Qaiser Abbas Sabir

Qaiser Abbas Sabir

You may also like

Gulfam Ali
Gulfam Ali

“میں محبت ہوں مجھے آتا ہے نفرت کا علاج”

24/09/2023
29/08/2023

فارم ہاؤس کی بڑی حویلی میں سفید پگڑی والے بزرگوں کی گردنوں میں تکبر اور فتح کا سریا نصب تھا مگر انگلیوں کی پوروں میں تسبیح کے دانے خودکشی کئے جاتے تھے ۔ خاندان بھر کی نگاہیں فضہ کی ہاں اور ناں پر مرکوز تھیں ۔ زوار سے مخلص رشتہ دار آنے والے وقت کے طمانچے سے خوف زدہ تھے۔ کچھ تماش بین خواتین اپنے ہی سربراہ مخدوم زوار کی عزت کے پرزے چننے کی منتظر تھیں ۔ فضہ کی دادی گلاب زہرا ، مسز عارفہ میمن کی تربیت کا سرٹیفیکیٹ تیار کئے بیٹھی تھی ، بس چند لمحے بعد اس پر لعنت یا شاباش کا سٹیکر چسپاں کیا جانا تھا۔ اس سارے ہجوم میں فضہ مطمن تھی ، بلا کا اطمینان اس کے چہرے کی رنگت کو گلابی کئے ہوئے تھا ، ایسا اطمینان ایک بھرپور اور مقدس موت کا ذائقہ چکھنے کے بعد روپ کی صورت عطا ہوتا ہے ۔
حویلی میں لگے سیکڑوں سال پرانے برگد پر سرشام الو نے بولنا شروع کیا تو دادی جان کا ڈوپٹہ سرک کر کندھے پر آگیا۔ اس حویلی کے رموز سے واقف ملازمین الو کو برگد کی شاخ سے اڑانے دوڑے ۔۔۔استغفار ، استغفار کے دھیمے سر تسلسل سے جاری ہوئے۔
قمقموں کی روشنی میں شکست کا رنگ نمایاں تھا۔۔

10/08/2023

قاضی عیسی اور متعصب مورخ

صدائے عدل /قیصرعباس صابر

جب مورخ تعصب کی روشنائی سے لکھی جانے والی تاریخ کو معتبر بنانے کی کوشش کرتا ہے تو وقت فراموش کر دئیے گئے کرداروں میں پھر سے ایسی روح پھونک دیتا ہے جو اس کے ماضی کی شہادت بھی ہوتی ہے اور ناقابل تردید سچائی بھی ۔ تحریک پاکستان کا ایک ایسا ہی کردار قاضی عیسی تھے جن کی خدمات کو قائد اعظم نے تو اپنا بھائی کہہ کر تسلیم کر لیا مگر اس وقت کی اشرافیہ انہیں نظرانداز کرتی رہی ۔ قاضی عیسی بلوچستان کے پہلے شخص تھے جو قانون کی تعلیم کے لیے لندن گئے۔1939ء میں وطن واپس آئے اور وکالت کا ارادہ کیا۔ اس وقت نواب آف ریاست پالنپور کی درخواست پر ممبئی چلے گئے۔ جہاں ان کی ملاقات محمد علی جناح سے ہوئی۔ قائد اعظم نے ان سے پہلا سوال یہ کیا۔ "کیا بلوچستان میں مسلم لیگ قائم ہے” ؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ” میں ابھی وکالت ختم کر کے آیا ہوں مجھے خبر نہیں۔"�پھر قائد نے انھیں مسلم لیگ کے مقاصد سے آگاہ کیا وہ قائد کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی وقت مسلم لیگ کے قیام کے لیے مصمم ارادہ کر لیا۔�بلوچستان میں واپس آکر انھوں نے مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی اور اپنے ساتھیوں سے مل کر اس پارٹی کو اس قدر استحکام بخشا کہ چند مہینوں کے اندر تحصیل اور ضلع کی سطح پر مسلم لیگ منظم ہو گئی۔�وہ مسلم لیگ کے سب سے کم عمر رکن مجلس عاملہ تھے۔1942ء میں انھوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ کا ایک عظیم جلسہ منعقد کرایا جس میں ان کی دعوت پر نواب لیاقت علی خان بھی تشریف لائے۔�1943ء میں قائد اعظم دو ماہ کے لیے بلوچستان آئے تو ان کے گھر پر قیام کیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری نشرواشاعت اور برازیل میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے ۔
معلوم نہیں کون سا تعصب تھا جو ایک طویل عرصہ تک قاضی عیسی کے نام کو فراموش کرنے پر تلا رہا اور پھر آخر کار فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت اور فیصلے کے بعد ظاہر ہوا ۔ متعصب مورخین کو اس وقت منہ کی کھانا پڑی جب مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی کے دلیرانہ فیصلے پر تنقید کرنے والوں نے محسن تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے سچے ساتھی کا تعارف عام کرتے ہوئے ان پر بھی تنقید شروع کر دی ۔
عام آدمی نے جب مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی کے والد محترم قاضی عیسی مرحوم کی خدمات کا مطالعہ کیا تو سازشی عناصر کی طرف سے چلائی جانے والی چال انہی کے خلاف چل گئی اور قاضی عیسی تحریک پاکستان کے سرگرم اور بہادر کارکن کے طور پر سامنے آئے ۔ قاضی عیسی نے قائد اعظم کی خواہش پر بلوچستان میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور مسٹر جناح سے سیاسی رموز سیکھے تھے ۔ تحریک پاکستان کے ایک مخلص رہنما کے فرزند مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے والد صاحب کی اصول پرستی اور قانون پسندی کی لاج رکھی اور بلا خوف تنقید وہ فیصلے کر دئیے جس کی توقع بھی ان سے کی جا رہی تھی ۔

