Butt Law Associates

Butt Law Associates

Professional practicing lawyer since 16 years at High court, district courts & Tribunals.

13/06/2024

بس اتنی سی کہانی ہے...
بجٹ 2024

20/05/2024

فسطائیت اور عوام دشمنی کا ایک اور باب شروع ہونے کو....
مجوزہ گراس میٹرنگ پالیسی کے تحت سولر سسٹم والے صارفین اپنی پیدا کردہ تمام بجلی واپڈا کو دیں گے اور پھر اپنے استعمال کے لئے واپڈا سے بجلی خریدیں گے
نیٹ میٹرنگ پالیسی کے تحت سولر سسٹم والے صارفین اپنی اضافی بجلی واپڈا کو دیتے تھے

17/05/2024

Perfectly said ...
𝐓𝐡𝐞 𝐓𝐚𝐱 𝐏𝐨𝐞𝐦

Tax his land, tax his wage,
Tax his bed in which he lays.
Tax his tractor, tax his mule,
Teach him taxes is the rule.
Tax his cow, tax his goat,
Tax his pants, tax his coat.
Tax his ties, tax his shirts,
Tax his work, tax his dirt.

Tax his chew, tax his smoke,
Teach him taxes are no joke.
Tax his car, tax his grass,
Tax the roads he must pass.

Tax his food, tax his drink,
Tax him if he tries to think.
Tax his sodas, tax his beers,
If he cries, tax his tears.

Tax his bills, tax his gas,
Tax his notes, tax his cash.
Tax him good and let him know
That after taxes, he has no dough.

If he hollers, tax him more,
Tax him until he’s good and sore.
Tax his coffin, tax his grave,
Tax the sod in which he lays.

Put these words upon his tomb,
“Taxes drove me to my doom!”
And when he’s gone, we won’t relax,
We’ll still be after the inheritance tax.

-Author unknown.

10/05/2024

شہروں میں اے سی والے ہالز میں بیٹھ کر سیمنار کرنا بہت آسان ہے ۔
مائک لے کر کبھی دن کو دریا کنارے بھینسوں بکریون کا ریوڈ چراتے مرد سے پوچھو جب وہ اچار کی ایک ڈلی یا پیاز سے روٹی کھاتا ہے اور خاندان میں کوئی شادی ہو تو وہی دھوتی کمر والی سائیڈ نیچے کر کے صاف سمجھ کر کپڑے وہاں پہنچ جاتا ہے اور اسی کی بیوی بازار سے 5 ہزار سے کم کا سوٹ لے کر دینے پر دو ماہ اپنے میکے گزار دیتی ہے ۔

یہ زچگی والی تکلیفیں بتا کر ہم پر طنز مت کرو۔ مرد کی طرح جب تک کمانے نکلتی ہو تو واپسی پر شام کو ہزار طعنے بچوں کو دیتی ہو۔ اپنی ان تکلیفوں کیش کروانا ہے تو۔
اتنی تکلیفیں لینے کے بعد بھی عورت کیوں نہیں سمجھتی کے بچے کو دوسری عورتوں کی عزت کرنا تمام عورتوں کی عزت کرنا اس نے اپنی گود میں سیکھانا ہے ۔ پھپھو اور خالہ میں فرق عورت سیکھاتی ہے باپ نہیں۔ اگر عورت کو یہ سمجھ آ گئی کے
عورت اتنی افضل مخلوق ہے کے وہ نبی اور رسول نہیں بن سکتی لیکن وہی نبی اور رسول اس عورت کے قدموں میں ماں ہونے کی صورت میں اپنی جنت ڈھونڈتے ہیں۔ ۔ ۔ جوان سال رسول اپنی ماں کی قبر سے لپٹ۔ کر روتے ہیں۔ ماں اتنی افضل ہے ۔
میں نے شیر جیسے مردوں کو جن سے لوگوں کی روح تک کانپتی ہے بات کرتے ان کو ماں کی قبر پر تڑپتے روتے زمین پر تپتی دھوپ میں لیٹے دیکھا ہے ۔ ۔ ۔
اور کیا کرے مرد اس کی تربیت تو عورت نے کرنی ہے ۔ کرے نا تربیت درست۔
عدالتوں میں جا کر پوچھو 90 فیصد قتل کی وارداتوں کے پیچھے کسی عورت کا دیا طعنہ ہوتا ہے اور عمر برباد مرد کی ہو جاتی ہے جیل میں ۔

یہ عورت کے مظلوم ہونے کی دستان ان کو سنایا کرو جو پنچائتون میں نہیں جاتے جن کا تعلق عدالتوں سے نہیں جنہوں نے این جی اوز سے پیسے لے کر کھانا ہوتے ہیں ۔
ہمیں سنا کر بس ہمیں زیر لب تبسم کا موقع دیتے ہو تم ۔ ۔ ۔

گھروں میں جھانک لو۔ ساس کی صورت ایک عورت ہی دوسری عورت کے لئے عذاب بنی ہوئی ہے ۔ کتنے کیس اور فساد سسر کی وجہ سے پنچائتون میں آتے ہیں ۔
پچھلے 7 سال میں 48 ایسے کیس بھگتا چکا ہوں جن میں ساس نے 34 لڑکیوں کو طلاق ڈلوائی ۔ 4 جوان لڑکوں نے ماں کے سامنے بےبس ہو کر خودکشی کر لی ۔ اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی۔
21 ایسے کیس میرے سامنے ہیں جہاں لڑکی کی ماں طلاق صرف اس بات پر لینے کے لئے بیٹی گھر لے گی کے ہم آتے ہیں تو جوائی گوشت نہیں پکواتا ہماری عزت نہیں کرتا چھٹی نہیں کرتا کام سے دھاڑی سے ۔
کون دے گا ان مردوں کا حساب ۔

علیانہ
Copied

10/05/2024

آج لوگوں کو بہت گرمی محسوس ہو رہی ہے ، کب تک اے سی ہم کو سہارا دیں گے، آج پاکستان میں 200کروڑ درختوں کی ضرورت ہے۔
درجہ حرارت تھوڑی دیر میں 45 ° C سے 49 ° C اور 55 ° C سے 60 ° C تک پہنچ جاتا ہے۔
انسانوں کے لیے 56 ڈگری سینٹی گریڈ میں زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ ہمیں پہلے ہی درخت لگانا ہوں گے۔

