MyVision
Short Courses, tuition and vu education available
Subscribe my channel
diabetes types #diabetes #exercise #who #workout #gym #gymmotivation #health
آپ کے اندر اگر درج ذیل عادات میں سے کوئی ایک بھی ہے تو فوراً سے پہلے بدل لیں ورنہ یہ آپ کے بچوں کی تربیت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔
1- اگر آپ کا بچہ کوئی کام کرنے سے پہلے آپ کی نگاہوں سے چُھپ جاتا ہے تو یہ علامت ہے اس بات کی کہ آپ بارعب بننے کے چکر میں اسے اپنے سے دور کر رہے ہیں۔
2- اگر آپ کا بچہ ضرورت سے زیادہ شرمیلا اور سہما ہوا رہتا ہے تو علامت ہے کہ آپ اُسے ضرورت سے زیادہ باتیں سمجھانے لگے ہیں اس کی معصوم شرارتوں سے لطف لینے کے بجائے آپ اسے وقت سے پہلے بڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔
3- اگر کوئی بچہ اپنے کھلونوں کی بجائے دُوسروں کے کھلونوں سے کھیلتا ہے۔۔۔
تو یہ علامت ہے کہ آپ اُن کی چوائس کا احترام نہیں کرتے اور اُنہیں وہ کھلونے خرید کر دے رہے ہیں جو اُنہیں پسند نہیں ہیں۔
4- اگر آپ محسوس کریں کہ آپ کے بچے میں دُوسرے بچوں کے متعلق حسد پیدا ہو رہا ہے تو خاطر امکان ہے کہ آپ اُس کا موازنہ دوسرے بچوں سے کر رہے ہیں اور اکثر اُسے یہ بتا رہے ہیں کہ فلاں بچہ بہت اچھا بچہ ہے اور آپ بالکل نکمے ہو۔
5- اگر آپ کا بچہ بدتمیزی پر اُتر آیا ہے اور کسی بات کو خاطر میں نہیں لا رہا تو یہ نشانی ہے کہ اُس کے اردگرد آپ یا کوئی اور بڑے ایسا ہی عمل کر رہے ہیں یا حد سے زیادہ لاڈ پیار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔
6- اگر بچے میں چڑاچڑا پن پیدا ہو رہا ہے تو یہ نشانی ہے کہ اُسے پُوری توجہ نہیں مل رہی، خاص طور پر ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب ماں اور باپ اُس سے کم عُمر بہن اور بھائیوں کی طرف زیادہ توجہ کر رہے ہوں اور اُسے لگ رہا ہو کہ اُسے بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
7- اگر آپ کو پتہ چلے کے آپ کا بچہ آپ سے جھوٹ بولتا ہے تو یہ نشانی ہے کہ آپ نے اُسے اُس کی غلطیوں پر ضرورت سے زیادہ ڈانٹ رہے ہیں۔
8- اگر آپ کے بچے میں قوت فیصلہ کم ہورہی ہے اور وہ آپ سے کوئی بات کرنے سے جھجھک رہا ہے تو یہ علامت ہے اس بات کی کہ آپ اسے دوسرے بچوں کے سامنے ڈانٹ رہے ہیں۔ یاد رکھیں بچے کو دُوسرے بچوں کے سامنے چاہے وہ اُس کے بہن بھائی اور کزن ہی ہوں ہرگز مت ڈانٹیں، وگرنہ یہ بچوں کی قوت فیصلہ کو کمزور کر دے گا۔
9- اگر آپ کے بچے میں باغیانہ نفسیات پیدا ہورہی ہیں تو یہ علامت ہے اس بات کی کہ آپ کبھی بھی اس کے احساسات کا خیال نہیں کرتے، ہر وقت اپنا فیصلہ اس پر تھوپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یاد رکھیں اگر ایسا ہے تو آپ والد نہیں ہیں بلکہ برے ڈکٹیٹر ہیں اور ایک وقت تک رہے گا بہت جلد آپ اسے اپنے مد مقابل پائیں گے۔
10- اگر آپ ذہنی تناؤ کی حالت میں رہتے ہیں اور اپنی پریشانی اور غصے کو بچوں پر نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تو آپ خود کو تنہا کر رہے ہیں۔ ایسے بچے والدین سے دُور ہوتے جاتے ہیں وہ والدین پر بھروسا کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اُن کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے، ایسے بچے بڑے ہوکر منشیات کی طرف راغب ہوسکتے ہیں اور صحیح اور غلط کام کی پہچان کھو سکتے ہیں۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے والدین بننے اور اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔ بشکریہ
لا محدود
مارٹینا ناوراٹیلووا سے ایک بار پوچھا گیا کہ "آپ 43 سال کی عمر میں بھی اپنی توجہ، جسم اور تیز کھیل کو کیسے برقرار رکھتی ہیں؟"
اس نے عاجزانہ جواب دیا، "گیند نہیں جانتی کہ میری عمر کتنی ہے"
۔ آپ کو اپنے آپ کو روکنے سے روکنے کی ضرورت ہے. زندگی کا ہر کھیل دراصل 6 انچ زمین پر کھیلا جاتا ہے یعنی آپ کے دونوں کانوں کے درمیان کی جگہ۔
ہم بنگلوں، مکانوں یا فلیٹس میں نہیں رہتے۔ ہم اپنے دماغ میں رہتے ہیں جو کہ ایک لامحدود علاقہ ہے۔ زندگی میں غیر معمولی کام کرنے کے مواقع لا محدود ہیں اور اگر ہم اپنی سوچ کو محدود نہ کریں تو ہم بھی کمال حاصل کرسکتے ہیں ۔
آئیں دیکھیں ہم تعلیمی زوال میں کہاں تک پہنچے
پاکستان میں جہاں بجلی، پانی اور گیس کا بحران ہے وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہمارا نظام ِ تعلیم بھی ہے ۔ ہم ایک عرصہ سے ایسے گھسے پٹے تعلیمی نظام کو لے کر چل رہے ہیں جو ہمارے بچوں کو رٹا لگانا سکھا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو گئی ہیں ۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے آج ہمارے بچے صرف لکیر کے فقیر بن چکے ہیں ۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو رٹا سسٹم سے پاک کرنے کے علاوہ اپنے نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا اور بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اپنے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر بدلنا ہوگا۔ اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ ہماری نئی نسل بہت باصلاحیت ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان صلاحیتوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ۔ دراصل ان کی صلاحیتوں سے فائد اٹھانے کے لیے وسائل کی کمی کے علاوہ مناسب منصوبہ بندی کا بھی فقدان ہے۔ ہمارے ملک میں بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے خود کچھ نیا تخلیق کیا ہے یا کوئی نئی تھیوری پیش کی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی سولہ سالہ تعلیم میں رٹالگانے کے سوا کچھ بھی نہیں سیکھتے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام موجود ہے جس کے تحت نصاب کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا ہو۔ جہاں ہم ملکی تعمیروترقی کے خواب دیکھتے ہیں وہیں ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم ان خوابوں کی تعبیر کیلئے کیا کوششیں کررہے ہیں ۔
ایک طرف جہاں نصاب میں جدت لانے کی ضرورت ہے وہیں پر اس نصاب کو پڑھانے کیلئے طریقہِ تدریس میں بھی انقلابی بہتری ضروری ہے۔ اساتذہ کو بھی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے مناسب تربیت دی جانی چاہیے۔ ہمارے موجودہ نصاب میں اس طرح کا موادشامل ہے جس کو پڑھنے کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں کیا سیکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مثلا انٹر میڈیٹ کے نصاب میں شامل مسٹر چپس کا مضمون جس کو پڑھنے کے بعد بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس مضمون کو پڑھائے جانے کا مقصد کیا ہے۔ میری رائے کے مطابق ہمیں اپنے تعلیمی نظام سے رٹا سسٹم کو ختم کر دینا چاہیے جو ہمارے بچوں کی قدرتی صلاحیتوں کو تباہ کررہا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نصاب میں تھیوری کی پچیدگیوں کو نکال کر معلوماتی اور تخلیقی مضامین شامل کریں تا کہ ہماری آنے والی نسل اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے خود نئی ایجادات کرسکیں۔
یہ تمام خواب اس وقت تک شرمندہ ِ تعبیر نہیں ہوسکتے جب تک ہم ایسے سیاسی و عوامی نمائندوں کا انتخاب نہیں کرتے جن کی ترجیحات میں تعلیم کو اولیت حاصل ہو اور جو اس قوم کا درد سمجھتے ہوئے چھوٹے موٹے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے مستقبل کا سوچیں اور پاکستان کی آنے والی نسلوں کو معیار ی تعلیم کا تحفہ دینے کیلئے جامع عملی اقدامات کریں۔ آج ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت کو پہچاننا ہوگا اور اپنا ووٹ تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے مختص کرنا ہوگا ورنہ تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی ۔
If you know how to speak
Become public speaker
If you know how to write
Become web blogger
If you know how to paint
Become web designer
If you are good at math
Become programmer
If are good at making strategies
Become digital marketer
If you have good communications
Become vocal artist
If you know nothing
Sell courses.
Aisha
بے جا سوچ بچار
✍️ روبینہ یاسمین
الجبرا کی ٹیچر نے ایک بہت مختصر سا پرابلم تختہ سیاہ پر لکھا۔ سارے طالب علم ذہین تھے سمجھ گئے کہ ٹیچر کوئی آسان سا سوال تو نہیں پوچھیں گی۔ ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے سے اپنی توجیہہ نکال کر اس آسان ترین سوال کو مشکل ترین طریقے سے حل کیا۔ صفحے کے صفحے کالے کر دئے ۔
جب سب اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑا چکے تو ٹیچر نے دو سطروں میں پرابلم حل کر دیا۔
پوری کلاس حیرت سے ٹیچر کا حل دیکھتے ہوئے کہنے لگی ، ہم تو سمجھے آپ اتنا آسان سوال نہیں پوچھ سکتیں ضرور کوئی مشکل بات ہو گی جو ہمیں سارے فارمولے لگا کر ہی حل کرنی ہے۔
زندگی میں بھی بہت سی باتیں بہت آسان اور بغیر کسی ہیر پھیر کے ہوتی ہیں۔ ہم خود کو بہت ہوشیار سمجھتے ہوئے سیدھی سادھی بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اعتبار نہیں کرتے ، نیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
ملزم کو صفائی کا موقع دئے بغیر مجرم بنا دیتے ہیں۔ کسی کا کوئی عمل سوالیہ لگے بھی تو اسے شک کا فائدہ دے دیں ۔ جرم کرنے سے پہلے سزا نہ دیں۔ ہماری سوچ جس کو مانسٹر دکھا رہی ہوتی ہے ہو سکتا ہے وہ ایک چھوٹا سا بونا ہو ۔
سادہ سی چیزوں کو اپنی بے جا غیر ضروری سوچوں سے پیچیدہ نہ بنائیں۔
میرا ایک سوال ہے والدین سے اور سکول کی انتظامیہ سے کہ
" کیوں استاد کو یہ کہہ کر کلاس روم میں بھیجا جاتا ہے کہ آپکو بچے کو سزا دینے سرزنش کرنے یا سختی کرنے کی اجازت نہیں؟
کیا ایک ڈاکٹر کو بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اس مریض کا علاج کر دیں لیکن آپ کو انجکشن لگانے اور سرجری کرنے کی اجازت نہیں ہے
یا ایک لوہار کو یہ کہا جاتا ہے کہ اس لوہے کو كندن بنا دو لیکن آگ میں تپانے کی اجازت نہیں
یا ایک بڑھئی کو یہ کہا جاتا کہ اس لکڑی سے سامان تیار کردو لیکن اس پر آرا چلانے کی اجازت نہیں
یا ایک مالی کو باغ سجانے کے لیۓ قینچہ چلانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔۔
تو پھر والدین استاد کی سزا سرزنش یا سختی پر اتنا واویلا کیوں مچاتے ہیں؟؟ سب جانتے ہیں کہ تعلیم و تربیت میں بھی استاد جہاں ضروری سمجھتا ہے بچے کی اصلاح کے لیے سختی کرتا ہے سزا دیتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ وہ غلطی کرتا ہے اور غلطی سے ہی سیکھتا ہے اللہ پاک نے بھی اس عمل کے لیۓ سزا جزا کا تصور ہی رکھا ہے انسان کو بتا دیا گیا ہے کہ غلطی کرے گا تو سزا کا حقدار ٹہرے گا تو پھر ہم کیسے اپنے بچوں کو یہ سکھا سکتے ہیں کہ وہ غلطی کریں گے اور انہیں کچھ نہیں کہا جاۓ گا ۔
یہ سراسر والدین کی غلطی ہے جو اپنے بچوں کی تربیت اس طریقے سے کر رہے ہیں اور سکول انتظامیہ کو پریشان کرتے ہیں۔ والدین کو اس کے بہت سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے جب ان کے بچے اچھی تعلیم و تربیت سے محروم رہ جائیں گے
میری اس پوسٹ کا مقصد هرگز یہ نہیں ہے کہ استاد کو بچوں کو سخت جسمانی سزا دینے کی اجازت ہے استاد کو بھی چاہیے کہ وہ صرف بچے کو اصلاحی سزا دے۔ سزا تعلیم کے عمل میں بالکل نہ دی جاۓ صرف تربیت کے حوالے سے ہی اصلاح کی جاۓ۔
شکریہ
The Vision egc
Computer courses and tution classes
Admission open
Contact # 03099903429
[email protected]
Theash786: I will creat html and css work for $100 on fiverr.com For only $100, Theash786 will creat html and css work. | We will design a creative and unique webpages.I can create any page be it homepage for a new website, inner page, designing a landing page, | Fiverr
خوش زبان
روبینہ یاسمین
اگر آپکو کسی بھی ایک زبان پر عبور حاصل ہے تو دوسری زبان سیکھنے میں آپکو زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ آپ کے پاس ایک زبان کا ذخیرہ الفاظ موجود ہو ، آپ کو اس زبان کے ادب سے واقفیت ہو تو زبان دانی ایک قابل انتقال وصف یا
Transferable skill
بن جاتی ہے۔
پاکستان میں متوازی طرز تدریس تو تھا ہی ، سرکاری اسکولوں میں اردو اور نجی اسکولوں میں انگریزی۔
یہاں تک بھی غنیمت تھا۔ اردو میڈیم والوں کو کم از کم اردو تو آتی تھی۔ پھر جب نجی سکولوں کی ہوا چلی تو آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق نہ اردو پر عبور ہوا نہ انگریزی پر۔
اب حالت یہ ہے کہ اردو میں آٹھ سطریں لکھ دیں تو اس کا مفہوم سمجھ نہیں آتا۔ اوپر کی دو سطریں پڑھ کر باقی کا مضمون جج کر لیا جاتا ہے کیونکہ ہم جج کرنے میں عبور حاصل کر چکے ہیں ۔ جو بات دو جملوں میں بتائی جا سکتی ہے وہ دو پیراگراف میں بھی واضح نہیں کر پاتے۔
رہی سہی کسر رومن اردو نے پوری کر دی۔ یا تو اردو لکھیں یا انگریزی لکھیں یہ بیچ کی زبان تو عجیب مخمصہ ہے۔
طالب علم پوچھتا ہے کمیونیکیشن کیسے بہتر کریں۔ کہتے کچھ ہیں ، اگلا یا تو سمجھتا نہیں یا جو نہیں سمجھنا تھا وہ سمجھ لیتا ہے۔
آسان حل ہے۔ اپنی مادری زبان سیکھیں اس پر عبور حاصل کریں۔ تعلیم کا مقصد یہ نہیں کہ کمانا ہے۔
تعلیم کا مقصد ایک بہترین انسان کی تشکیل ہے۔ بہت سے بہترین انسان مل کر بہترین معاشرہ کی تشکیل کرتے ہیں ۔
جس دن یہ بات سمجھ آگئی اس دن بہت سی بے سروپا بحثوں کا حصہ بننے کے بجائے آپ ان سے کنی کترا کر اپنے ہاتھ میں موجود کتاب پڑھنے میں مشغول رہیں گے۔
زبان پر عبور ہو تو آپ جملوں میں ایسی تبدیلیاں کر لیتے ہیں جن سے سخت جملے کو نرم کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپکو دوسروں کے دل جیتنے ہیں تو آپ کو خوش زبان بننا ہے۔ اب خدانخواستہ اس سے یہ مطلب نہ نکال لیجئے گا کہ آپ کو خوشامد کرنے کا کہہ رہی ہوں ۔ آپ کو نرم زبان بننا ہے اور اپنے الفاظ میں سے سخت الفاظ کے متبادل نرم الفاظ استعمال کرنے ہیں۔
مثال: اگر آپ کسی کو کہیں
تم نے کام کرنا ہی ہے تو دودھ میں مینگنیاں ضرور ڈالنی ہیں۔
اب یہ جملہ سخت ہے۔ لازمی جسے کہا جائے گا اسے ناگوار لگے گا۔
اب اسی جملے میں ترمیم کر کے یوں کہہ لیں ۔
آپ نے کام تو کرنا ہی ہے پھر دودھ میں تنکا کیوں ڈالنا چاہ رہے ہیں؟
معمولی سی ترمیم سے بھلے محاورہ بدل جائے کم ازکم کسی کا دل تو آپکی طرف سے نہیں بدلا
جب بچہ کوئی کھیل کھیلتا ہے ، تو وہ ذہنی طور پر، جذباتی طور پر اور جسمانی طور پر مکمل انوالو ہو تا ہے۔ وہ پلان بناتا ہے، جیتنا چاہتا ہے ، رسک لیتا ہے، پلان کو implement کرنا چاہتا ہے، کبھی وہ جیتتا ہے اور کبھی بہترین پلان کے باوجود ہار جاتا ہے۔ اس میں سیٹ بیک سہنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، غلطی سے سیکھنا آ تا ہے ، جسم مضبوط ہونا ہے اور صحت اچھی رہتی ہے۔
صرف یہ سوچیں کہ کھیل بچے کو کتنا کچھ سکھا رہا ہے اور کتنا فائدہ ہے کھیل کا۔ میری نظر میں بچے کا game lesson اس کے کسی بھی اور لیکچر سے زیادہ اہم ہے۔ کھیل میں سیکھی ہوئی صلاحیتیں زندگی میں کام آ ئیں گی اور یقیناً آ ئیں گی۔
ہمارے ہاں بچے کو آ ٹھویں جماعت سے لیکر ایف ایس سی مکمل ہونے تک پڑھائی کا بھاشن صبح شام عطا ہوتا ہے اور کھیل کی حو صلہ شکنی کی جاتی ہے۔ بالکل غلط اپروچ ہے۔ والدین بنیں ، پولٹری فارم مینجر نہ بنیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ سارا دن پڑھے، تو خواہش غلط ہے۔ پڑھ بھی لے گا تو آ گے جا کے ٹھس ہو جائے گا۔ توازن ضروری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ
Games are best teachers and let your kid play please. He will learn life.