قاضی فائز عیسی نے 110 صفحات پر مشتمل ایک ایسی رپورٹ لکھی جس نے تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا ۔ وہ ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن کے ممبر کی حیثیت سے تحقیقات کر رہے تھے ۔ وہ کمیشن 2014 میں سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کیا گیا تھا مگر اس تحقیقاتی رپورٹ نے سپریم کورٹ کی توقعات اور ترجیحات کو بالائے طاق رکھا اور صرف میرٹ کو ترجیح دی ۔ ایک رکنی عدالتی تحقیقاتی کمیشن جس کی سربراہی قاضی فائز عیسی کر رہے تھے وہ کوئٹہ ہائی کورٹ میں ہونے والے بم دھماکہ کے محرکات جاننے کے لئے قائم کیا گیا تھا ۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں تین سو سے زائد افراد شہید ہوئے تھے ۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دہشتگردی کے واقعے کے پیچھے محرکات و اسباب کیا تھے ۔ حکومت، افواج اور پولیس کی غفلت اور ریاست کا شہریوں کے تحفظ بارے دوہرا معیار بھی بے نقاب کیا گیا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ واضح طور پر ایف سی (فرنٹیئر کانسٹیبلری) اور وزارت داخلہ کے مشکوک کردار پر بھی سوال اٹھا رہی تھی ۔ انٹیلی جنس معلومات ہونے کے باوجود ادارے کس طرح دہشتگردی کا منصوبہ روکنے میں ناکام رہے تھے اس بات کا بھی رپورٹ میں ذکر تھا ۔ رپورٹ میں ایف سی، پولیس اور دیگر حساس اداروں کے مابین ناقص کمانڈ اینڈ کنٹرول اور موثر کمیونیکیشن کی کمی جیسی بنیادی ادارہ جاتی خامیوں کو سامنے لایا گیا تھا ۔
جسٹس فائز عیسی کا ایک اور اہم فیصلہ 2017 کے فیض آباد دھرنا کیس کے ازخود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے میں انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر قومی سلامتی کے اداروں کے دھرنے کے پیچھے ہونے کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ انھوں نے فیصلے میں دوٹوک موقف میں مختلف سوالات اٹھائے تھے مثلاً یہ کہ دھرنے کے شرکا کو ریاستی اداروں نے معاونت کیوں فراہم کی تھی اور انہیں منفی سرگرمیوں کے لئے مالی امداد بھی دی گئی تھی ۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جب حکومت نے پولیس کو دھرنا اٹھانے کا حکم دیا تھا تو پھر پولیس نے کس کے کہنے پر حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ شرکا کو کھانا کس نے فراہم کیا اکسانے کا کردار کس نے ادا کیا اور سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا پر کس کے ایما پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔ ان سب سوالات کے مدلل جوابات فیصلے میں ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ انصاف کے اصولوں پر مبنی جرات مندانہ اور عوامی مفاد میں کیے گئے عدالتی فیصلوں کی ہمارے ہاں کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ ایسا دو ٹوک فیصلہ قاضی عیسی جیسے مدبر قانون دان کا فرزند ہی کر سکتا تھا ۔ مگر پھر ایسے لوگوں کے لئے مشکلات کھڑی کرنا بھی تیسری دنیا کے ممالک کی روایات میں شامل ہے ۔ پھر جسٹس قاضی فائز عیسی کو گھٹیا ترین الزامات کی لپیٹ میں لے کر ان کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان کی اہلیہ مسز سرینہ قاضی اور ان کے والد قاضی عیسی کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ ایک طویل عرصے تک ملک کی بڑی عدالت کے سینیر ترین جج کو اسی عدالت میں تاریخ پر تاریخ ملتی رہی ۔ تحریک پاکستان کے رہنما کو بھی برا بھلا کہا گیا ۔ ریفرنس فائل کئے گئے مگر وقت نے ثابت کیا کہ بڑے باپ کا بیٹا بھی حوصلہ مند ہوتا ہے ۔ لوگوں نے دیکھا جب عمران خان نے مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر کئے گئے ریفرنس کو اپنی غلطی تسلیم کیا اور معافی مانگی ۔

