Babar Ali Basra
Nearby finance companies
Abuja Wusa Zone, Wuse
Rajshahi Division
Baptista, Cotabato City
Rajgurunagar
Gaffargaon
Betul
Embilipitiya Pallegama
Flr. Macalintal Bldg. C. Tirona Street, Rajshahi Division
Rapat Setia, Rajshahi Division
ٹیکس کنسلٹنٹ ،این جی اوز رجسٹریشن پراسس کنسلٹنٹسی اینڈ انشورنس رلیٹڈ ایشوز
سال 2023کے سالانہ گوشوارے جمع نہ کروانے والے 5لاکھ سے زائد افراد کی موبائل فون سمز بند کرنے کے احکامات جاری، نیا NTN بنوانے اور اپنے سالانہ گوشوارے جمع کروانے کیلئے رجوع کریں ۔
بابرعلی بسراء ٹیکس کنسلٹنٹ ۔
03349988707
03004407431
روز آتے ہیں بادل ابر رحمت لے کر
میرے شہر کے فرعونوں کے اعمال انہیں برسنے نہیں دیتے۔
انقلاب وہاں آتے ہیں جہاں مظلوم متحد ہو جہاں مظلوم اپنے اپنے پسندیدہ ظالم کے لیے آپس میں لڑیں وہاں انقلاب نہی قحط آتے ہیں
اب موقع پر فائلر ہو کر پراپرٹی کی خرید وفروخت کرنے والوں کے لیے FBR نے ایک نیا سلیب جاری کردیا جو بندہ 5 کروڑ تک کی پراپرٹی کی خرید کے وقت فائلر ہوگا اس کو 6% FBR ٹیکس لگے گا نان فائلر کو 12% اور ریگولر فائلر کو 3% لگے گا
اسی طرح پراپرٹی کو موقع پر فروخت کرنے پر فائلر ہونے والے کو بھی 6% FBR ٹیکس لگے گا نان فائلر کو 10% اور ریگولر فائلر کو 3% لگے گا
اور جو بندہ پراپرٹی خرید کر 6 سال کے اندر دوبارہ فروخت کرے گا اس کو پرانی رجسٹری اور نئی رجسٹری کے فرق/ منافع کا فائلر ہونے پر 15% تک اور نان فائلر ہونے پر 45% تک ٹیکس اپنی ٹیکس ریٹرن کے وقت FBR کو ادا کرنا ہوگا
For service contact please 03349988707
03004407431
انصاف کی کہیں کوئی اُمید نہیں رہی زمانے میں
سنا ہے مایوسی ختم ہو جاتی ہے اِنصاف کی فراہمی سے......
بدصورت گدھ
ایک قیمتی سبق کے ساتھ ایک کہانی۔
ایک دن ایک گدھ راستے سے چل رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک خوبصورت برتن زمین پر پڑا ہے۔ وہ حیران تھا اور یقین نہیں کر رہا تھا کہ اتنا خوبصورت برتن دنیا میں کہیں بھی موجود ہے۔
اچانک برتن نے گدھ سے کہا،
"میرا نام اوپور ہے۔ میں مافوق الفطرت طاقتوں سے مالا مال ایک زبردست برتن ہوں۔ میں آپ کو خوبصورت بنا سکتا ہوں کیونکہ میں خوبصورتی کی دیوی ہوں۔ میں نے ہزاروں پرندوں اور جانوروں کو خوبصورتی سے نوازا ہے۔ یہاں، صرف میرے مائع کو پیو، اور تم ایک خوبصورت اور دلکش پرندے میں تبدیل ہو جاؤ گے، میں نے بہت سے پرندوں کو، طوطے، فلیمنگو، فیزنٹ، کوکاٹو اور ہر ایک کو منفرد خوبصورتی سے نوازا ہے۔"
