Tameem Hostel and Guest House jhang
Separate and luxurious residencies for male and female officers with the best home facilities
ایسے بن کر مت جیو!
ایران کی گاڑیوں کی صنعت اس کی تیل اور گیس کی صنعت کے بعد ملک کی تیسری سب سے زیادہ فعال صنعت ہے، جو ایران کی جی ڈی پی کا 10% اور افرادی قوت کا 4% (700,000 افراد) ہے۔
ایران نے محمد رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں 200,000 یونٹس تک کی سالانہ پیداوار کے ساتھ ایک اہم آٹو موٹیو انڈسٹری شروع کی۔ لیکن 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد ایران عراق جنگ اور بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے پیداوار میں زبردست کمی واقع ہوئی۔ 2000 کی دہائی کے اوائل سے، ایران میں آٹوموبائل کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایران کی گاڑیوں کی پیداوار 2007/2008 میں 1 ملین سے تجاوز کر گئی۔ آج، ایران 1.6 ملین سے زیادہ سالانہ پیداوار کے ساتھ، دنیا کا 20 واں سب سے بڑا کار ساز ہے
2001 تک، ایران میں 13 سرکاری اور نجی ملکیت والے کار ساز ادارے تھے، جن میں سے دو—ایران کھودرو اور سائیپا — کا حصہ کل ملکی پیداوار کا 94% تھا۔ ایران کھودرو، جس نے ملک میں سب سے زیادہ مشہور کار برانڈ پیکان تیار کیا ۔ اسکا 2001 میں 61 فیصد مارکیٹ کے ساتھ بڑا حصہ تھا، جب کہ سائپا نے ایران کی کل پیداوار میں 33 فیصد حصہ ڈالا۔ ایران خودرو ایشیا میں کار بنانے والے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ اس نے 4 براعظموں میں غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ مشترکہ منصوبے قائم کیے ہیں۔
ایرانی صنعت کار اس وقت چھ مختلف قسم کی گاڑیاں تیار کرتے ہیں جن میں مسافر کاریں، 4WD، ٹرک، بسیں، منی بسیں اور پک اپ ٹرک شامل ہیں۔
دوستی محبت سے بہت بہتر ہے،کیونکہ یہ انسان کو اکیلا نہیں چھوڑتی
"یہ نقطہ اگر چہ ہمارے لیے بہت ہی بڑا ہے۔ لیکن کاٸنات میں اس کی کوٸی حیثیت ہی نہیں۔۔۔۔ اگر آپ ہر ملک کے ہر سٹی میں صرف ایک دن Stay کریں۔۔،تو آپ کی عمر ختم ہوجاٸے گی لیکن سٹیز ختم نہیں ہونگے،آپ کی زندگی اس قدر قلیل اور کم ہے۔ تصویر میں یہ چھوٹا سا نقطہ ہماری زمین ہی ہے جو ناسا کی خلاٸی جہاز کیسینی نے 19جولاٸی 2013 میں کو زحل کی سطح سے لی ہے۔اس وقت خلاٸی جہاز کیسینی زحل سے تقریباً 753,000 میل اور زمین کی سطح سے 898 ملین میل کے فاصلے پر تھا۔واجر ١ کی طرح ناسا کے کیسینی خلائی جہاز نے بھی زمین کے اپنے دلکش نظارے سے دنیا کو حیران کردیا۔ اپنے ہائی ریزولیوشن کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے،"کیسینی" نے زحل کے شاندار رنگ برنگے نظام کے نیچے ایک ہلکے نیلے نقطے کے طور پر زمین کو پکڑ لیا۔
یہ حیرت انگیز تصویر 33 تصاویر کے ایک موزیک کا حصہ تھی۔ جس کا مقصد "زحل" کے پورے حلقے کے نظام کی ایک اعلی "ریزولیوشن" تصویر بنانی تھی،، جن میں سے یہ واحد تصویر تھی جس میں زمین کی خاصیت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناسا کے خلاٸی جہاز کیسینی کے "پروجیکٹ" سائنسدان لنڈا اسپلکر تھے انکے کہنے پر کیسینی نے زمین کی تصویر کھینچ لی، یہ تصویر ہمیں "خلا" کی "وسعت" میں اپنے "آبائی" سیارے کے چھوٹے پن کی یاد دلاتا ہے، ہم سر لنڈا اسپلکر کے مشکور اور ممنون ہے، کہ انہوں نے ہمیں زحل کا مطالعہ کرنے اور زمین کی اس حیران کن نظر آنے والی "تصویر" کو حاصل کرنے کے لیے کیسینی "روبوٹک" کو گھر سے اس قدر دور بھیجنے کے قابل بنایا۔اس نقطے میں آپکی ساری دنیا آباد ہے۔
