Law with Fiaz
Nearby beauty salons
Gulshan Iqbal
Gulshan Iqbal
Gulshan Iqbal
Gulshan E Iqbal
Gulshan Iqbal
Gulshan Iqbal, Sukkur
Gulshan E Iqbal
Gulshan E Iqbal
Gulshan Iqbal
Gulshan E Iqbal Block
Gulshan Iqbal
Gulshan-E-Iqbal
Gulshan-E-Iqbal
Gulshan E Iqbal Block
Gulshan E Iqbal Block 13/C Karachi
Lawyer and Law Students join our Page
قدیم عربی حکایت کا اردو ترجمہ.
کہتے ہیں کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین بے گناہ افراد کو سزائے موت دی، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا، رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا، چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا، ان میں سے ایک
■ایک عالم
■ ایک وکیل
■ اور ایک فلسفی
تھا. سب سے پہلے عالم کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا میرا خدا پر پختہ یقین ہے وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا، بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا. اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آکر رک گیا، یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا.
اس کے بعد وکیل کی باری تھی اس کو بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا میں حق اور سچ کا وکیل ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے. یہاں بھی انصاف ہوگا. اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا، پھانسی دینے والے اس انصاف سے حیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی.
اس کے بعد فلسفی کی باری تھی اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا عالم کو تو نہ ہی خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا، فلسفی کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین سر کچل کر رکھ دیا.
حکایت کا نتیجہ..
بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے..
The Parliament of India abolished the 200-year-old laws created by the British, created their own Made In India laws and gave them indigenous names.
Abolish the Indian Penal Code and replace them with "Bharti Nai Shaita 2023".
Abolish the Criminal Procedure Code "Indian Citizen Sarksha Shaita 2023"
The Evidence Act has been repealed and created "Indian Sakshi 2023".
We have the same 200-year-old laws of the British in Pakistan, which are out of date and have become ineffective according to the current digital world. need,
The law-making and enforcement agencies have to think carefully for the future, otherwise lawlessness will increase even more and people's lives will be in conflict.
ھندستان جي پارليامينٽ انگريزن پاران ٺاھيل 200 سال پراڻا قانون ختم ڪري ڇڏيا, پنھنجي ديسي قانون (Made In India) قانون ٺاھي انھن کي ديسي نالا ڏئي ڇڏيا آھن.
انڊين پينل ڪوڊ کي ختم ڪري انھن جي جڳھ تي "ڀارتيء نيائي سھائيتا 2023"
ڪرمنل پروسيچر ڪوڊ کي ختم ڪري "ڀارتيء ناگرڪ سرڪشا سھائيتا 2023"
ايويڊنس ايڪٽ کي ختم ڪري "ڀارتيء ساڪشيء 2023" ٺاھي ڇڏيو آھي,
اسان وٽ پاڪستان ۾ ھيل تائين انگريزن جا ساڳي 200 سال پراڻا قانون ھلي رھيا آھن, جيڪي مدي خارج ۽ موجودا ڊجيٽل ورلڊ جي حساب سان ناڪارا ٿي چڪا آھن, انھن قانونن کي ختم (Repeal) ڪري موجودا وقت جي حوالي سان نوان قانون ٺاھڻ جي سخت ضرورت آھي,
قانون ٺاھڻ ۽ لاڳو ڪندڙ ادارن کي ايندڙ مستقبل لاء ھن وقت ئي ڪانڀ ٻڌي سوچڻو پوندو, ٻي صورت ۾ اڃا ويتر لا قانونيت وڌيندي ۽ عوام جي جئڻ جنجال ٿيندو.
قانون کی کلاس میں استاد نے ایک طالبعلم کو کھڑا کر کے اُس کا نام پوچھا اور بغیر کسی وجہ کے اُسے کلاس سے نکل جانے کا کہہ دیا۔ طالبعلم نے وجہ جاننے اور اپنے دفاع میں کئی دلیلیں دینے کی کوشش کی مگر اُستاد نے ایک بھی نہ سنی اور اپنے فیصلے پر مُصِّر رہا۔ طالبعلم شکستہ دلی سے اورغمزدہ باہر تو نکل گیا مگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظلم جیسا سمجھ رہا تھا۔ حیرت باقی طلباء پر تھی جو سر جُھکائے اور خاموش بیٹھے تھے۔
لیکچر دینے کا آغاز کرتے ہوئے استاد نے طلباء سے پوچھا: قانون کیوں وضع کیئے جاتے ہیں؟ ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر کہا: لوگوں کے رویوں پر قابو رکھنے کیلئے۔
دوسرے طالب علم نے کہا: معاشرے پر لاگو کرنے کیلئے۔
تیسرے نے کہا؛ تاکہ کوئی طاقتور کمزور پر زیادتی نہ کر سکے۔
استاد نے کئی ایک جوابات سننے کے بعد کہا: یہ سب جواباتُ ٹھیک تو ہیں مگر کافی نہیں ہیں۔
ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا: تاکہ عدل و انصاف قائم کیا جا سکے۔
استاد نے کہا: جی، بالکل یہی جواب ہے جو میں سننا چاہتا تھا۔ تاکہ عدل کو غالب کیا جا سکے۔
استاد نے پھر پوچھا: لیکن عدل اور انصاف کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟
ایک طالب علم نے جواب دیا: تاکہ لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے۔
اس بار استاد نے ایک توقف کے بعد کہا: اچھا، مجھ سے ڈرے بغیر اور بلا جھجھک میری ایک بات کا جواب دو، کیا میں نے تمہارے ساتھی طالبعلم کو کلاس روم سے نکال کر کوئی ظلم یا زیادتی کی ہے؟
