Poonch Literary Society
راولاکوٹ کے سنجیدہ لکھاریوں کی نمائندہ تنظیم
محمد صداقت طاہر
عاصم سلیم بٹ
محمد نسیم خان
ذوہیب بھائی
آپ کی موجودگی باعث صد و شرف و اعزاز ہے تشریف آوری کا بے حد شکریہ ❤️
خوش آمدید
سفر پسند کبھی تھا نہ ہوں کہ چلتا رہوں
وہ بے گھری ہے مگر جوں کی توں کہ چلتا رہوں
تمہارے ساتھ سے مطلب ہے منزلوں سے نہیں
قدم قدم پہ ہے ایسا سکوں کہ چلتا رہوں
نہ رنجِ آبلہ پائی نہ خوفِ دربدری
الگ ہی دُھن ہے کوئی ان دنوں کہ چلتا رہوں
کہیں پہنچنا بھی ہے اور چلنا بھی مشکل
عجیب مخمصے میں ہوں رکوں کہ چلتا رہوں
یہ گمرہی تو کبھی ختم ہونے والی نہیں
سو زہزنوں سے بھی ملتا چلوں کہ چلتا رہوں
پتے کی بات کھڑے پانیوں سے سیکھی ہے
طرف کوئی بھی ہو بہتا رہوں کہ چلتا رہوں
نہ رہبروں سے شکایت نہ رہزنوں سے گلہ
مری تو اپنی بھی چاہت تھی یوں کہ چلتا رہوں
نہ سنگِ میل ، نہ نقشِ قدم ، نہ قطب نما
نہ ضو فگن ہے فلک نیلگوں کہ چلتا رہوں
کٹھن ضرور ہے مانا یہ زندگی کا سفر
شکستہ پا ہوں پر اتنا تو ہوں کہ چلتا رہوں
تلاشِ ذات بھی کاشر عجب مصیبت ہے
تھکن سے چور ہوں لیکن جنوں کہ چلتا رہوں
شوزیب کاشر
📸 Watch this video on Facebook
https://fb.watch/oB38M_JdDd/?mibextid=RUbZ1f
کشمیر سے شعراء کی غزلیں
انتخاب : توصیف ترنل
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا
جانے کے لیے یار جگہ دی ہے چلا جا
اے قیس نما شخص یہاں کچھ نہیں تیرا
تجھ نام کی صحرا میں منادی ہے چلا جا
دنیا تو چلو غیر تھی شکوہ نہیں اس سے
تو نے بھی تو اوقات دکھا دی ہے چلا جا
تا کوئی بہانہ ترے پیروں سے نہ لپٹے
دیوار سے تصویر ہٹا دی ہے چلا جا
یکطرفہ محبت کا خسارا ہے مقدر
تجھ خواب کی تعبیر بتا دی ہے چلا جا
ہم ایسے فقیروں میں نہیں مادہ پرستی
تیرا تو میاں شعر بھی مادی ہے چلا جا
ہے کون رکاوٹ جو تجھے روک رہی ہے
میں نے تو مری ذات بھی ڈھا دی ہے چلا جا
اس شہر کے لوگوں میں نہیں قوتِ برداشت
یہ شہر تو سارا ہی فسادی ہے چلا جا
دستک کے لیے اٹھا ہوا ہاتھ نہ گرتا
خاموشی نے تعزیر سنا دی ہے چلا جا
کچھ جونؔ قبیلے سے نہیں تیرا تعلق
ہر لڑکی یہاں فارہہ زادی ہے چلا جا
جانا تری فطرت ہے بلانا مری قسمت
تو آ کے چلے جانے کا عادی ہے چلا جا
لگتا ہے تو قابُل میں نیا آیا ہے پیارے
افغان کا بچہ بھی جہادی ہے چلا جا
اے موم بدن تیرا گزارا نہیں ممکن
یہ آگ میں جلتی ہوئی وادی ہے چلا جا
افسوس بہت دیر سے آیا ہے تو کاشرؔ
اس پانچ مئی کو مری شادی ہے چلا جا
شوزیب کاشرؔ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جہاں تلک بھی صدا اب ہماری جائے گی
وہاں تلک تو غزل کی خماری جائے گی
پھر اس سے آگے کا سارا سفر اکیلے ہے
خبر نہیں کہ کہاں تک یہ لاری جائے گی
ہوس کو اس نے محبت سمجھ لیا ہے سو اب
یہ لڑکی جلد؛ بہت جلد ماری جائے گی
گلی میں کھیلتے بچے کو یوں ڈراتی ہے
خدا قسم تری چمڑی اتاری جائے گی
جناب تم تو ہو واعظ میں اک طوائف ہوں
مرا تو کچھ نہیں عزت تمہاری جائے گی
جاوید سحر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غزل
شہر میں اب سانس لینےکے نہیں قابِل ہَوا
چل رہی ہے زہر میں ڈوبی ہوئی قاتِل ہَوا
کر نہیں سکتا جَسارت اس قدر تنہا چراغ
پُھونکنے کو گھر مِرا شاید ہوئی شامِل ہَوا
دیکھ کر سُرخی لہو کی پتّے پتّے پر یہاں
ڈُوب کر حیرت میں اکثر تھم گئی جھلمِل ہَوا
رفتہ رفتہ کر رہی ہے حق روی کا سر قلم
جب سے داخل بستیوں میں ہوگئی باطِل ہَوا