کارل سگان The Pale blue dot کتاب میں لکھتے ہیں، کہ اتنی دور سے دیکھنے پر "زمین" ایک "نقطے" سے زیادہ کچھ نہیں مگر ہمارے لیے یہ نقطہ انتہائی اہم ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے، اسی پر ہم سب رہتے ہیں۔سارے انسان جن سے آپ پیار کرتے ہیں، جن کو جانتے ہیں یا پھر نہیں۔ ماضی کے ہر "انسان" نے اسی "نقطے" پر اپنی "زندگی" گزاری۔ ہماری سب مشکلیں اور خوشیاں،نظریات و تصورات، بہادر، بزدل، تہذیبوں کو شروع اور تباہ کرنے والے، مستقبل کی "امید" لئے ہر بچہ، موجد اور محقق، ہر "اخلاقیات" کا گرو، ہر بے ایمان سیاست دان، تمام نیکوکار اور گناہگار، اسی مٹی کے ذرے پر ہیں جو سورج کی روشنی میں چمک رہا ہے۔کائناتی میں زمین بہت چھوٹی ہے۔ اس نیلے مدھم "نقطے" کو دیکھنے کے بعد کمزور اور جھوٹے لگتے ہیں۔۔۔ زمین زندگی کو پالنے والی واحد "دنیا" ہے۔ کوئی اور جگہ نہیں ہے جہاں ہماری نسل ہجرت کر سکے۔
فلکیات انسان میں عاجزی اور کردار کی بلندی سکھاتے ہیں۔ اپنی چھوٹی سی "دنیا" کو اس طویل دوری سے دیکھنے سے بہتر تکبر اور خود پسندی کے سحر کو توڑنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔دھوپ کی شعاؤں میں "معلق" اس چھوٹے سے ذرے پر وہ بھی آئے،، جو "خود" کو پتا نہیں کیا سمجھتے تھے اور چلے گئے۔۔ آج بھی ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ اور انسان پتا نہیں خود کو کیا سمجھ لیتا ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
تحریر : Tehsin Ullah Khan Bahadur Baloch
جب گوئٹے نے دمِ آخریں یہ کہاکہ اور روشنی اور روشنی۔۔۔۔
تو اس روشنی میں سائنس کااس کائنات کو تسخیر کرنے کا حوالہ بھی موجود تھا کیونکہ انسان کائنات اصغر ہے اور وہ خود میں کائناتِ اکبر کوتسخیر کرنے کی قدرت رکھتا ہےاس لیے اسرو کی قیادت کرنے والی ریتو کھاریدھل نے اپنی ساتھی سائنسدانوں کی ہم کاری سے ہندوستان کو چاند کے جنوبی حصے میں پہنچنے کا اعزاز اپنے نام رقم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور انھوں نے چندریان تھری کیصورت ہندوستان کی موجودگی کو صورت پزیر کیا۔
اس لیے بیٹیوں کو پڑھانے اور روشنی کےسفرمیں آگےرکھنے کا یہی طور ہے جو ان کی شکل میں منور ہوئی۔
وہ کیسی عورتیں تھیں؟؟
جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں
جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں
صبح سے شام تک مصروف، لیکن مسکراتی تھیں
بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھک کر کھیتوں میں خاوند سے ملنے آتی تھیں
جو پنکھے ہاتھ کےجھلتی تھیں اور پھر بھی تھک نہ پاتی تھیں
جو دروازے پہ رک کر دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں
پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں
بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں
اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں
جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں
سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں
بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصّے بناتی تھیں
جو کلمےکاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلاتی تھیں
اور اپنی جائے نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں
کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلاتی تھیں
پڑوسن مانگ لے کچھ، باخوشی دیتی دلاتی تھیں
جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں
محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں؟؟
میں جب گھر اپنےجاتا ہوں تو فرصت کے زمانوں میں
انہیں ہی ڈھونڈتا پھرتا ہوں گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں، جزدان میں، تسبیح کے دانوں میں
کسی برآمدے کے طاق پر، باورچی خانوں میں
مگر اپنا زمانہ ساتھ لیکر کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ...