درخت آپ کے ماحول کو آلودگی سے پاک رکھیں گے اور آپ کو مالی طور پر خوشحال بننے میں بھی مدد کریں گے۔


Plant.Pk Pvt Ltd

25/04/2024
09/04/2024

عیدالفطر مبارک

27/03/2024

BY AGE 40 YOU SHOULD BE SMART ENOUGH TO REALIZE THIS:

1. Someone makes 10x more than you do in a 9-5 job because they have more "leverage" with their work.

2. Distraction is the greatest killer of success. It stunts and destroys your brain.

3. You shouldn't take advice from people who are not where you want to be in life.

4. No one is coming to save your problems. Your life's 100% your responsibility.

5. You don't need 100 self-help books, all you need is action and self discipline.

6. Unless you went to college to learn a specific skill (ie. doctor, engineer, lawyer), you can make more money in the next 90 days just learning sales.

7. No one cares about you. So stop being shy, go out and create your chances.

8. If you find someone smarter than you, work with them, don't compete.

9. Smoking has 0 benefit in your life. This habit will only slow your thinking and lower your focus.

10. Comfort is the worst addiction and cheap ticket to depression.

11. Don't tell people more than they need to know, respect your privacy.

12. Avoid alcohol at all cost. Nothing worse than losing your senses and acting a fool.

13. Keep your standards high and don't settle for something because it's available.

14. The family you create is more important than the family you come from.

15. Train yourself to take nothing personally to save yourself from 99.99% of mental problems.

14/03/2024
Photos from Butt Law Associates 's post 21/02/2024

مورخہ 17 فروری 2024 کو ڈسٹرکٹ بار مردان کے وکلاء کا ایک نمائندہ اجلاس مردان کچہری میں منعقد ہوا جس میں کثیر تعداد میں وکلاء نے شرکت کی۔ اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا اور شرکاء نے اپنا تعارف کروایا ۔ اجلاس میں تمام وکلاء خصوصاً ینگ اور خواتین وکلاء کو در پیش تمام مسائل پر سیر حاصل بحث ہوئی اور طویل مشاورت کے بعد متفقہ طور پر طے پایا کہ مردان بار میں ایک ایسے فورم کی تشکیل ضروری ہے جو کسی سیاسی پارٹی کا نمائندہ نہ ہو بلکہ اسکا واحد مقصد وکلاء کی فلاح و بہبود ہو اور ہر فورم پر مردان بار کے وکلاء کی مؤثر نمائندگی کر سکے ۔ جس میں ہر وکیل جسکا تعلق کچہری سے باہر کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو یا نہ ہو وہ فورم کا ممبر بن سکتا ہے۔ اجلاس میں متفقہ طور پر، "پروگریسیو لائرز وائس " کے نام سے فورم تشکیل دیا گیا۔ عامر شوکت ایڈوکیٹ کو کوآرڈینیٹر چنا گیا۔ اجلاس میں پانچ ارکان پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جو آئندہ الیکشن کے لیے تمام وکلاء سے رابطے کر کے انھیں فورم میں شمولیت کی دعوت دےگی۔ الیکشن میں ہر پوسٹ کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔ کمیٹی وقاص بٹ ، انعام اللہ ، عامر شوکت، محمد باسم، سید کاشف علی ، رشید خان، آصف خان ایڈوکیٹس پر مشتمل ہے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ آئندہ اجلاس میں فورم کے عہدے داروں کا جمہوری طریقے سے چناؤ ہو گا اور الیکشن کے خواہشمند ممبران سے درخواستیں طلب کی جائینگی۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ عہدیداروں اور اُمیدواروں میں خواتین کی نمائندگی ضروری ہے کیونکہ وہ معاشرے کا اہم جز ہیں جسے نظر انداز کرنا سراسر ناانصافی ہے۔

16/02/2024

حالات بدلتے دیر نہیں لگتی. ایک رات میں بہت کچھ بدل سکتا ہے. جیسا کہ مولانا اور عمران کے معاملات....

‏اتحاد ہوتا ہے یا نہیں وہ الگ بات مگر
تحریک انصاف والوں کے منہ سے ڈیزل کی جگہ مولانا صاحب بہت کیوٹ لگ رہا ہے.
اور.....
یہودی ایجنٹ کے حق میں 70 لاکھ علماء کا وارث گواہی دے رہا ہے کہ ہم غلط تھے.

سبحان تیری قدرت 🙏

15/01/2024

How we deal with idiots.
Just another day at work. 😎

13/01/2024

بارہویں فیل ۔۔۔۔۔

فلم کا مرکزی کردار "منوج کمار شرما" ہے جو بھارت کے ایک دور افتادہ گاؤں "چَنبل" سے تعلق رکھتا ہے
انوراگ پھاٹک کی کتاب سے ماخوذ یہ حقیقی کہانی
منوج کمار شرما کی بارہویں جماعت میں تھرڈ ڈویژن سے ایک آئی پی ایس آفیسر بننے کی دلچسپ اور سبق آموز مشقت کی عکاسی کرتی ہے ۔ایک دیہاتی اور غریب گھرانے کا لڑکا کس طرح بڑا افسر بننے کا خواب لے کر دہلی جاتا ہے اور اس دوران واش روم صفائی سے آٹا چکی چلانے تک سڑیٹ لائٹ کے نیچے بیٹھ کر پڑھنے سے لائبریری میں صفائی کرنے تک کئی افسردہ مراحل کی کہانی ہے

