Malik Ahad
Be a rainbow🌈in someone's cloud☁
*بسم الله الرحمن الرحیم*
*خوشگوار زندگی کے راہنما اصول*
پوسٹ #2
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*
*پہلا اصول : ایمان و عمل*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*
خوشگوار زندگی کا پہلا اصول ’’ ایمان وعمل ‘‘ ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
*مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ*
[سورۃ النحل : 97]
*جو شخص نیک عمل کرے ، مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ایمان والا ہو تو اسے ہم یقینا بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے*
اور فرمایا :
*اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ طُوْبیٰ لَہُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ*
[سورۃ الرعد : 29]
*جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کیلئے خوشحالی بھی ہے اور عمدہ ٹھکانا بھی*
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر ایسے شخص کو بہت ہی خو شگوار وکامیاب زندگی اور خوشحالی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جس میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں ۔ ایک یہ کہ وہ مومن ہو اور دوسری یہ کہ وہ عمل صالح کرنے والا، باکردار اور بااخلاق ہو ۔ اور اگر ہم ان دونوں شرطوں کو پورا کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں خوشگوار زندگی نصیب نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے میں سچا ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ ارشاد باری ہے :
*إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ*
[سورۃ آل عمران : 9]
*یقینا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا*
ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ تمام انسانوں کی خیر وبھلائی ایمان اور عمل صالح میں ہی ہے ۔اگر انسان سچا مومن ہو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو اور ساتھ ساتھ باعمل ، باکردار اور بااخلاق بھی ہو ، اللہ کے فرائض کو پورا کرتا ہو ، پانچوں نمازوں کا پابند ہو ، زکاۃ ادا کرتا ہو، رمضان کے فرض روزے بلا عذر شرعی نہ چھوڑتا ہو ، والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہو ، لین دین میں سچا اور وعدوں کو پورا کرتا ہو ۔ بد دیانتی، دھوکہ اور فراڈ سے اجتناب کرتا ہو، حلال ذرائع سے کماتا ہو تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اسے ہر قسم کی خیر وبھلائی عطا کرتا ہے اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور اجر وثواب الگ ہے۔
اِس کے بر عکس اگر کوئی انسان فاسق وفاجر ، بد کردار اور بد اخلاق ہو ۔ نہ نمازوں کی پروا کرتا ہو اور نہ زکاۃ دیتا ہو ، رمضان کے روزے مرضی کے مطابق رکھتا ہو اور طاقت ہونے کے باوجود حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کیلئے تیار نہ ہو ، والدین اور قرابت داروں سے بد سلوکی کرتا ہو ، اللہ کے بندوں کے حقوق مارتا ہو ، لین دین میں جھوٹ بولتا ہو ، دھوکہ دہی اور بد دیانتی سے کام لیتا ہو اور حرام ذرائع سے کماتا ہو تو ایسے انسان کے متعلق ہمیں یقین کرلینا چاہئے کہ اسے لاکھ کوشش کے باوجود خوشگوار زندگی نصیب نہیں ہو سکتی۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
*وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا ٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ*
[سورۃ طه : 124/126]
*اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں یقینا تنگ حال رہے گا اور روزِ قیامت ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ہے ؟ دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا ۔ اللہ کہے گا : اسی طرح تمھارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھی بھلا دئے جاؤ گے۔*
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ جو شخص میرے دین سے منہ موڑے گا اور میرے احکامات کی پروا نہیں کرے گا میں دنیا میں اس کی زندگی تنگ حال بنا دوں گا اور اسے خوشحال زندگی سے محروم کردونگا ۔ اس کے علاوہ قیامت کے دن میں اسے اندھا کرکے اٹھاؤں گا۔ وہ مجھ سے اس کی وجہ پوچھے گا تو میں کہوں گا : جیسا تم نے کیا آج ویسا ہی بدلہ تمھیں دیا جار ہا ہے ۔ تمھارے پاس میرے احکام آئے ، اہلِ علم نے تمھیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائیں اور میرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صحیح احادیث کو تمھارے سامنے رکھا لیکن تم نے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر من مانی کی اور جو تمھارے جی میں آیا تم نے وہی کیا ۔ اسی طرح آج مجھے بھی تمھاری کوئی پروا نہیں ۔
