Tipu

Islamic, Quiz or Funny at this page...

17/01/2023

Copied

پانچویں کے بعد ہائی سکول میں داخلہ لیا تو انگریزی پڑھنی شروع کی۔ ایک دن چھٹی کی درخواست لکھواتے ہوئے استاد یوسف صاحب نے I beg to say لکھوایا تو ہاتھ پتھر کے ہو گئے۔دل نے آواز دی کہ چھٹی کوئی دے یا نہ دے لیکن یہ بھیک نہیں مانگی جا سکتی کہ I beg to say۔

ابھی دماغ میں Beg کی ذلت کا احساس ختم نہیں ہوا تھا کہ درخواست ختم بھی ہو گئی۔ اب کی بار درخواست کے اختتام پر استاد جی نے لکھوایا: Your obedient servant.۔ اب تو کنپٹیاں ہی سلگ اٹھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خود کوکسی کا تابع فرمان قسم کا نوکر قرار دے دوں؟

وکالت کے شعبے میں آیا تو یہاں بھی وہی تذلیل دیکھی۔ جو انصاف مانگنے آتا تھا اسے سائل کہا جاتا تھا۔ سائل ہماری عدالتوں اور کچہری میں ہمیشہ عرض گزار ہی پایا گیا۔ انصاف مانگا نہیں جا سکتا تھا۔ سائل یہ مطالبہ نہیں کر سکتا تھا کہ انصاف دیا جائے۔ ہاں وہ Prayer یعنی التجا اور درخواست پیش کر سکتا تھا۔

میں بیٹھ کر سوچتا کہ اگر عدالت بنی ہی انصاف دینے کے لیے ہے اور اگر اللہ کا حکم ہے کہ انصاف کرو ،یہ تقوی کے قریب تر ہے تو پھر اس بنیادی انسانی حق کے حصول کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا ، گڑگڑاتے لہجوں میں مسکینی طاری کر کے Prayer کیوں کی جا تی ہے۔ باوقار طریقے سے ڈیمانڈ کیوں نہیں کی جاتی۔

بہت بعد میں پتا چلا کہ یہ سب اتفاق نہیں ہے۔ یہ برطانوی دور غلامی میں سکھائے گئے غلامی کے وہ آداب ہیں جو ہمارے لہو میں دوڑ رہے ہیں۔انگریز لکھاریوں نے ہمیں آداب غلامی سکھانے کے لیے باقاعدہ کتابیں لکھیں۔ان میں سے ایک کتاب ڈبلیو ٹی ویب نے لکھی جس کا عنوان ہے: English etiquette for Indian gentlemen ۔

یہ کتاب کم اور غلامی کی دستاویز زیادہ ہے۔ اس میں ایک ایک کر کے مقامی لوگوں کو بتایا گیا کہ اب ان کا دور نہیں رہا ا، ان کی تہذیب بھی پرانی ہو چکی۔ نئے آقا اب جو چاہتے ہیں انہیں اسی تہذیب کو اپنانا ہو گا۔ ڈبلیو ۔ٹی۔ ویب کی اس کتاب میں بعض مقامات پر واضح طور پر آداب غلامی سکھائے گئے ہیں۔

تفصیل سے بتایا گیا ہے انگریز کے حضور حاضر ہونے کے آداب کیا ہیں، اس سے ملنے کے آداب کیا ہیں ، اس سے مخاطب کیسے ہونا ہے۔ مقامی یعنی ہندوستانی ڈیزائن کے جوتے پہن کر جانا ہے تو جوتے باہر برآمدے میں اتار کر اندر حاضر ہونا ہے، ایسے جوتے پہن کر انگریز کے حضور حاضر ہونا اس کی توہین ہے۔

خبردار سلام کے لیے اس وقت تک ہاتھ نہ بڑھایا جائے جب تک صاحب یا میم خود تمہیں اس قابل نہ سمجھیں۔

انگریزوں کو پیٹ درد جیسے الفاظ سننا پسند نہیں۔ خبردار جو کسی انڈین جنٹل مین نے ان کے سامنے پیٹ درد جیسے الفاظ استعمال کیے۔

کسی انگریز کو صرف اس کے نام سے نہیں پکارنا القابات لگانا ضروری ہے۔کسی یورپی سے سر راہ ملاقات ہو جائے تو اد ب کے تقاضے کیسے پورے کرنے ہیں اور ان میں سے کسی کو مدعو کرنا ہے تو میزبانی کے آداب کیا ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔

مقامی تہذیب کو مکمل طور پر قصہ پارینہ قرار دیتے ہوئے سونے سے جاگنے تک اور جاگنے سے سونے تک ، ہر معاملے اور ہر لمحے میں انگریزی طور طریقے سکھائے گئے ہیں۔ کھانا کیسے کھانا ہے۔ چھری کانٹا کیسے استعمال کرنا ہے۔ ہاتھ سے کھانا ایک برائی ہے ،خبردار جو کسی جنٹل مین نے گوشت ہاتھ سے کھایا۔

اہتمام سے بتایا گیا کہ کسی میم صاحب کے کھانے کی تعریف مت کرنا کیونکہ اس سے میم صاحب کی توہین ہو سکتی ہے کیونکہ میم صاحب کھانا نہیں بناتیں ، نوکر بناتے ہیں۔

تمیز سکھائی گئی ہے کہ کسی پارٹی میں جائیں تو وہاں نوکروں کا شکریہ ادا کرنے سے باز رہنا ہے۔ خبردار کوئی نوکروں کاشکریہ ادا نہ کرے۔ انگریزوں کی حساسیت کا خیال رکھنے کا بار بار ’ حکم‘ دیا گیا ہے لیکن مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ تمہاری بے عزتی ہو جائے تو برا نہ مانا کرو۔

اور ہاں اگر تم معزز بننا چاہتے ہوں تو شادی کے دعوت ناموں میں چشم براہ جیسی فضولیات کی جگہ RSVP لکھا کرو۔انگریز کو یہاں سے گئے آج پون صدی ہو گئی ہے لیکن ہمارے شادی کے دعوت ناموں سے RSVP ختم نہیں ہو سکا ۔ ہم آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے معززین بننے کے چکروں میں ہیں۔

مقامی تہذیب و اقدار کی تذلیل پر مشتمل عمومی ’ ادب و آداب‘ کے بیان میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی کتاب کے آخر میں ’ درخواست لکھنے کے آداب‘ لکھ کر کے پوری کر دی گئی۔ باب نمبر گیارہ میں بتایا گیا ہے کہ درخواست ، پیٹیشن وغیرہ کیسے لکھی جائیں اور ساتھ ہی نمونے کے طور پر کچھ درخواستوں اور پیٹیشنز لکھی گئی ہیں کہ ان کو دیکھ کر ’ مقامی جنٹل مین‘ رہنمائی حاصل کریں۔

ان تمام درخواستوں میں چند چیزیں اہتمام سے بتائی گئی ہیں۔

اول: درخواست کی شروعات ، جو انتہائی غلامانہ، فدویانہ اور ذلت آمیز انداز سے کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر I beg to say کاا نداز سکول کے بچوں کی درخواست سے لے کر سرکاری عرضیوں تک ہر جگہ استعمال کیا گیا ہے تا کہ سکولوں سے ہی بچے یہ سیکھ لیں کہ آداب غلامی کیا ہوتے ہیں اور کیسے ایک دن کی چھٹی کی درخواست کا آغاز بھی Beg سے ہوتا ہے۔

دوم: ہر درخواست کے آخر پر Your servant،Your most obedient servant ، جیسے الفاظ لکھے گئے تھے تا کہ مقامی لوگوں کو یہ معلوم ہو رہے کہ انکی اوقات نوکر اور رعیت سے زیادہ نہیں۔

یہ ایک پوری تہذیبی واردات تھی جو اس سماج پر مسلط کی گئی۔چونکہ اہم مناصب پر پھر یہی ’ مقامی جنٹل مین‘ فائز ہوئے اور نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد یہی افسر شاہی ہمیں ورثے میں ملی اور کسی نے اس سماجی واردات پرنظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی اس لیے یہ ’مقامی جنٹل مین‘ آج بھی ’ انگریزی آداب‘ سے سماج کی پشت لال اور ہری کیے ہوئے ہیں۔

