Adv Javed Afridi
The power of lawyer is in the uncertainty of the law
Law sometimes sleep,but never die
The entries in the Nikah Nama, described in form II of the Rules of 1961, are not conclusive nor can the intention of the contracting parties be ascertained merely on the basis of its headings.
CIVIL PETITION NO.2673 OF 2022.
Relevant Law:
Muslim Family Laws Ordinance, 1961
Main Observations:
1- The question that has arisen for our consideration is how the terms and conditions stipulated in a Nikah Nama should be interpreted and if there is doubt and ambiguity regarding the intent of the parties, how can it be resolved.
2-There is a strong presumption of truth regarding the entries recorded in the Nikah Nama. In exercise of powers conferred under section 11 of the Ordinance of 1961, the competent authority has made the West Pakistan Rules under the Muslim Family Laws Ordinance, 1961.
3-The matters relating to registration of marriages and the issuance of licenses to Nikah Registrars are regulated under the Rules of 1961. Form II of the Rules of 1961 has prescribed the form of Nikah Nama and its entries. The titles of columns 13 to 16 relate to 'dower' while the heading of column 17 is 'special conditions, if any'. As will be explained later, neither the prescribed form nor the headings of the entries contained therein are conclusive for
ascertaining the intent of the two parties to the marriage contract.
4- In case the parties do not specify the nature of the payment of dower it is presumed to be prompt as provided under section 10 of the Ordinance of 1961.The dower becomes the exclusive property of the wife and it is given by the husband as a symbol of respect for her Dower has the benefit of serving as a financial security in the case of dissolution of marriage
or in the event of the passing away of the husband.
5- The form of Nikah Nama nor its headings are conclusive or sacrosanct. It is the intent of the parties which would be the determining factor.
6- The entries in the Nikah Nama, described in form Il of the Rules of 1961, are not conclusive nor can
the intention of the contracting parties be ascertained merely on the basis of its headings.
7- The headings, therefore, are not sufficient to determine the intention of the two parties to the Nikah Nama. It is a settled law that any ambiguity in a contract is to be resolved by ascertaining the real intention of the parties. In order to interpret the terms of a contract, the court has to first ascertain the intention of the parties. The contract has to be read as a whole and the words are to be taken in their literal, plain and ordinary meaning. The court cannot imply, while interpreting the contract, something that is inconsistent with its express terms. Moreover, a stipulation not expressed in the written contract can also not be applied merely because it may appear to be reasonable to the court.
PLJ 2024 CrC 79
منشیات کیخلاف مہم کے دوران عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ پولیس مہم کو کامیاب ظاہر کرنے کیلئے سابقہ ریکارڈ رکھنے والوں پر فرضی برآمدگی ظاہر کرکے اور جھوٹی شہادتیں بنا کر مقدمات درج کر دیتی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کا تازہ ترین فیصلہ
It is unfortunately a growing phenomenon in our police culture that subordinate police officials book the persons having previous criminal record in narcotic cases by fabricating false evidence only to make the campaign or ‘crackdown’ ordered by the superior officers against the addicts or peddlers, successful that practice cannot at all be endorsed and encouraged. Order in the society is to be maintained and the crime is to be curbed by ensuring untainted justice for all. Viable expeditious proceedings in the case is also a requirement of fair trial. In this case, it prima facie, seems that right of fair trial guaranteed by the Constitution stands infringed because of apparently willful abstaining from submission of challan to the Court in time. It prima facie, stinks mala fide on the part of concerned officials which makes this case one of further inquiry into petitioner’s guilt. Finding the unjustifiably belated submission of challan.
Bail allowed.
Crl. Misc.34710/23
Shehzad . Vs The State etc.
