Spotlight Law Company

Civil, Criminal, Corporate & Tax Consultants

10/10/2024

معزز ٹیکس گزار کے لیے اہم معلومات

پہلے فائلر کی دو کیٹگری تھی. فائلر اور نان فائلر اب اس میں تیسری قسم کو متعارف کروایا گیا ہے لیٹ فائلر جس کا مطلب ہے کہ اگر آپ اپنی ٹیکس ریٹرن دیرسے جمع کرواتے ہیں تو آپ کے فائلر کے سٹیٹس کے ساتھ لیٹ لکھا ہوگا.
ایف بی آر نے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی اخری تاریخ 14 اکتوبر 2024 مقرر کی ہے جس میں ہرگز توسیع نہ ہوگی .
اگر کوئی 14 اکتوبر 2024 سے پہلے اپنی ٹیکس ریٹرن جمع کرواتا ہے یا اس تاریخ تک فائلر ہوتا ہے تو 1 مارچ 2025 کو اس کے سٹیٹس سے لیٹ فائلر کا لفظ ختم ہو جائے گا.
اگر کوئی مقررہ تاریخ سے پہلے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرواتا تو اس کا سٹیٹس 18 ماہ یعنی 1 مارچ 2026 تک لیٹ فائلر رہے گا.
اپنے آپ کو لیٹ فائلر اور نان فائلر کی کیٹگری سے بچنے کے لیے 14 اکتوبر 2024 سے پہلے اپنی ٹیکس ریٹرن جمع کروا لیں .
یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اگر آپ فائلر ہیں تو پراپرٹی کی خرید و فروخت پر آپ کو 3 فیصد ٹیکس دینا ہوگا اور اگر آپ لیٹ فائلر ہیں تو آپ کو 6 فیصد ٹیکس دینا پڑتا ہے جبکہ نان فائلر کو 10 فیصد ٹیکس دینا ہوگا

Ejaz Farooq Bhatti
Advocate High Court
Telenor 03453663663
Warid 03454222242
Ufone 03456666690

01/10/2024

فائلر ہونا اور ٹیکس دینا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ٹیکس سب دیتے ہیں مگر فائلر کوئ نہیں ہونا چاہتا کیوں کہ اس میں اپنے اثاثے declare کرنے پڑتے ہیں۔
ٹیکس return فائل کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کا جو ٹیکس بنتا تھا وہ ادا کرنے کے بعد جو اضافی ٹیکس govt کے پاس چلا گیا ہے اس کا return claim کِرنا۔
لیکن چونکہ اثاثے declare کرنے کا فارم بھی ساتھ fill کرنا ہوتا ہے اس لئے ٹیکس filling کو ہمارے معاشرے میں negative sense میں لیا جاتا ہے۔

اہم بات اگر آپ اس سال یا اگلے سال میں کوئی بھی پراپرٹی خریدنا یا بیچنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس 14 دن ہیں فائلر ہونے یا اپنے گوشوارے جمع کروانے کے لیے کیوں کہ اگر آپ ابھی فائلر ہو جاتے ہیں تو آپ کو اگلے ایک سال میں پراپرٹی کے لین دین میں کافی فائدہ ہو سکتا ہے آپ 12 پرسنٹ کی جگہ 3 پرسنٹ FBR فیس کے اہل ہو جائیں گے اگر آپ مقررہ تاریخ 30 ستمبر (جو کہ اب توسیع کے بعد 14 اکتوبر کر دی گئی ھے) تک فائلر ہو جاتے ہیں اور 2023-24 کے گوشوارے جمع کروا دیتے ہیں تو آپ ریگولر فائلر کی لسٹ میں آ جائیں گے اگر آپ 14 اکتوبر کے بعد فائلر ہوں گے تو 2026 تک آپ کو late filer کی فہرست میں رہنا ہو گا
اس لیے اگر آپ اس سال یا اگلے سال میں کوئی بھی پراپرٹی خریدنا یا بیچنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس آخری 14 دن ہیں (گوشوارے جمع کروانے میں 14 دن کی توسیع کر دی گئی ھے) فائلر ہونے یا اپنے گوشوارے جمع کروانے کے لیے اور ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے کے لیے..
Ejaz Farooq Bhatti
(Advocate High Court)
Telenor 03453663663
Warid 03454222242
Ufone 03456666690

30/09/2024
Photos from Spotlight Law Company's post 03/09/2024

کراچی یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے ہائی کورٹ جج کی ڈگری منسوخ کردی
ڈان

جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ نے اپنی ان فیئر مینز (یو ایف ایم) کمیٹی کی سفارش پر ایک ہائی کورٹ کے جج کی ڈگری اور انرولمنٹ منسوخ کر دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ اکیڈمک اور سنڈیکیٹ کے رکن ڈاکٹر ریاض احمد کی حراست کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جنہیں پولیس نے اہم اجلاس میں شرکت سے روکنے کی کوشش کے طور پر اٹھالیا تھا۔

یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض کو تب ہی رہا کیا گیا جب سنڈیکیٹ نے ڈگری منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔

رہائی کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا کے کچھ ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ ڈگری کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے متعلق ہے۔

تاہم، آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی کیونکہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی اور یونیورسٹی کا کوئی اہلکار فوری طور پر تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں تھے۔

ڈاکٹر ریاض نے دعویٰ کیا کہ وہ ہفتے کو ہونے والے سنڈیکیٹ کے اجلاس میں 40 سال بعد جج کی لا ڈگری سے متعلق کیس سے متعلق ایجنڈا آئٹم پر پہلے ہی اعتراض کر چکے تھے۔

ڈاکٹر ریاض نے دعویٰ کیا کہ انہیں دوپہر ایک بجے کے قریب ٹیپو سلطان روڈ سے اس وقت اٹھایا گیا جب وہ میٹنگ میں شرکت کے لیے یونیورسٹی جا رہے تھے۔

بعد ازاں سنڈیکیٹ کا اجلاس ڈاکٹر ریاض کے بغیر ہوا اور دیگر فیصلوں کے علاوہ ڈگری کی منسوخی کی منظوری دی گئی۔

کے یو کی پریس ریلیز کے مطابق اراکین نے کے یو ان فیئر مینز کمیٹی کی سفارشات کی بھی منظوری دی جنہوں نے غیر اخلاقی اور نازیبا کاموں میں ملوث پائے جانے والے امیدواروں کی ڈگری اور انرولمنٹ کارڈ منسوخ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

تاہم پریس ریلیز میں کسی امیدوار کا نام نہیں بتایا گیا۔

دو ماہ قبل، سوشل میڈیا پر ایک خط گردش کرنے لگا تھا جس میں مبینہ طور پر کے یو کے امتحانات کے کنٹرولر کی طرف سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔

یہ خط مبینہ طور پر جامعہ کراچی کی جانب سے سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت انفارمیشن کی درخواست کا جواب تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔

تاہم، امتیاز احمد نے 1987 میں اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت داخلہ لیا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ ون کا ٹرانسکرپٹ جسٹس طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔

مزید برآں، طارق محمود نے ایل ایل بی پارٹ ون کے لیے انرولمنٹ نمبر 7124 کے تحت داخلہ لیا تھا، خط میں ڈگری کو جعلی قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن اسے غلط قرار دیا گیا، جس میں وضاحت کی گئی کہ یونیورسٹی پورے ڈگری پروگرام کے لیے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے جس سے طالب علم کے لیے ایک پروگرام کے لیے دو انرولمنٹ نمبر رکھنا ناممکن ہے۔

واضح رہے کہ طارق محمودجسٹس طارق جہانگیری ان 6 ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کے خلاف شکایت کی اور پھر انٹر سروسز انٹیلی جنس پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا، شکایت میں داخلی دروازوں اور جج کے بیڈ روم میں جاسوسی کیمروں کا پتا لگانے کے الزامات شامل تھے، یہ معاملہ مبینہ طور پر چیف جسٹس تک پہنچایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

قبل ازیں ڈاکٹر ریاض نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ٹیپو سلطان روڈ سے اس وقت لے جایا گیا جب وہ دوپہر ایک بجے کے یو جانے کے لیے اپنی رہائش گاہ سے نکلے تھے، انہیں ابتدائی طور پر جمشید کوارٹرز تھانے لے جایا گیا جہاں سے انہیں بہادر آباد تھانے لایا گیا جہاں شام 6 بجے ان کی اہلیہ صوفیہ وہاں پہنچی اور ان سے ملاقات کی۔

انہوں نے دعوی کیا کہ پولیس نے انہیں بتایا کہ وہ انہیں رہا کر رہے ہیں، لیکن انہیں دوبارہ بریگیڈ پولیس اسٹیشن لے گئی۔

Photos from Spotlight Law Company's post 24/08/2024

PLD 2024 SC 942
سٹیچوٹری گراؤنڈ پر ضمانت کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک انتہائی اہم اور تاریخ ساز فیصلہ !

فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ :

روحان احمد نامی ملزم کے خلاف چھبیس مئ دو ہزار بیس کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے مجموعہ تعزیرات پاکستان کے دفعہ دو سو پچانوے بی ، دو سو اٹھانوے سی ، ایک سو بیس بی ، ایک سو نو، چونتیس اور پیکا ایکٹ کے دفعہ گیارہ کے تحت اس وجہ سے ایف آئی آر کا اندراج کیا جاتا ہے کہ ملزم روحان پر یہ الزام ہوتا ہے کہ اس نے شکایت کنندہ کو نہ صرف موبائل ایس ایم ایس بلکہ واٹسپ پر بھی گستاخانہ مواد بھیجا بلکہ بعد میں ایف آئی اے کی جانب سے چھاپے کے دوران گستاخانہ مواد برآمد بھی ہوا۔ ایف آئی اے کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کو چھبیس مئ دو ہزار بیس کو ہی گرفتار کر دیا جاتا ہے جس کے خلاف ملزم عدالت سے رجوع کر کے درخواست ضمانت دائر کر دیتا ہے لیکن ملزم کی یہ درخواست عدالت کی جانب سے چھبیس اگست دو ہزار اکیس کو خارج کر دیتی ہے جس کے بعد ملزم عدالت عالیہ لاہور سے نہ صرف میرٹ پر بلکہ سٹیچوٹری گراؤنڈ پر بھی ضمانت کی استدعا کرتا ہے لیکن بائیس اگست دو ہزار تئیس کو ملزم کی یہ درخواست بھی کر دی جاتی ہے۔ عدالت عالیہ لاہور سے درخواست ضمانت خارج ہونے کے بعد ملزم کی جانب سے بدیں وجہ سپریم کورٹ میں لیو ٹو اپیل کی درخواست دائر کی جاتی ہے جس کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ بشمول جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب ، جسٹس جمال مندوخیل صاحب اور جسٹس اطہر من اللہ صاحب کے سامنے مقرر کیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کا آغاز اس نکتے سے کیا ہے کہ ملزم کو پولیس کی جانب چھبیس مئ دو ہزار بیس کو گرفتار کیا گیا لیکن شومئی قسمت کہ ٹرائل کے دوران ملزم کی جانب سے ضابطہ فوجداری کے دفعہ دو سو پینسٹھ-سی کے تحت ایک درخواست جمع کی جاتی ہے کہ مجھے وہ تمام کاغذات مہیا کئے جائیں جن کا زکر پولیس رپورٹ میں ہے لیکن ٹرائل کورٹ ملزم کی یہ درخواست خارج کر دیتی ہے جس کے بعد ملزم ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کرتا ہے جس پر عدالت عالیہ نے سات ستمبر دو ہزار اکیس کو درخواست پر فیصلے کی بجائے ملزم کے خلاف کارروائی کو عدالت عالیہ کے فیصلے تک ملتوی کرنے کا حکم دے دیتی ہے جس کے بعد اصل مسئلہ یہاں پر پیدا ہوا کہ ملزم کی اس درخواست پر ایک طرف عدالت عالیہ کی جانب سے سماعت نہیں ہورہی تو دوسری طرف ملزم کے ٹرائل کی کاروائی بھی ملتوی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے مسئلے کی تہ تک پہنچنے کے بعد ضابطہ فوجداری کے دفعہ چار سو ستانوے میں مذکور سٹیچوٹری گراؤنڈ پر آتی ہے جس کے تحت اگر کوئ ملزم کسی ایسے الزام میں قید ہو کہ جس کی سزا؛ سزائے موت ہو تو ایسی صورت میں اگر ملزم کے قید میں دو سال گزر جائیں اور اس کے خلاف ٹرائل کا اختتام نہ ہو اگر ٹرائل میں تاخیر ملزم کی جانب سے نہ ہوئ ہو تو ملزم کا یہ آئینی و قانونی حق ہے کہ ملزم کو فی الفور ضمانت پر رہا کیا جائے۔ یہاں پر جسٹس صاحب نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ملزم کو حاصل یہ حق صرف سٹیچوٹری نہیں بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل چار ، نو اور دس اے کے تحت یہ ملزم کا بنیادی آئینی حق ہے۔