گدھ نے برتن کو مشکوک نظروں سے دیکھا، ہچکچاتے ہوئے سر ہلایا، اور پھر سیٹی بجائی،
"میں تم پر یقین نہیں رکھتا، اور مجھے تم پر بھروسہ نہیں ہے۔ تم صرف مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہو اور مجھے ہر طرح سے نقصان پہنچانا چاہتے ہو۔"
برتن بڑبڑایا،
"اوہ، چلو، میں برائی یا کچھ بھی نہیں ہوں۔ میری طاقت کو کم مت سمجھو۔ میں واقعی میں تمہیں خوبصورت بنانا چاہتا ہوں۔"
گدھ ایک لمحے کے لیے رکا، پھر کرخت لہجے میں بولا۔
"مجھے صرف ایک منٹ دیں، ٹھیک ہے؟ مجھے وہاں سے باہر جا کر ان پرندوں سے تصدیق کرنی ہے جن کا آپ نے ابھی ذکر کیا ہے۔ میرا انتظار کرو، میں ابھی واپس آؤں گا۔"
گدھ اتنی جلدی میں چلا گیا۔ جب وہ گاؤں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اکثر پرندے خوبصورت ہو چکے ہیں۔ واہ، برتن تو ٹھیک تھا، اس نے خود سے سوچا۔ وہ جلدی سے برتن کی طرف بھاگا، لیکن وہ برتن اب وہاں نہیں تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو برتن پتلی ہوا میں غائب ہو گیا۔ وہ چیخا،
"نہیں، نہیں، انتظار کرو! ابھی مت جاؤ! پلیز، مجھے خوبصورت بنا دو! مجھے ایک اور موقع دو، پلیز!"
تاہم، غائب برتن نے کہا،
"بہت دیر ہو چکی ہے، تم سنہری موقع گنوا چکے ہو، تم سمجھے نہیں، لیکن میں نے تمہیں بتایا کہ میرا نام اوپور ہے جو کہ موقع کی مختصر شکل ہے۔ اگر کوئی موقع گنوا دے تو وہ اسے کبھی واپس نہیں ملے گا۔ کیونکہ موقع آتا ہے، لیکن صرف ایک بار!
جیسے ہی برتن پوری طرح غائب ہو گیا۔
مغربی ادب سے اقتباس
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تُوں ِلکھ ِلکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ دردمنداں دیاں دردیاں اُٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں ِوچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دِتی زہر رلا
تے انہاں پانیاں نے دھرت نُوں دِتا پانی لا
ایس زرخیز زمین تے لُوں لُوں پُھٹیاں زہر
گٹھ گٹھ چڑھیاں لالیاں پُھٹ پُھٹ چڑھیا قہر
ویہو ولسّی وا فیر وَن وَن وگی جھگ
اوہنے ہر اِک وانس دی انجھلی دِتی ناگ بنا
ناگاں کِیلے لوک مُونہہ بَس فیر ڈنگ ہی ڈنگ
پل او پل ای پنجاب دے نیلے پے گے انگ
وے گلے اوں ٹُٹے گیت فیر، ترکلے اوں ٹُٹی تند
ترنجنوں ٹُٹیاں سہیلیاں چرکھڑے کُوکر بند
سنے سیج دے بیڑیاں لُڈن دِتیاں روڑھ
سنے ڈالیاں پینگ اج پپلاں دِتی توڑ
جتھے وجدی سی پُھوک پیار دی اوہ انجھلی گئی گواچ
رانجھے دے سب وِیر اج بُھل گئے اوہدی جاچ
دھرتی تے لہُو وسیا قبراں پیاں چوون