Mr. Justice Syed Shahbaz Ali Rizvi
آئین 1973 کا تعارفی حصہ، جو اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے، اور اختیار پاکستان کے عوام استعمال کریں گے لیکن اسلام کی حدود میں، ریاست کو لوگوں کے ذریعے چلانے کا اختیار اللہ کی مقدس امانت ہے۔ ، جو لوگوں کو دیا گیا۔
Constitution 1973 introductory part,which begins with name of Allah and says that sovereignty belongs to Allah,and authority to be exercised by people of pakistan but with in the limit of Islam,this authority to rule the state by people is a sacred trust of Allah,given to people
Cyber stalking
سائبر اسٹاکنگ۔ (1) وہ شخص سائبر اسٹاکنگ کا جرم کرتا ہے
جو کسی بھی شخص کو مجبور یا ڈرانے یا ہراساں کرنے کی نیت سے، معلوماتی نظام، معلوماتی نظام نیٹ ورک، انٹرنیٹ، ویب سائٹ، الیکٹرانک میل یا کمیونیکیشن کے کسی بھی دوسرے اسی طرح کے ذرائع کا استعمال کرتا ہے کہ--
(ا) ایک شخص کا پیچھا کرے یا رابطہ کرے یا ایسے شخص سے رابطہ کی کوشش کرے تاکہ باوجود ایسے شخص کی جانب سے عدم دلچسپی کے واضح اشارے کے باوجود بار بار ذاتی تعلق قائم کرنے کی کوشش کرے؛
(ب) کسی شخص کے انٹرنیٹ، الیکٹرانک میل، ٹیکسٹ پیغام یا کسی بھی دوسری قسم کی الیکٹرانک مواصلات کے استعمال کی نگرانی کرے، یا کسی شخص کی جاسوسی یا نگرانی کرے جس سے اس شخص کے دل میں تشدد کا خوف یا
(ج) سنگین پریشانی یا بے چینی پیدا ہوتی ہو، یا
(د) کسی شخص کی تصویر کھینچے یا ویڈیو بنائے اور اس کی رضامندی کے بغیر ایسے طریقے سے پیش کرے یا تقسیم کرے جو کسی شخص کو نقصان پہنچائے۔
(2) جو کوئی بھی ذیلی دفعہ (1) میں بیان کردہ جرم کرتا ہے اسے تین سال تک کی قید یا دس لاکھ روپے تک کے جرمانے یا دونوں سے سزا دی جائے گی:
فراہم کی گئی ہے کہ اگر سائبر اسٹاکنگ کا شکار بچہ ہو تو سزا پانچ سال تک بڑھ سکتی ہے یا دس ملین روپے تک کے جرمانے سے یا دونوں سے۔
(3) کوئی بھی متاثرہ شخص یا اس کا سرپرست، جہاں تک کہ وہ شخص نابالغ ہو، ذیلی دفعہ (1) میں بیان کردہ معلومات کو ہٹانے، تباہ کرنے یا اس تک رسائی روکنے کے لئے اتھارٹی سے درخواست کر سکتا ہے اور اتھارٹی، ایسی درخواست موصول ہونے پر، فوری طور پر حالات کے مطابق مناسب سمجھی گئی احکامات جاری کرے گی جن میں معلومات کو ہٹانے، تباہ کرنے، منتقلی روکنے یا اس تک رسائی روکنے کا حکم شامل ہو سکتا ہے اور اتھارٹی اپنے لائسنس یافتہ افراد کو بھی ہدایت کر سکتی ہے کہ وہ بشمول ٹریفک ڈیٹا ایسی معلومات کو محفوظ بنائیں۔
The Supreme Court of Pakistan will hear the appeal of Asghar Ali, the convict in the murder case of 6 people of Khushab police station, Nowshera, on April 17. The Supreme Court has summoned the parties today. He was hanged on May 3, 2016. Asghar Ali was sentenced to death by session judge Khizr Hayat in 2010. The criminal was hanged 9 years ago, but the Supreme Court of the country is calling for his appeal today. The lawyer to whom the notice has been issued by the court has also left the world two years ago.
Sab Ko
ہمیں خط موصول ہوئے ہیں،آج کی سماعت میں تاخیر کی ایک وجہ یہی تھی،بنیادی طور پر ہائیکورٹ کو تھریٹ کیا گیا ہے، چیف جسٹس عامر فاروق کے اہم ریمارکس،سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی۔۔۔!!!
میں دو گواہوں کے بیانات پر دلائل کے بعد اپنی گزارشات عدالت کے سامنے رکھوں گا، اعظم خان کے بیان میں کیا تبدیلی ہوئی، تفصیلات لکھ کر لایا ہوں، بیرسٹر سلمان صفدر
سائفر کا طریقہ کار کیا ہے اس متعلق دستاویزی شواہد بھی پیش کر دیں، چیف جسٹس عامر فاروق
اعظم خان کی گواہی میں کہا کہ عمران خان نے جو جلسے میں کاغذ لہرایا وہ پڑھ کر نہیں سنایا گیا اس لیے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سائیفر تھا یا نہیں، بیرسٹر سلمان صفدر
اعظم خان نے اپنی گواہی میں کہا کہ سائفر کی کاپی ایک سال کے اندر وزارت خارجہ کو بھیجی جانی ہوتی ہے تاہم میرے عہدے پر رہنے تک سائفر کی کاپی مجھے واپس نہیں دی گئی کیونکہ وہ کاپی گم ہوگئی تھی اور وزیراعظم نے ملٹری سیکرٹری کو تحقیقات کا حکم دیا تھا، بیرسٹر سلمان صفدر
"یہ کیسے ہوسکتا ہے ایک بیان میں کچھ اور ہے اور دوسرے میں کچھ اور۔۔؟؟؟
کیا آپ نے اعظم خان کو کنفرنٹ کیا تھا کہ اس وقت آپ نے یہ کہا تھا اور اب آپ نے کچھ اور کہا ہے"۔۔؟؟؟
دالت