مندرجہ بالا نکات کی صراحت کے ساتھ وضاحت کے بعد جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے ایک بحث اس موضوع پر باندھی ہے کہ وہ کونسے ایسے عوامل ہیں جن کی موجودگی میں ملزم کو سٹیچوٹری گراؤنڈ دستیاب نہیں ہوگا تو اس بابت سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ ملزم کے خلاف یہ ثابت کیا جائے گا کہ اس نے قصدا ٹرائل کو موخر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے لئے یہ واضح کیا جائے گا کہ ملزم نے مسلسل نے ٹرائل کے اہم مواقع یعنی جرح وغیرہ کے وقت ٹرائل کو ملتوی کرنے کی درخواستیں دی ہیں۔ یہاں پر جسٹس صاحب نے ایک انتہائی اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ صرف درخواستوں کو شمار کرنے سے کام نہیں ہوگا کہ کس نے زیادہ درخواستیں ٹرائل کو موخر کرنے کے لئے دی ہیں اور چونکہ اس کیس میں تاخیر عدالت عالیہ کی جانب سے ہوئ ہے کیونکہ عدالت عالیہ نے تین سال گزرنے کے بعد بھی ملزم کی جانب سے پیش کی جانے والی درخواست پر فیصلہ نہیں دیا۔ یہاں پر جسٹس صاحب نے عدالت عالیہ کے پاس کیسز کو ملتوی یعنی سٹے دینے کے اختیار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر ایک طرف عدالت کے پاس یہ اختیار ہے تو اس اختیار کا استعمال نہایت احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے اور ایک دفعہ یہ اختیار استعمال کیا جائے تو پھر درخواست پر جلد از جلد فیصلہ دینا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے مندرجہ بالا امور واضح کرنے کے بعد ملزم کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کیس کو نہ صرف رپورٹ کرنے کی منظوری دی بلکہ عدالت عالیہ لاہور کے زریعے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے سامنے رکھنے کا بھی حکم دیا تاکہ آئندہ ایسے امور میں بہتری آئے۔

فوجداری مقدمات میں سٹیچوٹری گراؤنڈ پر ضمانت پر ضمانت کے حوالے سے اس تاریخ ساز یعنی لینڈ مارک فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ضابطہ فوجداری کے دفعہ چار سو ستانوے کے تحت ملزم کو حاصل سٹیچوٹری گراؤنڈ کے اس حق کو آئین پاکستان کے آرٹیکل چار ، نو اور دس اے کے تناظر میں دیکھا جائے گا اور بدیں وجہ ملزم کو اس حق کے حصول سے صرف اس وجہ سے محروم نہیں کیا جائے گا کہ ملتوی کرنے کی درخواستوں کو شمار کیا جائے بلکہ ملزم کو اس حق سے محروم کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ملزم کے خلاف یہ ثبوت ہوں کہ اس نے قصدا مسلسل کوششوں کے زریعے ٹرائل کے اہم تاریخوں پر کیس کو موخر کیا ہے۔

یہ انتہائی اہم فیصلہ، سپریم کورٹ کے جج ، جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب نے لکھا ہے جس کو Crl.P.894-L/2023 پر پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے۔
PLD 2024 SC 942

14/08/2024

Pakistan ZINDABAD ❤️

13/08/2024

𝐓𝐡𝐞 𝟐𝟎 𝐌𝐚𝐱𝐢𝐦𝐬 𝐨𝐟 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲

Equity is an ancient judicial system originating in England by which courts apply principles of general fairness in situations where application of the common law would bring about injustice. Article III of the U.S. Constitution extends the judicial power of courts to both cases in law and in equity. While the Federal Rules of Civil Procedure combined law and equity into a single type of suit—the civil action—in 1938, the distinction between law and equity is still very much alive. Claims in equity afford different remedies, do not permit a right to trial by jury under the Seventh Amendment (indeed, equitable claims must be decided by the judge even if a jury is deciding other claims at law), and equitable remedies are generally unavailable when there is an “adequate remedy at law.”

While they do not constitute binding precedent in US courts, equitable claims and the courts that preside over them are traditionally guided by the 20 Maxims of Equity, which are certainly persuasive precedent. The 11th Circuit was kind enough to recently gather 13 of these maxims in one place in Slater v. U.S. Steel Corp., 820 F.3d 1193, 1247 (2016), but of course we pride ourselves in creating a more comprehensive list:

1. 𝐎𝐧𝐞 𝐰𝐡𝐨 𝐬𝐞𝐞𝐤𝐬 𝐞𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐦𝐮𝐬𝐭 𝐝𝐨 𝐞𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲: this is “[p]erhaps one of the most basic maxims of equity.” Anstalt v. Ness Energy Int’l, Inc., Case No. 10-1218-D (W.D. Okla. Mar. 28, 2012). Simply put, a party petitioning the court for equitable relief must be willing to fulfill all of its own obligations.

2. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐰𝐢𝐥𝐥 𝐧𝐨𝐭 𝐬𝐮𝐟𝐟𝐞𝐫 𝐚 𝐰𝐫𝐨𝐧𝐠 𝐭𝐨 𝐛𝐞 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐚 𝐫𝐞𝐦𝐞𝐝𝐲: “The equitable power of a court is not bound by cast0iron rules but exists to do fairness and is flexible and adaptable to particular exigencies so that relief will be granted when, in view of all the circumstances, to deny it would permit one party to suffer a gross wrong at the hands of the other.” PCS Nitrogen, Inc. v. Ross Dev. Corp., 126 F. Supp. 3d 611, 642 (D.S.C. 2015) (quoting Hooper v. Ebenezer Sr. Servs. & Rehab. Ctr., 386 S.C. 108 (2009)).

3. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐫𝐞𝐠𝐚𝐫𝐝𝐬 𝐚𝐬 𝐝𝐨𝐧𝐞 𝐰𝐡𝐚𝐭 𝐨𝐮𝐠𝐡𝐭 𝐭𝐨 𝐛𝐞 𝐝𝐨𝐧𝐞: “It is a fiction of equity designed to effectuate the obvious intention of the parties and to promote justice.” Rodeck v. U.S., 697 F. Supp. 1508 (D. Minn. 1988).

4. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐢𝐬 𝐚 𝐬𝐨𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐞𝐪𝐮𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲: “As the FMCRA is silent on the question of priority, and as ‘equity is equality,’ we find that the proper course here is to distribute the limited funds on a ratable basis, such that each claimant receives ‘a share of the fund proportionate to their share of the total judgment figure.’” Commercial Union Ins. Co. v. U.S., 999 F.2d 581 (D.C. Cir. 1993) (citing Dobbs, The Law of Remedies § 2.12 at 130).

5. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐚𝐢𝐝𝐬 𝐭𝐡𝐞 𝐯𝐢𝐠𝐢𝐥𝐚𝐧𝐭, 𝐚𝐧𝐝 𝐧𝐨𝐭 𝐭𝐡𝐨𝐬𝐞 𝐰𝐡𝐨 𝐬𝐥𝐮𝐦𝐛𝐞𝐫 𝐨𝐧 𝐭𝐡𝐞𝐢𝐫 𝐫𝐢𝐠𝐡𝐭𝐬: This is the basis for the equitable defense of laches. See Eason v. Whitmer, Case No. 20-12252 (E.D. Mich. Sep. 9, 2020) (quoting Hays v. Port of Seattle, 251 U.S. 233, 239 (1920)).

6. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐢𝐦𝐩𝐮𝐭𝐞𝐬 𝐚𝐧 𝐢𝐧𝐭𝐞𝐧𝐭 𝐭𝐨 𝐟𝐮𝐥𝐟𝐢𝐥𝐥 𝐚𝐧 𝐨𝐛𝐥𝐢𝐠𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧: Near performance of a general obligation is sufficient unless the law requires perfect performance. See Union Trust Co. of Maryland v. Townsend, 101 F. 2d 903 (4th Cir. 1939).

7. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐚𝐜𝐭𝐬 𝐢𝐧 𝐩𝐞𝐫𝐬𝐨𝐧𝐚𝐦: Equity acts on the duties of people, not objects, or “[e]quity acts in personam, not in rem.” Diallo v. Redwood Invs., LLC, Case No. 18-cv-1793 (S.D. Cal. Aug. 6, 2019). Today, the term “people” includes legal entities like corporations.

8. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐚𝐛𝐡𝐨𝐫𝐬 𝐚 𝐟𝐨𝐫𝐟𝐞𝐢𝐭𝐮𝐫𝐞: Largely foreclosed (pun intended) today by statute, the original theory was that if one failed to make a payment for property received on time and had that property seized at law, they could pay the debt late and recover the property in equity. Today, it may be more important to understand the “exception to the general rule that ‘equity abhors a forfeiture’ . . . [which] states that ‘forfeiture is favored, when, instead of working a loss or injury contrary to equity, it promotes justice and equity and protects the owner against the indifference, laches, and injurious conduct of the lessee.” Bezilla v. Tug Hill Operating, LLC, Case No. 5:17-cv-123 (N.D.W. Va. Nov. 13, 2017) (internal citations omitted).

9. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐝𝐨𝐞𝐬 𝐧𝐨𝐭 𝐫𝐞𝐪𝐮𝐢𝐫𝐞 𝐚𝐧 𝐢𝐝𝐥𝐞 𝐠𝐞𝐬𝐭𝐮𝐫𝐞: “‘If the employee desires reinstatement for strategic purposes, that is a valid basis for denial’ . . . ‘Equity does not engage in idle gestures,’ and the Court will not order Plaintiff to work as a material handler at Volvo without it being unambiguously clear that she still wants this job.” Arroyo v. Volvo Grp. N. Am., LLC, Case No. 12-cv-6859 (N.D. Ill. Jul. 13, 2017) (internal citations omitted).

10. 𝐇𝐞 𝐰𝐡𝐨 𝐜𝐨𝐦𝐞𝐬 𝐢𝐧𝐭𝐨 𝐞𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐦𝐮𝐬𝐭 𝐜𝐨𝐦𝐞 𝐰𝐢𝐭𝐡 𝐜𝐥𝐞𝐚𝐧 𝐡𝐚𝐧𝐝𝐬: “The equitable defense of unclean hands requires that ‘[h]e who comes into equity must come with clean hands.’” E.O.H.C. ex rel. M.S.H.S. v. Barr, Case No. 5:19-cv-06144-JDW (E.D. Pa. Jan. 22, 2020) (citing Keystone Driller Co. v. Genn. Excavator Co., 290 U.S. 240, 241 (1933).

11. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐝𝐞𝐥𝐢𝐠𝐡𝐭𝐬 𝐭𝐨 𝐝𝐨 𝐣𝐮𝐬𝐭𝐢𝐜𝐞, 𝐚𝐧𝐝 𝐧𝐨𝐭 𝐛𝐲 𝐡𝐚𝐥𝐯𝐞𝐬: “At the remedy stage – a violation having been established – it may be appropriate to resolve marginal doubts against the wrongdoers. Courts should not be gruding in remedying injustice. ‘Equity delights to do justice, and not by halves.’” Jeffers v. Clinton, 756 F. Supp. 1195 (E.D. Ark. 1990).

12. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐰𝐢𝐥𝐥 𝐭𝐚𝐤𝐞 𝐣𝐮𝐫𝐢𝐬𝐝𝐢𝐜𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐭𝐨 𝐚𝐯𝐨𝐢𝐝 𝐚 𝐦𝐮𝐥𝐭𝐢𝐩𝐥𝐢𝐜𝐢𝐭𝐲 𝐨𝐟 𝐬𝐮𝐢𝐭𝐬: Good luck today with this one. While the spirit of this maxim may remain alive, it has largely been subsumed by rules concerning MDL, class actions, collective actions, and case law on the topic. “This case does not come within the principle that equity will take jurisdiction to avoid a multiplicity of suits.” Ohio Farmers’ Ins. v. Yoas, 65 F.2d 651 (9th Cir. 1933).

13. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐟𝐨𝐥𝐥𝐨𝐰𝐬 𝐭𝐡𝐞 𝐥𝐚𝐰: “As Justice Story explained, ‘[w]here a rule [of] . . . the statute law is direct and governs the case with all its circumstances, or the particular point, a court of equity is as much bound by it, as a court of law.’” Ibson v. United Healthcare Servs., Inc., 877 F.3d 384 (8th Cir. 2017) (quoting Joseph Story, Commentaries on Equity Jurisprudence § 64 (12th ed. 1877).

14. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐰𝐢𝐥𝐥 𝐧𝐨𝐭 𝐚𝐬𝐬𝐢𝐬𝐭 𝐚 𝐯𝐨𝐥𝐮𝐧𝐭𝐞𝐞𝐫: “An unjust enrichment claim will not lie, however, if the benefit is conferred ‘by a volunteer or intermeddler.’” Al-Sabah v. World Bus. Lenders, LLC, Case No. SAG-18-2958 (D. Md. Jul. 9, 2020). And conversely, in restitution claims, equity will not create a quasi-contract to a promisee if no consideration was provided (a “volunteer” in 18th Century English).

15. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐰𝐢𝐥𝐥 𝐧𝐨𝐭 𝐜𝐨𝐦𝐩𝐥𝐞𝐭𝐞 𝐚𝐧 𝐢𝐦𝐩𝐞𝐫𝐟𝐞𝐜𝐭 𝐠𝐢𝐟𝐭: “Equity will not make [a trust] where none has been clearly declared. A defective or imperfect gift will not be converted into a trust.” Weil v. Commissioner of Internal Revenue, 82 F.2d 561 (5th Cir. 1936).

16. 𝐖𝐡𝐞𝐫𝐞 𝐞𝐪𝐮𝐢𝐭𝐢𝐞𝐬 𝐚𝐫𝐞 𝐞𝐪𝐮𝐚𝐥, 𝐭𝐡𝐞 𝐥𝐚𝐰 𝐰𝐢𝐥𝐥 𝐩𝐫𝐞𝐯𝐚𝐢𝐥: “In any event the equity of the taxpayer is no greater than that of the United States and when equities are equal, the legal title will prevail.” Travel Industries of Kansas v. U.S., 425 F.2d 1297 (10th Cir. 1970).

17. 𝐁𝐞𝐭𝐰𝐞𝐞𝐧 𝐞𝐪𝐮𝐚𝐥 𝐞𝐪𝐮𝐢𝐭𝐢𝐞𝐬 𝐭𝐡𝐞 𝐟𝐢𝐫𝐬𝐭 𝐢𝐧 𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫 𝐨𝐟 𝐭𝐢𝐦𝐞 𝐬𝐡𝐚𝐥𝐥 𝐩𝐫𝐞𝐯𝐚𝐢𝐥: The general principle with regard to real property is “first in time, first in right.” Bank of Am., N.A. v. Esplanade at Damonte Ranch Homeowners’ Ass’n, 3:16-CV-00116-RCJ-VPC (D. Nev. May 23, 2017). Comparing timing with legal and equitable claims, “[u]nder the common law, an earlier claim had priority over a later claim if both claims were legal claims . . . The same was true if both claims were equitable . . . [order in time] only mattered under the common law where [one party] had a legal claim and a competing earlier claim to the property was purely equitable.” Id.

18. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐰𝐢𝐥𝐥 𝐧𝐨𝐭 𝐚𝐥𝐥𝐨𝐰 𝐚 𝐬𝐭𝐚𝐭𝐮𝐭𝐞 𝐭𝐨 𝐛𝐞 𝐮𝐬𝐞𝐝 𝐚𝐬 𝐚 𝐜𝐥𝐨𝐚𝐤 𝐟𝐨𝐫 𝐟𝐫𝐚𝐮𝐝: “Courts of equity, independently of any statute, will relieve against fraud, if proceedings are seasonably brought after its discovery. Indeed, to use the language of Lord Cottenham, a court of equity will wrest property fraudulently acquired, not only from the perpetrator of the fraud, but ‘from his children and his children’s children,’ or, as was said in another English case, ‘from any person to whom he may have parcelled out the fruits of his fraud.’” Citizens Bank v. Leffler, 228 Md. 262, 269 (Md. 1962).

19. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐰𝐢𝐥𝐥 𝐧𝐨𝐭 𝐚𝐥𝐥𝐨𝐰 𝐚 𝐭𝐫𝐮𝐬𝐭 𝐭𝐨 𝐟𝐚𝐢𝐥 𝐟𝐨𝐫 𝐰𝐚𝐧𝐭 𝐨𝐟 𝐚 𝐭𝐫𝐮𝐬𝐭𝐞𝐞: Even if a trustee dies before the creation of a testamentary trust, for example, or if the trustee is incompetent at the time she accepts the position, these failures would not cause the creation of the trust to fail. See, e.g., Fulk & Needham, Inc. v. U.S., 288 F. Supp. 39, 44 (M.D.N.C. 1968).

20. 𝐄𝐪𝐮𝐢𝐭𝐲 𝐫𝐞𝐠𝐚𝐫𝐝𝐬 𝐭𝐡𝐞 𝐛𝐞𝐧𝐞𝐟𝐢𝐜𝐢𝐚𝐫𝐲 𝐚𝐬 𝐭𝐡𝐞 𝐭𝐫𝐮𝐞 𝐨𝐰𝐧𝐞𝐫: Another historical maxim that no longer applies—common law once provided no action by the beneficiary of a trust against the trustee, but that has since changed with the common law claim for breach of fiduciary duty.

Photos from Spotlight Law Company's post 06/08/2024

Date Sheet for the LL.B. (05 Years) Annual Examination, 2024 to be held in August-September, 2024

06/08/2024

Date Sheet for the LL.B. (03 Years), Annual Examination, 2024 To be held in August-September, 2024

23/07/2024

اسلام آباد (مہتاب حیدر) وزیر خزانہ کی منظوری سے ایف بی آر نے ملک بھر کے 6سے 42 شہروں تک توسیع کے لیے تاجر دوست خصوصی رولز 2024 کا اجراء کر دیا ہے جس کے تحت ٹیکس مشینری نے دکانوں کی مارکیٹ کی قیمت کے لحاظ سے خوردہ فروشوں کے لیے 100 روپے سے لے کر 10 ہزار روپے ماہانہ تک کے مقرر کیا گیا۔ ایف بی آر کے باضابطہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اس خصوصی طریقہ کار میں جب تک کہ موضوع یا سیاق و سباق میں کوئی چیز متضاد نہ ہو (الف) ’’اشاراتی آمدنی‘‘ کا مطلب آمدنی ہے جیسا کہ جدول-II میں جدول کے کالم (4) میں بیان کیا گیا ہے اور بورڈ کی جانب سے عوامل کی بنیاد پر تعین کیا گیا ہے بشمول پراپرٹی کی کرائے کی قیمت، اس کے محل وقوع اور منصفانہ مارکیٹ ویلیو تک محدود نہیں؛ ’فزیکل جگہ‘ میں کاروبار سے منسلک کوئی بھی جگہ یا دفتر یا گھر جو ایک کاروباری جگہ کے طور پر کام کرتا ہے؛ اور ’’دکاندار‘‘ میں تھوک فروش، ڈیلر، ڈسٹری بیوٹر، خوردہ فروش، مینوفیکچرر مع خوردہ فروش، درآمد کنندہ مع خوردہ فروش، یا ایسا شخص شامل ہے جو خوردہ اور تھوک کی سرگرمی کو کسی دوسری کاروباری سرگرمی یا سامان کی سپلائی چین میں موجود دوسرے شخص کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ ایس آر او کے مطابق ریٹیلرز اسکیم ایبٹ آباد، اٹک، بہاولنگر، بہاولپور، چکوال، ڈیرہ اسماعیل خان، فیصل آباد، گھوٹکی، گجرات، گوادر، حافظ آباد، ہری پور، حیدرآباد، اسلام آباد، جھنگ، جہلم، کراچی، قصور، خوشاب، لاہور، لاڑکانہ، لسبیلہ، لودھراں، منڈی بہاؤالدین، مانسہرہ، مردان، میرپورخاص، ملتان، ننکانہ، نارووال، پشاور، کوئٹہ، رحیم یار خان، راولپنڈی، ساجیوال، سرگودھا، شیخوپورہ، سیالکوٹ، سکھر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ نافذ کردی گئی ہے۔