آ داب عرض ہے
ڈاکٹر عمران جاوید
احتیاط
تحریر: روبینہ یاسمین
ایک دوست اکثر اپنی پانی کی بوتل ادھر ادھر رکھ کر بھول جاتی تھی۔ اس کی پانی کی بوتلیں عام طور پر ڈسپوزیبل ہوتی تھیں ۔
وہ کہتی تھی کہ میں ڈسپوزیبل بوتل اسی لئے استعمال کرتی ہوں کہ اگر کہیں بھول جاؤ ں تو نقصان نہ ہو۔ نقصان سے زیادہ وہ اپنی بے احتیاطی کی عادت سے پریشان تھی کہ وہ اپنی چیزیں احتیاط سے کیوں نہیں رکھتی۔
میں نے اسے مشورہ دیا کہ تم کوئی اچھی کوالٹی کی اچھے برانڈ کی ری یوز ایبل پانی کی بوتل خرید لو اور وہ استعمال کرو۔ وہ کہنے لگی اب تم چاہتی ہو میری وہ بوتل گم ہو جائے اور میرا زیادہ نقصان ہو۔
میں نے کہا ٹرائی تو کر کے دیکھو۔
خیر اس نے ایک اچھے برانڈ کی بوتل خرید لی۔ کچھ عرصہ بعد میں اس سے ملی اور پوچھا کہ آیا وہ پانی کی بوتل اس کے پاس ہے یا حسب معمول گم ہو گئی؟
اس نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر اس نے اپنی بوتل بہت دھیان سے رکھنی شروع کر دی ہے اور پتہ نہیں کیسے اس نے اپنی بے احتیاطی کی عادت پڑ قابو پا لیا ہے۔
میں نے اسے کہا کہ بوتل کی قیمت سے فرق پڑا ہے اور تم بے احتیاط نہیں ہو۔
یہی سب کچھ ہماری زندگیوں میں بھی ہوتا رہتا ہے۔
جن چیزوں کی ہمارے نزدیک اہمیت زیادہ ہوتی ہے ہم ان کے معاملے میں احتیاط رکھتے ہیں۔
اگر ہم اپنی صحت کو اہمیت دیتے ہوں گے تو اپنے کھانے پینے سونے ورزش کرنے کے معمولات کی احتیاط کریں گے۔
اگر ہم۔اپنے دوستوں کو اہمیت دیتے ہوں گے تو ہم۔ان کی عزت کریں گے ان کا خیال رکھیں گے انہیں وقت دیں گے۔
اگر ہم پیسے کو اہمیت دیں گے تو سوچ سمجھ کر خرچ کریں گے۔
اگر ہم اپنے وقت کو اہمیت دیں گے تو اسے بے جا ضائع نہیں کریں گے۔
ہم۔سب احتیاط پسند ہوتے ہیں اور ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ کب ہمیں چیزوں کی احتیاط کرنی ہے، کب کسی کی قدر کرنی ہے۔
بے احتیاطی ظاہر کرتی ہے کہ اس چیز کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے، قدر نہیں ہے۔
زبانی کلامی باتوں کی اہمیت نہیں جن چیزوں کی آپ قدر کرتے ہیں جنہیں اہمیت دیتے ہیں وہ آپکے اس طرز عمل سے ہی واضح ہو جائیں گی کہ آپ ان کے معاملے میں کتنے احتیاط پسند ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ :
قرآن مجید تئیس سال کے عرصے میں مکمل ہوا - آپ ضرور سوچیں گے کہ اس میں کون سی نئی بات ہے یہ تو ہمیں نرسری سے پڑھایا جاتا ہے نئی بات یہ نہیں کہ قرآن مجید کتنے عرصے میں مکمل ہوا نئی بات یہ ہے کہ اس کی کیا وجہ تھی؟
حالانکہ بھیجنے والی ذات وہی، لانے والا فرشتہ وہی، جس پر نازل کیا جا رہا وہ ہستی وہی، جس کے لیے نازل کیا جا رہا وہ امت وہی پھر اتنا تسلسل سے آہستگی سے اس سلسلے کو آگے بڑھانے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی؟ جی وہ حکمت تھی، مستقل مزاجی اور پریکٹس کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ کسی بھی کام کے لیے اچانک تیار نہیں ہو پاتا اس کے لیے پہلے اس کا ذہن بنانا پڑتا ہے تو تئیس سال تک امت نے قطرہ قطرہ قرآن اپنے اندر اتارا اور اس قطرہ کی پریکٹس کی ...
ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ سب احکامات ایک ساتھ ہی بتا دئیے گئے ہوں، نہیں ایک ایک کر کے عادی بنایا گیا، پریکٹس کروائی گئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ مسلمان جن کا مذاق اڑایا جاتا تھا وہ قیصر و کسریٰ کے فاتح ٹھہرے تو یہی اصول ہماری دنیاوی زندگی میں بھی عمل کرتا ہے دو چیزیں آپ کو اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں ایک مستقل مزاجی اور دوسرا پریکٹس، آپ کہیں سے بھی کچھ سیکھیں لیکن مستقل مزاجی اور پریکٹس کو اپنی زندگی کے پہلے دو اصول بنا لیں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کامیاب نہ ہوں-
ہم میں سے اکثر اپنے معاملات میں تقدیر کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آتے ہیں لیکن کامیاب لوگوں کو کامیابی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی انہیں اس کے لیے کوشش کرنا پڑی ہے- آپ بھی یہی دو اصول آج سے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیجیے اور پھر آگے بڑھتے جائیں اور یہ اپنے ذہن میں رکھیں کہ:
Practice makes a man perfect.
اور یہی مستقل پریکٹس آپ کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ثابت ہو گی کیونکہ :
Slow and steady wins the race.
Enhancing one's life is a personal and subjective pursuit, as what works for one person may not work for another. However, here are some general suggestions that can help improve various aspects of life:
Set goals: Define clear, achievable goals for different areas of your life, such as career, health, relationships, personal development, and hobbies. Setting goals provides direction and motivation.
Prioritize self-care: Take care of your physical, mental, and emotional well-being. This includes getting regular exercise, eating a balanced diet, getting enough sleep, managing stress, practicing mindfulness or meditation, and seeking support when needed.
Cultivate positive relationships: Surround yourself with supportive and positive people who inspire and encourage you. Nurture your relationships with friends, family, and loved ones. Invest time and effort in building meaningful connections.
Continuous learning: Engage in lifelong learning. Expand your knowledge and skills by reading books, taking courses, attending workshops, or pursuing hobbies. This not only enhances your abilities but also keeps your mind active and curious.
Practice gratitude: Cultivate an attitude of gratitude by focusing on the positive aspects of your life. Regularly express appreciation for the things you have and the people who enrich your life. Gratitude can help shift your perspective and improve overall well-being.
Embrace new experiences: Step out of your comfort zone and try new things. Explore different hobbies, travel to new places, meet new people, and expose yourself to diverse perspectives. Embracing new experiences can broaden your horizons and bring excitement to your life.
Manage time effectively: Develop good time management skills to prioritize tasks, set boundaries, and allocate time for important activities. Avoid excessive multitasking and learn to focus on one task at a time. This can help reduce stress and increase productivity.