پرِیت دِیاں شاہ زادیاں اج وِچ مزاراں روون
وے اج سبھے قیدو بن گئے ، حُسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائے لبھ کے وارث شاہ اِک ہور
اَج آکھاں وارث شاہ نُوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
شاعرہ: امرتا پریتم
Amrita Pritam: 31 August 1919 – 31 October 2005
عوام تو پراپرٹی ٹیکس دیں گے خریدنے والا بھی اور بیچنے والا بھی ، اگرچہ میاں بیوی ایک دوسرے کو ٹرانسفر کریں یا باپ اور بیٹا ایک دوسرے کو ٹرانسفر کریں ۔ مگر بیوروکریٹس چاہے حاضر سروس ہوں یا ریٹائرڈ اور اسی طرح فوجی افسران حاضر سروس ہوں یا ریٹائرڈ ۔ وہ دن میں دس فائلیں بھی بیچیں خریدیں ان پر کوئی ٹیکس نہیں ۔ یہ قانون بنانے والے اس کو نافذ کرنے والے اس بل پر سائن کرنے والوں پر خدا کی لعنت ان کا ٹھکانہ جہنم ہو
اس پاکستان میں عوام کی دو کیٹیگریز ہیں ۔
برہمن اور شودر ۔
فون سم بند ہونا شروع ہو گئی ہیں فوری طور 2023
کیFBR ریٹرن جمع کروائیں۔معلومات کیلئے ۔
03349988707
03004407431
_"اگر بھیڑیا جج ہو تو بکرے کے کوئی حقوق نہیں ہوتے"
لیکن ہم جیسوں کو بجلی کے بلوں کے ساتھ ساتھ بجلی کے جھٹکے بھی لگنے چاہیئے کہ شاید ہماری مردہ غیرت جاگ جائے۔
جو لوگ مہنگائی پر خاموش ہیں۔۔ کیونکہ کسی طرح ان کا گزار اچھے سے چل رہا ہے۔۔
ایک مرتبہ کسی دیہات کا چکر لگائیں۔۔ دیکھیں وہاں لوگوں کے کیا حالات ہیں۔۔
جو ظلم حکومت نے گندم سکینڈل میں کسانوں پر کیا ہے۔۔ لوگوں کے پاس کچھ نہیں بچا۔۔
نہ گھر چلانے کا پیسہ۔۔ نہ بل ادا کرنے کا۔۔ ان لوگوں کا دارومدار کھیتی باڑی پر ہوتا ہے۔۔ لیکن سب کچھ اس بار حکومتی ظلم کی وجہ سے گنوا بیٹھے ہیں۔۔ اب ان کے پاس اگلی بار گندم اگانے کیلئے کچھ موجود ہی نہیں ہے۔۔ شادیاں تک کینسل ہورہی ہیں۔۔
جن لوگوں کے پاس کچھ پیسہ بچا ہے۔۔ وہ اس ڈر سے اگلی فصل نہیں اگارہے۔۔ کہ اگلی بار بھی یہی کچھ ہوگا۔۔ جو اس بار ہوا تھا۔۔ لیکن ان کے پاس اور کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے۔۔ اگر گندم نہیں اگائیں گے تو جو تھوڑا بہت پیسہ بچا ہے۔۔ وہ ویسے ہی خرچ ہو جائیگا۔۔
تو آگے کیلئے مکمل تاریکی۔۔
مطلب ان کو مکمل بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے۔۔
اندازہ کریں ان کی بے بسی کا۔۔ ایک ایک دن اس ڈر میں گزر رہا ہے۔۔ کہ کل ان کے ساتھ کیا ہوگا۔۔
ان لوگوں کی آواز بنیں۔۔ وہ اس قدر مجبور ہیں روزگار کے چکر میں۔۔ کہ اپنے لیے آواز بلند نہیں کر سکتے۔۔ ان کی آواز بنیں۔۔
تاکہ کل کو آپ کیلئے بھی آواز اٹھائی جاسکے۔۔!!!
