قلمکار

An Scholar is batter than a worshiper,

05/04/2022

زندگی سبق دے ہی دیتی ہے کہ کس کو کہاں رکھنا ہے۔

28/02/2021
25/10/2020
09/07/2020
سلسلہ اصلاحِ نماز (آٹھویں کلاس)۔ 03/05/2020

سلسلہ اصلاحِ نماز (آٹھویں کلاس)
https://youtu.be/E2gBoJ7uQQc

سلسلہ اصلاحِ نماز (آٹھویں کلاس)۔ سلسلہ اصلاحِ نماز کی آٹھویں کلاس نماز کے فرائض آئیے اور اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئیے

سلسلہ اصلاحِ نماز (ساتویں کلاس)۔ 01/05/2020

سلسلہ اصلاحِ نماز (ساتویں کلاس)
ائیے نماز کے فرائض جانئیے اور اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئے

https://youtu.be/-Dpr9pGdS3U

سلسلہ اصلاحِ نماز (ساتویں کلاس)۔ سلسلہ اصلاحِ نماز (ساتویں کلاس) ائیے نماز کے فرائض جانئیے اور اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئے

سلسلہ اصلاح نماز( پانچویں کلاس 27/04/2020

سلسلہ اصلاح نماز پانچویں کلاس

https://youtu.be/QOcGAc8slME

سلسلہ اصلاح نماز( پانچویں کلاس سلسلہ اصلاح نماز پانچویں کلاس کی ویڈیو غسل کا مکمل طریقہ

سلسلہ اصلاح نماز (چوتھی کلاس) 26/04/2020

https://youtu.be/7NUW6vKjCA4

سلسلہ اصلاح نماز (چوتھی کلاس) سلسلہ اصلاح نماز کی چوتھی کلاس

25/04/2020

السلام علیکم
ایک مرتبہ پھر مساجد کی بندش کا اعلان ہوا.... اکثر مساجد کے ائمہ اور انتظامیہ نے جمعہ اور پھر پہلی تراویح کا انعقاد کیا.... صدر مملکت کی اعلان کردہ ایس او پیز کو ملحوظ رکھتےہوئے نماز ہوتی رہی.... اگلے ہی دن ملحقہ تھانوں سے مساجد کےائمہ کو نوٹس پہنچائے جاتے ہیں..... جس میں سختی سے مسجد بند کرنے کا حکم ورنہ دفعہ 188 کے تحت مقدمہ دائر ہونے کی دھمکی ہوتی ہے.... ائمہ اور انتظامیہ نماز تراویح کے لئے مسجد بند کردیتے ہیں.... عوام میں اعلانات کئے جاتے ہیں کہ تراویح گھروں میں پڑھیں.... عوام مشتعل ہوجاتی ہے مساجد کے دروازوں پر جمع ہوکر شورو غل کیا جاتا ہے....یہ روئیدادہے کراچی کی بیشتر مساجد کی.... اب چند باتیں ہیں جن پر سکون اور اطمینان سے بیٹھ کر غور کریں....
1.اس سب میں ائمہ مساجد کا کیا قصور ہے؟؟
2.کیا عوام اپنے امام کی بات مانتی ہے کہ انتظامیہ ان کی بات سنے؟
3.ائمہ نے بار بار اعلانات کئے کہ فرض کی ادائیگی کے بعد مسجد میں موجود نہ رہیں لوگ رکے؟
4.بار بار محراب سے اعلانات کئے گئے کہ 50 سال سے زائد عمر کے لوگ مسجد میں نہ آئیں اور بچوں کو نہ لائیں... عوام رکی؟
5.بعض مساجد کےائمہ اور انتظامیہ کے افراد کو گرفتار کیا گیا کتنے لوگوں نے ان کی رہائی کی کوشش کی؟
6. مسجد کی انتظامیہ مسجد کے اخراجات کے لئے نمازیوں کی آمد کی خواہش کرتی ہے نہ کہ مسجد کی بندش کی کیا ہم نے اسے سمجھا؟
7. چند فتنہ باز لوگوں کے بہکاوے میں آکر کیا ہم نے مسجد کے تقدس اور اپنے ائمہ کے تقدس کو پامال نہیں کیا؟
8.ان مشکل حالات میں کتنے لوگوں نے مساجد کی اور اپنے ائمہ کی ضروریات کا خیال کیا؟
9. کیا مسجد کی بندش کے نوٹس پر تھانوں میں جاکر احتجاج کیا؟ جبکہ جانے کی جگہ وہی ہے.
میرے محترم دوستو!
جب ہم اپنے علماء پر اعتماد نہیں کریں گے اور ان کا کسی مشکل میں ساتھ نہیں دیں گے تو کیا صرف ان پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خلاف مقدمات دائر کروا کر ذلت اٹھائیں.... ؟؟
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مساجد جتنی کھل رہی ہیں یہ بھی ان علماء کی محنت کا صلہ ہے اور انتظامیہ کی خیر اندیشی ہے وگرنہ حکومت کے احکام سب کے سامنے ہیں...اس لئے کسی منفی پروپیگنڈہ کا حصہ نہ بنیں....صبر کا دامن تھامیں اور دعا کریں اور اپنے علماء اور ائمہ کی پیروی کریں اور ان کی بات مانیں.... یقین جانیں اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں جو ماہ رمضان میں ہی مسجد میں داخل ہوتے ہیں جبکہ ائمہ سال کے تمام دن مساجد میں موجود ہوتے ہیں اور مساجد کی یہ بے رونقیاں خود انہیں خون کے آنسو رلاتی ہیں.... غلط نہ سمجھیں بس صبر اور اطمینان کے ساتھ رہیں اور ان مشکل دنوں میں اپنے ائمہ اور علماء کا دست و بازو بنیں....ان کی کونچیں نہ کاٹیں...
جزاک اللہ
سعید احمد اشرفی