"اعظم خان پر ہم نے نہیں ڈیفنس کونسلز نے جرح کی تھی"۔
بیرسٹر سلمان صفدر
"اعظم خان نے یہ نہیں کہا کہ عمران خان نے سائفر کو ٹوسٹ کیا۔۔
اعظم خان نے یہ بھی نہیں کہا کہ عمران خان نے اپنے سیاسی مفاد کیلئے سائفر کا استعمال کیا۔۔
اعظم خان نے کہا کہ میرے سامنے عمران خان نے ملٹری سیکورٹی سے کہا کہ سائفر کی کاپی گم ہوئی۔۔ اسے ڈھونڈ لیں۔۔
بیان میں بتایا کہ ایک پیپر ان کے پاس رہا۔۔ مگر کھول کر نہیں دکھایا اور نہ سامنے پڑھا"۔
بیرسٹر سلمان صفدر
اسکے بعد باقی بچتا کیا ہے ،؟
عدت میں نکاح کا کیس سننے والے جج قدرت اللہ نے وکلا کو بتایا کہ اس وقت تک بیٹے کا ولیمہ نہیں کرسکتا جب تک عمران خان کے خلاف فیصلہ نہ سناوں، عمران خان کا انکشاف
میری بیوی کے ساتھ جو کیا جارہا ہے وہ خطرناک ہے، مجھے ڈرانے کے لیے بشری بی بی کو زہر دیا جا رہا ہے، بشری بی بی کو زہر دیا جائے گا تو کیا میں خاموش بیٹھوں گا،
عمران خان
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو سیلوٹ کرتا ہوں کہ انہوں نے آواز اٹھائی، امید ہے وہ ملک بچا لیں گے، عمران خان
"اعظم خان کے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے بیان میں فرق ہے۔۔
پرانے بیان سے پِھرنا ملزم کے حق میں جاتا ہے"۔
سلمان صفدر
"جب اعظم خان کا 164 کا بیان ہوا کیا وہ کسٹڈی میں تھا"۔۔؟؟؟
چیف جسٹس عامر فاروق
"اعظم خان نے 161 کا بیان ریکارڈ ہوا اسی وقت 164 کا بیان بھی ریکارڈ کروا دیا گیا۔۔ شریک ملزمان کو نوٹس تک نہیں کیا گیا"۔
بیرسٹر سلمان صفدر
سائفر کیس میں اہم ترین ریمارکس!
یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک سول سرونٹ (اعظم خان) اچانک غائب ہو جائے، پھر واپس آ کر کہے کہ کسی کا کیا تعلق کہ وہ کہاں تھا، چلیں آپ کسی اور کو بتا کر نہیں جاتے، کیا اپنے بیوی بچوں کو بھی بتا کر نہیں جاتے کہ کہاں جا رہے ہیں؟ پھر وہ گھر والے عدالتوں میں آ کر درخواستیں دائر کرتے ہیں، ہم اس معاملے پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے بھی پوچھیں گے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے اہم ترین ریمارکس
سائفر اپیلوں پر سماعت ۔۔
اعظم خان نے ضمانت کے لیے رجوع نہیں کیا مگر اسد عمر نے تو درخواست ضمانت بھی دی تھی،اعظم خان کو سترہ ماہ انکوائری میں شامل ہونے کے لیے طلبی کے نوٹس جاتے رہے ہیں، 15 تاریخ کو مقدمہ درج ہوتا ہے مگر 16 تاریخ کو اعظم خان 161 کا بیان ریکارڈ کروانے آجاتا ہے، بیرسٹر سلمان صفدر
*ہائیکورٹ ججز کے خط کے بعد نئی صورت حال سامنے آگئی اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو مشکوک خطوط موصول ، عدالتی ذرائع کے مطابق ایک جج کے اسٹاف نے خط کھولا تو اس کے اندر پاؤڈر موجود تھا اسلام آباد پولیس کی ایکسپرٹس کی ٹیم اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئی خط کے اندر ڈرانے دھمکانے والا نشان بھی موجود ، کسی خاتون نے بغیر اپنا ایڈریس لکھے خط ہائیکورٹ ججز کو ارسال کئے*🚨
ججز کو مشکوک خطوط موصول ،
اسلام آباد ہائیکورٹ انتظامیہ نے دہشتگردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ،
*نامعلوم افراد کی ہائی کورٹ کے ججوں کو خطوط کے ذریعے دھمکیاں*
اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججز کو آٹھ لفافوں میں خطوط بھیجے گئے،خطوط میں عجیب سا پاؤڈر تھا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں تھی🚨
*اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو فوری طلب کر لیا*🚨
چیف جسٹس عامر فاروق سمیت 8 ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوگئے ،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججز کو آٹھ لفافوں میں خطوط بھیجے گئے ،
https://chat.whatsapp.com/KRcLO7mIxksHTrCoLiz7rb
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ذرائع کے مطابق تمام خطوط میں ایک ہی طرح کے ٹائپ کیے گئے کاغذ موجود ہیں، تحریر پڑھی نہیں جا سکی ،
ججز پیغام دیتے ہیں کہ وہ بے بس ہیں، پولیس کہتی ہے ہم پر دبائو ہے، جج محمد بشیر دبائو کی وجہ سے 5 مرتبہ جیل کے ہسپتال گئے، جج قدرت اللہ نے وکلا کو بتایا کہ اس وقت تک بیٹے کا ولیمہ نہیں کرسکتا جب تک فیصلہ نہ سنائوں، تمام ججز باہر سے کنٹرول ہو رہے تھے، عمران خان🚨
*اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کو خطوط میں “انتھراکس” پاؤڈر ڈال کر بھیجا گیا*🚨
مشکوک خط کھولنے والے اسلام آباد ہائیکورٹ کے عملے کی آنکھوں اور جلد پر جلن کی شکایت۔۔!!