ساغر صدیقی کہ والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ھیں کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے غصہ میں اس لڑکی کہ گھر والوں نے لڑکی کی شادی پنجاب کہ ایک ضلع حافظ آباد میں کردی تھی جو کامیاب نہ ہوئی
لیکن ساغر اپنے گھر کی تمام آسائش و آرام
چھؤڑ چھاڑ کر داتا کی نگری رہنے لگا(داتا دربار لاہور)
جب اسکی محبوبہ کو پتا چلا ساغر داتا دربار ہے۔ تو وہ داتا صاحب آ گئی کافی تلاش کہ بعد آ خر تاش کھیلتے ھوئے ایک نشئیوں کہ جھڑمٹ میں ساغر مل ہی گیا
اس نے ساغر کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ مجھے میرے خاونذ نے ھاتھ تک نہیں لگایا اور ہماری داستان محبت سن کر مجھے طلاق دیدی ھے اب اگر تم چاہو تو مجھے اپنا لو
ساغر نے کہا
بندہ پرور کوئی خیرات نہیں
ھم وفاؤں کا صلہ مانگتے ھیں
غربت، ڈپریشن، ٹینشن کی وجہ سے ساغر صدیقی کے آخری چند سال نشے میں گزرے اور وہ بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتے تھے گلیوں میں فٹ پاتھ پر سویا کرتے تھے لیکن اس وقت بھی انھوں نے شاعری لکھنا نہ چھوڑی۔
میری غربت نے میرے فن کا اڑا رکھا ہے مزاق۔۔
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں۔
ساغر صدیقی ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں کہ جب جنرل ایوب خان صاحب پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ایوب خان صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ سٹارٹ ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
جب وہ شاعر شاعری کر کے فارغ ہوا تو جنرل صاحب اس شاعر کو کہتے ہیں کہ محترم جو غزل آپ نے سٹارٹ میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی یقینا"8 کسی نے خون کے آنسووں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے تو وہ شاعر بولے جناب عالی اس سے بڑی آپ کے لئے خوشخبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، اس کو لکھنے والا لکھاری یعنی شاعر آپ کے ملک پاکستان کا ہے، جب جنرل صاحب نے یہ بات سنی تو آپ دھنگ رہ گے اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں جب آپ نے اس شاعر سے اس غزل کے لکھاری یعنی شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی اس درد بھرے شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی صاحب کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاو اور کہنا کہ جنرل ایوب خان صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انہوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟؟ کون سا شاعر؟؟ ارے آپ اس چرسی اور بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں، جب وہ جنرل ایوب خان صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی صاحب کے پاس گیا اور ان کو جنرل صاحب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی صاحب کہنے لگے جاو ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی اسی لئے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بشمول ساغر نشے میں مست وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لئے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اسرار (ترلوں) کے باوجود وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے جنرل صاحب کو آگاہ کیا۔
کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان صاحب پھر خود ساغر صدیقی صاحب سے ملنے کے لئے لاہور آئے اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی اک نہ رکنے والی جھڑی لگ گئ اور پھر انہوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے جب مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا
کہ
جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی،،،
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
