World View Publishers
ورلڈ ویو پبلشرز لاہور،ہمارا مقصد مذہب وادب کی کتب کا فروغ،پرنٹنگ سروسز کی فراہمی اور ڈسٹریبیوشن ہے
رسول اعظم دو ضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب بڑے سائز میں عہد نبوی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا قاری وہ سب مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ،،، ناول کے انداز میں لکھی گئی سیرت کی منفرد کتاب جسے لوگ صدیوں یاد رکھیں گے ،،ہمارے ادبی لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہے اسے ہر گھر اور پاکستان کی ہر لائبریری میں ہونا چاہیے خصوصاً طلباء کی تعلیم و تربیت کے لیے بہترین کتاب ہے جسے مؤلف نے تحقیق اور جانفشانی کے سے مرتب کیا ہے ،،پروفیسر خیال آفاقی صاحب نے دل کی آنکھ سے جو منظر تصور کے پردے پر اتارے ہیں وہ ایک نئی طرزِ نگارش اور منفرد ادبی ادبی کارنامہ ہے ،، ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور سے شائع ہو چکی ہے 03333585426,,,,
کل یہ چار کتابیں شائع ہو کر آئیں جس کی تصویر الگ الگ شئیر کی مگر فیس بُک مَری مُکی پئی اے ،،،، آپ تک خبر ایک آدھ کی پہنچی ہو گی،،،،، خیر اے اج فیر ویکھ لو
7 ستمبر 1974ء پاکستانی تاریخ کا وہ دن ہے، جب مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی پوری جماعت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر کافر قرار دیا تھا ،،،، اس بار 7 ستمبر کو گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے، مسلمان عقیدہ ختمِ نبوت کی اہمیت و ضرورت پر سیمنارز، کانفرنسز ، اجتماعات منعقد کریں گے تاکہ اس فتنے سے عام لوگوں کو آگاہ کیا جائے، ہم ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور کی جانب سے اس طرح کی تمام سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور بطور پبلشر اپنی کتابوں پر خصوصی ڈسکاؤنٹ آفر کر رہے ہیں، دئیے گئے نمبر پر رابطہ کریں اور فہرست حاصل کریں 03333585426,,,,یہ آفر ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور پر آنے والوں اور بذریعہ ڈاک منگوانے والوں سب کے لیے ہے،،اس بار دستیاب تمام کتب پر ہی ڈسکاؤنٹ دیا جا رہا ہے
*اسلام اہلِ مغرب کی نظر میں... ڈاکٹر محمد سہیل شفیق*
Https://telegram.me/ilmokitab
پروفیسر عبدالرحیم قدوائی (پ:1956ء) ہندوستان کی معروف علمی و سماجی شخصیت ہیں۔ انگریزی ادب میں دنیا کی دو ممتاز جامعات مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ اور لیسٹر(Leicester) یونیورسٹی، انگلستان سے ڈاکٹریٹ کی سند رکھتے ہیں۔ قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرچکے ہیں اور تقریباً ایک سو مکمل انگریزی تراجمِ قرآن کا مطالعہ کرکے ان کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کرچکے ہیں۔ انگریزی ترجمۂ قرآن کے ساتھ ساتھ قرآنیات، اسلامیات اور انگریزی و اردو ادبیات پرقدوائی صاحب کی 30 سے زائدکتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ قرآن مجید، سیرت طیبہ اور اسلامی شعائر سے محبت انہیں ورثے میں ملی ہے کہ وہ مولانا عبدالماجد دریا بادی ؒ کے نواسے ہیں۔
پروفیسر قدوائی اپنے تعلیمی پس منظر اور ذوق ِخاص کی وجہ سے دانش وران فرنگ کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں کہ اکثرمغربی فضلاء اسلام اور مسلمانوں سے متعلق خامہ فرسائی کرتے ہوئے ایسی تصویرکشی کرتے ہیں گویا کہ اسلام اور مسلمان شرِمجسم ہوں۔ ان مغربی فضلاء نے فاسد عقائد، قبیح اعمال اور قابل نفریں کرداروں کو اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کرتے ہوئے قرآن مجید اور سیرتِ طیبہ کو بالخصوص مطعون کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر قدوائی گزشتہ کئی دہائیوں سے انگریزی اور اردو زبانوں میں مغربی فضلاء کی علمی خیانتوں اور اُن کی بدنیتی کو آشکار کررہے ہیں۔ انگلستان کے مؤقر تحقیقی اور علمی ادارے ’’اسلامک فاؤنڈیشن، لیسٹر‘‘ کے مجلے ’’مسلم ورلڈ بک ریویو‘‘ میں مغربی تصانیف اور انگریزی تراجم پر کثرت سے قدوائی صاحب کے تبصرے اور محاکمے شائع ہوتے رہے ہیں جو کہ ان کی کئی کتابوں کی اساس بنے۔
پیشِ نظر کتاب میں پروفیسر قدوائی کے قرآن مجید، سیرتِ طیبہ اور انگریزی ادب کے حوالے سے مغربی فضلاء کی تصانیف کے تنقیدی جائزے پر مشتمل درجِ ذیل 20 مقالات شامل ہیں:
1۔ اکیسویں صدی کے بعض مغربی فضلاء کے قرآنی مطالعات، 2۔ کورپس قرآنکیم: قرآنیات سے متعلق مستشرقین کا حالیہ علمی محاذ، 3۔ قرآن کریم کے اعجازی پہلو: مستشرقین کے مؤقف کا محاکمہ،4۔ انگریزی میں مطالعہ قرآن مجید کے جدید رجحانات: ایک حالیہ کتابیات کی روشنی میں، 5۔ جدید مستشرقین کے مطالعات ِتفسیر: رجحانات اور تعبیرات، 6۔ برطانوی مستشرقین کے تراجم ِقرآن مجید: ایک محاکمہ، 7۔ قرآن کریم کے انگریزی تراجم: ایک تنقیدی جائزہ، 8۔ قرآن مجید کے بارے میں مستشرقین کا علمی تعاقب، 9۔ ایک مستشرق کا خوشگوار انگریزی ترجمہ قرآن مجید، 10۔ دو حالیہ گراں قدر انگریزی تراجم قرآن مجید، 11۔ جنوبی افریقہ کے جج جان مرفی کا قبولِ اسلام، 12۔ سیرتِ طیبہ پر مستشرقین کی تصانیف، 13۔ سیرتِ طیبہ پر طامس کارلائل کا رجحان ساز خطبہ، 14۔ سیرتِ طیبہ: حالیہ مغربی تصانیف کے آئینے میں، 15۔ بہتر مسلم۔ عیسائی تعلقات کی نقیب ایک حالیہ گراں قدر تصنیف، 16۔ سیرت طیبہ پر مغربی فضلاء کی تصانیف: خوش آئند رجحانات، 17۔ استعماری فکر کی روایت انگریزی ادب کے تناظر میں، 18۔ انگریزی رومانوی شاعرات کے کلام میں ہندوستان کی تصویرکشی، 19۔ برطانوی ناول نگاری۔ایم۔فوسٹر: ہند۔ اسلامی تہذیب کا شناور، 20۔ قوموں کا عروج وزوال: چند مغربی مفکرین کی آراء۔
