Fahad Abdullah mughal
Nearby public figures
Multan
59030
Multan Punjab
66000
6000
60000
Anand Lok Society Mayur Vihar Phase-1 Delhi, Delhi
60000
Punjab
11501
Punjab
60000
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Fahad Abdullah mughal, Journalist, Pakistan Multan, Multan.
ذاتی استعمال کے لیے 25 گرام تک خشک بھنگ لے جانا قانونی ہو گا جبکہ ایک خاص مقدار تک بھنگ گھر میں بھی کاشت کی جا سکے گی۔ اپوزیشن جماعتیں اور صحت عامہ کے گروپ اس حکومتی اقدام پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولز کی مخلوط حکومت یکم اپریل بروز پیر سے بھنگ کو جزوی طور پر قانونی حیثیت دینے کے اپنے فیصلے کا نفاذ کرے گی۔ تاہم منشیات کی اس قسم تک رسائی سیدھی نہیں ہوگی۔ آئیے اس بارے میں نئے قوانین کا جائزہ لیں:
یکم اپریل سے ذاتی استعمال کے لیے 25 گرام تک خشک بھنگ لے جانا قانونی ہو جائے گا، جو کہ 80 سگریٹ بنانے کے لیے کافی ہے۔ تاہم اس مقدار کا انحصار استعمال پر بھی منحصر ہے۔ ایک بالغ فرد کے لیے تین پودے اگانے اور 50 گرام خشک بھنگ کی حد کے ساتھ اس کی گھریلو کاشت کی بھی اجازت ہو گی۔
تاہم اسکولوں، کنڈرگارٹنز، کھیل کے میدانوں اور عوامی کھیلوں کی سہولیات کے 100 میٹر کے دائرے میں منشیات کا استعمال ممنوع رہے گا۔ پیدل چلنے والے علاقوں میں صبح سات بجے سے شام آٹھ بجے کے درمیان سگریٹ نوشی پر بھی پابندی ہوگی۔
بھنگ کاشت کرنے کی اجازت
جرمنی یکم جولائی سے بھنگ کی کاشت کی باقاعدہ انجمنیں قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاکہ لوگوں کو قانونی طور پر منشیات حاصل کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ ان نام نہاد کینابس کلبوں میں ہر ایک میں 500 ممبران ہوں گے اور وہ ہر رکن کو ماہانہ زیادہ سے زیادہ 50 گرام خشک بھنگ فروخت کر سکیں گے۔
21 سال سے کم عمر کے بالغوں کو ماہانہ 30 گرام بھنگ تک محدود رکھا جائے گا، جس میں سائیکو ایکٹیو مادہ ٹیٹراہائیڈروکانابینول (THC) کا 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ کلبوں میں ملنے اور بھنگ پینے کی اجازت نہیں ہوگی اور ممبرشپ ایک وقت میں ایک کلب تک محدود ہوگی۔ بھنگ حاصل کرنے کا واحد قانونی طریقہ یہ ہوگا کہ یا تو اسے گھر پر کاشت کیا جائے یا اسے کینابس کلبوں کے ذریعے حاصل کیا جائے، یہ دونوں طریقے ان لوگوں تک محدود ہیں، جو کم از کم چھ ماہ سے جرمنی میں مقیم ہوں۔اپوزیشن کی شدید مخالفت
ان پابندیوں کا مقصد حزب اختلاف کی جماعتوں خاص طور پر قدامت پسند سی ڈی یو اور سی ایس یو کے اتحاد کے ان خدشات کو دور کرنا ہے کہ نیا قانون "منشیات کی سیاحت" کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔ چانسلر شولس کی پارٹی سوشل ڈیموکریٹس، اور ان کی اتحادی گرینز اور کاروبار سرگرمیوں کو بڑھانے کی حامی ایف ڈی پی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مزید نرمی لاتے ہوئے بھنگ دکانوں میں فروخت کرنے کی اجازت دیں گے، یہ اقدام یورپی یونین نے مسترد کر دیا تھا۔
کچھ علاقوں میں دکانوں یا فارمیسیوں میں دوائیوں کی فروخت پر مقدمہ چلانے کے لیے اب ایک دوسرا قانون زیر غور ہے۔ حکومت کا اصرار ہے کہ نیا قانون بھنگ سے منسلک صحت کے خطرات کو کم کرے گا کیونکہ اس سے بلیک مارکیٹ میں آلودہ مادوں سے لیس بھنگ کے مسئلے سے نمٹا جائے گا۔
لیکن طبی انجمنوں اور صحت عامہ کے گروپوں کی طرف سے اس قانون کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ا س حوالے سے اُن علاقائی حکام کی طرف سے بھی شکایات سامنے آئی ہیں، جنھیں اس قانون کے نفاذ کی نگرانی کاسونپا گیا ہے۔
انہیں خدشہ ہے کہ ان پر اضافی بوجھ پڑھ جائےکیونکہ انہیں ایسے جرائم کے لیے پہلے سے عائد قید اور جرمانے کی سزاؤں کو واپس لینا پڑے گا، جو نئے قانون کے تحت قابل سزا نہیں ہیں۔ حزب اختلاف کے قدامت پسندوں کے رہنما فریڈرک مرز پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر ان کی جماعت 2025 ءکے انتخابات کے بعد دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو وہ ''اس قانون کو فوری طور پر منسوخ کر دے گی۔‘‘