ایک مُدت تک لڑی ہے حَبس میں بارُود سے
تب کہیں جا کر ہوئی اس نسل کو حاصِل ہَوا
تُند لہروں کا ہمیشہ کشتیوں سے بیر ہے
نا خُدا، تیرے لئے بنتی کہاں ساحِل ہَوا ؟
مانگتا ہے خیر بس مُفلس در و دیوار کی
جھونپڑی میں خوف کی ہونے لگی داخِل ہَوا
جسم پر جس کے چلائی تھیں ہزاروں آریاں
مر رہی ہے ریگزاروں میں وہی تِل تِل ہَوا
علم لفظوں کا، نہ معلومات فنِ شعر کی
باندھے پھرتے ہیں ہر اک تقریب میں جاہِل ہَوا
پرویز مانوس
نٹی پورہ سرینگر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کربِ احساس
چین ملتا نہیں غریبوں کو
عمر میری لگے رقیبوں کو
دلِ ناداں یہ تیری نادانی
مار ڈالے گی ہم غریبوں کو
سب تمہاری ادا کو دیکھیں گے
کون دیکھے گا آب دیدوں کو
دکھ زمانے میں عام کرتے ہیں
آگ لگ جائے ان جریدوں کو
باغباں یہ تیری عنایت ہے
یاد رکھا خزاں رسیدوں کو
نام اُن کا شریک ہے ورنہ
کون پڑھتاہےان قصیدوں کو
جانے کس کی نگاہِ شوخ ضیاء
کھا گئی ہے میرے نصیبوں کو
ظہیر احمد ضیاء
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میرا نہیں رہا تُو, میں تیرا نہیں رہا
ایفائے وعدہ کو کوئی وعدہ نہیں رہا
اشکوں سے کیسے درد کو ظاہر کرینگے ہم
آنکھوں میں اب تو ایک بھی قطرہ نہیں رہا
پہلے تو ہوتا تھا مرا چرچا گلی گلی
شاید یہ شہرِ غیر ہے چرچا نہیں رہا
ارمان پورے ہو کے بھی جذبات رہ گئے
"کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا"
اک بار میرے چاکِ گریباں پہ کر نظر
تیرا تو در کنار میں اپنا نہیں رہا
اب مت پکار اُس کو دلِ بے قرار تو
کر لے مرا یقین وہ تیرا نہیں رہا
کیاجانےکیوں انہیں بھی کھٹکنے لگا ہوں میں
کیوں اُن کے گھر میں میرا بسیرا نہیں رہا
ان کی نگاہِ ناز کا یہ بھی ہے ایک رنگ
جیسامیں پہلےرہتا تھا ویسا نہیں رہا
(بشیر مہتاب)جموں کشمیر انڈیا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیف الملوک جھیل سے داسو سے عشق ہے
دیبل سے ہم کو پیار ہے کے ٹو سے عشق ہے
دھرتی کا ایک ایک ہے ٹکڑا ہمیں عزیز
سیدو قصور کوٹری دادو سےعشق ہے
پشتو شنا کھووار ہو سندھی سرائیکی
صدیوں سے ہر زبان کو اردو سے عشق ہے
بیرونِ ملک نور کی برسات ہے تو کیا
ہم کو تو اپنے دیس کے جگنو سے عشق ہے
بھاتی نہیں ہیں لندن و پیرس کی عطریات
گوہر ہمیں تو خاک کی خوشبو سے عشق ہے
حبیب گوہر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نیچے وادی کے گھروں میں ہے اسے
اس پہاڑی سے پکارا جائے
تتلیاں آ کے یہ سمجھاتی ہیں
پھول کو پھول کیوں مارا جائے
وہ ہتھیلی سا بدن سامنے ہے
اس کو مہندی سے سنوارا جائے
جسم کے ناز اٹھائیں مل کر
روح کو سر سے اتارا جائے
احمد عطاءاللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صدیوں کے بعد ہوش میں جو آ رہا ہوں میں
لگتا ہے پہلے جرم کو دہرا رہا ہوں میں
پر ہول وادیوں کا سفر ہے بہت کٹھن
لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں
خالی ہیں دونوں ہاتھ اور دامن بھی تار تار
کیوں ایک مشت خاک پہ اترا رہا ہوں میں
شوق وصال یار میں اک عمر کاٹ دی
اب بام و در سجے ہیں تو گھبرا رہا ہوں میں
شاید ورق ہے پڑھ لیا کوئی حیات کا
بن کر فقیہ شہر جو سمجھا رہا ہوں میں
ساحل پہ بیٹھا دیکھ کے موجوں کا اضطراب
الجھی ہوئی سی گتھیاں سلجھا رہا ہوں میں
ذوالفقار نقوی (جموں کشمیر انڈیا)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہر کسی آنکھ کا بدلہ ہوا منظر ہوگا.