خطوط کے معاملے پر ایس پی سی ٹی ڈی اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے۔۔!!
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط،اسلام آباد ہائیکورٹ انتظامیہ کا اسلام آباد پولیس کو مقدمہ درج کرنے کی ہدایت۔۔۔!!!
بریکنگ: اسلام آباد ہائی کورٹ سے بڑی خبر۔
چھ ججز نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کےججز کا عدالتی کیسز میں انٹیلیجنس ایجنسیز کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط!
بریکنگ نیوز ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق بڑی چارج شیٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھ دی
Actus non facit reum nisi mens sit rea"
an act does not make a person guilty unless (their) mind is also guilty"
اس کا مطلب ہے کہ کسی عمل سے انسان مجرم نہیں بنتا جب تک اسکا ذہن بھی مجرم نہ ہو۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جرم کا ارتکاب صرف اس وقت مانا جاتا ہے جب کسی نے جان بوجھ کر کوئی غلط کام کیا ہو اور اسکے ارادے بھی غلط ہوں۔
Article 37:
یہ مضمون معاشرتی انصاف کے فروغ اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ خصوصی طور پر پسماندہ طبقات اور علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو فروغ دے۔ اس میں بے سوادی کو ختم کرنا اور ممکنہ کم ترین مدت میں مفت اور لازمی ثانوی تعلیم فراہم کرنا شامل ہے۔
ریاست کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم عام طور پر دستیاب ہو اور اعلیٰ تعلیم ہر ایک کے لیے میرٹ کی بنیاد پر یکساں طور پر قابل رسائی ہو۔ ریاست کو کم لاگت اور تیز رفتار انصاف فراہم کرنے، کام کی حالتوں کو انسانی بنانے، اور یہ یقینی بنانے کی ذمہ داری بھی ہے کہ بچوں اور خواتین کو ان کی عمر یا جنس کے لیے نامناسب پیشوں میں ملازمت نہ دی جائے۔
ریاست کو تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف علاقوں کے لوگوں کو قومی سرگرمیوں، بشمول پاکستان کی خدمت میں ملازمت، میں مکمل طور پر شرکت کے قابل بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ، ریاست کو فحاشی، جوا، نقصان دہ منشیات کے استعمال، اور فحش ادبیات و اشتہارات کی چھپائی، اشاعت، گردش اور نمائش کو روکنے کی ذمہ داری ہے۔
مزید برآں، ریاست کو حکومتی انتظامیہ کو مرکزیت ختم کرنے اور عوام کی سہولت اور ضروریات کے مطابق اپنے کاروبار کی جلدی تکمیل کو سہل بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
Article 37. Promotion of social justice and eradication of social evils.
The State shall:
(a) promote, with special care, the educational and economic interests of backward classes or areas;
(b) remove illiteracy and provide free and compulsory secondary education within minimum possible period;
(c) make technical and professional education generally available and higher education equally accessible to all on the basis of merit;
(d) ensure inexpensive and expeditious justice;
(e) make provision for securing just and humane conditions of work, ensuring that children and women are not employed in vocations unsuited to their age or s*x, and for maternity benefits for women in employment;
(f) enable the people of different areas, through education, training, agricultural and industrial development and other methods, to participate fully in all forms of national activities, including employment in the service of Pakistan;
(g) prevent prostitution, gambling and taking of injurious drugs, printing, publication, circulation and display of obscene literature and advertisements;
(h) prevent the consumption of alcoholic liquor otherwise than for medicinal and, in the case of non-Muslims, religious purposes; and
(i) decentralise the Government administration so as to facilitate expeditious disposal of its business to meet the convenience and requirements of the public.