سارے طلباء نے بیک زبان جواب دیا؛ جی ہاں سر، آپ نے زیادتی کی ہے۔
اس بار استاد نے غصے سے اونچا بولتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے کہ ظلم ہوا ہے۔ پھر تم سب خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ کیا فائدہ ایسے قوانین کا جن کے نفاذ کیلئے کسی کے اندر ھمت اور جراءت ہی نہ ہو؟
جب تمہارے ساتھی طالبعلم کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی اور تم اس پر خاموش بیٹھے تھے، اس کا بس ایک ہی مطلب تھا کہ تم اپنی انسانیت کھوئے بیٹھے تھے۔ اور یاد رکھو جب انسانیت گرتی ہے تو اس کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔
اس کے ساتھ ہی استاد نے کمرے سے باہر کھڑے ہوئے
طالب علم کو واپس اندر بلایا، سب کے سامنے اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگی، اور باقی طلباء کی طرف اپنا رخ کرتے ہوئے کہا: یہی تمہارا آج کا سبق ہے۔ اور جاؤ، جا کر معاشرے میں ایسی نا انصافیاں تلاش کرو اور ان کی اصلاح کیلئے قانون نافذ کرانے کے طریقے سوچو۔۔۔
Lawyer will be Lawyer 😎
آٹھاروین ترمیم (18th amendment) کی کہانی۔
اٹھارویں ترمیم پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ دو سال کے مشورے کے بعد 2010ء میں بیایا تھا، جس کی نمائندگی تمام بڑی جماعتوں نے کی تھی۔ آٹھاریں ترمیم نے عملی طور پر 1973 کے آئین کی تشکیل کردی۔ اس ترمیم میں 102 اہم آرٹیکلز میں تبدیلی لائی گئی اور اس ترمیم نے 1973 کے آئین کو مزید جمہوری بنایا ہے۔
آٹھارویں تر میم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پاکستان کا موجودہ آئین چودہ اگست انیس سو تہتر کو نافد کیاگیا تھا تاہم ابتدائی پانچ برسوں میں اس میں سات ترامیم کردی گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سات، نوازشریف نے پانچ اور ایک بار پاس کرانے میں ناکام رہے، محمد خان جونیجو نے ایک اور بینظیر بھٹو کوئی ترمیم نہ کرا سکی۔
پانچ جولائی ستتر کو ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے آئین معطل کردیا اور مارچ انیس سو پچاسی میں ار سی او (RCO) لاگو کیا گیا۔
آر سی او (Revival of the Constitution of 1973 Order) مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا وہ حکم جس کے ذریعے آئین میں ترامیم کرکے اسے بحال کردیا۔ آر سی او کے تحت غیر آئینی طریقہ سے جو ترامیم شامل کی گئی ان میں صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار، عسکری سربراہوں کی تقرری کی اختیار وزیر اعظم سے صدر کو منتقلی، رکن بننے کے لیے اہلیت کی نئی شرائط، قومی سلامتی کونسل کا قیام سمیت دیگر ترمیم شامل تھیں۔
جنرل یحییٰ خان نے 1970میں لیگل فریم ورک آرڈر عام انتخابات میں قواعد وضع کرنے کے لئے جاری کیا تھا اور لیگل فریم ورک آرڈر 2002 جنرل پرویز مشرف نے 2002 کے عام انتخابات کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) سے مراد پاکستان میں فوجی حکمرانوں کے دوران حکومت (مارشل لاء) انتخابات کی تنظیم سازی کے بارے میں جاری صدارتی احکامات ہیں۔
صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے 24 مارچ 1981 کو پی سی او (PCO) کا اعلان کیا، یہ ملک کی تاریخ کا پہلا پی سی او تھا جو صدر جنرل ضیاءالحق نافذ کیا تھا۔ 2007 میں ایک اور عبوری آئینی حکم جنرل پرویز مشرف نے جاری کیا تھا۔ یہ پی سی او 3 نومبر 2007 کو جاری کیا گیا تھا، اور بعد میں 15 نومبر 2007 کو اس میں ترمیم کی گئی تھی۔ اسے 16 دسمبر 2007 کو اٹھایا گیا تھا۔
عارضی آئینی آرڈر (Provisional Constitutional Order)، جو پی سی او کے نام سے مشہور ہے، ایک ہنگامی (emergency) اور ماورائے آئینی حکم (extra-constitutional order) ہے جو مکمل طور پر یا جزوی طور پر آئین پاکستان معطل کرتا ہے۔ پی سی او عارضی آرڈر کے حیثیت سے کام کرتا ہے جب آئین کو التوا یا معطلی کی صورت رہتا ہے۔ زیادہ تر مسلح افواج کے ذریعہ سویلین حکومتوں کے خلاف نافذ مارشل لاء کے دوران ان احکامات کا نفاذ کیا گیا تھا۔
آئین پاکستان 1973 نے قانون سازی کے اختیارات کو مرکز اور صوبوں کے مابین دو قانون ساز فہرستوں کی وضاحت کرکے تقسیم کیا گیا تھا: وفاقی قانون سازی کی فہرست (federal legislative list) حصہ اول 59 مضامین (59 items) اور حصہ دوئم میں 8 مضامین (8 items) تھے۔ متفقہ قانون ساز فہرست (concurrent legislative list) میں 47 مضامین (47 items) تھے۔ فیڈرل لسٹ میں جتنے مضامین (آئٹمز) تھے ان پر فیڈرل یا سنٹر ہی قانون سازی کرسکتا تھا۔ یہ فہرست دو حصے مشتمل تھا جس میں کل ملا کر 67 مضامین تھے۔ دوسری قانون ساز فہرست جس کو کنکرنٹ لسٹ نامزد کیا گیا تھا کے پاس 47 آئٹمز تھے۔ ان آئٹمز پر مرکز اور صوبے دونوں ہی قانون سازی کے حقدار تھے، لیکن یہ بھی آئین میں طے کیا گیا تھا کہ اگر اس فہرست میں کسی مضمون کے حوالے سے مرکز اور کسی صوبے کے بنائے ہوئے قوانین کے مابین تنازعہ کی صورت میں فیڈرل یا سنٹر کے بنائے ہوئے قانون کو غالب ہونا تھا، اس سے قطع نظر کہ دونوں قوانین میں سے کون سا پہلے بنایا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرکز کو نہ صرف اس کے لئے خاص طور پر مخصوص مضامین پر حقیقی اہلیت حاصل تھی، بلکہ کنکرنٹ قانون ساز فہرست میں بھی وفاقی حکومت کو غلبہ حاصل تھا، جس کی وجہ سے صوبائی حکومتیں آزادانہ طریقہ سے قانونی سازی سے قاصر تھی۔