فلم انڈیا اور پاکستان کی دو مشہور زمانہ میتھس کا پرچار کرتی ہے ۔۔پہلا تو یہ کہ ایک تنہا آدمی طاقت حاصل کر کے پورے کرپٹ سسٹم کو بدل سکتا ہے ۔۔ جسکا رد کرتے ہوئے
مکسم گورکی اور علی شریعتی کہتے ہیں کہ اگر سسٹم برا ہے تو اسکے اندر ایک اچھے انسان کا لیڈر یا حکمران بننا بے معنی ہے ۔ کیوں کہ وہ سسٹم کے آگے بے بس ہے ۔
دوسرا میتھ بل گیٹس کے اس مشہور زمانہ قول پر مبنی ہے
’’اگر آپ غریب پیدا ہوتے ہیں تو یہ آپ کا قصور نہیں لیکن اگر آپ کی موت بھی کسمپُرسی کی حالت میں ہوتی ہے تو یہ یقیناً آپ کا قصور ہے‘‘۔ یعنی دنیا میں موجود تمام انسان محنت اور کوشش کے ذریعے اپنی غربت کو امارت میں تبدیل کر سکتےہیں۔ لیکن نوم چومسکی کےمُطابق بِل گیٹس کے اس قول کا اطلاق دورِ حاضر کے انسان پر نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ آج کے انسان کے پاس ترقی کرنے کے ذرائع و مواقع مفقود نہیں تو نہایت کمیاب ضرور ہو چُکے ہیں۔ اور جدید دنیا میں انسان امیر سے امیر تر ہو سکتا ہے یا غریب سے غریب تر، لیکن غربت سے امارت کا سفر اب ممکن نہیں رہا۔
دراصل یہ سسٹم بنایا ہی کچھ اس طرز پر گیا ہے کہ پیسہ اور پاور چند کارپوریشنز اور سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں ۔۔۔ ایلیٹ جابز صرف بیس فیصد کے لئے create ہوتی ہیں باقی اسی فیصد کے لئے درمیانی اور سروس یا لیبر جابز ہوتی ہیں ۔۔ پھر ترقی یافتہ ممالک کے لئے سستی لیبر بھی تیسری دنیا سے پوری کی جاتی ہے تو یہ بے روز گاری بھی ایک اسٹریٹجی کے طور پر پیدا کی جاتی ہے ۔

چومسکی کہتا ہے کہ کیپٹلسٹس نے ایجوکیشن کو میکانکی ہنرُ (mechanical-skills) تک محدود کر دیا ۔ تخلیقی صلاحیت اور خود مختاری کو اُستاد اور شاگرد دونوں کیلئے مکمل طور پر کالعدم کر دیا گیا ۔ اور اس کو عملی جامہ ’’امتحانات کو مدنظر رکھ کر پڑھایا جانا‘‘، ’’کوئی بچہ (نمبر حاصل کرنے میں) پیچھے نہ رہ جائے‘‘، ’’پہلی پوزیشن حاصل کرنے کیلئے سب کا بھاگنا‘‘ جیسے زہر آلود خیالات کو آدرش قرار دے کر پہنایا گیا ۔

چوم سکی کے مطابق سرمایہ کاری نظام افراد کے درمیان مقابلہ پیدا کرتا ہے اور اسکا لازمی نتیجہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کریں اور ایک دوسرے سے خوف زدہ رہیں۔ صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچیں اور کسی دوسرے کیلئے کوئی داخلی اور خارجی ہمدردی نہ رکھیں۔ اور یہی مقابلے کا امتحان بھی کر رہا ہے

اگر اسی تناظر میں ہم سول سروس اور مقابلے کے امتحانوں کی تاریخ پر نگاہ دوڑایں تو اٹھارھویں صدی میں رابرٹ کلائیو(Robert Clive )کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نےآلہ کار نوابوں کے ذریعے طاقت کا استعمال کرکے برصغیر میں لوٹ کھسوٹ کوجاری رکھا۔ پھروارن ہیسٹنگز(Warren Hastings) کے دور میں ان نوابوں کی حیثیت ختم کرکے ملک کے انتظام پرکمپنی نے براہ راست قبضہ کرلیا۔چارلس کارنوالس ( Charles Cornwallis) نے کمپنی کے پیشہ ورانہ ملازموں کو تمام اعٰلی عہدوں پر فائز کیا۔ ہر ضلع میں انگریز افسر تعینات کردیے گئےان میں سےہرایک کے پاس ایک وقت میں عموما دو یا اس سے زائد انتظامی عہدے ہوتے تھے۔ حکومت کرنا،دیہی علاقوں سے ریونیو اور ٹیکس جمع کرنا اور عدالتی امورنبٹانے کاعمل یہی انگریز افسر کیا کرتے تھے۔ تمام ہندوستانیوں کو ان تمام کاموں سے بےدخل کیا گیا۔۔ اس سول سروس یا بیوروکریسی کا مقصد ایک ایسی مشینی ، لا تعلق ایڈمنسٹریشن تھی جسکا مقصد مقامی تحریکوں اور مزاحمتوں کو کچل کر، مقامی رسوم و رواج ، اصول و ضوابط ، اعتقادات کو پس پشت ڈال کر لاء اینڈ آرڈر کا نفاذ تھا ۔۔ پہلے جو فیصلے عوامی نمایندے عوام کی مشاورت ، رضا مندی شامل کر کے کرتے تھے ، ان نمائندوں سے اختیار چھین کر عوام کو پاور لیس کر دیا گیا ۔۔۔
1806میں لندن کے ہیلے برے کالج( Haileybury college) میں کمپنی کے خدمت کےلیے نوجوانوں کی تربیت کی گئی۔جہاں ان کی ذہن سازی کی جاتی کہ ہندوستانیوں کو غلام بناکر ان کے وسائل کوکیسے لوٹا جائے۔ 1833 کے بعد کمپنی ڈائریکٹروں کی منظوری کے لیے مقابلے کا امتحان متعارف کروایا گیا۔ 1853 کے بعدصرف انگریز گورے امیدوار ہی ان امتحانات میں شریک ہوئے اورمنتخب کیے گئے۔ پھر 1954 میں لارڈ میکلے نے مقابلے کے امتحانوں کے لئے باقاعدہ میریٹ سسٹم متعارف کرایا ۔ جس کا مقصد مقامیوں سے انگریزوں کی قائم مقام ایک ایسی اقلیتی کلاس کو مقامیوں پر مسلط کرنا تھا جو دکھنے میں انڈین لیکن باقی ہر چیز میں انگریزوں جیسی ہو ۔۔ جو مقامیوں سے اجنبی اور لا تعلق ہو کر کولونیل مفاد میں کام کرے ۔ اور اس طرح انڈین لوگوں کو بھی امتحان میں شمولیت کی اجازت مل گئی۔ کمپنی کے منتخب افسروں نے خودکو عوام سے فاصلے پر رکھا۔ بند کمروں میں قانون سازی اور فیصلے ہوتے تھے۔جن کی قسمت کے فیصلے ہوتے وہ نا تو خود اس میں شریک ہوتے اور نا ہی ان کے نمائندے۔
تمام اعلٰی عہدوں پر تعینات نوجوان برطانوں افسر مقامی زبان اور حالات سے ناواقف ہوتے تھے۔ صرف کمپنی کے مفاد کےلیے کام کرتے تھے ۔ انکا رہن سہن عام ہندوستانیوں سے ممتاز کردیا گیا۔ ان افسروں کو ہر قسم کی سہولیات ،تحفظ اور عیاشی کا سامان فراہم کیا گیا۔ ۔ ان انگریز افسروں نے اپنے رہنے کےلیے ہندوستان میں پھولوں سے معطرجزیرے بنائے۔ ان رہائش گاہوں کو عوامی آبادی سے دور رکھا ۔ ان کی تربیت ایک غلام قوم پرحکمرانی کےلیے ہوئی تھی کہ جن کا واحد مقصد وسائل لوٹناتھا۔آ ج بھی پاکستان اور ہندوستان کی سول سروس کے افسروں اور حکمرانوں کی رہائش گاہیں انہی انگریزوں کی باقیات ہیں۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ کولونیل دور کی پیداوار اس سول سروس اور مقابلے کے امتحانوں کو گلوریفائی کرنے کی بجاۓ اس سسٹم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جائے ۔ تیرہ چودہ لاکھ امیدواروں کے لئے جابز صرف سات آٹھ سو ہوتی ہیں ۔صرف 0.02℅ ہی کامیاب ہوتے ہیں اور باقی جوانی کے آٹھ دس سال ضائع کر کے کسی کیریئر کے قابل نہیں رہتے ۔۔۔اور سسٹم کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ دوسری طرف پرائیویٹ کوچنگ اور حکومت کے لئے یہ نہ صرف ایک منافع بخش بزنس ہے بلکہ حکومت کے لئے بے روز گاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احتجاج ، دنگے فساد سے بچے رہنے کے لئے ایک کور بھی ہے ۔۔۔ مقابلہ اور self entrepreneur جیسی اقدار کو internalize کرنے کے بعد فرد ناکامی کا ذمہ دار سسٹم کی بجاۓ خود کو ہی ٹھہرانے لگتا ہے۔

