HelpMe drugs Rehabilitation centre
مُعاشرے میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تدارک و علاج کے لیے ایک ادارہ،جہاں غریبوں کامفت علاج ہو
نشے سے انکارزندگی سےپیار،،،drug free zone
تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائ کرنےوالےملزمان کی لسٹیں تیار کر لی گئی ہیں،
Logo
مسعود محبوب خان
عالمی سطح پر ہر سال 26 جون کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف علامتی طور پر ایک دن منایا جاتا ہے۔ جس کا بڑا مقصد لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہے کہ منشیات یا ڈرگس کا استعمال کتنا نقصاندہ اور کتنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ کیا حجت تمام کرنے کی غرض سے ایک دن منا کر اس بھیانک و خطرناک انسانیت سوز کاروبار کا استعمال بند ہو جائے گا؟ اس کے لیے عوامی و سماجی اور حکومتی سطح پر مستقل ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ تب کہیں جاکر اس ناسور زدہ عفریت نما لعنت سے معاشرے کو پاک و صاف کرسکتے ہیں۔
منشیات یا ڈرگس ایک ایسا موذی مرض اور عفریت ہے، جس نے لاتعداد خاندانوں کی زندگیاں تباہ و برباد کردی ہیں۔ منشیات کے کاروبار و مرض میں مبتلا ہونا نہ صرف انسان کی اپنی ذات اور اس کی زندگی، بلکہ گھر، معاشرے اور قوم کو تباہ و برباد کرنے کے مترادف ہوگا۔
میں نے بہت قریب سے منشیات کی عادت میں مبتلا نوجوانوں کو دیکھا ہے۔ واقعی وہ مناظر دیکھ کر منشیات فروشوں کے لیے دل سے بددعائیں نکلتی ہیں۔ منشیات کے عادی افراد کی زندگی تو ایک عذاب بنتی ہی ہے مگر اس سے وابستہ خاندان اور عزیز و اقارب کا جینا بھی اجیرن ہو جاتا ہے۔ رشتوں پر ضربیں لگتی ہیں، جس کے نتیجے میں ختم نہ ہونے والی دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ منشیات کے عادی افراد کو حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی، معاشی مسائل اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، جرائم و زنا خوری میں اضافہ ہوجاتا ہے، سڑک حادثہ، قتل و غارتگری، غیر طبعی اموات کی شرحیں اپنی اونچائیوں کو چھونے لگتی ہیں۔ شاید انہیں وجوہات کی بنا پر منشیات کو لعنت بھی کہا جاتا رہا ہے۔
منشیات سے مراد تمام وہ چیزیں ہیں، جن سے عقل میں فتور اور فہم و شعور کی صلاحیت بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ لفظ منشیات یا ڈرگس کا اطلاق ہر اس شئے پر ہوتا ہے، جس میں کسی بھی طرح کا نشہ پایا جائے، خواہ یہ ٹھوس یا مائع کی حالت، قلیل یا کثیر مقدار میں ہو۔ منشیات کی تعریف میں تمام وہ ممنوع دوائیں بھی آتی ہے جنہیں نشہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ نشہ خمارِ زیست ہے، یعنی نشہ سوئی ہوئی زندگی۔ اور ایسی زندگی کا اسلام میں کوئی مقام نہیں۔
مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں: جو چیز بھی نشہ دے (وہ) پَتلی ہو جیسے شراب (یا) خشک ہو جیسے افیون، بھنگ، چرْس وغیرہ حرام ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، ج5، ص329)
منشیات کی بڑھتی وباء:
موجودہ دور میں نشہ آور چیزوں کی اقسام کافی بڑھ چکی ہیں۔ دنیا میں پانچ سو سے زائد ایسے مرکبات یا مفردات موجود ہیں جسے منشیات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس وقت مختلف اقسام کے نشوں کا استعمال ہو رہا ہے، ان نشوں کی دسترس بہت آسانی کے ساتھ غریب طبقے سے لے کر اہل ثروت طبقہ تک ہوتی ہے۔ جس میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ نوجوان نسل کا ہے۔
منشیات کی مقبول عام اور ابھری ہوئی اقسام مندرجہ ذیل ہیں، جس میں گٹکا، سگریٹ، حقہ، شراب، بوٹی، حشیش، افیون، (Ma*****na ) چرس، گانجہ، بھانگ، ہیروئن (سفیدپائوڈر)، مارفین، براؤن شوگر، ڈائی زیپم، صمد بونڈ، انجکشن، کوریکس، ٹینو شربت، کوکین، پٹرول، نشہ آور گولیاں، نشہ آور پکوڑے، بھانگ کے پاپڑ، کریک، گلاس، ایکسٹسی، ایمفیٹامائنز (کرسٹل میتھ یا آئس اسی کی قسمیں ہیں)، ایل ایس ڈی وغیرہ وغیرہ ہیں۔
موجودہ دور میں تو مختلف کیمیکلز، ٹائر پنکچر کا سولیوشن، سردی کھانسی کی دوائیوں اور اس طرح کے روز مرہ زندگی میں استعمال شدہ جس کی دسترس آسانی سے ہو، اسے بھی نشہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جن میں جوتوں کی پالش، اینک فلوڈ (fluid ink)، کلر پینٹ اسپرے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
دنیا بھر کے ممالک میں منشیات کے استعمال پر پابندی کے قوانین بظاہر موجود ہیں، اس کے استعمال کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی تاریخ۔ انسان نے اس کا استعمال کب شروع کیا اور سب سے پہلے کس نے منشیات کا استعمال کیا اس بارے میں صحیح اندازہ لگانا تو انتہائی مشکل ہے۔ تمام بڑے عالمی مذاہب نے منشیات کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کے باوجود اس لعنت نے جس تیز رفتاری کے ساتھ قدم جمائے ہیں اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی جڑیں گہرائیوں تک پھیل گئی ہیں۔
