LEARN WITH RAZA
RAZA Advertising company Expert in Facebook marketing. Raza online teaching Quran academy.
وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(19)
ترجمۂ کنز الایمان
اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر بیشک سب آوازوں میں بری آواز، گدھے کی آواز۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ: اور اپنے چلنے میں درمیانی چال سے چل۔} حضرت لقما ن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا:اے میرے بیٹے! جب تم چلنے لگو تونہ بہت تیز چلو اور نہ بہت سست کیونکہ یہ دونوں باتیں مذموم ہیں، ایک میں تکبر کی جھلک ہے اور ایک میں چھچھورا پن ہے بلکہ تم درمیانی چال سے چلو نیزشور کرنے اور چیخنے چِلانے سے احتراز کرو ،بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔مقصودیہ ہے کہ شور مچانا اور آواز بلند کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے اور اس میں کچھ فضیلت نہیں ، جیسے گدھے کی آواز کہ بلند ہونے کے باوجود مکروہ اور وحشت انگیز ہے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۷۱، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۹۱۹، ملتقطاً)
آہستہ چلنے کی فضیلت اوربہت تیز چلنے کی مذمت:
اطمینان اور وقار کے ساتھ ،عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا‘‘(فرقان:۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پرآہستہ چلتے ہیں ۔
اوراتنا تیز چلنا جو بھاگنے کے مشابہ ہواس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا مومن کا وقار کھودیتا ہے۔(مسند الفردوس، باب السین، ۲ / ۳۳۴، الحدیث: ۳۵۰۸)
چلنے میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:
یہاں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چلنے سے متعلق دو صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اقوال ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ چلتے وقت حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں ۔( شمائل ترمذی، باب ما جاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۱۹، الحدیث: ۶)
(2)…حضرت ہند بن ابی ہالہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چلنے میں اطمینان سے قدم اٹھاتے ،وقار کے ساتھ جھک کر چلتے ،قدم لمبا رکھتے او ر جب آپ چلتے تو یوں محسوس ہوتا کہ گویا آپ اوپر سے نیچے اتر رہے ہوں۔(الشفا،القسم الاول،الباب الثانی،فصل قد اتیناک اکرمک اللّٰہ من ذکر الاخلاق الحمیدۃ۔۔۔الخ،ص۱۵۷،الجزء الاول)
چلنے کی سنتیں اورآداب:
آیت کی مناسبت سے یہاں چلنے کی 7سنتیں اور آداب ملاحظہ ہوں :
(1)…جوتا پہن کر چلیں ۔
(2)…کوشش کر کے راستے کے کنارے چلیں درمیان میں نہ چلیں ۔
(3)…درمیانی چال چلیں ،نہ اتناتیز کہ لوگوں کی نظریں اٹھیں اور نہ اتناآہستہ کہ آپ مریض معلوم ہوں ۔
(4)…احمقوں اور مغروروں کی طرح گریبان کھول کر،سینہ تان کرنہ چلیں بلکہ شریفوں کی طرح چلیں ۔
(5)…راستے میں دوعورتیں کھڑی ہوں یاجارہی ہوں توان کے بیچ میں سے نہ گزریں بلکہ دائیں یا بائیں طرف سے گزر جائیں ۔
(6)…بلا ضرورت ادھرادھر دیکھتے ہوئے نہ چلیں بلکہ بدنگاہی سے بچتے ہوئے نیچی نظریں کرکے چلیں ۔
(7)…یہ بھی خیال رکھئے کہ چلتے وقت جوتے کی آواز پیدانہ ہو۔
سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چلتے وقت جوتوں کی آواز ناپسند تھی ،چنانچہ حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت گرمی کے دن بقیعِ غرقد کی طرف تشریف لے جاتے اورآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے دوسرے لوگ آتے ۔جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے جوتوں کی آواز سنتے تویہ بات آپ کوبہت ناگوارمعلوم ہوتی ۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ جاتے حتّٰیکہ وہ لوگ آگے نکل جاتے اورآپ یہ عمل اس لئے فرماتے تاکہ دل میں فخرپیدانہ ہو۔(سنن ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب من کرہ ان یوطأ عقباہ، ۱ / ۱۶۰، الحدیث: ۲۴۵)
ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے گفتگو کرنے اور زیادہ باتیں کرنے کی مذمت:
ضرورت سے زیادہ آواز بلند کر کے اور چِلا چِلا کر گفتگو کرناایک ناپسندیدہ فعل ہے اور اس کی مذمت بیان کرنے کے لئے یہاں اس کی مثال گدھے کی آواز سے دی گئی ہے اورحضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ وہ کسی شخص کو بلند اور سخت آواز سے کلام کرتا ہوا دیکھیں اور یہ پسند فرماتے تھے کہ وہ اسے نرم آواز سے کلام کرتا ہو ادیکھیں۔( معجم الکبیر،صدی بن العجلان ابوامامۃ الباہلی۔۔۔الخ، القاسم بن عبد الرحمٰن۔۔۔ الخ، ۸ / ۱۷۷، الحدیث: ۷۷۳۶)
