Botanical Garden GHSS Tanda
Nearby schools & colleges
Gt Road
Above Cakes N Bakes/Gts Chowk
Baby da Lahore
ilyasgujjarg4 @gmail. com
Kalra Khasa G. T Road
Ali Pura Road
Dinga Road Gujrat
Gujrat
Model Town
Aminabad
Thseel Zila Gujrat Dakkhana Kunjah
Qamar Sialvi Road
Gondal Chowk Baradari Road
gujrat
یہ صفحہ سکول میں نباتات کی اقسام ان کے سائنسی ناموں و ادویاتی خواص سے متعلق ہے۔
نیم - ایک بھولا ہوا معجزاتی درخت
نیم (AZADIRACHTA INDICA) مہوگنی خاندان Meliaceae سے تعلق رکھنے والا ایک گھنا سایہ دار اور تیزی سے بڑھنے والا درخت ہے جو 15-20 میٹر (تقریبا 50-65 فٹ) اونچا اور بعض اوقات 35-40 میٹر (115-131 فٹ) تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
اس درخت 🌲 کی تاریخ تقریباً 4000 سال پرانی ہے۔ اس درخت کو انگریزی میں Margosa Tree کہتے ہیں اور اس کا نباتاتی نام Melis Azedarach ہے۔ عربی و فارسی میں اسے "نیب" اور پنجابی میں اسے "نم" کہتے ہیں۔ جبکہ ویدک سنسکرت میں اس کا نام نمبا (NIMBA) ہے۔ یہ ہندوستان بنگلہ دیش، سری لنکا، ملائیشیا، اور پاکستان کا ایک مقامی سدا بہار درخت ہے جو ہر طرح کے سخت موسموں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ درخت بڑ کی مانند چاروں طرف پھیلتا ہے۔ اس کا تنا بھی موٹا ہوتا ہے۔ یہ خشک، پتھریلی، چکنی اور نمکین زمینوں میں بھی اچھی طرح اگتا ہے۔ نیم میں شدید خشک سالی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ نیم کا درخت عام طور پر تین سے پانچ سال بعد پھل آنا شروع کر دیتا ہے۔ دس سال کی عمر میں یہ مکمل پیداوار دیتا ہے۔ جون میں اس کا بیج پکتا ہے جسے پکنے کے بعد اسی وقت لگا دینا چاہیے۔ بیج لگانے کے ایک ہفتے بعد پودا نکل آتا ہے۔
یہ سائے کے لحاظ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ اس کے پتے نوک دار لمبوترے دو ڈھائی انچ لمبے جن کے کنارے کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ پتے نہایت خوبصورت ہوتے ہیں۔ ٹہنی چھ سے دس انچ لمبی جن پر پتوں کے چھ سے گیارہ جوڑے لگتے ہیں۔ موسم بہار کے شروع میں پتے جھڑتے اور نئے سرخ رنگ کے ملائم چمک دار اور خوبصورت پتے نکلتے ہیں۔ جو نکلتی دھوپ میں بڑا ہی خوبصورت نظارہ دیتے ہیں۔
اس کا تنا اور شاخیں سیاہی مائل سبز ہوتی ہے۔ موسم بہار کے آخر میں اس پر چھوٹے چھوٹے سفید رنگ کے پھول لگتے ہیں۔ پھولوں کے بعد پھل گچھوں میں لگتا ھے جو پہلے سبز رنگ کے نیم گول لمبے پتلے اور پکنے پر ان کا رنگ پیلا ہو جاتا ہے جس کو نمبولی کہتے ہیں۔ اس کے پھل کو بچے اور بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ ان پھلوں کے اندر بیج ہوتے ہیں جن سے تیل نکالا جاتا ہے جو ادویات اور صابن بنانے کے کام آتا ہے۔
اس درخت کی زندگی کا دورانیہ تقریباً دو سے پانچ صدیوں پر محیط ھوتا ہے۔ یہ ہمیشہ سبز رہتا ہے، لیکن شدید خشک سالی میں یہ اپنے زیادہ تر یا تقریباً تمام پتے گرا بھی دیتا ہے۔
اس درخت کے تمام اجزاء پتے پھول تخم چھال پھل اور گوند بطور دواء استعمال ہوتے ہیں۔ نیم کے درخت کا بغور مشاہدہ کرنے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ پتوں، جڑوں اور گٹھلی میں موجود قدرتی مادوں کی وجہ سے کیڑوں اور نیماٹوڈز سے محفوظ رہتا ہے۔ نیم کے درخت کو قدرت نے ایک بہترین مزاحمتی نظام عطاء کیا ھوا ہے جو ہمیشہ مؤثر طریقے سے کیڑے مکوڑوں اور نیماٹوڈز کو بھوکا مارتا ہے۔ برصغیر کے حکماء اور اطباء اس کے سائے کو بھی صحت کے لئے بہترین قرار دیتے ہیں۔
انگریزی دور حکومت میں صحتمند ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے نیم کے درختوں 🌲کو ریلوے اسٹیشنوں اور نہروں کے پشتوں پر لگایا جاتا تھا۔
نیم کے درخت کے فائدے ہزار نیم کے طبی خواص؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ درخت بکائن کی طرح صرف سایہ کے لئے ہی نہیں بلکہ بے انتہاء طبی فوائد کی وجہ سے ھر دلعزیز ھے۔ نیم کا درخت تمام اجزاء بذات خود تو کڑوے ہوتے ہیں لیکن فائدے کے لحاظ سے اسی قدر میٹھے ھوتے ھیں۔ اس کے تمام اجزاء پتے، پھول، پھل، چھال بطور دوا استعمال کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کا سایہ بھی صحت بخش ھوتا ہے۔ نیم کا درخت جب پرانا ہو جاتا ہے تو اس کے تنے میں سے ایک قسم کا گاڑھا مادہ (رطوبت) خارج ہوتا ہے جس کو ہندی میں نیم کا "مدھ'' کہتے ہیں۔ جو نہایت شیریں ہوتی ہے۔ لوگ اس کو جمع کر کے بطور خوراک استعمال کرتے ہیں۔
نیم میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کا درخت قدرت کے بے بہا قیمتی تحائف میں سے ایک ایسا انمول تحفہ ہے جس کا ایک ایک ذرہ انوکھے فوائد کا حامل ہے۔ اس کا پھل ہو، پتے یا ڈالیاں ان کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ اینٹیلمنٹک، اینٹی فنگل، اینٹی ذیابیطس، اینٹی بیکٹیریل، اینٹی وائرل اور سکون آور ہیں۔ نیم کے اجزاء آیورویدک ادویات کا ایک اہم جزو سمجھے جاتے ہیں اور خاص طور پر جلد کی بیماریوں کے لئے اس کے اجزاء کو تجویز کیا جاتا ہے۔
