دھار کر مہربان روپ کوئی ۔۔۔
بانٹ دیتا دھیان كتے کا ۔۔۔
اور دھوکے سے وار کرتا تھا ۔۔۔
اور ہم اُسکی وارداتوں کو
سن کے تالی بجایا کرتے تھے ۔
بھیڑوں کی بے وقوفی پہ ہنستے ۔۔۔
اور تمسخر اڑایا کرتے تھے ۔۔۔
ہاں مگر ، رات کی خموشی میں ۔۔۔
سوچتی تھی میں ، اُس سے گھائل پھر
کوئی دکھیاری بھیڑ بھی ہو گی ۔۔۔
جانتی ہو گی اس کو مخلص جاں
اپنا محسن سمجھ رہی ہو گی ۔۔۔
جھپٹا ہو گا جب اس کی شہہ رگ پہ ۔۔۔
کون (con) کے اختتام پہ ، روحیٓ
دھیڑتا ہو گا ٹانکے ریشوں کے ۔۔۔
بھیڑ کتنی دکھی ہوئی ہو گی ۔۔۔۔
کس طرح بے بسی کے عالم میں ۔۔
آخری سانس اُس نے لی ہو گی ۔۔۔!
کس قدر موت بے یقیں ہو گی ۔۔۔!
ویسا ہی ایک بے نشاں ریوڑ ۔۔۔
مجھ کو اپنا یہ قوم لگتی ہے ۔۔۔
بانٹتی ہے جو دکھ اسیروں سے ۔۔۔
اور اپنا اُنہیں سمجھتی ہے ۔۔۔
شام کے دھندلکے سے پہلے پہل
اس کو سب مہرباں بتاتے ہیں ۔۔۔
اسکے سب مسئلے اُنہی کے ہیں ۔۔۔
حل کریں گے وہ سب گلے شکوے۔۔
اسکے دکھ درد وہ سمجھتے ہیں ۔۔۔
مان کر اُن کو محرمِ حالات۔۔۔
کلمہ پڑھ لیتے ہیں سبھی اُن کا ۔۔۔
موند لیتے ہیں آنکھ رستوں سے ۔۔۔
کر لیا کرتے ہیں یقیں اُن کا ۔۔۔
کوئی شک بھی نہیں کیا کرتا ۔۔۔
کہ یہ کردار ۔۔۔ مطلبی سے ہیں ۔۔۔
انکے حلیے ، ہیں مختلف ہیں ہم سے ۔۔۔
اور خدوخال اجنبی سے ہیں ۔۔۔
جن کو بڑھ کر گلے لگاتے ہیں ۔۔۔
اُن کے دل بھیڑیوں کے جیسے ہیں ۔۔۔!!
حرآ طارق 🍁
کچھ خیال کرو ۔ بے ہنگم سا جسم ہوتا جا رہا ہے تمہارا ۔ پھیلتی جا رہی ہو تم !
اپنی کتابیں بستے میں رکھتے میں نے پلٹ کر دیکھا ۔ خاتون مجھ پہ ہی تبصرہ کر رہی تھیں ۔ ساتھ تنقیدی نظروں سے میرے سراپے کا جائزہ بھی لیا جا رہا تھا ۔
میں اُٹھی ۔ باورچی خانے سے چھری لی۔ اور لا کر اُن کے سامنے کر دی ۔
" یہ لیں " ۔
ایں? اس کا کیا کروں گی میں ?
" جہاں جہاں سے پھیل رہی ہوں میں ، وہاں سے کاٹ کر ٹھیک کر دیں " میں نے معصومیت سے کہا ۔
وہ گڑبڑا کر رہ گئیں ۔
لیکن یہ قصہ آج کا تو نہیں ہے ۔۔۔ یہ تو معمول ہے ۔۔۔
طنز ، دبی دبی سرگوشیاں ۔۔۔ بلند آواز تبصرے ۔۔۔ یونہی تو ہوتا آیا ہے ۔ صرف میرے یا فربہی مائل لوگوں ساتھ نہیں ۔۔۔ اُن کے ساتھ بھی ، جو دبلے پتلے ہوں ۔
کل پرسوں ہی میرے ایک دوست کی تصویر پہ کسی نے تبصرہ کیا " اللہ کی شان دیکھو ۔ تنکے میں جان دیکھو " ۔ اور " دیکھو کہیں اڑ نہ جانا ہوا سے "
یونہی ایک بار ۔ مہر نے بہت چاؤ سے ایک لباس خریدا ۔ پہن کر باہر آئی ۔ تو دوسری دوست نے ہنستے ہوئے کہا " یوں لگ رہا ہے ہینگر پہ کپڑے ٹانگ دیئے ہیں ۔۔۔"
مہر خموشی سے واپس چلی گئی ۔۔۔۔وہ الگ بات کہ اس کی آنکھیں صبح کو سرخ ہو رہی تھیں ۔
اگر آپ کو لگتا ہے ۔ یہ تو مذاق ہے ۔ اتنا تو چلتا ہے ۔۔۔ تو یقین جانیں ، آپ دوسرے کنارے پہ نہیں کھڑے ہوئے ۔۔۔ آپ نہیں سمجھ سکتے کہ سننے والے پہ کیا گزرتی ہے ۔۔۔
وہ جو اُس پار کھڑے ہیں ۔۔۔ اِس پار کھڑے ہووں کا دکھ نہیں سمجھتے ۔۔۔
ایک دن ۔۔۔ دو دن ۔۔ مہینہ نہیں ۔۔۔
ایسے لوگ بھی تبصرہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ، جن سے ہم بے تکلف بھی نہ ہوں ۔۔۔
پاکستان میں یہ ریت ، زیادہ تر عوام کی ہڈیوں میں بیٹھی ہوئی ہے ۔۔۔
پڑھے لکھے لوگ ۔۔۔ باشعور لوگ ۔۔۔ اور بعض اوقات عالم فاضل لوگ ۔۔۔ اس معاملے میں ایک مخصوص قطار میں آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔۔۔
وہ قطار ، جو ہنستی ہے ۔۔۔
اُنگلیاں اٹھاتی ہے ۔۔۔
کس کو کیسے ہونا چاہیے ۔۔۔ کون کیسے مناسب ہے ۔۔۔
اصول بناتی ہے ۔۔۔
مہر ۔۔۔ میں اور رومی ۔ خموشی سے سنتے رہتے ہیں ۔ کبھی ، بول کر body shaming کرنے والوں کو روک بھی دیتے ہیں ۔۔۔ لیکن اکثر ، سوچتے رہتے ہیں کہ وجود ہمارا ہے ۔۔۔ تو سانچہ دنیا والوں کا کیوں ہو ۔۔۔ خدا کی تخلیق مکمل نہیں ۔۔۔?
بات صرف اتنی سی ہے ۔۔۔۔
کسی فربہی مائل ۔۔۔یا دبلے پتلے ، انسان کو ، یونہی آس پاس دیکھیں ۔۔۔ تو نظریں جھکائیں ۔ اور اپنے رستے لگیں ۔
صبح بخیر ۔۔۔
حرآ طارق 🌻
آگہی 🌓
غیر یقینی ہے ۔۔۔۔
یہ جہاں ۔۔۔۔
تمہاری موجودگی ۔۔۔
میری خوشیاں ۔۔۔۔
اک فریب ہے ۔۔۔
یہ زندگی ۔۔۔۔
میرے خواب ۔۔۔۔
تمہاری ہنسی ۔۔۔۔
تمام رائیگانی ہے ۔۔۔
یہ داستاں ۔۔۔
محبتیں ، نفرتیں ۔۔۔
ہماری خواہشیں ۔۔۔
ڈری ہوئی ہوں میں۔۔۔
عزیزِ من ۔۔۔
زمانے سے ۔۔۔
خداؤں سے ۔۔۔۔
جھنجھلاہٹ ۔۔۔۔اور باؤلا پن ۔۔۔
شش ۔۔۔۔ چپ !!!
اور میں چپ !!!
- حرا طارق ، جبریل 🌋
پہلی میریٹ لسٹ اپلوڈ ہو چکی ہے جامعہ گجرات کی ویبسائٹ پہ اکثر ڈپارٹمنٹ کی ۔
جن بچوں کا نام آ گیا ہے ، وہ تین نومبر تک یونیورسٹی جا کر اپنے کاغذات verify کروائیں اور فیس جمع کروائیں ۔
جن طلباء کو ہاسٹل کی ضرورت ہے ، وہ apply کر دیں ابھی سے ۔ کاغذات کی تین کاپیاں کروائیں ۔ attested ۔
دو ڈیپارٹمنٹ کے لئے ، ایک ہاسٹل کے لیے ۔
اگر کاغذات کی فوٹو کاپی لے کر جانا بھول جائیں ، تو ایک فوٹو کاپی شاپ ابنِ خلدون کی پشت پر ہے ۔ دوسری شاپ ، صادقین ڈیپارٹمنٹ کی طرف ملے گی ۔
طلباء یونیورسٹی کے اندر کی جانکاری حاصل کرنے کے لئے ہمارا گروپ جوائن کر سکتے ہیں ۔ ہم سب مدد کے لئے موجود ہیں ۔
حرا طارق
جامعہ گجرات کے مختلف شعبہ جات میں آن لائن ایڈمشن کا آغاز
جامعہ گجرات کے تمام کیمپسوں بشمول منڈی بہاؤ الدین میں مختلف شعبہ جات میں انڈر گریجوایٹ ڈگری پروگراموں میں داخلوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔جامعہ گجرات کی مختلف فیکلٹیز آرٹس،کمپیوٹنگ و انفارمیشن ٹیکنالوجی،انجینئرنگ و ٹیکنالوجی،مینجمنٹ و ایڈمنسٹریٹو سائنسز،سوشل سائنسز،سائنس اور سکول آف آرٹ ڈیزئن و آرکیٹکچرمیں متعلقہ انڈر گریجوایٹ ڈگری پروگراموں میں داخلہ کے لیے آن لائن داخلہ فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ 23 ستمبر 2022 مقرر کی گئی ہے۔علاوہ ازیں تمام فیکلٹیز ماسوائے انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کے مختلف بی ایس پروگراموں کے پانچویں سمسٹر میں بھی داخلے جاری ہیں۔ تمام پروگراموں و کورسز کے لیے داخلہ جات آن لائن درخواستوں کے ذریعے کیے جائیں گے۔خواہش مند امیدوار جو انٹرمیڈیٹ سال اوّل یا تین سالہ ڈپلومہ سال دوم کے تمام مضامین پاس کر چکے ہیں اورسال دوم انٹرمیڈیٹ یا تین سالہ ڈپلومہ کے تیسرے سال کے نتائج کے منتظر ہیں،یونیورسٹی آف گجرات کے آن لائن پورٹل www.uog.edu.pkپر داخلہ کے لیے دئیے گئے مضامین میں درخواستیں جمع کروا سکتے ہیں۔ مزید برآں تمام امیدوار متعلقہ بورڈ سے انٹر میڈیٹ کا رزلٹ جاری ہونے کے بعد رزلٹ کارڈآن لائن ایڈمیشن پورٹل پر لازمی اپ لوڈ کریں بصورت دیگر داخلہ کی درخواست نامکمل تصور کی جائے گی۔نامکمل یا مقررہ تاریخ کے بعد موصول ہونے والی درخواستیں قبول نہیں کی جائیں گی۔