اس جنٹل مینی کے خلاف پہلی آواز دلی سے اٹھی۔ لعل گوردیج نامی ایک مداری دلی کے چوراہے میں بندر لے کر آتا اور ڈگڈگی بجا کر اسے کہتا : جنٹل مین بن کے دکھا۔لعل گوردیج کا بندر ہیٹ لگاتا ، چشمہ پہنتا اور پورا ’ جنٹل مین‘ بن جاتا۔ بندر اور مداری دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔مقامی جنٹل مین ناراض ہو گئے۔( دل چسپ بات یہ ہے کہ بندر نچانے والے آج بھی بندر نچاتے وقت یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ جنٹل مین بن کے دکھا۔ شاید اسی لیے انگریز نے ان کا شمار ’ مجرم قبیلوں‘ میں کیا ہوا تھا)۔

کبھی کبھی جب دن ڈھل رہا ہوتا ہے ، مارگلہ سے اترتا ہوں تو یوں لگتا ہے جنگل سے بندر شور مچا مچا کر کہہ رہے ہوں: ’’ جنٹل مین بن کر تو دکھائو‘‘۔

پہاڑ سے اترتا ہوں تو دیکھتا ہوں سارا ہی شہر جنٹل مین بنا ہوتا ہے۔

14/08/2022

مولوی اور جشن آزادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولوی کو معلوم ہی نہیں کہ جشنِ آزادی کیسے مناتے ہیں ؟

بےچارہ مسجد تک دوڑ لگانے والا ۔

آج پھر مسجد میں مصلیٰ بچھائے رب سے ملکی ترقی کی دعائیں مانگ رہا ہےـ

ارے بیوقوف ـــــــــــــ

یوم آزادی پر تو کوئی تعمیری کام کرلیتا.

نہ سائلنسر نکالا ، نہ منہ رنگین کیا ،

نہ کاروں میں زوردار ترانے چلائے ،

نہ لڑکیوں پر جملے کسے ،
نہ موسیقی ٬ نہ رقص۔
نہ ٹریفک جام کیا،
نہ پاکستانی جھنڈا زیبِ تن کیا،
نہ ون ویلنگ کرتے ہوئے ملکی قوانین کی دھجیاں اڑائیں.

بس ایک ہی دھن سوار ہے :

اے میرے رب !!!!! ـ ـ ـ ـ ـ
" میرے ملک کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے بچا
اور اسے ترقیاں نصیب فرما ."

ھونہہ ــــــــــــــــــ!!

اولڈ مائنڈڈ مُلا کو کسی چیز کا بھی ڈھنگ نہیں.

09/08/2022

*مجھے چار طرح کے غافلوں پر تعجب ہے جو چار مسائل کے حل سے غافل ہیں۔*
1- *مجھے تعجب ہے اس پر جو " غم " سے آزمایا گیا اور پھر بھی اس آیت سے غفلت کرتا ہے*

🌹*۞ لا إلهَ إلاّ أنتَ سُبحانكَ إني كنتُ من الظالمين ۞*🌹

*الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں ﻇالموں میں ہو گیا*
*(الأنبياء 21:87)*

*کیا تم نہیں جانتے کہ اس دعا پر اللہ نے کیا جواب دیا؟*
*الله سبحانہ و تعالٰی نے اس کے بعد فرمایا*

*🌹۞فاستجبنا لهُ ونجيناهُ من الغم۔۔۔۔۔۔ ۞*🌹

*تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں.*

2 *مجھے تعجب ہے*
*اس پرجو بیماری سے آزمایا گیاکہ وہ کیسے اس دعا سے غفلت کرتا ہے*

*🌺۞ ربي إني مسّنيَ الضرُ وأنتَ أرحمُ الراحمين ۞*🌺

*اے میرے رب! مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیاده رحم کرنے واﻻ ہے*
*(الأنبياء 21:83)*
*کیا تم نہیں جانتے کہ اس دعا کے بارے میں اللہ نے کیا فرمایا؟*
*الله نے فرمایا ہے؛*

*🌹۞ فا ستجبنا له وكشفنا ما به من ضر ۞*🌹

*تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ اسے تھا وہ دور کر دیا۔*

3- *مجھے تعجب ہےاس پر جو خوف سے آزمایا گیا،کہ وہ کیسے اس آیت سے غفلت کرتا ہے*

*. 🌺۞ حسبنا الله ونعم الوكيل ۞*🌺
*ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وه بہت اچھا کارساز ہے*
*(سورة آل عمران 3:173)*
*کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس پر اللہ نے کیا فرمایا؟*
*الله فرماتا ہے؛*
*۞ فانقلبوا بنعمةٍ من اللهِ وفضلٍ لم يمسسهم سوء۞*
*(نتیجہ یہ ہوا کہ) وہ اللہ کی نعمت وفضل کے ساتھ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی،*

4- *مجھے تعجب ہے اس پر جو لوگوں کے مکرسے آزمایا گیا، کہ وہ کیسے اس دعا سے غفلت کرتا ہے*

,🌺*۞وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ" ۞*🌺
*میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کا نگراں ہے*
*(غافر 40:44)*
*کیا تم نہیں جانتے کہ اس دعا پر اللہ نے کیا جواب دیا؟*

*اس پر الله نے فرمایا؛*
*۞ فوقاهُ اللهُ سيئاتِ ما مكروا۔۔۔۔۔ ۞*
*پس اسے اللہ تعالیٰ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیا جو انہوں نے سوچ رکھی تھیں۔*

07/08/2022

واہ حسینؓ... شاہ حسینؓ

میرا حسینؓ.....ابھی ننھا ہی تھا کہ سیدہؓ کی وفات ہو گئی تھی ، بن ماں کا یہ ننھا حسینؓ، اپنی ضرورتوں کے لئے اپنی نانیؓ کے پاس جاتا ہوگا.... اور حسین کی نانی، نبیﷺ کی گھر والیاںؓ (نانی) تھیں... وہ حسین کو دیکھا کرتی ہوں گی تو انہیں حسینؓ کی والدہؓ (سیدہ خاتون جنت) یاد آجاتی ہونگی، وہ حسینؓ کو گود میں لے کر چوما کرتی ہوں گی اور حسینؓ اپنی نانی کی گودوں میں کھیلا ہوگا .....

پھر جب حسینؓ اپنے بڑے بھائیؓ کے ساتھ ساتھ جب مسجد نبوی میں جاتا ہوگا تو صحابہؓ اسکا چہرے دیکھتے ہوں گے ....انہیں حسینؓ کے چہرے میں گویا بہت کچھ نظر آتا ہوگا... وہ حسینؓ کو دیکھ دیکھ کر مسکراتے ہوں گے اور کبھی مسکراتے مسکراتے انکی آنکھیں بھر آتی ہوں گی... صحابہ کرامؓ کو حسینؓ، چچا جان چچا جان کہتا ہوگا اور وہؓ حسینؓ کو بھتیجے بھتیجے کہتے ہوں گے....

حسنؓ و حسینؓ تو یوں بھی سارے ہی صحابہؓ کے لاڈلے تھے ....

حسینؓ نے سنا ہوگا کہ ہجرت سے قبل مکہ میں اسکے چچا ابوبکرؓ اور دوسرے چند صحابیؓ، کیسے ڈٹے رہے تھے .. حسینؓ نے سنا ہوگا کہ اسکے چچا عمرؓ نے مشرکین مکہ کو للکارا تھا..حسینؓ نے اپنے چچا بلالؓ کی احد احد کا قصہ بھی سن لیا ہوگا....حسینؓ نے سنا ہوگا کہ کیسے ہجرت میں اسکے چچا ابوبکرؓ نے جانبازی دکھائی تھی..حسینؓ نے انصاریوںؓ کی قربانیاں بھی سمجھ لی ہوں گی... حسینؓ بدر و احد کے قصے بھی سنتا رہا ہوگا... وہؓ کبھی خندق کی جگہ کو بھی دیکھتا رہا ہوگا... حسینؓ جب جب مکہ جاتا ہوگا تو مکی دور ہی نہیں، فتح مکہ کو بھی یاد کرتا ہوگا.....حسینؓ نے تبوک اور حنین کے معرکے بھی سنیں ہوں گے...