PLJ 2024 SUPREME COURT (CRIMINAL) 8
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ہدایت کی ہے کہ موقع پر موجود پولیس اہلکار منشیات کے مقدمات میں قانون شہادت کے مطابق بر آمد ہونے والی منشیات،ملزم اور موقع واردات کی تصاویر اتارا کریں تاکہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے ملزم موقع کے شواہد کو نہ جھٹلا سکے ،عدالت نے قرار دیا کہ موبائل فون ہر پولیس اہلکار کی جیب میں موجود ہوتا ہے اور قانون شہادت کے مطابق موقع کی تصاویر یا عکس بندی قابل قبول ثبوت ہے ،عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے قراردیا کہ منشیات سے پورا معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے ،نہ صرف منشیات کے عادی لوگ بلکہ ان سے جڑے ہوئے افراد کی زندگیاں مشکلات اور مسائل کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتی ہیں،عدالت نے انسداد منشیات ایکٹ کے مطابق علاقے کے معززین کی موجودگی میں تلاشیاں لینے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ پولیس اور اے این ایف کے اہلکار موبائل فون کا استعمال نہیں کرتے ،کم ازکم موقع کی تصاویر اتارنے کیلئے موبائل فون کا استعمال کیا جائے ،قانون شہادت کے سیکشن 164کے تحت یہ قابل قبول ثبوت ہے ،عدالت نے چالان جمع کرنے میں تاخیر اور قانون کے مطابق شواہد جمع نہ کرنے پر ملزم کی ضمانت کی درخواست ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کرلی ،دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ صرف پنجاب میں ہزاروں پراسیکیوٹرز تعینات ہیں جن پر اربوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں ،چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں ،بدلے میں ٹیکس دہندگان کو کیا دے رہے ہیں۔
حکم نامے کی کاپی اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کے سربراہ، سیکریٹری وزارت نارکوٹکس کنٹرول، تمام آئی جیز اور صوبائی ہوم ڈپارٹمنٹ کو بھجوائی جانے کا حکم بھی صادر کیا گیا۔
5. We are aware that section 25 of the Act excludes the applicability of section 103 of the Code of Criminal Procedure, 1898 which requires two or more respectable inhabitants of the locality to be associated when search is made. However, we fail to understand why the police and members of the Anti-Narcotics Force (‘ANF’) do not record or photograph when search, seizure and/or arrest is made. Article 164 of the Qanun-e-Shahadat, 1984 specifically permits the use of any evidence that may have become available because of modern devices or techniques, and its Article 165 overrides all other laws.
6. In narcotic cases the prosecution witnesses usually are ANF personnel or policemen who surely would have a cell phone with an in-built camera. In respect of those arrested with narcotic substances generally there are only a few witnesses, and most, if not all, are government servants. However, trials are unnecessarily delayed, and resultantly the accused seek bail first in the trial court which if not granted to them is then filed in the High Court and there too if it is declined, petitions seeking bail are then filed in this Court. If the police and ANF were to use their mobile phone cameras to record and/or take photographs of the search, seizure and arrest, it would be useful evidence to establish the presence of the accused at the crime scene, the possession by the accused of the narcotic substances, the search and its seizure. It may also prevent false allegations being levelled against ANF/police that the narcotic substance was foisted upon them for some ulterior motives.
7. Those selling narcotic substances make their buyers addicts, destroy their state of mind, health and productivity, and adversely affect the lives of their family members. The very fabric of society is damaged. ANF and the Police forces are paid out of the public exchequer. It is incumbent upon them to stem this societal ill. The Prosecution services, paid out of the public exchequer, is also not advising the ANF/police to be do this simple act of making a recording and/or taking photographs as stated above.
8. A consequence of poor investigation, not supported by evidence adversely affects the cases of the prosecution. The courts, which too are sustained by the public exchequer, are burdened with having to attend bail applications because the commencement and conclusion of the trial is delayed. It is time that all institutions act professionally and use all available lawful means to obtain evidence. A credible prosecution and adjudication process also improves public perception. We expect that all concerned will attend to these matters with the attention that they demand, because the menace of narcotic substances in society has far reaching consequences: by destroying entire households, creating societal problems and casting a heavy financial burden on the State when drug addicts are required to be treated. Moreover, research indicates that drugs addicts resort to all methods to obtain drugs, including committing crimes.
9. Copy of this order be sent to the Secretary Ministry of Narcotics Control, Government of Pakistan, Director-General, Anti-Narcotics Force, the Secretaries of the Home Departments of all the provinces, InspectorGenerals of Police of all the provinces and of the Islamabad Capital Territory. They may also consider whether they want to amend the ANF/Police rules to ensure making video recordings/taking photographs whenever possible with regard to capturing, preserving and using such evidence at trial.