فاضل مصنف نے غیر مسلم فضلاء کے مؤقف کا منظم تحقیقی انداز میں مطالعہ کیا ہے اور محض چند آراء یا اقتباسات پر اکتفا کرنے کے بجائے غیر مسلم فضلاء کے افکار اور تسامحات پر سیر حاصل تنقید اور تبصرہ کیا ہے۔
کتاب کے مرتب جناب رفیق احمد رئیس سلفی کا کہنا ہے کہ:
’’زیر مطالعہ کتاب جو بیس بیش قیمت مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے، خوابِ غفلت سے بیدار کرکے ہمیں صورتِ حال کی سنگینی سے آگاہ کرتی ہے، قرآن مجید کے بارے میں دانش وران ِفرنگ کے خیالات کیا ہیں، سیرتِ طیبہ کو وہ کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب اور اسلام کے سماجی، معاشی اور سیاسی معتقدات کے سلسلے میں ان کی آراء کیا ہیں، وہ قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلام کے سلسلے میں جو موسوعات مرتب کرتے ہیں، ان میں ان کی ترجیحات کیا ہیں، وہ اپنے ناولوں، افسانوں، نظموں اور ڈراموں میں جو فرضی کردار پیش کرتے ہیں، ان سے دنیا کو وہ کیا پیغام دے رہے ہیں؟ یہ کتاب اپنے صفحات میں ان تمام سوالوں کا تفصیلی جواب فراہم کرتی ہے۔‘‘
اس موضوع پر اس سے قبل پروفیسر قدوائی کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن‘‘ (البلاغ پبلی کیشنز، دہلی، 2015ء) نے شائع کیا تھا۔ پیشِ نظر کتاب مذکورہ تصنیف کی بڑی حد تک توسیع ہے کہ اس میں سیرتِ طیبہ اور انگریزی ادب کے حوالے سے بھی جلوہ دانش ِفرنگ زیر گفتگو ہے۔ مزید برآں، مستشرقین اور انگریزی تراجم کے موضوع پر متعدد نئے مضامین شامل ہیں۔
پروفیسر ضیاء الدین فلاحی کے مطابق:
’’ان مقالات کا فائدہ یہ ہے کہ موجودہ صدی کے تکثیری معاشروں میں تقابلِ ادیان کے علمی و تحقیقی مطالعات کے لیے ان میں بھرپور مواد یکجا کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف امتِ مسلمہ کو مختلف تہذیبوں سے افہام و تفہیم میں یہ کتاب جگہ جگہ رہنمائی کرتی ہے۔ متعصب اسکالرز سے کیسے نمٹا جائے اور انصاف پسند دانش وروں کی کیوں کر تحسین کی جائے، یہ پہلو جگہ جگہ نمایاں ہوتا ہے۔‘‘
اپنے موضوع پر یہ عمدہ اور لائق ِ مطالعہ کتاب اردو ادبیات میں بھی گراں قدر اضافہ ہے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
*لیطمئن قلبی* نامی ناول بزبان عربی جس کے مصنف ہیں لبنانی نژاد فلسطینی شہری *ادہم شرقاوی* جو بحر العلم ہیں بات کرنے لگیں تو لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔
اس کا مفہومی ترجمہ بنام
*اطمینانِ دل کی خاطر* جامعہ ازہر میں زیر تعلیم محمد اسماعیل نظامی صاحب کا ہے یہ آزاد ترجمہ کی وہ شکل ہے جو ادبی دنیا میں بہت مقبول ہے ۔۔
یہ ناول درحقیقت ایک طویل خط ہے جسے ہیرو ماہر اپنی محبوبہ جس کے ساتھ وہ اس بس میں ملتا تھا جس پر یہ یونیورسٹی اور وہ آفس جاتی تھی ۔۔ اس خط کو مختلف پڑاؤ میں تقسیم کیا گیا ہے اور آٹھ پڑاؤ جو ناول کے ابواب بھی ہیں،، کے بعد منزل مقصود پر پہنچنے کا ذکر ہے ۔۔۔
لیکن یہ کوئی عام خط نہیں جس میں صرف محبت و پیار بھری باتیں ہوں بلکہ اصل میں بس میں ہونے والی ماہر اور ہشام نامی لڑکے کی الحاد، محبت سے متعلق اسلامی تعلیمات اور اس موضوع پر صالحین اور علماء کے اقوال اور حکایات، اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کے تسلی بخش جوابات، منصفانہ نظام اقتصاد، وجود الٰہی ، اسلام میں غلامی کا تصور ، اسلامی حدود کا نفاذ اور نوجوانوں کی محفلوں میں زیر بحث آنے والے دیگر مسائل پر مشتمل منطقی گفتگو ہے اور شاعرانہ انداز بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔۔
اس میں ان اشکالات کا بیان ہے جو آج کے نوجوان کے ذہن میں اسلام سے متعلق پیدا ہوتے ہیں یا ان کے اردگرد کے لوگ اسلام سے متعلق تشکیک کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے مکمل علم سے ناآشنا ہیں جس سے کچھ حضرات تو متشکک ہو جاتے ہیں اور بقیہ ان کو دلائل سے اسلام کی جانب مائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔۔ جس طرح ہشام ہر روز اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے نئے نئے سوالات اور اعتراضات ماہر کے سامنے رکھتا اور ماہر ہمارے ہاں مروج عام رویہ یعنی تکفیر کے بجائے بڑی خوش اسلوبی سے اس کے جوابات دیتا جس کے سبب ماہر کی زبانی نقلی و عقلی دلائل کی روشنی میں ہشام اور ماہر کے درمیان ہونے والی فکری جنگ کا اختتام ہوا ہے اور ہشام ماہر کی بات ماننے پر مجبور ہو گیا ۔۔۔اس خوبصورت کتاب کی اشاعت تقریباً ایک ماہ پہلے ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور سے ہو چکی تھی مگر اسے لانچ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ ہم نے محسوس کیا کہ لوگ عیدِ قرباں اور پھر محرم الحرام کی وجہ سے مصروف ہوں گے اور ہم خود بھی میگا سیل آفر میں مصروف تھے جبکہ یہ ناول صرف قارئین ہی نہیں بلکہ ہماری توجہ کا متقاضی تھا کہ اس کی رونمائی ذرا فرصت میں کی جائے الحمد اللہ آج ہم آپ دوستوں کو خوشخبری سنا رہے ہیں کہ یہ فکری ناول مارکیٹ میں دستیاب ہے جس کی عام قیمت 1200 روپے ہے مگر ورلڈ ویو پبلشرز تشریف لانے پر 600 روپے میں مل جائے گا اگر آپ گھر بیٹھے بٹھائے سہولت چاہتے ہیں تو ڈاک خرچ سمیت 700 روپے بھیجنا ہوں گے ،، 03333585426