منشیات اور عالمی و ملکی صورتحال:
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کی طرف سے جاری کردہ 2021ء ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 275 ملین افراد نے منشیات کا استعمال کیا۔ کچھ اندازوں کے مطابق، دنیا میں منشیات کی اسمگلنگ کی تجارت 650 بلین ڈالرز سے زائد تک کی ہے۔ جبکہ 36 ملین سے زائد افراد منشیات کے استعمال کی خرابی کا شکار تھے۔ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ امریکا میں ہوتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔
آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) کے ذریعہ کئے گئے سروے کے مطابق ملک میں تقریباً 8,50,000 انجیکشن کے ذریعے ڈرگس لیتے ہیں، قریب 4,60,000 بچے اور 18 لاکھ بالغ سونگھ کر نشیلی ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ نیشنل ڈرگ ڈپنڈنٹ ٹریٹمنٹ سینٹر اور ایمس نے پایا کہ ملک غیر قانونی منشیات کے ایک بڑے مرکز کے طور پر ترقی کر چکا ہے۔
گلوبل برڈن آف ڈیزیز 2017ء کے ڈاٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر قانونی منشیات نے اس سال دنیا بھر میں تقریباً 7.5 لاکھ افراد کی جان لی۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں افیم کے استعمال کا پھیلاؤ عالمی اوسط سے تین گنا زیادہ ہے۔
منشیات کا یہ پھیلتا ہوا کاروبار ملک سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے لیے ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر سال منشیات کے بڑھتے ہوئے کاروبار سے پتہ چلتا ہے کہ اسمگلروں کے حوصلے کتنے بلند ہیں۔ جنہیں قواعد و ضوابط یا قانون کی کوئی پرواہ نہیں۔
ایسی صورتحال میں حکومتوں کو منشیات کے کالے کاروبار کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔ کیوں کہ شعور اور سختی کی مدد سے ہی ان منشیات فروشوں پر لگام کسی جا سکتی ہے۔
منشیات کے متعلق اسلامی احکامات:
دین اسلام میں اللّٰہ تعالیٰ نے شراب کو "ام الخبائث” کہہ کر اس کا استعمال حرام قرار دے دیا ہے، چونکہ اس وقت کے انسانی معاشرے میں شراب نوشی کو ہی نشہ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ خاتم النبیینﷺ نے معاشرے میں نشہ آور چیزوں سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو روکنے کے لیے اس کا استعمال کرنے والے، اس کے کاروبار میں ملوث افراد پر حدیں مقرر کر دی ہیں۔ اسلام نے ہر لحاظ سے اسے روز اول سے ہی قبیح و حرام فعل بتا کر اسے ممنوع قرار دیا ہے۔ دنیا میں تمام مذاہب میں صرف اور صرف دین اسلام کے پاس ہی منشیات کا قلع قمع کرنے کی تعلیمات، صلاحیت و قابلیت موجود ہے۔
نسائی شریف کی حدیث نبویؐ میں شراب کو "ام الخبائث” یعنی تمام جرائم کی ماں قرار دیا اور ابن ماجہ کی حدیث رسولﷺ نے اسے "اُم الفواحش” یعنی بے حیائیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ شراب کی اخلاقی قباحتوں کی اس سے بہتر کوئی تعبیر نہیں ہو سکتی۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جیسے درخت سے شاخیں پھوٹتی ہیں، اسی طرح شراب سے برائیاں۔ (سنن ابن ماجہ: ۳۳۷۲۱) کا نام دے کر اس کے جملہ پوشیدہ عیوب و نقائص بیان کردیے، اسلام نے ہر اس چیز کو جو کسی بھی صورت میں نشہ کا سبب بنتی ہو اس پر حرام کی مہر لگا کر اس کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا۔
اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، "اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا، تاکہ نجات پاؤ۔”
اللّٰہ تعالیٰ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے "شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہاری آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں اللّٰہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے) باز رہنا چاہیئے۔” (المائدہ:91)
ام المؤمنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ سے شہد کی نبیذ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "ہر شراب جو نشہ پیدا کر دے وہ حرام ہے۔” (ترمذی: 1863)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے آیا اور رسول اللّٰہﷺ سے ایک شراب کے بارے میں پوچھا جو ایک اناج (جسے مضر کہتے تھے) نکالا جاتا تھا اور جسے وہ اپنے ملک میں پیتے تھے۔ رسول اللّٰہﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا اس میں نشہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا، ہاں رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ بے شک اللّٰہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی نشہ آور چیز پیئے گا تو ان کو (تینتہ الخبل) پلایا جائے گا۔ انہوں نے پوچھا، اے اللّٰہ کے رسولﷺ! یہ "تینتہ الخبل” کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا جہنمیوں کا پسینہ یا پیپ۔ (مسلم شریف)