نیم کے پتے چکن پاکس اور مسوں کے علاج کے لئے پانی میں ابال کر اس پانی سے نہانے یا پھر پتوں کی پیسٹ بنا کر جلد پر براہ راست لگانے سے مرض میں افاقہ ھوتا ھے۔ چکن پاکس کے مریضوں کے استعمال والے بستر پر تازہ نیم کے پتے پھیلانے سے بھی مرض کی شدت میں کمی واقع ھوتی ھے۔ نیم کے پتے پانی میں ابال کر پاؤں کی انفیکشن، مختلف فنگس اور مکھیوں کے کاٹنے کے علاج کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ آیوروید میں، نیم کے پتے اعصابی درد کے علاج میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ نیم کے پتے اناج کو ذخیرہ کرتے وقت بھرولے میں رکھنے سے گندم کیڑوں کے حملے سے محفوظ رہتی ھے۔نیم میں موجود ”وٹامن سی“ جلدی امراض میں نہایت کارآمد ثابت ہوتے ہیں جو مانع وائرس ہیں۔ یہ سوزش، پیچش،دست اور بخار وغیرہ کے علاج میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ نیم جراثیم کش ہونے کے سبب اس کے تیل میں 135 کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں، جن میں Quercetin اور Beta-Sitosterol شامل ھیں جو جراثیم اور پھپوند کے علاج کے لئے مفید ھوتے ہیں۔ نیم کی چھال سے کشید کردہ محلول میں پرولین بھی پایا جاتا ہے، جو جوڑوں کے درد کے لئے اکسیر ہے۔
نیم کی 1250 ایم جی خوراک کھانے سے گلوکوز 15 فیصد، یوریا 13 فیصد، کریٹنین 23 فیصد اور چکنائی 15 فیصد کم ہو جاتی ہے۔
نیم کے بعض اجزاء جراثیم کے خلاف کام کرتے ہیں۔ ممکنہ طور پر نیم مختلف خامروں Oxidative Enzymes کو متحرک کرتا اور جراثیم کی خلیاتی دیوار توڑ دیتا ہے۔ واضح رہے کہ ضد حیوی ادویہ (Antibiotics) بھی جراثیم کی خلیاتی دیوار توڑ کر ان کے خاتمے کا باعث بنتی ہیں۔ کسی بھی فرد میں بیماری کا ایک ممکنہ سبب آزاد اصلیے (Free Radicals) بھی ہوتے ہیں۔ آزاد اصلیے آکسیجن کے متحرک یا ایکٹیو عناصر کو کہتے ہیں۔
نیم کے فوائد؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کا استعمال طبی مقاصد کے لئے صدیوں پرانا ہے اور خصوصاً برصغیر میں تو اس کی طبی اہمیت مسلمہ ہے۔ جلدی مسائل کے حل اور خوبصورتی میں اضافہ کے لئے نیم کے پتے کے مجرب نسخے ہیں۔ اس کے کچھ اہم فوائد مندرجہ ذیل ہیں۔
جلد کے انفیکشن اور کھجلی سے نجات:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کے پتے پانی میں ابال لیں۔ جب پتے نرم ہو جائیں اور پانی سبزی مائل ہو جائے تو پانی کو چھان لیں، غسل کرتے وقت نیم کا پانی دوسرے پانی میں ملا کر نہانے سے جلد کے انفیکشن اور کھجلی سے آرام آ جاتا ھے۔
جلد کے دانوں کے خاتمہ کے لئے ابالے گئے پانی میں روئی بھگو کر متاثرہ جگہ پر لگائیں۔ آپ نیم کے پانی کو کھیرے یا دہی کے ساتھ ملا کر بھی متاثرہ جگہ پر لگا سکتے ہیں۔
چہرے کی جھریاں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کے پانی کو چہرے کی جلد پر لگانے سے جلد جھریوں محفوظ رہتی رہے اور رنگت بھی نکھر جاتی ہے۔
جلد کی تروتازگی کے لئے نیم پاؤڈر میں چند قطرے عرق گلاب ڈال کر متاثرہ جگہ پر لگائیں اور تقریباً دو منٹ تک لگائے رکھنے کے بعد پانی سے دھونے سے جلد ترو تازہ رہتی ھے۔
چہرے کے کیل مہاسے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرے کے کیل مہاسوں کے علاج کے لئے نیم کے پتے اور مالٹے کے چھلکے اکٹھا کوٹ لیں اور اس میں شہد، سویا ملک اور تھوڑا سا دہی شامل کر لیں، اس آمیزے کو ہفتہ میں کم از کم تین دفعہ استعمال کرنے سے کیل اور مہاسوں سے نجات ملتی ھے۔
بالوں کی مضبوطی:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالوں کو مضبوط اور صحتمند کرنے کے لئے نیم کے تیل سے بالوں کی جڑوں میں مالش کریں۔ خیال رکھیں کہ بال ٹوٹنے نہ پائیں۔
سر کی خشکی کے لئے نیم کا پاؤڈر:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کے پتے دھو کر سکھا لیں، پھر پیس کر پاؤڈر بنا لیں۔ سر کی خشکی دور کرنے کے لئے نیم کے پتوں کے پاؤڈر کو پانی میں مکس کر لیں اور اسے سر کی جلد پر ایک گھنٹہ لگا رہنا دیں۔ اس کے بعد شیمپو سے بالوں کو اچھی طرح دھو لیں۔ چہرے کی رنگ نکھارنے اور چہرہ پررونق بنانے کے لئے نیم کا پاؤڈر، گلاب کی پتیوں کا پاؤڈر، دہی اور تھوڑا سا دودھ ملا کر ایک پیسٹ بنا لیں۔ چہرے پر لگا کر 15 منٹ کے بعد پانی سے دھو لیں۔ مگر پانی میں 2,3 کھانے کے چمچ عرق گلاب ملا لیں۔ چہرے پر رونق اور نکھار آ جائے گا۔ اس کے علاوہ داڑھ کی درد میں یہ پاؤڈر منجن کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
شوگر کے مریضوں کے لئے تحفہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کے وہ پتے جو زرد ہو جاتے ہیں انہیں توڑ کر سایہ دار جگہ پر خشک کر لیں۔ 100 گرام پتوں میں 50 گرام پودینہ کے خشک پتے اور 25 گرام مرچ سیاہ ملا لیں۔ ان کو پیس کر میدہ کی طرح سفوف بنا لیں۔ صبح نہار منہ 2 گرام کی مقدار نیم گرم پانی سے لیں اور ناشتہ ایک گھنٹہ بعد کریں۔ اسی طرح دوپہر غذا سے ایک گھنٹہ قبل نیم گرم پانی سے لیں۔ اسی طرح رات کے کھانے سے پہلے لے لیں۔ یہ عمل دو سے تین ماہ جاری رکھیں۔ افاقہ ھو گا۔
