Sir-M.Akram.
Birthday 15th April,SST Govt Teacher and Head Master at Govt High School Bhagowal Kalan.
آج اگر ہم ہوتے تو 64 کے ہوتے😔
😊 ایک عظیم لیڈر کی داستان 😊
ہم نے چار شادیوں پر زور دیئے رکھا، لیکن یہ کبھی نہ بتایا کہ رسول پاکﷺ نے اپنی جوانی کے 25 سال ایک ہی عورت کے ساتھ گزارے اور حصرت سودہ سے دوسری شادی حضرت خدیجہ رض کی وفات کے بعد کی۔ ہم نے یہود نصاری کی دشمنی کا راگ الاپے رکھا، لیکن یہ کبھی نہ بتایا کہ میثاق مدینہ کے وقت یہودیوں کے دس قبائل تھے اور وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتحادی تھے۔ فرانس نے گستاخی کی تو ہم نے اپنے ہی ملک میں آگ لگا دی ،لیکن یہ کبھی نہ بتایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنان اسلام کو معاشی طور پر کمزور کرکے اپنی دھاک بٹھائی۔
مشرکین مکہ تاجر تھے اور تجارت کی غرض سے شام جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے شمال کی راستے پر واقع قبائل سے دوستیاں کیں اور مشرکین مکہ کی تجارت کا راستہ بند کروایا۔ جب وہ جنوب کے راستے یمن جانے لگے تو آپﷺ نے وہاں کے باشندوں سے معاہدے کر کے اہل قریش کا راستہ روک دیا۔ آپﷺ نے اپنے ہی ملک کو آگ نہیں لگائی تھی بلکہ دشمن کو معاشی طور پر کمزور کرکے اس کی کمر توڑ دی۔ نوبت فاقوں تک پہنچی تو ابو سفیان آپﷺ کے پاس حاضر ہوا کہا کہ ان کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ آپﷺ نے اسے پانچ سو اشرفیوں کے ساتھ بہترین کھجوریں دیتے ہوئے تجارت کرنے کی اجازت دے دی۔ یعنی اہل قریش دشمن بن کر آئے تو آپﷺ نے ان کی کمر توڑ دی۔ لیکن وہی دشمن بطور انسان رحم کی بھیک مانگنے آئے تو آپﷺ نے ان کی مدد کی۔
مجھ میں اتنی تاب نہ تھی کہ میں آپﷺ کو بطور نبی سمجھ سکتا لہذا میں نے آپﷺ کو بطور انسان سمجھنے کی کوشش کی۔ میں نے جانا:
آپﷺ ایک عظیم مدبر تھے، آپﷺ نے اپنی تدبیر سے صلح حدیبیہ جیسے معاہدے کئے جو بظاہر مسلمانوں کو کمزور کرنے والے تھے، لیکن وہی معاہدے آپﷺ کے لئے فتح مکہ کا باعث بنے۔ آپﷺ نے دشمنوں کی جاسوسی کے لئے حضرت ابو ہریرہ کی ڈیوٹی لگائی تاکہ دشمنان کے ارادے جان سکیں۔
آپﷺ ایک عظیم سفارتکار تھے۔ آپﷺ نے اپنے دشمن کے دوستوں سے دوستیاں کی تاکہ ان کا اثر کم ہوسکے۔ مدینہ کے شمال میں خیبر اور جنوب میں مکہ تھا۔ اور ان دونوں شہروں کے باشندے مسلم مخالف تھے۔ آپﷺ نے کمال ذہانت سے صلح حدیبیہ میں اہل مکہ سے وعدہ کیا کہ وہ مسلمانوں کی کسی جنگ میں دشمن کا ساتھ نہ دیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپﷺ نے خیبر اور اہل مکہ کے مشرکین کو جدا کر کے شکست دی۔
آپﷺ ایک کمال سپہ سالار تھے۔ مدینہ شہر کے تینوں اطراف پہاڑ تھے اور واحد زمینی راستہ پر آپﷺ نے خندق کھود کر مدینہ کو آنچ نہ آنے دی۔ آپﷺ نے یہودیوں کے دس قبائل سے معاہدے کئے کہ وہ اپنے مختلف مذہب کے باوجود مسلمانوں کی جنگی مدد کریں گے اور جنگی اخراجات مل کر برداشت کریں گے۔
آپﷺ ایک بہترین منتظم تھے، آپﷺ نے اپنی بہترین نظامت سے ایک اسلامی ریاست کو بام عروج پر پہنچایا۔ آپﷺ نے پولیس اور انصاف کا نظام متعارف کروایا۔ اور مجرم کو گردن سے پکڑنے کی ذمہ داری حضرت علی کے سپرد کی۔ آپﷺ نے مختلف ریاستوں کے گورنر نامزد کئے اور ان سے خط و کتابت سے امور مملکت جانتے رہے۔
آپﷺ ایک بہترین معلم تھے، آپ نے کچھ نہ ہونے کے باوجود صفہ کا قیام عمل میں لایا اور لوگوں کی تعلیم و تربیت کا نظام واضع کیا۔ میں کیا، دنیا کا کوئی فلسفی، کوئی دانشور یا کوئی محقق دنیا کی عظیم ترین شخصیات کو جاننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ آپﷺ کو سب سے افضل پاتا ہے۔
لیکن۔۔ ہم نے اپنے نبی کے مقام و مرتبہ کے ساتھ ناانصافی کی۔ ہم ساری زندگی چاند کو توڑنے اور واقعہ معراج جیسے معجزات بیان کرتے رہے، لیکن بطور بشر آپﷺ کے کمالات کو کبھی بیان کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بالکل ایسے جیسے امام حسین کے واقعہ کربلا کے علاوہ کسی کو امام کی ذات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں،