18/07/2023

پاکستان کے درے

قیصرعباس صابر

پہاڑوں میں موجود بلند درے دراصل مختلف وادیوں اور آبادیوں کو آپس میں ملاتے وہ راستے ہیں جو زمانہ قدیم سے گزر گاہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں ۔ بلند ترین یہ راستے سال بھر میں صرف دو سے تین ماہ کے لئے کھلتے ہیں اور باقی عرصہ ان پر پڑی برف انسان کو بے بس کئے رکھتی ہے ۔ بڑے شہروں کو آپس میں ملانے والے کئی درے اب زیر پہاڑ تعمیر ٹنل کی وجہ سے برف کی رکاوٹ سے آزاد ہو چکے ہیں ۔ پاک چین دوستی کے نام سے شاہراہ قراقرم پر تعمیر کئے گئے ٹنلز اب سال بھر زمینی رابطوں کو بحال رکھتے ہیں اور مسافروں کو لینڈ سلائیڈنگ کا خوف بھی نہیں رہتا ۔
چترال اور پشاور کے درمیان درہ لواری ہمیشہ حائل رہتا تھا ۔ ساڑھے دس کلومیٹر طویل ٹنل نے دنوں کے سفر کو گھنٹوں پر محیط کر دیا ہے اور اب چترال بھی پاکستان کا آباد شہر محسوس ہونے لگا ہے ۔ تیرہ ہزار سات سو فٹ بلند بابو سر پاس پشاور ، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے درمیان اب بھی سال بھر میں آٹھ ماہ بند رہتا ہے ۔
پاکستان میں بلند ترین دروں کی اپنی اپنی تاریخ اور جغرافیائی حیثیت ہے ۔ بلند ترین دروں میں بابو سر ، بولان ، بروغل ، چاپروٹ ، دورہ ، گوندو گورو ، گومل ، حایل ، ہسپار ، کڑاکڑ ، خنجراب ، خیبر ، کلک ، کوہاٹ ، لواری ، مالاکنڈ ، منٹکا ، نلتر ، شیندور اور ٹوچی کے درے شامل ہیں ۔ ان دروں میں بلند ترین گوندو گورو پاس ہے جس کی بلندی 5940 میٹر ہے ۔ یہ درہ گلگت کی حوشی وادی کو کنکورڈیا سے ملاتا ہے اور یہاں سے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ 4700 میٹر بلند منٹکا پاس درہ خنجراب کے مغرب میں ایستادہ ہے اور شاہراہ ریشم کے مسافر اسے گزر گاہ کے طور پر پاس کرتے ہیں ۔
دورہ پاس کی 5030 میٹر بلندی گلگت کی غذر ویلی کو بالائی سوات سے ملاتی ہے ۔ درہ چلنجی 5300 میٹر بلند ہے اور بالائی ہنزہ کی چپرسن وادی کو اشکومن اور کرومبر سے جوڑتا ہے ۔
برزل پاس 4200 میٹر بلندی کے ساتھ کشمیر اور گلگت کی واحد قدیم گزرگاہ تھی اور آج کل استور سے کارگل کو ملاتا ہے ۔ شمشال پاس 4735 میٹر بلندی کے ساتھ کوہ پیماؤں کو کے ٹو کے شمالی چہرے کی طرف لے جاتا ہے اور شمشال سے برالدو کا سفر ممکن بناتا ہے ۔
کرومبر کی بلندی بھی 4300 میٹر کے ساتھ گلگت کے ضلع غذر اور چترال کی سرحد کو اشکومن پر باہم ملاتی ہے ۔
بروغل پاس کا درہ بلندی میں کچھ کم ہے مگر افسانوی واخان کوریڈور میں افغانستان کے بدخشاں صوبے کو پاکستان کے ضلع چترال سے جوڑتا ہے ۔
کاچی کانی پاس کی 4700 میٹر بلندی چترال کی وادی سرمی کو سوات ویلی کے قریب کرتی ہے ۔
درہ برزل گلگت کے ضلع استور میں واقع کشمیر اور گلگت کی قدیم گزر گاہ رہی ہے جسے شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے قبل کاروباری قافلے نقل و حمل کے لئے استعمال کرتے تھے ۔ ماضی میں درہ برزل کی دونوں سمتوں میں موجود بستیاں تجارتی لوگوں کے لئے قیام گاہوں کے طور پر محفوظ آبادیاں تھیں ۔ کشمیر سے آنے والے منی مرگ میں رات گزارتے اور پھر برزل پاس کے مشقت بھرے سفر کے بعد استور میں رکتے تھے ۔ آج کل درہ برزل لائن آف کنٹرول تک فوجی سامان کی نقل و حمل کے لئے استعمال ہوتا ہے اور چلم چوکی سے لے کر کارگل تک یہ علاقہ پاک افواج کی کڑی نگرانی میں ہے ۔
درہ برزل کی چوٹی پر بھی شہدائے کارگل کی یادگاریں بنائی گئی ہیں اور برف کے انباروں میں جوان چوکس کھڑے ہیں ۔
برزل کی مغربی ڈھلوان سے دریائے استور کا آغاز ہوتا ہے اور بعد میں یہ دریا اپنے شفاف پانی کے ساتھ سندھ میں جا گرتا ہے ۔ 13808 فٹ بلند یہ درہ گلگت سے 178 کلومیٹر دور ہے جس کے اطراف میں 61 دیہاتوں پر مشتمل 17000 افراد گنتی میں آئے ہیں ۔ سیاحت کے ایک سیزن میں ساٹھ ہزار گاڑیاں اس درے کو عبور کرکے منی مرگ اور ڈومیل پہنچتی ہیں ۔
سردیوں میں منفی تیس درجہ حرارت یہاں پر زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے مگر پھر بھی ملک کی حفاظت کے لئے مامور جوان یہاں پر چوکس کھڑے نظر آتے ہیں ۔
وطن عزیز کے دوسرے تمام دروں کی طرح یہاں پر بھی جب برف پگھلتی ہے تو پھر ان ڈھلوانوں پر بے شمار رنگوں کے انگنت پھول کھلتے ہیں جن پر انہی پھولوں کے رنگوں جیسی تتلیاں آتی ہیں ۔ برزل کی دوسری جانب منی مرگ اور ڈومیل کی وادیاں ہیں جنہیں زمین پر جنت کا نام دیا جاتا ہے ۔

11/07/2023

Daily Dunya lhr. Khi. Isl. Mul.