نیم کی چھال کا تیل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید سائنٹفک دریافت کے مطابق نیم کی چھال سے نکلنے والا تیل کا استعمال اس میں موجود بعض مادوں کی وجہ سے فنگس کے لئے بہت مفید ہوتا ہے۔ نیم کے درخت سے کیڑے مار، پھپوندی کش اور بیکٹیریا مارنے والے اجزاء تیار کیے جاتے ہیں۔ 1942ء میں نیم کے تیل سے تین مرکبات نمبین، نمبنین اور نمبدین تیار کئے گئے۔ یہ مرکبات نیم میں کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
نیم کے استعمال کے چند طریقے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کا ابلا ہوا پانی:
ایک لیٹر پانی میں 40 نیم کے پتے یا پھر مٹھی بھر پتے ڈال کر ابالیں۔ جب پتے رنگ بدل دیں اور پانی ”ہرا“ ہو جائے تو اسے چھان کر کسی صاف بوتل میں بھر کر رکھ دیں۔ یہ پانی کارآمد ہے۔ یہ پانی بالوں پر لگانے سے اس کی اینٹی سیپٹک اور اینٹی بیکٹیریل خوبیاں آپ کو خشکی سے نجات دلا سکتی ھیں۔ بالوں میں اکثر گرمی کے موسم میں پسینے کی بدبو پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ بھی خشکی ہوتی ہے۔ اس کے استعمال سے آپ کے بال صاف ہو جائیں گے۔ یہ پانی آپ سکن ٹونر کی طرح بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ جس سے کچھ ہی وقت میں چہرے کے جملہ مسائل جیسے بلیک ہیڈز، وائٹ ہیڈز، داغ دھبے چھائیاں اور سیاہ حلقے اور ایسے دیگر مسائل حل ہو سکتے ھیں۔
نیم کی نبولی:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزانہ ایک نیم کی نبولی پانی کے ساتھ کھانا جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ یہ مصفی خون ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ نیمبولی ڈائبیٹک مریضوں کے لئے انسولین کا کام کرتی ہے۔ یہی نمبولی (پیلے رنگ کی) چوسنے سے خون صاف ہونے کے علاوہ قبض بھی دور کرتی ہے۔ اگر پیٹ میں کیڑے ہوں تو وہ بھی اس کے استعمال سے مر جاتے ہیں۔
نیم کا تیل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کی جلد بہت زیادہ حساس ہے اور بلیک ہیڈز سے چھٹکارا مشکل لگتا ہو تو نیم کے تیل کے فقط 2 سے 3 قطرے پانی میں گھول کر روزانہ بلیک ہیڈز پر لگانے سے بلیک ہیڈز جھڑ جائیں گے اور دوبارہ نہیں ہوں گے۔ آپ اپنے بالوں کے لئے جو بھی تیل استعمال کرتے ہوں، اس میں تھوڑا سا نیم کا تیل ملا کر سر کی مالش کریں۔ اس سے جڑوں تک بلڈ سرکولیشن بہتر ہو جائے گی۔ ناخنوں میں فنگل انفیکشن ہو تو چند قطرے نیم کے تیل سے ناخنوں کی ہلکی مالش کریں۔ اس سے نہ صرف اس ناخن کی انفیکشن کم ہو گی بلکہ یہ ایک ناخن سے دوسرے ناخن تک انفیکشن کو پہنچنے سے بھی روکے گا اور متاثرہ ناخن بھی ٹھیک ھو جائے گا۔ ناخن اگر کمزور اور مڑ جاتے ہیں تو یہ صحت مند ہو جائیں گے۔ مگر یہ احتیاط لازمی ہے کہ نیم کا تیل استعمال کے بعد کھانے سے پہلے ہاتھ اچھی طرح دھو لیں تاکہ تیل کے اثرات سے محفوظ رہیں۔
نیم کا لیپ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تازہ پتوں کو پیس کر لیپ بنا لیں۔ آگ سے جلے زخم پر نیم کا لیپ لگانے سے انفیکشن نہیں ہوتا۔ کوئی بھی چوٹ ہو، معمولی زخم ہو یا ایکسیڈنٹ کے خطرناک زخم ہوں، ان پر نیم کا لیپ لگانے سے زخم جلدی بھر جاتے ہیں۔
نیم کے پھول:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کے پھولوں کا کاجل لگانے سے پلکیں موٹی ہوں گی اور اگر پلکوں کے بال جھڑ گئے ہوں تو وہ بھی اُگ آئیں گے۔ اس کے علاوہ یہ آنکھوں کی خارش بھی دور کرتا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ نیم کے پھول لے کر روئی میں لپیٹ کر بتی بنائیں اور چراغ میں سرسوں کے تیل میں جلا کر اس کا کاجل بنا لیں۔ اس کے بعد یہ چھ ماشے کاجل بھنی ھوئی ایک ماشہ پھٹکڑی کو دو تولے مکھن میں ملا کر کانسی کے کٹورے میں نیم کے ڈنڈے سے رگڑ کر آنکھوں پر لگائیں۔
نیم کی شاخ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کی ٹہنیاں آج بھی بطور مسواک استعمال ہوتی ہیں۔ آج کل مارکیٹ میں نیم کے عرق کے ساتھ ٹوتھ پیسٹ بھی دستیاب ہیں۔ اس کی مسواک سے دانتوں اور مسوڑھوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ صدیوں سے انسان کے زیر استعمال ہے۔ اگر مسوڑھوں میں انفیکشن ہو تو نیم کے ابلے ہوئے پتوں کے پانی سے کلیاں کرنے سے فائدہ ہو گا۔
نیم کی خشک پتے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کی خشک پتوں کو جلانے سے مچھر بھاگ جاتے ہیں۔ یہی کام نیم کے تیل سے بنے کوائل سے بھی لیا جاتا ہے۔ بلکہ ان پتوں کو کپڑوں میں بھی رکھا جاتا ہے، تاکہ انہیں کیڑا وغیرہ نہ لگے۔ نیم کے پتے پھوڑے پھنسیوں کو دور کرتے، درد کو تسکین دیتے اور پھوڑے کو پکا کر پھوڑتے ہیں اور زخموں سے مواد کو نکال کر پاک صاف کرتے ہیں۔
نیم کے دیگر فوائد:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیشنل ریسرچ کونسل امریکہ کے مطابق نیم برتھ کنٹرول، ماحولیاتی آلودگی اور کیڑوں سے نجات کا ذریعہ بھی ہے جو ترقی پذیر ملکوں کے لئے بہت زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسرے کیمیائی اجزاء کے ساتھ نیم قوتِ مدافعت کو کم کرنے والے وائرس (مثلاً ایڈز کے وائرس) کے پھیلاؤ کو روکتا ہے۔
نیم کے حیاتی کیڑے مار (Biopesticide)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیم کے حیاتی کیڑے مار (Biopesticide) فصلوں کو تباہ کرنے والے 80 انواع کے کیڑوں پر مؤثر ثابت ہوئے ہے۔