حسینؓ کے کردار میں اس کے چچاؤںؓ کی عزیمت ، استقامت ، جرات اور وفا کی داستانوں نے رنگ بھردیا تھا...حسینؓ صحابہ کرامؓ کے اندر رہ کر ان کی کاپی بن گیا تھا... حسینؓ سراپا خلاصہ صحابیت بن گیا تھا...... حسینؓ صحابہؓ کا نمائندہ بن گیا تھا.... حسینؓ صحابہؓ کا تعارف بن گیا تھا........ کہ... حسینؓ صحابی تھا.... اور..... صحابی حسینؓ تھا..

پھر جب کربلا کا معرکہ پیش ہوا.... تو حسینؓ نے وہ سارے سبق سنا دئے جو اس کو یاد کروائے گئے تھے.... حسینؓ نے ثابت کیا.... وہ اپنے چچاؤںؓ کا سچا وارث تھا....... حسینؓ نے ثابت کیا کہ وہ روئے زمین پر انبیاءؑ کے بعد سب سے بہترین جماعتؓ کا لاڈلا اور تربیت یافتہ نمائندہ تھا...... حسینؓ نے وہی کیا... جو ایک اولوالعزم صحابیؓ رسول کو کرنا تھا .....

حسینؓ کامیاب تھا.... صحابہؓ کامران تھے....

اللھم صل علی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علٰی آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و علٰی آل ابراہیم انک حمید مجید..

پس نوشت
ہم اہلسنت، حسین رضی اللہ عنہ کی ایسی تعریف کو لازمی سمجھتے ہیں جو ہم اہلسنت کو روافض سے جدا گانہ موقف کی عکاسی کرتی ہو۔

31/07/2022

*سوچنے کا وقت ہے... *

*جب کبھی خون کے رشتے دل دکھائیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کو یاد کر لینا جن کے بھائیوں نے انھیں کنویں میں پھینک دیا تھا ۔🌹*

*جب کبھی لگے که تمھارے والدین تمھارا ساتھ نہیں دے رہے تو ایک بار حضرت ابراھیم ؑ کو ضرور یاد کر لینا جن که بابا نے انکا ساتھ نہیں دیا بلکہ انکو آگ میں پھنکوانے والوں کا ساتھ دیا.🌹*

*جب کبھی لگے که تمہارا جسم بیماری کی وجہ سے درد میں مبتلا ہے تو ہائے کرنے پہلے صرف ایک بار حضرت ایوبؑ کو یاد کرنا جو تم سے زیادہ بیمار تھے.🌹*

*جب کبھی کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تو شکوہ کرنے سے پہلے حضرت یونسؑ کو ضرور یاد کرنا جو مچھلی کے پیٹ میں رہے اور وہ پریشانی تمہاری پریشانیوں سے زیادہ بڑی تھی ۔🌹*

*اگر کبھی جھوٹا الزام لگ جائے یا بہتان لگ جائے ناں ! تو ایک بار اماں عائشہ ؓ کو ضرور یاد کرنا ۔🌹*

*اگر کبھی لگے که اکیلے رہ گۓ ہو تو ایک بار اپنے بابا آدم ؑکو یاد کرنا جن کو اللّٰہ نےاکیلا پیدا کیا تھا اور پھر انکو ساتھی عطا کیا ۔تو تم ناامید نہ ہونا تمہارا بھی کوئی ساتھی ضرور بنے گا ۔🌹*

*اگر کبھی اللّه کے کسی حکم کی سمجھ نہ آرہی ہو تو اس وقت نوح ؑ کو یاد کرنا جنہوں نے بغیر کوئی سوال کیے کشتی بنائی تھی پر اللّه کے حکم کو مانا تھا تو تم بھی ماننا ۔🌹*

*اور اگر کبھی تمھارے اپنے ہی رشتے دار اور دوست تمہارا تمسخر اڑائیں تو نبیوں کے سردار محمّد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کو یاد کر لینا ۔۔۔🌹*

آج مسلمان دنیا میں مار اس وجہ سے کھا رہا ہے کہ دین کی محنت نہ ہونے کی وجہ سے ہم مسلمانوں کے عزت ۔ زلت ۔ کامیابی ۔ ناکامی کے معیار بدل گئے جن چیزوں میں کامیابی تھی ان کو ناکامی سمجھ لیا اور جن چیزوں میں ناکامی ان کو کامیابی سمجھ لیا ۔۔۔ ہمارے رہنما ہمارے رہبر حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جن کی زندگی میں ہی کامیابی ہے ۔۔۔ لیکن دین کی محنت نہ ہونے کی وجہ سے ہم زہنی غلام بن گئے ۔۔۔ کافر آدھے سر کے بال کٹاتے ہیں تو ہم بھی شروع ہو گئے وہ پینٹ پھاڑ کے پہنتے ہیں تو ہم بھی شروع ہو گئے ۔۔۔ اس غلامی کی زندگی سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے دین کی محنت جو سارے انبیاء علیہم السلام نے کی۔۔۔🌹

*تمام نبیوں کو اللّه نے آزمائش میں ڈالا کہ ہم ان کی زندگیوں سے صبر و استقامت ، ہمت وتقوٰی اور ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کریں ۔۔۔🌹*

*اپنے نبیوں کی زندگیوں کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ انھیں اپنا آئیڈیل بنائیں۔۔۔🌹*

12/05/2022

آنکھیں کھولیے،موسم روٹھ رہے ہیں
آصف محمود | ترکش | روزنامہ 92 نیوز
گرمی کی تازہ لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔لیکن اس لہر اور اس کے خطرناک اثرات پر بحث، تحقیق اور گفتگو برطانیہ اور امریکہ میں ہو رہی ہے۔ امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف ہوائی میں محققین بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ موسم کی یہ انگڑائی پاکستان کا کیا حشر کر سکتی ہے لیکن پاکستان کے کسی یونیورسٹی کے لیے یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔سوئٹزرلینڈ میں بیٹھا ڈاکٹر رابرٹ روڈ دہائی دے رہا ہے کہ موسموں کے اس آتش فشاں کو سنجیدگی سے لیجیے ورنہ ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے لیکن پاکستان کے اہل دانش سیاست کی دلدل میں غرق ہوئے پڑے ہیں۔

ندی خشک پڑی ہے اور چشمے کا پانی نڈھال ہے۔مارگلہ کے جنگل میں آج درجہ حرارت 42کو چھو رہا ہے۔ عید پر بارش ہوئی تو درجہ حرارت 22 تک آ گیا تھا لیکن عید سے پہلے اپریل کے آخری دنوں میں بھی یہ 40 سے تجاوز کر گیا تھا۔ مارگلہ میں چیت اورو ساکھ کے دنوں میں ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی۔ یہ جیٹھ ہاڑ کا درجہ حرارت ہے جو چیت اور وساکھ میں آگیا ہے۔ موسموں کی یہ تبدیلی بہت خطرناک ہے لیکن یہاں کسی کو پرواہ نہیں۔ اس معاشرے اور اس کے اہل فکرو دانش کو سیاست لاحق ہو چکی اور ان کے لیے سیاست کے علاووہ کسی موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں رہا۔

مارگلہ میں موسم گرما اچانک نہیں آتا۔ یہ ایک مالا ہے جس کے ہر موتی کا اپنا رنگ اور اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ہر موسم دوسرے سے الگ اور جداہے۔اسُو یہاں جاڑے کا سندیسہ لے کر اترتا ہے اور چیت اُنہالے کا۔ چیت کے آخری ایام بتاتے ہیں کہ موسم گرما آنے کو ہے۔ وساکھ یہاں موسم گرما کی پہلی دستک کا نام ہے۔درختوں کی چھاؤں میٹھی ہوتی ہے مگر دھوپ میں ذرا سی حدت۔ پھر جیٹھ ہاڑ کی شدید گرمی اور آخرمیں ساون بھادوں کی بارشیں اترتی ہیں جب جنگل پہلی محبت کی طرح حسین ہو جاتا ہے۔