اصلاح نماز (تیسری کلاس) 24/04/2020

اصلاح نماز (تیسری کلاس)
https://youtu.be/KswRn1_OynQ

اصلاح نماز (تیسری کلاس) وضو کا مکمل سنت طریقہ

22/04/2020

اصلاح نماز (پہلی کلاس)

https://youtu.be/Mjj1sh9KAL4

05/02/2020

السلام علیکم ورحمۃ اللہ
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ المؤمن للمؤمن کالجسد کہ مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے جسم کی مانند ہے جب اس کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔۔۔آج اسی جسم کا ایک حصہ کشمیر کی صورت میں بد ترین تکلیف میں ہے۔۔ویسے تو دنیا کا کوئی بھی خطہ دیکھیں ہر خطے میں بسنے والا مسلمان کسی نہ کسی صورت ظلم اور زیادتی کا شکار ہے۔۔۔کہیں اپنوں کی ستم ظریفی تو کہیں اغیار کی بربریت کا سامنا ہے۔۔۔لیکن کشمیر شاید وہ واحد خطہ ہے جو بیک وقت اپنوں اور اغیار دونوں کی ستم گری کا سامنا کر رہا ہے۔۔۔۔اغیار کی ستم گری میں عزتیں پامال کرنا، بچوں بڑوں اور بوڑھوں کا بلا امتیاز خون بہانا اور اپنوں کی ستم ظریفی سکوت ،خاموشی اور بے حسی پر محمول ہے۔۔۔۔اب اغیار سے کیا شکایت کریں جب اپنے ہی جرم میں برابر کے شریک ہوں جب اپنا ہی سکہ کھوٹا نکلے۔۔۔اغیار کے ظلم کی طرح اپنوں کی بے حسی بھی مسلسل روز بروز بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔۔۔۔یہاں تک کہ اب تو کوئی پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا پر بھی ان کے حق میں آواز نہیں لگائی جاتی کوئی صدا بلند نہیں کی جاتی۔۔۔۔اگر کی بھی جائے تو محض صدا کس کام کی جب عمل کا جذبہ اور شوق نہ ہو۔۔۔۔کھوکھلے نعروں کا کیا فائدہ جب زبانیں دولت اور جوانی کے نشے میں لڑکھڑا رہی ہوں۔۔۔70 سالوں سے نعروں اور محض صداؤں سے مسئلہ کے حل کی امید لگائے بیٹھے بیوقوفوں کو اگر کشمیری اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کی بھی نادانی ہے۔۔۔۔خیر بہر حال یہ باتیں لاحاصل ٹھہریں۔۔۔۔۔نہ جانے کتنی ایسی صدائیں محض صدائے بازگشت بن کر رہ گئیں جن کی آج گونج تک باقی نہ رہی۔۔۔۔اور ہر ایسی صدا کے جواب میں عوام نے حکمران طبقہ پر الزام دھرے۔۔۔۔جناب یہ حکمرانوں کی بات ہمیں کرنا زیب نہیں دیتا۔۔۔۔کیوں کہ ہم عوام خود بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔۔۔۔ایک کشمیر ڈے پر اپنے نرم گرم بستروں میں سوشل میڈیا پر اسٹیٹس اپڈیٹ کر کے اظہار یکجہتی کو اپنا آخری فریضہ سمجھ کر پورا کرتے ہیں۔۔۔۔۔جب کہ یہ آخری تو کیا شاید پہلا فریضہ بھی نہیں۔۔۔۔مطلوب یہ نہیں کہ اسلحہ لے کر میدان جنگ میں اتر جائیں مطلوب محض اتنا ہے کہ زندگی ایسے ڈھب پر گذاری جائے کہ رب کفار کے دل میں مسلم قوم کا رعب پیدا فرمادے جو اس قوم کی خصوصیت ہے جیسا کہ رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ نصرت بالرعب کہ رعب کہ ذریعے میری مدد فرمائی گئی۔۔۔۔آج نہ تو ہم گفتار کے غازی ہیں اور نہ کردار کے۔۔۔۔خدارا ہوش کے ناخن لیں اور بجائے حکمران طبقہ کو لعن طعن کے خود اپنی ذات کو اس نہج پر لائیں کہ کم از کم ہمارے کردار سے ہی دشمن خوف میں مبتلا ہو کہ کہیں یہ شیر کچھار سے باہر نہ نکل آئے۔۔۔۔کچھ تو وہ رعب ہمیں بھی عطا ہو جو اس قوم کا خاصہ ہے۔۔۔
یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرمادے جو روح کو تڑپا دے
از قلم
سعید احمد اشرفی

31/03/2018

Saeed Ahmed Ashrafi Salam
This is an official page belonges to Hazrat Allama M***i Saeed Ahmed Ashrafi.
join us for the mission
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی.

Photos from Saeed Ahmed Ashrafi's post 10/11/2017
04/11/2017
03/11/2017

"قائد اعظم کی اکلوتی بیٹی کا انتقال"