اٹھارویں ترمیم کے 102 شقوں میں ترمیم کی گئی جس میں مندرجہ ذیل شقیں شامل ہیں:
آرٹیکل 6: کے تحت آئین کو معطل کرنے کو بھی غداری (سنگین غداری) کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 10: میں اضافی شق 10 اے تجویز کیا ہے جس کے تحت غیر جانبدارانہ ٹرائیل کو بنیادی حق کا درجہ دیا گیا ہے۔
آرٹیکل19: معلومات تک آزادی رسائی بھی بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 25: ریاست تمام پانچ سے چودہ برس تک عمر کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ سرکاری ملازمتوں میں ایسے علاقوں کو جن کی مناسب نمائندگی نہیں ہے برابر لایا جائے۔
آرٹیکل 37: سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
آرٹیکل 48: صدر کو وزیر اعظم کی مشاورت سے اسمبلی تحلیل ہونے یا اپنی مدت پوری کرنے پر عام انتخابات منعقد کروائے اور وہ ہی نگران کابینہ تعینات کریں۔
آٹھویں (8th amendment) جو جنرل ضیاءالحق کے دور میں ہوئی۔ اس ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 49 میں جز 2 میں بیان کردہ حالات کے علاوہ بھی اگر کچھ ایسے مواقع آ جائیں تو صدر پاکستان، پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ:
الف۔ وزیر اعظم کے خلاف ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے اور ایوان کا کوئی بھی دوسرا رکن اس حیثیت میں نہ ہو کہ وہ آئین پاکستان کے تحت ایوان کا اعتماد لے سکے۔ یا،
ب۔ ملک میں کچھ ایسے حالات جنم لیں جب آئین پاکستان کے تحت حکومت اور ریاست کے انتظامات و معاملات چلانا ممکن نہ رہے اور اس کا حل پاکستان کے منتخب شدہ الیکٹورل کالج کے پاس بھی نہ ہو تو صدر پاکستان اپنی رائے میں اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ آٹھارویں ترمیم میں صدر پاکستان سے یہ اختیارات واپس لئے ہیں۔
آرٹیکل 58(2) بی: صدر کے پاس سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لیا جائے۔
آٹھویں ترمیم کے تحت آئین پاکستان کے آرٹیکل اٹھاون 2 بی جس کے تحت صدر پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل تھا، اس کا استعمال 1990ء کی دہائی میں تین بار کیا گیا۔ یہ اختیارات استعمال ہونے والا پہلا موقع وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف صدر غلام اسحق خان نے 6 اگست 1990ء، دوسرے موقع پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف صدر غلام اسحق خان نے 1993ء جبکہ تیسری بار بے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف صدر فاروق احمد لغاری نے نومبر 1996ء کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم کو معطل کیا۔ ان اختیارات کے استعمال ہونے کی بعد نواز شریف کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بحال کر دیا تھا لیکن اس وقت اداروں کے مابین شروع ہونے والے لڑائی کے نتیجے میں صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اس آرٹیکل کا جہاں بھی استعمال ہوا صدر پاکستان کی جانب سے اس کے استعمال کی وجوہات کو واضع انداز میں بیان کیا گیا اور زیادہ تر حکومتی انتظامیہ کی کرپشن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس الزام کے بعد حکومتی ادارے عوام میں اپنا وقار اور مقبولیت کھو بیٹھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر بار حکمران جماعت کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پارلیمان میں عددی برتری کسی بھی جماعت کے حصے میں نہیں آئی۔
1997ء میں نواز شریف کے دور میں آئین پاکستان میں تیرہویں ترمیم کی گئی جس کی رو سے صدر پاکستان سے وہ اختیارات واپس لے لیے گئے جس کے تحت وہ اسمبلی کو تحلیل کر سکتے تھے اس طرح صدارتی کیمپ بظاہر ربر سٹمپ بن کر رہ گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر 2002 کے چیف ایگزیکٹو آرڈر نمبر 29 اور 2002 کے چیف ایگزیکٹو کے آرڈر نمبر 32 کے ذریعہ ایک بار پھر ترمیم کر کے صدر کو اسمبلی توڑنے کے اختیارات واپس حاصل ہو گئے۔ صدر پاکستان کے اختیارات کو سترہویں ترمیم کے ذریعے جزوی طور پر بحال کیا گیا۔ گو صدر پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا مگر صدر کے اس اقدام کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی توثیق سے مشروط کر دیا گیا۔ جو کہ آٹھارویں ترمیم میں ان اختیارات کو ایک بار پھر صدر سے لیلئے۔
آرٹیکل 59: ایوان بالا یا سینٹ کی نشستیں سو سے بڑھا کر ایک سو چار کر دی جائے اور ہر صوبے سے ایک اقلیتی رکن منتخب کیا جائے۔
سنہ اُنیس سو پچاسی میں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی اسمبلی آٹھویں ترمیم پاس کرکے مُجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی تھی کیونکہ اس ترمیم میں اقلیتوں کو مذہبی رسومات آزادانہ طور پر ادا کرنے کے الفاظ میں ردوبدل کیا گیا تھا۔
آرٹیکل 61: سینٹ کے اجلاسوں کے دن نوئے سے بڑھا کر ایک سو دس کر دئیے جائیں۔
آرٹیکل 90: وفاق اور صوبوں کے درمیان تمام کنکرنٹ لسٹ ختم کی جائے۔
متفقہ قانون سازی کی فہرست سے کچھ آئٹمز کو حذف کرنے کے بعد وفاقی حکومت نے پورے ملک کے لئے قانون سازی کرنے کا اپنا اختیار کھو دیا ہے کیونکہ مذکورہ اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ اس سے وفاق عجیب و غریب پوزیشن پر آگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کنکریٹ قانون سازی فہرست کے تمام آئٹمز کے معاملات آئینی پیکیج کے مطابق قانون سازی کرنے کا اختیار صوبائی اسمبلی/صوبوں کو منتقل ہوچکی ہے۔