ایسا کبھی نہیں ہو کہ یہ تابستانی رنگ اپنی شناخت کھو دیں۔اس بار مگر وساکھ میں ہی جیٹھ کی حدت آ گئی ہے۔ندی کنارے بیٹھا ہوں، سامنے چشمے بہہ رہا ہے اور چشمے کے کنارے پر ایک کوئل نڈھال بیٹھی ہے۔ زبان باہر کو نکلی ہوئی ہے اور حدت سے اس کے کندھے اوپر کو اٹھے ہوئے ہیں۔ وقفے وقفے سے وہ چشمے میں اترتی ہے، ڈبکی سی لگاتی ہے اور پھر کنارے پر بیٹھ کر پروں کو پھڑ پھڑانے لگتی ہے۔چیت اور وساکھ کی ان دوپہرں میں تو کوئل نغمے سنایا کرتی تھی، آج مگر بدلتے موسم نے اسے گھائل کر چھوڑا۔

موسموں کی اس تبدیلی سے صرف مارگلہ متاثر نہیں ہو گا، پورے ملک پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ مارگلہ میں تو درجنوں چشمے ہیں اور ندیاں، کچھ رواں رہتی ہیں کچھ موسموں کے ساتھ سوکھتی اور بہتی ہیں، لیکن جنگل کے پرندوں اور جانوروں کے لیے یہ کافی ہیں۔سوال تو انسان کا ہے، انسان کا کیا بنے گا۔ افسوس کہ انسان کے پاس اس سوال پر غور کرنے کا وقت نہیں۔مریض کو جیسے کوئی موذی مرض لاحق ہو جائے، ایسے اس معاشرے کو سیاست لاحق ہو گئی ہے۔ یہی ہماری تفریح ہے اور یہی ہمارا موضوع بحث۔ اس کے سوا ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔

ابلاغ کی دنیا ان کے ہاتھ میں ہے جو سنجیدہ اور حقیقی موضوعات کا نہ ذوق رکھتے ہیں نہ اس پر گفتگو کی قدرت۔ نیم خواندگی کا آزار سماج کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سر شام ٹی وی سکرینوں پر جو قومی بیانیہ ترتیب پاتا ہے اس کی سطحیت اور غیر سنجیدگی سے خوف آنے لگا ہے۔نوبت یہ ہے کہ دنیا چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہی ہے کہ آپ ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن ہمارا دانشور صبح سے شام تک یہی گنتی کر رہا ہوتا ہے کہ کس قائد انقلاب کے جلسے میں کتنے لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ موضوعات کا افلاس آسیب بن چکا ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ماحولیات کی تباہی سے یکسر بے نیاز۔گلی کوچوں سے پارلیمان تک یہ سوال کہیں زیر بحث ہی نہیں کہ درجہ حرارت بڑھنے کا مطلب کیا ہے؟زیر زمین پانی کی سطح جس تیزی سے گر رہی ہے، خوفناک ہے۔ چند سال پہلے اسلام آباد میں 70 یا 80 فٹ پر پانی مل جاتا تھا لیکن اب تین سے چار سو فٹ گہرے بور کرائیں تو بمشکل اتنا پانی دستیاب ہے کہ پانچ سے دس منٹ موٹر چل سکتی ہے۔ موسم کی حدت کا عالم یہی رہا تو پانچ دس سال بعد زیر زمین پانی چھ سات سو فٹ گہرائی میں بھی مل جائے تو غنیمت ہو گی۔

اسلام آباد دارالحکومت ہے لیکن پانی کا بحران اسے لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایک ٹینکر اب دو ہزار کا ملتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹینکر بھی تو کنووں سے پانی بھر لاتے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح یونہی نیچے جاتی رہی تو ٹینکرز کہاں سے پانی لائیں گے؟ ایک آدھ سیکٹر کو چھوڑ کر سارا شہر اس مصیبت سے دوچار ہے لیکن اپناکمال دیکھیے کہ شہر میں کسی محفل کا یہ موضوع نہیں ہے۔نہ اہل سیاست کا، نہ اہل مذہب کا نہ اہل صحافت کا۔ سب مزے میں ہیں۔

یہ بحران صرف اسلام آباد کا نہیں، پورے ملک کا ہے۔ بس یہ ہے کہ کسی کی باری آج آ رہی ہے کسی کی کل آئے گی۔جب فصلوں کے لیے پانی نہیں ہو گا اور فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کھڑے ہو جائیں گے پھر پتا چلے گا کہ آتش فشاں پر بیٹھ کر بغلیں بجانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

***جنگل کٹ رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے (یعنی کراچی کے سر پر خطرہ منڈلا رہا ہے)، گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور سیلابوں کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ابھی گلگت بلتستان میں گلیشیر کے پگھلنے سے حسن آباد پل تباہ ہوا ہے۔ کئی گھر اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ خود اس پل کی تزیراتی اہمیت تھی کہ یہ چین اور پاکستان کو ملا رہا تھا۔ پل کی تزویراتی اہمیت کی نسبت سے یہ حادثہ ہمارے ہاں زیر بحث آ جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن ماحولیاتی چیلنج کی سنگینی کو ہم آج بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، پریس ٹاک، جلسہ عام۔۔۔۔کہیں اس موضوع پر کوئی بات ہوئی ہو تو بتائیے۔***

مارگلہ کی ندیاں بھی اجنبی ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی چندسال پہلے درہ جنگلاں کی ندی ساون بھادوں میں یوں رواں ہوئی کہ چار ماہ جوبن سے بہتی رہی۔ اب دو سال سے خشک پڑی ہے۔ ساون اس طرح برسا ہی نہیں کہ ندی رواں ہوتی۔ رملی کی ندی بہہ تو رہی ہے مگر برائے نام۔جب پوش سیکٹروں کا سیوریج ان ندیوں میں ملا دیا جائے گا تو ندیاں شاید ایسے ہی ناراض ہو جاتی ہیں۔اب تو یوں لگتا ہے نظام فطرت ہی ہم سے خفا ہو گیا ہے۔موسم ہم سے روٹھتے جا رہے ہیں۔

ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ماحولیات سے جڑے چیلنجز کی سنجیدگی کو سمجھا نہ گیا تو بہت بڑا اور خوفناک بحران ہماری دہلیز پر دستک دینے والا ہے۔
کاپی.....

23/04/2022

بس کی چھت پر بیٹھے شخص نے آواز لگائی "مجید" اندر بیٹھے شخص نے جیسے ہی گردن باہر نکال کے دیکھا تو اوپر سے کسی نے اس کے سر پر جوتا مارا، اور اس نے فورا" گردن اندر کرلی۔ تھوڑی دیر میں پھر آواز آئی "مجید" اور پھر وہی سب ہوا۔ جب اندر بیٹھے شخص نے تیسری بار جوتا کھا کر گردن اندر کی تو برابر بیٹھے شخص نے پوچھا "بھائی صاحب آپکا نام مجید ہے؟" پہلے شخص نے جواب دیا "نہیں"۔ تو پھر آپ بار بار گردن باہر کیوں نکال رہے ہیں؟ اور جوتے کھانے والے نے تاریخی جواب دیا "اوپر والے کو بےوقوف بنا رہا ہوں 😉"۔

لہذا اسوقت PTI کے سپورٹرز کی کوئی پوسٹ دیکھا کریں تو سمجھ جایا کریں کہ اسے باہر سے آواز آئی ہے۔۔۔ "مجید" 😆

1۔سلامتی کونسل کمیٹی نے ہمارے موقف پے مہر سبت کی۔
شاہ محمود قریشی

2۔سلامتی کونسل کو اس میٹنگ کی ضرورت نہیں تھی۔
شاہ محمود قریشی

31/03/2022

#رمضان میں ٹی وی.
#روزہ

مولانا یونس پالن پوری ایک واقعہ سناتے ہیں کہ جب میں عمرہ کرنے گیا تو آصف شیخ مجھے ساتھ لے کر ایک ڈاکٹر علوی صاحب کو مبارکباد دینے گئے کہ انہیں بادشاہ نے شہریت دی تھی۔ وہ ڈاکٹر بھی کیا کمال کے تھے۔ ان کے ساتھ جدہ کا سفر کیا۔