Crl.P.1192/2023
Zahid Sarfaraz Gill v. The State thr. A.G., Islamabad
ایک مقدمہ میں ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری یا بعد از گرفتاری منظور ہونے کے بعد اگر اسی مقدمہ مزید دفعہ یا دفعات ایزاد ہونے پر اس ملزم کو اسکی پہلی ضمانت مجاز عدالت سےمنسوخ کرائے بغیر گرفتار نہ کیا جاسکتا ہے
An accused who has been granted bail, whether pre-arrest or post-arrest, by a court of competent jurisdiction, cannot be arrested merely on addition of new offences unless cancellation of earlier bail is sought under section 497(5), Cr.P.C.
Shared by: Syed Naeem Ali Advocate
Crl. Misc.10162/24
Mujtaba Saleem Butt Vs Incharge Investigation AVLS etc
Mr. Justice Ali Zia Bajwa
2024 LHC 771
The judgment was pronounced on 20.02.2024 and after completion it was signed on 01.03.2024.
جھوٹا استغاثہ دائر کرنے والے شخص کے خلاف عدالت ضابطہ فوجداری کی دفعہ 250 کے تحت سزا دینے اور معقول جرمانہ ادا کرنے کا حکم صادر کر سکتی ہے.
2017 MLD 920
2022 SCMR 1187
جج کو یہ اختیار ھے کہ وہ گواھ کی گواھی کہ بارے میں ظاھری اور خفیہ انکوائری بھی کروا سکتہ ھے سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ۔
Penal Code ( XLV of 1860 ) --
Ss. 302 ( a ) & 304 --- Qall - i - amd liable to qisas - Witness , credibility of - Tazkiya - tul - shahoodModes to ascertain the credibility of a witness on the touchstone of tazkiya - tul - shahood explained .
The primary / foremost qualification for a person to appear as a truthful witness in a case falling under ' qisas ' is that he must fulfill the condition of tazkiya - tul - shahood . In ordinary meanings , it is an accepted rule of tazkiya - tul - shahood , that the credibility of the witness shall be examined through credible person of the same walk of life to which the witness belongs . Tazkiya - tul - shahood also entails an open and confidential inquiry regarding the conduct of the witness to ascertain whether the witness is credible or otherwise . The word ' from the same walk of life ' is most essential attribute regarding this aspect . However , there are two modes provided to evaluate tazkiya - tul - shahood , ( i ) open , ( ii ) confidential . To ascertain the credibility of a witness on the touchstone of tazkiya - tul - shahood , the Judge is under an obligation to inquire the credentials of the witness proposed to testify during the court proceedings to adjudge his truthfulness . Likewise , he can also adopt the way of secret inquiry to further satisfy his conscience about the credibility of the witness , for which he can delegate / appoint someone else to ascertain the truthfulness of the person claiming acquaintance with the facts and circumstances of the case . There is no constraint that with the changing situation in the advanced era , the modern devices / technical assistance can also be utilized to gauge the piousness of the witness to arrive at a conclusion which endorses the believability qua the character of the witness by the Presiding Officer.
"جو عدل کا بانی ہے، فیصلے کی راتوں میں تاروں سے باتیں کرتا ہے، دلوں کو چھو جاتا ہے، حقیقتوں کی کہانیوں میں ڈوب جاتا ہے۔"
"جو جج ہے، بے دردی کی بہتی ہوئی ریاست میں، انصاف کا چمکتا ہوا چراغ بنتا ہے، حقیقتوں کا جھیل ہوتا ہے۔"
عمر کے تعین کے بابت میڈیکل بورڈ کی رپورٹس اگر ایک دوسرے سے متضاد رپورٹیں ہوں تو اس رپورٹ کو ترجیح دی جائے گی جو ملزم کے حق میں ہوں گی۔۔۔
((PLD 2023 Supreme Court 536))
Juvenile --- Determination of age --- Report of Medical Board --- Conflicting reports --- View favourable to accused to be adopted --- Medical board constituted by the Trial Court to examine the accused submitted its report which consisted of three opinions of ( i ) Radiology Department , ( ii ) General Medicine Department , and ( iii ) Dental Department --- Although the age of the respondent was found to be 18 to 20 years and 16 to 18 years by the two departments but it was settled principle of law that if two views were possible from the evidence adduced in the case then the view favourable to the accused was to be adopted --- Trial Court had rightly declared the accused to be a juvenile at the time of commission of the offence -
بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی حکومت کا مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کا حکم برقرار رکھا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، بھارت سے الحاق کے بعد کشمیر نے داخلی خود مختاری کا عنصر برقرار نہیں رکھا، آرٹیکل 370 ایک عارضی شق تھی۔
عدالت نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے 30 ستمبر 2024ء تک الیکشن کرائے جائیں، بھارتی صدر کے پاس اختیارات ہیں، آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کی شمولیت کو منجمد نہیں کرتا، جموں و کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا۔