اگر ہم واقعتا یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہمیں ایک باوقار اور خوشحال زندگی نصیب ہو تو ہمیں دین الہی کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا اور من مانی کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ہو گا … اور اللہ کا سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ بنائیں ۔ صرف اسی کو پکاریں ، صرف اسی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھیں ، صرف اسی کو داتا ، مدد گار ، حاجت روا ، مشکل کشا اور غوث اعظم تصور کریں ۔ اگر ہم خالصتا اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے تو وہ یقینا ہمیں پاکیزہ اور خوشگوار زندگی نصیب کرے گا ۔ ورنہ وہ لوگ جو اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کے در پر جبینِ نیاز جھکاتے اور غیر اللہ کیلئے نذرو نیاز پیش کرتے ہیں ، غیر اللہ کو داتا ، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں اور انہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں توانہیں در در کی ٹھوکریں ہی نصیب ہوتی ہیں اور ذلت وخواری کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
*وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکاَنٍ سَحِیْقٍ*
[سورۃ الحج : 31]
*اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گراہو ، پھر پرندے اسے فضا میں ہی اچک لیں یا تیز ہوا اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دے ۔*
یعنی مشرک کاانجام سوائے تباہی وبربادی کے اور کچھ نہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا دوسرا بڑا حکم یہ ہے کہ ہم اس کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں اور آپ کی نافرمانی سے بچیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے ۔اور جب اللہ تعالیٰ راضی ہو گا تو یقینا وہ ہمیں خوشحال اور باوقار زندگی نصیب کرے گا ۔ اور اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منہ موڑ کر دین میں ایجاد کردہ نئے امور (بدعات ) پر عمل کریں گے تو دنیا میں ( نعوذ باللہ ) ہم پر آزمائشیں ٹوٹ پڑیں گی اور قیامت کے روز ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں حوض کوثر کا پانی نصیب نہیں ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
*فَلْیَحْذَرِالَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ أَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ*
[سورۃ النور : 63]
*لہٰذا جو لوگ اس ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم )کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے ۔*
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے باز آجائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے ان پر کوئی آزمائش یا اللہ کا دردناک عذاب آ جائے ۔
*خلاصہ :*
کامیاب وخوشگوار زندگی کا جو پہلا اصول ہم نے ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی بناء پرہی ہمیں ایک کامیاب زندگی نصیب ہو سکتی ہے ۔ اور ایمان باللہ کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم عقیدۂ توحید پر قائم رہیں ۔اور ایمان بالرسل کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں زندگی بسر کریں ۔ اس طرح ہمیں دنیا کے دکھوں اور صدموں سے چھٹکارا ملے گا اور ہماری زندگی کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی ۔
ختم
-----------------------------------------------------------
*یہاں پر آپ پڑھ سکتے ہیں ہمارا سابقہ سلسلہ :*
*سلسلہ : موت ایک اٹل حقیقت :*
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=918286686587510&id=100052185604598&mibextid=Nif5oz
*سلسلہ : جنت کی نعمتیں اور اس کا راستہ :*
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=918287026587476&id=100052185604598&mibextid=Nif5oz
-----------------------------------------------------------
*اور ہر روز نئیں تحاریر پڑھنے کے لئے آپ فیس بک اور واٹس ایپ پر جوائن کر سکتے ہیں :*
https://www.facebook.com/groups/343555706643291/?ref=share
https://chat.whatsapp.com/Cdc78Toytt96fMuwe3pZ1w
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*
Everyone
*بسم الله الرحمن الرحیم*
*خوشگوار زندگی کے راہنما اصول*
پوسٹ # 1
*”چند باتیں!“*
*اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کو سب کا باپ بنایا ہے ۔ اِس لحاظ سے سب کی بنیاد تو ایک ہے لیکن وہ کئی اعتبارات سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ چنانچہ وہ شکل وصورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور کم ہی کوئی شخص دوسرے سے ملتا جلتا ہے ۔ کوئی سفیدگورے رنگ کا اور کوئی کالے سیاہ رنگ کا ، کوئی چھوٹے قد والا اور کوئی بڑے قد والا …اسی طرح وہ سب اپنے معاشی حالات کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ کوئی مالدار اور کوئی غریب ، کوئی بخیل اور کوئی سخی ، کوئی ہر حال میں شکر گذار اور کوئی ہر حال میں حریص ولالچی … اسی طرح وہ ایمان وعمل کے اعتبار سے بھی الگ الگ نظریات کے حامل ہوتے ہیں ۔ کوئی مومن اور کوئی کافر ، کوئی نیک وپارسا اور کوئی فاسق وفاجر ، کوئی باکردار اور بااخلاق اور کوئی بد کردار اور بد اخلاق … لیکن یہ سب کے سب اپنے احوال میں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں اور وہ ہے ”خوشحال زندگی کی تمنا اور آرزو“ ۔ چنانچہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اس بات کے متمنی نظر آتے ہیں کہ انہیں دنیا میں خوشگوار زندگی نصیب ہو جائے اور سب کے سب لوگ ایک باوقار اور پرسکون زندگی کے حصول کیلئے دن رات جد وجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، گویا سب کا ہدف تو ایک ہی ہے البتہ وسائل واسباب مختلف ہیں ۔*
*ایک تاجر جو دن بھر اپنے کاروبار کو وسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے اپنی پوری صلاحیتیں اور توانائیاں کھپا دیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ مزدور جو صبح سے لیکر شام تک پسینے میں شرابور ہو کر محنت ومزدوری کرتا ہے ، دونوں خوشحال اور خوشگوار زندگی کے حصول کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔*
*ایک عبادت گذار جو اللہ تعالیٰ کے فرائض وواجبات کو پابندی سے ادا کرتا ہے اور نوافل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ فاسق وفاجر انسان جو دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے دونوں ہی ایسی زندگی کے متمنی ہوتے ہیں جس میں کوئی پریشانی اور کوئی دکھ نہ ہو۔*
*اسی طرح تمام لوگ سعادتمندی اور خوشحالی کو حاصل کرنے کی تمنا لئے تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں ۔ کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح …*
*لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سعادتمندی ہر ایک کو مل جاتی ہے ؟ اور کیا خوشحالی ہر ایک کو نصیب ہو جاتی ہے ؟ اور آخر وہ کونسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم سب خوشحال وخوشگوار زندگی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ؟*
*ہم یہی سوال ایک دوسرے انداز سے بھی کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اس دور میں تقریبا ہر انسان پریشان حال اور سرگرداں نظر آتا ہے ۔ کسی کو روزگار کی پریشانی ، کسی کو مالی وکاروباری مشکلات کا سامنا ، کسی پر قرضوں کا بوجھ ، کسی کو جسمانی بیماریاں چین اور سکھ سے سونے نہیں دیتیں ، کسی کو خاندانی لڑائی جھگڑے بے قرار کئے ہوئے ہیں ، کسی کو بیوی بچوں کی نافرمانی کا صدمہ ، کسی کو دشمن کا خوف اور کسی کو احباء واقرباء کی جدائی کا دکھ …الغرض یہ کہ تقریبا ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شخص ان دکھوں ، صدموں اور پریشانیوں سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ تو وہ حقیقی وسائل واسباب کون سے ہیں جنھیں اختیار کرنے سے دنیا کی مختلف آزمائشوں سے نجات مل سکتی ہے ؟*
*آپ میں سے ہر شخص یقینا یہ چاہتا ہو گا کہ اسے ان دونوں سوالوں کے جوابات معلوم ہو جائیں تاکہ وہ ایک خوشحال وباوقار زندگی حاصل کر سکے اور دنیا کی پریشانیوں سے چھٹکارا پا سکے ۔ تو آئیے ہم سب قرآن وسنت کی روشنی میں ان سوالوں کے جوابات معلوم کرتے ہیں ۔*
*ہمارے اس سلسلہ میں ”ہم ایک کامیاب اور خوشحال زندگی کے حصول اور پریشانیوں وآزمائشوں سے نجات حاصل کرنے کے چند اصول ذکر کریں گے“ اور مجھے یقین کامل ہے اگر ہم ان پر عمل کریں گے تو ضرور بالضرور اپنے مقصود تک پہنچ جائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔*
-----------------------------------------------------------
*یہاں پر آپ پڑھ سکتے ہیں ہمارا سابقہ سلسلہ :*
*سلسلہ : موت ایک اٹل حقیقت :*
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=918286686587510&id=100052185604598&mibextid=Nif5oz
*سلسلہ : جنت کی نعمتیں اور اس کا راستہ :*
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=918287026587476&id=100052185604598&mibextid=Nif5oz
-----------------------------------------------------------
*اور ہر روز نئیں تحاریر پڑھنے کے لئے آپ فیس بک اور واٹس ایپ پر جوائن کر سکتے ہیں :*
https://www.facebook.com/groups/343555706643291/?ref=share
https://chat.whatsapp.com/Cdc78Toytt96fMuwe3pZ1w
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*
Everyone Everyone@followers
🥰❤️
نہیں چاہے کوئی تم سے بہتر🥀❤️
🥀❤️😘
میرا سارا سکون بس تم ہو ❤️🥰
Everyone
Subha ka Kya program ha 🤣
😁
Everyone
مُغّل حکمران:-
ان کا تعلق کھیوہ محلے سے تھا 🤣🤣
انہوں نے ابتدائی تعلیم نالے والے پُل کے نیچے سے حاصل کی😂
ان کا نام ابو دادا تھا
بس بات ختم 😓
Everyone
゚viral
❤️❤️
Ronaldo ❤️
ِ_الٰہی_کے_مناظر