اور بلا ضرورت زیادہ باتیں کرنے والے کے بارے میں حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:بے شک تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن میرے زیادہ نزدیک وہ لوگ ہوں گے جوتم میں سے زیادہ اچھے اَخلاق والے ہوں گے اورتم میں سے مجھے سب سے زیادہ ناپسنداورقیامت کے دن مجھ سے زیادہ دور ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جوزیادہ باتیں کرنے والے ،لوگوں سے زبان درازی کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں گے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی معالی الاخلاق، ۳ / ۴۰۹، الحدیث: ۲۰۲۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں ناپسندیدہ گفتگو سے بچنے اور اچھی گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
گفتگو کرنے میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:
سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی مَتانَت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے اور آپ کا کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے اوراگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملے کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سننے والے اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا ضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’جامع کلمات‘‘ کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملے میں لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔
بات چیت کرنے کی سنتیں اورآداب:
آیت کی مناسبت سے یہاں بات چیت کرنے کی6 سنتیں اور آداب بھی ملاحظہ ہوں تاکہ ہماراچلناپھرنا بھی اورگفتگوکرنابھی سنت کے مطابق ہو۔
(1)…مسکراکر اورخندہ پیشانی سے بات چیت کرناسنت ہے ۔
(2)… چِلا چِلا کربات کرنا جیساکہ آج کل ہمارے ہاں رائج ہے ،یہ خلافِ سنت ہے ۔
(3)… گفتگو کرتے وقت چھوٹوں کے ساتھ شفقت بھرا اوربڑوں کے سامنے ادب والالہجہ رکھئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ دونوں کے نزدیک آپ معززرہیں گے ۔
(4)…جب تک دوسرابات کررہاہو تب تک اطمینان سے سنیں اوراس کی بات کاٹ کراپنی بات شروع نہ کردیں ۔
(5)…بلا ضرورت زیادہ باتیں نہ کریں اور نہ ہی دورانِ گفتگو زیادہ قہقہے لگائیں کہ زیادہ باتیں کرنے اورقہقہہ لگانے سے وقار مجروح ہوتاہے۔
(6)…دورانِ گفتگو ایک دوسرے کے ہاتھ پرتالی دینا ٹھیک نہیں ہے کہ یہ مُعَزّز و مُہَذَّب لوگوں کے طریقے کے خلاف ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعاہے کہ ہمیں سنت کے مطابق گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اولاد کی تربیت میں قابلِ لحاظ اُمور:
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی جو نصیحتیں یہاں ذکر ہوئیں ،ان سے معلوم ہوا کہ اولاد کی تربیت کرنے کے معاملے میں والدین کو درج ذیل4 اُمور کا بطورِ خاص لحاظ کرنا چاہئے،
(1)… ان کے عقائدکی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔
(2)… ان کے ظاہری اعمال درست کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔
(3)…ان کے باطن کی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کرنی چاہئے۔
(4)…ان کی اخلاقیات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
یہ چاروں چیزیں دنیا اور آخرت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں ،جیسے عقائد کی درستی دنیا میں بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات کا سبب ہے اور عقائد کا بگاڑ آفتوں ، مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے کا ذریعہ ہے اور عقائد کی درستی آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہونے جنت میں داخلہ نصیب ہونے کا مضبوط ذریعہ ہے اور جس کے عقائد درست نہ ہوئے اور گمراہی کی حالت میں مر گیا تووہ جہنم میں جانے کا مستحق ہوگیا اورجو کفر کی حالت میں مر گیا وہ توضرور ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائے گا ۔اسی طرح ظاہری اور باطنی اعمال صحیح ہوں گے تو دنیا میں نیک نامی اور عزت و شہرت کا ذریعہ ہیں اور آخرت میں جنت میں جانے کاوسیلہ ہیں اور اگر درست نہ ہوں گے تو دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامان ہیں اور آخرت میں جہنم میں جانے کاذریعہ ہیں ،یونہی اخلاق اچھے ہوں گے تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور لوگ اس کی عزت کریں گے جبکہ برے اخلاق ہونے کی صورت میں معاشرے میں اس کا جو وقار گرے گا اور بے عزتی ہوگی وہ تو اپنی جگہ الٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی کا سبب ہو گا اور اچھے اخلاق آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں جبکہ برے اخلاق اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لوگوں کی طرف سے اپنے حقوق کے مطالبات کا سامان ہیں ۔