آپﷺ بطور نبی معجزات سے نہیں بلکہ بطور بشر تن تہنا، ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں لائے جسے دیکھ کر قیصر و قصری اور فارس کے محلات بھی انگشت بدنداں ہوگئے۔ پھر وہ وقت آن پہنچا، جب دنیا کا عظیم ترین انسان میدان عرفات میں لاکھوں کے جھرمٹ میں یہ اعلان کر رہا تھا
"الیوم اکملت لکم دینکم " (آج کے دن دین مکمل ہوگیا)۔ گویا وہ بشری معراج پر پہنچ چکے تھے اور اس کے بعد یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے بند کردیا گیا۔
دنیا کے عظیم ترین لیڈر، عظیم ترین سیاست دان، عظیم ترین سفارتکار، عظیم ترین سپہ سالار اور عظیم ترین معلم پر لاکھوں کروڑوں سلام
صلی اللہ علیہ وسلم
❤️❤️❤️
شادی خانہ آبادی!
شادی خانہ آبادی کا مطلب شاید ہی اب کسی کو پتہ ہو مجھے تو یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس زوال کی وجہ کیا ہے لڑکیوں کو کوئی سمجھانے والا نہیں رہ گیا کیا ؟
نا والدین نا خاندان؟
سب تماش بین بن گئے ؟
ہر وقت کے اپنے تقاضے اور خوبصورتی ہے۔ دلہن بنی لڑکیاں اس قدر بری لگتی ہیں ناچتی ہوئی جس کی کوئی حد نہیں کیا واقعی آپ کو آج تک کسی نے نہیں بتایا۔۔۔۔۔؟
نہیں سمجھایا کہ دلہن بننے کے یا دلہن کے گیٹ اپ کے کیا تقاضے ہیں۔۔۔۔۔۔؟
مت نکالیں گھونگٹ، مت نظریں جھکائیں مگر چہرے پہ حیا تو ہو دلہن پہ روپ ہی اس کے جھنپنے اور حیا سے آتا ہے یہ روپ ہی تو ہے جو دلہن کو فنکشن میں شریک باقی لڑکیوں سے منفرد اور بہت خاص بناتا ہے.
عجیب گندا رواج جانے شروع کہاں سے ہوا دلہا دلہن کے بوس و کنار اور دلہن کا پنڈال میں ناچتے ہوئے آنا۔ پہلے دلہن سہیلیوں کے ساتھ آتی تھی پھر رواج بدلا بھائی ساتھ آنے لگے اب والدین کے ساتھ پنڈال میں آتی ہیں، یہ سب اچھا ہے لیکن ناچنا کیوں شروع کر دیا آخر۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
اور تقریب کے دوران دلہا دلہن کے بوس و کنار دیکھ کے تو لگتا ہے ان سے پوچھا جائے کہ یہ ارد گرد کھڑے رشتے دار اور خاص طور سے یہ ماں باپ کرائے کے ہیں کیا جو صرف تماش بینی کر رہے ہیں۔ آپ کو صحیح غلط بتا رہے ہیں نا اس بے باکی پہ خود شرمندہ ہو رہے ہیں۔
منفرد نظر آنے کی کوئی حد بھی تو ہو۔
پڑوسی ملک میں بھی بڑی بڑی سپر سٹار ہیروئنز اپنی شادی پہ ایسا ناچ گانا نہیں کرتیں جو ہمارے ملک میں شروع ہو چکا ہے۔
عام عام درمیانے درجے کی ہیروئنز اور ٹک ٹاکرز اپنی شادی پہ وہ وہ اوچھا پن کر رہی ہیں جس کی کوئی مثال نا ہو ایک ایک ماہ ڈھولکیوں ، برائڈل شاور ، مایوں ، مہندی، شادی، ولیمہ سب پہ دل بھر کے ناچنے کے بعد شادی چار دن نہیں چلا سکتیں۔
کئی سالوں کے ریلیشن شپ اور پھر مہینہ بھر کی ڈانس پریکٹسز اور مہینہ بھر کے شادی کی تقاریب پہ خوب اودھم مچانے کے بعد لڑکوں کو خیال آتا ہے کہ مجھے تو گھر چلانے والی لڑکی چاہیے تھی اور لڑکیاں اچانک ہوش میں آتی ہیں کہ ہمیں تو کیرئیر کو فوقیت دینی ہے حیرت ہے یہ بنیادی باتیں آپ نے طے نہیں کیں تو اتنے لمبے ریلیشن شپ میں کیا کیا۔
سیکھنے کی بات یہ ہے کہ کلاس شو کرانے کے لیے اوور ہونا بالکل بھی ضروری نہیں ہے اپنا وقار رکھیں دلہن بن کے بھی ویسے بھی۔
اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس اندھی تقلید کے تحت ہمارے ارد گرد بھی مہندیوں مایوں پہ دلہنوں کا ناچنا عام ہو گیا ہے مہندیوں پہ دلہا دلہن کے ڈو اٹ ڈانس پرفارمنس کی وجہ سے نکاح مہندی والے دن کر دیا جاتا ہے جبکہ ان ڈانسوں کے پریکٹس کئی کئی دن پہلے سے ہو رہی ہوتی ہے پریکٹس کے لیے شاید نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی ہوگی یہ کیا ڈرامے بازی ہے ویسے۔۔۔۔۔؟
اور اب تو کئی نو دولتیوں کے گھر کی شادی والے دن بھی دلہن اتاولی باولی ہو کے ناچتی ہوئی پنڈال میں آتی ہے۔