یہ واقعہ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ایک مرتبہ کہیں سنایا اس محفل میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور سائنسدان قسم کے لوگ بلائے گئے تھے محفل کے اختتام پر ایک سائنسدان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے حضرت کیا آپ نے یہ واقعہ کسی کتاب میں سے پڑھا ہے؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ کا واقعہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمتہ اللہ علیہ نے فضائلِ صدقات میں بھی نقل فرمایا ہے جب ایسے مستند بزرگ کوئی واقعہ نقل کریں تو وہ صحیح ہوتا ہے
تو وہ کہنے لگے کہ حضرت کیا آپ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیں گے؟ میں نے کہا آپ کا کیا مطلب ہے؟
وہ کہنے لگے حضرت یہ چیز یہاں ایک جگہ آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے میں اس کی بات سن کر بڑا حیران ہوا وہ کہنے لگے حضرت آپ تین گھنٹے وقت نکالیں اور میں آپ کو لے جا کر یہ سب منظر آنکھوں سے دیکھاؤں گا مجھے اور حیرانی ہوئی میں نے کہا ٹھیک ہے کل چلیں گے
اگلے دن وہ ڈاکٹر صاحب وقت پر ہی آگئے اور ہمیں ایک میوزیم میں لے گئے اس میوزیم کے اندر ان کافروں نے حنوط شدہ لاشیں رکھی ہوئی تھیں پھر پیر صاحب فرمانے لگے کہ میں یہ بات بڑی ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں میں باوضو ہوں اور مسجد میں بیٹھا ہوں اور سو فیصد صحیح بات کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے اس عجائب گھر میں شیشے کے کمرے بنائے ہوئے تھے
جب ہم پہلے کمرے میں گئے تو اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ جب انسان مرتا ہے تو اس کی حالت یہ ہوتی ہے جب ہم اندر گئے تو ہمیں ایک لاش نظر آئی جس پر انہوں نے کیمیکل لگا کر اسے ہر چیز سے بچایا ہوا تھا اس کو حنوط شدہ لاش کہتے ہیں انگلش میں اس کو (Mummy) کہتے ہیں انہوں نے کہا کہ جب کوئی بندہ مرتا ہے تو اس حالت میں ہوتا ہے ہم نے اس کو کیمیکل لگا کر یہاں رکھ دیا ہے ہم اس لاش کو دیکھ کر حیران ہوئے
پھر وہ دوسرے کمرے میں لے کر گیا وہاں ایک پلیٹ پر لکھا ہوا تھا کہ یہ آدمی مرا ہم نے اسے قبر میں ڈالا اور چند دنوں کے بعد ہم نے قبر کو کھولا اور جس حالت میں اس کی لاش کو پایا ہم نے اسی حالت میں اس پر کیمیکل چھڑک کر یہاں رکھ دیا ہم نے جب اس بندے کو دیکھا تو اس کا باقی سارا جسم ٹھیک تھا مگر اس کی دونوں آنکھوں کے ڈھیلے ڈھلک کر اس کے رخساروں پر آچکے تھے اور ان میں کیڑے پڑ چکے تھے معلوم ہوا کہ قبر کے اندر بندے کے جسم میں جو سب سے پہلی تبدیلی آتی ہے وہ یہ ہے کہ آنکھوں کے ڈھیلے ڈھلک کر رخساروں پر آجاتے ہیں اور ان میں کیڑے پڑ جاتے ہیں
جن آنکھوں سے غیر اللہ کو محبت کی نظر سے دیکھتا تھا ان پر سب سے پہلے کیڑے چمٹتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے تیری آنکھیں قابو میں نہیں تھیں تو غیر اللہ کو چاہتوں اور محبتوں سے دیکھتا تھا مگر یہ حق تیرے پروردگار کا تھا لیکن تجھے غیر محرموں کے چہرے اچھے لگتے تھے تو جو آنکھیں غیر محرم کو محبت کی نظر سے ہوس کے ساتھ دیکھتی پھرتی ہیں قبر میں سب سے پہلے انہی آنکھوں کو کیڑے کھائیں گے
جاری ہے____
________---------________-----------_____
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضرت علیؓ سے متعلق روایات
مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت جلد (٣)
قسط نمبر 95
_________--------_______----------_______
نبی کریم ﷺ اور حضرت علی کا ہاتھ عدل میں برابر ہے 🥀
حبشی بن جنادہ کا بیان ہے کہ میں ابو بکر رض کے پاس بیٹھا تھا۔ ابو بکر رض نے فرمایا جس شخص سے حضور نے کوئی وعدہ فرمایا ہو وہ کھڑا ہو جائے تو ایک شخص کھڑا ہوا۔ اور اس نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا۔ یہ سن کر ابو بکر رض نے فرمایا۔ اچھا علی رض کو بلاؤ۔ علی رض کو بلایا گیا تو وہ آئے۔ ابو بکر رض نے اس سے فرمایا اے ابو الحسن رض یہ شخص ایسا اور ایسا دعویٰ کرتا ہے۔ آپ انھیں ہاتھ بھر کر دے دیجئے۔ علی رض نے اسے باتھ بھر کر دیا۔ ابو بکر رض نے کہا۔ ان کھجوروں کو گِنو جو علی رض کے ہاتھ میں آئی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہر دو ہتڑ میں ساٹھ کھجو آئی ہیں۔ اور اس میں ایک بھی زیادہ نہیں ہوئی۔
ابو بکر رض نے فرمایا۔ اللہ اور اس کا رسول سچ کہتا ہے۔ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار کی رات فرمایا تھا۔ میرا ہاتھ اور علی رض کا ہاتھ عدل میں برابر ہے۔
میزان ج ١ ص ١٣٤۔
______________
ذہبی فرماتے ہیں یہ روایت موضوع ہے اور اس کا واضع ابن دارہ ہے۔
ہمیں حیرت اس پر ہے کہ ابو بکر رض علی رض کے اس معجزے کو بارہ سال تک چھپائے رہے۔ لیکن اچانک یہ روایت الہام ہوئی۔