شراب و نشہ کے ضمن میں رسول اللّٰہﷺ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک خوبصورت عورت نے اپنے پاس شراب رکھی اور ایک بچہ کو رکھا اور ایک شخص کو مجبور کیا کہ وہ تین میں سے کم از کم ایک برائی ضرور کرے، یا تو وہ اس عورت کے ساتھ بدکاری کرے، یا اس بچہ کو قتل کر دے، یا شراب پئے، اس شخص نے سوچا کہ شراب پینا ان تینوں میں کمتر ہے؛ چنانچہ اس نے شراب پی لی؛ لیکن اس شراب نے بالآخر یہ دونوں گناہ بھی اس سے کرالیے۔ (نسائی: 5666)
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز جو عقل میں بگاڑ پیدا کردے شراب کے زمرہ میں آتی ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس نے نشہ آور چیز کا استعمال کیا اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع ہوگئیں۔
خمر ہر اس شے کو کہتے ہیں جو عقل کو ڈھانپ لے، خواہ وہ کسی بھی شے سے بنی ہو۔ احادیث نبویہﷺ میں خمر کے بارے میں حکم ہے:۔ "كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ”
(ہر نشہ آور شے خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے۔)
انسان کی زندگی، اَعْضاء جسمانی اور صحت اس کے لیے ایک امانت ہے۔ جس کے متعلق اللّٰہ تعالیٰ روز آخرت سوال کرے گا۔ اللّٰہ کی دی ہوئی اس قیمتی امانتوں کے بارے میں کیا جواب دیا جائے گا۔ نشہ کا استعمال اس امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے، اسی لیے رسول اللّٰہﷺ نے نشہ آور اشیاء کے ساتھ ساتھ ایسی چیزوں سے بھی منع فرمایا، جو جسم کے لیے "فتور” کا باعث بنتی ہوں، یعنی ان سے صحت میں خلل واقع ہوتا ہو۔
حضرت ام سلمہؓ مروی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے نشہ آور اور عقل میں فُتور ڈالنے والی) چیز سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد: 3/ 3686)
کنز العمال کی روایت ہے کہ ہر نشہ آور اور تحذیز کی کیفیت پیدا کرنے والی چیزیں حرام ہیں۔
سورہ الاعراف آیت نمبر 157 میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اور وہ خبیث چیزیں حرام کرتا ہے۔)
اور خبیث چیزوں میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان کے لیے مضر ہیں چونکہ محذورات کا شمار بھی خبیث چیزوں میں ہے کیونکہ یہ چیزیں بھی انسان کے لیے مضر ہوتی ہیں، بہر حال اس آیت کے تحت بھی محذورات کا حرام ہونا قرار پایا۔
انسان کا سب سے اصل جوہر اس کا اخلاق و کردار ہے، نشہ انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کرکے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا مرتکب بنا دیتی ہے اور روحانی اور باطنی ناپاکی ظاہری ناپاکی سے بھی زیادہ انسان کے لیے مضرت رساں بن جاتی ہیں، احادیث میں بھی اس کی بڑی سخت وعید آئی ہے اور بار بار آپ نے پوری صفائی اور وضاحت کے ساتھ اس کے حرام اور گناہ ہونے کو بتایا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللّٰہؓ سے آپﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ ” ترجمہ: "جس شئے کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو، اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔” (ترمذی: 1865)
یہ حقیقت ہے کہ عام طور پر نشہ کی عادت اسی طرح ہوتی ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شروع کرتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ زہر آمیز انجکشن کے بغیر اس کی تسکین نہیں ہوتی۔
نشہ کے نقصانات بنی نوعِ انسانی پر روز اول سے ہی عیاں و ظاہر ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان تو خود اس شخص کی ذات و صحت کو پہنچتا ہے، اطباء اس بات پر متفق ہیں کہ شراب اور منشیات ایک سست رفتار زہر ہے، جو آہستہ آہستہ انسان کے جسم کو کھوکھلا اور عمر کو کم کرتا جاتا ہے۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو پاکیزگی، عفت و پاکدامنی، شرم و حیاء اور راست گوئی و راست بازی جیسی اعلیٰ صفات سے متصف اور مزین دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں قبیح و حرام، ناپاک، بے حیائی، بے عقلی، بدگوئی اور بے راہ روی جیسی رذیل و ملعون عادات سے بچنے کا حکم اور امر کرتا ہے۔ لہٰذا اپنی فکر اور اپنے اہل و عیال کی فکر کرکے بدکاری پھیلانے والی اس نشیلی ادویات سے معاشرے کو بچائیں۔ یہ چنگاری رفتہ رفتہ ہر گھر کو متاثر کئے بغیر نہیں چھوڑے گی کیونکہ منشیات کے اس دلدل میں بھی گرفتار ہونا کوئی بعید نہیں ہے۔ کہتے ہیں گھر کے باہر اگر کچرے کا انبار لگ جائے تو اس کی صفائی پر توجہ دینی چائیے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو کچرا اگر گھر میں نہ آسکا تو اس کی تعفن زدہ بدبو گھر کو برباد کردے گی۔
مسلمانوں کے لیے منشیات اور اس جیسی دیگر ایسی ممنوعہ و حرام اشیاء جن کے استعمال کرنے سے عقل میں فتور پیدا ہو سکے، اس کی خرید و فروخت، اس کا استعمال، اس کی کاشت، اس کا کاروبار کرنا، اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لینا، یا کسی اور طریقہ سے اس ناپاک کاروبار کے ساتھ منسلک ہونا حرام قرار دیا گیا ہے۔