01/07/2023

قراقرم ہائی وے 2023

طريق قراقرم "بساط" حجاج الصين إلى مكة 26/06/2023

طريق قراقرم "بساط" حجاج الصين إلى مكة أصبح طريق قراقرم السريع المعبد بموازاة نهر السند الذي كان مقفراً في سالف الزمان نابضاً بالحياة اليوم، إذ باتت المساحات المهجورة على طول الطريق مأهولة بالسكان بعد ف....

26/06/2023

روزنامہ دنیا 26 جون 2023 کراچی۔ اسلام آباد۔ لاہور۔ ملتان۔

21/06/2023

Daily Dunya Lahore. Karachi. Islamabad. Multan. 21 June 2023

13/06/2023

برزل ٹاپ کو عبور کرنے کی خواہش تھی اور انہی موسموں میں تھی جب برف میں دب چکے بجلی کے کھمبے بس اتنے ہی نظر آئیں کہ ان کے سرے انگلیوں کی پوروں کی طرح نمایاں ہوں ۔ جب تیز ہوائیں برف کی پرتوں کو سمندر کی لہروں کی طرح مختلف شکلوں میں ڈھالے اور ہر شکل لمس کی حدت سے قطرہ قطرہ ٹپکنے لگے۔۔
ایک خواہش تھی جو ایسے ہی موسموں سے مشروط تھی ۔۔ درۂ برزل کے پار ناصر کیمپ سے آگے جہاں دیوسائی جیسے پھول کھلے تھے مگر جون کے ان دنوں میں بھی دیوسائی پر کئی کئی فٹ برف تھی ۔۔
چلم چوکی سے اٹھتے راستے مرتضی چوکی کی طرف جاتے تھے مگر ویران تھے ، اس لئے اس طرف کوئی نہیں جاتا تھا کہ ہر طرف برف تھی ۔
خواہش کی تکمیل میں برزل پاس نہیں کھولا گیا تھا ، اس لئے کھولا گیا تھا کہ ان راستوں سے ہماری فوج کے ٹرک کارگل جاتے تھے اور سازوسامان لے جاتے تھے ۔ درۂ بابو سر کم بلند ہونے کے باوجود بند تھا ۔۔شائد اس لئے بند تھا کہ وہاں سے فوج کے ٹرک نہیں گزرتے تھے ، عام سیاح گزرتے تھے یا گلگت بلتستان کے لوگ گزرتے تھے ۔ بابو سر بند تھا تو پہلی بار ہم نے بھی جان توڑ سفر کیا ، داسو ڈیم اور بھاشا ڈیم کے مقامات پر دو دو گھنٹے روکا گیا ، خشک اور سنگلاخ چٹانیں تھیں اور خوف سے لبریز شکلیں تھیں۔ کہیں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں بیٹھا جا سکتا مگر پانچ دن کی مسافت کے بعد ہم خواہش کی تکمیل میں برزل پاس عبور کر گئے۔۔۔