جامعہ گجرات کو پاکستان کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے اور یہاں کے فارغ التحصیل طلبا و طالبات سرکاری و غیر سرکاری سطح پر اہم خدمات سرانجام دیتے ہوئے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔جامعہ گجرات ضرورت مند و مستحق طلبہ کو مالی امداد اور وظائف بھی مہیا کرتی ہے۔ منتخب امیدواران کی فہرست داخلہ کیلنڈر کے مطابق جامعہ گجرات کی ویب سائٹ اور متعلقہ شعبہ کے نوٹس بورڈ پر آویزاں کر دی جائے گی۔ منتخب امیدواران کو مقررہ تاریخ تک داخلہ فیس جمع کرانا ہو گی بصورت دیگر ان کا داخلہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ داخلہ کا تفصیلی طریقہ کار اور اس سے متعلقہ ہدایات جامعہ گجرات کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
University of Gujrat Since its inception in 2004, University of Gujrat (UOG) has never stopped growing – in numbers of students, numbers of programs, numbers of campuses, numbers of buildings, numbers of courses and research programmes. Mostly, this growth was organic: the taking of a series of opportunities. As a Uni...
جامعہ گجرات کے زیر اہتمام ایسوسی ایٹ ڈگری آرٹس/ سائنس/ کامرس اور اولڈ بی اے/ بی ایس سی /بی کام کے پارٹ فرسٹ و سکینڈ کے سالانہ امتحانات 2022 کے لیے داخلہ فارم جمع کروانے کی تاریخ میں توسیع کر دی گئی ہے۔ اب سنگل فیس کے ساتھ امیدواران22اپریل تک داخلہ فارم جمع کروانے کے اہل ہونگے اورڈبل فیس کے ساتھ 23اپریل سے 29اپریل تک داخلہ فارم جمع کروائے جا سکتے ہیں۔ ان امتحانات کاانعقاد امسال جولائی، اگست میں ہو گا۔فیس جمع کروانے کی تاریخ میں توسیع کا اعلان بنک آف پنجاب کی تمام برانچوں میں تکنیکی خرابی کی بنا پر کیا گیا ہے۔ کنٹرولر امتحانات کے اعلامیہ کے مطابق سالانہ امتحانات 2022 کے ریگولر، پرائیویٹ،لیٹ کالج، اور کمپوزٹ امتحانات میں شرکت کے خواہشمند امیدواران سنگل فیس کے ساتھ22اپریل تک اور ڈبل فیس کے ساتھ29اپریل تک اپنے داخلہ فارم جمع کروا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے داخلہ فارم جامعہ گجرات کی ویب سائٹwww.uog.edu.pkپر دستیاب ہیں۔متعلقہ امتحان کی فیس آن لائن چالان کے ذریعے جمع کروائی جا ئے گی۔ غیر رجسٹر شدہ امیدواران کے داخلہ فارم منظور نہیں کیے جائیں گے۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Website
Address
UOG
Gujrat
Bolly Road Near Shah Jihangir Tomb Gujrat
Gujrat, 50700
For the new, current and old students of Gujrat Group of Colleges. You can share any thing regarding
University Advancement Office, University Of Gujrat
Gujrat, 50700
UOG, VC’s Corps!
Office P112 University Of Gujrat
Gujrat, 50700
Odeum Art Society, University of Gujrat is a real-world test center for the students and professionals interested in performing arts and video production.
University Of Gujrat
Gujrat
For the first time in Pakistan Product Design Development via PPDC is the new Industrialization of P
Gujrat
Kiran Online Quran Academy Chandala is designed for children in Europe who do not have mosques near their children's homes so that they can learn the Qur'an.
Challay Sharif Road, Karianwala
Gujrat, 50830
An education system that seeks to establish enlightened schools for young minds, rooted in tradition