”لیوٹالسٹاٸ کا آخری وقت”
عظیم روسی ادیب لیوٹالسٹاٸ کا تخلیقی کام اس قدرومنزلت کا حامل ہے کہ دنیا تاحال لیوٹالسٹاٸ کے تخلیقی سحر میں گرفتار ہے۔
دنیا کو ”جنگ اور امن” جیسے شاہکار دینے والے ٹالسٹاٸ ابھی اپنے فنی کریٸر کی ابتدا پر تھے کہ انکی شادی صوفیہ نامی ماہ جمال و پری تمثال خاتون سے ہوگٸ۔
صوفیہ بہت اچھی شریکٕ حیات ثابت ہوٸیں۔
جلد اپنے شوہر کے تخلیقی ھنر کو پہچان گٸیں۔
صوفیہ نے لیو کو پرسکون و صحت مند گھریلو ماحول عطا کیا تاکہ لیو اپنے کام پر فوکس کرسکیں۔
جلد ہی اس کا مثبت نتیجہ ٕ لیو کی چاروانگٕ عالم پھیلتی شہرت کی صورت میں برآمد ہونا شروع ہوگیا۔
دونوں کے مابین نہ صرف مثالی محبت تھی بلکہ دونوں کو ایک دوسرے پر بہت مان بھی تھا۔
”ہرکامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے”
اس کہاوت کو صوفیہ نے حقیقی معنوں میں سچ کر دکھایا۔
عظیم ٹالسٹاٸ شاید دنیا کے وہ پہلے انسان تھے جو اپنی زندگی میں ہی اپنی وراثتی جاگیر اپنے غریب مزارعوں اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کر چکے تھے۔
عمر کی نقدی اختتام کو پہنچنے لگی تو ہمارے ممدوح عظیم لیوٹالسٹاٸ بیمار رہنے لگے۔
اپنے آخری وقت کو قریب پاکر انہوں نے وہ فیصلہ کیا جو ان کی طویل محبت بھری ازدواجی زندگی میں پہلی بار تلخی کا سبب بنا۔
ٹالسٹاٸ نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام ادبی تخلیقات کو بعد از مرگ راٸلٹی فری قرار دے کر انسانیت کے نام کر جاٸیں گے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے وصیت بھی تیار کروالی تھی۔
مگر ان کے اچھے برے وقت کی ساتھی صوفیہ کو اس فیصلے سے شدید اختلاف تھا۔
صوفیہ کا کہنا تھا کہ آپ وراثتی جاگیر و جاٸداد پہلے ہی مزارعوں میں بانٹ چکے ٕ اب اگر کتابوں کی راٸلٹی بھی نہیں لیں گے تو ہمارے بعد ہمارے بچوں کا کیا ہوگا۔
دوسری طرف لیو ٹالسٹاٸ جیسا سچا تخلیق کار۔
سچے فنکار کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس کا تخلیقی و تحقیقی کام انسانیت کے نام ہوتا ہے۔
پینسلین کے موجد سر الیگزینڈر فلیمنگ کی مثال سامنے ہے کہ انہوں نے اپنی انقلابی ایجاد پینسلین کے بدلے فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی لاکھوں پاٶنڈز کی پیشکش ٹھکرادی تھی۔