ہندوستان میں نیم فاؤنڈیشن کے ہیڈ ڈاکٹر رمیش سکسینا نے پہلی بار نیم کو ایک قدرتی زہر یعنی کیڑے مار دوا کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ سکسینا کا کہنا ہے کہ نیم دنیا بھر میں بخار، ڈینگو، ملیریا اور ایڈز جیسی جان لیوا بیماریوں پر قابو پانے میں مؤثر رول ادا کر سکتا ہے۔
نیم کے بیجوں کا کیک (تیل نکالنے کے بعد نیم کے بیجوں کی باقیات) کو زمینوں میں مٹی کی اصلاح کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو نہ صرف زمین کو نامیاتی مادے سے افزودہ کرتا ہے بلکہ نائٹروجن کے نقصانات کو بھی کم کرتا ہے۔ یہ نیومیٹاک کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔
نیم کا درخت سندھ اور پنجاب کے تقریباً تمام حصوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے طبی کے علاؤہ بہت سے ماحولیاتی فوائد بھی ھیں، جیسے سیلاب پر قابو پانا اور مٹی کے کٹاؤ کو کم کرنا ہے۔ یہ درخت زمین کی زرخیزی کو بحال اور برقرار رکھنے میں بھی مددگار ہے۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے یہ درخت زرعی جنگلات کے لئے انتہائی موزوں ہے۔
یہ اچھی اور پائیدار لکڑی کا ذریعہ ہے جو دیمک کے خلاف مزاحمت رکھتی ہے۔ نیم کی لکڑی کا استعمال باڑ کی چوکھٹ، گھر کی تعمیر، کھمبے، فرنیچر وغیرہ میں کیا جاتا ہے۔ یہ لکڑی اور ایندھن کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ سایہ کے لئے یہ درخت پارکوں، سڑکوں اور نہروں کے کنارے وغیرہ لگانے کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے۔ یہ ان چند سایہ دار درختوں میں سے ایک ہے جو خشک سالی کے شکار علاقوں میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔
ماخوذ تحریر!! ارشد محمود گوندل
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لئے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔
شریں یا سرس کو عربی میں سلطان الاشجار، فارسی میں درخت زکریا، پنجابی میں شرینہہ، مرہٹی میں شرس، گجراتی میں شرسٹرو، بنگالی میں شریس گاچھ سرز، سندھی میں سرنہن، انگریزی میں Albizia lebbeck اور لاطینی میں Acacia Speciosa کہتے ہیں۔اس کے سکول میں تقریبا بیس پودے ہیں جن پانچ درخت اور باقی چھوٹے چھوٹے ہیں۔
طب میں یہ پودا کثیر الفائدہ ہے۔ اِس کے بیج، چھال اور پتے بھی بطور دواء استعمال ہوتے ہیں۔ سرس کی پہچان یہ ہے کہ اِس کے پتے سبز رنگ کے ہوتے ہیں اور بیج بھورے سرخی مائل ہوتے ہیں۔ ذائقہ اِس کا تلخ ہوتا ہے اور طبی مزاج اِس کا درجۂ دؤم میں سرد اور خشک ہے۔ اِس کے پتے املی کے پتوں سے مشابہت رکھتے ہیں لیکن املی کے پتوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ اِس کی پھلیاں سبز رنگ کی ہوتی ہیں جن میں اِس کے بیج موجود ہوتے ہیں۔ پھلی تقریباً چھ انچ لمبی اور ڈیڑھ سے دو انچ چوڑی ہوتی ہے۔ بیج کی مشابہت السی کے بیجوں سے ہوتی ہے لیکن اِس کے بیج بڑے ہوتے ہیں۔طب یونانی میں بطور دواء کے استعمال میں اِس کی چھال کم از کم 5 گرام سے 7 گرام اور اِس کے بیج (تخم سرس) 2 گرام سے 4 گرام تک دیے جاتے ہیں۔
مقام پیدائش :پاکستان میں یہ زیادہ تر پنجاب ،سندھ میں جبکہ ہندوستان میں وسطی اور جنوبی ہند کے علاوہ پنجاب میں یہ مشہور درخت عموما جنگلوں میں اور بعض جگہ سڑکوں اور نہروں کے کنارے پایا جاتا ہے۔
افعال: بیرونی طورپر جالی،محلل اور مجفف ،اندورنی طور پر مصفی خون۔
تخم کے افعال: جالی ،مقوی و مغلظ منی،مقوی بصر بدن۔
چھال کے افعال: جالی،محلل،مجفف،مصفی خون،مقوی بدن
پتوں کے افعال: دافع یرقان ،دافع بخار ،پتوں کا رس مقوی بصر
استعمال (بیرونی):شب کوری کے ازالہ کے لئے سرس کے پتوں کا پانی آنکھ میں کرتے ہیں۔مقوی بصر ہونے کی وجہ سے اس کے تخموں کو سرمہ کی طرح باریک کر کے لگانا شیکوری ،دھند ،غبار، خارش چشم اور آنکھ کی سفیدی کے لئے مفید ہے۔چھال کو باریک پیس کر زخموں کو خشک کرنے کے لئے چھڑکتے ہیں۔چھال کو پانی میں جوش دے کر دانتوں کے دردکو تسکین دیتے اور مسو ڑوں کو مضبوط کنے کے لئے (غرارے) کراتے ہیں اور پانی میں پیس کر مہاسوں کو دور کرنے اور پھوڑے ،پھنسیوں کو تحلیل کرنے کے لئے لگاتے ہیں اور امراض فسادخون میں جوش دے کر پلاتے ہیں۔سرس کی پھلی کو آگ پر ڈال کر دھواں لینے سے مرض دمہ (سانس پھولنا) موققف ہوجاتاہے
بعض لوگ اس کے پتوں کےپانی میں سرمہ کو رگڑ کر بناتے ہیں اورآنکھوں کی طاقت یا مذکورہ امراض میں اس سرمہ کو استعمال کرتے ہیں۔تخم سرس کو باریک سفوف بنا کر ہلاس کے طور پر سونھگنے سے نزلہ زکام کو آرام آتا ہے۔
اندورنی استعمال: چھال کو جوشاندہ اورام بدن اور جلدی امراض میں مفید ہے۔تخم سرس اور چھال کا سفوف بنا کر حسب ضرورت چینی ملا کر رقت منی اور ضعف باہ میں کھلانا مفید ہے۔تخم سرس کو باریک پیس کر شہد میں ملا کر معجون بنا کر خنازیر میں کھلانے سے مادہ کو دور کرتا ہے۔مصفی خون ہونے کی وجہ سے فساد خون میں اس کی چھال کو جوش دے کر پلانا مفید ہے۔تخم سرس کا سفوف بنا کر خونی بواسیر میں بھی کھلاتے ہیں۔چھال کا جوشاندہ استسقاء میں پلانا مفید ہے،سرس کے پھولوں کو سکھا کر سفوف بنا کر مناسب مقدار میں چینی ملا کر کھلانے سے اح**ام کا مرض جاتا رہتا ہے۔