"میں اپنے غلاموں کو کوڑے نہیں مارتا، جب کبھی کوئی گڑبڑ ہوتی ہے، تو کسی ایک کو مار ڈالتا ہوں، اِس سے اُن کی فرمانبرداری درست ہو جاتی ہے۔۔ غلام اور گھوڑے دونوں کو سنبھلنا ذرا مشکل کام ہوتا ہے۔۔۔"
"ان غلاموں کے ذہنوں میں ایسے خیالات ہیں، جنھوں نے زبجیریں پہن رکھی ہیں۔ آپ انسانوں کو درندہ بنایئے، وہ فرشتوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچیں گے۔۔"
"دیوتا تو امیر رومنوں جیسے تھے، انھیں غلاموں کی زندگی سے کوئی غرض نہ تھی۔۔۔ جبکہ یہ انسان نما کمتر لوگ۔۔ جو ننگ دھڑنگ منڈی میں، گدھے سے بھی سستی قیمت پر بیچےیا خریدے جاسکتے تھے۔ جن کے کندھے سواری کے لیے استعمال ہوتے تھے، اور جو رئیسوں کے کھیتوں میں ہل کھینچتے تھے۔۔عظیم بغاوتیں کرنے کے باوجود وہ ہمیشہ ناکام ہوئے۔۔ رومن انھیں صلیبوں پر میخوں کے ذریعے گاڑھتے رہے۔۔، تاکہ سب دیکھیں کہ ایک غلام جب غلام نہیں رہتا تو اُس کا انجام کیسا دردناک ہوتا ہے۔۔"
"ایک بار ایک رومن غلام کو صلیب پر چڑھا دیا گیا۔ جب اُسے صلیب پر لٹکے چوبیس گھنٹے ہو گئے تو بادشاہ نے اُسے معاف کر دیا۔۔۔ صلیب پر، جو اُس پر بیتی، وہ سب کچھ اُس نے لکھ دیا۔ اُس نے لکھا، 'صلیب پر صرف دو چیزیں موجود ہوتی ہیں، ایک 'درد' دوسرا 'دوام'۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں صرف چوبیس گھنٹے صلیب پر رہا، مگر میں تو اُس وقت سے صلیب پر تھا، جب یہ دنیا ابھی پیدا بھی نہ ہوئی تھی۔۔، سو اگر وقت نہ رہے تو ہر لمحہ 'دوام' ہے۔۔۔"
"ہر انسان کے پاس تھوڑی سی قوت، تھوڑی سی امید اور تھوڑی سی محبت ہوتی ہے، یہ وہ خاصیتیں ہیں ، جن کے بیج تمام انسانوں میں بو دیے گئے ہیں۔ اگر وہ اِنھیں خود تک محدود رکھتا ہے تو یہ بیج جلد گل سڑ کر، مر جاتے ہیں۔۔۔ اور اگر وہ انھیں دوسروں کو بانٹ دیتا ہے تو یہ بے پناہ ذخیرہ کبھی ختم ہی نہیں ہوپاتا۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہزار سال قبل، سلطنتِ روم میں ہونے والی، غلاموں کی عظیم بغاوت، کے پس منظر میں لکھے جانے والے، 'ہاورڈ فاسٹ' کے شہرہ آفاق ناول "سپارٹیکس"، سے چند اقتباسات۔
تصویر میں نظر آنے والا آدمی ایک رومی غلام تھا جس کا نام Spartacus تھا اس نے بھاگ کر دوسرے غلاموں سے مل کر رومی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی کئی فتوحات بھی حاصل کیں لیکن آخرکار شکست کھا کر مارا گیا لیکن دنیا کیلئے ہمت و بہادری کی داستان چھوڑ گیا ۔
لیسکو واپڈا نے اپنے صارفین کے ظلم کی انتہا کردی 200سے زائد یونٹ کی صورت میں واپڈا کا ٹریف تبدیل ہوجاتا ہے اور ایک یونٹ زیادہ ہونے کی صورت میں صارف کو 5000روپے رقم اضافی ادا کرنا ہوگی وہ اگلے 6 ماہ تک بیچاری مجبور اور مظلوم عوام نے گرمی برداشت کرلی پر 190سے اوپر ریڈنگ نہیں جانے دی لیکن واپڈا اہلکاروں نے وہی کیا جو اوپر سے آرڈر تھے کہ غریب کی ہرصورت چمڑی اتانی ہے میٹر ریڈروں بجلی کے میٹروں کی ریڈنگ ہی تاخیر سے لی تاکہ صارف کے یونٹ 200سے زائد چل جائیں اس کے ساتھ ایسے لوگ جنہوں 35دن تک بھی 200یونٹ سے کم بجلی استعمال کی ہے ان کو 20سے 25یونٹ خود سے اضافی ڈال کر 5000ہزار روپے پرمنتھ والا ٹریف میں شامل کر دیا گیا ہے جو ظلم عظیم ہے غریب ایک وقت کی کیلئے پریشان ہے بجلی بل کہاں سے ادا کرے گا حکومت ہوش کے ناخن لے غریبوں پر ظلم بند کرے عیاش حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے ریاستی اداروں کے زریعے عوام کا جینا محال کر دیا ہے لوگ جائیں تو کدھر جائیں فریاد کریں تو کس سے کریں ۔
دُنیا کا واحد بدقسمت مُلک پاکستان ⤹
جس میں چند لوگوں کی
عیاشیوں کے لیئے کروڑوں انسان بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں 💔
ہولڈنگ سائن بورڈ
ایڈورٹائزنگ کا چلتا ہوا بزنس برائے فروخت
03004407431
ہن دسو
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻞ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ،
