Urdu Moral Stories

Dear friends
Urdu moral stories espeially for you
please like and share my page.
1 #Urdukahaniyan
2

31/03/2023

🥀 _*گھر جنت بیوی حور🥀*_

نوجوان بچیوں اور ماؤں کے سیکھنے کو اس تحریر میں بہت کچھ موجود ہے
مجھے طویل عرصہ قبل آسٹریا میں کسی پاکستانی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا وہ صاحب تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے عام سے کم تعلیم یافتہ انسان تھے دو شادیاں کر رکھی تھیں ایک بیوی پاکستانی تھی اور دوسری مراکش سے تعلق رکھتی تھی ہمارا مراکش کی خواتین کے بارے میں تصور ہے یہ خوبصورت سلم اور اسمارٹ ہوتی ہیں جب کہ ہماری زیادہ تر عورتیں عام نین نقش کی حامل ہوتی ہیں مگر وہاں صورت حال بالکل مختلف تھی ان کی مراکشی بیگم عام نین نقش کی ناٹے قد کی خاتون تھی جب کہ پاکستانی بیوی گوری چٹی کشمیرن تھی یہ دونوں بیگمات اوپر نیچے دو الگ الگ فلیٹس میں رہتی تھیں یورپ میں بیک وقت دو شادیاں رکھنا غیر قانونی ہیں چنانچہ مسلمان ایک بیوی کو سرکاری کاغذات میں ڈکلیئر کر دیتے ہیں اور دوسری بیوی صرف نکاح تک محدود رہتی ہے یہ لوگ عام طور پر ڈکلیئر بیوی کو سرکاری اور دوسری کو نکاحی بیوی کہتے ہیں ان صاحب نے بھی اسی قسم کا ارینجمنٹ کر رکھا تھا پاکستانی بیگم سرکاری تھی جب کہ مراکشی بیوی نکاحی تھی یہ کہانی یہاں تک عام تھی یورپ میں ایسے سیکڑوں لوگ موجود ہیں اور ان کی داستان تقریباً ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے اصل کہانی اس سے آگے آئے گی
میں اس خاندان میں چند چیزیں دیکھ کر حیران رہ گیا خاندان میں مراکشی بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی وہ پورے خاندان کی سربراہ تھی وہ صاحب ان کی پاکستانی بیگم اور بچے سب مراکشی خاتوں کی بے انتہا عزت کرتے تھے پاکستانی بیگم مراکشی خاتوں کو آپا اور پاکستانی بچے اماں کہتے تھے پاکستانی بیگم کی سب سے چھوٹی بیٹی مراکشی بیگم کی گود میں بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے کھانا کھاتی تھی بڑے بچے یونیورسٹی جاتے تھے لیکن وہ بھی سوتیلی ماں سے پیار کرتے تھے اور دل سے اس کا احترام کرتے تھے پاکستانی بیگم اپنے ہاتھ سے اپنی سوتن کو وضو کراتی تھی اور اس کیلیے جائے نماز بچھاتی تھی وہ صاحب بھی دوسری بیگم پر بار بار نثار ہوتے تھے یہ میرے لیے حیران کن منظر تھا میں نے ایک شام اس صاحب کے سامنے اس حیرت کا اظہار کیا اس نے قہقہہ لگایا دونوں بیگمات کو بلایا اور پھر اپنی کہانی سنانا شروع کر دی اس نے بتایا پاکستانی بیگم اس کی کزن ہے یہ مزاج کی تیز اور غصے کی سخت تھی یہ شادی کے بعد بیگم کو آسٹریا لے آئے دو بچے ہو گئے لیکن ان کی زندگی میں بے آرامی اور بے سکونی تھی یہ سارا دن کام کرتے تھے شام کے وقت گھر آتے تھے تو بیگم کی قِل قِل شروع ہو جاتی تھی
بیوی کی فرمائشیں اور مطالبات بھی غیر منطقی ہوتے تھے چنانچہ ان کی زندگی دوزخ بن کر رہ گئی یہ روز آتے جاتے راستے میں ایک کافی شاپ پر رکتے تھے ان کی دوسری بیگم اس کافی شاپ میں کام کرتی تھی وہ روز خاتون کو دیکھتے تھے خاتون کی آنکھوں میں حیاء اور لہجے میں شائستگی تھی یہ ہر وقت کام کرتی رہتی تھی کافی شاپ میں اگر کوئی گاہک نہیں ہوتا تھا تو وہ کرسیاں اور میزیں صاف کرنا شروع کر دیتی تھی یا کاؤنٹر اور کچن کا سینک رگڑنے لگتی تھی اور یہ اکثر اوقات سیڑھی لگا کر کافی شاپ کا بورڈ صاف کرنے لگتی تھی میں نے کبھی اس عورت کو کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھا تھا میں اس کی ان تھک محنت سے بہت متاثر ہوا میں یہ دیکھ کر بھی حیران رہ گیا اس خاتون نے تین سال قبل یہ نوکری شروع کی اور یہ آخر تک اس کافی شاپ کے ساتھ چپکی رہی اس دوران درجنوں ملازمین آئے اور چلے گئے کافی شاپ کے دو مالکان بھی بدل گئے لیکن خاتون نے نوکری تبدیل نہ کی یہ معمولی معاوضے پر پانچ لوگوں کا کام اکیلی کرتی رہی صاحب کو آہستہ آہستہ خاتون میں دلچسپی پیدا ہو گئی
خاتون بھی ان میں دلچسپی لینے لگی یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا خاتون نے شادی سے قبل دو عجیب و غریب شرطیں رکھ دیں
*اس کی پہلی شرط تھی* میں تمہاری پہلی بیگم اور بچوں کے ساتھ رہوں گی
*دوسری شرط تھی* میں ملازمت نہیں کروں گی میں گھر سنبھالوں گی وہ صاحب ڈرتے ڈرتے دونوں شرطیں مان گئے نکاح ہوا اور وہ صاحب دوسری بیوی کو لے کر گھر آگئے پہلی بیوی نے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن یہ صرف ایک دن کا واویلا تھا خاتوں نے اگلے دن پہلی بیگم کو پچاس فیصد اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہ دونوں ہفتے میں بہنیں بن گئیں وقت گزرتا چلا گیا مراکشی بیگم سلیقہ مند تھی محنتی تھی ‘محبت سے لباب بھری ہوئی تھی ان تھک تھی وسیع دل کی مالک تھی اور یہ بے لوث تھی چنانچہ اس نے خدمت محبت اور سادگی سے پورے گھرانے کا دل موہ لیا یہ پورے خاندان کا مرکز بن گئی
وہ صاحب ان کے بچے اور ان کی دونوں بیگمات بہت خوش تھے صاحب خانہ نے دوسری شادی کے بعد بے انتہا ترقی بھی کی یوں وہ ہر لحاظ سے شاندار مسرور اور دلچسپ خاندان تھا میں نے کہانی کے آخر میں مراکشی بیگم سے پوچھا آپ نے کیا جادو کیا یہ انہونی ہوئی کیسے؟
خاتون نے بتایا مراکش میں میں بزرگ خواتین اپنی پوتیوں اور نواسیوں کو دعا دیتی ہیں جا اللہ تعالیٰ تمہیں فرشتہ دے اس کا مطلب ہوتا ہے تمہاری شادی کسی فرشتہ صفت انسان سے ہو میری دادی بھی مجھے یہ دعا دیا کرتی تھی میں نے ایک دن اپنی دادی سے پوچھا اماں مجھے فرشتہ ملے گا کیسے؟
تو میری دادی نے جواب دیا تمہاری شادی جس سے بھی ہو تم اس کے گھر کو جنت بنا دینا وہ شخص شیطان بھی ہوا تو وہ فرشتہ بن جائے گا میری دادی نے بتایا فرشتے جنت اور شیطان دوزخ میں رہتے ہیں اور دنیا کی جو عورتیں اپنے گھروں کو دوزخ بنا دیتی ہیں ان کے گھروں میں فرشتے نہیں آتے میں نے دادی کی بات پلے باندھ لی میں نے اس گھر کو جنت بنا دیا چنانچہ اس گھر کے سب لوگ فرشتہ بن گئے میری سوتن بھی فرشتہ ہو گئی آپ اب دوسری کہانی بھی ملاحظہ کیجیے میں لاہور کے ایک صاحب کو جانتا ہوں یہ بدصورتی میں مجھ سے بھی چند ہاتھ آگے ہیں کالا رنگ منہ پر چیچک کے داغ چھوٹا ساقد اور کمر پر کب یہ چاروں طرف سے بدصورت ہیں یہ امیر بھی نہیں ہیں بمشکل گزارہ ہوتا ہے تعلیم بھی زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی بیگم بے انتہا خوبصورت نفیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں یہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں یہ اپنے خاوند سے بے انتہا محبت کرتی ہیں یہ اس کا بچوں کی طرح خیال بھی رکھتی ہیں
میں اس عجیب و غریب کمبی نیشن پر حیران تھا میں نے ایک دن اس صاحب سے بھی نسخہ کیمیا پوچھ لیا یہ مجھے سیدھا اپنی بیگم کے پاس لے گیا اور میرا سوال اس کے سامنے رکھ دیا بیگم نے قہقہہ لگایا اور بولی عورت کو مرد سے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں کیئر محبت اور عزت اور یہ شخص ان تینوں میں کمال ہے مجھے انھوں نے جتنی کیئر محبت اور عزت دی وہ مجھے میرے بھائیوں میری ماں اور میرے والد سے بھی نہیں ملی چنانچہ میں ہر وقت ان پر نثار ہوتی رہتی ہوں میں نے حیرت سے اس صاحب کو دیکھا اور ان سے پوچھا آپ نے یہ نسخہ کہاں سے سیکھا یہ مسکرائے اور بولے دنیا کا ہر مرد حور کو اپنی بیوی دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے حوریں شیطانوں کو نہیں ملتیں انسانوں کو ملتی ہیں آپ خود کو انسان بنا لیں آپ کو دنیا میں بھی حوریں مل جائیں گی اور آپ آسمانوں پر بھی حوروں کے درمیان رہیں گے یہ خاموش ہو گیا میں نے اس سے پوچھا اور انسان کون ہوتے ہیں اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا
فرشتے اللہ تعالیٰ کی مقدس ترین مخلوق ہیں لیکن تعالیٰ نے اس مقدس ترین مخلوق سے انسان کو سجدہ کرایا کیوں؟
کیونکہ انسان کے پاس انسانیت کا جوہر تھا اور یہ وہ جوہر ہے جس سے فرشتے محروم ہیں ہم انسان اگر زندگی میں ایک بار انسان بن جائیں تو ہمیں حوریں بھی مل جائیں اور ہمیں فرشتے بھی دوبارہ سجدے کریں میں نے اپنے وجود میں چھپی انسانیت کو جگا لیا تھا میں نے انسان بننے کا عمل شروع کر دیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میرا گھر اس حور کی روشنی سے بھر دیا میں چیلنج کرتا ہوں دنیا کا کوئی شخص اپنے اندر موجود انسانیت جگا کر دیکھے اس کی بیوی خواہ کتنی ہی بوڑھی ان پڑھ یا بدصورت ہو گی وہ حور بن جائے گی وہ اس کا گھر روشنی سے بھر دے گی....