06/06/2023

وادئ پھنڈر ، جہاں دریائے غذر سیاحوں سے باتیں کرتا ہے
—————————————-

‎قیصرعباس صابر کی تحریر

قراقرم ہائی وے کو چھوڑ کر گلگت شہر کے اندر داخل ہوں یا پھر چیف کورٹ روڈ سے گزر کر غذر کی طرف نکل جائیں ، شہر سے ایک راستہ دریا کنارے گاہکوچ کی طرف جاتا ہے جس کے اطراف میں تازہ پک چکی خوبانیوں کی مہک ہے اور کہیں دریائے گلگت سڑک کے کنارے کو چھو جاتا ہے ۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وادئ یسین کی طرف مڑنے والے راستے کو نظرانداز کر کے گوپس کی طرف چلتے جائیں تو دریائے گلگت اپنا نام بدل کر دریائے غذر کہلاتا ہے ۔ پھنڈر کی کشش کہیں رکنے ہی نہیں دیتی ۔ ایک حادثے کے نتیجے میں جنم لینے والی خلطی جھیل بھی پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتی وہی خلطی جھیل جو درجنوں گھر ڈبو کر وجود میں آئی تھی ۔
پاکستان کا شمال عجوبوں سے بھرا پڑا ہے مگر پھنڈر کی وادی فطرت کی انگوٹھی میں جڑے نیلم کی طرح نمایاں ہے ۔
دریائے غذر ، پھنڈر کے مقام پر دوست ہوکر ساری طغیانی کھو دیتا ہے جس کے کنارے پر بیٹھ کر پانی کو آسانی سے چھوا جا سکتا ہے ۔ دریا میں رقص کرتی مچھلیاں بھی بے تکلف ہو کر سیاحوں سے آنکھیں ملاتی ہیں اور دریائے غذر اپنا روایتی خوف ترک کر کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے ۔
ہم اس سڑک پر محو سفر تھے جو گلگت اور چترال کو آپس میں ملاتی تھی ۔ یہ زیر تعمیر سڑک یوں تو شیندور تک جاتی تھی مگر راستے میں بہت سی حسین وادیوں کو راہداری فراہم کرتی ہے ۔ لنگر کے سبزہ زار میں یاک بکریوں کی مانند گھاس چرتے ہیں ۔اور بے شمار ندیاں خیبرپختونخوا کی سرحد عبور کر کے گلگت بلتستان میں داخل ہوتی ہیں ۔ ضلع چترال اور ضلع غذر کی سرحد حیرت کدوں کی سرزمین ہے ۔