کل شام اک ویڈیو وائرل ہوئی جس جس میں دیکھا گیا ہے کہ اک پولیس والا اک شخص پر تشدد کر رہا ہے سورسز سے معلوم ہوّا کہ یہ شخص جسکو مارا جا رہا ہے وہ ایک پروفیشنل ڈاکو ہے اور منشیات کا کاروبار ب کرتا ہے پشاور کے مختلف پولیس اسٹیشنز میں اِس پر تقریباً ۱۵ سے زیادہ FIRs رجسٹر ہیں۔ مانا کے پولیس آفیسر نے بےحد ظلم کیا اور انسانیت کے خلاف کام کیا جو کے نہیں ہونا چاہیے تھا یہ تو کہانی کا اک پہلو ہے اگر ہم دوسرا رُخ دیکھیں تو معلوم ھوتا ہے کے جو بزرگ دُوسری تصویر میں وینٹیلیٹر میں دکھ رہا یہ اک چَوکیدار تھا جو کہ تاتارا کے علاقہ میں اپنی ذمداری نبھا رہا تھا کے یہ ڈاکو جو اس تصویر میں دکھ رہا ہے چوری کی غرض سے آیا اور اس معصوم بزرگ کو قتل کر کے بھاگ گیا اور یہ بیچارہ غریب ۳ جوان بیٹیوں کا باپ تھا اس بنا پر پولیس آفیسر نے اسکودیکھا تو پہچان گیا اور اپنے جذبات پے قابو نہ رکھ پایا جب کے اصول کے مطابق اک پولیس آفیسر میں بہت صابر ہونا چاہئے پر بدقسمتی سے وہ بھی اک انسان تھااور ظالم کو دیکھ کر قابو میں نہ رہ سکا۔ آج بہت سے لوگ سوشیل میڈیا پر سکالر بنے ہیں کہ کچھ کہ رہے ہیں کے ٹھیک ہوّا کچھ پولیس کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں میں بس اتنا کہنا چاہو گا کہ پولیس کو ایسا نہیں کِرنا چاہئے تھا لیکن ایسے لوگوں کا ہونا بھی ہمارے معاشرے اور بچوں کے لئے خطرہ ہے ہر بار پولیس ایریسٹ کرتی ہے اور یہ عدالت سے ریہا ہو کر آ کے پھر وارداتِ کرتے ہیں اور پھر ہم میں سے اک مخصوص طبغہ پولیس کو بولتا ہے اور آج کسی آفیسر نے جرآت کی تو اسکو ہم اِتنا ذلیل کر رہے ہیں کے اگلی بار کوئی بھی پولیس والا آپکی help کرنے سے ڈرے؟ مانا کے قانون ہاتھ میں لینا جرم ہے لیکن ایسے عادی مجرم کو چور دینا سبق دیئے بغیر تاکے اگلا گِھر آپکا یا میرا ہو ان جیسے لوگو کے لئے؟
سرخ بچھیا (Heifer) اور سرخ لکیر
دنیا بھر کے سلیم الفطرت افراد غزہ خونریزی پر مضطرب ہیں۔ صحرائے سینائی سے لگی بحیر ہ روم کی اس تنک پٹی کے ساتھ دریائے اردن کے کنارے بھی قیامت بپا ہے۔ بمباری، ڈرون حملے، فائرنگ کے ساتھ گرفتاری و اغوا نے یہاں آباد بلکہ ٹھنسے 32لاکھ نفوس کی زندگی جہنم بنادی ہے۔
اسی کیساتھ ایک 'مشکوک ' سرگرمی بھی امریکی میڈیا پر بے نقاب ہورہی جسے دنیا کے دوارب فرزندان توحید کیلئے ٹائم بم کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے تاریخِ بنی اسرائیل کے ایک گوشے پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
سورہ البقرہ کی آیات ساٹھ سے 67 تک وہ قصہ بیان کیا گیا ہے جس میں اللہ نے قومِ موسٰیؑ کو ایک گائے قربان کرنے کا حکم دیا تھا۔ لوگوں کے سوال و جواب پر جانور کی جو نشانی بیان کی گئی اسکے مطابق وہ اوسط عمر والی شوخ زرد رنگ کی گائے تھی جس سے کوئی مشقت نہیں لی جاتی۔ عبرانی مورخین کہتے ہیں کہ یہ سرخ رنگ کی بچھیا تھی جسکی کھال پر کوئی سفید یا سیاہ بال نہ تھا ۔
یہودی تاریخ کے مطابق انکی پہلی عبادت گاہ 957 قبل مسیح میں عبادت گاہِ سلیمان (ہیکل مقدس یا ہیکل سلیمانیؑ) کے نام سے قائم ہوئی جسے 587 قبل مسیح بابل کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar II)نے ڈھادیا۔ ہیرووِ اعظم نے 516 قبل مسیح میں یہ عبادت گاہ اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کروائی جسے دوسری عبادت گاہ یا بیت المقدس ثانی کہا گیا لیکن اسکا مشہو ر نام عبادت گاہِ ہیرود ہے۔ رومی بادشاہ ٹیٹس (Titus)نے 70 قبل مسیح اس عبادت گاہ کو آگ لگوادی۔ جس دن المیہ پیش آیا وہ یہودی کیلنڈر کے آوو(AV)مہنیے کی نویں تاریخ تھی۔ اسی بناپر یہودی اس دن کو Tish B’Avیا 'نوکا نوحہ' کہتے ہیں۔ اس ماتمی تہوار پر24 گھنٹےکا روزہ اوراجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتاہے
تاریخ کے بعد عقیدہ۔ توریت یا عہد نامہ قدیم (Old Testament) المعروف عبرانی انجیل کے باب گنتی (Number)کے مطابق ' خدواند نے ایک ایسی سرخ بچھیا قربان کرنے کا حکم دیا تھا جس سے کبھی کوئی مشقت نہیں لی گئی ہو اور جس میں کوئی نقص یا داغ ہو'
یہودی ربائیوں کا کہنا ہے کہ اس حکم کی روگردانی کی وجہ سے اللہ نے یہودیوں کو مرکزی عبادت گاہ سے بطور سزا محروم کردیا ہے اور قربانی کے بعد ہی یہ عبادت گاہ دوبارہ تعمیر ہوسکے گی۔
ایک عرصے سے سرخ گائے تلاش کی جارہی تھی لیکن ایسی بے داغ بچھیا کہ جسکی کھال پر کسی دوسرے رنگ کا ایک بال بھی نہ ہو کہیں نہ ملی ۔ یروشلم کے ربائی اسحاق مامو (Yizshak Mamo)نے کچھ عرصہ قبل اس بچھیا کی تلاش کا بیڑاہ اٹھایا۔ دنیا بھر کے یہودی فارم چھان لینے کے بعد بھی انھیں خالص سرخ نہ ملی ۔ آخر کار ٹیکسس Texasکے ایک فارم پرانھیں انکا گوہرِ نایاب نظرآ گیا لیکن اب یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ اسرائیل کے کسٹم ضابطوں کے تحت امریکہ سے مویشی درآمد کرنے کی اجازت نہیں۔ ربائی صاحب 'مذہبی حیلے' کا سہارا لیکر گائے کی پانچ نومولود بچھیوں کو بطور پا لتو جانور (Pet) اسرائیل لے آئے۔ یہ پانچوں گائیں غرب اردن میں قبضہ کی گئی زمین پر بنائے فارم میں پالی جارہی ہیں۔
یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے کہ ربائی اسحاق مامو قربانی کی قدیم سنت کی تجدید چاہتے ہیں۔فکر مندی کی بات اس عبادت گاہ کی جگہ پر ہے۔ قدامت پسند عناصر کا اصرار ہے کہ ہیکل کی تعمیرِ نو اس جگہ ہوگی جہاں مسجد اقصیٰ و گنبد خضرا واقع ہیں ۔ عبادت گاہ کی تعمیر کیلئے سرگرم گروہ کی ایک رہنما محترمہ ملیسا جین کرون فیلڈ(Melissa Jane Kronfeld) نے امریکی ٹیلی ویژن CBSکے نمائندے سے صاف صاف کہا کہ عبادت گاہِ اسی مقام پر بنی تھی لہذا نئی عبادت گاہ یہیں پر تعمیر ہوگی۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے کچھ چھیننا چاہتے نہ انکی مسجد کو مسمار کرنا مطلوب ہے ۔ مسجد اپنی جگہ رہے اور ہیکل کا حصہ بن کر سب کی عبادت گاہ بن جائے۔ تاہم گنبدِ صخرا کو یہاں سے ہٹانا ہوگا۔ ہمیں سنہری گنبداور عبادت گاہ کو گرانے کا کوئی شوق نہیں بس اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کردیا جائے۔ جب صحافی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسکے نتیجے میں خونریز جنگ ہوسکتی ہے جس سے مشرق وسطیٰ عدم استحکام پیدا ہوگا تو موصوفہ نے فرمایا مشرق وسطیٰ میں ایک عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہے اور اسوقت بھی یہاں (غزہ) جنگ ہورہی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جانوروں کے غیر سرخ بال اور دوسرے نقص سے پاک ہونے کا جائزہ لیا جارہاہے اور اگر گائیں یہ امتحان سے کامیاب گزرگئیں تو کسی بھی دن انھیں قربان کرکے ہیکل کی تعمیر نو کا کام شرو ع ہوسکتا ہے
غزہ حملے کے 100 دن مکمل ہونے پر مستضعفین نے کہا تھا کہ سرخ گائیں ہماری مقدس سرزمین تک آچکی ہیں۔گویا 7 اکتوبر کی کاروائی اس خطرے سے نبٹنے کی ایک کوشش ہے
اب تک گنبدصخرا ا ور مسجد اقصیٰ کے قریب تعمیراتی مشنری آنے کی کوئی اطلاع نہیں لیکن حکومت کے انتہاپسند وزرا وہ ضوابط تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں جسکے تحت القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے
کئی یوٹیوبرز اسکینڈلز خود بناتے ہیں تاکہ وہ ٹاپ ٹرینڈ خبروں کی گردش میں رہیں۔ پہلے پہل لفظ ''اسکینڈلز'' فلمی ستاروں سے منسوب کیا جاتا تھا۔اب ہر عام آدمی اس میں ملوث ہے۔
بس ''فیم'' ہدف بن چکا ہے۔لائکس اور ہائی ریٹنگ کے چکروں میں بعض یوٹیوبرز ایک خبر کو مرچ مصالحہ لگا کر حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں نتیجتاً ایسی سنسنی خیز خبر، جو کسی کو بھی گمراہ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے، سامنے آجاتی ہے۔