Photos from Butt Law Associates 's post 04/01/2024

دور باطل میں حق پرستوں کی
بات رہتی ہے سر نہیں رہتے۔

02/01/2024

شاید پولیس اہلکار کو پتہ نہیں تھا کہہ خرم لطیف کھوسہ پہلے وکیل ہیں اسکے بعد پی ٹی آئی کے وکیل ہیں اور وہ ایسی ایف آئی آرز پر روز پکوڑے کھاتے ہیں ۔
پولیس نے 31 دسمبر کو دھشتگردی کی ایف آئی آر کی اور وکلاء نے اپنے دلائل سے 1 جنوری کو مکمل ایف آئی آر کالعدم قرار دلوا کر ختم کروا دی۔
اب انشاء اللہ ملوث پولیس افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

وکلاء پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں کھڑے بلکہ ہر اس بندے کے ساتھ کھڑے ہیں جو آئین اور قانون کی بالادستی چاہتا ہے ۔

2007 میں بھی وکلاء نے مشرف آمر کو شکست دی تھی انشاء اللہ اس بار بھی عوام ساتھ کھڑی رہی اور ثابت قدم رہی تو آئین شکن افراد کو شکست ووٹ کے ذریعے دیں گے۔

29/12/2023

🚫 Visa Refused? 🚫

Worry not, We are here to assist.
We are hearing from a lot of clients and followers that their visas were refused and they want to know whether they can overcome the negative Home Office decision.

There can be many reason why this happens, sometimes it's down to the failure of the applicant to provide evidence or explanation, and others it's because the caseworker has made an error.

Unfortunately, many applicants do not seek legal advice when they receive their decision and will then attempt to continue to re-apply using the same documents, or they start a lengthy and expensive appeals process.

At BLA, we want to make sure that our clients first of all fully understand the reasons for refusal and then work with them to ensure that any challenge is made in the correct way, or whether a strong re-application with robust evidence is preferential.

For a FREE assessment of your refusal decision and advice on your available options, please get in touch via DM or drop a comment below. ⬇️

27/12/2023

اکثر دوستوں کی آراء دیکھ کر سوچتے ہیں کہ ہم بھی اپنی ناقص رائے شامل گوش کریں." شائد کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات"
گزشتہ کچھ عرصے میں طلاق کے کیسز میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس سے ہمارے معاشرے کو ایک اندوہناک خطرہ پیدا ہو رہا ہے.
فاضل وکلاء دوستوں نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جیسا کہ نوجوان وکیل دوست صہیب اختر ایڈوکیٹ صاحب نے کئی پوسٹس میں اپنے مشاہدے کے مطابق دونوں طرف کی ساسوں کو معاملات بگاڑنے کا کارن قرار دیا جبکہ محترم دوست مسلم شاہ آریانی ایڈوکیٹ صاحب نے رشتوں میں لالچ، نیت میں کھوٹ اور دینداری اور کردار کو بالائےطاق رکھنے جیسے عوامل کا احاطہ کیا. یہ سب عوامل یقیناً آج کے معاشرے کے ٹوٹ پھوٹ کی بنیاد میں ہیں.
عوامل کیس ٹو کیس تغیر کر سکتے ہیں مگر میرے اکثریت وکلاء برادری کے دوست اس نقطے پر متفق ہیں کہ ھم نے طلاق لے کے عورتوں کو آخر کار پچھتاتے ھوئے ہی دیکھا ھے۔
جو عورتیں شوہر کے گھر اس لیے چھوڑ آئیں کہ ھماری عزت نہیں ھے تو انہیں اپنے بھائیوں کے گھروں بے توقیر اور زمانے کی ٹھوکریں کھاتے دیکھا ہے۔

جو سسرال میں رھنا اس لیے گوارا نہیں کرتیں کہ ان سے کام نہیں ھوتا، وہ نوکرانی نہیں شوہر اور گھر والوں کی، ذمہ داری نہیں اٹھا سکتیں وغیرہ، وہ جب تن تنہا اولاد کی ذمہ داری اٹھاتی ھیں تو ان کے چودہ طبق روشن ھوتے دیکھے ھیں۔
ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، آپ کو وہ پہلو دیکھنا چاہئے جو دیرپا اور زیادہ فائدہ مند ہو. کمبائنڈ فیملی کے اپنے مسائل ہیں اور انڈیپینڈنٹ کے اپنے مگر ہم تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ انفرادی زندگی کے چیلنجز زیادہ سخت ہیں.