جدت پسندوں ملحدوں اور میڈیا کا دھوکہ.....
کمیونزم،روس امریکہ، اسلامی سوشلزم اور جناح....
قائد اعظم محمد علی جناح کی اکلوتی بیٹی جسکا کل انتقال ہوا ہے وہ وہی بیٹی ہے جس سے قائد اعظم نے بائیکاٹ کر دیا تھا.. قائد کی اسی بیٹی کے بارے میں ایک وڈیو عام کی جا رہی ہے جس میں ایک اداکار جناح کے روپ مین ہوتا ہے اور ایک اداکارہ جناح کی بیٹی کے روپ مین ہوتی ہے، ان کے درمیان گفتگو ہوتی ہے، بیٹی کہتی ہے کہ وہ پارسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے اور قائد کہتے ہیں کہ یہاں لاکھوں مسلمان لڑکے ہین ان مین سے کسی سے بھی شادی کر لو منظور ہے مگر پارسی غیرمسلم لڑکے سے شادی منظور نہیں، تب بیٹی کہتی ہے کہ آپ نے بھی تو پارسی عورت سے شادی کی ہے... یہین پے وڈیو ختم ہو جاتی ہے
تبصرہ، جواب:
اس وڈیو مین دھوکہ دیا گیا ہے، جھوٹ بولا گیا ہے، ایسے دکھایا گیا ہے جیسے قائد لا جواب ہو گئے تھے، ایسا دکھایا گیا ہے کہ قائد نے غیرمسلم عورت سے شادی کی
یہ جھوٹ ہے دھوکا ہے... قائد نے غیرمسلم پارسی سے شادی نہین کی تھی بلکہ غیرمسلم پارسی عورت کو مسلمان بنا کر اسکا نام مریم رکھا پھر شادی کی.. جناح کی شادی پارسی سے ہوئی کہنا سراسر جھوٹ دھوکا ہے... ہاں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جناح کی شادی ایسی مسلمان لڑکی سے ہوئی جو پہلے پارسی تھی.. اگر جناح کی بیٹی پارسی لڑکے کو مسلمان بنا کر نکاح کرتی تو کسی کو اعتراض نا تھا...
یہ وہی بیٹی ہے کہ جس نے اسلام قبول نہین کیا اور بالاخر پارسی غیرمسلم لڑکے سے شادی کی، جس میں قائد نے شرکت نہیں کی اور اکلوتی بیٹی سے رشتے ناطے ختم کرکے بائیکاٹ کر دیا تھا... میڈیا لبرل سیکیولر لوگ پوری بات نہین بتاتے دھوکہ دینا منافقت کرنا تاریخ مسخ کرنا غلط مطلب نکالنا انکی عادت ہے... انکے دھوکے منافقت مکاری مین مت آئیے..
جب قائد اعظم کی اکلوتی بیٹی جگر کا ٹکڑا گمراہ بے دین ہوگئ تو آپ نے اسے بہت سمجھایا بہت روکا ٹوکا حتی کہ مولانا شوکت علی کی ذمہ داری لگائی کہ اسے دین اسلام سے روشناس کرائے مگر پھر بھی وہ مسلمان نا ہوئی، پارسی غیرمسلم لڑکے سے شادی کی تو آپ نے اپنے جگر کے ٹکڑے سے بائیکاٹ کر دیا اور پیغام بھیجا کہ:
میرے سامنے آنے کی جرات نہ کرنا،تیرا میرا رشتہ اسلام کے ناطے سے تھا وہ (تیرے غیرمسلم ہوجانے سے)ختم ہوگیا،اب مجھ سے تیرا کوئی رشتہ نہیں..
(قائد اعظم کا مسلک ص388)
دیکھیے قائد کی غیرت.. اسلام کی وجہ سے جگر کے ٹکڑے اکلوتی بیٹی کو چھوڑ دیا... مانا کہ وہ اتنے عبادت گذار نہیں تھے،اتنے نیک نہین تھے مگر تھے غیرت مند مسلمان... وہ آج کل.کے منافق مکار اور لبرل قسم.کے سیاست دانوں کی طرح ہرگز ہرگز نہین تھے...
قائد اعظم سیکولر ازم سوشلزم کے تو سخت خلاف تھے
قائد اعظم فرماتے ہیں
زندگی کی تمام مصیبتوں اور مشکلوں کا حل اسلام سے بہتر کہیں نہیں ملتا... سوشلزم کمیونزم مارکسزم کیپٹل ازم ہندو ازم امپیریل ازم امریکہ ازم روس ازم ماڈرن ازم یہ سب دھوکہ اور فریب ہیں..
(نقوشِ قائد اعظم صفحہ 312،314)
مگر
کچھ لوگ سمجھتے ہین کہ قائد اعظم اسلامی سوشلزم کے قائل تھے جوکہ جھوٹ ہے.. غلط ہے..
قائد اعظم کے سامنے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا تو وہاں خوب بحث چِھڑ گئ، آخرکار قائد اعظم نے واضح اعلان کیا کہ:
کمیونسٹ(لوگ،لیڈر) ملک میں انتشار پیدا کر رہے ہیں،یاد رکھیے پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ ہوگی..
(حیات خدمات تعلیمات مجاہد ملت نیازی ص104)

#منقول

03/11/2017

*ایک لفظی غلطی*
*جسکی درستی لازم هے*

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ " ﻟﮑﮭﺎ،
ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ:
ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ،
ﺑﻠﮑﮧ یه
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ…
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا-

ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ،
ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-

ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ،
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
"ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا"

خود سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی
تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ
ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔

ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
"ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ "

ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﮔﺮ " ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ مطلب بنتا هے
"ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ" ﻧﻌﻮﺫﺑﺎﺍﻟﻠﮧ

ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﻮ ﻟﻔﻆ "ﺍﻟﻠﮧ "ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-

ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے...

1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ
سورة ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ 78

2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ.
سورة ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ 20

3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً
سورة ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ 35

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ " ﺍﻟﻠﮧ " ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ.
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔

ﻟﻔﻆ
*"ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*

" ﺍﻥ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ "
"ﺷﺎﺀ "ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﭼﺎﮨﺎ"
"ﺍﻟﻠﮧ "ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ " ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ "

ﺗﻮ ثابت هوا که ﻟﻔﻆ
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔

1. ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ
سورة ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ 70

2. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ
سورة ﯾﻮﺳﻒ 99

3. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ
سورة ﺍﻟﮑﮩﻒ 69

4. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ
سورة ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ 27

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﻟﻔﻆ
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*

انگریزی میں یوں لکھ جاسکتا ھے..
*"In Sha Allah"*

صدقه جاریه کے طور پر
اس معلومات کے فروغ کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی درخواست ھے..