لیو اور صوفیہ کے مابین اس معاملے پر سرد جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔
مگر لیو کا مان صوفیہ پر روزٕ اول کی طرح قاٸم تھا۔
سارے گھر میں صرف ایک بیٹی باپ کی حامی تھی۔
باقی سب بچے اپنی ماں صوفیہ کے ساتھ تھے۔
وہ ایک سرد اور تاریک رات تھی۔ ساٸبیریا کے سرد جہنم سے آنے والی ہوا ٕ ہڈیوں کا گودا منجمد کر رہی تھی۔
بیمار ٕ ضعیف و ناتواں لیو ٹالسٹاٸ اپنے کمرے میں آتش دان کے قریب ٕ بستر میں دبکے ہوۓ تھے۔
اچانک ان کو اپنے لکھنے کے کمرے سے آواز سناٸ دی۔
وہ بستر چھوڑ کر ملحقہ کمرے میں گۓ تو دیکھا کہ ان کی بیوی صوفیہ ان کی وصیت تلاش کر رہی ہیں۔
آن کی آن میں محبت و مان کا برسوں پرانا رشتہ ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا۔
کمرے کا منظر دیکھ کر لیوٹالسٹاٸ بنا کچھ کہے الٹے قدموں اپنے بستر کے پاس آۓ ٕ عادتاؓ بستر کے ساتھ پڑے جوتے پہنے اور خاموشی کے ساتھ گھر سے نکل آۓ۔
کچھ ہی فاصلے پر شہر کا ریلوے اسٹیشن تھا۔
اسی خاموشی سے پلیٹ فارم پر پڑے برف کی طرح سرد ٕ پتھر کے بینچ پر لیٹ گۓ۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ عظیم لیوٹالسٹاٸ کی موت اسی وقت واقع ہوگٸ تھی جب ان کا مان ٹوٹا تھا۔
بڑھاپے ٕ بیماری اور شدید سرد موسم نے تو بس رسمی کردار ادا کیا تھا۔
صبح لوگوں کو ویران پلیٹ فارم سے عظیم لیو ٹالسٹاٸ کا مردہ ٕ سردی سے اکڑا جسم ملا۔
یقیناؓ اس کی وجہ یہ تھی کہ سچا تخلیق کار خطرناک حد تک حساس ہوتا ہے۔
قحط الرجال کیا ہوتا ہے؟
صدارتی تمغوں و ایوارڈ یافتگان میں کوئی ایک بھی سائینسدان ہے جس نے اجناس یا سبزیوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کا کوئی طریقہ دریافت کیا ہو ؟ کوئی ایک بھی آبی ماہر ہے جس نے بارش اور سیلاب کے پانی کے استعمال کا کوئی نیا طریقہ بتایا ہو ؟ کوئی ایک بھی ڈاکٹر ہے جس نے کسی زرعی یا انسانی و حیوانی بیماری کے علاج کی دوا ایجاد کی ہو؟ کوئی ایک بھی انجینیئر ہے جس نے تعمیراتی طبی یا کیمیائی شعبے میں کوئی نئی ایجاد کی ہو ؟ کوئی ایک بھی معیشت دان ہے جس نے قرضوں کی معیشت کی دلدل نکلنے کا کوئی طریقہ بتایا ہو؟
یہی تو قحط الرجال ہے.... !