انسان منشیات کا استعمال کیوں کرتا ہے؟:
نشہ، خمار، سرور، بادہ و جام اور اس سے جڑے استعاروں، تماثیل اور تشبیہات سے اردو شاعری بھری پڑی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ نشہ اصل میں ہے کیا اور کیوں انسان جان کر بھی اس نقصاندہ مرض کو گلے لگاتا ہے؟
نفسیاتی مسائل: تقریباً 75 فیصد لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔
میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
✤ معاشرتی مسائل:
شراب اور نشہ آور اشیاء معاشرتی آفت ہیں، جو صحت کو خراب خاندان کو برباد، خاص و عام بجٹ کو تباہ اور قوت پیداوار کو کمزور کر ڈالتی ہے۔
نوجوانوں میں نشے کو بطور فیشن اور بطور ایڈوانچر بھی اپنایا جاتا ہے، جو بعد ازاں ان کے لیے چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ منشیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی سگریٹ نوشی اور گٹکا بازی ہوتی ہے۔ یہ منشیات کا گیٹ وے ہوتا ہے جو محض "دوستوں کو خوش کرنا” ہوتا ہے۔
تکلیف دہ صورتحال:
عصمت دری کا سامنا کرنا، طلاق سے گزرنا، کسی عزیز کی موت، مسلسل بیماری، محبت میں ناکامی، بے روزگاری و نوکری کا چھن جانا وغیرہ۔
نشہ آور فرد نشیلی اشیاء کو ایک سہارے اور دکھوں کے مداوا کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ زندگی سے فرار کا سہارا، دکھوں سے وقتی نجات کا سہارا، درد و آلام کے خوف کے خلاف سہارا، احساسِ عدم تحفظ سے نجات کا سہارا۔ مگر یقین جانیے! وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔
منشیات دستیابی کے ذرائع:
اس ضمن میں ڈانس پارٹیوں کو ایک اہم ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ملک کی میٹرو پولیٹن سیٹیز اور بڑے بڑے پوش علاقوں میں نہایت عمدہ رہائشی عمارتوں کے اندر منشیات کی فراوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں صرف جوڑے شرکت کرتے ہیں ان ڈانس یا ریو پارٹیز میں سلیبریٹیز، مہنگی و خوبصورت ماڈلز اور رقاصاؤں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ شرکاء کو ساری رات ڈانس کرنے کے لیے منشیات و نشیلی ادوایات کا استعمال دھڑلے سے ہوتا ہے، جس کے لیے ہزاروں یا لاکھوں روپئے وصول کئے جاتے ہیں۔ جس کا مقصد ان نوجوانوں کو پوری رات تر و تازہ اور چاق و چوبند رکھنا ہوتا ہے تاہم یہ منشیات کی گولی دوران خون تیز کر دیتی ہے، بلڈ پریشر بڑھ جانے کے نتیجے میں سروں میں بلڈ کلاٹینگس یا دل کا دورہ پڑھنے کے نتیجے میں انسان مفلوج یا ہلاک ہو جاتا ہے۔
پارٹی کے نام پر شراب نوشی، چرس، کوکین، افہیم اور شیشہ کے نشے کیے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی ہوچکے ہیں جن میں نشئی افراد نشہ کے لیے خرچہ نہ ملنے پر اپنے خاندان کے قریبی عزیز و اقارب کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ نشئی افراد اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے محلہ کے باہر کھڑی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کے شیشے یا پھر ویل کپ، گاڑیوں کے قیمتی لوبوز، چھوٹے بڑے اسپئیر پارٹس، گلیوں کے گٹروں کے ڈھکن اور سرکاری اسٹریٹ لائٹس تک بھی چوری کر لیتے ہیں۔
منشیات کے عادی افراد ہیروئن کا استعمال اور شراب نوشی کثرت سے کرتے ہیں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا نشہ چرس ہے جو تمباکو کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی چشم پوشی اور غفلت و لاپرواہی کے باعث منشیات فروشوں نے مسلم علاقوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ قبرستانوں، درگاہوں کو بھی محفوظ نہیں رکھا ان کم ضرفوں نے۔ منشیات کے ان کمینے اور غلیظ نشئیوں کے لیے قبرستان، درگاہیں جیسے پاک مذہبی مقامات، محفوظ پناہ گاہیں بن گئیں ہیں۔ ان مقدس مقامات کو اس غلاظت سے پاک کرنا بہت ضروری ہے۔
منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ اس بڑھتی تعداد کے کئی اہم وجوہات ہو سکتے ہیں جس میں اس کی کاشت کا ہونا اول الذکر ہے۔ اسی طرح اس غلاظت کا بڑھتا کاروبار، بآسانی دستیابی، تشدد کی لہر، سماجی اثر، بے روزگاری و دیگر گوناگوں مسائل سے پیدا شدہ صورتحال، قومی شاہراہ پر اکثر و بیشتر ڈھابوں کی بھرمار، راتوں رات امیر بننے کا خواب جیسے دیگر اسباب پائے جاتے ہیں۔ اس طرح منشیات کی کثرت اور اس کے مسلسل بڑھنے کے نتیجے میں پوری نوجوان نسل کا مستقبل یقیناً بْرباد ہوتا جا رہا ہے اور صورتِ حال بہت تشویشناک ہے۔ مزید کہ فکر مندی اور انسداد کی کوشش بہت کم ہو رہی ہے۔
منشیات نوجوان نسل کی تباہی:
سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ نوجوان جو کسی بھی قوم کی ریڈھ کی ہڈی تصور کئے جاتے ہیں وہ سب سے زیادہ منشیات سے متاثر ہیں۔ منشیات کی لت نے کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