30/03/2023

↗️‏کھڑکی جو 1400 سال سے بند نہیں ہوئی!"
اگر آپ مواجہہ شریف پہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرنے کے لیے کھڑے ہوں اور اپنے پیچھے نظر ڈالیں تو آپ کو ایک بڑی کھڑکی نظر آئے گی، یہ کھڑکی 1400 سال سے بند نہیں ہوئی. کیونکہ ایک عظیم صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی سے وعدہ کر رکھا ہے کہ یہ کھڑکی ہمیشہ کھلی رہے گی، اور یہ آج بھی کھلی ہے. یہ اب تک کا سب سے بڑا اور طویل وعدہ ہے۔
سنہ 17 ہجری میں اسلامی فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے خلیفہ دوم سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی توسیع کا حکم دیا لیکن حضرت فاروق اعظم
رضی اللہ عنہ کو ایک بڑی مشکل درپیش تھی. وہ یہ کہ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کا حجرہ جنوبی جانب اس جگہ واقع تھا، جہاں اب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صلوۃ و سلام کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ تھا. اور اگر ہم

دیکھیں کہ یہ کمرہ جنوب کی طرف اکیلا ہے اور مسجد کے لیے اسی جانب توسیع کرنا پڑ رہی تھی، اس لیے سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے حجرے کا ہٹانا ضروری تھا.

لیکن سوال یہ تھا کہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو اس حجرے کے خالی کرنے پہ کیسے آمادہ کیا جائے، جس میں ان کے شوہر صلی اللہ علیہ وسلم سویا کرتے تھے؟
سو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی کے پاس آتے ہیں کہ انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے لیکن ام المؤمنين یہ سن کر پھوٹ کر رو پڑیں اور اپنے اس شرف و عزت بھرے حجرے سے نکلنے سے انکار کر دیا جس میں ان کے محبوب شوہر صلّی اللہ علیہ وسلم آرام فرمایا کرتے

تھے.، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے واپس لوٹ آئے اور دو دن بعد دوبارہ یہی کوشش کی یہ لیکن معاملہ جوں کا توں تھا، ام المومنین دو ٹوک انکار کرتی جا رہی تھیں اور کوئی بھی انہیں اس بات پہ آمادہ کرنے کی کامیاب کوشش نہیں کر پا رہا تھا.