ہمارے نزدیک یہ روایت جابر رض کی اس روایت کے جواب میں تیار کی گئی ہے جس میں حضرت جابر رض نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جب ابو بکر رض کے پاس مال آیا تو انہوں نے اعلان کیا جس شخص سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ فرمایا ہو تو وہ اپنا دعویٰ کرے۔
حضرت جابر رض کا بیان ہے میں نے عرض کیا اے خلیفہ رسول اللہ حضور نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ جب آئندہ مال غنیمت آئے گا تو میں تجھے تین بار دونوں ہاتھ بھر بھر کر مال دوں گا۔ ابو بکر رض نے فرمایا اچھا تین بار ہاتھ بھر کر مال لے لو۔ جب میں لے چکا تو فرمایا یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ تھا۔ اب میری جانب سے تین بار ہاتھ بھر کر لے لو۔ یہ جو کچھ عرض کیا گیا یہ تو سنی صاحبان کا قول تھا۔ ورنہ شیعوں کے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ حضرت حسین رض اپنی شہادت تک اس کا اعلان کرتے رہے کہ حضور نے جس سے کوئی وعدہ فرمایا ہو وہ آ کر مجھ سے لے لے۔ اور یہ فضلیت ابن سعد نے اپنی طبقات میں بھی واقدی سے نقل کی ہے۔ لہذا اصل بات یہ ہے کہ ابو بکر رض و عمر رض اور عثمان رض نے اپنی زندگی میں جو کچھ دیا تھا وہ تو اس لئے اکارت گیا کہ ان حضرات کو دینے کا حق نہ تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے وصول کیا تو ان کا بھی حق ادا ہوا یا نہیں۔ یہ معاملہ غور طلب ہے۔
اگر یہ کہا جاتا ہے کہ جن حضرات کو دیا گیا وہ دیا دلایا سب بے کار ہے تو حضرت علی رض، حضرت حسن رض، اور حضرت حسین رض نے کس کس کو کتنا مال دیا۔ گویا کہ ہمیں یہ سبق پڑھایا گیا کہ ابو بکر رض کا دیا ہوا مال بے کار اور حضرت علی رض اور ان کی اولاد ہر سال اعلان کرتی رہی۔ لیکن کوئی لینے والا نہیں تھا۔ لہذا یہ تمام کہانیاں اس لئے وضع کی گئیں کہ ابو بکر رض جو کچھ کرتے رہے وہ حضرت علی رض کے مشورے سے کر رہے تھے
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ جنازہ پڑھنے گئے اب ذرا غور کیجئے گا کیونکہ جو نقطہ آپ کے ذہن میں بٹھانا ہے وہ فوراً آپ کے ذہن میں آ جائے گا
جنازہ پڑھنے کے بعد قبرستان میں ایک قبر کے پاس کھڑے ہوکر انہوں نے رونا شروع کر دیا لوگوں نے پوچھا حضرت آپ تو اس جنازہ کے سرپرست تھے آپ پیچھے کیوں کھڑے ہو گئے؟ فرمانے لگے کہ مجھے اس قبر میں سے ایسے آواز محسوس ہوئی جیسے یہ میرے ساتھ ہمکلامی کر رہی ہے لوگوں نے پوچھا کہ قبر نے آپ کے ساتھ کیا ہمکلامی کی؟ تو انہوں نے کہا کہ قبر نے مجھ سے یہ ہمکلامی کی کہ ائے عمر بن عبدالعزیز تو مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ جو بندہ میرے اندر آتا ہے تو میں اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں؟ میں نے کہا بتا دو قبر کہنے لگی کہ میں اس کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہوں کہ
اس کے گوشت کو کھا جاتی ہوں
اس کی انگلیوں کے پوروں کو اس کے ہاتھوں سے جدا کر دیتی ہوں
اس کے ہاتھوں کو اس کے بازوؤں سے جدا کر دیتی ہوں
اس کے بازوؤں کو اس کے جسم سے جدا کر دیتی ہوں
یوں اس کی ہڈیوں کو جدا کر کے ان کو بھی کھا جاتی ہوں
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ فرماتے لگے کہ جب قبر نے یہ بات کہی تو مجھے رونا آگیا
جار ہے____
#آج کی بات
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔۔۔۔
جس نے آدمؑ کو خاک سے پیدا کیا۔۔۔۔۔
جس نے موسی ؑ کو جادوگروں کی شکست کا ذریعہ بنایا۔۔۔۔
جس نے جناب رسول اللہﷺ کی انگشت سے قمر کو شقّ کیا۔۔۔
جس نے ابابیل کے ذریعے اصحاب فیل کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند بنا ڈالا ۔۔۔۔
جس نے فرعون کو غرقِ آب کیا ۔۔۔۔۔
وہ رب جو زمین میں دھنسانا جانتا ہے۔۔۔۔۔
وہ رب جو عاد کو بے قابو طوفانی ہوا سے ہلاک کرنا جانتا ہے۔۔۔۔
وہ اللہ جو بدر میں فرشتے بھیج سکتا ہے۔۔۔۔۔
وہ اللہ جس نے فتح مکہ دلوائی۔۔۔۔۔
وہ رب جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔۔۔۔
جس کو نہ موت ہے نہ موت کا خوف ہے۔۔۔۔۔۔
وہ باقی ہے اور بقا کا مالک ہے۔۔۔۔۔۔
یاد رکھو ❗
اللہ تعالی کسی انسان کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔۔۔۔۔
خدا تمہیں تمہاری محنت کا صلہ ضرور دے گا۔۔۔۔
بس حوصلہ رکھو۔۔۔۔
ہمت رکھو۔۔۔۔
توکل رکھو۔۔۔۔۔
جس چیز کی تمہیں تمنا ہے وہ تمہیں ضرور ملے گی یقیناً ملے گی۔۔۔
شرط یہ ہے کہ اس چیز کا حصول اس کی رضا کے مطابق ہو اس کی اطاعت کے دائرے میں ہو۔۔۔۔
جلد یا بدیر وہ آپ کی تمنا پوری کر کے اس چیز کو تمہارے قدموں میں لا ڈالے گا۔۔۔۔۔۔
کیا اس نے تمہیں بِن مانگے صحیح سالم بدن نہیں دیا؟
کیا اس نے تمہیں ہر نعمت سے نہیں نوازا؟
کیا اس نے تمہیں اسلام کی دولت سے نہیں نوازا؟
کیا اس نے تم سے جنت النعیم کا وعدہ نہیں کیا؟
اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے یعنی تم اللہ کی مخلوق ہو وہ تمہارا خالق ہے۔۔۔۔
جس طرح ماں کے لیے بچہ اور بچے کی ہر ہر ضرورت اہم ہوتی ہے کہ اسے تکلیف نہ ہو، سردی نہ لگے، بھوک سے بچایا جائے۔۔۔۔۔