14/07/2024

14 جولائی بروز اتوار سے 17 جولائی بروز بدھ تک ڈبل سواری پر پابندی عائد ہے۔ براہِ کرم محتاط رہیں۔ (بزرگ شہری اور خواتین اس سے مستثنٰی ہیں)

30/06/2024

22/06/2024

June 22

If someone desires only enjoyment in this brief life, We will readily grant it, for We give what We want to whomever We wish. But at the end, only Hellfire awaits such a selfish person, for he or she will be disgraced and rejected. Conversely, a firm believer who seeks eternal life, and works generously by doing more good deeds than are required, will be greatly appreciated [by the Lord]. Both kinds of people receive your Lord’s unconditional bounty in this life, but pay attention to how We prefer one group over the other. Remember that the Hereafter is much better than this life and should be your highest priority. Therefore, do not worship any other divinity along with God, for in the end you will sit alone, forgotten and forsaken.
Surah: 17, Ayat :18-22

21/06/2024

"شارٹ ویڈیوز اور ذہن کی بربادی"

انسٹا گرام (Instagram)، ٹِک ٹاک (TikTok) سمیت دیگر تمام Apps جو مختصر دورانیہ کی ویڈیوز والے فیچر پر مشتمل ہیں، یہ انسانی ذہن کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔
انسان کے سوچنے کی صلاحیت کا سارا دارومدار اس کے Concentrate اور Focus کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے جسے ہم Attention Spam بھی کہ سکتے ہیں۔ یہ مختصر ویڈیوز والا فیچر Attention Spam کو تیزی سے تباہ کر رہا ہے۔
ہر 5 سیکنڈ، 10 سیکنڈ یا ایک منٹ کے بعد نئی آنے والی ویڈیو کا Content پچھلی ویڈیو سے یکسر مختلف ہوتا ہے اور ایک گھنٹے تک Short Videos دیکھنے والے انسان کا دماغ کم از کم سو سے زیادہ موضوعات پر Jump کرتا ہے اور اس شدید بھاگ دوڑ والے ایک گھنٹے بعد جب موبائل اسکرین سے نظر ہٹائیں تو دماغ تقریباً سُن ہو چکا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک دوسرا خطرناک نتیجہ جو ان Apps کے بے دریغ استعمال سے برآمد ہو رہا ہے، وہ انسانی جذبات کا قتلِ عام ہے۔ یعنی دس سیکنڈ کی انتہائی سنجیدہ ویڈیو کے فوری بعد اگلی دس سیکنڈ کی ویڈیو کسی اسٹیج ڈرامے کے Clip پر مبنی ہوتی ہے اور انسان محض دس سیکنڈ کے اندر انتہائی سنجیدہ موڈ سے نکل کر ہنسی مذاق کے موڈ میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ عمل ایک نشست میں درجنوں مرتبہ دہرایا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ دیر تک ایک ہی احساس کو برقرار رکھنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے۔
اس کے براہ راست نتائج جو سامنے آ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم کسی ایک طرح کی Situation میں بہت جلدی Bore ہونے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ انسان ترقی کی جس معراج پر آج موجود ہے، اس مقام تک پہنچنے میں سب سے بڑا کردار انسان کی گھنٹوں ایک ہی موضوع پر مرتکز رہنے کی دماغی صلاحیت کا ہے۔
نہ جانے کتنے فلسفیوں اور سائنسدانوں نے اپنی پوری پوری زندگیاں ایک ایک مسئلے کو سلجھانے میں گزاریں۔ تب جا کر ہم موجودہ مقام پر پہنچ پائے ہیں۔

لیکن اس وقت انسانی دماغ کی ارتکاز کی صلاحیت کے ساتھ جو کھلواڑ مذکورہ Apps کے ذریعے ہو رہا ہے۔
یہ مستقبل میں انسانوں کو Mentally Zombies میں بدل دے گا۔
ایسے Zombies جنہیں اپنے اردگرد موجود مسائل سے نہ تو کوئی سروکار ہو گا اور نہ ہی ان کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہوگی۔ سوچیں اور غور و فکر کریں، آپ خود آدھے ایک گھنٹہ میں تھک جائیں گے اور بوریت محسوس کریں گے اور خود کو تھکا تھکا محسوس کریں گے۔

بہتر ہے ایسی ویڈیو اور شاٹ سے پرہیز کریں ورنہ آگے چل کر آپ کسی بھی طرح کے فیصلہ لینے اور کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ مطلب آپ کی Decision-Making Power کمزور ہو جائے گی۔ ہلکے Dose میں یہ بھی کسی دجالی فتنے سے کم نہیں ہے اور اُنکا Plan ہے کہ پہلے انسان کے دماغ سے کھیلا جائے اور اُنکو Freeze کر دیا جائے جو آجکل دیکھنے کو عام ہے کہ ہم ایک ماحول میں آدھے ایک گھنٹہ سے زیادہ رہ نہیں پاتے ہیں جو کہ ہمارے لیے بہت خطرناک ہے اور یہ ہمارے دماغ کو کمزور کردیگا ۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں خوش و خرم سلامت رکھے اور سوچنے سمجھنے کی قوت عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین.