اب دیگر اصحاب رسولﷺ بھی ام المؤمنين کو راضی کرنے

کے لیے کوشاں ہوئے، لیکن ام المومنین نے مختلف طریقوں سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ ایک شرف و عزت والے حجرے میں رہ رہی تھیں جہاں فقط ایک دیوار کے پار ان کے محبوب شوہر کی قبر مبارک تھی. وہ کیسے مطمئن ہو سکتی تھیں کہ انہیں اس سے دور کر دیا جائے؟ اب کے بار سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر عمر بڑی خواتین ساتھیوں نے مداخلت کی، لیکن سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایک بڑی شرط کے علاوہ اپنا فیصلہ ترک کرنے سے انکار کر دیا، اور وہ شرط یہی تھی کہ ان کے لیے ایک کھڑکی کھول دی جائے جہاں سے وہ اپنے محبوب شوہر صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو دیکھتی رہیں اور وہ کبھی بند نہیں ہوگی۔ چنانچہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ شرط مان لی اور یہ وعدہ بھی کرلیا اور یہ وعدہ آج تک قائم ہے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے 1400 سال بعد بھی یہ کھڑکی کھلی ہوئی ہے.

اس کھڑکی کے متعدد نام "خوخہ حفصہ" اور "خوخہ عمر" ہیں جنہیں

امام سیوطی اور ابن کثیر نے ذکر کیا ہے۔

آج تک جو بھی مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا متولی بنا ہے، اس نے اس کھڑکی کی دیکھ بھال کی اور اس وقت سے لے کر آج تک حضرت فاروق عمر رضی اللہ عنہ کا وعدہ پورا کیا کہ یہ کبھی بند نہیں ہوئی۔

05/03/2023

❤ اک سچی حقیقت ❤

ﺍﯾﮏ شخص ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﻣﯿﺮ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺗﻨﺎ ﭘﯿﺴﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ یہ کہ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﺭﺩ رھتا تھا .
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ مسلسل اس کا علاج کرایا ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .
ﺍﺱ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺍﻧﺠﻜﺸﻦ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﭘﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ . ﺩﻭﺍﺋﯿﺎﮞ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺗﻨﯽ ﮐﮭﺎ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻦ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ .
ﻟﯿﮑﻦ ﺩﺭﺩ ﮐﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺗﮭﮏ ﮨﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ۔
ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ کا ﺩﺭﺩ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﻋﻼﺝ ﻣﺮﺽ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﻧﮯ کے ﻣﺎﮨﺮ سمجھے ﺟﺎتے تھے .
ﺑﺰﺭﮒ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺍﻣﯿﺮ ﺷﺨﺺ کے ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﺍﻭﺭ ﮔﻼﺑﯽ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ھے ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﯽ ھے ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﻧﮓ ( ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ) ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﮧ ﭘﮍﮮ۔
ﺍﻣﯿﺮ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﯿﻨﭩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﮈﺑﮯ ﺧﺮﯾﺪے ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻨﭩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﯼ ﮐﮧ
ﺟﻮ ﺟﻮ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻣﮑﺎﻧﺎﺕ ﮨﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﺭﻧﮓ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ .
ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ، ﺁﻓﺲ ، ﻓﯿﮑﭩﺮﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ، ﮐﭙﮍﮮ ﺟﻮﺗﮯ ، ﮐﺮﺳﯽ ﻣﯿﺰ ، ﺑﺴﺘﺮ ، ﮐﮭﮍﮐﯿﺎﮞ ، ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺳﺎﺯﻭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ، ﮔﺎﮌﯼ ، ﻧﻮﮐﺮ ﭼﺎﮐﺮ ﮐﯽ ﻭﺭﺩﯾﺎﮞ ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﮩﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﺍﻣﯿﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮑﻮﻥ ﺗﻮ ﻣﻼ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﻣﯿﺮ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﯿﮟ قید ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ۔ ﻧﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ، نہ ﮐﮭﮍﮐﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﯿﻨﺎ ﺩﻭ ﺑﮭﺮ ﮨﻮﮔﯿﺎ تھا ۔
ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺧﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ انہی ﺑﺰﺭﮒ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ بلوایا۔

ﻭﮦ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﺱ ﺍﻣﯿﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ اس ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺑﺎﻟﭩﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﻮ ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﺷﺮﺍﺑﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﺰﺭﮒ ﻧﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ لباس ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ .
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﺱ ﺍﻣﯿﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﮯ ،
" ﺍﺭﮮ ﺑﮭﺌﯽ ! ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮔﻼﺑﯽ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﺷﯿﺸﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﻋﯿﻨﮏ ﮨﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ
ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺳﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ، ﺩﯾﻮﺍﺭیں ،اور ﺑﺮﺗﻦ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭻ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺳﺎ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺩﻭﻟﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﭻ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺍﺫﯾﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﭻ ﺟﺎﺗﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﭘﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﺭﮦ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﯼ ﮨﮯ . "

" ﺁﭖ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﮔﻼﺑﯽ تو ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﺳﮑﺘﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﮐﻮ تو ﺑﺪﻝ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ... "

( سبق ) ﺍﮔﺮ ھم ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺪلنا ھوگا -
ہمارے نظام میں ہر کوئی تبدیلی کا خواہشمند ہے مگر خود کو تبدیل کرنے کوکوئی تیار نہیں....
Copied

26/02/2023

ایک بیروزگار نوجوان کا بوجھ دس بندوں کے بوجھ سے زیادہ ہوتا ہے۔۔۔

ہمارا ایک دوست ہے جس نے نوکری کی تلاش میں بہت ساری کمپنیوں کی خاک چھانی۔۔۔ مانسہرہ سے کراچی, لاہور, اسلام آباد, شیخوپورہ, فیصل آباد, حطار جاتا رہا۔۔۔ ہر چند دن بعد فائلوں کا بیگ اٹھائے کہیں انٹرویو کے لئے جارہا ہوتا۔۔۔ تقریباً دو سال تک وہ مختلف کمپنیوں میں انٹرویو دیتا رہا مگر کہیں اس کی نوکری نہیں لگی۔۔۔
اب معلوم نہیں اس میں مطلوبہ نوکری کی صلاحیت نہیں تھی یا اوقات سے زیادہ تنخواہ مانگ رہا تھا بہرحال دو سال نوکریوں کی تلاش میں در بدر پھرنے کے بعد اس کے والد نے تھک ہار کر اپنے ساتھ کپڑے کی دکان پر بٹھا دہا۔۔۔ اب وہ ماشاء اللہ ایک دو سال سے والد صاحب کا ہاتھ بٹا رہا ہے اور اچھا پیسہ کما رہا ہے۔۔۔