انہوں نے اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک عجیب و غریب سوال کر دیا :
مکہ کے پہاڑ اتنے بنجر کیوں ہیں۔۔۔؟

شاہ صاحب میں نے دنیا کے کئی پہاڑ دیکھے مگر وہ مکہ کے پہاڑوں کی طرح بنجر اور بے آب و گیاہ نہیں ہیں۔۔۔؟
اس کے پیچھے اللہ کی منشا کیا ہے۔۔۔؟

اپنا علم تو وہیں دھرا رہ گیا. میں نے تو سرنڈر کر دیا۔

وہ مسکرائے اور کہنے لگے :
قبلہ اللہ پاک چاہتے تھے کہ آنے والے حاجیوں کی توجہ صرف میرے گھر پر رہے. اس شہر کو پکنک پوائنٹ نہیں بنایا جائے۔۔ بات دل کو لگی۔

یہ پرانا واقعہ مجھے اب کیوں یاد آیا۔۔۔؟
یہ جو رمضان شریف میں چینلز پر طوفان بدتمیزی چل رہا ہے یہ باقاعدہ سوچی سمجھی سازش کے ساتھ مختلف میڈیا مالکوں کو کروڑوں روپے دیئے جارہے ہیں کہ رمضان کا تقدس پامال کرو، سحر و افطار کے اوقات کو تفریح بنا دو۔

رمضان کوئی فیسٹیول نہیں ہے۔ وہ اوقات جو اللہ کی رحمتیں لوٹنے کے ہیں، سب ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔

وہ گھڑیاں جو دعائیں مانگنے کی ہوتی ہیں ہم کیا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔؟

سراسر لہو و لعب، کھیل تماشہ اور رنگ بازی، نام اس کا رمضان اسپیشل ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہم پر رحم کرے۔

ایک ویڈیو دیکھی. دو سنگرز کچھ گا رہی ہیں۔ حاضرین تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ کہیں انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور کہیں موبائل بانٹے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ کچھ دین فروش مولوی بھی ہائر کر لئے جاتے ہیں تاکہ اس پروگرام کو اسلامی کہا جا سکے۔

جہالت کے پاس حق سے زیادہ دلیلیں ہوتی ہیں. یہ تو ہمیں شوگر کوٹڈ زہر کی گولیاں دی جارہی ہیں۔ ہماری عبادات کے تقدس کو برباد کرنے کا پروگرام ہے کہ ہماری مذہبی روایات و اقدار کی روح مار دی جائے۔ یہ شیطان ہی ہے جو حیلوں اور بہانوں سے ہماری خواہشات پر ڈھلے ہوئے کاموں کو دین بنا دیتا ہے۔ وہ گناہ کے کاموں کو نہایت دلفریب اور خوب صورت بنا دیتا ہے مثلاً اچھے اچھے شاعر اپنے تئیں کئی گانوں کو مشرف بہ نعت کرتے رہے کہ گانوں کی دھنوں پر نعتیں کہتے رہے۔
اللہ معاف کرے، نعت سن کر دھیان فلم کے سین پر چلا جاتا ہے۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ٹی وی کی لغویات سنتے ہوئے روزہ اچھی طرح گزر جاتا ہے حالانکہ روزہ انہی شیطانی کاموں سے بچنے کا نام ہے وگرنہ اللہ کو ہمارے بھوکا رکھنے سے کیا مطلب .

روزہ اللہ کے لئے ہے اور اس کا بدلہ بھی اللہ کے پاس ہے بلکہ وہ خود اس کا اجر دے گا۔ روزہ سحری سے افطار تک عبادت ہی تو ہے بلکہ اس کا اہتمام بھی عبادت ہے۔

یہ مہینہ اللہ کے لئے سرنڈر کرنے اور خود سپردگی کا نام ہے۔ سحری سے پہلے تلاوت کی جائے، افطار کے بعد تراویح کی فکر کی جائے نہ کہ کھیل تماشہ دیکھے جائیں۔

روزہ محسوس کرنے کا نام ہے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا نام۔

مجھے تو اب جاکے احساس ہوا کہ اللہ نے مکہ کے پہاڑ اس قدر بنجر کیوں رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ ہماری توجہ چاہتا ہے وگرنہ وہ بہت بے نیاز ہے اتنا بے نیاز ہے کہ بندہ سراسر زنگ ہو جاتا ہے، دل سیاہ ہو جاتا ہے اور عقل کے در بند ہو جاتے ہیں۔ اس کی توجہ ہی تو روشنی ہے۔ سب کچھ انسان پر عیاں کر دیتی ہے۔ شرط وہی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، طلب پیدا کی جائے اور دامن وا کیا جائے۔

جس طرح کے میلے ٹھیلے ٹی وی پر ہو رہے ہیں اللہ تو انسان کو ویسے ہی بھول جاتا ہے۔ وہاں تو اپنی خواہشات کو جوس پلایا جارہا ہوتا ہے۔
سب رنگینیوں میں گم ہیں. روزہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس عظیم عمل کی حفاظت کریں۔

رسول پاکﷺ نے جبرائیل ؑ کی ایک دعا پر کہ جس کو رمضان شریف ملے وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے، اس کی ھلاکت ہو، آمین کہی تھی۔۔۔

برکتوں والے اس مہینے کو قیمتی بنائیں اور اللہ کی ناراضگی کا باعث نہ بنیں۔

27/12/2021

*اپنی کم تنخواہ پر غم نا کریں ہوسکتا ہے آپکو رزق کے بدلے کچھ اور دے دیدیا گیا ہو*

ایک بڑے محدث فقیہ اور امام وقت فرماتے ہیں کہ

*ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*قد يكون الرزق خلقا أو جمالا*

رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت اچھا اخلاق یا پھر حسن و جمال دے دیا گیا ہو

*قد يكون الرزق عقلا راجحا*
*زاده الحلم جمالا وكمالاً*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت میں عقل و دانش دے دی گئی ہو اور وہ فہم اس کو نرم مزاجی
اور تحمل و حلیمی عطا دے

*قد يكون الرزق زوجا صالحا*
*أو قرابات كراما وعيالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے
کہ کسی کو رزق کی صورت میں بہترین شخصیت کا حامل شوہر یا بہترین خصائل و اخلاق والی بیوی مل جاے
مہربان کریم دوست اچھے رشتہ دار یا نیک و صحت مند اولاد مل جائے

*قد يكون الرزق علما نافعا*
*قد يكون الرزق أعمارا طوالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت علم نافع دے دیا گیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُسے رزق کی صورت لمبی عمر دے دی گئی ہو

*قد يكون الرزق قلبا صافيا*
*يمنح الناس ودادا ونَوالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا پاکیزہ دل دے دیا گیا ہو جس سے وہ لوگوں میں محبت اور خوشیاں بانٹتا پھر رہا ہو

*قد يكون الرزق بالا هادئا إنما المرزوق* *من يهدأ بالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ذہنی سکون دے دیا گیا وہ شخص بھی تو خوش نصیب ہی ہے جس کو ذہنی سکون عطا کیا گیا ہو

*قد يكون الرزق طبعا خيّرا*
*يبذل الخير يمينا وشمالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت نیک و سلیم طبع عطاکی گئی ہو۔ وہ شخص اپنی نیک طبیعت کی وجہ سے اپنے ارد گرد خیر بانٹتا پھرے

*قد يكون الرزق ثوبا من تقى*
*فهو يكسو المرء عزا وجلالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت تقوٰی کا لباس پہنا دیا گیا ہو اور اس شخص کو اس لباس نے عزت اور مرتبہ والی حیثیت بخش دی ہو

*قد يكون الرزق عِرضَاً سالماً*
*ومبيتاً آمن السِرْبِ حلالاً*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا عزت اور شرف والا مقام مل جائے جو اس کے لئے حلال کمائ اور امن والی جائے پناہ بن جائے

*ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*كن قنوعاً و احمد الله تعالى*

پس رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
جو کچھ عطا ہوا
اس پر مطمئن رہو
اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے رہو

23/10/2021

خلیفہ رابع، دامادِ نبی حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص نمازِ عید سے پہلے نفل پڑھ رہا ہے (اور یہ مسئلہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ نمازِ عید سے پہلے گھر میں اور عیدگاہ میں نفل نہیں پڑھے جاسکتے ہیں، ہاں عید کی نماز کے بعد عیدگاہ میں نوافل ادا کرنا جائز نہیں البتہ گھر میں پڑھے جاسکتے ہیں)
حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے اس شخص کو نوافل پڑھنے سے روکا، تو اس شخص نے کہا:
یَا اَمِیْرالْمُوٴمِنِیْن اِنِّی اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہ تَعَالیٰ لاَیُعَذِّبُ عَلَی الصَّلوٰةِ ․
امیر المومنین : میرا خیال ہے کہ اللہ رب العزت مجھے نماز پڑھنے پر سزا نہیں دے گا۔
(اس شخص کو وہی غلط فہمی تھی جو آج بدعتیوں کو ہے کہ میں نفل پڑھ رہا ہوں،نیکی کا کام کررہا ہوں،آپ مجھے نیکی کے کام سے ․․․․ نمازپڑھنے سے روکتے ہیں)
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے اس شخص کی یہ دلیل سن کر کتنی خوبصورت اور گہری بات فرمائی: فرمایا
اِنِّیْ اَعْلَمُ لاَ یَثِیْبُ عَلیٰ فِعْلٍ حَتّٰی یَفْعَلَہ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوْ یحِثُّ عَلَیْہِ․
اللہ تعالیٰ کسی ایک کام پر کبھی ثواب نہیں دے گا، جس کام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو یا اس کے کرنے کی ترغیب نہ دی ہو۔
اس لئے فَتَکُوْنُ صَلوٰتُکَ عَبَثًا والعَبَثُ حَرَامٌ فَلَعَلَّہ تَعَالٰی یُعَذِّبُکَ بِہ لِمُخَالِفَتِکَ لِرَسُوْلِہ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم (نظم البیان، ص:73)
تیری یہ نماز فضول فعل ہے،اور فضول فعل شریعت میں حرام ہے۔اللہ تعالیٰ تجھے اس نماز پر سزا دے گا،اس لئے کہ تونے رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے،

اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نیکی کے ایک ایسے کام پر مطلع ہوگئے ہو جس کام پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی مطلع نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ تجھے اس بدعت کے کرنے پر سزا دے گا۔ تم نے رسول اللہ کی مخالفت کی ہے۔ (بدعتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف اور دشمن ہوتا ہے) ایسے کام کو نیکی اور ثواب سمجھ رہے ہو، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و فعلاً ثابت نہیں ہے۔ یا درکھو! ہر نیکی کاکام دین نہیں ہے، بلکہ دین اور نیکی کا کام وہ کام ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسول کی مہر تصدیق ثبت ہوگی۔

11/10/2021

*مہنگائی یونہی نہیں۔ ہم سب شامل ہیں*

ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا ہوا تھا. جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا;

"سیب خریدیں! سیب!"

حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے بازار جا رہا ہے۔حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا: خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لاؤ۔
وزیر نے خزانے سے 5 سونے کے سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا: یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔

معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا: سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔

محل کےمنتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا:
یہ 2 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔
چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا:
یہ 1 سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لاؤ۔

سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا:
دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے. اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ کو قید کر دوں۔
سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا:
میں نے غلطی کی ہے جناب !

اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو !

سپاہی نے سارے سیب لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم افسر کو دے دیئے۔

اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے افسر کو دے دیئے اور کہا,
کہ یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں۔

افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کےمنتظم کو دیا، اس نے کہا,
کہ ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں۔
محل کے منتظم نے آدھےسیب اپنے لیے رکھے اور آدھے اسسٹنٹ وزیر کو دیے اور کہا,

کہ ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں۔

اسسٹنٹ وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر کے پاس گیا اور کہا,
کہ ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں۔
وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب لے کر حکمران کے پاس گیا اور کہا,
کہ یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں۔

حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔

میرے ملک کے لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے۔

اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی ہی چلی گئی۔

( *فارسی ادب سے ماخوذ*)
یہی حال آج کل ہمارا ہے.

25/09/2021

Attention please...
#قادیانی
#قادیانیت
اسلام آباد سے نمائندہ خصوصی نے رپورٹ کی ہے

وزیراعظم کی ہدایت پروفاقی کابینہ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قادیانیوں کو نیشنل کمیشن برائے اقلیت میں بطور غیرمسلم شامل کرنیکی اصولی منظوری دیدی۔

اور اس طرح ان کو وہ سب اقلیتی حقوق مل گئے

جو باقی سب اقلیتوں کو حاصل ہیں..
( یعنی اپنی مرضی کی عبات ، مرضی کی عبادت گاہ وغیرہ کا حق)

قادیانیوں نے شروع دن سے یہی اقلیتی حقوق حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی تھی

لیکن ھر بار ناکام رہے مگر دو دن پہلے حکومت نے ان کا وہ دیرینہ مطالبہ خاموشی سے تسلیم کر لیا..

پیچھے چلتے ہیں.. بہت پیچھے...