درخواست گزاروں نے بھارتی سپریم کورٹ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370 بحال کرنے کی استدعا کی تھی۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 20 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
درخواستوں میں جموں و کشمیر کو جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ 5 ستمبر کو محفوظ کیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف درخواستوں پر 16 دن تک سماعت ہوئی تھی۔
بھارت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی تھی۔
فیصلہ 476 صفحات پر مشتمل ہے
ﺑﻐﯿﺮ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍﺋﯿﮟ:
ﺩﻓﻌﮧ 6 ﻣﺴﻠﻢ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﻻﺯ ﺁﺭﮈﯾﻨﻨﺲ 1961 ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﻮﻧﯿﻦ ﮐﻮﻧﺴﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺩﯾﮕﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮕﺎ ۔ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﺳﺰﺍ ﺍﻭﺭ 5 ﻻﮐﮫ ﺟﺮﻣﺎﻧﮧ
ﮨﻮﮔﺎ
ﻟﮩﺬﺍ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﻗﺎﺑﻞ ﺳﺰﺍ ﺟﺮﻡ
ﮨﮯ ۔ﺟﺒﮑﮧ ﻓﯿﮉﺭﻝ ﺷﺮﯾﺖ ﮐﻮﺭﭦ ﺳﺎﻝ 2000 ﻣﯿﮟ ﺍﺱ
ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ
PLD 2000 FSC page 1
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﺎﻝ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﺭﭦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ
ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﯽ
PLD 2017 SC page 187
ﺟﺒﮑﮧ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺩﺍﺩ ﺭﺳﯽ ﺧﺎﺹ ﮐﯽ ﺩﻓﻊ 55 ﮐﮯ ﺗﺤﺖ
ﻣﺪ ﻋﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﺣﻖ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﺪ ﻋﺎ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻧﮑﺎﺭ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﯿﺮ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﺒﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﻣﯿﮟ
ﻓﯿﻤﻠﯽ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻧﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﻮﺭﭦ
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺍﻣﺘﻨﺎﻋﯽ ﺟﺎﺭﯼ
ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ
1983 CLC page 279
ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻋﻠﯽ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎ ﺋﺮ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﻮﺭﭦ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻢ ﺻﺎﺩﺭ
ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﺰﯾﺪ ﻧﮑﺎﺡ ﻧﺎﻣﮧ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ
ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﺩﻭﻟﮩﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﮨﮯ ؟
ﺍﮔﺮ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﺎ ﺳﺮﭨﯿﻔﮑﯿﭧ ﻧﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﺭﺟﺴﭩﺮﺍﺭ
ﻧﮑﺎﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮑﺎﺡ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﺎ ﺻﺮﻑ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮐﯿﺲe
ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮯ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﯾﻮﻧﯿﻦ ﮐﻮﻧﺴﻞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ
ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺲ ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﻭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﮑﺎﺡ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ
ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﯾﺎﺩﺭﮐﮭﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ
ﮐﺮﻧﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺷﺮﻋﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ
ﺷﺮﻋﯽ ﻧﮩﯿﮟ , ﺍﮔﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺷﻮﮨﺮ
ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺎﻟﻌﺪﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ ﺻﺮﻑ ﺷﻮﮨﺮ
ﮐﻮ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ایک دن، ایک وکیل اپنے دوست کو بتا رہا تھا کہ وہ ہر بار مقدمہ جیتتا ہے کیسے۔
دوست نے حیران ہوکر پوچھا: "تمہاری راز کیا ہے؟"
وکیل ہنس کر جواب دیا: "میں ہر بار کورٹ میں جاتا ہوں اور جج کو یہ بتاتا ہوں کہ میرے پاس ایک خاص ہنر ہے۔"
دوست نے شوق سے پوچھا: "وہ کون سا ہنر ہے؟"
وکیل نے مسکرا کر کہا: "میرا خاص ہنر ہے... جج کو بہترین لطیفہ سنانا! جب جج ہنستا ہے، مقدمہ خود بخود میری طرف ہوتا ہے!"
PLD 2021 SC 894
ملزم کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری ملزم کی غیرحاضری کی بنیاد پر خارج ھو جانے پر ملزم کی جانب سے دوبارہ درخواست ضمانت قبل از گرفتاری صرف اس صورت میں دائر کی جا سکتی ھے اگر ملزم اپنی غیرحاضری کی معقول وجوہات بیان کرے
چینی کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار صرف صوبائی حکومت کے پاس ہے، صوبائی حکومت بہتر طریقے سے چینی اور اشیاء خوردونوش کی قیمتیں مقرر کرسکتی ہے، وفاقی حکومت کو اشیاء خوردونوش کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
لاہور ہائیکورٹ.