میں نے اس سے پوچھا کہ اندازاً نوکری کی تلاش میں کتنی رقم خرچ کی تو اس کے بقول کرایہ, رشوت, فائلز, سفر, ٹریٹ کی مد میں 2,3 لاکھ روپے کم سے کم لگے ہیں۔۔۔
بہت سارے لوگ اپنی اوقات سے بڑھ کر تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔۔ یا وہ خود کو قابل سمجھتے ہیں مگر قابل ہوتے نہیں۔۔۔ اپنی تعلیم صلاحیت سے بڑھ کر مطالبات کرتے ہیں۔۔۔ لہذا نوکری کی تلاش میں بہت سا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔۔۔

ہمارے ہاں بیروزگار اسے سمجھا جاتا ہے جس کے پاس نوکری نہ ہو۔۔۔ جب تک نوکری نہیں ملتی کچھ اور نہیں کرنا بس بوجھ بنے رہنا ہے۔۔۔ بہت سے نوجوان نوکری ملنے کے انتظار میں سالوں سال فارغ رہ کر گزار دیتے ہیں۔۔۔ نوکری ہی مقصود و مطلوب ہوتی ہے لہذا جب تک نوکری نہیں ملتی کچھ اور کرنا ہی نہیں ہے۔۔۔ نوکری کی تلاش میں اپنا وقت, پیسہ لگادیتے ہیں۔۔۔

کوئی نوجوان ہو۔۔۔ صحت مند ہو۔۔۔ سمجھدار ہو۔۔۔ اور کہے کہ بیروزگار ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔ اس کو کوئی آئیڈیا نہیں۔۔۔ یا وہ نوکری ملازمت کی تلاش کی وجہ سے کچھ اور کرنے کے موڈ میں نہیں۔۔۔ یا اس کو کچھ کرنا ہی نہیں آیا۔۔۔

ہمارے ہاں عموماً نوجوان سمجھتے ہیں کہ بزنس تب ہی ممکن ہے جب تک بڑی موٹی رقم سے کوئی کام نہ کیا جائے۔۔۔ ایسے نوجوان والدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مطلوبہ رقم مہیا کریں تاکہ ہم بزنس کریں۔۔۔ نہ اس بزنس کا تجربہ ہوگا, نہ وہ کام کیا ہوگا بس وہی کام کرنا ہے تو اس جتنا سرمایہ دیا جائے۔۔۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سارے والدین بچوں کی ضد اور مطالبے پر مطلوبہ رقم دیتے ہیں بزنس شروع کر دیا جاتا ہے اور کچھ ہی عرصے بعد سب کچھ تباہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔
اس لئے ماہرین کا کہنا ہے جب تک کوئی کام سیکھا نہ جائے اس کام میں وقت نہ لگے وہ کام نہیں شروع کرنا چاہئے۔۔۔ پہلے کام سیکھا جائے تجربہ حاصل کیا جائے پھر وہ کام کیا جائے۔۔۔

اور سب سے اہم بات۔۔۔
جتنی رقم موجود ہے اس سے کوئی کام شروع کر دیں۔۔۔ جتنی اسطاعت اور موجودہ رقم ہے اس سے ہی کام شروع کر دیں۔۔۔ اسی کام میں آہستہ آہستہ ترقی کریں۔۔۔ کام سمجھ آتا جائے گا, تجربہ حاصل ہوتا جائے گا اور کام میں ترقی ہوتی جائے گی۔۔۔
نوکری کی تلاش میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کچھ نہ کچھ کام کیا جائے۔۔۔ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھا جائے۔۔۔ کوئی ٹرینڈنگ سکل سیکھی جائے۔۔۔
بیروزگار رہنے, نوکری کی تلاش میں فارغ بیٹھ کر بوجھ بننے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنا کوئی نہ کوئی کام شروع کر دیں۔۔۔ ہوسکتا ہےآپ میں کمپنی بنانے کی صلاحیت ہو اور آپ نوکر بن کر کام کرنے کی خواہش رکھتے ہوں۔۔۔
حامد حسن

12/02/2023

🍀 تین نوجوان ملک سے باھر سفر پر جاتے ھیں اور وھاں ایک ایسی عمارت میں ٹھہرتے ھیں جو 75 منزلہ ھے..
🍀 ان کو 75 ویں منزل پر کمرہ ملتا ھے..
🍀 ان کو عمارت کی انتظامیہ باخبر کرتی ھے کہ یہاں کے نظام کے مطابق رات کے 10 بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند کر دیے جاتے ھیں
🍀 لھذا ھر صورت آپ کوشش کیجیے کہ دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ھو
🍀 کیونکہ اگر دروازے بند ھوجائیں تو کسی بھی کوشش کے باوجود لفٹ کھلوانا ممکن نہ ھوگا..
🍀 پہلے دن وہ تینوں سیر و سیاحت کے لیے نکلتے ھیں تو رات 10 بجے سے پہلے واپس لوٹ آتے ھیں

🍀 مگر دوسرے دن وہ لیٹ ھوجاتے ھیں..
🍀 اب لفٹ کے دروازے بند ھو چکے تھے..

🍀 ان تینوں کو اب کوئی راہ نظر نہ آئی کہ کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جائے جبکہ کمرہ 75 منزل پر ھے..

🍀 تینوں نے فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تو نہیں ھے تو یھاں سے ھی جانا پڑے گا..

🍀 ان میں سے ایک نے کہا..
" میرے پاس ایک تجویز ھے..
🍀 یہ سیڑھیاں ایسے چڑھتے ھوئے ھم سب تھک جائیں گے..
🍀 ایسا کرتے ھیں کہ اس طویل راستے میں ھم باری باری ایک دوسرے کو قصے سناتے ھوئے چلتے ھیں..
🍀 25 ویں منزل تک میں کچھ قصے سناوں گا
اس کے بعد باقی 25 منزل تک دوسرا ساتھی قصے سنائے گا
اور پھر آخری 25 منزل تیسرا ساتھی..
🍀 اس طرح ھمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ھوگا اور راستہ بھی کٹ جائے گا.. "
🍀 اس پر تینوں متفق ھوگئے..
🍀 پہلے دوست نے کہا..
" میں تمہیں لطیفے اور مذاحیہ قصے سناتا ھوں جسے تم سب بہت انجوائے کروگے..
🍀 " اب تینوں ھنسی مذاق کرتے ھوئے چلتے رھے..