شہرت اور بڑا نام حاصل کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کو یہ سب ورثے میں مل جاتا ہے اور کچھ لوگ اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شہرت کے حصول کے لیے انتھک محنت اور جدوجہد کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب لوگ مشہور ہونے کیلئے بھرپور محنت کیا کرتے تھے۔ فلم انڈسٹری، تھیٹر، ڈرامہ میں چانس کیلئے خوار ہونا پڑتا تھا۔ نا جانے کتنے اڈیشن ہوا کرتے تھے صرف یہ ٹیسٹ کرنے کے لیے کہ آیا ان میں واقعی ٹیلنٹ ہے جو عوام کے سامنے جمہوری فن کا مظاہرہ کر سکیں۔ یہ آرٹسٹ الفاظ کے چناؤ میں انتہائی محتاط روش اختیار کرتے تھے۔جن میں ثقافت کی چاشنی جھلکتی تھی۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور،پشاور، کوئٹہ سینٹرز کے اپنے اپنے نرالے رنگ تھے۔جو نگاہوں کو خِیرہ کر دیتے تھے۔ایسی معیاری انٹرٹینمٹ ہوا کرتی تھی کہ گلیوں کی گلیاں اور بازاروں کے بازار سنسان ہو جایا کرتے تھے۔معاشرتی اصلاح کے تحت ان اسکرپٹس کو تخلیق کیا جاتا تھا۔ ایک ایسی تفریح کہ جس میں خاندان کے افراد بلا کسی جھجک کے سکون و طمانیت کے ساتھ اسے دیکھ سکتے تھے۔ لوگوں کی دلی تمنا ہوا کرتی تھی کہ ''کبھی بڑے بڑے لوگوں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل ہوگا''۔ ''پاکستان ٹاپر'' بننے کا جذبہ انہیں متحرک رکھتا تھا مگر اب دور خاصہ بدل چکا ہے۔ ٹک ٹاک فیس بُک، یوٹیوب، انسٹاگرام، یہ وہ مقناطیسی پلیٹ فارم ہیں جنہوں نے اپنی کشش سے بچوں، ٹین ایجرز، بڑوں، بوڑھوں سب کو جکڑ رکھا ہے۔
کچھ لوگ اچھا کانٹیٹ بنا کر معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لا رہے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگ تو بالکل جنونی ہیں۔ لائیک اور ویوز کے چکر میں عجیب و غریب تماشے سامنے آرہے ہیں۔لوگ ہمہ وقت ویڈیوز بنانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں کہ راتوں رات وائرل کیسے ہوا جائے؟
کئی یوٹیوبرز اسکینڈلز خود بناتے ہیں تاکہ وہ ٹاپ ٹرینڈ خبروں کی گردش میں رہیں۔ پہلے پہل لفظ''اسکینڈلز'' فلمی ستاروں سے منسوب کیا جاتا تھا۔اب ہر عام آدمی اس میں ملوث ہے۔بس ''فیم'' ہدف بن چکا ہے۔لائکس حاصل کرنے اور ہائی ریٹنگ کے چکروں میں بعض یوٹیوبرز جو صحافت کی ''ا ب پ'' نہیں جانتے ایک خبر کو چار بتا کر، مرچ مصالحہ لگا کر، حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں جو کہ ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ جن کا مقصد صرف سنسنی پھیلانا ہے۔حد درجہ وائرل ہونے کا نشہ معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔
سماجی ماہرین کے مطابق شہرت کا نشہ ایک خطرناک بیماری ہے، منشیات سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ منشیات کا عادی علاج سے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن شہرت کا بھوکا نہیں۔
افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں سستی شہرت کا شوق ہوتا ہے، وہ نازیبا اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں کرکے ویڈیوز بناتے ہیں اور انہیں خود اپلوڈ کرتے ہیں تاکہ متعلقہ ویڈیوز کو زیر بحث لایا جائے۔ بعض لڑکیاں تو اپنی ہی ویڈیوز وائرل کر کے ہمدردیاں سمیٹ کر، ٹسوے بہا کر اور مشہور بھی ہوگئیں۔ جب لوگوں نے ان کو سوشل میڈیا پر بےگناہ ڈیکلیر کیا تو ان کی جانب سے مزید خودکشی کا ڈرامہ رچایا گیا وہ خبر زبان زد عام رہی اور پھر یکبارگی نکاح کی ریل کو ڈسکلوز کردیا۔ اس طرح ریٹنگ کو پر لگ گئے اور وہ گوگل پر سرچ کرنے والی مشہور شخصیات میں سے ایک بن گئیں
یاد رہے کہ وائرل ہونے کے چکر میں بہت سارے لوگ سلیفیاں لیتے ہوئے بھی موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ کوئی ٹرین کی زد میں آ گیا تو کوئی جانور کا نوالہ بن گیا کوئی کھائی میں جا گرا۔ کسی نے اپنے ہی گھر میں ڈکیتی کی واردات کروا دی تاکہ بریکنگ نیوز بن جائے۔
دور حاضر میں ہمیں آئے دن اس طرح کے واقعات سننے کو ملتے ہیں، جس میں لوگ بس نام کمانا چاہتے ہیں، چاہے اچھا ہو یا برا۔ اس کی انہیں قطعاً پرواہ نہیں کہ لوگ ان کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کریں گے۔ ایسی شخصیات چند دنوں کے لیے تنقید کا نشانہ بھی بن جاتی ہیں مگر کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی۔