افسوس! ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں یہ تو دیکھتے ہیں کہ ان کا بچہ دُنْیَوی تعلیم اور دنیا داری میں کتنا اچھا اور چالاک ، ہوشیار ہے لیکن اس طرف توجہ بہت ہی کم کرتے ہیں کہ اس کے عقائد و نظرِیّات کیا ہیں اور ا س کے ظاہری اور باطنی اعمال کس رخ کی طرف جا رہے ہیں ۔والدین کی یہ انتہائی دلی خواہش تو ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دنیا کی زندگی میں کامیاب انسان بنے ،اس کے پاس عہدے اور منصب ہوں ،عزت،دولت اور شہرت ا س کے گھر کی کنیز بنے لیکن یہ تمنا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دینی اعتبار سے بھی کامیابی کی راہ پر چلے ، مسلمان ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے اپنے دین و مذہب اور اس کی تعلیمات سے اچھی طرح آشنا ہو ،اس کے عقائد اور اعمال درست ہوں اوراس کا طرزِ زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔والدین کی یہ آرزو تو ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دنیا میں خوب ترقی کرے تاکہ اولاد کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا بھی سَنْوَر جائے اور انہیں بھی عیش و آرام نصیب ہو لیکن اس طرف توجہ نہیں کرتے کہ ان کی اولاد قبر کی زندگی میں ان کے چین کاباعث بنے اور آخرت میں ان کے لئے شفاعت و مغفرت کا ذریعہ بنے۔جو لوگ صرف اپنی دنیا سنوارنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں کا حصول ہے ، ان کے لئے درج ذیل آیات میں بڑی عبرت اور نصیحت موجود ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود: ۱۵، ۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۸، ۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم، مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اولاد کی ایسی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ان کے لئے دنیا و آخرت دونوںمیں کامیابی کاذریعہ بنے اور والدین کے دُنْیَوی سکون اور اُخروی نجات کاسامان ہو ،اٰمین۔
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(12)
ترجمۂ کنز الایمان
اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ الله کا شکر کر اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک الله بے پروا ہے سب خوبیوں سراہا ۔
تفسیر صراط الجنان
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا تعارف:
مشہور مؤرخ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نسب یہ ہے’’ لقمان بن ناعوریا باعور بن ناحور بن تارخ۔ حضرت وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بھانجے تھے جبکہ مفسر مقاتل نے کہا کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خالہ کے فرزند تھے ۔ آپ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا زمانہ پایا اور اُن سے علم حاصل کیا ۔حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اعلانِ نبوت سے پہلے فتویٰ دیا کرتے تھے اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبوّت کے مَنصب پر فائز ہوئے تو حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فتویٰ دینا بند کر دیا۔آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے نبی ہونے میں اختلاف ہے، اکثر علماء اسی طرف ہیں کہ آپ حکیم تھے نبی نہ تھے۔( بغوی، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۲۳، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۱۷، ملتقطاً)
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نبی نہیں تھے بلکہ وہ غوروفکرکرنے والے اوردولت ِیقین سے مالامال بندے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے محبت تھی اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت فرماتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت کی نعمت عطافرمائی تھی۔ایک مرتبہ دوپہر میں سوتے ہوئے انہیں ندا کی گئی:’’اے لقمان!اگرتم پسند کروتوتمہیں خلیفہ بنادیاجائے تاکہ تم عدل وانصاف کو قائم کرو۔‘‘انہوں نے ندا کا جواب دیتے ہوئے عرض کی:اگرتومجھے اختیارکاحق ہے تومیں عافیت کوقبول کروں گااوراس آزمائش سے بچوں گا اور اگر منصبِ خلافت سنبھالنے کے متعلق قطعی حکم ہے تومیں دل وجان سے حاضرہوں کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کے کرم پریہ بھروسہ ہے کہ وہ مجھے غلطی سے بچائے گا۔(تفسیر ثعلبی، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۳۱۲، ابن عساکر، حرف الدال، ذکر من اسمہ داود، داود بن ایشا۔۔۔ الخ، ۱۷ / ۸۵-۸۶، ملتقطاً)