نفع خاص:مغلظ منی ،مقوی دندان ۔مضر:خشک مزاجوں کو۔مصلح:روغن زرد۔
کیمیاوی اجزاء:اس میں کسیلا مواد ،رال ،چھال میں راکھ ہوتی ہے۔
مقدار خوراک:چھال 5 سے 7 گرام یا ماشے تخم:ایک سے دو گرام یا ماشے۔
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق
کچنار ایک درمیانے قد کا درخت ہے جو عموماً 10 سے 12 میٹر بلند ہوتا ہے۔ اس کا اصل وطن جنوبی ایشیا اور چین ہے۔ اس پر گلابی یا جامنی رنگ کے خوبصورت اور خوشبودار پھول کثیر تعداد میں آتے ہیں۔ پھولوں کی کثرت کے باعث بہت سے لوگ اسے خوبصورتی کے لیے بھی لگاتے ہیں۔اس کا سائنسی نام
Bauhinia variegata ہے۔
اس کی کلیاں پاکستان اور بھارت میں سبزی کے طور پر پکائی جاتی ہیں۔ پنجاب میں کچنار قیمہ انتہائی مرغوب پکوان ہے۔ کچنار کا درخت سکول میں پچھلے بیس سال سے موجود ہے۔پہلی دفعہ اس سے نئے پودے بنانے کا آغاز کیا یے۔ایک پودا پچھلے سال لگایا تھا۔فروری میں کم ازکم دس پودے مختلف دستیاب رنگوں میں لگانے کا ارادہ ہے۔
Description
The Kachnar Tree:
Scientifically known as Bauhinia variegata, kachnar is the name of this flowering plant in the regional Indian languages of Hindi and Bengali and it is called Mountain Ebony, Butterfly Ash, Camel’s Foot in English.
The Bauhinia variegata is a deciduous tree, native to the Southeast Asian countries of India, Sri Lanka, Pakistan And China, among others. It is generally medium in size, growing up to a height of 10 to 12 meters, with thick barks and lengthy stems. These branches hold leaves that stretch up to 10 to 20 centimetres in size, being rather broad, having two rounded lobes each at the base and tip. Kachnar flowers are initially present as stuffed buds and upon blooming, appear in striking shades of vivid pink and dazzling white, bearing five petals. These flowers, upon developing, bud into fruits that are basically seedpods, housing numerous seeds. All parts of the kachnar tree, namely the roots, bark, stems, leaves, flowers and seeds are packed with beneficial nutrients and medicinal compounds that confer astounding merits for overall wellbeing.
Kachnar Nutrition Values:
Kachnar is rich in vital essential nutrients of vitamin C, B vitamins, key minerals of calcium, phosphorous, magnesium, iron, zinc, besides requisite macronutrients of reducing-sugar carbohydrates, dietary fibers, proteins and healthy unsaturated fats. In many regions of Pakistan, curries and pickles are prepared, by cooking, frying kachnar buds, seasoned with onions and spices, as a customary food, which is then eaten as vegetables or side dishes as part of the regular diet.
Besides containing ample amounts of several pivotal vitamins, minerals, proteins, carbs, fats, kachnar also showcases an impressive profile of bioactive phytonutrients with anti-inflammatory, antimicrobial, antihyperglycemic, anti-arthritic and cytotoxic i.e. cancer-reducing properties. These potent components are very useful in the prevention, management and treatment of a host of disorders, including hypothyroidism, irregular periods and amenorrhea, high blood sugar levels in diabetes, mouth ulcers and digestive complications.
Kachnar Health Benefits And Ayurvedic Uses:
Hypothyroidism occurs when the thyroid gland does not synthesize adequate quantities of thyroid hormones, which play a crucial role in conserving metabolism and immunity in the body. Since an imbalance in the three doshas of vata, pitta, kapha, besides overweight, obesity conditions and hampered digestion processes prompt thyroid problems, taking kachnar decoctions and powders assists in treating hypothyroidism. Kachnar formulations significantly ease the assimilation of foodstuffs in the body, as well as regulate the three doshas, improve metabolism and promote weight loss.
Lowers Blood Sugar
Kachnar is blessed with profuse anti-diabetic and antihyperglycemic plant compounds. These control insulin mechanism in the body, as well as bring down rising blood glucose levels. In this manner, kachnar assists in mitigating diabetes symptoms and keeping blood sugar levels in check.
Effectively Treats Haemorrhoids
Kachnar is imbued with agni-activating matter i.e. compounds that stimulate the digestive juices. Since rampant indigestion and constipation trigger inflammation in the veins in the re**um, resulting in itching, pain, bleeding during the elimination of wastes as urine, stools, kachnar relieves pain, swelling in the re**um and ceases the occurrence of piles or haemorrhoids.