‎پھنڈر کی بلندی سے ذرا پہلے ، بائیں جانب بہت گہرائی میں، جہاں دریائے غذر دوست ہوچکا تھااور پھیل چکی وادی میں گھل مل گیا تھاوہ منظر متقاضی تھا کہ ہم نیچے اترتے اور ایک شام،کم از کم ایک مکمل صبح اس وادی میں گزارتے ،تمام موجود اور تمام غیر موجود رنگوں کو انگلیوں کی ٹھنڈی پوروں سے چھو کر دیکھتے اور انگلیاں فطرت کی حدت سے جل جاتیں،مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ہمارے بس میں ہوتا تو خلطی جھیل کے پانی میں ڈوب چکے گھروں میں گھس کر وہاں کے مکینوں کی محبت تلاش کرتے جو تباہ ہوتے جاتے گھروں کو چھوڑتے وقت کہیں کسی شیلف میں رکھی رہ گئی تھی ۔
‎پھنڈر جھیل پر کتنی شامیں قربان کی جا سکتی تھیں مگر ہم مجبور تھے۔۔۔
‎معاشی اور عائلی زنجیروں میں جکڑے ہوئے آوارہ گرد تھے جو خراب تھے مگر پورے خراب بھی نہ تھے کہ ہم جنوں میں ہوش کے قائل تھے اور آوارگی برنگ تماشا ہمیں بری لگتی تھی ۔ کتنے منظر ہم چلتے چلتے دیکھتے تھے اور پھر نئے منظر میں ڈھل جاتے تھے۔
‎ہم پھنڈر ٹاپ پر پہنچے تو ایک تعجب ہمارا منتظر تھا۔مختلف عمارتوں کے بیچوں بیچ جو راستہ آگے بڑھتا تھا اور پھر ایک دم نیچے اتر جاتا تھا ہم وہیں پر تصویر ہوچکے تھے ۔ایسے ہی لمحے تھے جب میرے بچے اور شریک سفر قافلہ مجھے پاگل سمجھنے لگتا تھا۔ایک نیلے رنگ کا بورڈ تعجب بھرا جملہ لئے ہوئے تھا۔۔
‎“شیندور ٹاپ 48 کلو میٹر”
‎اس شیندور ٹاپ کےلئے ،پولو فیسٹول کےلئے،شیندور جھیل کےلئے ہم کن مشکل رستوں سے گزر کر پہنچتے تھے ۔”سفر کیلاش کے” زمانوں میں ایون سٹاپ سے اپنی گاڑی اٹھا کر جب چترال کی جانب بڑھتے جاتے تھے تو کتنے لوگوں نے سمجھایا تھا کہ “مت جاو”۔۔۔عشق دریا ہے جو بچوں کو نگل جاتا ہے،مگر ہم سنتے کب تھے کسی کی۔ہم جو قدرتی مناظر کو بھگوان سمجھ کر پوجتے تھے بھلا کیسے فراموش کرکے آگے نکل جاتے کہ دنیا بھر میں نام منواچکا “شیندور ٹاپ” چترال میں تھا اور ہم بھی چترال میں تھے،دشوار راہوں سے ہوتے ہوئے ایک طویل سفر کے بعد شیندور کا دیدار نصیب ہوا تھا۔اور اب بغیر خواہش کے، بغیر تھکن کے احساس کے ،وہی شیندور 48 کلومیٹر کی دوری پر تھا ۔
‎زمین گول تھی،واقعی گول،پھر تمام پہاڑوں کے سلسلے باہم اسی طرح ملتے تھے کہ آپ حیران رہ جائیں ۔
‎“قیصر مجھے شیندور ضرور لے جائیں”فوزیہ نے پہاڑی مطالبہ کر ڈالا۔بچوں نے خواہش کی بازگشت تالیوں کی گونج سے بھر دی۔پھنڈر تک اگر سیاہ جاپانی کار پہنچ سکتی تھی تو پھر غذر کا سفر مشکل نہ تھا۔راستے دشمن نہ تھے۔