620 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بنیادی طور پر پی ایچ ڈی سطح کا لکھا جانے والا مقالہ ہے، جسے اب کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے، قبل اس کے میں اس کتاب اور موضوع کی تفصیل بیان کروں یہ کتاب صرف علماء و فقہاء اور خاص طور پر جنہیں تفسیریِ ادب سے دلچسپی ہے، جو مختلف مفسرین کی تفاسیر کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں ، جنہیں تفسیر لکھنی ہے یا کہیں دورہ تفسیر منعقد کرنا ہے، بس انہی حضرات کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ کوالٹی پر ڈیجٹل پرنٹنگ سے محدود تعداد میں شائع کی گئی ہے، جس کی وجہ سے لاگت زیادہ آئی آپ ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور دکان پر تشریف لائیں گے تو آپ کو دو ہزار روپے میں پیش کی جائے گی اور اگر گھر بیٹھے بٹھائے سہولت چاہتے ہیں تو ڈاک خرچ سمیت 2500 روپے بھیجنا ہوں گے ،،، ہیں پانچ سو روپے ڈاک خرچ ؟؟؟؟ نہیں جناب آپ کو اس کتاب کی تفصیلات بتاتے اور سروسز فراہم کرنے کے پانچ سو روپے، آخر ہمارا وقت بھی تو قیمتی ہو سکتا ہے ،،،،،،،،،،، فاضل بریلوی علیہ الرحمہ پر یوں تو پینتیس سے زیادہ پی ایچ ڈی مقالے لکھے گئے ہیں جنہیں وقتا فوقتاً شائع کیا جائے گا مگر یہ مقالہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ آپ محسوس کریں گے کہ کوئی بھی عالم اس وقت تک بڑا عالم نہیں کہلا سکتا جسے قرآنی علوم وفنون پر مہارت نہ ہو اسی علم کی روشنی میں احادیث کی شرح لکھی جاتی ہے اور فقہ کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش ہوتی ہے، اگر قرآنی علوم پر دسترس نہ ہو تو آپ متکلم بھی نہیں بن سکتے، اس کتاب میں جہاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے قرآن پاک کی تفسیر کے اصول بیان کیے ہیں اور اپنے فتاویٰ میں کسی آیت کی تفسیر میں پوری پوری جلد لکھ گئے ہیں، اس بارے آگاہی ہو گی وہیں متقدمین کے ساتھ اختلاف کے اصول بھی نظر آئیں گے، اور اس کتاب میں اس وقت بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جب مختلف مفسرین سے تقابل کیا جاتا ہے، آپ محسوس کریں گے کہ فاضل بریلوی کی نگاہ ان علمی خزانوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، جہاں کئی مفسرین سمندر کنارے سپیاں چن کر خوش ہو جاتے ہیں، اس کتاب کے مطالعہ کے بعد آپ کے اندر اک ہوک سی اٹھتی محسوس ہو گی، کاش فاضل بریلوی علیہ الرحمہ مستقل تفسیر لکھنے میں کامیاب ہو جاتے، میرے خیال میں اگر کوئی کتاب آپ کو صاحب کتاب کی شخصیت کو پرکھنے اور اس کا گہرا مطالعہ کرنے کے لیے راغب کرنے میں کامیاب ہو جائے، تو اس کتاب کو کامیاب کتاب شمار کرنا چاہیے، مولانا ڈاکٹر مفتی محمد عبد العلیم رضوی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں، جنہیں ہم ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور کی جانب سے مبارکباد پیش کرتے ہیں 03333585426
ہم نے جب سے مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے بچپن سے جانا شروع کیا اور آج تک اہل سنت کی مساجد میں خطیب کو دوران خطبہ یہ الفاظ پڑھتے ہوئے سنا کہ بعد از انبیاء افضل البشر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مگر جب عملی زندگی میں قدم رکھا اور مختلف الخیال لوگوں کے خیالات جاننے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو تمام صحابہ سے افضل مانتے ہیں، جنہیں تفضیلی کہا جاتا ہے، پھر اور لوگوں سے واسطہ پڑا تو معلوم ہوا کہ اہلِ تشیع اور اہل سنت میں جہاں اور بہت سارے اختلافات ہیں وہاں یہ مسئلہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے، مگر کبھی دلائل جاننے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی کہ پیچھے اس امام کے اللہ اکبر پھر کچھ مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ابحاث چودہ سو سال سے کسی نہ کسی انداز سے زیر بحث رہی ہیں، اور ہر دور کے علماء نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے ہیں، اب کچھ عرصے سے اہل سنت ہی میں یہ بحث دوبارہ شروع ہوئی کہ ٹھیک ہے ہم حضرت ابوبکر صدیق کو افضل مانتے ہیں، مگر یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے اور اگر اجماع ہے بھی تو اس درجے کا نہیں کہ اس کے منکر کو اہل سنت سے خارج کردیا جائے، باقی عالم اسلام کی طرح ہمارا خطہ برصغیر بھی ان ابحاث میں حصہ دار رہا ہے، جب فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے افتاء کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت یہ مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کر چکا تھا، بڑے بڑے علماء آپ کی رائے جاننا چاہتے تھے اور کئی علماء تو آپ کی رائے کو اپنے لیے حرف آخر سمجھتے تھے، اسی پس منظر میں آپ نے عربی زبان میں ایک معرکہ آرا کتاب بنام الزلال الانقی من بحر سبقۃ الاتقی لکھی تقریباً ڈیڑھ سو سال کے بعد اس کے متن پر تحقیق کی طرف توجہ کی گئی جس کا سہرا ڈاکٹر محمد اشفاق جلالی صاحب کے سر ہے، اس علمی و تحقیقی خدمت کے عوض آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا ہم ڈاکٹر محمد اشفاق جلالی صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اب اگلا مرحلہ اس کے ترجمہ کا تھا موضوع ادق ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری بھی فاضل بریلوی علیہ الرحمہ ہی کے خاندان کے فرزند حضرت علامہ مولانا اختر رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے نبھائی مگر جب وہ ترجمہ مفتی حنیف خان رضوی صاحب کی نظر میں آیا تو آپ نے محسوس کیا کہ اس کی تسھیل کی ضرورت ہے اور یوں اس کی تسھیل آپ کے حصے میں آئی ہمارے لیے بطور پبلشر دو راستے تھے کہ صرف ترجمہ شائع کر دیا جائے مگر کسی کے دل میں شبہ لگ سکتا تھا کہ معلوم نہیں مصنف کی مراد ترجمہ میں واضح ہوئی ہے یا مترجم نے اپنے خیالات بھی شامل کئے ہیں اس بات سے بچتے ہوئے ہم نے وہ ایڈٹ شدہ متن جس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہوئی، وہ بھی شامل کر دیا ہے اور اردو ترجمہ بھی،،،،،،،،،، ساتھ ہی مفتی حنیف خان رضوی صاحب کا مقدمہ شاملِ کتاب ہے،،، یہ کتاب خاص علماء و فقہاء اور محققین کے لیے ہے ہاں منتہی طلباء چاہیں تو استفادہ کر سکتے ہیں، چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور سے شائع ہو چکی ہے، ڈاک خرچ سمیت 900 روپے میں گھر بیٹھے بٹھائے منگوا سکتے ہیں،، جو حضرات خود اس کتاب سے کما حقہ استفادہ نہیں کر سکتے انہیں چاہیے کہ اپنے قریبی علماء کرام کو تحفہ پیش کریں اور انہیں عرض کریں کہ آسان الفاظ میں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی تحقیق کا نچوڑ آپ کو بتائیں ہمیں امید ہے ہماری کاوش آپ کو پسند آئے گی 03333585426
معلوم نہیں ابھی کتنی باقیات و نوادرات explore ہوں گی ،،،،کہا جاتا ہے کہ حضرت علامہ مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ہزار کے قریب چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں محبین آنکھیں بند کر کے یقین کئے ہوئے ہیں اور مخالفین شائع شدہ کتب کی اہمیت بھی ماننے کو تیار نہیں دونوں رویوں میں اعتدال تبھی آ سکتا ہے کہ محبین، مبالغہ نہ کریں اور مخالفین نصف النہار کا انکار نہ کریں آپ فاضل بریلوی سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر بیسویں صدی میں ہندوستان کے صفحہ اول کے علماء کی فہرست سے فاضل بریلوی کو نظر انداز نہیں کر سکتے مگر برا ہو تعصب کا ،،،،،،، میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ علماء کرام سے پوچھوں کہ جو ابحاث برصغیر میں 1823ء میں شروع ہوئیں اور ان کا عروج 1921ء تک رہا جس میں بڑے بڑے علماء میدان میں آئے اور اپنا نقطہ نظر بیان کیا ،،،، کیا یہ ابحاث چودہ سو سال پہلے زیرِ بحث آئے ؟؟ یا اوپر مذکور سو سال میں باقی عالم اسلام میں بھی اس طرح کے مسائل زیرِ بحث رہے؟؟؟ مثلاً امکانِ نظیر ؟؟؟؟؟ قیامِ تعظیمی ،تقبیلِ ابہامین ، مسئلہ استعانت ،وما اھل بہ لغیر اللہ ،قائلینِ امکانِ کذب باری تعالیٰ ،فضل کی اقسام و افضلیت ،،، مولی علی کی افضلیت اور مسئلہ افضلیتِ شیخین ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتِ وصال کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا ،مشاجرات صحابہ ،، محبتِ صحابہ و اہل بیت ،،، محبّتِ حسنین کریمین کی فرضیتِ قطعیہ ،تقلید آئمہ اربعہ ،،، لفظِ خاطی و مخطی کے مدلولات ،،، ذکرِ شہادت امام حسین کا جائز و موجب ثواب ہونا ، اور مرور زمانہ کے ساتھ اس میں بدعات کی شمولیت،،،، تفصیل تو آپ علماء کرام ہی بتا سکتے ہیں مگر مجھے لگتا یہ ہے کہ انگریز بہادر نے ان مسائل کو ہوا دی تاکہ مسلمان انہیں مسائل میں الجھے رہیں اور وہ ہندوستان پر حکومت کرتے رہیں ظاہر سی بات ہے جب مسلمات ہی کو متنازع بنانے کی کوشش کی جائے گی تو انہیں ایڈریس کرنے کے لیے علماء میدان میں آئیں گے یہی کچھ فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے ساتھ بھی ہوا وہ چونکہ فقیہ تھے بڑے بڑے علماء ان کی رائے جاننا ضروری خیال کرتے تھے ،، یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے فاضل بریلوی سے استفتاء کرنے والوں میں اکثریت علماء کی ہے اور پوری دنیا سے سوالات پوچھے جاتے تھے جن کا جواب بعض اوقات رسالہ کی شکل اختیار کرتا اور بعد اوقات کتابی صورت بن جاتی یہی وجہ ہے کہ کچھ کتابیں الگ الگ ناموں سے مشہور ہیں فتاویٰ رضویہ کی صورت میں ایک انسائکلوپیڈیا تینتیس جلدوں پر مشتمل کئی بار شائع ہو چکا ہے گاہے بگاہے آپ نے نوادرات سامنے آتے ہیں ہمارے دوست علامہ خرم محمود سرسالوی صاحب نے رضویات کے لٹریچر میں خوبصورت اِضافہ کیا ہے میں اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک بار پھر اپنا محقق ہونا ثابت کیا ہے اس کتاب کے مزید مشمولات کے حوالے سے فیس بُک پر ایک تحریر نظر سے گزری وہی شامل کر رہا ہوں ملاحظہ فرمائیں ،،،،،،۔ "باقیات و نوادرات فتاویٰ رضویہ"استاذ الاساتذہ ماہرِ فروع واصول حضرت علامہ ابن داؤد عبدالواحد العطاری حفظہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں
ایک زمانہ ہوا کہ میں فتاوی رضویہ شریف کے مطالعے سے مشرف ہوا تھا اور عرصے تک سحرِکلام و بیانِ رضا میں ایسا مسحور رہا کہ کسی اور تحریر میں کلام کی وہ لطافت ، تحقیق کی وه حلاوت اور تدقیق کی وہ نزاکت پانے سے قاصر رہا جس کی عادت مجھے”العطایا النبویہ“کے مطالعے سے پڑگئی تھی، البتہ ”فتاوی امجدیہ“، ”فتاوی مصطفویہ“ اور اس کے بعد” فتاوی نوریہ“ کو میں نے اس کے قریب قریب پایا ہے۔ وللہ الحمد وھو فضل اللہ یؤتیہ من یشاء وبيدہ الخير ۔ خدا بھلا کرے جناب خرم محمود سر سالوی صاحب کا جن کی وساطت سے اعلی حضرت کے فتاوی جات کے کچھ باقیات و نوادرات باصرہ نواز ہوئے اور ایک بار پھر مشامِ ذوق اُس لذتِ رفتہ سے آشنا ہوئے۔
زیرِ نظر" باقیات" میں سے اگرچہ کچھ مسائل امامِ اہلِ سنت کے مطبوع فتاوی میں موجود ہیں،لیکن کئی مسائل و ابحاث اور فوائد و ثمرات اس میں نئے ہیں، بالخصوص دلائلِ امکانِ نظیر کا ردو ابطال، فضل کی اقسامِ ثلاثہ کی توضیح و تشریح ، اہلِ تشیع کی پیش کردہ نصوص کا ردِ بلیغ، جانشینی و نیابت کی اقسام اور ان کی تفصیل، مشاجرات و محارباتِ صحابہ کے بارے میں اہلِ حق کا موقف ومذہب ،” فقہ اکبر“ کی امامِ اعظم کی طرف نسبت کا ثبوت اور اس حوالے سے شکوک و شبہات کا ازالہ، لفظِ خطا و إخطاء اور خاطی و مخطی کے مدلولاتِ لغویہ و عرفیہ کی تحقیقِ انیق اور اس کے علاوہ کئی علمی جواہر پارے ان باقیات میں اپنی چمک دمک سے آنکھوں کو چکاچوند کرتے ہیں۔
جناب خرم محمود سرسالوی صاحب کی کوشش لائقِ ستائش و سزاوارِ صد آفرین ہے کہ انھوں نے ان لآلی ثمینہ تک رسائی حاصل کی ، جدید اسلوب کے مطابق ان کی کمپوزنگ کی، مکمل تخریجات سے ان کو آراستہ کیا، متعدّد مقامات پر اہم اور مفید حواشی و تعلیقات سے ان کو پیراستہ کیا اور بہت عمدہ اور دیدہ زیب اشاعت کے ساتھ یہ تراثِ علمی ہم تک پہنچایا۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ أحسن الجزاء عنا وعن سائر المسلمین و آخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.
اشاعتی تفصیلات :
باقیات و نوادرات فتاویٰ رضویہ
صفحات 405
پیپر : 80 گرام آف وائٹ
اعلی استر: فینسی
جلد : مراکو (بیروتی طرز)
ڈسکاؤنٹ : 1700
منگوانے کے لیے رابطہ فرمائیں,,,, ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور ،،،، 03333585426
یہ سفر تو لمبا تھا مگر کٹ ہی گیا آہستہ آہستہ!!!!!! یکم جولائی سے دس جولائی تک میگا سیل آفر کا آج آخری دن ہے رات بارہ بجے تک آرڈرز لیے جائیں گے اس کے بعد موبائل آف ۔۔۔۔۔۔
فہرست میں شامل کتابوں کی تفصیل کے لیے واٹس ایپ نمبر پر رابطہ فرمائیں 03333585426
کل میں نے میگا سیل آفر کی یادہانی پوسٹ کیوں شئیر نہیں کی تھی ؟؟؟؟؟؟؟ اس لیے کہ پہلے سے آئے ہوئے آرڈرز کی پیکنگ میں مصروف ٹیم نے منع کر دیا تھا ،،، آج یادہانی پوسٹ تو شئیر کر رہا ہوں مگر ساتھ ہی یہ گزارش بھی کروں گا کہ آپ خود ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور تشریف لائیں یا سوشل میڈیا کے لاہوری دوستوں کی ڈیوٹی لگا دیں کہ وہ آپ کے لیے کتابیں حاصل کر کے بھیج دیں ،،،،،،،،،،،ورنہ ڈاک خرچ ،پیکنگ اور پیکنگ ٹیم نے جو پیکج اناؤنس کیا ہے اسے بغور ملاحظہ فرمائیں تب آرڈر کریں۔ ہم آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں ۔۔۔ 70% فیصد ڈسکاؤنٹ پر دستیاب کتب کی فہرست اور دیگر تفصیلات جاننے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں۔۔۔۔
03333585426
اثبات : مزاحمت کا نیا پیش لفظ ، ایک شمارہ سب کے لیے !
تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
مزاحمت کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ اقتدار پر متمکن شاہوں کی طرف سے کسی طرح کی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے ، جِسے ناانصافی سمجھا جا رہا ہے ، اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے ، سیاسی تصور اور حکومت وقت سے متصادم اقدامات کرنے ، اور اس سلسلے میں تحریر و تقریر کا سہارا لینے وغیرہ کو مزاحمت کہا جا سکتا ہے ؛ لیکن یہ مزاحمت کا ایک محدود تصور ہے ۔ مزاحمت کے وسیع تصور میں اقتدار یعنی حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف اقدامات تو شامل ہیں ہی ، لیکن اشعر نجمی ، مدیر ’ اثبات ‘ کے لفظوں میں : ’’ غلط فہمی عام ہے کہ مزاحمت صرف اقتدار کے خلاف ہی ہوتی ہے ، یہ تصور بھی بالکل غلط ہے .... میں مزاحمت کے باب میں اس لفظ ’ اقتدار ‘ کو وسیع معنوں میں دیکھتا ہوں ۔ میں اس سے صرف برسرِ اقتدار حکومت مراد نہیں لیتا بلکہ ہر وہ معاشرتی نظریہ ، رجحان ، بیانیہ وغیرہ سبھی کو اس لفظ ’ اقتدار ‘ میں شامل سمجھتا ہوں جو لوگوں پر تھوپی جائے ، پھر چاہے وہ حجاب ہو یا لو جہاد ، وہ برسر اقتدار حکومت ہو یا کھاپ پنچایت ، مختصر یہ کہ ہر بالا دست ادارہ ، طبقہ ، گروہ ، نظریہ ، رجحان سب کے خلاف مزاحمت کی جا سکتی ہے اور ہوتی بھی رہی ہے ۔‘‘