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے دو فضائل:
یہاں حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے فضائل پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سوڈانیوں کے سردار چار ہیں : (1)حضرت لقمان حبشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (2)حضرت نجاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (3)حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (4)حضرت مہجع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ۔( ابن عساکر، حرف البائ، ذکر من اسمہ بلال، بلال بن رباح۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۴۶۲)
(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سوڈانیوں کی صحبت اختیار کرو کیونکہ ان میں سے تین حضرات اہلِ جنت کے سرداروں میں سے ہیں ، (1)حضرت لقمان حکیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (2)حضرت نجاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (3) مُؤذن حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ۔( معجم الکبیر، عطاء عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۵۸، الحدیث: ۱۱۴۸۲)
حکمت کی تعریف:
حکمت کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں ،ان میں سے چار درج ذیل ہیں ۔
(1)… حکمت عقل اورفہم کو کہتے ہیں ۔
(2)… حکمت وہ علم ہے جس کے مطابق عمل کیا جائے ۔
(3)… حکمت معرفت اور کاموں میں پختگی کو کہتے ہیں
(4)… حکمت ایسی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جس کے دل میں رکھتا ہے یہ اس کے دل کو روشن کر دیتی ہے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۷۰)
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حکمت آمیز کلمات:
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حکمت سے بھرپور گفتگو فرمایاکرتے تھے،یہاں ان کے حکمت بھرے 3 کلام ملاحظہ ہوں ،
(1)…لوگوں پر وہ چیز دراز ہوگئی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے حالانکہ وہ آخرت کی طرف دوڑے جارہے ہیں ۔ بیشک دنیا پیٹھ پھیر رہی ہے تا کہ وہ چلی جائے اور آخرت سامنے آ رہی ہے اور وہ گھر جس کی طرف تم جارہے ہو، اُس سے زیادہ قریب ہے جس سے تم نکل رہے ہو ۔( الزہد الکبیر للبیہقی، الجزء الثانی من کتاب الزہد، فصل آخر فی قصر الامل والمبادرۃ بالعمل۔۔۔ الخ، ص۲۰۱، روایت نمبر: ۵۰۱)
(2)…علماء کے ساتھ لازمی طور پر بیٹھا کرو اور حکمت والوں کا کلام سنا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ حکمت کے نور سے مردہ دل کو اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح مردہ زمین کو بارش کے قطروں سے ۔( معجم الکبیر ، صدی بن عجلان ابو امامۃ الباہلی ۔۔۔ الخ ، عبید اللّٰہ بن زحر عن علی بن یزید ۔۔۔ الخ ، ۸ / ۱۹۹ ، الحدیث: ۷۸۱۰)
(3)…تم اس مرغے سے زیادہ عاجز نہ ہو جاؤ جو صبح سویرے آواز لگاتا ہے جبکہ تم اپنے بستر پر سو رہے ہوتے ہو۔( شرح السنہ، ابواب النوافل، باب احیاء آخر اللیل وفضلہ، ۲ / ۴۸۰)
رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکمت بھرے ارشادات:
یوں تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر ارشاد حکمت کے انمول موتیوں سے بھرا ہوا ہے،البتہ موضوع کی مناسبت سے یہاں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے4حکمت بھرے ارشادات ملاحظہ ہوں :
(1)…حکمت کی اصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۷۰، الحدیث: ۷۴۴)
(2)…جو تھوڑا ہو اور کافی ہو وہ اس سے اچھا ہے جو زیادہ ہو اور غافل کردے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، باقی حدیث ابی الدرداء رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۸ / ۱۶۸، الحدیث: ۲۱۷۸۰)
(3)… تقویٰ اختیار کرو تو لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے اور قناعت اختیار کرو تو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الورع والتقوی، ۴ / ۴۷۵، الحدیث: ۴۲۱۷)
(4)…خوش نصیب وہ ہے جودوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔( مسلم، کتاب القدر، باب کیفیّۃ الخلق الادمیّ فی بطن امّہ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۱، الحدیث: ۳(۲۶۴۵))