Regulates Menstrual Cycles
Erratic occurrences of monthly periods or the total lack of menstruation i.e amenorrhea, which happen due to imbalance in pitta dosha and an overheated body, can be alleviated by taking kachnar decoctions. This is because kachnar is packed with sheeta or cooling traits, besides an inherent ability to control pitta dosha, thereby assuring timely, normal menstrual cycles.
Remedies Diarrhoea
Diarrhoea occurs owing to an agitated Vata dosha, resulting in frequent excretion of loose stools, apart from discomforting symptoms of fatigue, dehydration. Bestowed with vata-balancing characteristics, kachnar successfully cures diarrhoea, enhances digestion and preserves normal bowel and bladder functions.
Side Effects:
A moderate usage of kachnar on a daily basis is well-tolerated by most individuals. Yet, kachnar is not recommended for people who suffer from kidney damage, liver anomalies and have recently undergone extensive treatment, surgery for other pre-existing health conditions, since it may lead to poor absorption in blood and further internal tissue damage. Also, pregnant and breastfeeding women are advised not to consume kachnar, since it possesses hormone-influencing properties.
Dosage:
For most people, kachnar is absorbed smoothly in the system and vastly improves overall wellness. Taking the bark powder in small amounts of 1 to 3 grams, or 40 to 80 ml of the leaf decoction, 10 to 20 ml of the flower extract, in divided portions, daily, is the suggested safe, effective intake of kachnar. However, if a person presents with any underlying conditions of thyroid, diabetes or PCOS, then it is always advised to consult with a certified Ayurvedic practitioner and follow only the prescribed dosage, to avoid any harmful side effects.
Conclusion:
Kachnar is truly a magical wonder from Mother Nature, that supplies tremendous quantities of essential nutrients, carbs, proteins, fats, vitamins, minerals, besides powerful antioxidants and advantageous plant-based biochemicals.
Kachnar is indeed a versatile herb. It can be consumed as food in measured amounts by incorporating it into the routine diet, as staple Indian dishes of curry, achaar. Besides, it delivers magnificent curative traits as a medicinal aid for thyroid complications, indigestion, irregular menstrual cycles and healing a host of health woes, to ensure optimal wellbeing.
ہیبسکس کے ایک درجن قد آدم پودے موجود ہیں۔اس کی تمام دستیاب سپیشیز قلم سے آسانی سے اگائی جا سکتی ہیں۔انتہائی خوبصورت پودا ہے۔
(HIBISCUS) ہیبسکس میلویسی فیملی، پھولدار پودوں کی ایک نسل ہے۔ یہ جینس کافی بڑی ہے، جس میں کئی سو انواع شامل ہیں جو دنیا بھر میں گرم معتدل، استوا ئی اور نیم استوائی خطوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس نسل کے ارکان اپنے بڑے، شوخ پھولوں کے لیے مشہور ہیں اور ان نسلوں کو عام طور پر صرف "ہبسکس" کے نام سے جانا جاتا ہے، یا کم وسیع پیمانے پر روز میلو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرے ناموں میں ہارڈی ہیبسکس، شیرون کا گلاب، اور استوا ئی اور نیم استوائی ہیبسکس شامل ہیں۔
سجاوٹی پودا ہونے کے علاوہ یہ قدیم زمانے سے مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے بھی مشہور ہے۔
۔ آج تک ، اس کو شفا بخش چائے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، جو شدید پیاس کو دور کرتا ہے ، زہریلے مواد کو جسم سے صاف کرتا ہے ، وزن میں کمی کو فروغ دیتا ہے اور بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔کولیسٹرول اور بلڈ شوگر کی سطح کو کم کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں۔
• ہیبسکس پھولوں میں اسکاربک ، میلک اور سٹرک ایسڈ ہوتا ہے۔
• Hibiscus جسم کے قوت مدافعت کے نظام کو بہتر بناتا ہے ، اس کے حفاظتی کام کو بڑھاتا ہے۔
• خون کو صاف کرتا ہے کیل مہاسوں کے علاج میں موثر ہے۔باہر کے ممالک میں اس کا جوس شربت بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
• کیمیائی مرکب
ہیبسکس میں مفید مادے ہوتے ہیں جو جسم ، میکرو اور مائکرویلیمنٹ کے لئے اہم ہیں:
• پروٹین - 0.43 جی؛
• چربی - 0.65 جی؛
• کاربوہائیڈریٹ - 7.41 جی؛
• پوٹاشیم -9 گرام؛
• کیلشیم - 1 ملیگرام؛
• میگنیشیم - 1 ملیگرام؛
• آئرن - 8.64 ملیگرام؛
• زنک - 0.12 ملیگرام؛
• تانبا - 0.073 ملیگرام۔
۔
اس کی چائےکی تیاری کے ل یےآپ کو خشک پھولوں کو ابلتے ہوئے پانی کے ساتھ ابالنے کی ضرورت ہے اور اسے تھوڑی دیر پکنے دیں۔ چھوٹی مقدار میں باقاعدگی سے لینے کی سفارش کی جاتی ہے۔
اکثر ، ایک عورت ، کو حاملہ کی حیثیت میں ہونے کی وجہ سے ، کچھ کھٹا کھا جانے کی غیر متوقع خواہش محسوس کرتی ہے ، اور یہاں ہیبسکس چائے عام طور پر اس کی مدد کے لئے آتی ہے ، جس کا بنیادی جزو ہیبسکس ہے۔
ڈاکٹروں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حمل کے دوران پودوں کا استعمال کا عورت کے جسم پر بہت سارے مثبت اثرات پڑتے ہیں۔