PLD 2023 Lahore 736
Tacking
قانونی اصطلاحات میں، "ٹیکنگ" عام طور پر استعمال کی ایک مسلسل اور غیر منقطع مدت قائم کرنے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ دو ملتے جلتے ٹریڈ مارکس کے استعمال کو شامل کرنے یا یکجا کرنے کے تصور سے مراد ہے۔ ٹریڈ مارک کی ترجیح یا سنیارٹی کا تعین کرتے وقت یہ ٹریڈ مارک قانون میں اہم ہو سکتا ہے۔ ٹیکنگ ٹریڈ مارک کے مالک کو اپنے ٹریڈ مارک میں معمولی تبدیلیاں کرنے کی اجازت دیتی ہے اور پھر بھی استعمال کی پہلے کی تاریخ کا دعویٰ کرتا ہے جب تک کہ نئے ٹریڈ مارک کو قانونی طور پر پرانے کے برابر سمجھا جائے۔ یہ خاص طور پر ان معاملات میں متعلقہ ہے جہاں ٹریڈ مارک کی خلاف ورزی یا تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔
In legal terms, "tacking" typically refers to the concept of adding or combining the use of two similar trademarks over time to establish a continuous and unbroken period of use. This can be important in trademark law when determining the priority or seniority of a trademark. Tacking allows a trademark owner to make slight changes to their trademark and still claim the earlier use date as long as the new trademark is considered legally equivalent to the old one. This is particularly relevant in cases where trademark infringement or disputes arise.
2023 MLD 777
اگر نابالغ ملزم کا مقدمہ 6 ماہ کے اندر مکمل نہیں ہوتا ہے تو اسے ضمانت پر رہا کرنا اس کا قانونی حق ہے
Retrospective Operation of Legislation
"قوانین کی پیچھے روانی"، جس کو وقتی گزرا ہوا قانون یا اس کو دورانیے کے واقعات پر لاگو کیا جاتا ہے، کو واپسی کارروائی کہتے ہیں۔ یعنی کہ قانون ماضی کے اعمال اور لین دینوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کی عموماً کئی قانونی نظاموں میں تنقید کی جاتی ہے کیونکہ یہ منصفانہ پیغام اور پیشگوئی کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
مثال:
چلیں فرض کریں کوئی ملک جولائی 2023 میں ایک ٹیکس قانون منظور کرتا ہے جو 2022 میں کمائی گئی درآمد پر ٹیکس کی معدل بڑھا دیتا ہے۔ یہ ایک واپسی کارروائی کا مثال ہوتی ہے کیونکہ یہ پیشگوئی کیے گئے پرانے ٹیکس معدل کو 2022 کی کمائی گئی رقبے پر لاگو کر رہا ہے۔ اس سے متعلق لوگوں اور کاروبار کے لئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جو نے پیشگوئی ٹیکس معدل کے بنا پر مالی فیصلے کیے تھے۔ واپسی کارروائی کو مختلف قانونی توقعات کو مختتم کرنے کی وجہ سے متنازعہ بنا سکتی ہے۔
Retrospective operation of legislation, also known as retroactive legislation, occurs when a new law is applied to events that occurred before the law was enacted. This means that the law affects past actions and transactions. It is generally discouraged in many legal systems because it can raise issues of fairness and predictability.
Example:
Let's say a country passes a tax law in July 2023 that increases the tax rate on income earned in 2022. This would be an example of retrospective operation because it is applying a new tax rate to income that was already earned in the past. This might create issues for individuals and businesses who made financial decisions based on the previous tax rate for 2022. Retrospective legislation can be controversial because it can disrupt settled legal expectations.
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the practice
Telephone
Address
Office No. SF. 39-40, Liberty Mall, Tambawano Moar, University Road, Khyber Pakhtunkhwa
Peshawar, 25000
Peshawar, 25000
We are also providing services related to FBR,NTN, STRN and filing monthly and annual tax returns
Office # 29-F, 4th Floor, Bilour Plaza, Peshawar Cantt. Khyber Pakhtunkhwa
Peshawar, 25000
Khyber Law Firm works on legal matters under the supervision of Rtd Justice Yahya Zahid Gillani & Se
186-A, Industrial Estate Hayatabad
Peshawar, 25000
We Don't Compromise The Quality
Dir Lower , Pakhtunkhwa
Peshawar, 18300
ژوند (امن، مینه او وطن) - 𝙱𝚒𝚋𝚕𝚒𝚘𝚙𝚑𝚒𝚕𝚎 📕 - Bᴜᴅᴅɪɴɢ Jᴜʀɪsᴛ👨🏻⚖️
HashtNagri
Peshawar, 24000
OFFICE ADDRESS: BANGASH LAW CHAMBER, available @ Office # 113, Amin Mansion, Peshawar
𝚜𝚝𝚛𝚎𝚎𝚝 1 𝚋𝚒𝚕𝚘𝚛 𝚙𝚕𝚊𝚣𝚊
Peshawar, 25000
relates to family cases only like dowry dower custody of minor