جنہوں نے شوھر کو سبق سکھانے کے لیے عدالتوں سے طلاقیں لی ان کو رجوع کے لیے تڑپتے ھوئے دیکھا ھے۔
یا جنہوں نے شوہر کو بے عزت کرنے کے لئے یا بلیک میل کرنے واسطے کورٹ میں گھسیٹا، ان کے اچھے خاصے معقول اور تہزیب یافتہ شوہروں کو پھر ان بیویوں کو ساری عمر کی ذلالت دینے کے لئے کورٹس میں ہی طلاقیں دیتے دیکھا اور اپنی نئی دنیائیں آباد کرتے اور عورت کو برباد ہوتے دیکھا.

بلقیس ایدھی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ”دنیا کے جوتے کھانے سے بہتر ھے ایک آدمی کے جوتے کھالو“۔

یہ جو فیمنسٹ یا جعلی لبرل خواتین، عورتوں کو طلاق دلوا کے حقوق دلوانے نکلتی ھیں ان کی تقلید کرنے سے پہلے انکی ذاتی زندگی پر بھی ایک نگاہ ڈال لینی چاھیے کہ وہ گھر کیسے بسا رھی ھیں یا طلاق کے بعد کتنی آئیڈیل لائف گزار رھی ھیں۔
ان لوگوں کو بھی پرکھیں جو آپ کو ٹکراؤ اور تصادم پر اکسا رہے ہیں، ان کا کیا موٹیو ہے؟
آپ کے اس قسم کے معاملات میں کس کا فائدہ اور کس کا کونسا نقصان ہے؟
ہم نے کورٹس میں اکثر اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ دوستوں رشتے داروں وغیرہ میں سے کچھ شر پسندوں نے جوڑوں اور خاندانوں کو آپس میں لڑوایا ہوتا ہے، عدالت یا لڑائی میں ڈال دیتے ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد خود منظر سے ہٹ جاتے ہیں اور ساری عمر کا کرب عورت اور اس کی فیملی کو بھگتنا پڑتا ہے.

80 فیصد مرد تو زندگی واپس شروع کر لیتے ہیں اور بیشتر بہتر نگر آباد کر لیتے ہیں، مگر 80 فیصد عورتیں اور بچے رل جاتے ہیں.
گھر ٹوٹنے نہیں چاھیئں. اولادیں برباد ھو جاتی ہیں ..
انا کو قربان کرنا پڑے.کر دیجیے.. مگر اولاد کو تحفظ دیجیے...
طلاق مسائل کا حل نہیں ہے...
میاں بیوی کے درمیان جو مسائل ھیں انہیں ٹھنڈے سینے سے حل کریں..
مسائل حل کرنا سیکھیں..
زگ زیگ کرنا سیکھیں...
نظر انداز کرنا سیکھیں...
لوگوں کو سپیس اور وقت دینا سیکھیں..
جھوٹی انا اور جھوٹی عزت میں گھر مت اجاڑیں۔
یہ ٹھیک ھے کہ مار مت کھائیں.. ظلم برداشت مت کریں.. آواز اٹھائیں مگر طلاق آخری آپشن ھے۔ کم از کم چھ ماہ علیحدہ رھنے کے بعد فیصلہ کریں۔
میں طلاق کے خلاف نہیں ھوں کہ اس کا حق اللہ تعالیٰ نے دیا ھے مگر یہ آخری آپشن ھونا چاھیے اس کو پہلا آپشن مت سمجھیے۔ حالات ناگزیر ھیں تب بھی طلاق کا فیصلہ کرنے سے پہلے علیحدہ ھو جائیں چھ ماہ الگ رہیں، سال الگ رہیں، پھر ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کریں۔ یقین مانیں، وقت بہت بڑے بڑے آتش فشاؤں کو بھی ٹھنڈا کر دیتا ہے.
اور کچھ نہ بنے تو خاموشی اختیار کریں، ہنر سیکھیں، معاشی طور پر خودمختار بنیں. لغو بحث سے بچیں، لوگوں کے سامنے اپنے مسائل بیان نہ کریں، خاموش رہیں، ٹکراؤ سے بچیں.
یقین مانیں 80 فیصد مسائل خود بخود سال آدھ میں سلجھ جائیں گے.
آپکا خیر خواہ،
وقاص بٹ ایڈوکیٹ
چیمبر
24، 2nd floor
Mardan trade centre
Opp DC office
Mardan

Muslim Shah Aryani
Sheikh Maltoon Town

YarMadadgar
Abdul Sattar Edhi
Saeed Ghani

25/12/2023

زندہ ہیں وکلاء زندہ ہیں

22/12/2023

آئی سی سی نے عثمان خواجہ پر غزہ میں بچوں کی حمایت میں سیاہ پٹی بازو پر باندھنے کا الزام عائد کیا لیکن جب 2019 میں بھارتی ٹیم آرمی کی تھکاوٹ کی ٹوپی پہن کر میچ میں گئی تو آئی سی سی کے قوانین لاگو نہیں ہوئے۔

آپ کو وکٹوں پر جھنڈے لگا کر (ایل جی بی ٹی کیو) کو سپورٹ کرنے کی اجازت ہے لیکن انسانی جانوں کو سہارا دینے کی اجازت نہیں؟

یہ ایمانداری سے مضحکہ خیز ہے۔ آئی سی سی کو اس کے لیے سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔ شرمناک فیصلہ۔


Pakistan Cricket news 🏏

19/12/2023

Humbled by the love and respect showered by my Town fellows 🙏

آج کا تعارف
وقاص بٹ
سیکٹر C
انتہائی قابل وکیل، دانشور اور سماجی کارکن.