{وَ مَنْ یَّشْكُرْ: اور جو شکر اداکرے۔} یعنی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تووہ اپنی ذات کے بھلے کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ شکر کرنے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اوربندے کو ثواب ملتا ہے اور جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری کرے تو اس کاوبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے اور اس کے شکر سے بے پرواہ ہے اور وہ اپنی ذات و صفات اور اَفعال میں حمد کے لائق ہے اگرچہ کوئی ا س کی تعریف نہ کرے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۷۵، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۱۷، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۳۴۶، ملتقطاً)
قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ(11)
ترجمۂ کنز الایمان
تم فرماؤ تمہیں وفات دیتا ہے موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف واپس جاؤ گے۔
تفسیر صراط الجنان
{قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ: تم فرماؤ: تمہیں موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے۔} اس فرشتہ کا نام حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحیں قبض کرنے پر مقرر ہیں ۔ اپنے کام میں کچھ غفلت نہیں کرتے اور جس کی موت کا وقت آجاتا ہے ، بلاتاخیر اس کی روح قبض کرلیتے ہیں ۔مروی ہے کہ ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے دنیا ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح کردی گئی ہے تو وہ مَشارق و مَغارب کی مخلوق کی روحیں کسی مشقت کے بغیر اُٹھالیتے ہیں اور رحمت و عذاب کے بہت سے فرشتے اُن کے ماتحت ہیں۔( خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۴۷۶)
کافر اور مومن کی روح قبض کرتے وقت حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کی شکل:
حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام مومن اور کافر ہر انسان کی روح قبض فرماتے ہیں لیکن جب کافر کی روح قبض فرماتے ہیں تو اس وقت انتہائی ڈراؤنی شکل میں ا س کے پاس آتے ہیں اور جب مومن کی روح قبض فرماتے ہیں تو انتہائی خوبصورت شکل میں اس کے پاس تشریف لاتے اور اس کے ساتھ نرمی و شفقت بھرا سلوک فرماتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپناخلیل بنا لیا تو حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ا س کی خوشخبری دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو اجازت دے دی۔ جب حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ’’اے ملک الموت! عَلَیْہِ السَّلَام، مجھے دکھاؤ کہ تم کافروں کی روحیں کس طرح قبض کرتے ہو؟حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: اے ابراہیم! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ ا س (وقت کی میری حالت ) کو دیکھ نہیں سکیں گے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’میں دیکھ سکنے کی طاقت رکھتا ہوں ۔ حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی:آپ اپنا رخ پھیر لیجئے۔ جب (کچھ دیر بعد) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پلٹ کر ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف دیکھا تو وہ سیاہ رنگ کے آدمی کی شکل میں تھے، ان کا سر آسمان تک پہنچ رہا تھا،ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اوران کے جسم کا ہر بال ایک ایسے انسان کی صورت میں تھا جس کے منہ اور کانوں سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ (حضرت عزارئیل عَلَیْہِ السَّلَام کی یہ حالت دیکھ کر) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر غشی طاری ہو گئی ۔کچھ دیر بعد افاقہ ہوا اور اس عرصے میں ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام اپنی پہلی صورت میں آ چکے تھے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اے ملک الموت! عَلَیْہِ السَّلَام، اگر کافر کو (موت کے وقت) آپ کی یہ صورت دیکھنے کے علاوہ کوئی اور غم یا آزمائش نہ بھی پہنچے تو یہی ا س کے لئے کافی ہے۔ اب مجھے دکھاؤ کہ تم مومن کی روح کس طرح قبض کرتے ہو؟حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی:اپنا رخ پھیر لیجئے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا رخ پھیر لیا اور (کچھ دیر بعد) جب ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف دیکھا تو وہ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک انتہائی خوبصورت چہرے والے نوجوان کی شکل میں موجود تھے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’اگر مومن اپنی موت کے وقت آپ کی اس صورت کے علاوہ کوئی اور آنکھوں کی ٹھنڈک یا کرامت نہ بھی دیکھ سکے تو یہی اس کے لئے کافی ہے۔( در منثور، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۶ / ۵۴۱)