منقول
Nazia Hassan
This time is coming soon
پاکستان کی تاریخ میں کتنے بیوروکریٹ آئے جو زہین ہونے کے باوجود ملک کیلئے بغیر کوئی کار ھائے نمایاں سرانجام دیئے محض اپنے لیے یا اولاد کیلئے زندگی گزار کر دنیا سے چلے گئے کیا آج کوئی ان کا نام تک بھی جانتا ہے؟ نہیں نا... ایک بیوروکریٹ نے محض ایک معمولی سی کاوش کی اپنی آٹوبائیوگرافی لکھی جس میں اُس نے اپنی اصول پسندی اور بیورو کریسی کا ہلکا ساتھ تعارف کرایا جس کی وجہ سے اُسے آج تقریباً ہر پاکستانی جانتا ہے. کاش پاکستان کے دیگر بیوروکریٹس بھی...................... (پرانے دوست نعیم گلزار کی دوران گفتگو جاندار دلیل)
"سنگا پور 1965ء تک ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا تھا‘
زمین دلدلی، ویران اور بنجر تھی۔
لوگ سست، بےکار اور نالائق تھے،
یہ صرف تین کام کرتے تھے ۔۔
بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے،
چوری چکاری کرتے تھے،
بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے اور بس۔
ملائیشیا ان سے بہت تنگ تھا۔۔۔
بڑا مشہور واقعہ ہے۔۔
تنکو عبدالرحمن کے دورمیں سنگا پور نے آزادی مانگی اور پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور
کے حق میں ووٹ دے دیے۔
بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کا کہنا تھا ہم نے ان بےکار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگا پور آزاد ہو گیا۔
یہ قدرت کی طرف سے سنگا پور کے لیے پہلا تحفہ تھا۔
دوسرا تحفہ اللہ تعالیٰ نے اسے 'لی کوآن یو' کی شکل میں دیا‘ لی کو آل سنگا پور کے وزیراعظم بنے اور اس شخص نے ان دلدلی زمینوں کا مقدر بدل کر رکھ دیا
اور بیس سال بعد 42 بائی 23 کلو میٹر کی یہ سٹیٹ دنیا کی کامیاب اور تیزی سے ترقی کرتی ریاست بن چکی تھی،
اس میں امن بھی تھا، خوش حالی بھی، روزگار بھی، سرمایہ بھی اور مستقبل بھی۔
سنگا پور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کو بتایا کہ ملکوں کے لیے وسائل نہیں 'قوت ارادی' کی ضروری ہوتی ہے۔
ملکوں کو آبادی، ہنر مندی، رقبہ اور تیل بھی درکار نہیں ہوتا۔۔۔ ان میں بس آگے بڑھنے کا ارادہ ہونا چاہیے۔
لی کو آن یو ایک پوری یونیورسٹی تھے، اس شخص نے دو دہائیوں میں پوری قوم بدل کر رکھ دی، کیسے؟
انہوں نے پانچ اہم کام کیے۔
1️⃣ وزیراعظم لی نے سب سے پہلے ملک میں امن قائم کر دیا‘ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیا‘ آپ مسلمان ہیں یا سکھ‘ عیسائی‘ بدھ یا ہندو کسی کو کوئی غرض نہیں‘ مسجد کے ساتھ چرچ‘ مندر اور ٹمپل بنا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کوئی شخص‘ کسی شخص کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے گا اور ایک مذہب کا پیروکار دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں جا سکے گا اور اس پر نہ کوئی اعتراض کرے گا نہ تبلیغ۔
قانون کی نظر میں سب کو برابر کر دیا، ملک میں کوئی کلاس کلچر نہیں تھا۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں تھی، سب برابر تھے اور ہیں۔
2️⃣ ملک میں ہر قسم کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی اور سڑکیں، گلیاں اور بازار ہر قیمت پرکھلے رہیں گے اور کوئی شخص کسی کے لیے سیکورٹی رسک نہیں بنے گا۔
3️⃣ لی کو آن یو نے چن چن کر اہل اور ایمان دار لوگ اہم عہدوں پر تعینات کر دیے اور انہیں کام کرنے کا بھرپور موقع دیا۔ لوگ آج بھی تیس تیس سال سے اپنے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ایمان داری کا یہ عالم تھا لی کوآن یو کے ڈیڑھ درجن منسٹر اور بیوروکریٹس کرپشن کے الزام کے بعد خودکشی کرگئے۔