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯿﻠﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮑﺎﻝ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ،ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮨﮯ -
ﺧﻮﺏ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﻫﮯﺩﺍﻧﯽ ﺗﮭﯽ - ﺧﻄﺮﮦ ﺑﮭﺎﻧﭙﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﻫﮯﺩﺍﻧﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ - ﮐﺒﻮﺗﺮ ﻧﮯ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ؟
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﻨﺎ ﮨﮯ؟ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﭼﻮﮨﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﺮﻍ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮔﯿﺎ - ﻣﺮﻍ ﻧﮯ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ... ﺟﺎ ﺑﮭﺎﻳﻴﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ
ﺍﻭﺭ ﺑﮑﺮﺍ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﻟﻮﭦ ﭘﻮﭦ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﺳﯽ ﺭﺍﺕ ﭼﻮﻫﮯﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻛﮭﭩﺎﻙ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺯﮨﺮﯾﻼ ﺳﺎﻧﭗ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻡ ﮐﻮ ﭼﻮﮨﺎ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﭗ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮈﺱ ﻟﯿﺎ - ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮕﮍﻧﮯ ﭘﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﮑﯿﻢ ﮐﻮ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ، ﺣﮑﯿﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﮐﺎ ﺳﻮﭖ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ،
* ﮐﺒﻮﺗﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺧﺒﺮ ﺳﻦ ﮐﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﻣﻠﻨﮯ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻣﺮﻍ ﮐﻮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻣﺮ ﮔﺌﯽ
ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ ﺿﯿﺎﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﺮﺍ کاٹنے ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﮦ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﭼﻮﮨﺎ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ!
ﺑﮩﺖ ﺩﻭر. ﺍﮔﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﯿﺠﺌﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺳﻮﭼﯿﮟ
ﮨﻢ ﺳﺐ ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺳﻤﺎﺝ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻋﻀﻮ، ﺍﯾﮏ ﻃﺒﻘﮧ، ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮﯼ ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺫﺍﺕ ﻣﺬﮨﺐ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﻘﮯ ﮐﮯ ﺩﺍﺋﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﻜﻠﻴﮯ -
منقول
آپ کمال ملاحظہ کریں ۔۔۔ ماسٹرز کی طالبہ نے وین ڈرائیور کے ” چکر ” میں اپنے پڑھے لکھے ، محبت کرنے والے شوہر سے طلاق لے لی ۔
یہ میرے نہیں سیشن کورٹ کے الفاظ ہیں ۔
آپ حیران ہونگے صرف ایک شہر گجرانوالہ میں 2005 سے 2008 تک طلاق کے 75000 مقدمات درج ہوئے ہیں ۔ ایک نیوز رپورٹ کے مطابق محض 10 مہینوں میں 12913 خلع کے مقدمات تھے ۔ صرف ستمبر کے مہینے میں گجرانوالہ شہر میں 2385 خلع کے مقدمات آئے ۔اور صوبہ کیا ملک بھر میں یہی پوزیشن چل رہی ہے
آپ ہماری جینے مرنے کی قسمیں کھانے والی نسل کی سچی محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ 2017 میں 5000 خلع کے کیسسز آئے جن میں سے 3000 ” لو میرجز ” تھیں ۔
پاکستان کے دوسرے بڑے اور پڑھے لکھے شہر میں روزانہ اوسط 150 طلاقیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں ۔
یہ تو دیگ کا صرف ایک دانہ ہے ۔