آرٹیکل 92: وفاقی کابینہ کی تعداد پارلیمان میں اراکین کی تعداد کا گیارہ فیصد ہوگی۔ اس فارمولے کے تحت موجودہ کابینہ کو کم کرکے بیالیس وزراء تک حکومت کو لانا ہوگا۔
صوبوں میں بھی کابینہ پندرہ اراکین یا گیارہ فیصد جو بھی زیادہ ہو۔ وزرا اعلی وزیر اعظم کی طرح پانچ سے زیادہ مشیر تعینات نہیں کر سکیں گے۔
آرٹیکل 101: صوبائی گورنر اسی صوبے کا ہی رہائشی تعینات کیا جائے گا۔
آرٹیکل 104: صوبائی اسمبلی کا سپیکر گورنر کی غیر موجودگی میں قائم مقام گورنر مقرر ہوگا۔
آرٹیکل 127: صوبائی اسمبلی کی کم سے کم کارروائی کے دن ستر سے بڑھا کر سو دن کر دیئے جائیں۔
آرٹیکل 140-A: مقامی حکومتوں کو رکھا جائے گا۔
آرٹیکل 147: صوبائی حکومت وفاق یا کسی اہلکار کو اپنا اختیار دیتی ہے تو اس کی اسے صوبائی اسمبلی سے توثیق کروانا لازمی ہوگی۔
آرٹیکل 153/54: وزیر اعظم مشترکہ مفادات کونسل کے چیئرمین، چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اراکین جبکہ وفاقی حکومت کے تین اراکین شامل ہوں گے۔ کونسل کا کم از کم ہر نوئے روز میں ایک اجلاس ضرور منعقد کیا جائے گا۔ کونسل کا مستقل سیکریٹریٹ ہونا چاہیئے۔
آرٹیکل 157: وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاں آبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا۔
آرٹیکل 160: صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 167: صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین القوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔
آرٹیکل 168: آڈیٹر جنرل کی مدت ملازمت چار سال تک محدود کر دی جائے گی۔
آرٹیکل 170: وفاق یا صوبوں کے زیر انتظام خودمختار اداروں کو آڈیٹر جنرل کے تحت لایا جائے۔
آرٹیکل 172: تیل و گیس جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ ہوگا۔
آرٹیکل 175-اے: ججوں کی تقرری کا سات رکنی کمیشن۔ کوئی ہائی کورٹ کا جج اپنی مرضی کے بغیر ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا۔
آرٹیکل 213: انتخابی کمیشنر کی تقرری کا طریقہ کار چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت کر دیا گیا ہے۔ ایوان اور حزبِ اختلاف کے قائدین کی باہمی رضامندی سے اس عہدے کے لیے تین امیدواروں کے نام بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے۔ دونوں قائدین الگ الگ تجاویز بھی بھیج سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کے لیے بھی یہی طریقہ کار ہوگا۔
آرٹیکل 224: اسمبلی کی تحلیل یا مدت مکمل ہونے پر صدر عبوری حکومت وزیر اعظم کی مشاورت سے تعینات کریں گے۔ چاروں نگران وزرائے اعلی کا تقرر بھی جانے والے لیڈر آف دی ہاؤس کی مشاورت سے کیا جائےگا۔
آرٹیکل 232: ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جائے گی۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔
آرٹیکل 242: پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین کا تقرر اب صدر وزیرِ اعظم کی مشاورت سے کریں گے۔
آرٹیکل 243: فوجی سربراہان کی تقرری بھی اب وزیرِ اعظم کی مشاورت اور پارلیمان کی منظوری سے کی جائے گی۔
آرٹیکل 268: چھٹے شیڈول میں شامل قوانین جس کے لیے صدر کی پیشگی رضامندی ترامیم کے لیے ضروری تھی اس کو ختم کیا جائے گا۔
کمیٹی نے وزیر اعظم اور وزراء اعلی کے تیسری مرتبہ منتخب ہونے کی پابندی اٹھانے کی تجویز بھی دی تھی۔
آٹھارویں ترمیم کے وہ کونسی شقیں ہیں جن پر اختلاف رائے موجود ہے؟
سیاسی جماعتوں، حکومت وقت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مختلف آرٹیکلز پر اختلاف رائے موجود ہے جیسے کہ آرٹیکل 6 یعنی آئین کو معطل کرنے کو بھی غداری سمجھا جائے گا، آرٹیکل 48 جس کی وجہ سے صدر کو اسمبلی توڑنے یا نگران حکومت لانے کے لئے وزیر اعظم کی مشاورت ضروری کرار دیا۔ آرٹیکل 58(2) بی جس کے تحت صدر کے پاس سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لیا گیا۔ آرٹیکل 90 جس سے وفاق اور صوبوں کے درمیان تمام کنکرنٹ لسٹ ختم کی کیا گیا، آرٹیکل 157 وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاں آبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا۔ آرٹیکل 160 یعنی صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا۔ آرٹیکل 172 جس کے نتیجے میں تیل و گیس جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ کرار دیا، اور آرٹیکل 243 یعنی فوجی سربراہان کی تقرری بھی اب وزیرِ اعظم کی مشاورت اور پارلیمان کی منظوری سے کی جائے گی۔
اٹھارویں ترمیم کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟
آتھارویں ترمیم کے مخالفین متعدد وجوہات کی بنا پر مخالفت کرتے ہیں:
اٹھارویں ترمیم پر تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس ترمیم نے صوبوں کو طاقتور بنائے بغیر ہی مرکز کو کمزور کردیا ہے۔ نقاد یہ دلیل دیتے ہیں کہ صوبوں کے پاس نئی ذمہ داریاں اٹھانے کیلئے درکار وسائل اور صلاحیت نہیں ہے۔ بعض یہ دلیل دیتے ہیں کہ انتقال اختیارات اتنا اچانک تھا کہ اس کے نتیجے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی جس ابہام پیدا ہو گیا۔