🍀 جب 25 ویں منزل آگئی تو دوسرے ساتھی نے کہا..
" اب میں تمہیں قصے سناتا ھوں مگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقی ھونگیں.. "
🍀 اب 25 ویں منزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے سناتے ھوئے چلتے رھے..
🍀 جب 50 ویں منزل تک پہنچے تو تیسرے ساتھی نے کہا..
" اب میں تم لوگوں کو کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ھوں.. "
🍀 جس پر پھر سب متفق ھوگئے اور غم بھرے قصے سنتے ھوئے باقی منزلیں بھی طے کرتے رھے..
🍀 تینوں تھک کر جب دروازے تک پہنچے تو تیسرے ساتھی نے کہا..
" میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ھے کہ ھم کمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ھی چھوڑ آئے ھیں.. "
🍀 یہ سن کر تینوں پر غشی طاری ھوگئی..
🍀 اگر دیکھا جائے تو ھم لوگ بھی اپنی زندگی کے 25 سال ھنسی مذاق ' کھیل کود اور لہو و لعب میں گزار دیتے ھیں..
🍀 پھر باقی کے 25 سال شادی ' بچے ' رزق کی تلاش ' نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھنسے رھتے ھیں..
🍀 اور جب اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر چکے ھوتے ھیں تو زندگی کے باقی آخری سال بڑھاپے کی مشکلات ' بیماریوں ' ھوسپٹلز کے چکر ' بچوں کے غم اور ایسی ھی ھزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ھیں..
🍀 یھاں تک کہ جب موت کے دروازے پر پہنچتے ھیں تو ھمیں یاد آتا ھے کہ "چابی" تو ھم ساتھ لانا ھی بھول گئے..
🍀 رب کی رضامندی کی چابی..
🍀 جس کے بغیر یہ سارا سفر ھی بےمعنی اور پچھتاوے بھرا ھوگا..
🍀 اس لیے اس سے پہلے کہ آپ موت کے دروازے تک پہنچیں '
اپنی چابی حاصل کرلیں....
دعا ہے کہ الللہ پاک ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے ۔۔آمین...

02/02/2023

بیوی نے کچھ دنوں پہلے گھر کی چھت پرکچھ گملے رکھوا دیے اور ایک چھوٹا سا باغ بنا لیا.گزشتہ دنوں میں چھت پر گیا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ بہت گملوں میں پھول کھلتے گئےہیں، نیبو کے پودے میں دو نیبو بھی لٹکےہوئے ہیں اوردو چار ہری مرچ بھی لٹکی ہوئی نظر آئی.میں نے دیکھا کہ گزشتہ ہفتے اس نے بانسکا جو پوداگملے میں لگایا تھا، اس گملےکو گھسیٹ کر دوسرےگملے کے پاس کر رہی تھی.
میں نے کہا تم اس بھاری گملے کو کیوں گھسیٹ رہی ہو؟ بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہاں یہ بانسکا پودا سوکھ رہا ہے، اسے کھسکا کر اس پودے کے پاس کر دیتے ہیں.
میں ہنس پڑا اور کہا ارے پودا سوکھ رہا ہےتو کھاد ڈالو، پانی ڈالو. اسےکھسکا کر کسی اور پودے
کے پاس کر دینے سے کیا ہو گا؟ "بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا یہ پودا یہاں اکیلا ہے اس لئے مرجھا رہا ہے.اسے اس پودے کے پاس کر دیں گے تو یہ پھر لہلہا اٹھے گا. پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہیں،لیکن انہیں اگر کسی اور پودے کا ساتھ
مل جائے تو جی اٹھتے ہیں. "یہ بہت عجیب سی بات تھی. ایک ایک کر کے کئی فوٹو آنکھوں کے آگے بنتی چلی گئیں.ماں کی موت کے بعد والد صاحب کیسے ایک ہی رات میں بوڑھے، بہت بوڑھے ہو گئے تھے.اگرچہ ماں کے جانے کے بعد سولہ سال تک وہ رہے، لیکن سوکھتے ہوئے پودے کی طرح.ماں کے رہتے ہوئے جس والد صاحب کو میں نے کبھی اداس نہیں دیکھا تھا،وہ ماں کے جانے کے بعد خاموش سے ہو گئے تھے.مجھے بیوی کے یقین پر مکمل اعتماد ہو رہا تھا. لگ رہا تھا کہ سچ مچ پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہوں گے. بچپن میں میں ایک بار بازار سے ایک چھوٹی سی رنگین
مچھلی خرید کر لایا تھا اور اسے شیشے کےجار میں پانی بھر کر رکھ دیا تھا.مچھلی سارا دن گم سم رہی. میں نے اس کے لئے کھانا بھی ڈالا، لیکن وہ چپ چاپ ادھرادھر پانی میں گھومتی رہی. سارا کھانا جار کی تلہٹی میں جا کر بیٹھ
گیا، مچھلی نے کچھ نہیں کھایا.دو دنوں تک وہ ایسے ہی رہی، اور ایک صبح میں نے دیکھا کہ وہ پانی کی سطح پر
الٹی پڑی تھی. آج مجھے گھر میں پالی وہ چھوٹی سی مچھلی یاد آ رہی تھی.بچپن میں کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا، اگر معلوم ہوتا تو کم سے کم دو، تین یا ساری مچھلیاں خرید لاتا اور میری وہ پیاری مچھلی یوں تنہا نہ مر جاتی. مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں کسی کو تنہائی پسند نہیں. آدمی ہو یا پودا، ہر کسی کو کسی نہ کسی کے ساتھ
کی ضرورت ہوتی ہے. آپ اپنے ارد گرد جھانكیں، اگر کہیں کوئی اکیلا نظر آئے تو اسے اپنا ساتھ دیجئے، اسے مرجھانے سے بچاے. اگر آپ اکیلے ہوں، تو آپ بھی کسی کا ساتھ لیجئے، آپ خود کو بھی مرجھانے سے روكے. تنہائی دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے. گملے کے پودے کو تو ہاتھ سے کھینچ کر ایک دوسرے پودے کے پاس کیا جا سکتا ہے، لیکن
آدمی کو قریب لانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے رشتوں کو سمجھنے کی، محفوظ کرنے کی اور سمیٹنے کی.
اگر دل کے کسی گوشے میں آپ کو لگے کہ زندگی کا رس سوکھ رہا ہے، زندگی مرجھا رہا ہے تو اس پر رشتوں کی محبت کا رس ڈالئے. خوش رہئے اور مسكرائیے .کوئی یوں ہی کسی اور کی غلطی سے آپ سے دور ہو گیا ہو تو اسے اپنے قریب لانے کی کوشش کیجئے اور ہو جایئے هرا
بھرا.