جزاک الله

27/10/2017
26/10/2017

تنہائی میں انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے لیے رہنما تحریر۔

ڈاکٹر نے مجھے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹس بتائیں تو مجھے دھچکا لگا۔ جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔ مجھے لاسٹ سٹیج کا کینسر تھا۔
گھر آتے آتے میں سوچتا رہا۔ بیوی کو کیسے بتاوں گا۔ بچوں کو کیا کہوں گا۔ گھر پہنچ کر میں نے سیف میں سب رپورٹس چھپا دیں۔ بیوی پوچھتی رہی میں نے کچھ بتا کہ کر نہ دیا۔ سب نارمل ہے کہ ٹال دیا۔
رات کھانے کے بعد واک کرنے نکلا تو دل بند سا ہونے لگا۔ کس کا دل کرتا ہو گا یہ چمکتی دمکتی روشنیاں یہ چہل پہل یہ ہنسی قہقہے چھوڑ کر جانے کا۔ پیاری بیوی پیارے پیارے بچے چھوڑ کر کیسے جاوں گا۔ ایک لمبی پتلی سی اندھیری قبر میں کیسے رہوں گا۔
میں چلتا رہا اور سوچتا رہا حتی کہ قبرستان آ گیا۔ قبروں کے کتبے جیسے مجھے بلانے لگے۔ میں بیچ کے اونچے نیچے راستے پر چلنے لگا۔ قبریں خاموش تھیں لیکن کیا ان کے اندر واقعی خاموشی تھی؟
ایسا سناٹا پہلے دیکھا ہوتا تو خوف سے میری جان نکل جاتی۔ لیکن آج دل بے خوف سا تھا بلکہ ان چپ چاپ پڑے مکینوں سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔
کچھ چھوٹی کچھ بڑی قبریں۔ کچھ پر مردوں کے نام کچھ پر عورتوں کے۔ غلام مصطفی بن غلام محمد۔ مرحوم جاوید اسلم۔ چودھری مختار خان۔ آنسہ الفت بتول۔ خورشید انور۔ بیگم رضیہ سلطانہ۔ ماریہ احمد بنت محمد وارث۔ میں نام پڑھتا آگے بڑھ رہا تھا۔
کچھ کتبوں پر آیات درج تھیں۔
ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
پھر اداسی بھرے شعر۔
پچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
"سر! رات کافی ہوگئی ہے۔ گھر چلنا چاہیے میرے خیال میں۔" یہ میرے ڈرائیور کی آواز تھی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میری۔چم چم کرتی کار چاندنی میں نہائی ہوئی تھی۔
ہونہہ! کیا فائدہ اب اس کار کا۔ سب کچھ تو میرے بیوی بچے لے جائیں گے۔ میرے ہاتھ کیا آیا۔
میں بڑی خود غرضی سے سوچتا گیا۔ ساری زندگی کماتے کماتے ہی گزر گئی۔ اب یہ گھر بنا لوں اب پراپرٹی خرید لوں۔ اب بچوں کے لیے نقدی زیور اکھٹا کر لوں۔ اب بیوی کا بینک بیلنس بھرنا ہے۔ بس یہی میری ترجیحات تھیں۔
گھر گاڑی موبائل سب کچھ تھا میرے پاس۔ بس سکون نہیں تھا۔ اس سکون کی خاطر میں بیوی سے چھپ کر گندی ویڈیوز دیکھتا۔ دنیا کے سامنے میں نیک طینت اور سلیم الطبع تھا۔ ہلکی سی ڈاڑھی بھی رکھی ہوئی تھی۔ نماز روزہ بھی قضا نہ کرتا۔ لیکن میں اندر سے بے حد بد نیت اور بدبودار شخص تھا۔ جب بھی میں اکیلا ہوتا فحش موویز دیکھنے لگتا۔ یہ لت مجھے نوعمری سے پڑ گئی تھی۔ باجود کوشش کے میں عادت نہ چھوڑ سکا تھا۔ شاید یہی وہ چیز تھی جس نے میری زندگی دے سکون کی چادر یکسر کھینچ لی تھی۔
"آہ" اچانک میرے پاؤں کے نیچے ایک نوکدار پتھر آیا تو میں لڑکھڑا گیا۔ یکدم میری ساری سوچیں غائب ہو گئیں۔
پتہ نہیں کتنی دیر میں یونہی کھڑا قبروں کو دیکھتا رہا۔
پھر اچانک میرا دل کیا کہ کاش کوئی قبر والا مردہ زندہ ہو جائے اور مجھے بتائے کہ اس کے ساتھ اصل میں کیا ہوا؟ جب وہ قبر میں جا کر لیٹ گیا اور اس کے سب رشتہ دار قبرستان کی وحشت سے بےزار تیز تیز قدموں سے واپس چلے گئے تو اس پر کیا بیتی؟
لیکن میں کسی سے نہیں ہوچھ سکتا تھا۔ یہاں سب خاموش تھے۔ چپ چاپ اپنی اپنی جزا سزا میں مگن۔
اچانک میری نظر ایک کچی جھونپڑی پر پڑی۔ دیے کی روشنی پردے کے پیوند سے باہر جھانک رہی تھی۔ یہ یقینا گورگن کا مسکن تھا۔
"بابا جی! نہ جانے آپ نے کتنی قبریں کھودیں۔ کتنوں کے اخروی انجام آپ کو معلوم ہوں گے۔ بس مجھے کوئی نصیحت کر دیں۔" میں نے چمکتی پیشانی والے باباجی سے کہا۔ میرے لہجے میں کینسر زدہ انسان کی بے بسی تھی۔
"پتر! سچے رب کی سچی اطاعت ہی کام آتی ہے اور کچھ یہاں کام نہیں آتا۔ بس تو اکیلے میں رب کی اطاعت کرنا سیکھ لے۔ جب تو اکیلی قبر میں لیٹے گا تو وہ رب تیرا ساتھی بن جائے گا۔" بابا جی نے کہا اور دیا تیز کر دیا۔ اپنے طاق کا بھی اور شاید میری امید کا بھی۔
"سر آپ یہاں ہیں۔ میں پریشان ہو گیا تھا۔"
میرا ڈرائیور مجھے ڈھونڈتے باباجی کی کٹیا تک آ گیا تو میں نے باباجی کو سلام کیا اور الٹے قدموں واپس چلا آیا۔ جب میں گاڑی میں بیٹھنے لگا تو میں نے ایک نظر پورے قبرستان پر ڈالی۔ کچھ قبروں کے مکین مسکرا مسکرا کر باباجی کے لفظوں کی تائید کر رہے تھے۔ وہ خوش تھے اور چہچہا رہے تھے۔ باقی قبروں کے مکین حسرت و یاس کی تصویر تھے۔ وہ اپنے کفن نوچ نوچ کر چلا رہے تھے کہ ان کا کوئی ساتھی کوئی مددگار نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"میں اپنی اُمت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دِن اِس حال میں آئیں گے کہ اُن کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی ،تو اللہ عزّ و جلّ ان نیکیوں کو (ہوا میں منتشر ہوجانے والا) غُبار بنا (کر غارت ) کردے گا."
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول، ہمیں اُن لوگوں کی نشانیاں بتائیے، ہمارے لیے اُن لوگوں کا حال بیان فرمایے، تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں انہیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوں جائیں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
"وہ لوگ تُم لوگوں کے (دینی) بھائی ہوں گے اور تُم لوگوں کی جِلد (ظاہری پہچان اِسلام ) میں سے ہوں گے ، اور رات کی عبادات میں سے اُسی طرح (حصہ) لیں گے جس طرح تم لوگ لیتے ہو (یعنی تُم لوگوں کی ہی طرح قیام اللیل کیا کریں گے) لیکن اُن کا معاملہ یہ ہوگا کہ جب وہ لوگ الله ﷻ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو اُنہیں اِستعمال کریں گے۔"
(سُنن ابن ماجہ /حدیث/4386 کتاب الزُھد /باب29)