تقریبا صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ میں کل فنانسز کا 53-57 فیصد حصہ مل رہا ہے جو مرکز اور صوبوں کے مابین تنازعہ کی اصل وجہ (bone of contention) ہے۔ پاکستان آرمی دفاعی بجٹ میں اضافے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں جبکہ حکومت بیرونی اور اندرونی قرضوں کے بڑتی اضافے کا رونا رو رہی ہے۔ 18 ویں ترمیم میں اتفاق رائے کے مطابق صوبے اپنا حصہ دفاعی اور وفاقی اخراجات کے لیے بانٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ حکومت اور ریاست کی دوسری بڑی پریشانی یہ ہے کہ صوبوں نے اپنی خودمختاری اور اختیارات حاصل کر لئے ہیں لیکن اختیارات مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کو منتقل نہیں کیے گئے۔
آبی ذخائر، دفاع (Defence) اور غیر ملکی قرضوں سے صوبوں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے، صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ آبی ذخائر اور دفاعی بجٹ میں اپنا حصہ ڈالیں، اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں بھی صوبیں وفاق کی مدد کریں، کیونکہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حکومتوں کو زیادہ حصہ ملتا ہے (صوبائی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چوہدری فواد)۔
اٹھارویں ترمیم (18th amendment) نے تعلیم کے معیار کو شدید نقصان پہنچایا۔ دنیا کی کسی بھی ریاست کے آئین میں مرکز کے ذریعہ یکساں نظام تعلیم کا نفاذ کیا جاتا ہے، لیکن آٹھاریں ترمیم نے اسے صوبائی حکومت کا موضوع بنایا۔ اس طرح کی ناقص ترمیم کو ختم کیا جانا چاہیے (صدر مسلم لیگ ق؛ صدر چوہدری شجاعت حسین)۔
تمام صوبوں کو پالیسی کے عمل درآمد کے معاملے پر تبادلہ خیال کے لئے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر بیٹھ کام کرنا چاہئے نہ کہ صوبائی حکومتیں وفاق کے ساتھ مشاورت کئے بغیر فیصلے کئے جائیں (وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی)۔
آٹھارویں ترمیم پر تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس نے صوبوں کو طاقتور بنائے بغیر ہی مرکز کو کمزور کردیا ہے۔ نقاد یہ دلیل دیتے ہیں کہ صوبوں کے پاس نئی ذمہ داریاں اٹھانے کیلئے درکار وسائل اور صلاحیت نہیں ہے۔ بعض یہ دلیل دیتے ہیں کہ انتقال اختیارات اتنا اچانک تھا کہ اس کے نتیجے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی جس سے ابہام اور مساوی حکومت تیار ہوگئی۔
اٹھارویں ترمیم نے ریاست کو کمزور کردیا ہے اور یہ ملک کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ رہا ہے، تمام تر وسائل/فنانس پر وفاق کا اختیار ہونا چاہیے (اسٹیبلشمنٹ اور کچھ سیاسی گروہوں کی رائے)
آٹھارویں ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے پی پی پی کے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا اظہار خیال:
ریاست وفاق کو مضبوط بنانے کے بجائے تمام وسائل اور صوبوں پر اپنا مکمل آمرانہ اختیار اور کمانڈ چاہتی ہے۔ اسی نقطہ نظر نے ملک کے بڑے حصے مشرقی پاکستان (East Pakistan) کو 1971ء میں مغربی پاکستان (West Pakistan) سے الگ کردیا۔ پاکستان کو متعدد متصادم عناصر (dissenting elements) اور علیحدگی کی تحریکوں (separation movements) کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے ایک قومی نیشنل فنانس کمیشن کا ایوارڈ (NFC Award) آٹھاریں ترمیم کے تحت تشکیل دیا گیا جس میں تمام قوم پرستوں اور متضاد عناصر کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس قانون کے تحت فیڈرلزم نے کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں سیاسی ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ اس ترمیم کے تحت آئین کی 102 شقوں میں ترمیم کی گئی جس میں 58 (2-B) شامل ہیں۔ صدر پاکستان کی اپنی مرضی سے منتخب اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں ہم نے اختلاف رائے رکھنے والے متصادم عناصر میں کمی دیکھی ہے اور قوم پرست مرکزی دھارے کی سیاست (mainstream politics) میں حصہ لے رہے ہیں۔ عوام میں جمہوریت اپنی جڑیں پکڑ رہی ہے، ایک جمہوری نظام (democratic system) تیار ہورہا ہے، اور شہریوں میں کچھ رواداری ابھر رہی ہے۔
آٹھارویں ترمیم کے خلاف کوئی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بظاہر کچھ عناصر تعلیم اور صحت کی فراہمی کو بنیاد بنا کر آٹھاریں ترمیم کو ملیا میٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ریاست کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مضبوط صوبے نہ صرف شہریوں کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ وہ مرکز کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ اگر اس عمل میں کچھ لاقانونیت موجود ہے تو حزب اختلاف اور حکومت جمہوریت اور شہریوں کے بہترین مفاد کے لیے میل کر کام کرنا چاہیے۔
اسٹیبلشمنٹ آٹھارویں ترمیم سے حاصل حقوق چھیننا چاہتی ہے ایک دوسرے کے کام میں غیر آئینی مداخلت بند کی جائے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کی آئین میں گنجائش نہیں۔ آئین سب سے بالاتر ہے۔ یہ باتیں تو بڑی اچھی اچھی لگتی ہیں۔ لیکن آگے چل کر جو باتیں انہوں نے کی ہیں وہ بڑی غیر آئینی باتیں ہیں۔