حکومت اہل لوگوں کو دوسرے ملکوں سے بھی بھرتی کر لیتی تھی۔
سابق صدر ممنون حسین نے ایک بار بتایا، میں 1999ء میں گورنر سندھ تھا، لی کو آن یو دورے پر آئے، میں نے انہیں کھانے پر بلایا، دعوت کے دوران میں نے ان سے کہا، ہم کراچی پورٹ کو بھی سنگا پور پورٹ کی طرح ڈویلپ کرنا چاہتے ہیں آپ ہمیں کوئی ٹپ دیں،
میری بات سن کر 'لی کوآن یو' دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے۔۔۔
*"آپ کیپٹن سعید سے رابطہ کریں.. یہ پاکستانی بھی ہیں اور کراچی کے شہری بھی ہیں ہم نے ان کی مدد سے سنگاپور پورٹ ڈویلپ کی تھی"
ممنون حسین یہ سن کر شرمندہ ہو گئے اور دیر تک لی کو آن یو کی طرف دیکھتے رہے۔
4️⃣ لی کو آن یو نے اپنا ملک پوری دنیا کے بزنس مینوں کے لیے کھول دیا۔ کوئی کہیں سے بھی آ سکتا تھا اور ملک میں کام کر سکتا تھا بس ایک شرط تھی۔ اس کے پاس پیسہ اور تجربہ ہونا چاہیے،
مثلاًبھارت کے ایک مسلمان مشتاق احمد نے 1971ء میں سنگاپور میں المصطفیٰ سٹور بنایا یہ اب ایک طویل کمپلیکس بن چکا ہے مشتاق احمد نیک نیت بزنس مین ہے منافع کم اور کوالٹی زیادہ پر یقین رکھتا ہے لہٰذا یہ اب تک کھرب پتی بن چکا ہے اور کسی نے آج تک اسے تنگ نہیں کیا اور یہ یہاں اکیلا نہیں ہے ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں
اور ہر شخص نے مشتاق احمدکی طرح ترقی بھی کی اور یہ دوسروں کے لیے روشن مثال بھی بنا۔
5️⃣ لی کو آن یو نے تعلیم اور ہنر پر خصوصی توجہ دی, سنگا پور کے تعلیمی ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں ہیں,
یہ ہنر مند اور اہلیت کی لیبارٹریاں ہیں لہٰذا یہاں جہاں ایک طرف 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہاں یہ ہنر مند بھی ہیں یہ خود بھی کما رہے ہیں اور ملک کو بھی کما کر دے رہے ہیں.
لی کو آن یو نے پوری قوم کو تہذیب بھی سکھا دی, اس کا آغاز شخصی صفائی سے کیا گیا.
لوگوں کو ٹوائلٹ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا گیا۔
ملک میں مسلم شاور اور ٹوائلٹ پیپر لازمی قرار دے دیا۔
ہاتھوں کی صفائی کو قانون بنا دیا۔ تھوکنے پر پابندی لگا دی۔
سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آج بھی آپ اگر کسی سڑک یا عوامی جگہ پر تھوکتے, پان کی پیک گراتے یا ناک صاف کرتے پکڑے جائیں تو آپ سیدھے جیل جائیں گے
لہٰذا آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص گلا صاف کرتا یا تھو تھوکرتا دکھائی نہیں دے گا,
آپ یہ جان کر بھی حیران ہونگے اس پابندی کے بعد اب سنگا پور کے لوگوں میں تھوکنے کی خواہش ہی ختم ہو گئی ہے۔
مزید لی کو آن یوکا خیال تھا سگریٹ، پان اور چیونگم گند پھیلاتے ہیں لہٰذا اس نے ان پر بھی پابندی لگا دی،
سنگاپور میں سگریٹ بہت مہنگا ہے اور پینے کے لیے جگہیں بھی مختص ہیں اگرکوئی شخص ان کے علاوہ کسی جگہ ہاتھ میں ڈبی یا سگریٹ پکڑ کر کھڑا ہو تو اسے پولیس پکڑ لیتی ہے۔
چیونگم پر آج بھی پابندی ہے۔ آپ ملک میں چیونگم لا بھی نہیں سکتے۔
6️⃣ ‘لی کو آن یو نے پورے ملک میں انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا, سنگا پور میں ہائی ویز، میٹروز اور پل اس وقت بنے جب مشرق میں ان کا تصوربھی نہیں تھا،
پورے ملک میں پینے کا صاف پانی حکومت سپلائی کرتی ہے، آپ کسی بھی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں، میں نے آئی ایل او کی کانفرنس میں شرکت کی، کانفرنس میں 48 ممالک کے وفود آئے تھے لیکن کسی کے میز پر پانی کی بوتل نہیں تھی،