حضرت خزرج رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو کھڑے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’اے ملک الموت! عَلَیْہِ السَّلَام، میرے صحابی کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا کیونکہ وہ مومن ہے۔ حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: ’’ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ خوش رہیں اور آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ،میں آپ پر ایمان لانے والے ہر شخص کے ساتھ انتہائی نرمی اور شفقت سے پیش آتا ہوں ۔( معجم ا لکبیر، خزرج الانصاری، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۴۱۸۸)
{ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ: پھر تم اپنے رب کی طرف واپس کئے جاؤ گے۔} یعنی موت کے بعد تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف واپس کئے جاؤ گے او رحساب و جزا کے لئے زندہ کرکے اٹھائے جاؤ گے ۔( مدارک، السجدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۹۲۵)
قرآنِ کریم کی شان:
قرآنِ مجید ایسی عظیم الشّان کتاب ہے کہ اس میں فلاح و کامیابی حاصل کرنے کے تمام ترسامان موجود ہیں اور نیک لوگ اس کا دامن مضبوطی سے تھام کر گمراہی اور عذاب سے بچ سکتے ہیں ، نیزیہ کتاب حکمت کے انمول خزانوں سے مالامال ہے۔لہٰذامومن کو اسی حکمت و دانش میں مشغول ہونا چاہیے اوراسے چھوڑکرفضول قسم کے قصے کہانیوں میں لگے رہنامومن کی شان نہیں ۔
اصحابِ کہف کا واقعہ :
اکثر مفسرین کے نزدیک اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد رونما ہوا اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کا ہے اور ا س کا ذکر اہلِ کتاب کی مذہبی کتابوں میں موجود ہے اور اسی وجہ سے یہودیوں نے بڑی توجہ کے ساتھ ان کے حالات محفوظ رکھے۔
بہر حال یہ واقعہ کس زمانے میں رونما ہوا اس کی اصل حقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، البتہ ہم یہاں معتبر مفسرین کی طرف سے بیان کردہ اس واقعے کی بعض تفصیلات کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں
، چنانچہ مفسرین کے بیان کے مطابق اصحابِ کہف اُفْسُوس نامی ایک شہر کے شُرفاء و معززین میں سے ایماندار لوگ تھے۔ ان کے زمانے میں دقیانوس نامی ایک بڑا جابر بادشاہ تھا جو لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کرتا اورجو شخص بھی بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اسے قتل کر ڈالتا تھا۔
دقیانوس بادشاہ کے جَبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے اصحابِ کہف بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں غار کے اندر پناہ گزین ہوئے، وہاں سوگئے اور تین سوبرس سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں رہے ۔
بادشاہ کو جستجو سے معلوم ہوا کہ وہ ایک غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کردیا جائے تاکہ وہ اس میں مر کر رہ جائیں اور وہ ان کی قبر ہوجائے، یہی ان کی سزا ہے۔
حکومتی عملے میں سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا، اس نے ان اصحاب کے نام، تعداد اور پورا واقعہ رانگ کی تختی پرکَنْدَہ کرا کرتا نبے کے صندوق میں دیوار کی بنیا د کے اندر محفوظ کردیا اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسی طرح ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا ، زمانے گزرے ، سلطنتیں بدلیں یہاں تک کہ ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا جس کا نام بیدروس تھا اور اس نے 68 سال حکومت کی ۔
اس کے دورِ حکومت میں ملک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکر ہوگئے ۔ بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہوگیا اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ یارب! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے مخلوق کو مُردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو جائے۔
اسی زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اسی غار کو تجویز کیا اور (کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر) دیوار کوگرا دیا۔ دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے ۔ اصحابِ کہف اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے فرحاں و شاداں اُٹھے ، چہرے شگفتہ ،طبیعتیں خوش ، زندگی کی ترو تازگی موجود۔ ایک نے دوسرے کو سلام کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ، نماز سے فارغ ہو کر یملیخاسے کہا کہ آپ جائیے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لائیے اور یہ بھی خبر لائیے کہ دقیانوس بادشاہ کا ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ ہے۔