عرب ممالک میں طلاق و خلع کا اوسط تو کئی یورپی ممالک سے بھی گیا گذرا ہے ۔
اس سے انکار نہیں ہے کہ ان میں سے بہت سارے واقعات میں عام طور پر سسرال والوں کا لڑکی سے رویہ اور شوہر کا بیوی کو کوئی حیثیت نہ دینا بھی اصل وجوہات ہیں لیکن آپ کسی بھی دارالافتاء چلے جائیں ہفتے کی بنیاد پر سینکڑوں خطوط ہیں جو خواتین نہیں مرد حضرات لکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہماری بیوی کو کسی اور کے ساتھ ” محبت ” ہوگئی ہے ۔ وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے ۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے یا بچہ بھی ہے ۔ بتائیں کیا کروں
نبی مہربانﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالی کو جائز کاموں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے “۔
ایک عالم دین نے کیا خوب فرمایا تھا ” یہ قوم اسلام پر مرنے کے لئیے تیار ہے لیکن اسلام پر جینے کے لئیے تیار نہیں ہے “۔
آپ قرآن کا مطالعہ کریں سورۃ البقرہ سے لے کر والناس تک چلے جائیں ۔ آپ کو نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ میں سے کسی ایک فرض کی تفصیلات نہیں ملینگی ۔ آپ کو یہ تک نظر نہیں آئیگا کہ نماز کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ کو ان عبادات کی تسبیحات تک نہیں پتہ چل پائینگی ۔
لیکن نکاح ، طلاق ، خلع ، شادی ، ازدواجی معاملات ، میاں بیوی کے تعلقات ، گھریلو ناچاقی ، کم یا زیادہ اختلاف کی صورت میں کرنے کے کام ۔آپ کو سارا کچھ اللہ تعالی کی اس مقدس ترین کتاب میں مل جائیگا جس کو ہم اور آپ” چوم چوم ” کر رکھتے ہیں ۔
آپ مان لیں کہ ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے ۔
یاد رکھیں اچھا اور صحت مند گھرانہ کسی اچھے مرد سے نہیں بنتا بلکہ ایک اچھی عورت کی وجہ سے بنتا ہے۔
” جب دین گھر کے مرد میں آتا ہے تو گویا گھر کی دہلیز تک آتا ہے لیکن اگر گھر کی عورت میں دین آتا ہے تو اس کی سات نسلوں تک دین جاتا ہے “۔
قربانی، ایثار ، احسان، درگذر ، معافی، محبت اور عزت یہ اسلام اور قرآن کی ڈکشنری میں آتے ہیں ۔
خواتین کی نہ ختم ہونے والی خواہشات نے بھی معاشرے کو جہنم میں تبدیل کیا ہے ۔
الیکٹرانک میڈیا نے گوٹھ گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ” شاہ رخ خان “جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے ۔
محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ لڑکیاں اور لڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گذرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد کی کہانی دکھائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ اس سے فلم فلاپ ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔
گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے ۔ کم ہو یا زیادہ ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں ۔
سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے ۔
پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔شوہر شام میں گھر آتا ،بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا ، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع ہوجایا کرتی تھیں ۔
لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں ۔
یہاں میڈم صاحبہ کا ” موڈ آف ” ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا ۔ اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے ۔
مائیں لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا ! اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے باپوں سے نہ کریں ۔ ہوسکتا ہے آپکا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو باپ کے گھر میں میسر تھا ۔