رولا کیا ھے
اور کس چیز کا ھے...
قادیانی پہلے دن سے خود کو اقلیت تسلیم کرکے اپنے اقلیتی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ان کو اقلیتی حقوق نہیں دیے جا رہے... ان کے اقلیتی حقوق آخر ہیں کیا اور کیوں نہیں دیے جا رہے؟ جبکہ باقی سب اقلیتوں کو حاصل ہیں....
یہ فلم بہت دلچسپ ھے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو پوری تحریر غور سے پڑھنا ھوگی... قادیانیوں کو کافر یعنی غیر مسلم تو قرار دے دیا گیا لیکن ایک چیز رہ گئی تھی جسے ھمارے بھولے بھالے بچے بھٹو کی غلطی کہتے ہیں لیکن وہ بھٹو کی غلطی نہیں تھی بھٹو نے بالکل درست کیا تھا... وہ چیز جو رہ گئی تھی وہ یہ تھی کہ ان کو غیر مسلم تو قرار دے دیا گیا تھا لیکن ان کا مذھب کیا ھوگا؟ ان کی عبادت کیسے ھوگی؟ ان کی عبادت گاہ میں بلانے کا طریقہ کیا ھوگا؟ ان کی دینی کتاب کون سی ھوگی؟ اور ان کی عبادت گاہ کا نام کیا ھوگا؟ یہ فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔
اس نے یہ چیز آنے والے وقت پر چھوڑ دی لیکن یہ حکم تھا کہ وہ اپنی عبادتیں اور عباتگاہیں مسلمانوں جیسی نہیں کریں گے تاکہ دوسرے لوگ دھوکہ کھا کر ان کو مسلمان نہ سمجھ بیٹھیں... نہ یہ سرعام ھمارا کلمہ پڑھ سکتے تھے نہ یہ اذان دے سکتے تھے نہ کلمہ لکھ سکتے تھے نہ ہی قرآن پاک کو پکڑ سکتے تھے نہ ہی اپنی عبادت گاہ کو مسجد لکھ سکتے تھے....
کافر قرار دینے سے پہلے یہ ھماری نماز پڑھتے تھے ھمارے قرآن کو اپنی کتاب کہتے تھے ھمارے روزے جیسے روزے رکھتے تھے ھماری مسجد جیسی مسجد ھوتی تھی جسے یہ مسجد کہتے تھے لیکن کافر قرار دینے کے بعد اب سب کچھ بدل گیا تھا... اب ان کو چاہیے تھا کہ ھمارے دین کی جان چھوڑ دیتے. ھماری نماز بھی چھوڑ دیتے ھمارے قرآن کو بھی چھوڑ دیتے ھماری مساجد کی جان بھی چھوڑ دیتے...
یہ اپنا نیا نبی بناتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی نئی کتاب ایجاد کر لیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ اذان ایجاد کر لیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ طرح کی عبادت بنا لیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا. یہ اپنی الگ عبادت گاہ بنا لیتے ھمیں کوئی اعتراض نہیں تھا...
یہ ان کے لیے بہت سخت سزا تھی. یہ معاملہ ان کے لیے موت کے جیسا تھا. یہ سرعام دوسرے مذاھب کی طرح عبادت کرنا چاھتے تھے روزے رکھنا چاھتے تھے اذانیں دینا چاھتے تھے.
لیکن جب سے کافر قرار دے دیے گئے تھے تب سے یہ سب بند ھو گیا تھا. پولیس ان کے علاقوں میں گشت لگانے لگی. ان کے گھروں مکانوں دفتروں اسکولوں اور عبادت گاہوں سے کلمہ طیبہ اور اللہ کا نام مٹایا جانے لگا جہاں جہاں سے بھی شک پڑتا کہ یہ مسلمان شو ھوتے ہیں وہ نشان مٹا دیے گئے اگر کوئی قادیانی کلمہ پڑھتا پکڑا جاتا تو پولیس اسے حوالات میں ڈال دیتی اذان دینے کی کوشش کرتے یا سرعام پہلے کی طرح نماز پڑھنے کی کوشش کرتے تو پولیس ان کو اٹھا کر جیل بھیج دیتی رفتہ رفتہ ان کی زندگیوں سے اسلام نکال دیا گیا.
یہ بات میرے بچے نہیں جانتے. قادیانیوں کے لیے یہ سب کسی طرح قابل قبول نہیں تھا۔ ان کے پاس ایک آپشن تھا کہ قادیانیت سے توبہ کر کے اسلام کی طرف لوٹ آتے لیکن بدقسمتی سے وہ اس طرف بھی نہیں آتے تھے..
میں بتانا چاھتا ھوں کہ پولیس آج بھی کسی قادیانی کو اذان دیتے یا تلاوت کرتے پکڑ لے تو اسے سیدھا جیل بھجوا دیتی ھے... سنہ 73 سے لیکر 1984 تک گیارہ سال گزر گئے قادیانی اس دوران کوشش کرتے رھے کہ ھمیں اقلیت ہی سمجھ لیا جائے کافر ہی سمجھ لیا جائے لیکن ھمیں دوسرے غیر مسلموں کے برابر حقوق دیے جائیں ان کی طرح سرعام عبادت کا موقع دیا جائے اور یہ ھو نہیں سکتا تھا ان کو ھر جگہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا. سنہ 1984 انہوں نے خود کو اقلیت منوانے اقلیتی حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کر لیا... عدالت نے بتایا کیونکہ یہ مذھبی معاملہ ھے اسے شرعی عدالت میں لے جایا جائے...
چنانچہ وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کر دی گئی. اس کا حوالہ نمبر یہ ھے ۔
شریعت درخواست نمبری 17/ آئی 1984
شریعت درخواست نمبری 2 ایل 1984
یہ درخواست دو قادیانی افراد کی طرف سے تھی. جن کے نام یہ ہیں.
1.مجیب الرحمن وغیرہ بنام وفاقی حکومت.... 2. ریٹائرڈ عبدالواجد وغیرہ بنام اٹارنی جنرل پاکستان
اس شرعی عدالت کے جو جج صاحبان کیس سن رھے تھے ان کے نام یہ ہیں..
جسٹس فخر عالم چیف جسٹس، چوہدری محمد صدیق جسٹس، مولانا ملک غلام علی جسٹس، مولانا عبدالقدوس قاسمی جسٹس
کیس میں وکلاء کے علاوہ جن علماء نے وکلاء کی مدد کی ان کے نام یہ تھے.
1.قاضی مجیب الرحمن. 2.پروفیسر محمد احمد غازی 3. محمد صدرالدین الرافعی 4.علامہ تاج الدین حیدری . 5.پروفیسر محمد اشرف .6.علامہ مرزا محمد یوسف .7.پروفیسر محمد طاھر القادری
مسلمانوں کی طرف سے پیش ھونے والے وکلاء کے یہ نام تھے.
Haji Shaikh Ghias Muhammad Advocate. Mr. M.B. Zaman .Advocate . Dr. Syed Riazul Hassan. Gillani, Advocate.
کیس میں قادیانیوں کا موقف تھا کیونکہ ھمیں اقلیت قرار دے دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ھمیں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی... انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ھر انسان کو اپنے مذھب پر چلنے اور مذھبی رسومات و عبادات کرنے کا حق حاصل ھوتا ھے. پاکستان کے اندر باقی سب اقلیتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن صرف قادیانیوں کو عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی بلکہ ان کو پکڑ کر تھانوں اور جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے... یہ قادیانیوں کی انتہائی خوفناک چال تھی. وہ اس درخواست میں خود کو غیر مسلم تو تسلیم کر رہے تھے لیکن بدلے میں جو کچھ مانگ رھے تھے وہ بہت خوفناک تھا. اگر ان کو اقلیتی حقوق کے تحت عبادت کی اجازت مل جاتی تو وہ صرف نام کے قادیانی رہ جاتے لیکن ان کو سبھی اجازتیں حاصل ھو جاتیں جن کے تحت وہ مسلمانوں کی طرح عبادات بھی کرتے مسجدیں بھی بناتے اور ھر وہ عبادت کرتے جو مسلمان کرتے ہیں.... قادیانیت کے حوالے سے ملکی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مقدمہ تھا جس میں بظاھر یہ لگ رہا تھا کہ مسلمان یہ مقدمہ ھار جائیں گے اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے کسی مذھب قانون اور آئین میں نہیں لکھا ھوا کہ کسی شخص کو اس کی اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کا حق نہیں دیا جائے.. خود پاکستان کے آئین و قانون اور اسلام میں بھی ھر شخص کو مرضی سے عبادت کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے پر بھی پابندی نہیں ھے. پھر اپنی عبادت گاہ کو اپنی مرضی کے نام سے بھی پکارنے کا حق ھے. مثلاً سکھ اپنا گردوارہ بنا سکتے ہیں اس کا نام گردوارہ رکھ سکتے ہیں. ھندو مندر بنا سکتے ہیں مندر کو مندر کہہ سکتے ہیں. عیسائی گرجا بنا سکتے ہیں اسے گرجا کہہ سکتے ہیں. لیکن قادیانیوں کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں تھی نہ ہی اپنی عبادتگاہ کو مسجد کہنے کی اجازت تھی.. کیس کی سماعت چلتی رہی کئی ماہ گزر گئے... دونوں جانب سے دلائل کے انبار لگا دیے گئے چھوٹے سے چھوٹے نقطے پر بحث کی گئی اور آخرکار شرعی عدالت نے 12 اگست 1984 کو مقدمے کا فیصلہ سنا دیا... 184 صفحات پر مشتمل فیصلے میں بہت ہی واضح الفاظ میں کہا گیا کہ قادیانی جھوٹے ہیں ان کو دوسرے مذاھب کی طرح کھلے عام عبادات کرنے اذان دینے قرآن پاک کی تلاوت کرنے مسجدیں بنانے کلمہ پڑھنے کلمہ لکھنے اور خود کو مسلمان کہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی...
یہ قادیانیوں کی ایک بڑی شکست تھی.. قادیانی دوسری بار عدالت سے بھی کافر قرار دے دیے گئے تھے. اب وہ کسی اور موقعے کی تلاش میں تھے... یہ موقع اس فیصلے کے 29 سال بعد 2013 کو ان کے ھاتھ آتا ہے...