فضول رسم و رواج میں برائیڈل شاور ایک نئی انٹری ہے جس پہ میکسی اور برائڈ ٹو بی کی سیش پہن کے کیک کاٹتی دلہن ماڈرن لگتی ہے، توبہ یہ کمپلیکس۔
شادی ایک گھر کی بنیاد ھے
ایک گھرانے کی تشکیل
اس کو ان خرافات سے پاک کر کے انجوائے کریں۔
شادی کے فنکشنز کی ہی نہیں شادی شدہ زندگی کی زمہ داریوں اور لوازمات کی بھی کچھ تیاری کر لیں ورنہ ایک سال سے کم عرصہ چلنے والی شادیوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لاکھوں روپے شادی پہ برباد نتیجہ طلاق۔
جو چپ رہا اس نے نجات پائی۔
جو شخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے“ میں نے پوچھا ”سر غصے کی کیمسٹری کیا ہے؟“
وہ مسکرا کر بولے ”ہمارے اندر سولہ کیمیکلز ہیں‘ یہ کیمیکلز ہمارے جذبات‘ ہمارے ایموشن بناتے ہیں‘ ہمارے ایموشن ہمارے موڈز طے کرتے ہیں اور یہ موڈز ہماری پرسنیلٹی بناتے ہیں“ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ”ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے“ میں نے پوچھا ”مثلا“۔۔۔؟ وہ بولے ”مثلاً غصہ ایک جذبہ ہے‘ یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے‘مثلاً ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم تھی‘ ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا‘
ہماری نیند پوری نہیں ہوئی یا پھر ہم خالی پیٹ گھر سے باہر آ گئے‘ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ ہمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ہو گا‘ یہ ری ایکشن ہمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور یہ بلڈ پریشر ہمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا‘ ہم بھڑک اٹھیں گے لیکن ہماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل ہو گی‘ ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر دے گا اور یوں ہم اگلے 15منٹوں میں کول ڈاؤن ہو جائیں گے چنانچہ ہم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینیج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے“
میں نے عرض کیا ”کیا یہ نسخہ صرف غصے تک محدود ہے“ وہ مسکرا کر بولے ”جی نہیں‘ ہمارے چھ بیسک ایموشنز ہیں‘ غصہ‘ خوف‘ نفرت‘ حیرت‘ لطف(انجوائے) اور اداسی‘ ان تمام ایموشنز کی عمر صرف بارہ منٹ ہو تی ہے‘ ہمیں صرف بارہ منٹ کیلئے خوف آتا ہے‘ ہم صرف 12 منٹ قہقہے لگاتے ہیں‘ ہم صرف بارہ منٹ اداس ہوتے ہیں‘ ہمیں نفرت بھی صرف بارہ منٹ کیلئے ہوتی ہے‘ ہمیں بارہ منٹ غصہ آتا ہے اور ہم پر حیرت کا غلبہ بھی صرف 12 منٹ رہتا ہے‘
ہمارا جسم بارہ منٹ بعد ہمارے ہر جذبے کو نارمل کر دیتا ہے“ میں نے عرض کیا ”لیکن میں اکثر لوگوں کو سارا سارا دن غصے‘ اداسی‘ نفرت اور خوف کے عالم میں دیکھتا ہوں‘ یہ سارا دن نارمل نہیں ہوتے“ وہ مسکرا کر بولے ”آپ ان جذبوں کو آگ کی طرح دیکھیں‘ آپ کے سامنے آگ پڑی ہے‘ آپ اگر اس آگ پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتے رہیں گے‘ آپ اگر اس پر خشک لکڑیاں رکھتے رہیں گے تو کیا ہو گا ؟ یہ آگ پھیلتی چلی جائے گی‘ یہ بھڑکتی رہے گی‘
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کو بجھانے کی بجائے ان پر تیل اور لکڑیاں ڈالنے لگتے ہیں چنانچہ وہ جذبہ جس نے 12 منٹ میں نارمل ہو جانا تھا وہ دو دو‘ تین تین دن تک وسیع ہو جاتا ہے‘ ہم اگر دو تین دن میں بھی نہ سنبھلیں تو وہ جذبہ ہمارا طویل موڈ بن جاتا ہے اور یہ موڈ ہماری شخصیت‘ ہماری پرسنیلٹی بن جاتا ہے یوں لوگ ہمیں غصیل خان‘ اللہ دتہ اداس‘ ملک خوفزدہ‘ نفرت شاہ‘ میاں قہقہہ صاحب اور حیرت شاہ کہنا شروع کر دیتے ہیں“ وہ رکے اور پھر بولے ”آپ نے کبھی غور کیا ہم میں سے بے شمار لوگوں کے چہروں پر ہر وقت حیرت‘ ہنسی‘ نفرت‘ خوف‘ اداسی یا پھر غصہ کیوں نظر آتا ہے؟