اسی طرح اللہ انسان سے ماں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے کہ وہ آگ سے بچ جائے راہ راست پر آجائے۔۔۔ جنت کا حقدار بن جائے۔۔۔۔۔۔
اس اللہ کو تمہاری فکر ہے کیونکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور جو کسی کو پیدا کرتا ہے وہ مالک ہوتا ہے اور مالک کے حکم کی تعمیل کی جاتی ہے۔۔۔۔۔
اور مالک کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے بندے اس کے لوگ اسکی نافرمانی کریں تاکہ وہ سزا کے مستحق بنیں۔۔۔
یاد رکھیں ❗
اللہ کی جب مدد آتی ہے تو مکڑی کا جالا بھی حفاظت کو کافی ہو جاتا ہے۔۔۔۔
اس خدا کی جب مدد آتی ہے تو لکڑی کی لاٹھی بھی سمندر کی تہوں کو چیر کے رکھ دیتی ہے۔۔۔
اس اللہ سے مانگو وہی تمہاری مدد کرنے والا اور حامی ہے۔۔۔۔۔
گزرا وقت نہیں لوٹتا یقیناً کبھی نہیں لوٹتا۔۔۔۔۔۔
آنے والے وقت کے لیے اپنی شان و شوکت کے عروج کے لیے خود حکمت عملی بناؤ۔۔۔۔
وہ اللہ تمہیں کامیابی سے نوازے گا۔۔۔۔۔
اور تمہاری خواہش کو یوں پورا کرے گا کہ تم سوچ میں پڑھ جاؤ گے کہ اے رب ذولجلال میں تیرا شکر کس منہ سے ادا کرو۔۔۔۔۔۔ 🥀
#نعمان عمر
----------________---------________----------
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
#حضرت علیؓ سے متعلق روایات
#مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت جلد (٣)
#قسط نمبر 94
----------_______----------_________----------
🥀 صوحانی کھجور کا اعلان 🥀
حضرت علی رض کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا تو ایک کھجور کے درخت نے دوسرے درخت کو آواز دی ۔ یہ نبی مصطفیٰ اور علی رض مرتضیٰ جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
نیز، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ مدینہ کی کھجور کو صوحانی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے میرے اور تیرے فضل کا اعلان کیا ہے۔
میزان ج ١ ص ١٦١۔
""""""""""""""""""""""""
🥀 احمد بن نصر 🥀
اس داستان کا ایک راوی احمد بن نصر الزارع البغدادی ہے۔ اس کی تمام روایات منکر ہوتی ہیں۔
دارقطنی کا بیان ہے یہ اپنے وقت کا دجال ہے اور یہ روایت اس کے فریب کاری میں شمار ہوتی ہیں۔
میزان ج ١ ص ١٦١۔
""""""""""""""""""""""""
🥀 صدقۃ 🥀
اس کی سند کا ایک اور راوی صدقۃ بن موسیٰ بن تمیم ہے جو اپنے باپ سے باطل روایات نقل کرتا ہے۔ اور اس سے احمد الزارع کذاب نے یہ روایات نقل کی ہے۔ اور اس کی اکثر روایات اسی کذاب سے مروی ہوتی ہیں۔
میزان ج ٢ ص ٣١٣۔
"""""""""""""""""""""""""
🥀 علی رضا 🥀
موسیٰ بن تمیم نے اسے علی رضا سے روایت کیا ہے جو شیعوں کے ایک امام ہیں۔ ابن طاہر کا بیان ہے کہ یہ اپنے باپ دادا کے نام سے عجیب عجیب کہانیاں بیان کرتے ہیں ان کے نام سے متعدد شیعوں نے چند نسخے لکھ کر تیار کئے۔ یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ نسخے ان کی جانب جھوٹ منسوب کئے گئے۔ یا یہ خود اس فعل کے مرتکب تھے۔
ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ اپنے باپ دادا سے عجیب و غریب روایات بیان کرتا ہے۔ اور پھر اس میں غلطیاں بھی کرتا اور وہم میں مبتلا رہے ہے۔ دارقطنی کا بھی یہی خیال ہے۔
میزان ج ٣ ص ١٥٨۔
""""""""""""""""""""""""""
لطف یہ ہے کہ لغت کی مشہور کتابوں القاموس اور لسان المیزان میں ہے کہ صیحانی صیحان کی جانب منسوب ہے۔ اور صیحان چیخنے والے کو کہتے ہیں۔ اہل مدینہ اپنے مینڈھے اور بھیڑیں وغیرہ کھجور کے تنے سے باندھتے تھے اور وہ چیختا رہتا اس لئے مدینہ کی کھجور کو صیحانی کہنے لگے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس کھجور کا نام اس وقت بھی یہی تھا جب حضرت علی رض پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
نوٹ ❗
نیز لفظ مرتضیٰ جو ہمارے اردو زبان میں حضرت علی رض کے ساتھ عام لگنے لگا۔ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے دور میں کسی صحابی کے ساتھ مستعمل نہ تھا جو بعد کے شیعوں نے حضرت علی رض کے ساتھ چسپاں کر دیا۔ حالانکہ یہ لفظ ازروئے قرآن رسولوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ ارشاد ربانی ہے اِلَّا مِنَ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ° مگر اللہ جس رسول سے راضی ہو۔
#نعمان عمر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"""""""""""""""""""""""
#پُر نُور دُعائیں
#قسط نمبر (27)
"""""""""""""""""""""""
🥀سو کر اٹھنے کے وقت کے آداب اور دعائیں🥀
(1) جب سو کر اٹھے تو یہ دعا پڑھے:-
الْحمْدُ لِلَّهِ الَّذِيْ یُحْیِ الْمَوْتیٰ وھُو علیٰ کُلِّ شیْءٍ قدِیْرٌ°
اس اللہ تعالی کا شکر ہے جو مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
حاکم _ عن جابر رضی اللہ عنہ
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
یا یہ دعا پڑھے :-