گھر کے نوجوان فرد کا نشے میں مبتلا ہونے کا اثر پورے خاندان پر پڑتا ہے، خاص طور پر وہ نوجوان جنھیں والدین اعلٰی تعلیم کے لیے کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا حصہ بننے کے ساتھ والدین کا سہارا بنیں۔ لیکن افسوس کہ چند نادان اْن میں سے غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ منشیات کے مکروہ کاروبار میں ملوث شیطان نما انسانوں اور موت کے ان سوداگروں نے کروڑوں روپے کی لاگت سے جدید لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں، جہاں وہ دن رات نت نئے اقسام کے زہریلے و خطرناک کیمیکلز کی آمیزش سے انتہائی نشے آور زہر تیار کروا کر نئی نسلوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں کھلے عام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں منشیات استعمال کرتے ہیں۔ منشیات فروشوں کے گروہ باقاعدہ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز میں منشیات فراہم کرتے ہیں۔ منشیات ہمارے نوجوانوں کے مستقبل اور آخرت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔
برصغیر ہند و پاک میں منشیات کے استعمال کا رجحان روس افغانستان جنگ کے بعد بڑھا۔ منشیات جس کی وجہ سے نوجوان نسل بالخصوص اور پوری قوم و ملت بالعموم بری طرح سے متاثر ہوئی اور ہو رہی ہے۔ مسلمانوں میں منشیات کے استعمال کی بنیادی وجہ بے دینی کا مظاہرہ کیونکہ اسلام میں تو منشیات قبیح و حرام چیزوں میں شمار ہوتی ہیں، نشہ آور اشیاء کے استعمال کے نقصانات سے بے خبری ہے۔
سگریٹ نوشی اور چرس کے استعمال کے علاوہ گزشتہ ایک دہائی سے نوجوان نسل میں ایک نئے نشہ نے تیزی سے اپنا اثر چھوڑا ہے لڑکوں حتی کہ لڑکیوں میں بھی شیشہ کا استعمال ایک فیشن بن کررہ گیا ہے، بڑے شہروں کے بعد چھوٹے شہروں میں چوری چھپے شیشہ کلب کھل گئے۔ ان کلبوں میں نشہ کرنا ماڈرن فیشن بن گیا ہے۔
شیشہ کے نشے کے ساتھ ہی ساتھ آج کل آئس نشہ نے بھی ہماری نوجوان نسل کے ایک بڑے طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ آئے دن خاص طور پر بڑے شہروں میں قائم تعلیمی اداروں میں منشیات خاص طور پر "آئس” یا "کرسٹل میتھ” کا نشہ فروغ پا رہا ہے۔ کرسٹل نما بڑے دانے والے نمک کی شکل کا یہ سفید رنگ کی چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جب کہ نشہ کرنے والے اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔
"آئس” کا نشہ کرنے والے اکثر افراد شدید ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ "آئس ہیروئن” کی لت انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بنا دیتی ہے۔ اس کا عادی انسان ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔
نوجوان نسل میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ نشے کو کبھی مذاق میں بھی استعمال نہ کریں اور نہ ہی کسی نشہ کرنے والے یا بیچنے والے شخص کے ساتھ دوستی کی جائے۔ کیونکہ جب آپ ایک مرتبہ کسی منشیات فروش یا استعمال کرنے والے شخص کے چکر میں پھنس کر نشے کے عادی بن جاتے ہیں تو پھر ساری زندگی اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے جو کہ تباہی و بربادی پر منتج ہوتی ہے۔
خواتین میں منشیات کا بڑھتا رحجان:
چند برسوں سے ہمارے معاشرے میں خواتین بھی نشے کی عادت میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں۔ منشیات کا باآسانی دستیاب ہونے کی وجہ سے خواتین و طالبات کی تعداد میں آئے دن اضافہ نظر آتا ہے۔ جو تفریح کی غرض سے یا پھر ذہنی الجھنوں سے وقتی طور پر نجات حاصل کرنے کے لیے منشیات کا استعمال شروع کرتی ہیں۔
ابتداء میں خواتین میں تمباکو نوشی عام ہوئی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسری نشہ آور ادویات اور نشہ آور انجکشن کا استعمال بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں خواتین کی جانب سے حقہ پارٹی کا اہتمام بھی اس قبیح فعل کو تقویت پہنچاتا ہے۔ خواتین میں منشیات کے استعمال کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں سر فہرست مذہبی، دینی و سماجی تربیت کا فقدان، کشیدہ گھریلو حالات، افلاس و غربت، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کے ذریعے بری صحبت، انٹرنیٹ کا مس یوز وغیرہ شامل ہوتا ہیں۔
خواتین کا دوران حمل منشیات کا استعمال جاری رکھنے کے نتیجے میں ان کے پیدا ہونے والے بچے پیدائشی طور پر منشیات کے عادی ہوتے ہیں اور بچپن ہی سے بے شمار سنگین طبی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
منشیات میں چرس کا استعمال خواتین میں نسبتاً زیادہ ہے اس وجہ سے وہ نشے کی عادی ہوتی ہیں۔ علاج کے سینٹر سے رابطہ تو کرتی ہیں لیکن 98 فیصد نشے کی عادی خواتین علاج کے لیے سینٹرز پر نہیں آتی ہیں۔ خواتین کے علاج سے دور رہنے کی بڑی وجہ اُن کے لیے ناکافی سہولتیں اور علیحدہ مراکز کا نہ ہونا ہے۔