وجہ صاف ظاہر ہے‘ جذبے نے بارہ منٹ کیلئے ان کے چہرے پر دستک دی لیکن انہوں نے اسے واپس نہیں جانے دیا اور یوں وہ جذبہ حیرت ہو‘ قہقہہ ہو‘ نفرت ہو‘ خوف ہو‘ اداسی ہو یا پھر غصہ ہو وہ ان کی شخصیت بن گیا‘ وہ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے درج ہو گیا‘ یہ لوگ اگر وہ بارہ منٹ مینج کر لیتے تو یہ عمر بھر کی خرابی سے بچ جاتے‘ یہ کسی ایک جذبے کے غلام نہ بنتے‘ یہ اس کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوتے“ میں نے عرض کیا ”اور کیا محبت جذبہ نہیں ہوتا“ فوراً جواب دیا ”محبت اور شہوت دراصل لطف کے والدین ہیں‘ یہ جذبہ بھی صرف بارہ منٹ کاہوتا ہے‘
آپ اگر اس کی بھٹی میں نئی لکڑیاں نہ ڈالیں تو یہ بھی بارہ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن ہم بے وقوف لوگ اسے زلف یار میں باندھ کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں اور یوں مجنوں بن کر ذلیل ہوتے ہیں‘ ہم انسان اگر اسی طرح شہوت کے بارہ منٹ بھی گزار لیں تو ہم گناہ‘ جرم اور ذلت سے بچ جائیں لیکن ہم یہ نہیں کر پاتے اور یوں ہم سنگسار ہوتے ہیں‘ قتل ہوتے ہیں‘ جیلیں بھگتتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں‘ ہم سب بارہ منٹ کے قیدی ہیں‘ ہم اگر کسی نہ کسی طرح یہ قید گزار لیں تو ہم لمبی قید سے بچ جاتے ہیں ورنہ یہ 12 منٹ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتے“۔
میں نے ان سے عرض کیا ”آپ یہ بارہ منٹ کیسے مینیج کرتے ہیں“ وہ مسکرا کر بولے ”میں نے ابھی آپ کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا‘ وہ صاحب غصے میں اندر داخل ہوئے‘ مجھ سے اپنی فائل مانگی‘ میں نے انہیں بتایا میں آپ کی فائل پر دستخط کر کے واپس بھجوا چکا ہوں لیکن یہ نہیں مانے‘ انہوں نے مجھ پر جھوٹ اور غلط بیانی کا الزام بھی لگایا اور مجھے ماں بہن کی گالیاں بھی دیں‘ میرے تن من میں آگ لگ گئی لیکن میں کیونکہ جانتا تھا میری یہ صورتحال صرف 12 منٹ رہے گی چنانچہ میں چپ چاپ اٹھا‘
وضو کیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی‘ میرے اس عمل پر 20 منٹ خرچ ہوئے‘ ان 20 منٹوں میں میرا غصہ بھی ختم ہو گیا اور وہ صاحب بھی حقیقت پر پہنچ گئے‘ میں اگر نماز نہ پڑھتا تو میں انہیں جواب دیتا‘ ہمارے درمیان تلخ کلامی ہوتی‘ لوگ کام چھوڑ کر اکٹھے ہو جاتے‘ہمارے درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی‘ میں اس کا سر پھاڑ دیتا یا یہ مجھے نقصان پہنچا دیتا لیکن اس سارے فساد کا آخر میں کیا نتیجہ نکلتا؟ پتہ چلتا ہم دونوں بے وقوف تھے‘ ہم سارا دن اپنا کان چیک کئے بغیر کتے کے پیچھے بھاگتے رہے چنانچہ میں نے جائے نماز پر بیٹھ کر وہ بارہ منٹ گزار لئے اور یوں میں‘ وہ اور یہ سارا دفتر ڈیزاسٹر سے بچ گیا‘ ہم سب کا دن اور عزت محفوظ ہو گئی“
میں نے پوچھا ”کیا آپ غصے میں ہر بار نماز پڑھتے ہیں“ وہ بولے ”ہرگز نہیں‘ میں جب بھی کسی جذبے کے غلبے میں آتا ہوں تو میں سب سے پہلے اپنا منہ بند کر لیتا ہوں‘ میں زبان سے ایک لفظ نہیں بولتا‘ میں قہقہہ لگاتے ہوئے بھی بات نہیں کرتا‘ میں صرف ہنستا ہوں اور ہنستے ہنستے کوئی دوسرا کام شروع کر دیتا ہوں‘ میں خوف‘ غصے‘ اداسی اور لطف کے حملے میں واک کیلئے چلا جاتا ہوں‘ غسل کرلیتا ہوں‘ وضو کرتا ہوں‘ 20 منٹ کیلئے چپ کا روزہ رکھ لیتا ہوں‘ استغفار کی تسبیح کرتا ہوں‘
اپنی والدہ یا اپنے بچوں کو فون کرتا ہوں‘ اپنے کمرے‘ اپنی میز کی صفائی شروع کر دیتا ہوں‘ اپنا بیگ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا ہوں یا پھر اٹھ کر نماز پڑھ لیتا ہوں یوں بارہ منٹ گزر جاتے ہیں‘ طوفان ٹل جاتا ہے‘ میری عقل ٹھکانے پر آ جاتی ہے اور میں فیصلے کے قابل ہو جاتا ہوں“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ”اور اگر آپ کو یہ تمام سہولتیں حاصل نہ ہوں تو آپ کیا کرتے ہیں“ وہ رکے‘ چند لمحے سوچا اور بولے ”آسمان گر جائے یا پھر زمین پھٹ جائے‘ میں منہ نہیں کھولتا‘
میں خاموش رہتا ہوں اور آپ یقین کیجئے سونامی خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ میری خاموشی کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ وہ بہرحال پسپا ہو جاتاہے‘ آپ بھی خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ھیں۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پائی۔