19/10/2017

★حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ★

ساتویں صدی ہجری میں ایران کے صوبہ خراسان میں سادات حسینی کی حکومت تھی جسکا دارالحکومت شہر سمنان تھا۔ سلطان سید ابراہیم اس حکومت کے سربراہ تھے جو ظاہری شان و شوکت اور سطوت و جلال کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیوں سے بھی پوری طرح بہرہ و ر تھے سلطان سید ابراہیم صرف ایک بیدار مغز حکمران ہی نہ تھے بلکہ متقی و پرہیز گار عالم باعمل بھی تھے۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ ان ہی دین و دنیا کی دولت سے مالا مال مکرم و محترم شخصیت کے فرزند ارجمند تھے سرزمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع اسلام فروزاں ہوئی اور جنکے نقوش پاک کی برکت سے اس شمع کی روشنی ہر چہار سمت پھیلی ان مقدس ہستیوں میں سے ایک حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ذات با برکت ہے ۔

ولادت باسعادت
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کی ولادت بھی اپنی جگہ ایک کرامت ہے ۔شہر سمنان میں ایک صاحب حال مجذوب شیخ ابراہیم نامی رہا کرتے تھے ایک روز سلطان سید ابراہیم اور انکی اہلیہ محترمہ شاہی محل کے حرم میں تشریف فرما تھے کہ اچانک شیخ ابراہیم مجذوب اس جگہ پر وارد ہوئے تو سلطان اور ملکہ عالیہ نے ان مجذوب بزرگ کی حد درجہ تعظیم کی انکو نہایت احترام سے اپنی جگہ بٹھایا اور خود انکے سامنے ادب سے کھڑے ہو گئے ۔مجذوب نے پوچھا ’’ابراہیم کیا تو اﷲ تعالی سے بیٹا مانگتا ہے ؟‘‘ یہ سن کر سلطان اور ملکہ بہت خوش ہوئے کیونکہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں بہت ملول رہتے تھے اور اکثر بارگاہ خداوندی میں رو رو کر دعائیں کیا کرتے تھے اب مجذوب کی زبان سے اچانک یہ سنا تو دونوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کی لہریں دوڑ گئیں۔ سلطان نے ادب سے عرض کی ،آپ بزرگ ہیں دعا فرما دیں ۔مجذوب بزرگ نے اولاد نرینہ کی دعا فرمائی اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ چند روز بعد سلطان ابراہیم نے سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کو خواب میں دیکھا حضور پُرنور ﷺ نے فرمایا ’’ اے ابراہیم ! تجھ کو اﷲ تعالی دو فرزند عطا کرے گا بڑے کا نام اشرف اور چھوٹے کا نا م اعراف رکھنا اشرف اﷲ کا ولی ہو گا اور مقرب بارگاہ ایزدی ہو گا۔اسکی پرورش اور تربیت بھی خاص طریقے سے کرنا ۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کی ولادت سے تین ماہ قبل اہل سمنان نے ایک مجذوب کو دیکھا جو شہر کے گلی کوچوں میں نہایت بلند آواز میں صدا لگا رہا تھا ’’ با ادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں ‘‘ اس مجذوب کو سب سے پہلے اس سپاہی نے دیکھا جو شہر سمنان کی فصیل پر پہرہ دے رہا تھا کیونکہ رات کو شہر کے دروازے بند کر دئیے جاتے تھے تاکہ ڈاکو و لٹیرے اندر داخل نہ ہوسکیں ۔رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی یہ آواز جب اسکے کانوں پہنچی تو وہ بڑا حیران ہوا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے مجذوب کو فصیل کے اندر پایا کیونکہ فصیل اتنی بلند تھی کہ بغیر کسی ذریعے کے اسکو عبور کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں تھا اب سپاہی پردہشت طاری ہو گئی اور وہ حیرت سے مجذوب کی جانب دیکھ رہا تھا جس کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی اور وہ مسلسل یہی صدا لگا رہا تھا ’’ با ادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں ‘‘ اس آواز سے شہر سمنان کے در و دیوار گونج رہے تھے لوگ حیران تھے کہ یہ دیوانہ کون اور کس کے آنے کی خبر دے رہا ہے ۔یہ وہی شیخ ابراہیم مجذوب تھے جنہوں نے سلطان سید ابراہیم کو فرزند سعید کی بشارت دی تھی ۔اور اب ان کی ولادت سے تین ماہ قبل یہ خبر پورے شہر سمنان میں پھیلا دی تھی ۔آخر مجذوب کی دعا اور حضور پرنور ﷺ کی بشارت پوری ہوئی اور۷۱۲؁ھ کو حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ولادت باسعادت ہوئی ۔