Give back to others: Engage in acts of kindness and contribute to your community or causes you care about. Volunteering or supporting charitable organizations can provide a sense of purpose and fulfillment.
Practice self-reflection: Take time for introspection and self-reflection. Regularly evaluate your values, beliefs, and goals. Identify areas for growth and make adjustments accordingly. Self-reflection can lead to self-awareness and personal growth.
Find balance: Strive for a balance between various aspects of your life, such as work, relationships, hobbies, and personal time. Prioritize activities that bring you joy and align with your values. Remember to take breaks and recharge when needed.
Remember, enhancing your life is an ongoing journey, and what works for you may evolve over time. Experiment with different strategies, stay open to new ideas, and adapt as necessary to create a life that is fulfilling and meaningful to you.
Aisha Habib
تربیت: 5
"با ادب با نصیب"
گفتگو کے آداب۔
بڑوں سے بات کرنے کی تمیز۔
محفل کے آداب۔
بچوں کو out spoken بنانا،
منہ پھٹ بنانا،
ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی،
بات کرنے کی تمیز نا سیکھانا،
کیا بولنا ہے کیا نہیں،
کیسے بولنا ہے کیسے نہیں،
یہ سب توجہ طلب مسائل ہیں۔
آج کل والدین کی اکثریت بچوں کو اپنا باپ بنا کے پال رہی ھے۔ باپ فرینڈلی ہو گئے ہیں کنٹرول ماں کے ہاتھ میں ھے ماں نے لڑکوں کو گھر میں باندھ کے بٹھا دیا ھے باپ نے لڑکیوں کو شہہ دے دے کے اوور کردیا ھے۔
مائیں اپنے جوان جہان بچوں کی خدمت گزار ہو گئی ہیں۔
باپ صاحبان نے جوتوں سمیت سر پہ چڑھا لیا ھے۔
فیشن ہے باپ کو مذاق میں کچھ بھی بول دو۔
کسی بڑے کو تڑاخ تڑاخ جواب پکڑا دو۔ فیشن ہے۔
سب سے پہلے تو بچے کو یہ سیکھائیں کہ وہ بڑے کو بڑا سمجھے۔
باپ گھر میں آئے تو نوٹس لے، سلام کرئے، پانی کا پوچھے، جوتے پیش کرئے،کتنا ٹائم لگتا ھے اس سب میں صرف پانچ منٹ۔
یہ نہیں کہ باپ آئے یا جائے کوئی نوٹس نہیں کمپیوٹر اور موبائل پہ ٹکٹی فکس ہے تو فکس ہے، جیسے اوندھے پڑے ہیں ویسے ہی پڑے ہیں۔
جو ادھم مچ رہا ہے سو مچ رہا ھے
بڑی بڑی بچیوں کو دیکھا ماں کو کہتے پانی پلا دیں۔
باپ بائیک دھو رہے ہیں گاڑی صاف کر رہے ہیں جوان جہان لڑکے کمروں میں گھسے پتا نہں کون سا مستقبل بنا رہے ہیں۔
مائیں کام کر کر کے گھس گئی ہیں لڑکیاں صرف سجنے سنورنے تک ہیں مجال نہیں ہاتھ بٹا لیں۔
پھر مائیں فخر سے کہتی ہیں ہم نے کبھی بچی سے پانی نہیں مانگا اس کو تو کام کرنے کی عادت ہی نہیں ھے بھئی یہ کون سی فخریہ بات ہے پانی نہیں مانگا آپ نے اپنے بچے کو ثواب سے محروم کیا۔
باپ فخر سے کہتے ہیں جو منہ سے بات نکالتے ہیں پوری کرتے ہیں۔ ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔
آپ نے کبھی نوٹ کیا بچوں کا والدین سے صرف فرمائش کا رشتہ رہ گیا ہے بچوں کی ماں باپ سے بات چیت کا ریکارڈ چیک کر لیں 75٪ فرمائشیں ہیں یہ دلا دیں وہ لا دیں۔
یہ اور بات منہ سے نکلی بات پوری کرنے والے انہی بچوں کی شادی کرتے ہوئے اپنی پسند تھوپیں گے بچوں کی نہیں سنیں گے۔ نا ان کی پسند کو کبھی اپنائیں گے ان کی زندگیاں اجیرن کریں گے یہ پتا نہیں کون سی منافقت ہے۔
بچوں کو سیکھائیں کہ وہ
1. بڑوں کو بڑا سمجھیں۔
2. گھر میں باپ یا کوئی مہمان یا کوئی بھی بڑا داخل ہو تو سب کام چھوڑ کے سلام کریں ادب سے ملیں۔
3. کسی کمرے میں جہاں بچے پہلے سے بیٹھے ہیں کوئی بھی بڑا داخل ہو کھڑے ہو جائیں، جگہ خالی کریں۔
( اکثر تو بڑے خود ہی جگہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں کہ کہاں بیٹھیں چھوٹے ٹس سے مس نہیں ہوتے.)