ایک سردار جی کے لطیفے نے نہ صرف مجھے چونکا دیا بلکہ مکمل طور پر قائل کر دیا کہ سدا بہار لطیفے دراصل اپنے تصوف کا ایک پوشیدہ پرتول رکھتے ھیں۔
لطیفہ کچھ یوں ھے کہ ایک سردار جی نہایت اھتمام سے چائے پی رھے تھے۔ وہ ایک گھونٹ بھرنے کے بعد چائے کو ایک چمچے سے خُوب ھلاتے، چمچہ چائے میں پھیر کر ایک گھونٹ بھرتے اور پھر مسکرانے لگتے۔ وہ یہ عمل بار بار دُھراتے رھے۔ ھر گھونٹ کے بعد چائے کو چمچے سے ھِلاتے ، ایک اور گھونٹ بھرتے اور مُسکرانے لگتے۔
نزدیک بیٹھے ایک صاحب نے پُوچھا کہ، ”سردار جی آپ ھر بار چائے کو چمچے سے ھِلا کر گھونٹ بھرنے کے بعد مُسکراتے کیوں ھیں؟“
تو سردار جی نے کہا کہ، ”ایک بات آج ثابت ھو گئی ھے، چائے میں اگر چینی نہ ڈالو تو لاکھ اُسے چمچے سے ھِلاؤ وہ کبھی بھی میٹھی نہیں ھو گی“۔
اگر نیک اعمال کی چینی آپ کی حیات میں نہ ھو تو آپ لاکھ عبادتیں کریں ، تسبیح پھیریں، فیصلہ تو اعمال کی چینی سے ھو گا ورنہ روزِ حشر آپ کی اگلی پُوری زندگی پھیکی ھی رھے گی۔
شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ کے اکثر شعروں میں یہی پیغام ھے، ”کہ اگر عمل مفقُود ھے تو تم پھیکے کے پھیکے رہو گے، کبھی میٹھے نہ ہوگے“۔
حادثہ در حادثہ
بعض باتیں بظاہر عام فہم ہوتی ہیں لیکن کبھی سمجھ میں نہیں آتیں۔ تمام سیاسی اور مذہبی قیادت جڑانوالہ حادثے کی مذمت کر رہی ہے۔شاید ہی کوئی طبقہ ہو جو خاموش ہو۔ سمجھ میں یہ آتا ہے کہ کوئی اس سے خوش نہیں۔ جو سمجھ میں نہیں آتا، وہ یہ ہے کہ جب سب مذمت کر رہے ہیں تو پھر اس سانحے کا ذمہ دار کون ہے؟ نہ میں ہوں، نہ آپ ہیں۔ نہ مذہبی طبقات ہیں نہ سیاسی جماعتیں تو پھر یہ کون لوگ ہیں؟ کیا فی الواقعہ ہم میں سے کوئی انہیں نہیں جانتا؟
کچھ سوالا ت اور بھی ہیں، جو جواب طلب ہیں۔
پہلا سوال: اکثریت کے نزدیک پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس کا نظریہ ’اسلام‘ ہے۔اس کا بدیہی مطلب یہ ہے کہ جو اس نظریے کو مانتا ہے اور جو نہیں مانتا، وہ دونوں ایک نہیں ہو سکتے۔ یہ نتیجہ میں نے برآمد نہیں کیا۔ ’اسلامی ریاست‘ کو جن اہلِ علم نے موضوع بنایا ہے اور جو اس کے علم بردار ہیں، سب یہی رائے رکھتے ہیں۔ اسی اصول پر یہ اہلِ علم اس بات کو درست نہیں سمجھتے کہ غیر مسلم کو کسی کلیدی منصب پر بٹھایا جائے۔ دوسری طرف پاکستان کا تشکیل قومی ریاست کے ماڈل پر کی گئی ہے۔ قومی ریاست، شہریوں میں رنگ و نسل اور مذہب و عقیدے کے بنیاد پر کسی تقسیم کی قائل نہیں۔ ہمارے اہلِ مذہب نے ہمارا جو قومی مزاج بنایا ہے، وہ اس ماڈل کو قبول نہیں کرتا۔ وہ غیر مسلموں کو سماجی اعتبار سے اور ملکی شہری کے طور پر اپنا ہم سر نہیں مانتا۔ کیا ہماری اس نظریاتی ساخت کا کوئی تعلق، جڑانوالہ واقعہ کے ساتھ ہے؟
دوسرا سوال: یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ سیالکوٹ کا حادثہ ہماری یاد سے ابھی محو نہیں ہوا۔ اس وقت بھی اِسی طرح پوری قوم نے مذمت کی تھی۔ جس نوجوان نے مقتول کو بچانے کی کوشش کی، اسے قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وزیراعظم نے بلا کر تحسین کی۔ ہم سب سراپا احتجاج تھے۔ اس کے باوجود، جڑانوالہ کا حادثہ ہوا اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ۔ یہ مذمت ہمارے رویے میں کسی تبدیلی کا سبب کیوں نہیں بنی؟
تیسرا سوال: ہمارے مذہبی طبقات، بلا استثنا ان لوگوں کو ہیرو مانتے ہیں جو اسلام کی عصبیت میں قانون کو ہاتھ میں لیتے اور دوسروں کے جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں۔ کوئی اُن کی مذمت نہیں کرتا۔ مثالوں کی ضرورت نہیں کہ ایسے ہیروز کے ناموں سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ معاملہ صرف مذہبی لوگوں تک محدود نہیں، کالم نگار ان کی مدح میں قلم اٹھاتے اور اہلِ گفتار، شعلہ بیانی فرماتے ہیں۔کیا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب فضاؤں میں بکھر جاتا اور انسانی ذھنوں میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں کرتا؟