تعلیم و تربیت :
سلطان خراسان سلطان سید ابراہیم نے اپنے فرزند کی تعلیم حفظ قرآن سے شروع کروائی اور تربیت پر بطور خاص توجہ دی سات سال کی عمر میں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے بفضل خدا قرآن کریم مع سات قرأت کے حفظ کیا اور چودہ سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کر لیا ،حضرت مخدوم سمنانی کمسنی ہی میں حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور صاحب کشف کرامت بزرگ تھے حضرت رکن الدین کی خصوصی توجہ اور اپنے جذبہ صادق کی وجہ سے حضرت مخدوم سمنانی تیزی سے راہ سلوک پر گامزن ہو گئے ۔ جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو آپ کے والد ماجد سلطان سید ابراہیم وصال فرما گئے ۔ اس طرح اس کم عمری میں سلطنت سمنان کی ذمہ داری کا بار گراں آپکے کندھوں پر آگیا لیکن آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسا بہترین نظام چلایا کہ لوگ حیران رہ گئے ۔ آپنے اپنے۷۲۷؁ھ سے۷۳۷؁ھ تک دس سال نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی اسی دوران حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کو ’’اسم ذات‘‘ بغیر مدد زبان ورد کرنے کی مشق کرائی اور اس کا ورد کرنے کا حکم دیا ،آپ نے اس ورد کی مشق مسلسل دو سال کی ۔ اس مشق کے بعد اشغال اویسیہ کی جانب رجوع ہوئے تو خواب میں حضرت اویس قرنی رضی اﷲ تعالی عنہہ کی زیارت ہوئی جنھوں نے براہ راست آپ کو اشغال اویسیہ کی تعلیم دی اور اجازت شغل مرحمت فرمائی۔

ترک سلطنت:
آخر وہ وقت آگیا جب آپکو دنیا کی حکومت سے دستبردار ہو کر روحانیت کی بادشاہت پر سرفراز ہونا تھا۔ ۷۳۷؁ھ ۲۷رمضان المبارک کی شب تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا ’’حجاب تخت و تاج دور کر کے لذت وصل الٰہی کے لئے تیار ہو جاؤ حضرت علاؤ الدین گنج نبات تمہارے منتظر ہیں ۔صبح ہوتے ہی آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سید اعراف کی تخت نشینی کا اعلان کیا اور خود ہمیشہ کے لئے تخت و تاج سے دستبردار ہو گئے ،اس وقت آپکا سن ۲۵ سال تھا اور آپ دس سال حکومت فرما چکے تھے ۔آپنے والدہ محترمہ سے سفر کی اجازت لی تو انہوں نے فرمایا بیٹا اس طرح نہ جاؤ لوگ کیا کہیں گے کہ سمنان کا شہنشاہ تن تنہا ہ جا رہا ہے لہذا شہر سے نکلتے وقت وزراء امراء اور کچھ محافظ ساتھ رکھو تاکہ رعایا سمجھے کہ بادشاہ کسی مہم پر جا رہا ہے ۔ والدہ محترمہ کے حکم پر آپ نے وزراء امراء اور کچھ محافظوں کو اپنے ساتھ لیا اور شہر سمنان سے نکل کھڑے ہوئے کچھ دور چلنے کے بعد آپ نے ان تمام وزیروں اور محافظوں کو واپس کر دیا اور خود تن تنہا منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گئے ۔سب سے پہلے آپ ملتان کے نواح میں قصبہ اوچ شریف میں وارد ہوئے جہاں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اﷲ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ جب حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اوچ شریف پہنچے تو حضرت مخدوم اس وقت اپنے مریدین کو تعلیم دے رہے تھے اچانک انہوں نے فرمایا ’’ بوئے یار می آید‘‘ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے یہ کہہ کر تیزی سے اپنی خانقاہ کے دروازے کی طرف آئے اسی وقت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی وہاں پہنچے تو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے آگے بڑھ کر آپکی پیشانی کو بوسہ دیا اور سینے سے لگایا اور فرمایا ’’سرداری و سیادت کے باغ میں ایک مدت بعد نسیم بہار آئی ہے ‘‘ پھر فرمایا عزیز جلدی راہ سلوک میں قدم رکھو برادرم علاؤالدین تمہارے منتظر ہیں ۔ پھر کچھ عرصے اپنی خانقاہ میں ٹھہرا کر چلہ کشی کرائی اور تمام روحانی نعمتیں عطا فرمائیں اور خرقہ خلافت عطا فرمانے کے بعد فرمایا :اب تک جن اکابرین سے میں نے استفادہ کیا ہے وہ سب تمہیں عطا کر دیا ۔ان تمام نعمتوں سے سرفراز ہوکر آپ پا پیادہ یہاں سے روانہ ہو گئے اور ہندوستان کے قصبہ بہار اس وقت پہنچے جب مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد ےٰحییٰ منیری رحمتہ اﷲ علیہ کا جنازہ رکھا ہوا تھا حضرت مخدوم نے وصیت فرمائی تھی کہ انکی نماز جنازہ وہی شخص پڑھائے گا جو صحیح النسب سید ہو ۔ تارک السلطنت ہو اور سات قرأت کا قاری ہو وہ مغرب کی طرف سے کالا کمبل اوڑھے نمودار ہو گا اسی سے میری نماز پڑھوانا ۔ یہ سب شرطیں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی میں موجود تھیں اس لئے انہوں نے ہی حضرت مخدوم کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی اور تجہیز و تکفین کے بعد مزار کے پاس مراقبہ کیا تو انکو اپنے سامنے پایا انہوں نے روحانی طور پر آپکو تمام نعمتوں سے نوازا اور فرمایا ’’فرزند اشرف ‘‘ کاش تم میرے حصے میں آئے ہوتے لیکن تمہیں بھائی علاؤ الدین آواز دے رہے ہیں میں اب تمہیں زیادہ دیر نہیں روک سکتا جاؤ یہ سفر تمہیں مبارک ہو ۔سید اشرف جہانگیر سمنانی یہاں سے روانہ ہوئے دشت و بیاباں کو ناپتے ،ندی نالوں کو پھلانگتے ،پہاڑوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔صحراء کے کانٹوں اور چٹانوں کے نوکیلے پتھروں پاؤں زخمی کر دئیے اﷲ اﷲ طلب حق کایہ راہی اور راہ سلوک کا یہ مسافر جو بھوکا پیاسا بے سرو سامان صحراؤں کو پیدل ناپ رہا ہے یہ کون ہے یہ شہنشاہ شمنان ہے فلک بوس محلوں کا مکیں کوہ و بیاباں میں گزر اوقات کر رہا ہے جہاں رات ہوئی وہاں ٹھہر جاتے اور فجر تک عبادت میں مصروف رہتے صبح ہوتے ہی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے ۔جنگلوں کے پُر خطر راستوں اور پہاڑوں کی ہیبت ناک وادیوں کو پیچھے چھوڑکر اور سینکڑوں میل کی دشوارگزار راہیں طے کر کے سر زمین بنگال میں قدم رکھا اور پنڈوا شریف کے قریب پہنچ گئے جہاں شیخ علاؤ الدین علاؤ الحق گنج نبات رحمتہ اﷲ علیہ رشد و ہدایت کے جواہر لٹا رہے تھے اور یہی آپ کے سفر کی آخری منزل تھی ۔
جس وقت آپ پنڈوا شریف کے قریب پہنچے تو حضرت شیخ علاؤ الدین گنج نبات رحمتہ اﷲ علیہ اپنے مریدین کو طریقت کی تعلیم دے رہے تھے انہوں نے اہل محفل سے فرمایا ’’ بوئے یار می آید‘‘ مجھے اپنے دوست کی خوشبو آرہی ہے جس کا دو سال سے ہم انتظار کر رہے ہیں وہ عنقریب یہاں پہنچنے والا ہے ۔پھر تمام مریدین کے ہمراہ شہر سے باہر تشریف لائے اور سید اشرف جہانگیر سمنانی کا استقبال کیا اور اپنے ساتھ پالکی میں بٹھا کر خانقاہ تک لائے خانقاہ پہنچنے کے بعد آپکو بیعت کیا اور فرمایا فرزند اشرف جس وقت تم سمنان سے چلے تھے اس وقت سے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں بارہ سال رہے اور سخت ریاضت و مجاہدے کئے مرشد کامل نے آپ کو اپنی تمام روحانی نعمتیں عطا کیں اور خرقہ و خلافت سے نوازا۔