• ٹاکسن کا خاتمہ۔
• جرثوموں اور بیکٹیریا کے خلاف جنگ؛
• اندر سے خون کی رگوں کی دیواروں کو مضبوط بنانا؛
• عمل انہضام میں نمایاں بہتری۔
• پیٹ میں کمی
کچھ ماؤں کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران ہیبسکوس پینا شروع کیا ، انھوں نے اعصابی نظام کے کام میں بہتری دیکھی ، جو اس پوزیشن میں بہت اہم ہے۔
• پھوڑے مہاسوں اور مختلف جلدی بیماریوں کے لیے مفید ہے۔
• قبل از وقت سرمئی بالوں کو روکتا ہے۔
• بالوں کے گرنے سے روکتا ہے۔
پودوں سے کیا کھانا پکانا؟
میٹھے پکوانوں میں اس کے پھول ڈالے جا سکتے ہیں۔
جیم کی تیاری میں استعمال۔
اجزاء:
• پانی - 0.5 لیٹر؛
• ہیبسکس پنکھڑیوں -30 گرام؛
• کوئی میٹھا
کھانا پکانے کا طریقہ:
1. 0.5 لیٹر پانی سوس پین میں ڈالیں ، ہیبسکوس کی پنکھڑیوں کو ڈالیں ، تھوڑا ہلائیں۔
2. آخر میں ، سویٹنر شامل کریں اور ایک تھوڑا ہلائیں۔
3. اس مرکب کو مزید آدھے گھنٹے کے لئے پکائیں ، پھر گرمی سے نکالیں اور ٹھنڈا ہونے دیں۔
4. میٹھا سیٹ کرنے کے لئے ف*ج میں رکھیں۔
جب جیم ٹھنڈا ہوجائے تو ، آپ اسے کھا سکتے ہیں۔ فی دن کھپت کی مقدار محدود نہیں ہے۔
شربت میں استعمال۔
اجزاء وہی ہیں جو پچھلے نسخے میں ہیں۔
پکانے کا طریقہ:
1. ایک سوس پین میں پانی ڈالیں ، چینی شامل کریں اور ابال لیں۔
2. پھر شربت ٹھنڈا ہونے دیں۔
3. جب شربت ٹھنڈا ہوجائے تو اس میں پنکھڑی ڈالیں اور پکنے دیں۔
4. نتیجے میں شربت ایک برتن میں ڈالیں اور ف*ج میں چھوڑ دیں۔
اس سے شربت بنائیں اور استعمال کریں۔
چہرے کے لئے
مختلف بیماریوں کے علاج کے علاوہ چہرے کی صحتمند جلد کو برقرار رکھنے کے لئے ہیبسکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مہاسوں اور مہاسوں کے بریک آؤٹ کے خلاف اس سے ماسک اور کریم تیار کیے جاتے ہیں۔ آپ اس پودے کے پتوں سے فیس واش بنا سکتے ہیں جو آپ کے چہرے کو صاف کرنے میں مدد کرتا ہے۔
فیس واش بنانے کا طریقہ۔
• Hibiscus پتے؛
• سوتی پیڈ؛
• گرم پانی.
پکانے کا طریقہ:
گرم پانی میں ہیبسکس کے پتے ابالیں اور اندھیرے والی جگہ پر چھوڑ دیں۔ 3 دن کے بعد ، اس کے ساتھ سوتی پیڈ بھگو کر اور چہرے پر لگاکر کمپریس استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کافی اور چائے اور سلاد میں استعمال
اجزاء:
• Hibiscus کے پتے؛
• گلاب کے پتے
• چینی اورحسب ذائقہ نمک۔
پکانے کا طریقہ:
گلاب اور ہیبسکس کے پتوں کو برابر تناسب میں مکس کریں ، اس میں ذائقہ میں چینی اور نمک شامل کریں۔ آپ پکائے ہوئےآمیزے کو ، فروٹ چاٹ میں اضافے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ، یا ٹاپنگ کے طور پر کافی اور چائے میں شامل کرسکتے ہیں۔صرف معدہ و انتڑیوں کے السر کے مریض اس کاا زیادہ استعمال نہ کریں بوجہ اس کی ہلکی تیزابی خاصیت اور کھٹاس ہے۔
ترجمہ، تلخیص ، اضافہ و ترتیب۔
آصف جاوید ایس ایس ٹی ادارہ ھذا
میٹھا
یہ پھل کھٹے پھلوں کی دو اقسام سے تیار کردہ دوغلی نسل کا پھل ہے۔سٹرس ہسٹرکس اور سٹرس میڈیکا سے بنایا گیا ہے۔دوغلی نسل کا نام سسٹرس ایو رینٹی فولیا رکھا گیا ہے۔سکول میں میٹھے کے پودوں کی تعداد 40 ہے۔شروع میں ایک پودا تھا۔جو سید محمد الیاس شاہ صاحب ایس ایس ادارہ ھذا نے 2011 میں لگایا تھا۔پھر ائیر لیئرنگ سے پچھلے سال پہلی دفعہ آٹھ پودے بنائے جو کامیابی سے بڑھ رہے ہیں۔اس سال ستر شاخوں پر ائیر لیئرنگ کی اور شوق ہی شوق میں ستر پودے تیار ہو گئے جن میں سے 32 سکول کے پلاٹ میں شفٹ کر دئے ہیں۔جو نئی کونپلیں نکال آئے ہیں۔کچھ شاخیں ابھی باقی ہیں۔ارادہ ہے جو حصہ جنگل اور سانپوں کا گھر بنا ہے اس کو خوبصورت باغ میں بدل کر سکول کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنایا جائے اور سکول اپنے نان سیلری اخراجات میں خود کفیل ہو سکے۔
ارجن کا پودا
سکول میں اس کی تعداد دس کے قریب ہے۔ہندو مذہب میں اس کو مقدس پودا مانا جاتا ہے اور اس کا نام پانڈووں کے تیسرے بھائی ارجن کے نام پر رکھا گیا ہے۔کورووں اور پانڈو کی لڑائی ہندو مذہب میں مشہور ہے۔
خدا نے کرہ ارض کو بے شمار قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔زمین پر موجود بے شمار درخت، جانداروں کے لیے خوراک، ادویات اور پناگاہوں کا مرکز ہیں۔ پرندے درختوں پر بسیرا کرتے ہیں۔ انسان اور جانور ان کے مختلف حصوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ قدیم حکمتی دور سے جدید ادویاتی نظام تک، انسانی زندگی میں ادویاتی پودوں کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پودے ادویات کا اہم ذریعہ ہیں۔ جو کہ انسانی صحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی لیے دنیا کی دو تہائی آبادی اپنی بنیادی صحت کے لیے ادویاتی پودوں پر انحصار کرتی ہے۔ تمام ادویاتی پودوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن قلبی امراض کے علاج میں ارجن کا کوئی ثانی نہیں۔ اپنی بے جا خصوصیات کے پیشِ نظر ارجن بنی نوع انسان کے لیے ایک رحمت سے کم نہیں۔ ہریڑ اور بہیڑہ کے خاندان کمبری ٹیسی (Combretaceae)سے تعلق رکھنے والے اس درخت کا نباتاتی نام ٹرمینیلیہ ارجونہ (Terminalia Arjuna)ہے۔ذیلی ہمالیہ خطے میں اسے مختلف ناموں سے یاد رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ اردو میں ارجن(Arjun)، ہندی میں کاہو(Kahu)، انگریزی میں ٹروپیکل آلمنڈ(Tropical Almond)، بنگالی میں ارجھان(Arjhan) جبکہ ادوایاتی دنیا میں ''ارجن دل کا سرجن'' کہا جاتا ہے۔ ارجن 80سے 100 فٹ قدآور پرنیاتی درخت، انڈیا اور سری لنکا کا مقامی پودا ہے۔ جبکہ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، برمہ، آسٹریلیا اور چائنہ میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ارجن کراچی، شمالی پنجاب، جنوبی بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں موجود ہے۔ارجن کو ہر طرح کی زمین مثلاً چکنی، ریتلی، میرا، کلر اٹھی، سیم اور تھور زدہ زمینوں میں اگایا جا سکتا ہے۔ لیکن دریائی مٹی اس کی کاشت کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ ارجن ایک بڑے پھیلاؤ والا چھتردار درخت ہے جس کی شاخیں لٹکی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کی چھال ہموار اور سرمئی رنگ کی ہوتی ہے۔ امرود کے پتوں سے مشابہ ذیلی مخالف پتے 10-15 کی مقدار میں ایک ٹہنی پر لگتے ہیں۔ اس کے پھول چھوٹے اور سفید رنگ کے ہوتے ہیں جو کہ اپریل تا جولائی گچھے کی صورت میں لگتے ہیں۔ اس کا پھل سٹار فروٹ کی طرح لمبا، ریشہ دار اور ٹرپھلہ (پھاڑی دار) ہوتا ہے۔ طبی اعتبار سے ارجن کے مختلف حصوں میں سے چھال کو برتری حاصل ہے۔
ارجن کی چھال میں مختلف کیمیائی مادے پائے جاتے ہیں مثلاً ٹینینز(Tannins)، فلیونایڈز(Flavonoids)، گلیکوسایڈز(Glycosides)، الکیلویڈز(Alkaloids)، بیٹاسائیٹوسیٹرول (B-Sitosterol)،ٹرائی ٹرپی نائیڈ(Triterpenoid) سیونین، ارجونین(Arjunin)، ارجونیٹین(Arjunitine)، ارجو نولک ایسڈ،شکر،کیلشیم کے نمکیات کے ساتھ تھوڑی مقدار میں میگنیشیم اور ایلومینیم کے نمکیات وغیرہ جو کہ مختلف جسمانی امراض کے لیے فائدہ مند ہیں۔
ارجن کی چھال کے فوائد مندرجہ ذیل ہیں۔
٭ ارجن کی چھال میں موجود کیمیائی مادے دل کے پٹھوں کو قوت و توانائی فراہم کرتے ہیں جس سے دل کی دھڑکن درست برقرار رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خون کی شریانوں کو کھلا کرتی ہے جس سے خون کی روانگی میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔
٭ اس کے علاوہ ارجن خون کے بیرونی بہاؤ کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لیے یہ نکسیر کو روکنے اور زخم بھرنے کے عمل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
٭ عمل تنفس میں پیدا ہونے والے مسائل اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کے علاج کے لیے ارجن کی چھال بہت موثرہے۔
٭ ارجن کی چھال نظام انہضام کو درست کرنے کے لیے مفید ہے تحقیق کے مطابق یہ اسہال اور بواسیر کے علاج کے ساتھ ساتھ جگر کو بہتر بناتی ہے۔
٭ ارجن کی چھال ہارمون نظام میں درستگی اور پیشاب کی پیداوار کو بڑھا کر جسم کو انفیکشن سے بچاتی ہے۔ حال ہی 2018 میں بھارت کے شہر راجستھان میں ہونے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ارجن کی چھال بلڈ پریشر اور کولیسٹرول لیول کو کم کرنے اور ذیابیطس کے علاج میں مفید ہے۔
٭ یہ منی کی پیداوار کو بڑھانے اور گاڑھا کرنے کے ساتھ ساتھ جسم کا سٹیمنا بھی بڑھاتا ہے۔
٭ ارجن کی سرد تاثیر کی وجہ سے اس کی چھال جلد کے کئی امراض مثلاً چنپل، ایگزیما، خارش، کھجلی اور جسم کے داغ دھبوں کے خاتمہ کے لیے موزوں ہے۔
٭ زمانہ قدیم میں ارجن کی جھاگ کو ورم غلافِ دل اور درد دل کی شفاعت کے لیے چائے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے.
نسخہ:
دس گرام چھال ارجن دوسو گرام پانی میں ابالیں اس میں چار سو گرام دودھ شامل کر کے نرم آنچ پر پکائیں پانی سوکھنے پر مصری یا شکر ملا کر نوش کریں۔
احتیاطی تدابیر:
۱) ارجن کی چھال دس گرام فی دن استعمال کرنا مناسب ہے اس سے ذیادہ خوراک نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
۲) حاملہ عورت اس کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ اس کی زیادہ مقدار بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
۳) جیسا کہ یہ خون میں شوگر کی سطح کو کم کرتا ہے اس لیے اگر آپ اسے ذیابیطس کے انسداد والی منشیات کے ساتھ لے رہے ہیں تو باقاعدگی سے بلڈ شوگر کی جانچ(ٹیسٹ) کروائیں۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the school
Telephone
Website
Address
Gujrat
50780
Challay Sharif Road, Karianwala
Gujrat, 50830
An education system that seeks to establish enlightened schools for young minds, rooted in tradition
M. A. S SCHOOL SYSTEM JINNAH CHOWK GUJRAT
Gujrat, 50700
WESTFIELD PRE CADET ACADEMY (WPCA)
Single Road Shell Petrol Pump Shadman
Gujrat
Red Ark School System gives hands on experiences to the young learners.
Misali Cadet Model School Shadiwal Gujrat
Gujrat, 50700
Misali Cadet Model School Pakistan best school. The Education System of Misali is wonderful. English Medium School. fellow all Islamic rules. special focus on student attitude and ...
Near Govt. Boys High School Alam Garh
Gujrat
Education is the most powerful weapon which you can use to change the world.” “The power of educ
Near Ghuman Chowk, University Road
Gujrat, 50700
Play Group to 8th class
Bypass Road Near Shaheen Chowk, Murrarian Shareef Gujrat
Gujrat
We are delighted to welcome you to our Page and We look forward to learning and growing together.