25/01/2023

*حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کبھار دنیاوی باتیں اور مزاح فرمایا کرتے تھے❤️

✨ یوں بھی ہوتا کہ وہ مجلس مستقل ایک واقعہ اور قصہ بن جایا کرتی۔
ایک مرتبہ نبی کریمؐ اپنے رفقاء سیدنا ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانؓ کی معیت میں علیؓ کے گھر تشریف لے گئے۔
سیدنا علیؓ کی اہلیہ سیدہ فاطمہؓ نے شہد کا ایک پیالہ ان حضرات کی مہمان داری کی خاطر پیش کیا۔ شہد اور خوبصورت چمکدار پیالہ۔۔۔ اتفاق سے اس پیالے میں اک بال گرگیا۔
آپؐ نے وہ پیالہ خلفائے راشدین کے سامنے رکھا اور فرمایا: آپ میں سے ہر ایک اس پیالے کے متعلق اپنی رائے پیش کرے۔
ابوبکر صدیقؓ فرمانے لگے کہ میرے نزدیک مومن کا دل اس پیالے کی طرح چمکدار ہے، اور اس کے دل میں ایمان شہد سے زیادہ شیریں ہے، لیکن اس ایمان کو موت تک باحفاظت لے جانا بال سے زیادہ باریک ہے۔
عمرؓ فرمانے لگے کہ حکومت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور حکمرانی شہد سے زیادہ شیریں ہے لیکن حکومت میں عدل وانصاف کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
عثمانؓ فرمانے لگے کہ میرے نزدیک علم دین، اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے، اور علم دین سیکھنا شہد سے زیادہ میٹھا ہے لیکن اس پر عمل کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
علیؓ نے فرمایا: میرے نزدیک مہمان اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور اس کی مہمان نوازی شہد سے زیادہ شیریں ہے اور ان کو خوش کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
سیدہ فاطمہؓ فرمانے لگیں کہ یارسول اللہ، اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں؟ آپؐ کے اجازت دینے پر فرمانے لگیں کہ عورت کے حق میں حیا اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے۔ اور اس کے چہرے پر پردہ شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور غیر مرد کی اس پر نگاہ نہ پڑے یہ بال سے بھی زیادہ باریک ہے ۔
کیا خوب ہی محفل تھی، جب خلفائے راشدین اپنی رائے کا اظہار کرچکے تو آپؐ کی طرف متوجہ ہوئے۔
ادھر سرکار دو عالمؐ کے لب مبارک ہے تو زبان نبوت سے یہ الفاظ مبارک نکلے کہ معرفت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور معرفت الٰہی کا حاصل ہونا اس شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اور معرفت الٰہی کے بعد اس پر عمل کرنا، بال سے زیادہ باریک ہے۔
ادھر زمین پر یہ مبارک محفل سجی تھی ادھر رب ذوالجلال سے جبریلؑ بھی اجازت لے کر آپہنچے اور فرمانے لگے کہ ’’میرے نزدیک راہ خدا چمکدار سے زیادہ روشن ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور اپنا مال و اپنی جان قربان کرنا شہد سے زیادہ شیریں اور اس پر استقامت بال سے زیادہ باریک ہے۔‘‘
جب زمین پر سجی اس محفل میں سب اپنی رائے کا اظہار کرچکے تو جبریل امین فرمانے لگے کہ یارسول! اللہ تعالیٰ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں، فرمایا کہ جنت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور جنت کی نعمتیں اس شہد سے زیادہ شیریں ہیں، لیکن جنت تک پہنچنے کے لیے پل صراط سے گزرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
بلاشبہ یہ مجلس بھی مبارک اور ہر ایک کی گفتگو بھی مبارک، اس مجلس میں جہاں آقا نامدارؐ تھے وہیں صحابہ بھی تھے، آپ کی یہ مجلس اور اس میں ہونے والی گفتگو ہم سب کیلیے مشعل راہ ہے۔
(بکھرے موتی ص 938)

23/01/2023

ھارون رشید نے بہلول کو ھدایت کی کہ بازار جائیں اور قصائیوں کے ترازو اور جن پتھروں سے وہ گوشت تولتے ھیں وہ چیک کریں اور جن کے تول والا پتھر کم نکلے انھیں گرفتار کرکے دربار میں حاضر کریں
‏بہلول بازار جاتے ہیں پہلے قصائی کا تول والا پتھر چیک کرتے ہیں تو وہ کم نکلتا ھے قصائی سے
پوچھتے ہیں کہ حالات کیسے چل رھے ھیں قصائی کہتا ہے کہ بہت برے دن ھیں دل کرتا ہے کہ یہ گوشت کاٹنے والی چھری بدن میں گھسا دوں اور ابدی ننید سوجاوں
‏بہلول آگے دوسرے قصائی کے تول والے پتھر کو چیک کرتے ہیں وہ بھی کم نکلتا ھے، قصائی سے پوچھتے ہیں کہ کیا حالات ہیں وہ کہتا کہ کاش اللہ نے
پیدا ھی نہ کیا ھوتا بہت ذلالت کی زندگی گزار رھا ھوں
‏بہلول تیسرے قصائی کے پاس پہنچے تول والا پتھر چیک کیا تو بلکل درست پایا ،قصائی سے پوچھا کہ زندگی کیسے گزر رھی ھے؟ قصائی نے کہا کہ اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر ھے بہت خوش ھوں اللہ تعالٰی نے بڑا کرم کیا ھے اولاد نیک ھے زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔ بہلول واپس آتے ہیں ھارون رشید پوچھتے ہیں کہ کیا خبر ھے
‏بہلول کہتے ہیں کہ کئی قصائیوں کے تول والے پتھر کم نکلے ھیں
‏ہارون دشید نے غصے سے کہا کہ پھر انھیں گرفتار کرکے لائے کیوں نہیں؟
‏بہلول نے کہا اللہ تعالٰی انھیں خود سزا دے رھا تھا ان پر دنیا تنگ کردی تھی تو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی

23/01/2023

ایک بڑی کمپنی کو منیجر کی پوسٹ کے لئے کسی انتہائی قابل شخص کی تلاش تھی تاہم پینٹ کوٹ پہنے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کے درجنوں انٹرویوز کے باوجود کوئی بھی امیدوار یہ نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا، اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کمپنی کا مالک انٹرویورز کے پینل میں خود بھی بیٹھتا تھا اور جب پینل کے دیگر ممبران اپنے سوالات مکمل کر لیتے تو مالک آخر میں ہر امیدوار سے یہ سوال ضرور پوچھتا کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہوتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں میں کوئی امیدوار کہتا کہ ایک اچھے منیجر کو وقت کا پابند ہونا چاہیے، کسی کا جواب ہوتا اسے پروفیشنل ہونا چاہیے، کوئی کہتا اسے سکلڈ ہونا چاہیے اسی طرح کوئی تجربہ کاری، کوئی ذمہ داری تو کوئی ایمانداری کو اچھے منیجر کی پہچان بتاتا، تاہم کمپنی مالک ان میں سے ہر جواب پر غیر تسلی بخش انداز میں خاموش ہو جاتا اور امیدوار کو جانے کا کہہ دیتا، پینل کے دیگر ممبران ایک تو انٹرویو کر کر کے تنگ آچکے تھے دوسرا وہ اس تجسس میں تھے کہ آخر کمپنی مالک کے نزدیک ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہو سکتی ہے، انھوں نے خود بھی اس سوال کا جواب کمپنی مالک سے جاننے کی کوشش کی تاہم مالک نے اپنا مطلوبہ جواب کسی پر ظاہر نہیں کیا اور پینل کو انٹرویوز جاری رکھنے کو کہا۔