‎راشد ڈوگر کار کے اندر سے اس بلندی کو تصویر کئے جاتا تھا ہم پھنڈر ٹاپ سے نیچے اترے تو سامنے وسیع لینڈ سکیپ تھی۔درختوں کے درمیان سے گزر کر ایک سڑک شیندور کو جاتی تھی۔وادئ پھنڈر واقعی چھوٹا کشمیر تھی۔دونوں اطراف میں کھیت تھے اور دائیں جانب کھیتوں کے پاس دریائے غذر بہتا تھا۔وہ بہتا نہ تھا بلکہ فطرت کے فریم میں رنگ بھرتا تھا۔بلند و بالا درختوں کی گھنی باڑ کے درمیان نیل و نیل وجود جس کو دیکھتے ہی ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا۔دریائے غذر کے کنارے ایک بستی تھی مگر وہ اس لئے بھی بستی تھی کہ وہاں لوگ واقعی بستے تھے جن کے چہروں پر زندگی ناچتی تھی، وہ زندگی کے دن پورے نہیں کرتے تھے بلکہ واقعی زندگی جیتے تھے۔
‎ہم وادئ پھنڈر کے وسیع لینڈ سکیپ کے درمیان سے گزرتی جاتی سڑک کے قریب بنی ایک عمارت کے پاس رک گئے ،بورڈ پر کسی خوبصورت منظر کی تصویر نمایاں تھی بورڈ پر جو عبارت درج تھی اس نے ہمیں حوصلہ دیا کہ یہاں شب بصری ممکن ہے۔ہم کسی فلم کے کردار نہ تھے،کسی تصویر کے نقش بھی تو نہ تھے۔تیز ہوا سے جھولتے درخت زندگی کا پتہ دیتے تھے۔خواب،سراب،وہم اور خیال۔۔۔۔
‎ایک وادی جو خواب اور تعبیر کے درمیان معلق پل کی مانند جھولتی تھی۔غذر شیندور روڈ پر پٹرول کی بوتلیں سجائے ایک جوان ہمارا پہلا ملاقاتی تھا،”یہ ہوٹل ہے اور کمرے بھی ملیں گے”
‎گاڑیاں غذر روڈ سے اتر کر ایک لان میں داخل ہوئیں جہاں چار کمروں پر مشتمل ہوٹل تھا جس کے سامنے لان تھا۔دوسری جانب بھی ہال نما کمرے تھے جن میں قالین بچھے تھے اور زمین پر بستر بچھے تھے۔باہر بورڈ پر “ مدینہ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ پھنڈر ضلع غذر” کے الفاظ پڑھتے تھے تو یقین آتا تھا کہ ہم غذر میں تھے۔
‎پہلا ملاقاتی شخص دوہزار روپے فی کمرا مانگ رہا تھا اور لاک ڈاؤن کے سبب آنے والی غریبی کی دہائی دیتا تھا،تین کمرے پندرہ سو فی کمرا کے حساب سے لےلئے گئے جہاں ہر کمرا اپنا الگ باتھ روم رکھتا تھا،گیزر کی سہولت بھی تھی اس لئے ایک قطار میں بنے کمرے لےلئے گئے اور سامان بھی اتار لیا گیا۔اسی قطار میں پہلا کمرا کچن تھا اور سائیڈ روم ڈائیننگ ہال،جو مشترکہ گپ شپ کارنر بھی تھا اور پھر وبا کے دنوں میں ہم دریائے غذر کی جانب جانے والے تھے۔مدینہ ہوٹل پھنڈر سے نکل کر چند قدموں کے فاصلے پر دریائے غذر کی عبادت گاہ تھی جہاں ہم نے فطرت کے حسن کے سامنے سجدہ ریز ہونا تھا۔