22 ستمبر سنہ 2013 کو پشاور میں ایک گرجا گھر پر حملہ ھوا جس میں کافی لوگ جاں بحق ھو گئے. اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا جس کا مقصد تھا کہ آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں اقلیتوں کے جان و مال اور عبادتگاھوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے. یہ قادیانیوں کے لیے ایک طرح سے لاٹری تھی. عاصمہ جہانگیر زندہ تھی اور ماحول بھی سازگار تھا. اس تین رکنی بینچ نے 19 جون سنہ 2014 کو فیصلہ دیا کہ ایک اقلیتی کمیشن قائم کیا جائے. فیصلے میں لکھا گیا " ھم سمجھتے ہیں کہ اگر مذھبی اقلیتوں کی عبادتگاھوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف متعلقہ حکام نے فوری کارروائی کی ھوتی تو ایسے واقعات کا سدباب بہت عرصہ پہلے ہو چکا ھوتا"..

اس فیصلے کے کچھ دن بعد لاھور کے ایک بڑے ھوٹل میں عوامی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی جانب سے ایک عوامی اسمبلی بلائی گئی جس میں تین سو کے قریب صحافی دانشور مزدور راھنما مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور وکلا شامل تھے اس عوامی اسمبلی نے اقلیتی کمیشن کے قانون کا مسودہ تیار کیا. اس میں خاص طور پر عبادتگاھوں کی حفاظت کے لیے خصوصی پولیس فورس کے قیام کی سفارش کی گئی تھی یعنی قادیانیوں کی وہ عبادتگاہیں جن کی پولیس نگرانی کرتی تھی کہ وہاں کوئی قانونی خلاف ورزی تو نہیں ھو رہی وہی پولیس اب ان کا تحفظ کرتی.. یہ اقلیتی کمیشن تمام اقلیتوں کی عبادات کی آزادی کے لیے قائم کیا گیا تھا... 2018 میں اگست کی دس تاریخ کو اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر لاھور میں اقلیتوں کے ایک نمائندہ کنونشن میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا تھا کہ وہ فی الفور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک بااختیار قومی کمیشن قائم کرے... یاد رھے کہ نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کو رولز آف بزنس 1973 شیڈول 2، (12)34 کے تحت وزارت مذھبی امور کے حوالے کیا گیا تھا. کمیشن کی آخری ہیت اور نظرثانی شدہ ٹی او آرز کو 2014 میں ری نوٹیفائی کیا گیا تھا بعدازاں سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا فیصلے کی ھدایت پر کمیشن کو ایک بار پھر تین سال کے لئے نوٹیفائی کیا تھا.

اب موجودہ حکومت نے کہاں پر آ کر چالاکی دکھائی اور قادیانیوں کو اس میں شامل کیا. اقلیتی کمیشن میں شامل ممبران نے رائے دی کہ کمیشن کی خودمختاری کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اقلیتی برادری کو بڑھایا جائے اور کمیشن کا چئیرمین بھی کسی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے جو کہ قادیانی بھی ھو سکتا ھے....

اقلیتی کمیشن کے ممبران کی یہ سمری مذھبی امور کو بھیجی گئی... (پوائنٹ نمبر 1)

وفاقی کابینہ نے مذھبی امور کی جانب سے جمع کرائی گئی سمری " نیشنل کمیشن برائے اقلیت کی تشکیل نو" کی سمری کو اصولی طور پر منظور کرتے ہوئے کمیشن کے لیے اصول متعین کیے کہ کمیشن ممبران کی اکثریت کا تعلق اقلیتی برادری سے ھونا چاہیے. کمیشن کا سربراہ بھی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے (پوائنٹ نمبر 2)

اور احمدی کمیونٹی سے بھی ممبران کو کمیشن میں شامل کیا جائے (پوائنٹ نمبر 3) بمطابق روزنامہ 92 نیوز 29 اپریل 2020...

جیسے ہی قادیانی اس کمیشن میں شامل ھوتا اور اس نے ھو جانا تھا کیونکہ بدلے میں وہ کچھ ملنے والا تھا جو وہ 1984 میں عدالت سے نہیں لے سکے تھے. کیونکہ اقلیتی کمیشن تمام اقلیتی کو ان کی کھلے عام عبادت کی اجازت دیتا ھے. عبادتگاھوں کے تحفظ کا حکم دیتا ھے ورنہ اس کمیشن کو نالے پراندے بیچنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا...

یہ بکواس کہ قادیانی خود کو اقلیت نہیں مانتے یہ بالکل جھوٹ ھے وہ اس قیمت کے بدلے ھزار بار خود کو اقلیت ماننے کے لیے تیار ہیں اگر بدلے میں ان کو مساجد کی تعمیر اور مسلمانوں کی طرح عبادت کا حق مل جائے....

یہ ایک عظیم سازش تھی.. 1984 کا کیس اس کی شہادت دیتا ہے کہ قادیانی ھمیشہ کوشش کرتے رھے ہیں کہ ان کو مسلمانوں جیسی عبادت کرنے کی پوری آزادی دی جائے لیکن ھر بار ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.. اور اب اس کمیشن میں شامل ھوتے ہی ان کو سب کچھ مل جاتا جس کے لیے وہ ترلے لے رھے تھے...

اگر آپ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں تو ھر شخص اس پوسٹ کو کم سے کم بیس بار شیئر کرے تاکہ قادیانیوں کی سازشوں کا پردہ فاش ھو جائے اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کیجیے تاکہ آنے والے وقت میں وہ بھی ختم نبوت کے سپاہی بن کر قادیانیت کا منہ کالا کر سکے

آپ جتنا اس میں حصہ ڈالیں گے اللہ پاک آپ کو اتنا ہی جزا عطا فرمائے گا.
ان شا اللہ تعالیٰ.
Copied.

Want your school to be the top-listed School/college in Islamabad?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

کیا بات کہہ دی آپ نے.....
زلفی بخاری اور علی زیدی کے کمالات۔ یہ زلفی و زیدی کے چیلے، کرونا کے مریضوں کو تبلیغی مرکز لاکر وہاں سے میڈیا کے سامنے بر...
ابھی بھی وقت ہے لوگوں. خدا کو راضی کر لو. وہ جلدی مان جاتا ہے. وہ جلدی مان جاتا ہے.

Category

Telephone

Website

Address


G-9 Markaz
Islamabad
44000

Other Schools in Islamabad (show all)
NUST School of Electrical Engineering & Computer Science NUST School of Electrical Engineering & Computer Science
NUST Campus, Sector H-12
Islamabad, 44000

NUST SEECS -- A Center of Quality Education and Research

School of Civil and Environmental Engineering [SCEE] School of Civil and Environmental Engineering [SCEE]
NUST, Sector H-12
Islamabad

Build a Better World Environment !!!

Khaldunia Khaldunia
Plot # 2, Street 94, G-11/3
Islamabad, 44000

Where all students are encouraged to be confident learners – Khaldunia High School. Admissions Op

NUST Institute of Civil Engineering [NICE] NUST Institute of Civil Engineering [NICE]
NUST H-12
Islamabad, 41000

NICE where the Dreamers see the Deemers making Dreams come True...!

Scientific Model School & College Scientific Model School & College
Islamabad

Scientific Model School

WARKA DANG WARKA DANG
Islamabad, 44000

Samy Welcome you to Warka Dang

ZLS ZLS
House # 1-E Street 36 Margalla Town
Islamabad, 45510

ZLS goal is to support and nurture the children in an inclusive environment that provides a solid fo

Excellent Model School Excellent Model School
Nain Sukh Town Bhara Kahu Islamabad
Islamabad, 45400

Knowledge is light

Ghazali Premier Schools Bhara Kahu Islamabad Ghazali Premier Schools Bhara Kahu Islamabad
Kiani Road Bhara Kahu
Islamabad, 448800

Modern and Islamic Education

The Hope Academy The Hope Academy
Khalid Plaza, Masjid Al-Rehman Road, Farash Capital Territory
Islamabad, 45600

بمقام خالد پلازہ نزد خولہ شہید ماڈل کالج فار گرلز پنجگر

Forces School System B17 Campus Forces School System B17 Campus
1021 A Street No 55 Block C, B-17
Islamabad, 44000

FSCS B17 campus has been established with a vision to make quality standard of educating with moral

Newmun'23 Newmun'23
Beaconhouse Newlands Islamabad, BaniGala
Islamabad, 46500

NEWMUN'23 Event Beaconhouse Newlands Islamabad Model United Nations • 5th-6th February 2023