ایک روز ایک سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور عام سے حلیے والا نوجوان انٹرویو دینے آ گیا، اسے دیکھ کر پینل کے ممبران طنزیہ انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہ اتنے ماڈسکاڈ اور اپ ٹو ڈیٹ قسم کے لوگ یہ انٹرویو پاس نہیں کر پائے تو یہ دیسی سا انسان کہاں سلیکٹ ہو پائے گا اور اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے اس سوال کا جواب معلوم ہو جو باقی امیدواروں کی ناکامی کی وجہ بنا۔

خیر نوجوان نے پینل کے سوالات کے انتہائی اعتماد سے جواب دئیے، جس کے بعد کمپنی کے مالک نے اپنا سوال پوچھا جینٹل مین، یہ بتائیں کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے بہترین کوالٹی کیا ہوتی ہے؟

نوجوان نے سوال سن کر کچھ دیر کے لیے سر جھکایا اور پھر کمپنی مالک کی طرف دیکھ کر پورے اعتماد سے مسکرا کر کہا:
سر، اچھا منیجر وہی ہے جو کمپنی کے معاملات کو کمپنی کے مالک سے بھی زیادہ بہتر جانتا اور سمجھتا ہو اور جس کے ہوتے ہوئے مالک برائے نام مالک ہی کہلائے، یہ عجیب و غریب سن کر پینل ممبران چونک گئے، وہ نوجوان کی اس بدتمیزی اور گستاخانہ لہجے پر تلملا اٹھے اور اس پر 'شٹ اپ' اور' ماینڈ یور لینگویج' جیسے کلمات کی بوچھاڑ کر دی تاہم کمپنی مالک نے ممبران کو خاموش رہنے اور انتظار کرنے کو کہا پھرمسکرا کر نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا: بالکل ٹھیک جواب دیا آپ نے لیکن یہ بات آپ نے کس سے سیکھی؟

پینل ممبران حیرت سے ایک دوسرے کے منہ دیکھنے لگے، نوجوان نے بد دستور خود اعتمادی کے ساتھ مسکراتے ہوئے جواب دیا سر اپنے گھر سے اور اپنے والدین سے۔

پینل ممبران نوجوان کی بات غور سے سننے لگے نوجوان نے باری باری ان ممبران کی جانب دیکھتے ہوئے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی کہ ہم بہن بھائیوں نے اپنے والد کو اپنے گھر کے سربراہ کا درجہ دیا، ایک منٹ کے لئے مان لیجیے کہ وہ کمپنی مالک تھے، گھر بھر کی کفالت ان کی ذمہ داری تھی لیکن گھر کو چلانا کس منیجر کا کام تھا؟

کس کے کپڑے کہاں ٹانگے ہیں، کس کے جوتے کہاں رکھے ہیں، کس کی کتابیں کہاں دھری ہیں، کس کے کھلونے کہاں پڑے ہیں، کپڑے گندے ہو گئے تو کون دھوے گا، استری کر کے کون دے گا، سب کی من پسند کھانا بنانا، بنا کے سامنے رکھنا، پھر برتن دھونا کس کی ذمہ داری ہے، پھر گھر بھر کی صفائی، جھاڑوپونچھ، فرش کی دھلائی، رات سب کو سلاکر پھر سونا، صبح سب سے پہلے جاگ کر سب کو جگانا، ایک ایک کو کھلا پلاکر تیار کر کے سکول بھیجنا، کپڑے پھٹ جاتے تو پیوند لگانا، بٹن ٹوٹ جاتا تو ٹانکا لگانا، بیمار پڑ جاتے تو پرہیز والا کھانا اور دوائی دینا،عید شادیوں، سیر سپاٹے، رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لئے سب کی تیاری،گھر میں دعوت پر درجن بھر مہمانوں کا کھانا بنانا، سر میں تیل ڈالنا، جوییں نکالنا، بخار میں ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھنا، مالش کرنا، کبھی کھیر، کبھی حلوہ، کبھی گجریلا کبھی کھچڑی، کبھی زردہ، کبھی شربت، کبھی ابلے ہوئے انڈے، اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔

یہ سب مینج کرنے والی میری امی تھیں، وہ شاندار منیجر تھیں، کبھی بھول کر ہم ابو سے پوچھ لیتے کہ ہماری فلاں چیز کہاں پڑی ہے تو ڈانٹ کر کہتے ارے بھئی مجھے کیا معلوم اپنی امی سے پوچھو اور اس سے بھی مزیدار بات یہ کہ خود ابو کا موبائل، پرس، کپڑے، جوتے، موٹر سائیکل کی چابی حتیٰ کہ دفتر کی فائلیں تک امی کے پتے پر ہوتی تھیں، تبھی ہم اکثر ابو کو چھیڑتے ہوئے کہا کرتے تھے، آپ تو بس برائے نام ہی گھر کے مالک ہیں، آپ سے کہیں زیادہ تو امی گھر کو جانتی اور سمجھتی ہیں اور ابو بھی ہنس کر اعتراف کیا کرتے کہ امی کے ہوتے ہوئے انھیں کبھی کسی بھی بات کی فکر نہیں ہوتی، اس لیے وہ گھر کے برائے نام مالک ہی ٹھیک ہیں۔

بس سر اس لیے میرے نزدیک ایک اچھے منیجر کی یہی تعریف ہے، کمپنی مالک نے تحسین آمیز نگاہوں سے نوجوان کو دیکھا اور پھر پینل سے مخاطب ہو کر کہا آپ سب نے اس نوجوان کا جواب سن کر اسے ڈانٹ دیا تھا لیکن اب جبکہ اس نے اپنے جواب کی تشریح کی ہے تو مجھے امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس کے جواب کے پیچھے اس کا مشاہدہ بھی ہے اور عمر بھر کا تجربہ بھی اور ایک ٹھوس نظریہ بھی۔

مجھے بھی ایسا ہی منیجر چاہیے، جس کے ہوتے ہوئے میں برائے نام مالک اور بے فکر شخص بن جاؤں، یہ کہہ کر کمپنی مالک نے نوجوان کو منیجر کی پوسٹ کے لئے منتخب ہونے کی مبارک باد دیتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پینل کے ممبران کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگ گئے۔

اس کہانی کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ گھر کا ماحول بہترین درسگاہ ہے اور دوسرا یہ کہ دوسروں کو قائل کرنے کے لیے رٹی رٹائی اور گھسی پٹی کتابی باتوں کا سہارا لینے کی بجائے سادہ الفاظ، عملیت پسندی اور فطری مشاہدات پر مبنی سوچ سے کام لیں، آپ زیادہ معتبر ٹھہریں گے.....