میری ذاتی رائے ہے کہ سستی شہرت یا وائرل ہونے کے غیر اخلاقی رویوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کی بنیادی وجہ کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی کا نہ ہونا ہے۔
پاکستانی محقق ڈاکٹر محمد تنویر خان کی تحقیق کے مطابق پیٹ کے جراثیموں سے ذیابیطس کے مرض کو لاحق ہونے سے روکنا ممکن ہے۔ اس موضوع پر ان کا تحقیقی مقالہ معروف سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوا ہے۔
میر ے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں
پاکستان کے حالیہ انتخابات سے چند روز قبل تک ملک کے سیاسی منظر نامے پر سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔
جہاں عمران خان کو ایک کے بعد ایک مقدمے میں قید اور جرمانوں کی سزائیں سُنائی جا رہی تھیں وہیں اُن کی جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو آزادانہ طریقے سے اپنی انتحابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
اس صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے قبل سیاسی تجزیہ کاروں میں عمومی تاثر یہی تھا کہ پی ٹی آئی کے ’حمایت یافتہ‘ امیدوار شاید کچھ ہی سیٹیں نکال پائیں گے تاہم جیسے جیسے انتخابات کے نتائچ آنا شروع ہوئے تو یہ تاثر تیزی سے بدلنا شروع ہو گیا۔
اب انتخابات سے چند روز بعد مکمل نتائج سامنے آنے پر منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے۔ عمران خان اور اُن کی جماعت کے حمایت یافتہ امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہو کر وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے تیار ہیں۔
مرکز میں اِن آزاد امیدواروں کی تعداد کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے کامیاب قرار پانے والے امیدواروں سے زیادہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں وہ دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں آزاد امیدوار دو تہائی اکثریت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے درجنوں امیدواروں نے اپنی ناکامی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیلنج کر رکھا ہے اور تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کا دعویٰ ہے کہ ان شکایات پر شفاف تحقیقات صورتحال کو تحریک انصاف کے حق میں مزید بہتر کرے گی۔
فی الحال تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سوال درپیش ہے کہ وہ وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی ’اکثریت‘ کیسے ثابت کریں اور حکومتیں کیسے بنائیں اور اپنے ’آزاد‘ امیدواروں کو دوسری سیاسی جماعتوں سے ’بچا‘ کر کیسے رکھیں؟ آئندہ چند روز ملک میں حکومت سازی کی اسی مشق پر کام ہو گا۔
تاہم جیل میں بند پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے سامنے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کو ملنے والی اس عوامی پزیرائی کا ذاتی طور پر کس حد تک اور کس وقت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ابتدائی تجزیے کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو مجموعی طور پر ملک بھر سے ایک کروڑ 68 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ تو کیا یہ عوامی پزیرائی ملک کی مقتدرہ قوتوں کو عمران خان کے حوالے سے فی الوقت رائج سوچ اور پالیسی کی تبدیلی میں مدد دے سکتی ہے؟
قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ ماہر قانون حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے عمران خان کو قانونی جنگ لڑنا جاری رکھنا ہو گی۔
’انھیں عدالتیں کئی مقدمات میں سزائیں دے چکی ہیں۔ یہ سزائیں معطل یا ختم کروانے کے لیے بھی انِھیں عدالتوں ہی میں جانا پڑے گا۔ بدلی ہوئی صورتحال کا انھیں سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے عدالتوں میں کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا۔‘
حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے میں عمران خان کو اس لیے بھی مشکلات کا سامنا ہو گا کہ ’وہ کئی مقدمات جیسے سائفر کیس، توشہ خانہ یا اثاثہ جات کا کیس ہو ان میں بظاہر غلطی تسلیم کر چکے ہیں۔‘
وکیل حافظ احسن کھوکھر کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو سزاؤں پر عدالتی ریلیف ملنے کے امکانات اس لیے بھی کم نظر آتے ہیں کہ مرکز میں اُن کی جماعت حکومت بناتی نظر نہیں آ رہی۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کی موجودگی سے فی الفور اس حد تک فائدہ ضرور ہو گا کہ اب اس طرح کے فورمز پر سابق وزیراعظم کے حق میں آوازیں متواتر بلند ہوں گی اور اُن کیسز اور اس طریقہ کار پر بھی دوسری رائے سامنے آئے گی جن کے تحت عمران خان کو سزائیں ہوئی ہیں۔
عمران خان کی سزائیں ختم ہونے کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر اور آئینی قوانین کے ماہر ایک وکیل اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ عمران خان کی سزا ختم ہونے اور جیل سے باہر آنے کے دو راستے ہو سکتے ہیں۔
ایک یہ کہ ان کی جماعت مرکز میں حکومت بنا لے، ان کا وزیراعظم بن جائے، وہ صدر کو ایڈوائس کرے کہ عمران خان کی سزائیں ’کمیوٹ‘ یعنی کم کر دی جائیں۔
’اس صورت میں وہ باہر تو آ جائیں گے لیکن ان کا لیگل سٹیٹس بری ہونے کا نہیں ہو گا۔ یعنی اخلاقی طور پر وہ عدالتی عمل سے گزر کر اور بری ہو کر رہائی نہیں پا رہے ہوں گے۔‘اُن کے خیال میں دوسرا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ ’ان کی جماعت کی حکومت بن جائے اور پھر وہ ادارے جو ان کے خلاف مقدمات میں استغاثہ ہیں وہ عدالتوں سے اپنے مقدمات یا درخواستیں واپس لے لیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں بھی سیاسی رہنماؤں کے کیسوں میں ایسا متعدد مرتبہ ہو چکا ہے۔‘
وکیل اور قانونی ماہر اسد جمال بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک راستہ ہو سکتا ہے تاہم ان کے خیال میں استغاثہ کیس واپس نہ بھی لے تو سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس راستہ ہو گا۔
’وہ اپنی سزاؤں کے خلاف اپیلیں کر سکتے ہیں اور ان کے خلاف مقدمات کمزور قانونی بنیادوں پر قائم ہیں، ان میں بہت سی بے ضابطگیاں ہیں، اس لیے عدالتیں ان کی سزائیں فوری طور پر معطل کر سکتی ہیں بلکہ ختم بھی کر سکتی ہیں۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے امکانات اسی وقت ہوں گے اگر مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت بن جائے جس کا امکان دیگر بڑی پارٹیوں کے اتحاد کے باعث کم نظر آ رہے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔ اگلا پارٹ کل تک انشاءاللہ شائع ہو جائے گا ۔
میرا نام ٫فہد عبداللّٰہ مغل ہے
میں نے سوشل نیٹ ورکس پر تقریبا زیادہ تر ان لوگوں کو شامل کیا ہے جن کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ شیئر کیا ہے، حالانکہ وقت کے ساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ جس کو بھی میری زندگی کے کسی بھی مرحلے پر مجھ سے ملنے کا موقع ملا وہ کم از کم میرے بارے میں کچھ جانتا ہے۔ ہمارا اب زیادہ رابطہ نہیں ہو سکتا، لیکن یہ سب اچھا ہے۔ میں نے "دوستوں کے درمیان دوبارہ اتحاد" نامی ایک تجربے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ تصویر کے بغیر پوسٹ کون پڑھتا ہے، کیونکہ ہم جلدی میں رہتے ہیں اور اپنے اہم لمحات کو بھول جاتے ہیں۔
اگر کوئی اس پیغام کو نہیں پڑھتا ہے تو یہ صرف ایک سماجی تجربہ ہو گا، لیکن اگر آپ کو اسے آخر تک پڑھنے کو ملتا ہے، تو میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے بارے میں ایک لفظ لکھیں، جیسے کوئی چیز، کوئی جگہ، کوئی شخص، ایک لمحہ، کوئی ایسی چیز جس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ہمارا تھا یا ہمارے پاس ہے۔ پھر متن کو کاپی کریں اور اسے اپنے پروفائل کے طور پر رکھیں۔ میں آپ کی وال پر جاؤں گا کہ وہ لفظ لکھوں گا جو مجھے آپ کی یاد دلاتا ہے۔ براہ کرم تبصرہ نہ کریں اگر آپ کے پاس اسے کاپی کرنے کا وقت نہیں ہے کیونکہ اس سے تجربہ برباد ہو جائے گا۔ آپ کا شکریہ، اور شروع میں اپنا نام تبدیل کرنا یاد رکھیں، بالکل آپ کی طرح، لوگ آپ کو بتائیں گے کہ وہ آپ کو کیسے یاد کرتے ہیں۔