(2) الْحمْدُ لِلَّهِ الَّذِيْ احْیانا بعْد ما اماتنا و اِلَیْہِ النُّشُوْرُ°
اس اللہ تعالی کا شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
(متفق علیہ) (ابن ابی شیبہ عن خذیفہؓ)
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اور یہ دعا پڑھے :-
(3) لا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ الْواحِدُ الْقھّارُ، ربُّ السّمٰوٰتِ والْارْضِ وما بیْنھُما الْعَزِيزُ الْغفّارُ°
ایک اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں جو زبردست ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے (سب) کا پروردگار ہے وہ (سب) پر غالب ہے بہت بخشنے والا ہے۔
کتاب الاذکار ج۱ _ ۲۶۶
نسائی
حاکم عن عائشہ ؓ
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اور اس کے بعد مغفرت کی دعا کرے اور کہے :-
الّٰلھُمّ اغْفِرْلِیْ°
یا کوئی اور دعا مانگے اللہ تعالی قبول فرمائیں گے اسکے بعد وضو کرے دو رکعت نماز پڑھے۔
🥀فائدہ 🥀
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص رات کو بیدار ہوتے ہی مذکورہ بالا دعا پڑھ کر مغفرت کی دعا مانگے گا یا اور کوئی دعا مانگے گا اس کی دعا قبول ہو گی اور وضو کر کے (تحیۃ الوضو) پڑھے گا تو اس کی نماز قبول ہو گی۔
سنن اربعہ عن عبادہ بن الصامت ؓ
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
#نعمان عُمر
7,10,2023
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت جلد (٣)
حضرت علیؓ سے متعلق روایات
قسط نمبر 93
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
🥀علی رض ہادی ہیں 🥀
عبداللہ بن عباس رض فرماتے ہیں۔ اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌّ° (بیشک تو ڈرانے والے ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک میں منذر ہوں لیکن علی رض تجھے ہدایت کرنے والے ہیں اے علی رض ہدایت یافتہ لوگ تیرے ذریعہ ہدایت پائیں گے۔
میزان ج ١ ص ٤٨٤۔
•••••••••••••••••••
ذہبی لکھتے ہیں اس آیت اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرُّ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ھَاد° کی یہ تفسیر مفسر ابن جریر نے حسن بن الحسن کے ذریعہ معاذ بن مسلم سے نقل کی ہے۔ یہ روایت منکر ہے اور غالباً یہ آفت اسی معاذ کی ڈھائی ہوئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آفت ابن جریر نے ڈھائی ہو۔
🥀 حسن بن الحسن 🥀
حسن بن الحسن کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ شخص کوفہ کا باشندہ ہے۔ ابو حاتم لکھتے ہیں یہ محدثین کے نزدیک سچا نہیں۔ اس کا شمار بڑے درجہ کے شیعوں میں ہوتا ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی روایت ثقہ راویوں جیسی نہیں ہوتی۔
ابن حبان لکھتے ہیں یہ ثقہ راویوں کے نام سے لغو باتیں روایت کرتا اور احادیث میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔
میزان ج ١ ص ٤٨٣۔
••••••••••••••••••••
🥀 معاذ بن مسلم 🥀
ذہبی کا بیان ہے کہ یہ مجہول ہے اور اس نے عطاء بن السائب سے یہ موضوع حدیث روایت کی ہے۔
میزان ج ٤ ص ١٣٢۔
••••••••••••••••••••
🥀 عطاء بن السائب 🥀
معاذ بن مسلم نے یہ روایت عطاء بن السائب سے نقل کی ہے۔ عطاء اگرچہ تمام محدثین کے نزدیک ثقہ ہے۔ لیکن اول تو ان کا آخر عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ ثانیاً وہ مرسل روایات نقل کرتے ہیں۔
بسم الله الرحمن الرحیم
------------------------------
___________
#اللہ کون ہے
#قسط نمبر 16
__________________
سورہ النحل آیت نمبر 72
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ بَنِیۡنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ یُؤۡمِنُوۡنَ وَ بِنِعۡمَتِ اللّٰہِ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ ﴿ۙ۷۲﴾
ترجمہ:
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے بیویاں بنائی ہیں، اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے ہیں، اور تمہیں اچھی اچھی چیزوں میں سے رزق فراہم کیا ہے۔ کیا پھر بھی یہ لوگ بےبنیاد باتوں پر ایمان لاتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟
سورہ النحل آیت نمبر 81
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡجِبَالِ اَکۡنَانًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمُ الۡحَرَّ وَ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمۡ بَاۡسَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡلِمُوۡنَ ﴿۸۱﴾
ترجمہ:
اور اللہ ہی نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے تمہارے لیے سائے پیدا کیے، اور پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہارے لیے ایسے لباس پیدا کیے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں، اور ایسے لباس جو تمہاری جنگ میں تمہیں محفوظ رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی نعمتوں کو تم پر مکمل کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو۔