لیکن یاد رکھیں آپ کے والد کی زندگی کے پچاس ، ساٹھ سال اس دشت کی سیاحی میں گذر چکے ہیں اور آپ کے شوہر نے ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے ۔ آپ کو سب ملے گا اور انشاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا اگر نہ بھی ملے تو بھی شکر گذاری کی عادت ڈالیں سکون اور اطمینان ضرور ملے گا ۔
بیویاں شوہروں کی اور شوہر بیویوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کرنا اور درگذر کرنا سیکھیں ۔
زندگی میں معافی کو عادت بنالیں ۔
خدا کے لئیے باہر والوں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئیے تیار ہونے اور رہنے کی عادت ڈالیں ۔ساری دنیا کو دکھانے کے لئیے تو خوب ” میک اپ” لیکن شوہر کے لئیے ” سر جھاڑ منہ پھاڑ ” ایسا نہ کریں ۔
خدا کو بھی محبت کے اظہار کے لئیے پانچ دفعہ آپ کی توجہ درکار ہے ۔ ہم تو پھر انسان ہیں جتنی دفعہ ممکن ہو محبت کا اظہار کریں کبھی تحفے تحائف دے کر بھی کیا کریں۔ قیامت کے دن میزان میں پہلی چیز جو تولی جائیگی وہ شوہر سے بیوی کا اور بیوی سے شوہر کا سلوک ہوگا ۔
یاد رکھیں
مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے ۔ اگر آپ ریاست کی بہتری کی بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہینگی تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجائیگا ۔ جس کو اللہ نے جو عزت اور مقام دیا ہے اس کو وہی عزت اور مقام دینا سیکھیں چاہے آپ مرد ہیں یا عورت ۔
ایک مثالی گھر ایک مثالی خاندان تشکیل دیتا ہے اور ایک مثالی خاندان سے ایک صحتمند معاشرہ وجود میں آتا ہے اور یہیں اسلام کی منشاء ہے ۔🌷.
پاکستان میں معیشت تباہ ہونے کے بعد پورے ملک کو بجلی کے بلوں پر چلایا جا رہا ہے ۔
بی بی سی
بجلی کے بل اسقدر زیادہ ہیں کہ لوگ ادا نہیں کرسکتے ظالم حکمرانوں خدا کا خوف کھاؤ ۔تم کو مرنا بھول گیا ہے۔
یہودی ایجنٹ کے دور حکومت میں گیس بل400اور حافظ مسلمان کے دور میں 4000 روپے
لعنت بیشمار اس دور حکومت پر
امیر المومنین حضرت عثمان غنی کی عظمت پر لاکھوں سلام۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the business
Telephone
Website
Address
Lahore
Patiala Ground, Office # 9, 3rd Floor State Life Building No 7 Opposite National Bank, Near Hall Road
Lahore, 54000
The Life Insurance Business in Pakistan was nationalized during March 1972. State Life Insurance Cor
Lahore, 54700
Adamjee Life is backed by Nishat Group, which is one of the leading and most diversified business gr
Lahore
Protect your future needs like child education, child marriage and Pension in Islamic way.
State Life Insurance Corporation Of Pakistan Head Office Lytton Road Lahore
Lahore, 05411
Assalam o Alaikum This is Faizan Hassan(SM) from State life insurance corporation of Pakistan
Lahore
اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے خواب کو حقیقت میں بدلنا اور معاشرے کو مظبوط بنیاد فراہم کرنا ہم سب کی ذمہ
Lahore
I have done my MBA Marketing, I am providing my professional services Banking & State Life Insurance
Main Ferozepur Road Near Ichra Bazar
Lahore, 54000
Jubilee Takaful Sharia compliance financial services 1- Savings & investment 2- Protection of income
State Life Building No. 9, 5 Bank Square, Shahra-e-Quaid-e-Azam
Lahore
The State Life Insurance Corporation of Pakistan is the largest life insurance company of Pakistan, under the administrative control of the Ministry of Commerce.
18-C-1, 2nd Floor, Commercial Area, Liberty Market, Gulberg III
Lahore, 54660
Our Vision Is To Make EFU Life One Of The Most Respected And Successful Financial Services Organization In The World. Our Strategy To Achieve Our Vision Is: Build Our Core Capabili...
Office , 10 , 3rd Floor Gohar Center Muslim Town Mor Wahdat Road Lahore
Lahore
Happy Life With State Life