4. بڑوں کی طرف متوجہ ہوں ان کی بات دھیان سے سنیں موبائل فون استعمال نا کریں۔
5. بڑوں کے سامنے کمپوز ہو کے بیٹھیں، ٹانگ پہ ٹانگ نا چڑھائیں، پاوں پھیلا کے بھی نا بیٹھیں،بازو اور ٹانگیں بھی یہاں وہاں بکھیر کے نا بیٹھیں۔
6. بڑوں کی بات مت کاٹیں۔
7. ڈائننگ ٹیبل پہ اب بچے پہلے بیٹھتے ہیں بڑے پیچھے کھڑے رہتے ہیں بچوں کے کھانا مکمل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
( ایسا سسٹم بنائیں کہ بچے بڑے سب بیٹھ سکیں)
8. تمیز یہ ہے کہ ڈائننگ ٹیبل پہ کھانا پہلے گھر کے بڑے نکالیں گے پھر بچے۔
اچھے بھلے بڑے بچوں کو سب سے پہلے جلدی جلدی پلیٹیں بھرتے دیکھا۔
9. بڑوں کو کھانا سرو کریں پانی کا گلاس بھر دیں، سالن کا ڈونگہ قریب کر دیں روٹی پلیٹ میں رکھ دیں۔
10. بچے بڑوں کی آواز پہ سنی ان سنی نا کریں۔
پڑھائیوں کے ہوئے بنائے ہوئے ہیں مجھے بتائیں کس کے بچوں نے سارے مینرز، تمیز، تہذیب چھوڑ کے پڑھ پڑھ کے گولڈ میڈل لے کے کون سے کمال کیے ہوئے ہیں ہسپتالوں میں چلے جاو ڈھنگ کا ڈاکٹر نہیں ملتا کسی بھی شعبے میں ایکسٹرا آرڈینری لوگ نہیں ہی آخر یہ 99٪ والا ٹیلنٹ جا کہاں رہا ھے۔
بہتر ھے بچوں کو تمیز تہذیب بھی ساتھ ساتھ سیکھائیں۔ اس سے وقت ضائع نہیں ہوتا تقدیر سنورتی ھے۔
لاکھوں روپے کی فیس دے کے بڑے بڑے سکولز میں پڑھنے والے اکثر بچے محفل میں بیٹھ کے چار لفظ نہیں بول سکتے۔
بڑوں کو چاہیے بچوں کو محفلوں سے اٹھا دینے کے بجائے ان کو محفلوں میں شامل کریں وقت بدل گیا ھے ان سے رائے طلب کریں بات چیت کریں۔
بچوں سے مختلف موضوعات پہ تبادلہ خیال کی غرض سے سوال جواب کریں۔
جب بھی کوئی بڑا فیصلہ کریں بچوں کو مکمل سیاق و سباق سمجھائیں ان کی رائے لیں اپنے فیصلے کی وجوہات اور نقطہ نظر کی وضاحت کریں۔
بچہ جس بھی عمر میں ہے اسے اپنے ساتھ محفلوں میں بٹھائیں وہ آپ کے تجربات سے، گفتگو سے، طرز عمل سے، سیکھے۔
بچے کو گفتگو میں شامل کریں۔
آج کل بچے کمرے اور موبائل فون تک کیوں محدود ہیں اس ٹرینڈ کو ختم کریں۔
آپ اس ڈگری کو حاصل کرنے کے بعد معاشر ے کی کیا کیا خدمت کر سکتے ہیں آپ؟ کوئی دو واضح منصوبے دیجیئے ۔
اگر ڈگری کے ایوارڈ کو اس سوال کے جواب سے مشروط کر دیا جائے تو 90% سے زائد بچے موجودہ حالات میں ڈگری ہی نہ لے پائیں ۔ اب یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ کیا خوب ہے ہمارا نظام تعلیم ۔
ایم فل کے پہلے سمسٹر میں پوچھ لیں کسی سے کہ آپ ایم فل کیوں کر رہے ہیں، کوئی واضح جواب نہیں ائے گا۔ ہم پڑھانے پر لگے ہوئے ہیں اور پڑھنے والے اپنی زندگی کا وقت ضائع کرنے پر ۔ مسافر ایسی بس میں سوار ہے جس کی منزل کا پتہ ہی نہیں ۔ تعلیم کا ایک ہی مقصد ہے سی جی پی اے اور ڈگری ۔ دونوں لے لو اور بھٹکنا شروع کر دو، ترلے لو ، کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ بن ہی جائے گا ۔
بہترین دماغ خراب کر دو بد ترین سوچ دے کر۔ اس سوچ کے مارے ہوئے طالبعلم کو پتہ ہوتا کہ میرا آنے والا وقت مشکل ہے لیکن جو سوچ اور نشہ بچپن سے لگ گیا، اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا وہ۔ انجینئر ز کی بھرمار ہے۔ نوکریاں اتنی ذیادہ نہیں، میڈیکل میں بہت مشکل مقابلہ ہے لیکن ہر کبوتر یہی سوچتا بلی مجھے چھوڑ دے گی۔
آنے والا دور artificial intelligence,
machine learning, technology
کا ہے لیکن اچھا طالبعلم آج بھی ڈاکٹر، انجینئر سے باہر نہیں سوچتا۔ ریاضی پڑھنے والے کو صرف پڑھنے پڑھانے کے علاوہ کوئی شعبہ نہیں سو جھتا، استاد بتا دے تو یاد نہیں رہتا کیوں کہ ایسے سوال سلیبس کا حصہ نہیں ۔
ہمارا تعلیمی نظام نہیں بے روزگاری کی فیکٹری ہے اور جوان اس کا خام مال ۔ ملک میں 1000 کے لگ بھگ پی ایچ ڈی بھی بے روزگاری بھگت رہے، سوال پیدا نہیں ہوتا جو بحیثیت معاشرہ ہماری آنکھ کھلے اور پڑھنے پڑھانے کی عادت بدلے۔ اگر آپ کلا س کے دوران کچھ وقت یہ سمجھائیں تو طا لب علم یہ بھی سو چ سکتا کہ سر نہ یہ باتیں کو نسی پیپر میں دینی، یہ تو گپیں ہیں صرف ۔
اگر آپ با شعور سمجھتے ہیں خود کو تو اپنی زندگی کے منصوبے خود بنائیں، اپنی اگلی نسل کی پرواہ کریں ۔ ہمارا رٹے مار نظام تعلیم جس میں سوچ کا قتل عام ہو رہا ، آپ کی یا آپ کے پیار وں کی زندگی تباہ کر سکتا۔ سوچ کی بربادی سے بڑی کیا بربادی ہو گی۔
ڈاکٹر عمران جاوید
اپنی زندگی ندگی میں ابھی اور اسی وقت انقلاب لانے کے لیے درج ذیل 7 قدم اٹھائیے اور تاعمر فائدہ اٹھائیے!
پہلا اسٹیپ:
دس بائے دس کا اصول!
اگر آپ کسی منفی واقعے/سانحے کی وجہ سے دکھی یا پریشان ہیں تو اپنے آپ سے درج ذیل تین سوالات کیجیے:
1۔ کیا اس معاملے کی دس دن بعد آپ کی زندگی میں کوئی اہمیت ہوگی؟
2۔ کیا اس معاملے کی دس ماہ بعد آپ کی زندگی میں کوئی اہمیت ہوگی؟
3۔ کیا اس معاملے کی دس سال بعد آپ کی زندگی میں کوئی اہمیت ہوگی؟
تین میں سے دو سوالات کے جوابات اگر '' نہیں '' میں ہیں تو اس کو ابھی اور اسی وقت ذہن سے جھٹک دیجئے یہ آپ کے قیمتی وقت اور فوکس کو برباد کررہا ہے!
دوسرا اسٹیپ:
فقط ایک فیصد!