سیاحت و دین تبلیغ:
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے پیر و مرشد حضرت علاؤ الدین گنج نبات رحمتہ اﷲ علیہ کے حکم پر تبلیغ دین کے لئے روانہ ہوگئے آپ نے پوری دنیا کی سیاحت کی اور اس دوران لاکھوں انسانوں کو راہ ہدایت دکھائی تبلیغ کے سلسلے میں بڑی بڑی رکاوٹیں آئیں اور بہت ہی خطرناک جادوگروں سے مقابلے ہوئے ،لیکن کوئی بھی آپکے سامنے نہ ٹھہر سکا آپ نے اس سلسلے میں تقریر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا آپ نے 31تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ وہ ناپید ہو گئیں ، لیکن اب بھی الحمد اﷲ 10کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں ۔ اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ییں اکثر کتابیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا جسطرح ایک کتاب فوائد العقائد تھی یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اسکا عربی میں ترجمہ کیا گیا ۔ آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین فرماتے ہیں کہ جب آپ عرب میں تشریف لے گئے تو بدوؤں نے تصوف کے مسائل جاننے کی خواہش کی تو آپ نے فوائد العقائد کا عربی زبان میں ترجمہ کیا آپکی تصانیف میں لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے یہ کتاب دیگر جامعات کے علاوہ جامعہ کراچی کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
سید اشرف جہانگیر سمنانی صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کے پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں ۔ چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ اردو نثر میں ’’ اخلاق و تصوف‘‘ بھی تھا۔ پروفیسر حامد حسن قادری ؒ کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو ۷۵۸؁ھ مطابق ۱۳۰۸؁ ء میں میں تصنیف کیا گیا یہ قلمی نسخہ ایک بزرگ مولانا وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے ۲۸ صفحات ہیں قادری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے اور داستان تاریخ اردو میں لکھے ہیں ۔ اردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں۔