وہ بازار گئے تو انہوں نے شہر پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی اور وہاں نئے نئے لوگ پائے، یہ دیکھ کر انہیں تعجب ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کل تک تو کوئی شخص اپنا ایمان ظاہر نہیں کرسکتا تھا جبکہ آج اسلامی علامتیں شہر پناہ پر ظاہر ہیں ۔ پھر کچھ دیر بعد آپ تندور والے کی دوکان پر گئے اور کھانا خریدنے کے لئے اسے دقیانوسی سکے کا روپیہ دیا جس کارواج صدیوں سے ختم ہوگیا تھا اور اسے دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ بازار والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کے ہاتھ آگیا ہے، چنانچہ وہ انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے، وہ نیک شخص تھا ،اس نے بھی ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا خزانہ کہیں نہیں ہے۔ یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے۔ حاکم نے کہا :یہ بات کسی طرح قابلِ یقین نہیں ، کیونکہ اس میں جو سال لکھا ہوا ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں ،ہم لوگ بوڑھے ہیں ، ہم نے تو کبھی یہ سکہ دیکھا ہی نہیں ۔
آپ نے فرمایا: میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عُقدہ حل ہوجائے گا۔ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال وخیال میں ہے ؟ حاکم نے کہا، آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ، سینکڑوں برس پہلے ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے۔ آپ نے فرمایا: کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں اور میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں ، چلو میں تمہیں ان سے ملادوں ، حاکم اور شہر کے سردار اور ایک کثیر مخلوق ان کے ہمراہ غار کے کنارے پہنچ گئے۔ اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں تھے ، جب انہوں نے کثیر لوگوں کے آنے کی آواز سنی تو سمجھے کہ یملیخا پکڑے گئے اور دقیانوسی فوج ہماری جستجو میں آرہی ہے۔ چنانچہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمدمیں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں شہر کے لوگ پہنچ گئے اور یملیخا نے بقیہ حضرات کو تمام قصہ سنایا، ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اتنا طویل زمانہ سوئے رہے اور اب اس لئے اٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے موت کے بعد زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی بنیں ۔ جب حاکمِ شہر غار کے کنارے پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا ، اس کو کھلوایا تو تختی برآمد ہوئی، اس تختی میں اُن اصحاب کے اَسماء اور اُن کے کتے کا نام لکھا تھا ، یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں پناہ گزین ہوئی، دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے انہیں غار میں بند کردینے کا حکم دیا ، ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں تاکہ جب کبھی یہ غار کھلے تو لوگ ان کے حال پر مطلع ہوجائیں ۔
یہ تختی پڑھ کر سب کو تعجب ہوا اور لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد و ثناء بجالائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرمادی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے۔ حاکمِ شہرنے اپنے بادشاہ بید روس کو واقعہ کی اطلاع دی ، چنانچہ بادشاہ بھی بقیہ معززین اور سرداروں کو لے کر حاضر ہوا اور شکرِ الٰہی کا سجدہ بجا لایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی ۔اصحاب ِکہف نے بادشاہ سے مُعانقہ کیا اور فرمایا ہم تمہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کرتے ہیں ۔
والسلام علیک ورحمۃ اللّٰہ وبرکا تہ ،اللّٰہ تعالیٰ تیری اور تیرے ملک کی حفاظت فرمائے اور جن و اِنس کے شر سے بچائے ۔بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنے خواب گاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروفِ خواب ہوئے اور اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں وفات دیدی، بادشاہ نے سال کے صندوق میں ان کے اَجساد کو محفوظ کیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے رُعب سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے ۔ بادشاہ نے سرِغار مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک خوشی کا دن معین کردیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں ۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۹۸-۲۰۳، تفسیر ابن کثیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۱۳۲-۱۳۳، خزائن العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۵۴۹-۵۵۰، ملتقطا)
اس سے معلوم ہوا کہ صالحین میں عرس کا معمول قدیم سے ہے
ہرحال میں مزاج و اخلاق پر قابو رکھئے!