17/12/2023

میرے پاس چند دن قبل ایک ریٹائرڈ پولیس افسر آئے‘ ان کا چھوٹا سا مسئلہ تھا‘ میں ان کی جتنی مدد کر سکتا تھا میں نے کر دی‘ اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی تو میں نے ان سے زندگی کا کوئی حیران کن واقعہ سنانے کی درخواست کی۔
میری فرمائش پر انھوں نے ایک ایسا واقعہ سنایا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میں نے سوچا‘ مجھے یہ آپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہیے‘ پولیس افسر کا کہنا تھا میں 1996میں لاہور میں ایس ایچ او تھا‘ میرے والد علیل تھے‘ میں نے انھیں سروسز اسپتال میں داخل کرا دیا‘ سردیوں کی ایک رات میں ڈیوٹی پر تھا اور والد اسپتال میں اکیلے تھے‘ اچانک ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ الٹیاں کرنے لگے۔

میرے خاندان کا کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا‘ وہ دو مریضوں کا کمرہ تھا‘ ان کے ساتھ دوسرے بیڈ پر ایک مریض داخل تھا‘ اس مریض کا اٹینڈنٹ موجود تھا‘ وہ اٹھا‘ اس نے ڈسٹ بین اور تولیہ لیا اور میرے والد کی مدد کرنے لگا‘ وہ ساری رات ابا جی کی الٹیاں صاف کرتا رہا‘ اس نے انھیں قہوہ بھی بنا کر پلایا اور ان کا سر اور بازو بھی دبائے‘ صبح ڈاکٹر آیا تو اس نے اسے میرے والد کی کیفیت بتائی اور اپنے مریض کی مدد میں لگ گیا‘ میں نو بجے صبح وردی پہن کر تیار ہو کر والد سے ملنے اسپتال آ گیا۔

اباجی کی طبیعت اس وقت تک بحال ہو چکی تھی‘ مجھے انھوں نے اٹینڈنٹ کی طرف اشارہ کر کے بتایا‘ رات میری اس مولوی نے بڑی خدمت کی‘ میں نے اٹینڈنٹ کی طرف دیکھا‘ وہ ایک درمیانی عمر کا باریش دھان پان سا ملازم تھا‘ میں نے مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا لیکن پھر سوچا‘ اس نے ساری رات میرے والد کی خدمت کی ہے‘ مجھے اسے ٹپ دینی چاہیے‘ میں نے جیب سے پانچ سو روپے نکالے اور اس کے پاس چلا گیا‘ وہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔

میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اسے پانچ سو روپے پکڑانے لگا‘ وہ کرسی پر کسمسایا لیکن میں نے رعونت بھری آواز میں کہا ’’لے مولوی‘ رکھ یہ رقم‘ تیرے کام آئے گی‘‘ وہ نرم آواز میں بولا ’’نہیں بھائی نہیں‘ مجھے کسی معاوضے کی ضرورت نہیں‘ میں نے آپ کے والد کی خدمت اللہ کی رضا کے لیے کی تھی‘‘
میں نے نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیے‘ اس نے واپس نکالے اور میرے ہاتھ میں پکڑانا شروع کر دیے جب کہ میں اسے کندھے سے دباتا جا رہا تھا اور اصرار کر رہا تھا‘ میں اسے بار بار ’’او مولوی چھڈ‘ ضد نہ کر‘ رکھ لے‘ تیرے کام آئیں گے‘‘ بھی کہہ رہا تھا مگر وہ بار بار کہہ رہا تھا‘ میرے پاس اللہ کا دیا بہت ہے‘ مجھے پیسے نہیں چاہییں‘ میں نے رات دیکھا‘ آپ کے والد اکیلے ہیں اور تکلیف میں ہیں‘ میں فارغ تھا لہٰذا میں اللہ کی رضا کے لیے ان کی خدمت کرتا رہا‘ آپ لوگ بس میرے لیے دعا کردیں وغیرہ وغیرہ لیکن میں باز نہ آیا‘ میں نے فیصلہ کر لیا میں ہر صورت اسے پیسے دے کر رہوں گا۔

پولیس افسر رکے‘ اپنی گیلی آنکھیں اور بھاری گلہ صاف کیا اور پھر بولے‘ انسان جب طاقت میں ہوتا ہے تو یہ معمولی معمولی باتوں پر ضد باندھ لیتا ہے‘ یہ ہر صورت اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے‘ میں نے بھی پیسے دینے کی ضد بنا لی تھی مگر مولوی مجھ سے زیادہ ضدی تھا‘ وہ نہیں مان رہا تھا‘ میں اس کی جیب میں پیسے ڈالتا تھا اور وہ نکال کر کبھی میری جیب میں ڈال دیتا تھا اور کبھی ہاتھ میں پکڑا دیتا تھا۔

میں نے اس دھینگا مشتی میں اس سے پوچھا ’’مولوی یار تم کرتے کیا ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’بس ایسے ہی لوگوں کی خدمت کرتا ہوں‘‘ وہ مجھے اپنا کام نہیں بتانا چاہتا تھا‘ میں نے اب اس کا ذریعہ روزگار جاننے کی ضد بھی بنا لی‘ میں اس سے بار بار اس کا کام پوچھنے لگا‘ اس نے تھوڑی دیر ٹالنے کے بعد بتایا ’’میں کچہری میں کام کرتا ہوں‘‘ مجھے محسوس ہوا یہ کسی عدالت کا اردلی یا کسی وکیل کا چپڑاسی ہو گا‘ میں نے ایک بار پھر پانچ سو روپے اس کی مٹھی میں دے کر اوپر سے اس کی مٹھی دبوچ لی اور پھررعونت سے پوچھا ’’مولوی تم کچہری میں کیا کرتے ہو؟‘‘
اس نے تھوڑی دیر میری طرف دیکھا اور پھر میرے والد کی طرف دیکھا‘ لمبی سانس لی اور پھر آہستہ آواز میں بولا ’’مجھے اللہ نے انصاف کی ذمے داری دی ہے‘ میں لاہور ہائی کورٹ میں جج ہوں‘‘ مجھے اس کی بات کا یقین نہ آیا‘ میں نے پوچھا ’’کیا کہا؟ تم جج ہو!‘‘ اس نے آہستہ آواز میں کہا ’’جی ہاں‘ میرا نام جسٹس منیر احمد مغل ہے اور میں لاہور ہائی کورٹ کا جج ہوں‘‘ یہ سن کر میرے ہاتھ سے پانچ سو روپے گر گئے اور میرا وہ ہاتھ جو میں نے پندرہ منٹ سے اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا وہ اس کے کندھے پر ہی منجمد ہو گیا۔

میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور آواز حلق میں فریز ہو گئی‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اب کیا کروں؟ جسٹس صاحب نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ اپنے کندھے سے اتارا‘ کھڑے ہوئے‘ جھک کر فرش سے پانچ سو روپے اٹھائے‘ میری جیب میں ڈالے اور پھر بڑے پیار سے اپنے مریض کی طرف اشارہ کر کے بتایا ’’یہ میرے والد ہیں‘ میں ساری رات ان کی خدمت کرتا ہوں‘ان کا پاخانہ تک صاف کرتا ہوں۔
میں نے رات دیکھا آپ کے والد اکیلے ہیں اور ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے لہٰذا میں انھیں اپنا والد سمجھ کر ان کی خدمت کرتا رہا‘ اس میں شکریے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ یہ سن کر میں شرم سے زمین میں گڑھ گیا کیوں کہ میں صرف ایس ایچ او تھا اور میرے پاس والد کے لیے وقت نہیں تھا‘ میں نے انھیں اکیلا اسپتال میں چھوڑ دیا تھا جب کہ ہائی کورٹ کا جج پوری رات اپنے والد کے ساتھ ساتھ میرے والد کی خدمت بھی کرتا رہااور ان کی الٹیاں بھی صاف کرتا تھا‘ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا‘ میں ان کے پائوں میں جھک گیا مگر اس عظیم شخص نے مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔

وہ پولیس افسر اس کے بعد رونے لگے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کی اس کے بعد جسٹس صاحب سے دوبارہ کبھی ملاقات ہوئی؟‘‘ وہ روندھی ہوئی آواز میں بولے ’’بے شمار‘ میں نے زندگی میں ان سے اچھا‘ دین دار‘ ایمان دار اور نڈر انسان نہیں دیکھا‘ ان کا پورا نام جسٹس ڈاکٹر منیر احمد خان مغل تھا‘ انھوں نے دو پی ایچ ڈی کی تھیں‘ ایک پاکستان سے اور دوسری جامعۃ الاظہر مصر سے‘ دوسری پی ایچ ڈی کے لیے انھوں نے باقاعدہ عربی زبان سیکھی تھی۔
انھوں نے اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین پر 24 کتابیں لکھی تھیں‘ وہ ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ تیزی سے مقدمات نبٹانے میں مشہور تھے‘ چیف جسٹس جس مقدمے کا فوری فیصلہ چاہتے تھے وہ مقدمہ جسٹس منیر مغل کی عدالت میں لگ جاتا تھا‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ پولیس افسر کا کہنا تھا‘ جسٹس صاحب غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ ایل ایل بی کے بعد مجسٹریٹ بھرتی ہو گئے‘ محنت کی عادت تھی۔
مجسٹریٹی کے دور میں ان کے پاس کام کم ہوتا تھا لہٰذا انھوں نے عدالتی صفحات کی بیک سائیڈ پر کلمہ لکھنا شروع کر دیا‘ یہ سارا دن کلمہ طیبہ لکھتے رہتے تھے شاید اس پریکٹس کا صلہ تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی انرجی اور ٹائم میں برکت ڈال دی‘ انھوں نے دوران ملازمت ایک پی ایچ ڈی کی‘ پھر عربی زبان سیکھی‘ جامعۃ الاظہر میں داخلہ لیا اور عدالتی ٹائم کے بعد عربی زبان میں تھیسس لکھ کر مصر سے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی‘ وہ ہر نیا قانون پڑھتے اور اس پر فوری طور پر کتاب لکھ دیتے تھے‘ وہ کتاب بھی خود ٹائپ کرتے تھے اور اس سارے کام کے دوران عدالتی کارروائی بھی متاثر نہیں ہوتی تھی‘ وہ دھڑا دھڑ مقدمات نبٹا دیتے تھے۔
انھوں نے پوری زندگی اپنے والد کی خدمت خود کی‘ ان کا بول وبراز تک خود صاف کرتے تھے‘ والد زیادہ بیمار ہوئے تو ان کے بیڈ پر پائوں کے قریب گھنٹی کا بٹن لگا دیا اور گھنٹی اپنے کمرے میں رکھ لی‘ والد ضرورت پڑنے پر پائوں سے بٹن دبا دیتے تھے اور وہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچ جاتے تھے‘ اپنی بیگم کو بھی والد کا کوئی کام نہیں کرنے دیتے تھے۔
میں نے ان سے جسٹس صاحب کی زندگی کے مزید واقعات سنانے کی درخواست کی‘ پولیس افسر ہنس کر بولے‘ ایک بار ان کی عدالت میں جائیداد کے تنازع کا کیس آیا‘ ایک طرف سوٹیڈ بوٹیڈ امیر لوگ کھڑے تھے‘ ان کے ساتھ مہنگے وکیل تھے جب کہ دوسری طرف ایک مفلوک الحال بوڑھا کھڑا تھا‘ اس کا وکیل بھی مسکین اور سستا تھا‘ جسٹس صاحب چند سکینڈز میں معاملہ سمجھ گئے لہٰذا انھوں نے بوڑھے سے پوچھا ’’باباجی آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
بزرگ نے جواب دیا ’’میں پرائمری ٹیچر ہوں‘‘ یہ سن کر جسٹس صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہا‘ ماشاء اللہ ہماری عدالت میں آج ایک استاد آئے ہیں لہٰذا یہ استاد کرسی پر بیٹھیں گے اور عدالت سارا دن ان کے احترام میں کھڑی ہو کر کام کرے گی اور اس کے بعد یہی ہوا‘ وہ بوڑھا استاد کرسی پر بیٹھا رہا جب کہ جسٹس صاحب اپنے عملے اور وکلاء کے ساتھ کھڑے ہو کر کام کرتے رہے‘ جسٹس صاحب نے سارے مقدمے نبٹانے کے بعد آخر میں بوڑھے استاد کا کیس سنا اور پانچ منٹ میں وہ بھی نبٹا دیا‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا جسٹس صاحب حیات ہیں؟‘‘
ان کا جواب تھا ’’جی ہاں لیکن بیمار ہیں اور مفلوج ہیں‘‘ پولیس افسر نے اس کے بعد پرس سے پانچ سو روپے کے پانچ بوسیدہ نوٹ نکالے‘ میرے سامنے رکھے اور کہا ’’یہ وہ پانچ سو روپے ہیں‘ میں آج بھی انھیں تعویذ کی طرح جیب میں رکھتا ہوں‘‘ میں نے نوٹ اٹھائے‘ انھیں بوسا دیا اور اسے واپس پکڑا دیے‘ اس نے بھی وہ چومے اور دوبارہ پرس میں رکھ لیے‘ وہ واقعی تعویذ تھے‘ انھیں ایک اصلی انسان نے چھوا تھا۔