ابھی اور اسی وقت اپنی لائف کے کسی ایسے حصے کو منتخب کیجئے جہاں آپ کو بہتری یعنی امپروومنٹ کی ضرورت ہے,
ہوسکے تو چار سے پانچ ایریاز منتخب کیجئے اور ابھی اور اسی وقت 1 فیصد فقط ایک فیصد امپروومنٹ فی دن کے حساب سے امپروومنٹ لانا شروع کیجئے، اگر روز ایک فیصد بہتری آنا شروع ہوگئی تو سوچئیے ایک سال بعد آپ کہاں ہوگے؟ اور اگر مستقل مزاجی سے روز ایک فیصد کی بنیاد پر ترقی کرتے رہے تو سوچئیے پانچ سال بعد آپ میں انقلابی تبدیلی آچکی ہوگی کہ نہیں؟؟
ہے نا؟
تو بس اٹھائیے کاغذ قلم اور لکھیے کہ کہاں کہاں آپ کو امپروومنٹ کی ضرورت ہے، مثلا"
لینگوئج اسکلز
ٹائم مینیجمنٹ اسکلز
ایموشنل مینیجمنٹ اسکلز
صحت و تندرستی وغیرہ
یا اس کے علاوہ بھی اپنے شعبےکےمطابق مزید ایریاز بھی ہوسکتے ہیں جو آپ ازخود کسی کے بتائے بغیر بھی سمجھ سکتےہیں!
سوچئیے روز کی بنیاد پر اگر صرف ایک فیصد امپروومنٹ آپ کو کہاں سے کہاں پنہنچادے گی! صرف ایک سے دو سالوں میں آپ موجودہ حالت سے دس گنا زیادہ مضبوط اور زیادہ پراعتماد ہوں گے!
تیسرا اسٹیپ:
منفی چیزوں سے چھٹکارا
ابھی اور اسی وقت الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی جانےوالی سنسنی خیز خبروں اور ہاٹ ایشوز پر بحث و مباحثے کےچینلز کو بندکیجئے اور ہوسکے تو انتہائی ضروری خبروں کے سوا ٹی وی آن کرنے سے گریز کیجئے۔
ابھی اور اسی وقت سوشل میڈیا پر موجود تمام منفی قسم کے لوگوں/ پیجز اور گروپس کو ان فالو/ انفرینڈ یا بلاک کیجئے۔
ان دو اسٹیپس کے بعد اچانک آپ محسوس کریں گے زندگی بہت پرسکون ہے!
چوتھا اسٹیپ:
معاف کردیجئے
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو مہینوں قبل کسی کی جانب سے کی گئی دل آذاری کو سینےسے لگائے رکھتے ہیں، جس سے اور کچھ نہیں صرف ہمارا فوکس موجودہ زمہ داریوں سے ہٹ جاتاہے، تو ابھی اور اسی وقت معاف کردیجئے ، یاد رکھیے اکثر لوگ بُرے نہیں ہوتے کبھی کبھی کسی خاص سچوئشن میں ان سے کوئی برائی سرزد ہوجاتی ہے، یہ بُرائی ان کے کردار کا حصہ نہیں ہوتی بلکہ عارضی ردّ عمل ہوتا ہے لہٰذا اس واقعے سے ضروری سبق لیجئے اور جو ہوا بھول کرآگے بڑھ جائیے!
پانچواں اسٹیپ:
روز شُکر اداکیجئے
دن کا آغاز خُدا کے حُضور ادائیگی شُکر سےکیجئے ، آپ کی صحت، آپ کا گھربار، آپ کی ملازمت یا کاروبار، آپ کی اسکلز اور ٹیلنٹ، آپ کی وہ صفات جن کے سبب آپ کو لوگوں میں پذیرائی ملتی ہے ، یہ سب خُدا کی نعمتیں ہیں جنہیں آپ گننا چاہیں تو شمار نا کرسکیں، لہٰذا ایک ایک نعمت کو یاد کیجئے اور زبانِ حال سے اور کبھی زبانِ قال سے خُدا کے شکر کو زندگی کا لازمی حصہ بنالیجئے ، خُدا کی سنت ہے وہ شکر کرنےوالوں کو مزید دیتا ہے اور ناشکروں کا رزق تنگ کردیاجاتا ہے،
آپ کا شکرگزاری کا یہ جذبہ زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لائے گا آپ خؤد اپنے آپ کو خوش/مطمئن اور مثبت محسوس کریں گے، یہ آپ کے جذبات کو مضبوط اور آپ کو پُرامید بنائے گا ،
کیا خیال ہے کامیابی کےلیے مضبوط جذبات اور اُمید بہترین زادِ راہ نہیں؟؟ تو ابھی اور اسی وقت سے شکر کو لازم پکڑ لیجئے!
چھٹا اسٹیپ:
جسمانی صحت کا خیال رکھیے
آپ کا جسم آپ کےلیے سب کچھ ہے، یہ صحت مند نہیں تو دنیا کا کوئی کام کوئی زمہ داری ادا کرنا ممکن نہیں، لہٰذا جسمانی صحت کےلیے متوازن غذا اور ہلکی پھلکی ورزش کو معمول بنائیے، روزانہ چند منٹس سے شروع کیجئے اور کم از کم آدھا گھنٹہ ورزش کو معمول بناکر ہمیشہ کےلیے فٹ ہوجائیے، آپ کی فٹنس آپ کے موڈ پر بھی اچھا اثر ڈالتی ہے
When you look good, you feel good!
آپ ایک قیمتی کار تبدیل کرسکتے ہیں، لیکن ایک بار جسم کی صحت خراب ہوگئی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا،
اس لیے ابھی اور اسی وقت فیصلہ کیجئے اور صحت و تندرستی کے لیے اپنے جسم کا خیال رکھیے!
ساتوں اسٹیپ
مطالعہ کیجئے
مہینے میں کم از کم ایک کتاب ختم کیجئے، مطالعہ آپ کے ذہنی اُفق کو وسیع اور سوچ و فکر کو جِلا بخشتا ہے، یہ آپ کے ذہنی رویے میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، کیا آپ جانتے ہیں بل گیٹس کی Reading Habit چھ گھنٹے پر ڈے ہے!، وارن بفیٹ ایک دن میں 600 سے ہزار صفحات کا مطالعہ کرتا ہے، مارک زکربرگ ہفتے میں دو کتب ختم کرنے کا عادی ہے،
یہ تمام لوگ دنیا میں کامیاب لوگوں کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں، پھر انہیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟
دوستو وہی ریزن ہے جو اوپر بیان کی، مطالعہ آپ کے ذہنی افق کو وسیع اور آپ کی سوچ و فکر کو جِلا بخشتا ہے، ہرکامیاب انسان کی زندگی اٹھا کر دیکھ لیجئے ، مطالعے کی عادت سب سے نمایاں نظر آئے گی!
اب دو بونس عادات:
ایک وقت میں ایک ٹاسک!Be Binary
یعنی ملٹی ٹاسکنگ سے گریز کیجئے، ایک وقت میں ایک ٹاسک اٹھائیے اور اسے مکمل کرنے تک دوسری ٹآسک مت لیجئے، فوکس آپ کی صلاحیتوں کو چارچاند لگادیتا ہے، جو کام کیجئے پوری لگن اور خوش دلی سے کیجئے، پھر دیکھیے یکلخت دنیا بدلی بدلی محسوس ہوگی!