خبروں کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں خواتین منشیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ منشیات فروشی میں بھی ملوث رہتی ہیں۔ منشیات فروش خواتین کا گروہ اپنا ایک نظام اور طریقۂ کار چلاتا ہے۔ عالمی سطح پر بھی منشیات کی بڑی بڑی اسمگلر خواتین رہی ہیں جو کارٹیل و اس طرح کے سینڈیکیٹ کی لیڈر بھی بنی ہیں۔
منشیات کا استعمال صرف یہی نہیں کہ مذہبی اور اخلاقی طور پر ممنوع ہے بلکہ اس کی پیداوار اس کی خرید و فروخت کرنے والے بھی مذہبی اور اخلاقی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ منشیات کے استعمال سے دل، جگر، معدہ، پھیپھڑوں کی بیماری، فالج، ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض کا شکار ہوکر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں۔ نشہ آور اشیاء باآسانی دستیاب ہیں۔ اپنی نشہ کی خوراک کو حاصل کروانے کے لیے نشہ کا عادی شخص دوسرے شخص کو اس کا عادی بنانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
تدارک منشیات:
معاشرے میں نشے کی لت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا، جس سے کئی گھروں کے چراغ گل ہورہے ہیں۔ کئی گھر بھوک مری اور قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ اگر معاشرے کو اس ناسور وباء سے پاک کرنا ہے، تو پھر دینی جماعتوں، تنظیموں، اداروں، علمائے کرام، دانشورانِ ملت اور سیاسی قائدین کو خلوص و للہیت، صبر و استقامت اور غیر جانبداری کے ساتھ بغیر کسی خوف و دہشت اور دباؤ کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھنا ہوگا۔
منشیات جیسی لعنت کے خاتمے اور اس کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے بے شمار این جی اوز اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جب کہ ٹریٹمنٹ سینٹرز کی کمی بھی شدت سے محسوس کی جاتی ہے، جہاں مختلف نشوں کے شکار ان افراد کی بحالی اور علاج ممکن ہو سکے۔ منشیات کے خاتمہ کے لیے علما کرام، دانشورانِ ملت، اساتذہ سمیت ذرائع ابلاغ پر انتہائی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔
اہل اقتدار و انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور منشیات فروش گروہوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ لیکن نشے کی لت میں مبتلا افراد کی اصلاح میں بہت بڑی رکاوٹ منشیات فروش اور انتظامیہ میں چپھی کالی بھیڑیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات فروشوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ حکومتی سطح پر کوششوں کے علاؤہ لاتعداد غیر حکومتی تنظیمیں NGO,s بھی انسدار منشیات کے حوالے سے سر گرم عمل ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس لعنت سے چھٹکار حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔
آئس نشے کے نقصانات
ویسے تو منشیت کی ساری اقسام ہی انسان کو اندر سے کھوکھلا کرکے موت کے دہانےپرپہنچا دیتی ہیں لیکن بین الاقوامی ریسرچ کے مطابق "آئس” نشہ دیگر تمام منشیت کی اقسام سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے، اسے استعمال کرنے والے کو ابتدا میں تو سرور و مزے کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ طاقت وراورذہین کوئی نہیں لیکن اصل میں یہ اس نشےکی وہ لالچ ہے جو اسے استعمال کرنے والے کو مزید نشہ کرنے پرمجبورکرتی ہےاورچند دنوں میں عادی بن جانے کےبعد اس پینے والا سخت چڑچڑے پن اورموڈسوئنگ کا شکارہوتا ہے،اسکےبعد اسکی بھوک پیاس ختم ہوجاتی ہےجواسےجسمانی طورپرانتہائی کمزورکردیتی ہےاوررفتہ رفتہ اسےاپنےدل و دماغ پرکنٹرول نہیں رہتا۔
دماغی کنٹرول پر گرفت کمزور ہونے کے بعد "آئس” نشے کا عادی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، دوست میں تمیز کھو بیٹھتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں "آئس " نشے کے عادی افراد کی جانب سے ہی "ریپ” اور زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں جو اس نشے کا خطرناک ترین پہلو ہے۔پھر اس نشے کا عادی فرد ہلکے ہلکے جرم کی جانب مائل ہونا شروع ہوجاتا ہے اس کے اندرسماج کے خلاف نفرت بیدار ہوتی ہے جو اسے جرم کے دوران سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
کئی سال تک آئس کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی انھیں مارنے کے لیے سازش کررہا ہے۔
ماہرین کے مطابق آئس نشے کا جس طرح سے نوجوان نسل میں استعمال بڑھتا جارہا ہے اگر اس پر بروقت قابو نہیں پایا گیا تو دنیا بھرمیں یہ نشہ نوجوانوں کو وقت سے پہلے بوڑھا بنانے اور ان کی صلاحیتوں کے خاتمے کے ساتھ انھیں مجرم بنانے کا باعث بن سکتا ہے اور اگرچہ ہر نشے کا انجام دردنک موت ہوتا ہے لیکن آئس نشے کا عادی "خطرناک پاگل پن” کا شکار ہوکر اپنے اور اپنے خاندان و معاشرے کیلئے کسی پاگل کتے سے زیادہ خطرنک ثابت ہوسکتا ہے اس کامطلب سوائے تباہی، بربادی اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