متوقع نئی حکومت
جمیعت وحدت المسلمین (آزاد)، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم، ق لیگ ، مینگل
وزرات عظمی بلاول بھٹو اور گوہر خان کے درمیان ڈھائی ڈھائی سال
تعاون یا کم ازکم خاموشی پر ن لیگ کو پنجاب حکومت کی پیش کش
سندھ کابینہ میں ایم کیوایم کا حصہ پچاس فیصد ہوگا
پنجاب کے نگراں وزیراعلی کی ثالثی میں بات چیت کا آغاز
جہاں میلہ لگا ہے ناصحوں کا غمگساروں کا
وہی ہے کوچہ بے اعتباراں ہم نے کہتے تھے
جرمنی کے مشرقی صوبے سیکسنی میں پولیس نے دوران تفتیش تقریباﹰ دو بلین یورو مالیت کے بِٹ کوائنز قبضے میں لے لیے۔ اس وقت ایک بِٹ کوائن کی مالیت تقریباﹰ چالیس ہزار یورو ہے اور ضبط کردہ بِٹ کوائنز کی تعداد پچاس ہزار بنتی ہے۔
Confident body language ] personality development 😎💯🚶🏃🧍🧎👃👂🦶🦵👍👎🫶🙌👐🤲🤝🤜🤛✊👊🫳🫴🫱🫲🫸🤏🤌🤙👌🫵👉👈☝️👆🫰🤟🖐️] Today best My Vlog.
پاکستان میں کزن میرج کی روایت پر گفتگو اہم ترین معاشرتی ضروریات میں سے ایک ہے۔
جہاں ذاتی پسند پر خاندانی اتحاد کو ترجیح دی جائے، روایات کو برقرار رکھنے کا دباؤ خوشی کے حصول اور اپنے جیون ساتھی کے انتخاب میں رکاوٹ بنتا ہو، وہاں ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔
پاکستان میں جیسے ہی کوئی لڑکا یا لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں لوگ ان سے بہت سی توقعات جوڑ لیتے ہیں۔ خاص طور پر شادی کے بارے میں، کبھی کبھی تو لڑکا لڑکی پیدا ہوتے ہی شادی کے بندھن میں باندھ دئیے جاتے ہیں۔ خاندان ان کو کچھ اصولوں پر عمل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں بالکل دیر نہیں کرتا۔ جیسے کہ ان کو کیسے رہنا چاہیے اور ان کو کس سے شادی کرنی چاہیے۔ کسی بھی اوسط انسان کو یہ ایک بھاری بوجھ کی طرح محسوس ہو سکتا ہے، جو ایک آسان چیز کو بھی مشکل بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔پاکستان میں کزن میرج بہت عام ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان خاندانی شادیوں کے رجحان کے دلچسپ پہلو پر بات کی جائے۔ آج اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم کیسے خون کے رشتے کو اور گہرا کرتے ہیں۔
کزنز کی شادیاں طویل عرصے سے پاکستانی ثقافت سے جڑی ہوئی ہیں، جو بہت سی بحثوں کو جنم دیتی ہے اور روایت سے بالاتر ہو کر صحت، سماجی صورتحال اور ذاتی پسند کے دائروں میں داخل ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ شادیاں تاریخی رسوم و رواج میں گہری جڑیں رکھتی ہیں لیکن موجودہ پاکستانی معاشرے میں ان کے اثرات کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔
کزن میرج کے بارے میں سب سے اہم خدشات ممکنہ طور پر صحت سے منسلک ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ قریبی رشتہ داروں کے مابین ازدواجی تعلق سے پیدا ہونے والی اولاد میں جینیاتی عوارض کے بڑھنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ چونکہ پاکستان پہلے سے ہی صحت کے نظام میں مشکلات کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں بچوں کی دیکھ بھال کا بوجھ خاندانوں کے لیے جذباتی اور مالی طور پر بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