Want your public figure to be the top-listed Public Figure in Multan?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

Burzil top ..a way to Minimarg
Minimarg Astore
Burzil top to minimarg by Qaiser Abbas Sabir
Gilgat river at night
Rama astore
قراقرم ہائی وے 2023
برزل ٹاپ کو عبور کرنے کی خواہش تھی اور انہی موسموں میں تھی جب برف میں دب چکے بجلی کے کھمبے بس اتنے ہی نظر آئیں کہ ان کے ...
اس کا مسلۂ بھی غور طلب ہے
ست رنگی جھیل نلتر بالا ۔۔گلگت

Category

Telephone

Website

Address

Nusrat Road
Multan
60000

Other Writers in Multan (show all)
razi ud din razi razi ud din razi
73 A Jaleel Abad Colony
Multan, 60000

شاعر ، ادیب اور صحافی رضی الدین رضی ۔ ۔ چارشعری مجموعوں

LÂTÎF ÂHMÊD RÎÑDH LÂTÎF ÂHMÊD RÎÑDH
Multan, 446688

زندہ رہنے تک اِنسان کے ضمیر کواور مرنے کے بعد اِنسان کے کردار کو زندہ رہنا چاہیے

Toxic  Tweets Toxic Tweets
Multan

Follow me If You Likes my Posts ❤️ T O X I C T W E E T S

Ruqia beauty and makeup Ruqia beauty and makeup
Nasheman Coloney
Multan, 60700

In this page u will see the videos and images to support PTI , i followed Imran khan

M Sajid M Sajid
Multan

http://msajid9016.com

politics and current news politics and current news
Multan

this page is about the politics and current news of the Pakistan and also about every incident

Ďîåřy Wŕíțėš Ďîåřy Wŕíțėš
4
Multan

Diary Writes Diary is platform which offer best Thought's, introvert Quote's, Meaningful Post's and Life less وتعز من تشاء وتذل من تشاء Insan🖤...insanyat😇 🌸وما تشآءون الا ان یشاءا...

Urdu Quotes Urdu Quotes
Bsti Khudadad Ward Number 11
Multan, 60900

TART 1 TART 1
Multan, 34200

Islamic videos, 💞❤️‍🩹❤️ and Hadees share in this page, follow,like and share us.

Beauty tips Beauty tips
Multan

�I 'm skin care consultant � &brand partner �with oriflame sweden� cosmetics ��compnay�

سائیل سائیل
Multan, 6000

My own poetry

92 news HD live 92 news HD live
Multan

لائیو نیوز ہیڈلائنز اور فنی ویڈیوز