پانی کے جگ تھے اور یہ جگ عملہ ٹونٹی سے بھر کر رکھتا تھا، ہوٹلوں کے اندر بھی ٹونٹیاں لگی ہیں ائیرپورٹ کے بزنس لائونجز میں بھی پانی کی بوتلیں نہیں ہوتیں۔
7️⃣ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تصور تک نہیں تاہم وسائل کی بچت ضرور کی جاتی ہے۔ فالتو لائیٹ اور جلتا ہوا چولہا گناہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر اس ملک کو چلانا ہے تو ہمیں لی کو آن یو بننا پڑے گا۔
خدا کی پناہ 683 مربع کلو میٹر کے سنگاپور کے مالیاتی ذخائر اڑھائی سو بلین ڈالر ہیں اور ہم "سونے کی چڑیا" اور ایک "ایٹمی طاقت" ہوتے ہوئے ، ایک ایک بلین کے لیئے "کشکول" لیئے پھر رہے ہیں ۔
( صرف دیانت دار قیادت ھونی ضروری ھے) Copy
انسان اشرف المخلوقات ہے اور کائنات اللہ تعالٰی کا ایک عظیم شاہکار... انسانی دماغ بھی اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے, جسکی بدولت وہ عالیشان مشن ترتیب دیکر ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے. لیکن مسلمان ڈیڑھ ارب سے زائد ہونے کے باوجود نہ تو انکا دریافت و ایجادات میں کوئی حصہ ہے نہ ہی سائیس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت اور ترجیح... اور انکی حیثیت اور ذہنیت محض کنزیومر کی ہے, اس خامی کی وجوہات کا تعین کرنے کی کبھی ہم نے کوشش کی؟ وجوہات جاننے کے بعد حل آسان ھو جاتا ہے. یقین کریں ہم نے اقوام عالم کے برابر آنے کی کوشش نہ کی تو مطلب ھوگا کہ ساری زندگی اللہ تعالی کی خوراک پانی اور آکسیجن جیسی ان گنت نعمتں ضائع کر کے دنیا سے رخصت ہو گئے... M R Mubeen
ایکس ہاک ایک فلائنگ کار ہے. جس کی تیاری تقریباً ایک دہائی سے اسرائیل میں ہو رہی ہے. جو شہری آبادی میں پرواز کیلئے خاص طور پر ڈیزائن کی گئی ہے. جو کہ چھت سے ورٹیکلی اڑان بھر سکتی ہے. 24 فٹ لمبائی اور 8 فٹ چوڑائی اور 7 فٹ اس اڑن کار میں آدمی بیٹھ سکتے ہیں ایکس ہاک 8000 فٹ تک بلندی تک پرواز کریگی رفتار 259 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوسکتی ہے... قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے خاصی معاون ثابت ھوگی.. اللہ ماہرین کو اس میدان میں کامیابی دے...
خرچے کم کرنے پے توجہ دینے سے بہتر ہے
آمدنی بڑھانے پے توجہ دیں۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Contact the hotel
Telephone
Website
Address
Ghaziabad
Jhang Sadar
31.26688672.33855
Canal Road Near Railway Phatak Jhang Sadar
Jhang Sadar, 35200
Ibrahim Cafe & Resturant has come full circle! Right back to the heart of Jhang
Jhang Sadar
Near to Superior College & Punjab College Sultan Colony Gojra Road, Jhang
Palm Villas Phase 1 Satellite Town, پام ولاز فیز ا سیٹلائٹ ٹاؤن جھنگ
Jhang Sadar
Near Govt. Postgraduate College Jhang, Sargodha Road
Jhang Sadar
Here we provide residence facilities with mess.
B Block Green Belt Near Basheer Chok Satellite Town
Jhang Sadar, 35200
hotel & restaurant for shenwari and but karahi
IN FRONT OF PALM VILLAS SATELLITE TOWN JHANG
Jhang Sadar
IT'S ABOUT FACILITIES PROVIDING AT HOSTEL AND ALL ABOUT HOSTEL
14-E Jail Road
Jhang Sadar, 35200
Its the best place for stay in the district of jhang. Fully air conditioned and well furnished room
Jhang Sadar, 35200
i m a bussinessman. i m executive of import and export but espacally import. thanks for visting my p