ائس کا نشہ
منشیات کا استعمال پوری دنیا کیلئے ایک ایسے عفریت ک روپ اختیار کرچکا ہے جس سے نمٹنے کیلئے پوری پوری حکومتی مشینریاں کام کررہی ہیں لیکن اس کا استعمال ہو یا اس کی خریدوفروخت یہ پھر بھی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔
منشیات کی بےشماراقسام تومارکیٹ میں پہلےسے تھیں ہی لیکن موت کے سوداگر مسلسل اس جستجو میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح کو ئی نیا نشہ تیار کیا جائے تاکہ پرانے خریداروں کے ساتھ نئے لوگوں کو بھی اس جانب متوجہ کرکے انھیں اس کا عادی بنائیں اور اندھی دولت کمائیں، ایسا ہی ایک نشہ ہے جسے "آئس” کا نام دیا گیا ہے۔
"آئس” نامی اس نشے کو چند سال پہلے ہی مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا ہے اور اسے یہ نام اسکی کرسٹل حالت یا برف جیسی صورت کی بنیاد پر دیا گیا ہے، آئس نشے میں "میتھا مفیتامین” نامی ملہک دوا کو دیگر خطرناک کیمیکلز کے ساتھ ملا کر بنایا جاتا ہے، یہ دوا انتہائی غنودگی کیلئے کسی خطرناک اورجان لیوا مرض میں مبتلا مریض کو کچھ دیر کے سکون کیلئے دی جاتی ہے اور اس کا کام صرف دماغ کو کچھ دیر کیلئے تھپک کر سلادینا ہے جس سے مریض کچھ دیر کیلئے درد و اذیت سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔
آئس نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے انجیکشن کے ذریعے سے بھی جسم میں اتارا جاتا ہے۔
Anti crime Anti Drug,,ACAD
رپورٹ محمد شمعون نذیر
اینٹی کراہم&اینٹی ڈرگز ٹیم کا قیصر شہزاد کھوکھر کی قیادت میں منشیات کے خلاف جہاد جاری اسی سلسلے میں گزشتہ روز منشیات
ڈرگ کرائم میں جکڑے ہوۓ نشہ کے عادی آفراد کی زہنی تربیت کے لیے قیصر شہزاد کھوکھر کی ٹیم نے ریلیف سنٹرکا وزٹ کیا
اسی حوالے سے جانتے ہیں شمعون نذیر کی اس رپورٹ میں
Anti crime and anti drug ACAD
نشے سے پاک معاشرہ،،اپنے لیے،اپنے بچوں کے لیے،،،ہمارا ساتھ دیں
NED university aur karachi university k samnay nashy bazo ka qabza,,kholay aam nasha supply
NED aur karachi university k samnay nashay bazo ka thikana ban gaya h jahan university k students bhi behty aur nasha krty nazar aty h
مجھے کچھ ہم خیال لوگوں کی ضرورت ہے جو مل کے نوجوان نسل کو نشے کی تباہ کارویوں سے متعلق آگاہی دے سکیں ،،
زندگی ایک نعمت،،،
iran earthquake,,boy message from under the rubble Video from S
ناکامی سے کامیابی کا سفر
Plz. Follow my page ,,
اپنے لیے اپنے بچوں کے لیے منشیات سے پاک معاشرہ
Female Students Brutally Beat Classmate in Lahore's Defence School | Breaking News | Capital TV Female Students Brutally Beat Classmate in Lahore's...
منشیات میں چرس کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ لاعلمی کی بنیاد پر چرس کو ایک بے ضرر نشہ سمجھا جاتا ہے، نوجوان گٹکا کھانے کے نفع ونقصان کو جانے بغیر تفریح اور شوق کے طور پر گٹکا کھانے لگتے ہیں اور۲۰-۲۵ سال کی عمر تک پہونچتے پہونچتے اپنی زندگی کو سنگین مصیبت میں ڈال دیتے ہیں ۔ گٹکے کے عادی نوجوانوں کے منہ کی کھال سخت ہوتی ہے۔ اور آخر کار وہ کینسر کے مرض میں مبتلاء ہوجاتے ہیں ۔ جب کہ تحقیق بتاتی ہے کہ 90 فیصد لوگوں نے نشے کا آغاز چرس سے کیا ہوتا ہے۔ شراب اور چرس کے استعمال کے ایک جیسے نقصانات ہوتے ہیں اور یہ دونوں انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔
21 سال سے 30 سال کی عمر میں نوجوان جب چرس کا نشہ کرتے ہیں تو ان میں سیکھنے اور مسائل کے حل کی صلاحیت نہ صرف ختم ہوجاتی ہے بلکہ اسے دوسرے جسمانی امراض میں مبتلا کردیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عمر کا یہی حصہ سیکھنے کے عمل میں زیادہ اہم ہے۔ نشے کا آغاز عام طور پر تفریحاً کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے دوست و احباب نشے کی دعوت دیتے ہیں یا کسی کی دیکھا دیکھی یا چوری چھپے انسان اس غلط عادت کو اختیار کرلیتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ عادت بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے، مستقل نشہ کرنے کی صورت میں نشہ کرنے والوں کا جسم تیزی سے نشے کی مقدار کو ضائع کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے اس طرح نشہ کرنے والے مجبوراً اس کی مقدار میں اضافہ کرتے جاتے ہیں ۔ اس طرح مختلف نشے کرنے والوں کی زندگی کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں اور نشے باز کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیتے ہیں
مزید پڑھیں ⇦
نشہ کے دلدل میں دھنستے ہمارے بچے، ذمہ دار کون؟ - مضامین ڈاٹ کام نشے کی عادت سے چھٹکارہ پانے کے لئے گھر والے مختلف قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں ڈاکٹرس کو بتاتے ہیں حکیموں سے علاج کرواتے ہیں ۔ مولانا حضرات سے اس تعلق سے مشورہ لیا جات....