چوتھا سوال: ہمارے محترم علما ہمیں سیرتِ پاک کے واقعات سناتے ہیں کہ کیسے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کیا۔ نجران کے مسیحیوں سے کیا معاملہ کیا۔ معاہد کے جان و مال کے بارے میں کیا ہدایات دیں۔ خلفائے راشدین، بالخصوص سیدنا عمرؓ کے اسلوبِ حکمرانی کے تذکرے میں، فخرکے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اہلِ قدس کے ساتھ بے مثل رواداری کا مظاہرہ کیا اور مذہبی آزادی کو ایک قدر کے طور پر متعارف کرایا۔ آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ اور خلفائے راشدین کی اس روایت کو مستحکم کرنے میں، ہم نے کیا کردار ادا کیا؟ کیا یہ دینی ادارے کے نصاب کا حصہ ہیں؟ کیا یہ جمعہ کے خطبات کا موضوع ہیں؟اگر نہیں ہیں تو کیوں؟
پانچواں سوال: مذہبی سیاست کرنے والے، سیاسی و مذہبی معاملات پر احتجاجی تحریکیں چلاتے ہیں۔ جلوس برامد کیے جاتے ہیں۔ دو دن ہوئے، مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا تقی عثمانی جیسے اکابر کی قیادت میں علما جمع ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنی جانوں سے زیادہ دینی مدارس کا تحفظ کریں گے۔ جماعت اسلامی مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ کیا کبھی کسی سیاسی اور مذہبی جماعت نے یہ اعلان بھی کیا کہ ہم اپنی جانوں سے بڑھ کر اقلیتوں کے جان و مال کا تحفظ کریں گے؟ کیا سانحہ سیالکوٹ پر، کسی مذہبی جماعت نے کوئی احتجاجی جلسہ کیا؟جڑانوالہ کے حادثے پر کسی نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا؟ مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ، ہماری قیادت کی نظروں سے اوجھل کیوں ہے؟
چھٹا سوال: ہم جس دور میں جی رہے ہیں، یہ انسانی آزادی کا دور ہے۔ انسان کے سیاسی و مذہبی خیالات پر کوئی قدغن گوارا نہیں کی جاتی۔ بالخصوص اقلیتوں کا معاملہ بہت حساس ہے۔ اس معاملے پر امریکہ میں مودی جیسے آدمی کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ ہم ہر بین الاقوامی فورم پر اس کے لیے جواب دہ ٹھیرائے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاسی اور معاشی مفادات، براہ راست، اس سے وابستہ ہیں۔ ریاست نے اس معاملے کی حساسیت کو کتنا محسوس کیا ہے؟ اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے لیے کون سے بڑا قدم اٹھایا ہے؟ فسادیوں سے ملک کو پاک کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟
ساتواں سوال: ہم سب جانتے ہیں کہ یہ واقعات اصلاً انتہا پسندی کا نتیجہ ہیں۔ انتہا پسندی ایک سماجی رویہ ہے۔ مذہبی معاملات میں، جب اس کا ظہور ہوتا ہے تو جڑانوالہ جیسے حادثات جنم لیتے ہیں۔ سماجی معاملات میں ہوتا ہے تو گاڑی کی پارکنگ پر قتل ہو جاتے ہیں۔اس معاشرے میں ہر رائے ساز، الا ماشا اللہ، دانستہ یا نا دانستہ انتہا پسندی پھیلانے میں شب و روز مصروف ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سماج کو تیزاب سے غسل دینا چاہیے تو اس سے کیا مزاج بنتا ہے؟ جب ہم کہتے کہ ملک کے پانچ سو افراد کو پھانسی چڑھا دینا چاہیے تو اس سے کیا سوچ پیدا ہوتی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا؟ کیا ہم نے سوچا کہ جذبات نگاری کے ان مظاہر نے سماج کو انتہا پسند بنانے میں کتنا کردار ادا کیا ہے؟
آٹھواں سوال: پاکستان مسلم اکثریتی ملک ہے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنا ہے لیکن ہم نے، قیامِ پاکستان کے موقع پر، غیر مسلموں سے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ اس ملک کے شہری بنیں گے توان کے حقوق کسی طرح ایک مسلمان سے کم نہیں ہوں گے۔ قائد اعظم نے قیامِ پاکستان کے باضابطہ اعلان سے تین دن پہلے، 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی میں اس کا اعلان کیا۔ ہم بطور قوم اس وعدے کے پابند ہیں۔ اگر ہم اس سے انحراف کریں گے تو خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ ہمارے نظامِ تعلیم نے اپنے شہریوں میں اس کا شعور پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی؟