• انتخاب و ترتیب: محمد زمان (نفسیات دان)

14/06/2024

دشمنی انسان کا سکون چھین لیتی ھے.
شوق سے بندوق اٹھانے والو جب یہ پکا کندھوں کا بوجھ بن جاتی ہے گلے پڑ جاتی ھے پھر انسان بھاگتا ھے یہ بوجھ برداشت نہیں ہوتا پھر قسمت والے ہی اس سے بچتے ہیں
یہ جان لے کر یا جان دے کر ہی ساتھ چھوڑتی ہے.
یہ دکھ کسی دشمنی والے سے پوچھیں ۔

بات بات پہ پستول تان لینے والے چھوٹی باتوں کو بڑھاوا دینے والے زندگی کی قیمت قبرستان والوں اور آزادی کی قیمت جیل والوں سے پوچھو کیسے دن رات جیل کی سلاخیں دیکھ دیکھ کہ کیسے جیتے ہیں .
زندگی جینے کا نام ہے.
خود بھی جیو دوسروں کو بھی جینے دو
محبتیں بانٹیں، نفرتیں تو پہلے ھی بہت ہیں..! *صرف جانور🐐 ہی قربان مت کریں*
*عید پر اپنی ضد, انا, حسد اور بدگمانی کو بھی قربان کیجیئے دل صاف کریں تاکہ قربانیاں قبول ہوجائیں*،،

14/06/2024

کسی انٹیلکچوال کی عمدہ تحریر
..جس کسی نے بھی یہ آرٹیکل لکھا ہے بہت عمدہ اور لاجواب ھے :-
**************

عصر کا وقت ہوگا (بعض روایات کے مطابق فجر کا وقت) نماز کے لیے صفیں درست ہورہی ہوں گی اور اچانک حضرت عیسیٰ ؑ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر سفید مینار پر اتر آئیں گے‘ وہ زردرنگ کی دو چادروں میں ملبوس ہوں گے اور ان کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے‘ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ عقید ہے لیکن یہ عقیدہ ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع حضرت عیسیٰ ؑ ؑکادنیا میں تشریف لانے کے بعدعام لوگوں کے ساتھ پہلا مکالمہ ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ جامعہ امیہ میں موجود لوگوں کو حکم دیں گے ’’سیڑھی کا بندوبست کرو‘ میں مینار سے نیچے اترنا چاہتا ہوں‘‘ لوگ یہ مطالبہ سن کر ہنسیں گے اور عرض کریں گے ’’حضور آپ آسمان سے زمین پر تشریف لے آئے لیکن آپ کومینار سے اترنے کے لیے سیڑھی چاہیے‘ کیا یہ بات عجیب نہیں‘‘ حضرت عیسیٰ ؑ جواب دیں گے ’’میں اس وقت عالم اسباب میں کھڑا ہوں اور عالم اسباب میں آپ ہوں یا میں ہم سب اسباب کے محتاج ہیں‘‘ لوگ یہ سن کر سبحان اللہ‘ سبحان اللہ کہیں گے‘ سیڑھی کا بندوبست کریں گے اور حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر قدم رنجہ فرما دیں گے‘ امام مہدیؒ کی اقتداء میں سنت محمدی کے مطابق نماز ادا کریں گے اور دجال سے مقابلے کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔

میں نے جب کتابوں میں یہ واقعہ پڑھا تو عالم اسباب کی ساری تھیوری سمجھ آ گئی‘ہم مسلمان خوفناک حد تک ذہنی‘ نفسیاتی اور روحانی مغالطے کا شکار ہیں‘ ہم پوری زندگی روحانی معجزوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اس انتظار میں یہ تک فراموش کر بیٹھتے ہیں حضرت موسیٰ ؑ کلیم اللہ تھے‘ وہ اپنے عصا سے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن وہ بھی اپنی امت کے لیے عالم اسباب کے تقاضے نرم نہ کر سکے‘ حضرت عیسیٰ ؑ مُردوں کو زندہ کر دیتے تھے لیکن وہ اور ان کے ساتھی رومن ایمپائر کے اسباب کا مقابلہ نہ کر سکے اور نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے آخری اور محبوب ترین نبی ہیں لیکن انھیں بھی عالم اسباب میں تلوار‘ گھوڑے‘ زرہ بکتر‘ اونٹ‘ پانی‘ خوراک اور لباس کا بندوبست کرنا پڑا۔

یہ بھی اپنا دفاع کرتے رہے‘ یہ بھی جنگیں لڑتے رہے اور یہ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھتے رہے‘ انھیں بھی ساتھیوں‘ دوستوں‘ بھائیوں‘ ہجرتوں‘ معاہدوں‘ جوڑ توڑ اور معاش کی ضرورت پڑتی رہی‘ یہ بھی تجارت فرماتے رہے‘ یہ بھی اپنے حسب نسب پر فخر کرتے رہے اور یہ بھی اپنے گھر آباد کرتے رہے‘ آپ کسی دن فرقے اور مسلک کی عینک اتار کر سیرت کا مطالعہ کیجیے‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ہمارے رسولؐ نے پوری زندگی کوئی ’’سب اسٹینڈرڈ‘‘ چیز استعمال نہیں کی‘ دوست بنائے تو شاندار لوگوں کا انتخاب کیا‘ غلام‘ خادم اور کنیزیں چنیں تو تہذیب‘ شائستگی اور مروت کے شاہکار پسند فرمائے۔

آپؐ نے پوری زندگی کمزور تلوار خریدی اورنہ ہی بیمار گھوڑے اور لاغر اونٹ پر سفر کیا‘ آپؐ نے لباس بھی ہمیشہ صاف‘ ستھرا اور بے داغ پہنا اور رہائش کے لیے شہر بھی معتدل‘ پر فضا اور مرکزی پسند کیا‘ آپؐ نے زندگی بھر عالم اسباب میں اسباب کا پورا خیال رکھا‘ اچھا کھانا کھایا‘ اچھا پھل پسند فرمایا‘ اچھی جگہ اور اچھے لوگ پسند کیے اوراس دور کی شاندار ٹیکنالوجی استعمال کی‘آپ غور کیجیے عرب حملہ آوروں سے مقابلے کے لیے شہروں سے زیادہ دور نہیں جاتے تھے لیکن آپؐ جنگ بدر کے موقع پر مدینہ سے 156 کلو میٹر دور بدر کے میدان میں خیمہ زن ہو ئے‘ آپؐ غزوہ احد کے موقع پر بھی احد کے پہاڑ پر چلے گئے۔

آپؐ نے عربوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مدینہ کے گرد خندق بھی کھودی اور آپؐ نے کافروں سے مقابلے کے لیے یہودیوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے‘ یہ کیا تھا؟ یہ عالم اسباب میں اسباب کی بہترین مثالیں ہیں‘ نبی اکرمؐ عالم ارواح میں چند سیکنڈ میں معراج سے مستفید ہو گئے‘ وہ واپس آئے تو وضو کا پانی گرم اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی‘ آپؐ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکڑے بھی کر دیے لیکن آپؐ جب عالم اسباب میں واپس آئے تو آپؐ کا دندان مبارک بھی شہید ہوا‘ آپؐ طائف میں زخمی بھی ہوئے‘آپ کو بھوک‘ پیاس‘ گرمی‘ سردی اور خوف بھی محسوس ہوتا رہا‘ آپؐ کی چھت بھی ٹپکتی رہی‘ آپؐ بیمار بھی ہوئے‘ آپؐ پر زہرکا اثربھی ہوا۔