اپنے علاقے کو اپنا شہر کو "منشیات سے پاک زون" بنانے میں ہمارا ساتھ دیں، بچوں کو ایک اچھا مستقبل دینے کےلیے صاف ستھرے معاشرے کا قیام ضروری ہے
Apny area ko apny city ko "drug free zone" banany m hamara sath dy , bacho ko aik acha mustaqbil deny k saaf sothray mashray ka qayam zarori h
معاشرہ اور ثقافت
انسانی زندگی پر منشیات کے خوفناک اثرات
مسعود محبوب خان اشاعت 23 جون، 2022
مسعود محبوب خان
عالمی سطح پر ہر سال 26 جون کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف علامتی طور پر ایک دن منایا جاتا ہے۔ جس کا بڑا مقصد لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہے کہ منشیات یا ڈرگس کا استعمال کتنا نقصاندہ اور کتنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ کیا حجت تمام کرنے کی غرض سے ایک دن منا کر اس بھیانک و خطرناک انسانیت سوز کاروبار کا استعمال بند ہو جائے گا؟ اس کے لئے عوامی و سماجی اور حکومتی سطح پر مستقل ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ تب کہیں جاکر اس ناسور زدہ عفریت نما لعنت سے معاشرے کو پاک و صاف کرسکتے ہیں۔
منشیات یا ڈرگس ایک ایسا موذی مرض اور عفریت ہے، جس نے لاتعداد خاندانوں کی زندگیاں تباہ و برباد کردی ہیں۔ منشیات کے کاروبار و مرض میں مبتلا ہونا نہ صرف انسان کی اپنی ذات اور اس کی زندگی، بلکہ گھر، معاشرے اور قوم کو تباہ و برباد کرنے کے مترادف ہوگا۔
میں نے بہت قریب سے منشیات کی عادت میں مبتلا نوجوانوں کو دیکھا ہے۔ واقعی وہ مناظر دیکھ کر منشیات فروشوں کے لئے دل سے بددعائیں نکلتی ہیں۔ منشیات کے عادی افراد کی زندگی تو ایک عذاب بنتی ہی ہے مگر اس سے وابستہ خاندان اور عزیز و اقارب کا جینا بھی اجیرن ہو جاتا ہے۔ رشتوں پر ضربیں لگتی ہیں، جس کے نتیجے میں ختم نہ ہونے والی دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ منشیات کے عادی افراد کو حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی، معاشی مسائل اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، جرائم و زنا خوری میں اضافہ ہوجاتا ہے، سڑک حادثہ، قتل و غارتگری، غیر طبعی اموات کی شرحیں اپنی اونچائیوں کو چھونے لگتی ہیں۔ شاید انہیں وجوہات کی بنا پر منشیات کو لعنت بھی کہا جاتا رہا ہے۔
منشیات سے مراد تمام وہ چیزیں ہیں، جن سے عقل میں فتور اور فہم و شعور کی صلاحیت بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ لفظ منشیات یا ڈرگس کا اطلاق ہر اس شئے پر ہوتا ہے، جس میں کسی بھی طرح کا نشہ پایا جائے، خواہ یہ ٹھوس
مزید پڑھیں ⇦
انسانی زندگی پر منشیات کے خوفناک اثرات - مضامین ڈاٹ کام ہمیں بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ اس دلدل میں پھنسے لوگوں کی ذہنی صفائی کرکے انہیں صحیح راہ پر گامزن کرنا چاہیے اور سماج کے تئیں ایک فکر مند شہری کے طور پر اپنا منفرد کردا...
معاشرے میں نشے کی لعنت عام ہونے کے اسباب و محرکات کیا ہیں؟ ذیل میں ان سے متعلق چند اہم امور کا جائزہ لیا جارہا ہے :
(۱) ایمانی جذبہ اور خوف خدا کی کمی
ہمارے سماج میں منشیات کی وباء عام ہونے کی سب سےپہلی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایمانی جذبات کمزور اور سرد پڑگئے ہیں، بے خوفی اورجرأت بڑھ گئی ہے، اللہ کا خوف رخصت ہورہا ہے، موت کی یاد سے غفلت عام ہے، آخرت کی فکر اور بارگاہ رب العزت میں حاضری اور جواب دہی کا استحضار باقی نہیں رہا ہے ، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گناہوں کی طرف لوگ سرپٹ دوڑے جارہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کی لگام ان کے نفس کے قبضے میں ہے، اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب انسان دین و شریعت کی لگام اپنے اوپر سے ہٹا دیتا ہے، توپھر اللہ کی امان سے محروم ہوجاتا ہے اور اللہ کو پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ وہ ہلاکت کے کس کھڈ میں جاگرا، قرآن میں فرمایا جارہا ہے:
’’بلاشبہ اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ،اور ا گر اللہ کے علم میںان کے اندر کوئی بھلائی ہوتی تو وہ ان کو سننے کی توفیق دے دیتا،لیکن اب جب کہ ان میںبھلائی بھی نہیں ہے، اگر ان کو سننے کی توفیق دے بھی دے تو وہ منھ موڑ کر بھاگ جائیں گے۔‘‘ ( الانفال/ ۲۲-۲۳)
مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی
منشیات کا بڑھتا ہوا رواج
منشیات کے رواج کے بنیادی اسباب و محرکات:
اس وقت پور ی دنیا میں منشیات کے استعمال کا جو عام رواج چل پڑا ہے، خاص طور سے نوجوان نسل جس بری طرح سے نشے کی لت میں مبتلا ہورہی ہے، وہ ہر صاحب فکر کے لئے بے حد تشویش ناک صورت حال ہے، تمام احتیاطی تدبیروں کے باوجود منشیات کے استعمال کی شرح میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، دولت کی ہوس نے سرمایہ داروں کو اتنا اندھا کردیا ہے کہ وہ مسلسل منشیات کے کاروبار کو مختلف خوش نما ٹائٹلوں کے ساتھ بڑھاوا دے کر نوجوانوں کو جسمانی و اخلاقی، اقتصادی و معاشرتی ہر اعتبار سے بد حالی کی آخری سطح تک پہنچانے کے درپے ہوچکے ہیں، مختلف خورد و نوش کی چیزوں(مثلاً چاکلیٹ وغیرہ) میں مخفی طور پر نشہ آور مادے شامل کر کے نوجوانوں کو ان کاعادی بنایا جاتا ہے اوراس طرح پھر ان کو منشیات کا خوگر کردیا جاتا ہے ، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پہلے سے کہیں زیادہ آج محسو س کی جاسکتی ہے:
’’میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے، لیکن اس کوشراب کانام نہیں(بلکہ کوئی اورنام) دیں گے۔ ‘‘( نسائی/۵۶۶۱)
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the business
Telephone
Website
Address
Near City Farm House, Behria Town Karachi
Karachi
74900