اگر جینیاتی پہلو سے ہٹ کر بات کریں تو کزن سے شادیاں سماجی دباؤ اور خود مختاری کے مسائل سے بھی دو چار کرتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خاندانی توقعات کو فوقیت حاصل ہو اور فرد اپنے آپ کو ثقافتی قدغنوں کی وجہ سے مجبور پاتا محسوس کرتا ہو۔ جہاں ذاتی پسند پر خاندانی اتحاد کو ترجیح حاصل ہو، روایات کو برقرار رکھنے کا دباؤ خوشی کے حصول اور اپنے جیون ساتھی کو منتخب کرنے کی آزادی میں رکاوٹ بنتا ہو، جو انفرادی رضامندی کی حیثیت ختم کرنے کا باعث بنتا ہو۔ یہ کوئی خوشحال معاشرے کی تشکیل نہیں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ شادیوں یا کسی بھی ریت رواج پر کھل کر اخلاص نیت سے بات ہونی چاہیے اور اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ارد گرد کے سماجی دباؤ کو حل کرنے کے لیے ایک اہم نقطہ نظر کی ضرورت بھی ہے. ذاتی انتخاب کے بارے میں کھلے مکالمے کی حوصلہ افزائی کرنا اور پرانے اصولوں کو چیلنج کرنا ایک زیادہ جامع معاشرے کو فروغ دینے کی جانب اہم قدم ہوگا۔ فرد کے خودمختاری کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے، پاکستان ایک ثقافتی تبدیلی کی راہ ہموار کر سکتا ہے جو تنوع کو اپنائے اور افراد کو اپنی منزل خود طے کرنے کا موقع فراہم کرے۔
پاکستان میں کزن میرج پر گفتگو روایت اور معاشرے کی ابھرتی ہوئی ضروریات میں سے ایک ہے۔ روایت اور جدیدیت کے درمیان توازن قائم کرنے میں اس پیچیدہ خطہ کے لئے راستہ بنا سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند، زیادہ بااختیار مستقبل کو یقینی بنانے کی کلید ہے ۔
کمنٹ میں ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کیجئے ۔
قادر خان: قادر خان ایک تجربہ کار اداکار تھے جنہوں نے لاتعداد ہٹ فلمیں دی ہیں۔ کیمرے پر اپنی صاف ستھری اور شاندار مزاحیہ ٹائمنگ کے ساتھ ہر کسی کو ہنسانے والے قادر خان ایک بہترین اسکرپٹ رائٹر بھی تھے۔ قادر خان کی کئی فلمیں بلاک بلاسٹر ہٹ ثابت ہوئی ہیں جن میں ’اگنی پتھ‘، ’ امر اکبر انتھونی ‘’ قلی نمبر ون‘ اور ’مَیں کھلاڑی تو اناڑی ‘ شامل ہیں۔
جیا بچن: امیتابھ بچن کی مشہور فلم ’’شہنشاہ‘‘ کی اسکرپٹ ان کی اہلیہ جیا بچن نے لکھی تھی جسے بعد میں ٹینو آنند کے والد اندرراج آنند نے مزید بہتر بنایا تھا۔
سلمان خان : سلمان خان جو اپنے ایکشن اور مکالمات سے مداحوں کے دل پر راج کرتے ہیں، نے اپنی کئی فلموں کی اسکرپٹ اور ڈائیلاگز خود لکھے ہیں جن میں’’ویر‘‘ اور’’دبنگ ۳‘‘ قابل ذکر ہیں۔
رینوکا کنزورو: فلم ’ جانے تو یاجانے نہ‘‘کی کردار مالا، جنہوں نے فلم میں ایئر ہوسٹس کا کردار ادا کیا تھا، نے اداکاری کے علاوہ فلم ’’بریک کے بعد‘‘ کی کہانی بھی لکھی ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار عمران خان نے ادا کیا تھا۔
کالکی کوچلن: ’’دیٹ گرل اِن یلو بوٹ‘‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والی کالکی کوچلن نے اس فلم کی کہانی بھی لکھی تھی۔
رینوکا کنزورو: فلم ’ جانے تو یاجانے نہ‘‘کی کردار مالا، جنہوں نے فلم میں ایئر ہوسٹس کا کردار ادا کیا تھا، نے اداکاری کے علاوہ فلم ’’بریک کے بعد‘‘ کی کہانی بھی لکھی ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار عمران خان نے ادا کیا تھا۔
اجے دیوگن: ہدایت کاری کی بہترین صلاحیتو ں کا مظاہرہ کرنے والے اجے دیوگن نے اپنی پہلی ہدایت کردہ فلم کی کہانی بھی خودہی لکھی۔ انہوں نے’’یو می اور ہم‘‘ کی اسکرپٹ تین دیگر رائٹر کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔ اس فلم میں اجے اور کاجول نے مرکزی کرادارادا کیا تھا۔
Part2
سنی دیول: ’’تاریخ پر تاریخ‘‘ اور ’’ڈھائی کلو کا ہاتھ‘‘ جیسے مشہور ڈائیلاگز سے پہچانے جانے والے اداکار سنی دیول نےفلم ’’گھائل : ونس اگین‘‘ کی کہانی لکھی تھی جو اُن کی فلم ’’گھائل‘‘ کا سیکول تھی۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the public figure
Telephone
Website
Address
Pakistan Multan
Multan
60600
73 A Jaleel Abad Colony
Multan, 60000
شاعر ، ادیب اور صحافی رضی الدین رضی ۔ ۔ چارشعری مجموعوں
Multan, 60000
جنرل منیجر ساؤتھ اوصاف میڈیا گروپ CEO DAHA Associates Builders And Developers Multan
Mohalla Langahabd Rohillianwali
Multan, 34400
My page is about random content
Multan, 54572
Thank you so much for all your support and also thank you for all your follow like share & Comments