آپؐ جادو کے اثر سے نکلنے کا بندوبست بھی کرتے رہے اورآپؐ غربت اور بیماری سے پناہ بھی مانگتے رہے‘ یہ عالم اسباب کے وہ سبب ہیں جن سے کوئی ذی روح آزاد نہیں ہو سکتا‘ آپ اگر وجود رکھتے ہیں‘ آپ کی گردن پر اگر سر موجود ہے اور آپ اگر سانس لے رہے ہیں تو پھر آپ نبی ہوں‘ ولی ہوں یا پھر عام انسان ہوں آپ عالم اسباب کے تمام اسباب کے محتاج ہیں‘ آپ کو پھر مینار عیسیٰ ؑ سے اترنے کے لیے بھی سیڑھی کی ضرورت پڑے گی‘ آپ کو پھر حضرت حمزہؓ کی شہادت بھی تکلیف دے گی۔

آپ پھر والدہ کی قبر پر آنسو بھی بہائیں گے اور آپ کو پھر اچھی تلواروں‘ اچھے گھوڑوں‘ اچھے اونٹوں اور ٹرینڈ فوج کی ضرورت بھی پڑے گی‘ آپ کو پھر شفاف پانی‘ اچھی خوراک‘ طاقتور قانون‘ تیز رفتار انصاف‘ ماہر ڈاکٹرز‘ معیاری تعلیم‘ رواں سڑک اور شاندار لائف اسٹائل کی ضرورت بھی ہو گی اور آپ کو پھر سردی‘ گرمی اور وباء تینوں کا مناسب بندوبست بھی کرنا پڑے گا‘ ہم اگر عالم اسباب میں ہیں تو پھر ہمیں اسباب کا انتظام کرنا ہوگا‘ پھر ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی طرح سبب کو ’’اسٹیٹ آف آرٹ‘‘ بنانا ہو گا‘ ہمیں پھر ایسی سیڑھی کا بندوبست بھی رکھنا ہوگا جو حضرت عیسیٰ ؑ کو مینار سے اتار سکے۔

ایسی دوائیں بھی ایجاد کرنا ہوں گے جو امت مسلماں کو صحت مند رکھ سکیں‘ ہمیں ایسی ٹیکنالوجی بھی ایجاد کرنا ہوگی جو سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی پیدا کر سکے‘ ہمیں انسانوں کے سکون اور آرام کا بندوبست بھی کرنا ہوگا‘ ہمیں کرہ ارض پر دم توڑتی حیات کا خیال بھی رکھنا ہوگا‘ہمیں دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچانا ہوگا ‘ ہمیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے تحفظ بھی دینا ہوگا اور ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا مومن اسباب کی دنیا میں بھی دنیا کو اپنے برابر نہیں آنے دیتا‘ ہم محمدی ہیں اور قینچی ہو یا راکٹ ہو ہم کسی بھی فیلڈ میں دنیا کو آگے نہیں نکلنے دیں گے۔

ہم کیسے مسلمان ہیں‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسباب کی دنیا میں بھیجا لیکن ہم اسباب ہی سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے‘ اس امت کو کون بتائے گا انسان اس عالم اسباب میں سبب کے بغیر بے سبب ہو جاتا ہے اور بے سبب لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں مار کھا جاتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ حلب،کشمیر،انڈیا اور برما کے مسلمانوں کو دیکھ لیجیے‘یہ لوگ اگرعالم اسباب میں اسباب کے مالک ہوتے تو کیا دنیا ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتی؟خدا کے لیے! Currently آپ مسلمان ہوتوآپ عالم اسباب کو عالم اسباب مان کر اسباب کا بندوبست کرو‘ ورنہ دنیا آپ سے جینے کا حق تک چھین لے گی.

Want your practice to be the top-listed Law Practice in Lahore?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

Income Tax Return 2024

Category

Telephone

Website

Address


9-Fane Road
Lahore
54000

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00

Other Legal Services in Lahore (show all)
Lawyers in Lahore Lawyers in Lahore
Lahore, 54000

HAVE 'LEGAL' FUN :D

In Conversation With Jawad Zafar ASC In Conversation With Jawad Zafar ASC
Lahore

A segment of @askthelawyer.pk where we delve into legal matters with an expert of Criminal Law!

PLD Publishers PLD Publishers
35 Nabha Road
Lahore, 54400

Publishers of the leading law journals of Pakistan, that are PLD, SCMR, CLC, PCrLJ,PTD, PLC, CLD, YLR

Fair Look Cream in Pakistan #03000552883 Fair Look Cream in Pakistan #03000552883
Lahore, 4400

Fair Look Cream in Pakistan Fair Look Tablet in Pakistan Fair Look Capsules in Pakistan Fair Look Lo

Buttar & Malik Law Firm Lahore Buttar & Malik Law Firm Lahore
Lahore

Deal , Corporate ,Tax , Criminal , Civil , Family Cases Companies Registration And legal Counsaltant

Nawaz Law Associates Nawaz Law Associates
Old Kahna
Lahore, 53100

I, Muhammad nawaz professional lawyer providing Civil,criminal,labour,corporate,family,service matter

SAUK-Multan SAUK-Multan
12-A First Floor , Opposite G1 Market Near Choueifat School, Block G Phase 1, Johar Town
Lahore, 54400

SAUK works globally and provides services to students seeking admission to their dream universities.

Ghumcol Sharif Law Firm Ghumcol Sharif Law Firm
Office No. 303, 3rd Floor, Galaxy Chambers, 1-Turner Road
Lahore, 54000

Law Firm

Murtaza Consultants Murtaza Consultants
Sadiq Plaza 3rd Floor, Office No. 17 Mall Road
Lahore, 42000

Murtaza Consultants is a Firm that works in all areas of law and provides services in the spheres of taxation, consultancy, business incorporation and support, accountancy and audi...

Elevate Immigration Solutions Elevate Immigration Solutions
DHA Phase-4 DD CCA Lahore
Lahore, 54792

Elevate Immigration Solutions offers expert Guidance on Immigration, Study visa and all Visit visa 🌍

Al naseer law associates Al naseer law associates
162 Garden Block Sheikh Iftikhar Ali Road New Garden Town
Lahore

to provide knowledge about laws of Pakistan

Al Haseeb Associates Al Haseeb Associates
Office No. 31 Mulana Modudi Market Main Wahdat Road Near Mansoorah
Lahore

Sale,Purchase,Construction (Land Buildings,Housing)& Estamp Paper, Intiqal, Registary,Transfer all over Lahore& Kasur whether Agricultural, Residential or Commercial.