سورہ الاسراء آیت نمبر 25
رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡ نُفُوۡسِکُمۡ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا صٰلِحِیۡنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِیۡنَ غَفُوۡرًا ﴿۲۵﴾
ترجمہ:
تمہارا رب خوب جانتا ہے تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر تم نیک بن جاؤ، تو وہ ان لوگوں کی خطائیں بہت معاف کرتا ہے جو کثرت سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
سورہ الکہف آیت نمبر 26
قُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۚ لَہٗ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَبۡصِرۡ بِہٖ وَ اَسۡمِعۡ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ ۫ وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶﴾
ترجمہ:
کہہ دو کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت ( سوتے) رہے۔ آسمانوں اور زمین کے سارے بھید اسی کے علم میں ہیں۔ وہ کتنا دیکھنے والا، اور کتنا سننے والا ہے۔ اس کے سوا ان کا کوئی رکھوالا نہیں ہے، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
🖤
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"""""""""""""""""""""""
#پُر نُور دُعائیں
#قسط نمبر (26)
"""""""""""""""""""""""
🥀سوتے میں ڈر جانے یا خوف و دہشت طاری ہو
جانے یا نیند اُچٹ جانے کے وقت کی دعائیں🥀
(1) اگر سوتے میں ڈر جائے یا کوئی گھبراہٹ اور پریشانی محسوس ہو یا نیند اُچٹ جائے تو یہ تعوذ پڑھے۔
اعوذُ بکلماتِ اللہِ التّٰآمّۃِ مِنْ غضبِہٖ و عِقابِہٖ و شرِّ عِبادِہٖ و مِنْ ھمزاتِ الشّیاطِیْنِ وانْ یحْضرُوْنِ °
میں اللہ تعالی کے کلمات تامہ کی پناہ لیتا ہوں اسکے غضب و غصہ سے اور اس کے عذاب سے اور اسکے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس سے کہ وہ (شیطان) میرے پاس بھی آئیں۔
حاکم عن عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
(2) اور یہ دُعا پڑھے :-
اللھُمّ غارتِ النُّجُوْمُ و ھداْتِ العُیُوْنُ و انْت حیٌّ قیُّوْمٌ لا تاْخُذُک سِنۃٌ ولا نوْمٌ یا حیُّ قیُّوْمُ اھْدِئْ لیْلِیْ وانِمْ عیْنِیْ°
اے اللہ : ستارے بھی چھپ گے اور آنکھیں بھی (نیند میں) ڈوب گئی اور تو ہی زندہ رہنے والا اور قائم رکھنے والا نگہبان ہے تجھے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ، اے حی و قیوم : تو میری رات کو بھی پُرسکون بنا دے اور میری آنکھوں کو بھی نیند بخش دے۔
عمل الیوم واللیلہ لابن سنی ۲۴۴
مجمع الزوائد ج۱۰ _ ۱۲۸
کتاب الاذکار ج۱ _ ۲۶۸
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت جلد (٣)
حضرت علیؓ سے متعلق روایات
قسط نمبر 92
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
🥀مجھے قاسطین اور مارقین سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے
عمار رض بن یاسر کا بیان ہے کہ مجھے قاسطین اور مارقین سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے۔
ہمیں حیرت اس پر ہے کہ ناکثین کو اس میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ناکثین سے حضرت عمار رض نے جنگ نہ کی ہو۔
ناکثین سے مراد حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور ان کے ساتھی ہیں۔ حالانکہ بقول شیعہ زبیر رض و طلحہ رض نے عہد کر کے توڑا تھا۔ بقیہ اہل بصرہ اور اہل مکہ جو حضرت عائشہ رض کے ساتھ تھے انہوں نے کوئی عہد نہ کیا تھا۔ لہذا انہیں ناکث فرار دینا یہ خود خلاف عقل ہے.
قاسطین برابری کا دعویٰ کرنے والے۔ اس سے مراد امیر معاویہ رض اور ان کے ساتھی ہیں۔ مارقین سے مراد عہد سے نکل جانے والے یعنی خارجی ہیں۔
جعفر بن سلیمان❗
اس کا راوی ہے جعفر بن سلمیان الضبعی ہے۔ اس کا تفصیلی حال پہلے گزر چکا ہے۔
🥀 خلیل بن مرہ 🥀
جعفر بن سلمیان نے یہ روایت خلیل بن مرہ سے نقل کی ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ یہ خلیل بن مرہ منکر حدیث ہے۔
ابو حاتم کا بیان ہے کہ یہ قوی نہیں۔
نسائی کا بیان ہے کہ یہ ضعیف ہے۔
میزان الاعتدال ج ١ ص ٦٦٧۔
کتاب الضعفاء والمتروکین للنسائی ص ٣١۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
خلیل نے اسے قاسم بن سلیمان سے نقل کیا ہے اور قاسم اپنے باپ دادا سے روایت کرتا ہے۔ عقیلی کا بیان ہے کہ اس کی حدیث صحیح نہیں۔
میزان ج ٣ ص ٢٧١۔
°°°°°
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Website
Address
Haripur
Kpk. Dist Haripur . Tasil Ghazi. Village Amazai Kopri Chackly
Haripur, 22620
sharing our ideas with people & talking from people.and making different programs.
Haripur
Subscribe Like and share mu YouTube channel and keep supporting https://youtube.com/channel/UCGcgtiuKotFJ01E63z62cww