نواں سوال: سات سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا، جب ہم نے ’پیغام پاکستان‘ کی صورت میں ایک میثاق پر دستخط کیے تھے۔ یہ میثاق مگر ایک ایسی گھٹا ثابت ہوئی جس اٹھتے ہوئے تو ہم نے دیکھا، برستے نہیں دیکھا۔ جڑانوالہ واقعہ، معمولی نہیں ہے۔ بیس عباد ت گاہوں کا جل جانا، کھیل تماشا نہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سماج کی بنت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پیغام عام آدمی تک نہیں پہنچا۔ جنہوں نے پہچانا تھا، انہوں نے سچی بات یہ ہے کہ کبھی اسے موضوع ہی نہیں بنایا۔ ان کا کل اثاثہ چند مذمتی بیانات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی مہم بے نتیجہ کیوں رہی؟
دسواں سوال: مسیحی اس حادثے کا شکار اور اس واقعے کے مدعی ہیں۔ کیا ان کو ان واقعات کے تحقیقات میں شامل کیا گیا ہے؟
مذہبی بیانات کی گرد میں، یہ سوالات ہمیشہ دبے رہے۔ ہم نے انہیں کبھی موضوع نہیں بنایا۔اس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ، آخری واقعہ نہیں ہوتا۔ ہر حادثے کے جلو میں بے شمار حادثات چلے آتے ہیں۔ پاکستان بطور سماج اور ملک، ان کا متحمل نہیں ہو سکا۔ مسائل سے ہماری گردن جھکی جا رہی ہے۔ہم ہیں کہ اس کے بوجھ میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں۔ کاش یہ قوم بیدار ہو اور اپنے حقیقی مسائل کا ادراک کرے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم رہیں یا نہ رہیں، اے ارضِ وطن تو سدا سلامت رہے تا قیامت رہے۔
اے عید! تمہیں میں کیا بتاٶں۔۔۔
میں نے ایسے لوگ بھی کھوۓ ہیں،
جو میری عید ہوا کرتے تھے۔💔💔💔
آج میرے والد مخترم (ماسٹر اکرم صاحب) کی سالگرہ ہے۔ تمام دوست احباب سے گزارش ہے کہ ان کی مغفرت کے لیے خصوصی دعا کی جاۓ۔ اللہ تعالٰی اس بابرکت مہینے کے صدقے ان کی کامل بخشش فرماۓ۔ آمین۔
😭😭😭
تراویح اور حافظ قرآن،،،
#تراویح میں حافظ قرآن جن باتوں سے بیک وقت نمٹ رہا ہوتا ہے😢
1 #:ان میں سے ایک مصلے کا پریشر ہے۔
2 #: بیس رکعتوں کا خیال رکھنا ہے۔
3 #: اپنے یومیہ سبق کے کوٹے کو بیس رکعتوں پر تقسیم کرکے پوراکرنا۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سبق پورا ہوجائے اور رکعتیں رہ جائیں ۔یا رکعتیں پوری ہوجائیں اور سبق رہ جائے۔
4 #: اپنے پارے کا غم کہ غلطیوں اور متشابہات سے بچا جائے۔
5 #:اس بات کی فکر کہ کہیں وقت زیادہ نہ لگ جائے۔
6:اپنے گلے کا فکر کہ کہیں بیٹھ ہی نہ جائے۔
7 #: دن کو سنانے کی تیاری کرنا۔
8 #ا افطاری میں تھوڑا سا کھانا ۔
9 #: قران مکمل ہونے تک ایک الگ غم سوار رہتا ہے۔
# یہ وہ باتیں ہے کہ جو صرف حافظ بھگت رہاہوتا ہے 😥۔ مقتدی ان پریشانیوں سے ناآشنا ہوتے ہے، لیکن تراویح کے اختتام پر بڑے مزے سے آکر بیٹھتے ہیں اور کوئی کہتا ہے حافظ صاحب کیا بات ہے آج دو تین غلطیاں آئیں ,,,؟؟؟؟ خیریت تو ہے نا؟🤔🤔
کوئی کہتا ہے حافظ صاحب! آج تو بہت تیز پڑھ ر ہے تھے۔
اور اگر دوسرے دن آہستہ پڑھاجائے تو کوئی اور آکر کہتا ہے آج تو قاری عبدالباسط بن رہے تھے کوئی کہے گا آج ٹائم زیادہ لگادیا ہے۔۔۔۔
خدا را ایسی باتوں سے اجتناب کریں اور حافظ کو کم از کم ایک انسان سمجھیں وہ بھی کسی کا بیٹا ہے بھائی ہے شوہر ہے وہ تمام رشتوں سے زیادہ آپکو وقت دیتا ہے لیکن افسوس پھر بھی معاشرے کا رویہ سوتیلی ماں جیسا ہے۔۔۔
اللہ تعالی سب کو عقل سلیم نصیب فرمائے۔ 🤲🤲
آمین۔۔۔
رمضان مبارک❤
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی،
کے اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
Can i ask u a question, thats just hypothetical.