مرض ہو یا قرض بس اپنے موڈ میں حرج نہیں آنا چاہئے۔ (یعنی انسان کو بداخلاق نہیں ہونا چاہئے۔)
💫💫
🪷 *بسم الله الرحمن الرحيم* 🪷 *
🍂 *اصلاح معاشرہ کیلئے بہترین اعمال !*
🔹 *رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اللہ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہے“۔*🔹
📗«جامع ترمذی -1425»
# ــــــــــــــ )))
اگر آپ ڪسی کو سمجھانا چاہتے ہیں تو حڪیمانہ اَنداز اَپنائیے ڪہ اِصلاح فقط اِسی طرح ہوسڪتی ہے وَرنہ جارِحانہ اَنداز ضد پیدا ڪرتا ہے۔
*❥❥❥═════❥❥❥═════❥❥❥*
# # ــــــــــــــ )))
عُلما ڪے پاس بیٹھنے سے نیڪی و ثواب میں دل چسپی بڑھ جاتی ہے۔
حڪما ڪے پاس بیٹھنے سے بندہ تعریف ڪے قریب اور مذمّت سے دور ہو جاتا ہے۔
بڑوں ڪے پاس بیٹھنے سے فضلِ الٰہی ڪی جستجو میں اضافہ ہوتا ہے اور اِس ڪے علاوہ ہر چیز سے دل اُچاٹ ہو جاتا ہے۔
جو اَڪابِر اولیا ڪے پاس بیٹھتا ہے وہ آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔
*❥❥❥════❥❥❥════❥❥❥*
*✨ جَنت کی نَہْریں!*
جَنّت میں چار دریا ہیں ایک پانی کا، دوسرا دُودھ کا، تیسرا شہد کا، چوتھا شَراب کا، پھر اِن سے نہریں نکل کر ہر ایک کے مَکان میں جارہی ہیں۔ وہاں کی نہریں زمین کھود کر نہیں بلکہ زمین کے اوپر رَوَاں ہیں، نہروں کا ایک کنارہ موتی کا دُوسرا یاقُوت کا ہے اور اِن نہروں کی زمین خالِص مُشْک کی ہے۔
📖 الترغیب والترہیب، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل فی انہار الجنۃ، ج۴، ص۳۱۵
*❥❥❥═════❥❥❥═════❥❥❥*
*✨ جنت کی حُوریں کیسی ہوں گی؟*
*صدر الشریعہ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ* احادیث کے مضامین کو بیان کرتے ہوئے بہارِ شریعت حصہ 1، صفحہ 79 تا 82پر لکھتے ہیں:
اگر حُور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان نکالے تو اُس کے حُسْن کی وجہ سے مخلوق فِتنہ میں پڑ جائے اور اگر اپنا دوپٹّا ظاہِر کرے تو اُس کی خُوبصُورتی کے آگے آفتاب ایسا ہو جائے جیسے آفتاب کے سامنے چَرَاغ۔
اور جنّتی سب ایک دل ہونگے، ان کے آپس میں کوئی اِختلاف و بُغْض نہ ہو گا۔ ان میں ہر ایک کو حورِ عِیْن میں کم سے کم دو بیبیاں (بیویاں) ایسی ملیں گی کہ سَتّر سَترَّ (70) جوڑے پہنے ہونگی، پھر بھی اِن لِباسوں اور گوشت کے بَاہَر سے اُن کی پِنڈلیوں کا مَغْز دِکھائی دے گا، جیسے سفید شیشے میں شَرابِ سُرخ دِکھائی دیتی ہے۔
آدمی اپنے چہرے کو اس کے رُخْسار میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف دیکھے گا، مرد جب اس کے پاس جائیگا، اُسے ہر بار کنواری پائیگا مگر اُس کی وجہ سے مرد و عورت کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔
جَنّت کی عورت سات سَمُندروں میں تُھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں ہو جائیں۔ جب کوئی بندہ جَنّت میں جائیگا تو اُس کے سِرہانے اور پائینتی (پاؤں کی طرف) میں دو حُوریں نہایت اچھی آواز سے گائیں گی مگر اُن کا گانا شیطانی مَزَا مِیر (آلاتِ موسیقی) نہیں بلکہ اللّٰہ عزوجل کی حَمد و پاکی ہو گا وہ ایسی خُوش گُلُو ہونگی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سُنی ہو گی اور یہ بھی گائیں گی کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں کبھی نہ مریں گی، ہم چین والیاں ہیں کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گی، ہم راضی ہیں ناراض نہ ہوں گی۔ مُبارک باد اُس کے لئے جو ہمارا اور ہم اس کے ہوں ، ادنیٰ جَنّتی کے لئے 80 ہزار خادم اور 72 بِیبِیاں (بیویاں) ہوں گی۔
(بہارِ شریعت، حصہ۱، ص، ۷۹، ۸۴)
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the public figure
Telephone
Website
Address
STREET 3
Gujrat
0000