مذکورہ سطریں ’ اثبات ‘ کے خاص شمارے ’ مزاحمت کا نیا پیش لفظ ‘ کے اداریے ’ سب ٹھیک ٹھاک ہے !‘ کی ہیں ۔ دو جلدوں میں شائع ہونے والا یہ شمارہ ہے تو خاص لیکن اسے ’ ایک شمارہ سب کے لیے ‘ کا ٹیگ لائن دیا گیا ہے ، شاید اس لیے کہ مزاحمت پر کسی ایک مخصوص گروہ یا شخص یا اشخاص کا نہیں ، سب کا حق ہے ۔ یہ شمارہ مجھے حیران کر گیا ، کیونکہ یہ اعلان کے کوئی دو مہینے بعد منظر عام پر آ گیا تھا ! مجھے یہ تو پتا ہے کہ اشعر نجمی جو بھی کام کرتے ہیں جم کر کرتے ہیں ؛ دن رات ! لہذا شمارے کا اعلان کے مطابق وقت پر آجانا میرے لیے حیرت کا باعث نہیں تھا ، حیرت اس بات پر تھی کہ مزاحمت جیسے موضوع پر ، جس کی مختلف جہتیں اور الگ الگ پہلو ہیں ، ایک وقیع اور یادگار خاص شمارہ کیسے مختصر مدت میں ترتیب دیا جا سکتا ہے ! مجھے اس سوال کا جواب اداریہ میں ملا تو ہے ، لیکن میری حیرت برقرار ہے ۔ اس شمارے کی مجموعی ضخامت 888 ہے ( اشعر نجمی 786 سے آگے نکل گیے ہیں ) ظاہر ہے کہ اس قدر ضخیم شمارہ مکمل پڑھنے میں کئی مہینے لگیں گے ، لہذا اس تعارف ( یہ تبصرہ نہیں ہے ) میں تمام مشمولات پر گفتگو ممکن نہیں ہے ، بس مشمولات میں سے چند ایک کا ذکر ممکن ہے ۔ چلیں پہلے اداریہ پر بات کرلیں ۔
اداریے کی سُرخی ’ سب ٹھیک ٹھاک ہے ! ‘ ہم سب کے رویوں پر ، ہماری لاپروائی ، غفلت اور حالات سے آنکھیں موندنے کی عادت پر ایک طنز ہے ۔ اشعر نجمی مختصر سے عرصے میں ضخیم شمارے کو مرتب کرنے کا کریڈٹ لفظ ’ مزاحمت ‘ کو دیتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ میرے احباب اور اثبات کے قارئین میرے بارے میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’ مزاحمت ‘ سے میرا رشتہ پرانا ہے ۔‘‘ وہ ’ جشنِ ریختہ ‘ ، ساہتیہ اکیڈمی ، چندر بھان خیال ، خلیل مامون اور عین تابش کے حوالے دے کر لکھتے ہیں : ’’ ادب پناہ گاہ نہیں ہے بلکہ رزم گاہ ہے جہاں گارسیا لورکا کے سینوں میں گولیاں اتار دی جاتی ہیں اور اس کی لاش غائب کر دی جاتی ہے ، تو دوسری طرف سارتر ہے جو نوبل انعام کو آلو کی بوری کہہ کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ ریاستی اکیڈمیوں اور معمولی سے معمولی ایوارڈ کو حاصل کرنے کے لیے اتنے جوڑ توڑ کیے جاتے ہیں ، کمر اتنے خم کیے جاتے ہیں اور عزتِ نفس کا اتنا خون بہایا جاتا ہے کہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ شاید یہ لوگ اسی لیے ادیب بنے ہیں کیوں کہ ان کے پاس سماج میں عزت کمانے یا اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔‘‘ اداریے میں صرف اردو ادیبوں ہی کا نہیں معاشرے کے رویے کا بھی ذکر ہے : ’’ مزاحمت کا سہولتی رویہ ہمارے یہاں عام ہے ، پھر چاہے وہ مذہبی معاشرہ ہو ، ادبی یا فکری ۔‘‘ وہ لکھتے ہیں : ’’ اکثریت کو اقلیت کے خلاف اسی طرح مشتعل کیا جا رہا ہے جیسا کہ ماضی میں ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں ۔ اس لیے اپنی تحفظ گاہ کے قبر بننے سے پہلے آپ کو ’ سب ٹھیک ٹھاک ہے ‘ کہنا چھوڑنا ہوگا اور حکمت عملی سے کام لینا ہوگا ۔ مزاحمت کرنا آپ کا حق ہے لیکن اس کے اصول و مبادیات کو بھی جاننا ضروری ہے ۔ اسے آپ اکیلے نہیں لڑ سکتے ، برادرانِ وطن کی ایک کثیر جماعت آپ کے ساتھ ہے ، لیکن کیا آپ مشترکہ مسائل میں اُن کے ساتھ ہیں ؟ چونکہ صرف اپنی بقا اور شناخت کے لیے آپ کسی جمہوری معاشرے میں مزاحمت نہیں کر پائیں گے ، اس کے لیے آپ کو ایک ایسے نقطۂ اشتراک کی ضرورت ہے جس میں سب کے ساتھ آپ ہوں اور سب آپ کے ساتھ ۔ فاشزم اور تانا شاہی اسی اتحاد سے ڈرتی ہے اور اتحاد مشترکہ بنیادوں پر ہی قائم ہوتا ہے ۔‘‘ آخر میں وہ لکھتے ہیں : ’’ میں نے بطور ادیب ، شہری اور انسان فرضِ کفایہ ادا کر دیا ہے ، اب آپ کی باری ہے کہ اس کا کیا اثر قبول کرتے ہیں ، اسے پڑھتے بھی ہیں یا نہیں ، یا پھر حسبِ سابق یہ کہہ کر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں کہ ’ چلو یار ہمیں کیا ، میرے ساتھ سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔‘‘ اداریہ کا پیغام بہت واضح ہے ؛ مزاحمت تنہا نہیں مل کر کریں ، ان کا ساتھ لیں جو آپ کا ساتھ دیتے رہے ہیں ، اور ان کی مزاحمت میں بھی شریک ہو جائیں ۔
یہ شمارہ دو جلدوں میں ہے ، پہلی جلد میں ’ ادبی مزاحمت ‘ اور ’ فکری مزاحمت ‘ پر مضامین ، نظمیں اور فکشن شامل ہیں ۔ ’ ادبی مزاحمت ‘ کا باب ’ شب خون کے نام ‘ ہے ، ’ کہ جس نے ادب میں مزاحمت کے تصور کی توسیع کی اور ایک مخصوص ادبی کینن کی آمریت کے خلاف مزاحمت کر کے پورے اردو ادب کی کایا پلٹ دی ۔‘ اس باب میں ’ مزاحمت کا نیا پیش لفظ ‘ کے عنوان سے ایک مذاکرہ شامل ہے ، جس کے شرکا اشعر نجمی ، خالد جاوید ، ادین واجپئی ، ناصر عباس نیّر ، پنکج سبیر ، محمد حمید شاہد اور رضوان الحق ہیں ۔ مضامین لکھنے والوں میں تقریباً سب بڑے ، یعنی اہم نام ہیں ۔ ادب ، مزاحمت ، پوسٹ کالونیل تناظر ، سیاست ، نو مزاحمتی رجحان ، آمریت اور نائن الیون یہ سب مضامین کا موضوع بنے ہیں ۔ نظموں کے حصہ میں کملا داس ( مترجم مدیر ) افضال احمد سیّد ، عذرا عباس ، نزار قبانی ( مترجم انور سن رائے ) ، جینت پرمار اور نرالا ( مترجم ارشد عبدالحمید ) اور فکشن کے حصے میں زکریا تامر ، صدیق عالم ، دیوی پرساد مشر ، امبر پانڈے ، خورشید اکرم اور عتیق اللہ ( ڈرامہ ) کی تخلیقات شامل ہیں ۔ ’ فکری مزاحمت ‘ کے باب میں فسطائیت ، ہجومی تشدد ، مطلق العنانیت ، پاپولزم ، بے حسی ، انارکی ، استحصالی نظام ، نیشنلزم ، فلاحی اور چھچھوری ریاست کے موضوعات پر مضامین شامل ہیں ، ان میں اروندھتی رائے کا ایک مضمون ’ دوسروں کے لیے بولنا اور بھی ضروری ہے ‘ بھی شامل ہے ۔ اس باب میں ’ فکری مزاحمت ‘ کے موضوع پر نظموں اور فکشن کا انتخاب کیا گیا ہے ۔