How would it make u feel if u never saw me again?
الوادع دوستو
دعا ضرور کریے گا۔
شکی بیگم......
بیگم نے موبائل مانگا شوھر نے کانپتے ھاتھوں سے موبائل دے دیا ..ساری چھان بین کی... جب کچھ نہ ملا تو تمام نمبر دیکھے... ایک نیا نمبر ملا اختر کے نام سے سیو تھا... تو فوراََ پوچھا یہ کس کا نمبر ہے؟
شوھر بیچارے نے کانپتے ہوئے بولا... ماموں اختر کا نمبر ہے.. بولی پہلے یہ نمبر نہیں تھا... بولا انہوں نے اب موبائل لیا ہے.. اس لئے اب نمبر سیو کیا ہے... بیوی کو یقین نہیں ہوا... فوراََ اس نمبر پر کال ملائی... کال اٹینڈ ھوتے ہی کسی عورت کی آواز آئی... ھیلو!! اس نے بھی بولا ھیلو!! بس کال کاٹ کے پھر بیچارے شوھر کو آن پکڑا....جو چیز ھاتھ میں آئی بیلن ڈنڈے کرسیاں برتن سب میاں پہ برسا دئیے... زخمی شوھر جب ھاسپیٹل میں پہنچا... تو پتہ چلا کہ ماموں اختر بھی زخمی ھوکر پہنچے ہوئے ہیں.. ان سے معلوم کیا ماموں جان آپکو کیا ھوا؟؟ فوراََ بولے آپکی کال سے ایک عورت کی ھیلو کی آواز آئی ...بس کال کٹ گئی پھر یہی کچھ ھوا جو آپ کے ساتھ ہوا ہے۔۔۔
بکری، پانی کی تلاش میں نکلی.. دور اسے پانی نظر آیا.. زور سے چھلانگ لگائی.. "وہ دلدل تھی" اس میں پھنس گئی... خواہش کی طلب.... پانی اور سراب میں امتیاز کی صلاحیت ختم کر دیتی ہے....
اب وہ جتنا زور لگاتی ہے اور دھنستی جاتی ہے... اتنے میں ایک بھیڑیا ادھر آ نکلا... وہ بھی پانی اور شکار کی حرص میں نکلا تھا... اس نے بھی دور سے چھلانگ لگائی اور وہ بھی دلدل میں پھنس گیا... اس حرص اور لالچ کے چنگل میں جو پھنسا، کم ہی نکلا.........
بکری نے اسے دیکھا تو ہنس پڑی... "ہنسی کا سامان مل جائے تو انسان اپنی تکلیف بھول جاتا ہے" ..... بھیڑئیے نے پوچھا کیوں ہنستی ہے؟؟؟ بکری نے کہا جناب! آج تو آپ بھی پھنسے ہوئے ہیں. بھیڑئیے نے کہا تُو بھی تو پھنسی ہوئی ہے... بکری نے کہا میرے پھنسنے اور تیرے پھنسنے میں بڑا فرق ہے....
میرا مالک، میرا شاہ جب گھر جائے گا تو اپنی بکریوں کو گِنے گا.... پھر سوچے گا یہ تیس تھیں... یہ 29 کیوں رہ گئیں....!! وہ میری تلاش میں نکلے گا وہ مجھے پا لے گا... اور نکال کر بھی لے جائے گا.... تُو بتا تیرا کون ہے اور تجھے کون لے کر جائے گا.............!!!!
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ
"پہلے اپنے آپ کو شاہ کے کھونٹے سے باندھ... پھر وہ تمہیں ضائع نہیں ہونے دے گا"
شب بخیر
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Telephone
Website
Address
Gujrat