دوسری عادت:
دن کا آغاز پاؤلو کولو کے اس خوبصورت قول سے کیجئے کہ جب آپ کسی مثبت کام کو کرڈالنے کی ٹھان لیتے ہیں تو ساری کائنات اس کام کو انجام تک پہنچانے میں آپ کے ساتھ سازش میں شریک ہوجاتی ہے،
Aisha
Theash786: I will provide all type of services about html css for $10 on fiverr.com For only $10, Theash786 will provide all type of services about html css. | Hello Client,If you are looking a web developer for your website to create psd to html, so you landed on right Gig.I am Web developer | Fiverr
ﮔﻮﮔﻞ ﭘﺮ ﺳﺮﭺ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ 10 ﺍﯾﺴﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ 96 ﻓﯿﺼﺪ ﻟﻮﮒ ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﯾﮉﻭﺍﻧﺲ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭙﯿﮉﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ ﮐﻨﮑﺸﻦ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﻟﺬﯾﺬ ﺗﺮﯾﻦ ﭘﮑﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺮﮐﯿﺐ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﭘﯿﭽﯿﺪﮦ ﻋﻠﻤﯽ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﻮﺍﺩ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ ﭘﺮ ﺳﺮﭼﻨﮓ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﮨﻢ ﭘﻠﯿﭧ ﻓﺎﺭﻡ ﮔﻮﮔﻞ ﮐﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻘﺒﻮﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺻﺎﺭﻓﯿﻦ ﮐﻮ ﺟﻠﺪ ﯾﺎ ﺑﺪﯾﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﯽ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮨﻢ ﭼﻨﺪ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺮ ﺻﺎﺭﻓﯿﻦ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﻨﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺳﯿﮑﻨﮉﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺫﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍُﻥ ﺳﮯ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ ﮐﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﻃﺮﯾﻘﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮ ﮐﮯﺁﭖ ﺳﺮﭼﻨﮓ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔:
1 ۔ *ﺩﻭﭼﯿﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ*
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﭽﮫ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﺌﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ Or ﯾﺎ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ ” | “ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﮐﺌﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯﮨﯿﮟ۔
2 ۔ *ﻣﺘﺮﺍﺩﻑ ﺍﻟﻔﺎﻅ (synonyms) ﮐﯽ ﺗﻼﺵ*
ﮔﻮﮔﻞ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺳﺮﭺ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﮔﻮﮔﻞ ﺻﺎﺭﻓﯿﻦ ﮐﻮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭨﯿﻠﮉﺍ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻥ ” “ ~ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ healthy ~food ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺮﭺ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﮔﻮﮔﻞ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﻏﺬﺍ ﮐﮯ ﺍﺻﻮﻝ، ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﺮﺍﮐﯿﺐ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﭘﺸﻦ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔
3 ۔ *ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﺮﭺ ﮐﺮﻧﺎ*
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺳﺮﭺ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭧ ﮐﺎ ﺍﯾﮉﺭﯾﺲ ﺳﭙﯿﺲ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﻟﻔﻆ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺮﭺ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺮﻭﻡ ﺑﺮﺍﺅﺯﺭ ﮐﯽ ﺍﯾﮉﺭﯾﺲ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭧ ﮐﮯ ﺍﯾﮉﺭﯾﺲ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺳﭙﯿﺲ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﻂ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺮﭺ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﮔﻮﮔﻞ ﺍﺱ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭧ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻟﮯﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔
4 ۔ *ﺍﺳﭩﯿﺮﮎ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ*
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﺴﯽ ﺟﻤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﺳﭩﯿﺮﮎ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻥ “*” ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮔﻮﮔﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮯﻃﻮﺭ ﭘﺮ *urdupoint ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﭘﻮﺍﺋﻨﭧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔
5 ۔ *ﺟﺐ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﯾﺎﺩ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ*
ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻓﻘﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﯾﺎﺩ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﮔﻮﮔﻞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻓﻘﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ؛ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ Around ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﯾﮑﭧ ﻣﯿﮟ ﻣﻤﮑﻨﮧ ﺑﮭﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﻧﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ I wandered AROUND(4) cloud . ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ I wandered Lonely as a cloud . ﮐﺎ ﺭﺯﻟﭧ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
6 ۔ *ﭨﺎﺋﻢ ﻓﺮﯾﻢ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ*
ﺁﭖ ﮔﻮﮔﻞ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯﮨﯿﮟ۔
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺑﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﯽ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ” scientific discoveries 1900…2000 “ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺮﭺ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔
7 ۔ *ﭨﺎﺋﭩﻞ ﯾﺎ ﯾﻮ ﺁﺭ ﺍﯾﻞ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ*
ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﮐﮯ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺗﻼﺵ ﮐﮯﻟﻔﻆ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﯿﺲ ﺩﺋﯿﮯ intitle ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺴﯽ ﯾﻮ ﺁﺭ ﺍﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﭺ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻟﻔﻆ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﭙﯿﺲ ﺩﺋﯿﮯ ” “ inurl ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔
8 ۔ *ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭩﺲ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ*
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺋﭧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻦ ﭘﺴﻨﺪ ﻣﻮﺍﺩ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭩﺲ ﺑﮭﯽ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺳﺮﭺ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ :related ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭧ ﮐﺎ ﯾﻮ ﺁﺭ ﺍﯾﻞ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔
9 ۔ *ﻣﮑﻤﻞ ﺟﻤﻠﮧ*
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮔﻮﮔﻞ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻤﻠﮧ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮔﻮﮔﻞ ﺍﺱ ﺟﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭩﺲ ﺩﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺗﺎﮨﻢ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮔﻮﮔﻞ ﺻﺮﻑ ﻭﮦ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭩﺲ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﻤﻠﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺟﻤﻠﮧ ﮐﻮﭨﯿﺸﻦ ﻣﺎﺭﮎ ﯾﻌﻨﯽ “ ” ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔
10 ۔ *ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻏﯿﺮ ﺍﮨﻢ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻧﮑﺎﻟﯿﮟ*
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺗﻼﺵ ﮐﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﯿﺮ ﺍﮨﻢ ﯾﺎ ﻏﯿﺮ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻟﻔﻆ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﻔﯽ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺠﯿﮯ ۔
ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭﭘﺮ ﺁﭖ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﭧ ﻧﮧ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ books –buy ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮑﺲ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ buy ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﻧﮧ ﮨﻮ۔
منقول
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Contact the business
Telephone
Website
Address
Hasilpur
Hasilpur
63100