جلد دوم کو ’ ثقافتی مزاحمت ‘ ، ’ نسائی مزاحمت ‘ ، ’ صحافتی مزاحمت ‘ ، ’ ہل من مزید ‘ اور ’ سب یاد رکھا جائے گا ‘ کے عناوین سے تقسیم کیا گیا ہے ، اور اسی تقسیم کے لحاظ سے نظموں اور فکشن کا انتخاب ہے ۔ آخری باب ’ سب یاد رکھا جائے گا ‘ میں نیوز پورٹل ’ دی وائر اردو ‘ سے لی گئیں عمر خالد ، اپوروانند ، مارکنڈے کاٹجو ، جہانوی سین ، میناکشی تیواری اور سدھارتھ بھاٹیہ کی سات اہم تحریریں ہیں ، ایسی تحریریں جو اقتدار کے مکرہ چہرے کو مکمل طور پر عریاں کر دیتی ہیں ۔ مزید یہ کہ ہر حصہ کسی نہ کسی ایسی شخصیت کے نام معنون ہے جس کا مزاحمت سے کوئی تعلق رہا ہے ، اور ساتھ ہی مزاحمت پر ایسے کارٹون شامل ہیں جو چند لکیروں کے ذریعے وہ سب کہہ جاتے ہیں جنہیں کہنے کے لیے شاید ضخیم کتاب بھی ناکافی ہو ۔ سرورق لاجواب ہے ، اور اس پر دشینت کمار کا یہ شعر
کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو!
شمارے کے موضوع کو درشاتا ہے ۔ آخری صفحہ پر معروف فکشن نگار خالد جاوید کی نظم ڈراکیولا مزاحمت کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتی ہے ۔ بس ! یقین ہے کہ یہ تعارف لوگوں کو اثبات کا مزاحمت نمبر حاصل کرنے ، اور اس طرح مزاحمت میں خود کو شریک کرنے کی تحریک دے گا ۔ اشعر نجمی کا یہ ایک یادگار کام ہے ، انہیں بہت بہت مبارک۔ شکیل رشید ہندوستان ،،،،،،،،، ،پاکستان میں حاصل کرنے کے لیے ڈاک خرچ سمیت 2500,, ،، 03333585426
اصل بات تو یہ ہے کہ بطور والد میں برخوردار محمد سفیان رضا سے خوش ہوں کہ اس نے ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور کا انتظام اچھے طریقے سے سنبھال لیا ہے اور مجھے اپنے ذاتی مطالعہ کے لیے وافر وقت مل جاتا ہے میں یہی چاہتا تھا ،،، اس خوشی میں آپ سب احباب کو شامل کرنے کا موقع تلاش کر رہا تھا ،،خیر سے سات جولائی کو ہم سفیان رضا کی چوبیسویں سال گرہ منائیں گے تو موقع بھی ہے اور دستور بھی ہے کے مصداق یکم جولائی سے دس جولائی تک ہم میگا سیل آفر کر رہے ہیں اس بار ان تمام دوستوں کا شکوہ بھی دور کرنا مقصد ہے،،، جو گھر بیٹھے بٹھائے ورلڈ ویو کی کتابیں حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ آپ دکانداروں کو ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں ڈائریکٹ قاری کو نہیں،،، تو لیں جناب ہر کتاب کی اصل قیمت اور ڈسکاؤنٹ کے بعد قیمت درج کر دی گئی ہے،، (علاؤہ ڈاک خرچ)آپ واٹس ایپ نمبر پر آرڈر کر سکتے ہیں اور اس خوشخبری کو کتاب کلچر کے فروغ کے لیے زیادہ سے زیادہ شئیر کر سکتے ہیں 03333585426،،،
پاکستان میں اردو سبجیکٹ کے مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے مفید کتابیں آپ کے دوستوں کے کام آ سکیں تو شئیر کر دیں 03333585426,,,, ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور
پروفیسر عبد الرحیم قدوائی صاحب امریکہ میں اس وقت اپنی کتاب کی اشاعت کی خوشخبری کے منتظر ہیں جنہیں بذریعہ کوریئر پاکستان سے روانہ کی جائے گی اہل پاکستان ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ یہاں کے محققین اس کتاب بلکہ آپ کی مزید کتابوں سے استفادہ کریں گے ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور ایسے منفرد موضوعات پیش کر کے فخر محسوس کرتا ہے ڈاک خرچ سمیت 800 ,,,03333585426
آج جس دور میں ہم زندہ ہیں ،،، بنیادی طور پر یہ استحصالی ،، سودی ،سرمایہ دارانہ ،، جھوٹ ،فریب ملاوٹ اور ہر فیلڈ میں دو نمبری کا دور ہے ایک عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل بنا دی گئی ہے وہ سارا دن دو دو نوکریاں کر کے اشرافیہ کی عیاشیوں کے لیے ظالمانہ ٹیکس کے ہاتھوں مجبور ہے بطور مسلمان وہ بھاگ دوڑ کر کے پانچ وقت سجدہ دینے اور سال بعد روزے رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے باقی سارا وقت اس تگ ودو میں صرف کرتا ہے کہ اسے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے میرے خیال میں شریعت و طریقت اس سے زیادہ مکلّف نہیں ٹھہراتی ایسے تمام لوگ پہلی بات کہ وہ میرے ساتھ ایڈ ہی نہیں ہوں گے اور اگر کوئی ہے تو وہ میرا مخاطب نہیں ہے ہاں البتہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو فکر معاش سے بے نیاز کر دیتا ہے جن کے پاس کثیر دولت اور وقت میسر رہتے ہیں معاشروں کو سیدھی ڈگر پر چلانے کے لیے یہی وہ لوگ ہیں جو آگے آتے ہیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں آج بھی ایسے بہت سارے لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دولت اور وقت عطا فرمایا ہے انہیں چاہئے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے لیے آگے آئیں جب آپ فعال کردار ادا کرنے کے لیے میدان عمل میں نکلتے ہیں تو سب سے ضروری چیز وہ اخلاص ہے اگر اس کا فقدان ہو گا تو ساری محنت رائگاں چلی جائے گی آپ کہ سکتے ہیں کہ راہ سلوک اصل میں اخلاص کا راستہ ہے کہ ہم حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی میں مخلص ہو جائیں اسی باطنی صفائی کے لیے اللہ تعالٰی کے مخلصین بھی دنیا میں ہمیشہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جن پر شیطان کا وار نہیں چلے گا تصوّف وسلوک کے کئی سلاسل بنیادی طور پر باطنی امراض کی تشخیص اور علاج کے لیے ہی معرضِ وجود میں آئے اور وقت کے ساتھ ساتھ با ضابطہ خانقاہیں وجود میں آئیں اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا کرنے کا کردار ادا کرتی رہیں وقت کے ساتھ ساتھ مخلصین کی کمی اور دو نمبر لوگوں کا مخلصین جیسا حلیہ بنا کر لوگوں کی عقیدتوں کا استحصال شروع کر دیا آج کل بہت سارے زاہدان خشک نے اصل تصوّف وسلوک اور روحانیت ہی کا انکار شروع کر دیا اور اسے ایک متوازن دین نام دے دیا اگر آپ ناراض نہ ہو تو یہ اسی طرح ہے کہ وہ خشک لوگ جنہوں نے علم تو بہت پڑھ لیا مگر باطن کی صفائی نہ کر پائے انہیں آپ دلائل سے سمجھا نہیں سکتے جیسے مخنث کو اح**ام کا بتا تو سکتے ہیں سمجھا نہیں سکتے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے بہت بڑے عالم اور شیخ طریقت حضرت علامہ ابو الحسن زید فاروقی مجددی آپ پچھلے دو سو سالوں میں فکری انتشار میں ایک معتدل شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور لوگوں کو روحانیت کی تربیت دی کئی کتابیں لکھیں عربی اردو فارسی یہ کتاب بھی فارسی زبان میں تھی جسے آپ کے مرید محمد نعیم اللہ خیالی نے اردو میں ترجمہ کیا اور آپ اسے بغور ملاحظہ فرما کر شائع کرنے کی اجازت دی 1983ء میں یہ کتاب شائع ہو چکی تھی اب پاکستان میں غلام حیدر خیرآبادی کی کوشش سے شائع ہوئی ہے اعلیٰ کوالٹی ہارڈ بائنڈنگ اعلیٰ کوالٹی کاغذ صفحات 244 ،،، ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور سے حاصل کی جا سکتی ہے پانچ سو روپے میں اور اگر آپ گھر بیٹھے بٹھائے حاصل کریں گے تو پیکنگ اور ڈاک خرچ سمیت صرف سات سو روپے بذریعہ جاز کیش بھیج سکتے ہیں 03333585426
دیکھیں ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور کیسے کیسے اچھوتے موضوعات پر کتابیں شائع کر رہا ہے ڈاک خرچ سمیت 500,, رابطہ نمبر 03333585426
یہی ہے، وہ شاہکار جسے آپ کے روبرو پیش کرنے کے لیے چند دن پہلے پردے میں رکھا تھا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور سے ہم اب تک تقریباً دو سو کتابیں شائع کر چکے ہیں ،، ہم نے اپنے قارئین کا ہدف علمائے دین مفتیان کرام مشائخ عظام اور کالج و یونیورسٹی کے پروفیسرز وکلاء و ججز اور منتہی طلباء کو رکھا، جس کی وجہ سے ہم تحقیقی علمی و ادبی کتابیں زیادہ شائع کرتے ہیں،، ابھی حال ہی میں بصیرت اسلام بمقابلہ جدید الحاد کتاب شائع کی، تو اس کی فنی ابحاث سے صرف اسکالرز حضرات ہی محظوظ ہوئے، عوام اس کتاب کو سمجھنے سے قاصر ہیں، مگر ان میں پیاس بہت ہے کہ ہمیں آسانث فہم، رواں و شائشتہ زبان میں کوئی ایسی کتاب دیں، جس میں دلچسپی بھی برقرار رہے اور ہمارے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو، اور جدید الحاد نے ہماری فکری سرحدوں کو کمزور کر دیا ہے وہ کتاب پھر سے ہمیں غیر محسوس انداز سے ایمان و یقین کی لذّت سے آشنا کر دے ،، ہمارے ہاں ویسے بھی عربی ناولز کا بہت کم ترجمہ ہوا ہے، اس عوامی مطالبے کو ہم نے نوجوان ادیب و دانشور فاضلِ ازہر جناب محمد اسماعیل ازہری صاحب کے سامنے رکھا تو آپ نے عربی ناول جو لاکھوں نوجوانوں کے ذہن ودماغ کو اسلام کی محبت سے سرشار کر چکا تھا کا اردو ترجمہ ارسال کیا ہے،، آپ کے ہر دل عزیز اشاعتی ادارے ورلڈ ویو پبلشرز اردو بازار لاہور سے بہت جلد شائع کیا جائے گا ان شاءاللہ ،،،،،
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the business
Telephone
Website
Address
Shop 11 First Floor Alhamd Market Ghazni Street Urdu Bazar Lahore
Lahore
1st Floor, 938-C-Faisal Town
Lahore
ہم اہل نعت فروعات میں الجھتے نہیں ہمیں تو ان کی محبت کو عام کرنا ہے
Al Farakh Market 83 G. T Road Shahdara Lahore
Lahore, 54950
Hamza Book and Gift Centre
130-D, Street 2, Upper Mall Scheme
Lahore, 54000
Independent and Progressive Publisher
Habib Educational Center Near Kitabistan Public House
Lahore, 54000
fancy stationary
الوہاب سنٹر پرانے برف خانے کے سامنے، حق اسٹریٹ، اردو بازار،
Lahore, لاہور
this page is about to sell books and stationery items.
AL-QADAR CENTRE, OPPOSITE A. G. OFFICE CHOWK, 1-MOZANG Road
Lahore, 54000
Lords Law Book House
192 1 B2 Township
Lahore, 05499
Aslam o Alikum ! We are publishing books of IQRA (trust) Follow page for product review .