وصال مبارک:
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی سیاحت و تبلیغ دین میں گزاری اور سیاحت کے دوران کئی سو بزرگان دین سے فیض حاصل کیا ۔سن ۸۳۲؁ھ میں ہندوستان میں ہندؤں کے مقدس مقام اجودھیا کے قریب پہنچے اور کچھوچھہ شریف میں اپنی خانقاہ قائم کی ۔محرم الحرام کا چاند دیکھ کر آپ نے بڑی طمانیت کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا’’ کاش جد مکرم حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی موافقت جلد نصیب ہوتی اسکے بعد آپ کی طبعیت ناساز ہوگئی اور آپ بستر علالت پر دراز ہو گئے اور آپ نے مریدین کو بلا کر فرمایا میں چاہتا ہوں کہ میری قبر میری زندگی میں تیار ہو جائے ۔حسب الحکم لحد مبارک تیار کی گئی اور اس وقت نصف محرم گزر چکا تھا آپ ایک قلم اور کاغذ لے کر قبر میں تشریف لے گئے اور وہاں بیٹھ کر مریدین کے لئے ہدایت نامہ تحریر فرمایا جس میں اپنے عقیدے اور مسلک کی وضاحت فرمائی اور مریدین کو راہ سلوک طے کرنے دین کے احکام پر پوری استقامت کے ساتھ عمل کرنے اور شریعت اور طریقت پر عمل کرنے کی سخت تاکید فرمائی یہ ہدایت نامہ رسالہ قبریہ کے نام سے مشہور ہے ۔
آپ نے اپنے حجرہ خاص میں مریدین اور خلفاء کی موجودگی میں حضرت سید عبدالرزاق نورالعین کو طلب فرمایا اور انکو خرقہ مبارک تاج اشرفی اور تبرکات خاندانی عطا فرما کراپنا جانشین مقرر فرمایا ۔ ظہر کے وقت آپ نے نورالعین کو امامت کا حکم دیا اور خود انکی اقتداء میں نماز پڑھی ۔نماز کے بعد آپ خانقاہ میں رونق افروز ہوگئے اور سماع کا حکم فرمایا قوالوں نے شیخ سعدی کے اشعار پڑھے ایک شعرپر آپ کو کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وجد کی کیفیت میں خالق حقیقی کے دربار اقدس میں پہنچ گئے ۔آپ کا مزار پر انوار کچھوچھہ شریف ضلع فیض آباد یو پی میں مرجع خلائق ہے ۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب الاخبار الاخیار میں فرماتے ہیں کہ آپکا مزار کچھوچھہ شریف میں ہے یہ بڑا فیض کا مقام ہے اس علاقے میں جنات کو دور کرنے کے لئے آپ کا نام لینا تیر بہدف ہے۔
آپ کا مزار مبارک کچھوچھہ شریف میں آج بھی مرجع خلائق ھے اگرچہ مخدوم سمنانی کے وصال مبارک کو چھ سو سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن آج بھی آپکی یاد لوگوں کے دلوں میں موجود ہے آپکا عرس مبارک ہر سال۲۶تا۲۸ محرم الحرام کو کچھوچھہ شریف میں نہایت شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔جسمیں ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی لوگ وہاں جا کر شرکت کرتے ہیں ۔

سلسلہ اشرفیہ:
حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کی نسبت سے یہ سلسلہ اشرفیہ کہلاتا ہے ۔ حضرت مخدوم سمنانی نے کیونکہ مناکحت نہیں فرمائی تھی اس لئے کوئی صلبی اولاد حضرت نے نہیں چھوڑی حضرت شاہ عبد الرزاق نورالعین حضرت کے روحانی فرزند خلیفہ اول اور پہلے سجادہ نشین تھے اس لئے آپکی اولاد ہی حضرت مخدوم کی اولاد کہلاتی ہے ۔اور اسی نسبت سے یہ خاندان خاندان اشرفیہ اور اس کے مریدین کا سلسلہ ۔سلسلہ اشرفیہ کہلاتا ہے ۔اس سلسلہ اشرفیہ میں وقتاً فوقتاً بڑی علمی و روحانی جلیل القدر ہستیاں گذری ہیں جن میں ہم شبہیہ غوث الاعظم حضرت ابو احمد محمد علی حسین اشرفی المعروف اشرفی میاں رحمتہ اﷲ علیہ ۔ حضرت محدث اعظم ہند سید محمد اشرفی کچھوچھوی اور قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمدطاہر اشرف الا شرفی الجیلانی رحمتہ اﷲ علیہ اور اشرف المشائخ حضرت ابو محمد شاہ سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی قدس سرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔سلسلہ اشرفیہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے مریدین و معتقدین اسوقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں علماء و مشائخ بھی کثیر تعداد میں شامل ہیں۔

14/10/2017
Want your school to be the top-listed School/college in Karachi?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

Category

Website

Address


Karachi

Other Education in Karachi (show all)
Hampton School Hampton School
PLot No Street 8-E Block 1, Scheme 5 Clifton
Karachi

Pk#539 Great Results Great School Personalized Attention Motto: Ephebic Oath

The City School Darakshan Campus A & B The City School Darakshan Campus A & B
Khe-Bukhari Phase VI
Karachi, 75500

The unofficial fan page of The City School, Darakhshan Campus, Karachi, Pakistan

K.U.B.S - Karachi University Business School K.U.B.S - Karachi University Business School
KARACHI UNIVERSITY BUSINESS SCHOOL , UNIVERSITY OF KARACHI
Karachi, 75270

Education Centre Education Centre
Karachi

Education Centre centres education.

St.Joseph's College for Women, Karachi St.Joseph's College for Women, Karachi
Saddar
Karachi, 74400

Loquentes Magnalia Dei proclaiming the Wonders of God

UIT UnderGround ( Usman Institute of Technology ) UIT UnderGround ( Usman Institute of Technology )
ST-13, Block 7, Abul Hasan Isphahani Road, Opposite Safari Park, Gulshan-e-Iqbal
Karachi

Bringing out the Hidden talent...we are UIT undergrounds... http://www.twitter.com/UITUnderGround

St Joseph College for women Karachi St Joseph College for women Karachi
SHAHRAH-E-IRAQ, SADDAR, KARACHI
Karachi, 74400

Best college in karachi for women.

Karachi Public School Karachi Public School
Karachi

This Is An Official Page. (For any information please feel free to message us on the page )

Little folk's School jouhr Br. Little folk's School jouhr Br.
C101/102
Karachi, 021

Empowering the differently abled persons Empowering the differently abled persons
J 42 Block 14 Gulshan E Iqbal
Karachi, 75300

spreading sunshine. Greetings I am Shazia Hasan. I am a computer teacher for the blind, provide counselling to the visually impaired and their parents. ha

Student Working Council BIZTEK Student Working Council BIZTEK
Gulshan Campus BIZTEK
Karachi, 75950

'Together We Grow'