اسکولوں میں ملکی تاریخ ٹھیک طرح سے نہیں پڑھائی جاتی۔ نصاب میں بچوں کو جہاد کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اگر پنجاب حکومت بھگت سنگھ کو نصاب میں شامل کرنا چاہتی ہے تو اسے کرنے دیں کیا بھگت سنگھ نے انگریز کے خلاف جہدو جہد نہیں کی تھی۔
کچھ ریاست نواز عناصر صوبوں کو مضبوط کرنے کے بجائے آٹھاریں ترمیم کو منسوخ کرنے یا صوبوں کی مالی خودمختاری کو ختم کرنے کے لئے اس ترمیم کو رول بیک کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ (سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی)۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین آٹھارویں ترمیم کے پیچھے پیپلز پارٹی کے کونسے سیاسی وجوہات کا ذکر کرتے ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 18 ویں ترمیم میں کسی تبدیلی کا دفاع کرنے کے لئے ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سمیت حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے 18 ویں ترمیم کو تبدیل کرنے کے لئے کسی بھی بحث کو کھولنے کے لئے حکومت کی طرف سے متحد ہونے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
90 کے عشرے میں چاروں صوبوں میں نمایاں ووٹ بنک رکھنے والی بائیں بازو کی مرکزی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی شہرت اب سکڑ کے صوبہ سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ 2008 کے انتخابات میں پی پی پی نے اگرچہ اپنے روایتی گڑھ سندھ سے 50 فیصد تک جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن باقی صوبوں میں کچھ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ 2014 اور 2018 کے الیکشن میں سندھ کے علاوہ باقی تمام صوبوں میں بری طرح ناکام رہی۔ پی پی پی کے مخالفین کا ماننا ہے کہ آٹھارویں ترمیم پی پی پی کی وسائل تک رسائی اور بطور مقننہ کردار کو تحفظ دیتی ہے- حتیٰ کہ اگرجماعت مقبول قومی پلیٹ فارم کے طور پر اپنے تشخص کو دوبارہ حاصل نہیں کرپاتی تب بھی سندھ میں ان کو تحفظ حاصل ہے۔ کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے بعد پی پی پی اور دیگر صوبائی جماعتوں کو متعدد ایسے قانونی معاملات میں اختیارات حاصل ہوچکے ہیں جو ماضی میں وفاقی حکومت کے قابو میں تھے۔ آرٹیکل 160 کے شق کے متعارف کروائے جانے سے پی پی پی نے اس امر کومزید یقینی بنا لیا ہے کہ اس کا ریونیو موجودہ فیصد سے نیچے ہرگز نہ جائے اور ووٹ دہندگان سے براہ راست جڑے معاملات تعلیم اور صحت پر صوبائی سطح پر اختیار سے جماعت کو اپنے حامیوں سے جڑے رہنے اور ووٹوں کا حصول کا زیادہ بہتر موقع میئسر آچکا ہے۔ اسے کھونا جماعت کیلئے مہلک ہوسکتا ہے جو کہ حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ صوبائی جماعت بن چکی ہے۔
کیا آٹھارویں ترمیم سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل اس ترمیم کو جزوی یا مکمل ختم کرنا ہے؟
جواب نفی میں۔ آٹھارویں ترمیم کے نکات کے بجائے نفاذ اور عمل درآمد کرانے میں زیادہ مسائل ہیں۔ اس ترمیم پر بحث کا مرکزی نکتہ ایک ہے: مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل اور قانون سازی کے اختیارات کی تقسیم۔
حکومت کے پاس اکٹھے ہونے والے مالی وسائل یعنی ٹیکس اور دیگر محصولات وغیرہ جن کے ذخیرہ کو ڈیویزیبل پول (divisible pool) کہا جاتا ہے، اس ترمیم کے تحت بڑا حصہ 57.8 فیصد صوبوں کے پاس چلا جاتا ہے جبکہ نسبتاً قلیل تعداد 42.2 کے قریب مرکزی حکومت کے پاس رہ جاتی ہے جس سے وہ اپنے وسیع ریاستی و انتظامی اخراجات پورے نہیں کر سکتی تو اس کا حل دنیا کی تمام کامیاب وفاقی حکومتوں کے پاس یہ ہوتاہے وہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھے کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کرتی رہتی ہیں نہ کہ وفاقی اکائیوں (صوبوں) سے ان کا جائز حصہ چھین لیا جاتا ہے۔
آٹھارویں ترمیم صوبوں کو مضبوط قانون سازی اور مالی خود مختاری فراہم کرتی ہے۔ واقعی مرکز اور صوبوں کے مابین ہم آہنگی کے کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کو آگے بڑھا کر موجودہ خامیوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور اس پر عمل درآمد کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو کمیٹی کے باقاعدہ اجلاس اور مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس طلب کرنا چاہیے جو دراصل مرکز اور صوبوں کے مشترکہ ایجنڈے پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لئے بنایا گیا ہے، اور ہر 90 دن کے بعد ان کا اجلاس ہونا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں جو صوبائی خودمختاری کی سب سے بڑے چیمپئنز ہیں اقتدار کو نچلی سطح (لوکل گورنمنٹ باڈیز) تک منتقل کرنے پر راضی نہیں ہیں۔
ریفرینسز:
"Constitution of Pakistan documents"
"Constitutional and Political History of Pakistan" Hamid Khan.
"The constitution of Pakistan" by Mr Hamid Cheema
"New controversy on 18th Amendment" daily times.
"Debating 18th amendment" by Zahid Hussain
"Why PPP fears the end of Pakistan's 18th amendment" by Fizza Batool.
"Legal Framework Order" (Gazette of Pakistan, Extraordinary, August, 2002)
"A leaf from history: Power shift: Eighth Amendment gives Zia complete clout" by Sheikh Aziz.
شکریہ
Importance of Advocate
وکیل کی اہمیت !!!
ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ نے عالمہ عورت سے ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ، شادی کے بعد اس لڑکی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻤﮧ ﮬﻮﮞ اور ﮨﻢ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ -
ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ بیوی ﻧﮯ ﺍسے ﮐﮩﺎ ﮐﮧ
*ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮬﻢ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﮩﺪ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﺳﺎس و سسر ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ہوتاﮬﮯ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﻟﻮ -*
ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﮍﺍ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﺗﻮ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﻨﮯ ﮔﺎ -
ﺍﺱ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ وکیل صاحب ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ اور اپنا مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا- وکیل صاحب ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ -
ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ وکیل صاحب سے ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ مسئلہ ﮐﮯ ﺣﻞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮬﻮﮞ ﻓﺘﻮﯼ ﻟﯿﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ -
وکیل ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ . ﻭﮦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮧ جا کر اپنی ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﺘﺎؤ ﮐﮧ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ *ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﮬﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﯿﮕﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﯾﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﺁﭖ ﻭﮨﺎﮞ ﺭہو گی۔*
ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﮯ سٹپٹا ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ! ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺮﻭ ﺩﻭﺳﺮﯼشادی کو، ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﮬﯽ ﺭﮬﻮﻧﮕﯽ *آﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ میرے بھی والدین ہیں اور انﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﻣﺴﻠﻢ بھی ﮬﮯ۔*
-----------------------
سبق ------ -----------
*ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ وکیل ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ بیٹھا کریں کیونکہ ہر ﻣﺴئلہ ﮐﺎ ﺣﻞ ﮔﻮﮔﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ.*
😜😉
یہ انفارمیشن ہر پاکستانی شہری کے لیے جاننا ضروری ہے
* دفعہ324 * = قتل کی کوشش کی
* دفعہ 302 * = قتل کی سزا
* دفعہ 376 * = عصمت دری
* دفعہ 395 * = ڈکیتی
* دفعہ 377 * = غیر فطری حرکتیں
* دفعہ 396 * = ڈکیتی کے دوران قتل
* دفعہ 120 * = سازش
* سیکشن 365 * = اغوا
* دفعہ 201 * = ثبوت کا خاتمہ
* دفعہ 34 * = سامان کا ارادہ
* دفعہ 412 * = خوشی منانا
* دفعہ 378 * = چوری
* دفعہ 141 * = غیر قانونی جمع
* دفعہ 191 * = غلط ھدف بندی
* دفعہ 300 * = قتل
* دفعہ 309 * = قتل عام میں قصاص کی چھوٹ
* دفعہ 351 * = حملہ کرنا
* دفعہ 354 * = خواتین کی شرمندگی
* دفعہ 362 * = اغوا
*دفعہ 320* = بغیر لائسنس یا جعلی لائیسنس کے ساتھ ایکسڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا(ناقابلِ ضمانت)
,*دفعہ 322 = ڈرائیونگ لائسنس کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا (قابلِ ضمانت)
* دفعہ 415 * = چال
* دفعہ 445 * = گھریلو امتیاز
* دفعہ 494 * = شریک حیات کی زندگی میں دوبارہ شادی کرنا
* دفعہ 499 * = ہتک عزت
* دفعہ 511 * = جرم ثابت ہونے پر جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا۔
4
ہمارے ملک میں، قانون کے کچھ ایسے ہی حقائق موجود ہیں، جس کی وجہ سے ہم واقف ہی نہیں ہیں، ہم اپنے حقوق کا شکار رہتے ہیں۔
تو آئیے اس طرح کچھ کرتے ہیں
* پانچ دلچسپ حقائق * آپ کو معلومات فراہم کرتے ہیں،
جو زندگی میں کبھی بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
* (1) شام کو خواتین کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا * -
ضابطہ فوجداری کے تحت، دفعہ 46، شام 6 بجے کے بعد اور صبح 6 بجے سے قبل، پولیس کسی بھی خاتون کو گرفتار نہیں کرسکتی، چاہے اس سے کتنا بھی سنگین جرم ہو۔ اگر پولیس ایسا کرتی ہوئی پائی جاتی ہے تو گرفتار پولیس افسر کے خلاف شکایت (مقدمہ) درج کیا جاسکتا ہے۔ اس سے اس پولیس افسر کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے۔
* (2.) سلنڈر پھٹنے سے جان و مال کے نقصان پر 40 لاکھ روپے تک کا انشورینس کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔
عوامی ذمہ داری کی پالیسی کے تحت، اگر کسی وجہ سے آپ کے گھر میں سلنڈر ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو جان و مال کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو آپ فوری طور پر گیس کمپنی سے انشورنس کور کا دعوی کرسکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ گیس کمپنی سے 40 لاکھ روپے تک کی انشورنس دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اگر کمپنی آپ کے دعوے کو انکار کرتی ہے یا ملتوی کرتی ہے تو پھر اس کی شکایت کی جاسکتی ہے۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو ، گیس کمپنی کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
* (3) کوئی بھی ہوٹل چاہے وہ 5 ستارے ہو… آپ مفت میں پانی پی سکتے ہیں اور واش روم استعمال کرسکتے ہیں * -
سیریز ایکٹ، 1887 کے مطابق، آپ ملک کے کسی بھی ہوٹل میں جاکر پانی مانگ سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں اور اس ہوٹل کے واش روم کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ہوٹل چھوٹا ہے یا 5 ستارے، وہ آپ کو روک نہیں سکتے ہیں۔ اگر ہوٹل کا مالک یا کوئی ملازم آپ کو پانی پینے یا واش روم کے استعمال سے روکتا ہے تو آپ ان پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ آپ کی شکایت کے سبب اس ہوٹل کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔
* (4) حاملہ خواتین کو برطرف نہیں کیا جاسکتا * -
زچگی بینیفٹ ایکٹ 1961 کے مطابق، حاملہ خواتین کو اچانک ملازمت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ حمل کے دوران مالک کو تین ماہ کا نوٹس اور اخراجات کا کچھ حصہ دینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سرکاری ملازمت تنظیم میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔ یہ شکایت کمپنی بند ہونے کا سبب بن سکتی ہے یا کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔
*(5) پولیس افسر آپ کی شکایت لکھنے سے انکار نہیں کرسکتا*
پی پی سی کے سیکشن 166 اے کے مطابق، کوئی بھی پولیس افسر آپ کی شکایات درج کرنے سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سینئر پولیس آفس میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔ اگر پولیس افسر قصوروار ثابت ہوتا ہے تو، اسے کم سے کم * (6) * ماہ سے 1 سال قید ہوسکتی ہے یا پھر اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
یہ دلچسپ حقائق ہیں، جو ہمارے ملک کے قانون کے تحت آتے ہیں، لیکن ہم ان سے لاعلم ہیں۔
*یہ پیغام اپنے پاس رکھیں، یہ حقوق کسی بھی وقت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔* _
*تاریخ، عدالت اور انصاف*
یہ واقعہ ٣٩٩ قبل از مسیح کا ہے کہ 70 سالہ سقراط اپنے دفاع میں جمہوریہ ایتھنز کی جیوری کے سامنے خود پیش ہوئے۔جیوری 500 افراد پر مشتمل تھی۔ انسانی تاریخ میں ہجوم کی یہ پہلی عدالت تھی جو برسرِعام لگائی گئی۔ایتھنز شہر کا ہر فرد ہجوم کی صورت اس عدالت کا حصہ تھا۔ *ایک بہت بڑے سٹیڈیم میں جمع ہونے والے اس ہجوم کے سامنے سقراط تنہا کھڑا تھا۔*
سقراط، فطرتاً نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت کے باعث اخیر عمر میں 70 سالہ فلسفی نے دیوتاووں کے حقیقی وجود سے انکار کر دیا۔ سقراط پر ایتھنز کی عدالت نے جو الزامات لگائے تھے۔ ان میں ” تم ہمارے نوجوانوں کو بہکا رہے ہو”۔ سرفہرست تھا۔
جب یونان کے عظیم ترین فلسفی سقراط کا تین گھنٹے کا دفاع ختم ہوا تو عدالت نے جیوری سے کہا کہ وہ اپنا فیصلہ دو نشان زدہ باکسز میں سے ایک میں ڈالیں، ایک مجرم ثابت ہونے کے لیے اور ایک بری ہونے کے لیے۔ ہر جج نے مقدمہ اور سقراط کے جرم یا بے گناہی کو سمجھنے کے لیے بہت کوشش کی۔ جب ووٹوں کی گنتی کی گئی تو 280 ججوں نے سقراط کو قصوروار قرار دینے کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ 220 ججوں نے بری کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
لیکن نسبتاً قریبی ووٹ ہونے کی وجہ سے سقراط کو سزا سنائے جانے کے بعد، مقدمہ سزا کے مرحلے میں داخل ہوا۔ ہر فریق، الزام لگانے والوں اور مدعا علیہ کو سزا تجویز کرنے کا دوبارہ موقع فراہم کیا گیا۔ دلائل سننے کے بعد، ججز کو اس بات کا انتخاب کرنا تھا کہ دو مجوزہ سزاؤں میں سے کس سزا کا انتخاب کیا جائے۔ حتمی ووٹنگ میں 360 ججوں نے موت کے حق میں جبکہ 140 نے جرمانے کے حق میں ووٹ دیا۔
جمہوریہ ایتھنز کے طریقہ کار کے مطابق سقراط کو اپنی صفائی دینےکا موقع دیا گیا۔ سقراط کی اس ہجوم کے سامنے تقریر کو اس کے شاگرد افلاطون (Plato) نے اپنی کتاب ’’سقراط کا معذرت نامہ‘‘ (Apology of Socrates) میں اور ایتھنز کی افواج کے کمانڈر زینو فون (Xenophon) نے اپنی کتاب ’’عدالت کے سامنے سقراط کا معذرت نامہ‘‘ (Apology of Socrates to the Jury) میں آنے والی صدیوں کیلئے محفوظ کر دیا ہے۔ اور اس موقع پر ان کی طویل تقریر تاریخِ انسانیت پر ان کا سب سے بڑا احسان ہے۔
*سقراط نے کہا، ’’میرا فیصلہ ایک ہجوم کر رہا ہے اور ہجوم کبھی درست فیصلہ نہیں کر سکتا‘‘۔ اس نے کہا، ’’اے ایتھنز والو! میں تمہای عزت کرتا ہوں۔ مجھے تمہارا احترام ہے، لیکن میں تم سب کے مقابلے میں خدا کی اطاعت کروں گا‘‘۔*
اپنی تقریر میں سقراط کہتے ہیں کہ’’ ایتھنز ایک عظیم شہر ہے اور یہاں رہنے والے عظیم لوگ ہیں، آج یہاں کے لوگوں کو میری بات سمجھ نہیں آرہی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ میری دعوت پر غور کریں گے۔ میرے لیے ممکن ہے کہ میں اپنے لیے جیل یا ملک بدری کی سزا چن لوں لیکن جب میرے شہر کے میرے اپنے لوگ میرے نظریات کا بار نہیں اٹھاسکتے تو پھرکوئی اور شہر میرے نظریات کا بار کیسے اٹھا پائے گا۔ میں چاہوں تو اوروں کی طرح اپنے بچوں کایہاں جیوری کے ارکان کے سامنے پھراؤں اور جیوری کے ارکان سے رحم کی اپیل کروں لیکن میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا کہ یہی وہ رسم و رواج ہیں جن کی میں نے ساری زندگی مخالفت کی ہے اور اب اس عمر میں ان سے پھر جانا میرے لیکن ممکن نہیں ہے‘‘۔
سقراط نے جیوری کے ارکان سے سوال کیا کہ ’’آپ لوگوں نے یہ سمجھ کر میرے لیے موت کی سزا تجویز کی ہے کہ مستقبل آپ سے اس بارے میں نہیں پوچھے گا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ میری زندگی کا چراغ گل کر کے آپ اپنی غلطکاریوں پر تنقید کا راستہ روک لیں گے، تو یاد رکھیے، آنے والے وقت میں ایک نہیں کئی ہوں گے جو آپ کو مجرم ٹھہرائیں گے‘‘۔
عدالت جسے سقراط نے ہجوم قرار دیا تھا، اس کے فیصلے کے مطابق اسے جیل میں بند کر دیا گیا۔ مقررہ وقت کے مطابق تیس دن بعد زہر کا پیالہ ہونٹوں کو لگا لیتا ہے۔جمہوریہ ایتھنز قانون کے مطابق، پھانسی کی سزا زہر آلود ہیملاک کا ایک پیالہ پی کر پوری کی جاتی تھی۔
*سقراط نے پیشین گوئی کی تھی کہ تاریخ اس کی سزا کو "ایتھنز کے لیے شرمناک" کے طور پر دیکھے گی۔ اور یہی حقیقت ہے کہ زہر کا پیالہ سقراط کو قتل نہ کرسکا۔*
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Website
Address
Gulshan Iqbal
Karachi
75300
Karachi, 75560
We invite you to enjoy the finest treatment from our talented stylists and estheticians. We will devote all our attention to You, taking care of Your individual needs as you indulg...
Karachi
Victoria Store is an e-store for people with reliable products especially for Health and Beauty with easy payment options and fast delivery all over Pakistan.
Saddar Karachi
Karachi, 75500
Shop Makeup Cosmetics Perfume Beauty Products Apparel Mens Fashion Womens Fashion Shoes Jewlery And Much More Online From Saddar Bazar
RASHID MINHAS Road KARACHI
Karachi
All kind of makup & skin care hair care products available for U