21/01/2023

ایک شرابی کے ہاں ہر وقت شراب کا دَور رہتا تھا-
ایک مرتبہ اس کے دوست احباب جمع تھے شراب تیار تھی اس نے اپنے غلام کو چار درہم دیے کہ شراب پینے سے پہلے دوستوں کو کھلانے کے لیے کچھ پھل خرید کر لائے.
وہ غلام بازار جا رہا تھا کہ راستے میں حضرت منصور بن عمار بصری رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس پر گزر ہوا وہ کسی فقیر کے واسطےلوگوں سے کچھ مانگ رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ
"جو شخص اس فقیر کو چار درہم دے میں اس کو چار دعائیں دوں گا"
اس غلام نے وہ چاروں درہم اس فقیر کو دے دیے.
حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا, بتا کیا دعائیں چاہتا ہے...؟
غلام نے کہا میرا ایک آقا ہے میں اس سے خلاصی چاہتا ہوں.
حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے دعا فرمائی اور پوچھا دوسری دعا کیا چاہتا ہے...؟
غلام نے کہا مجھے ان درہموں کا بدل مل جائے.
حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی بھی دعا کی پھر پوچھا تیسری دعا کیا ہے...؟
غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میرے سردار کو توبہ کی توفیق دے اور اس کی دعا قبول کرے.
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی بھی دعا کی پھر پوچھا چوتھی دعا کیا ہے...؟
غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میری, میرے سردار کی, تمہاری اور یہاں مجمعے میں موجود ہر شخص کی مغفرت کرے.
حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی یہ بھی دعا کی.
اس کے بعد وہ غلام خالی ہاتھ اپنے سردار کے پاس واپس چلا گیا.
سردار اسی کے انتظار میں تھا. دیکھ کر کہنے لگا " اتنی دیر لگا دی...؟
غلام نے قصہ سنایا. سردار نے ان دعاؤں کی برکت سے بجائے غصہ ہونے اور مارنے کے یہ پوچھا کہ کیا کیا دعائیں کرائیں...؟
غلام نے کہا
پہلی تو یہ کہ میں غلامی سے آزاد ہو جاؤں.....
سردار نے کہا میں نے تجھے آزاد کر دیا,
دوسری کیا تھی...؟
غلام نے کہا مجھے ان درہموں کا بدلہ مل جائے.....
سردار نے کہا میری طرف سے تمہیں چار ہزار درہم نذر ہیں,
تیسری کیا تھی....؟
غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ تمہیں شراب وغیرہ فسق و فجور سے توبہ کی توفیق دے....
سردار نے کہا میں نے اپنے سب گناہوں سے توبہ کر لی,
چوتھی کیا تھی....؟
غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میری,آپ کی, ان بزرگ کی اور سارے مجمع کی مغفرت فرما دے....
سردار نے کہا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے....
رات کو سردار کو خواب میں ایک آواز سنائی دی.....
جب تو نے وہ تینوں کام کر دیے جو تیرے اختیار میں تھے تو کیا تیرا یہ خیال ہے کہ اللہ وہ کام نہیں کرے گا جس پر وہ قادر ہے....؟
اللہ نے تیری, اس غلام کی, منصور کی, اور اس سارے مجمعے کی مغفرت کر دی ہے....
اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صدقہ باعث نجات بھی ہے اللہ پاک ہم سب کو صدقہ کرنے اور اپنی زندگی کو عین اسلام کے مطابق بسر کرنے کی اور جو ہم سے گناہ ہو گئے ہیں ان کی معافی مانگنے کی توفیق دے ---

(ریاض الصالحین صفحہ ۱۲۰)

Want your organization to be the top-listed Government Service in Lahore?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

جب قومی ترانہ شروع ہونے کے بعد سپیکربند ہوگۓاور پاکستانی قوم نے کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لےلیا۔۔۔۔۔تو پھرکیاہوا؟
Motivational story
Motivational story
Islamic Story
ماٸ پھپھے کٹنی
Sila rehmi / a motivational story
Talib e ilm or camel
Baap ki apnay baitay se muhabbat
Heart tuching urdu story by #urdumoralstories

Category

Address

Lahore
54000

Other Libraries in Lahore (show all)
pukaar-e-qalb-e-saleem pukaar-e-qalb-e-saleem
ABDUL AZIZ MANZIL, Umar Street
Lahore, 04296

a motivation...

Library of Lahore University of Management Sciences Library of Lahore University of Management Sciences
LUMS Library, Opposite Sector 'U' DHA
Lahore, 54792

Gad & Birgit Rausing Library

Mohana institute of palmistry & Astrology + Spells Mohana institute of palmistry & Astrology + Spells
New Islamic Colony. Yazman Road . Near Punjab College. Bahawalpur .
Lahore, 63100

Faryad Faryad
Zela Kasor Bhoa Asal
Lahore, MFARYAD

FARVA learning centre FARVA learning centre
Street 1 House# 32 Jallo Park Road Lahore
Lahore

it's my learning centre for children and ladies

Minhaj Books Minhaj Books
Lahore

Shaykh-ul-Islam Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri has authored 1000 books in Urdu, English and Arabic langu

Speck The Truth Speck The Truth
ISLAM N***R
Lahore

مکافاتِ عمل ツ مکافاتِ عمل ツ
Lahore

کوئی میرے ساتھ غلط کرجائے تو مکافاتِ عمل کا دلاسا دے کر

Epiphany Corner Epiphany Corner
259/B Khizer Road, Wapda Officers Colony Upper Mall Scheme
Lahore, 54600

A small community library at Amal Academy, a project of love and faith to bring books to readers and readers to books. An initiative of Amal Fellows.

Kashif Kashif
Nagra
Lahore, NO

Nawab Rajpoot Nawab Rajpoot
Narang Mandi
Lahore, CHAND

Islamic Knowledge AR Islamic Knowledge AR
Lahore
Lahore, 40050

𝕀𝕊𝕃𝔸𝕄𝕀ℂ 𝕂ℕ𝕆𝕎𝕃𝔼𝔻𝔾𝔼 𝔸ℝ ▀▄▀▄▀▄ 🄵🄱 - 🄸🄽🅂🅃🄰 - 🅈🅃▄▀▄▀▄▀