Photos from Butt Law Associates 's post 14/12/2023

~Another Milestone achieved.~
Alhumdolillah 🙏
Honoured to be awarded by KP Bar Council ❤️

24/11/2023

*آج کی خاص بات۔ سب کےلے اہم*

*مفت کھانا کھائیں*

جگہ جگہ یہ لکھا دیکھ خیال آتا ہے ، ایسا بینر کہیں نہیں نظر آتا جس پر لکھا ہو ۔

مفت ویلڈنگ سیکھیں
مفت پلمبرنگ سیکھیں
مفت گاڑی مستری بنیں
مفت انجینئرنگ سیکھیں
مفت کمپیوٹر سیکھیں
مفت چائینیز ، کورین ، جاپانی ، عریبک ، انگلش لینگویج کورس کریں

مفت درزی بنیں وغیرہ وغیرہ ۔
خیرات کرنے والے قوم کو نکما اور بھکاری بنا رہے ہیں۔

دو دیگوں پر جتنا خرچہ آتا ہے اتنے پیسوں میں ویلڈنگ کی مشین اور ضروری آلات آجاتے ہیں۔

آپ تنخواہ پر ایک استاد رکھ لیں اور صرف ایک ہفتے کی ویلڈنگ لرننگ کلاس دیں اور آخر میں دس ہزار کی ایک ویلڈنگ مشین ہر سیکھنے والے کے حوالے کریں آئندہ کے لئے وہ خود کفیل ہو جائے گا۔

اور تاحیات عزت کی روزی روٹی کمائے گا ۔

قوم کو بھکاری نہیں ہنر مند بنائیں،

*یہ کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے*

*آپ سے ایک ضرورت مند نے سوال کیا تو آپ نے اسے کلہاڑا لے کر دیا اور فرمایا جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور بیچو*۔

*صلی اللہ علیہ والہ وسلم*

19 20 اونیس بیس
سیکھیں اور سکھائی

عزیز الرحمن دانش آباد

۔

23/11/2023

بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!
"ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیا
ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا
اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،
شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو
اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا.
اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔
دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں.

ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں
اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی.
ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں
اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں.
ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے.

اس کے برعکس
اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو
وہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا.
کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں.
مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں.
اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں.

صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے.
یاد رکھئے!
بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے.
خیرات دیں،
منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،
اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی.
باقی مرضی آپ کی"

Want your practice to be the top-listed Law Practice in Mardan?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

How we deal with idiots.Just another day at work. 😎
زندہ ہیں وکلاء زندہ ہیں

Telephone

Website

Address


Mardan Trade Centre
Mardan

Other Lawyers & Law Firms in Mardan (show all)
Legal opinion Legal opinion
Mardan

on this page law will be discuss and any material regarding politics and other issues are strickly f

Bacon Tax & Law associates Bacon Tax & Law associates
District Courts Mardan
Mardan, 23200

BT&LA with their professional skills give solution to its clients problems.

Bamokhel Law Firm Bamokhel Law Firm
Mardan

khalid khan advocate

Toru Law Chamber Toru Law Chamber
Mardan, 23200

لا اله الا الله محمد رسول الله ہرقسم کی قانونی معاونت کیلئے Better Call KZ Sarmad khan Advocate

Rafiq khel law chamber Rafiq khel law chamber
District And Session Court
Mardan

Abbas Khan Advocate Abbas Khan Advocate
District Courts Mardan
Mardan

We provide legal services in cases relating to criminal law, civil law, inheritance and family laws.

Muhammad Umair Khan Yousafzai Advocate Muhammad Umair Khan Yousafzai Advocate
Waris Law Chamber, Old Jail Area, District Bar
Mardan, 23200

Muhammad Umair Khan Yousafzai Advocate, Chairman/ Managing Partner: Waris Law Chamber Mardan.

TORU Law Chamber TORU Law Chamber
District Bar Association Mardan
Mardan

Legal profession is one of the growing and lucrative professions all over the world. It is one of th

Muhammad Umair Khan Advocate Muhammad Umair Khan Advocate
Waris Law Chamber, Old Jail Area, District Bar
Mardan, 23200

Muhammad Umair Khan Yousafzain AHC Managing Partner Waris Law Chamber Mardan 0937920011 03139701421

Distt courts mardan kpk Distt courts mardan kpk
Mohallah Yousaf Abad
Mardan, 23200

Muazzam Law Firm - Mardan Office Muazzam Law Firm - Mardan Office
Mardan, 23200

Muazzam Law Firm deals in Law Suits and provides consultancy in the Development Sector.