شہر در شہر مسیحاؤں کا لشکر ہوگا.
آیئنہ رو ہے اگر دل تو حفاظت کیجے
کس کو معلوم ہے کس ہاتھ میں پتھر ہوگا.
لے کے پیغام _خزاں آیا ہے میرے در پہ
وہ جو کہتا تھا کہ آنگن میں صنوبر ہوگا.
پھر سیاست کی مہک آنے لگی ہے مجھکو.
جانے اب کون مرے شہر میں بے گھر ہوگا.
چھو کے دیکھو تو سہی اس میں نمی باقی ہے.
یہ جو صحرا ہے کسی وقت سمندر ہوگا
عمران سائل جموں کشمیر انڈیا
ہیرا جو ترے تاج میں انمول جڑا ہے
یہ کس کی وراثت پہ ترا ہاتھ پڑا ہے
ایسے ہی کہاں جھکتے ہیں افلاک زمیں پر
پستی سے بلندی کو کوئی کام پڑا ہے
معراج پہ پہنچی ہوئی لگتی ہے محبت
ساحل پہ جو ٹوٹا ہوا مٹی کا گھڑا ہے
قد جاننا چاہو جو کسی کا تو یہ دیکھو
دشمن ہے جو اس شخص کا وہ کتنا بڑا ہے
لیاقت شعلان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دشت مجنوں سے جوں پہلے تھا ،ہوا میرے بعد
کوئی دیوانہ اسے پھر نہ ملا میرے بعد
سر زمیں دشت کی آباد تمھی سے ہو گی
قیس نے مجھ سے گلے مل کے کہا، میرے بعد
آخرش توڑ دیے جام و سبو ساقی نے
نہ کو ئی رندِ بلا نوش ملا میرے بعد
خواب میں آ کے کیا مجھ سے گلہ سوہنی نے
سنتی ہوں میں کہ بنا پختہ گھڑا میرے بعد
خوف آیا مرے انجام سے دیوانوں کو
سو کوئی اس کی گلی میں نہ گیا میرے بعد
آخرش جان گیا وہ بھی وفا کے معنی
اس ستم گر پہ مگر راز کھلا میرے بعد
کون مرتا ہے جدائی میں،سبھی باتیں ہیں
جان کہتا تھا جو اک عمر جیا میرے بعد
عمران کمال
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر میں ذات کے زندان میں پڑا رہتا
یقین مانو کہ نقصان میں پڑا رہتا
خدا نخواستہ ہم لوگ مل بھی جاتے اگر
میں تجھ سے ملنے کے امکان میں پڑا رہتا
مرے وجود کی خوشبو سے لوگ جلتے تھے
وگرنہ میں کسی گلدان میں پڑا رہتا
عجیب کیا جو ترے ہجر میں گزاری حیات
تو کیا میں برزخ_احسان میں پڑا رہتا
سو اپنے ہونے کی قیمت چکا رہا ہوں میاں !
میں بچ بھی جاتا تو میدان میں پڑا رہتا
اگر تھا جانا تو رخت_سفر میں رکھ لیتے
مرا وجود بھی سامان میں پڑا رہتا
شہباز گردیزی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس نے جب گھر سے ہم نکالے ہیں
اب وہاں مکڑیوں کے جالے ہیں
شکر ہے حادثاتی دنیا میں
سر کو ہم دار تک سنبھالے ہیں
اک تو وہ حسن میں مثالی ہے
اور مرے شعر بھی مصالے ہیں
میر' کشمیر اور میں خود بھی
درد کے مستند حوالے ہیں
ایک میرے ہی گھر اندھیرا ہے
شہر میں چار سو اجالے ہیں
میر مجھ سے یہ کہہ گیا مرتے
درد اب آپ کے حوالے ہیں
ظہور منہاس
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غزل
کبھی خوابوں میں ہوں وہ روبرو تو شعر ہوتا ہے
کہ جب ہوتی ہے اُن سے گفتگو تو شعر ہوتا ہے
یہ جلتا ہے، تصور ذہن میں تخلیق ہوتا ہے
نکل آئے جو آنکھوں سے لہو تو شعر ہوتا ہے
اُسے بانہوں میں بھر کے چوم لوں شرما سی جائے وہ
کرے جب دل کچھ ایسی جستجو تو شعر ہوتا ہے
کبھی وہ یاد آ جائے یا اُس کا خواب آ جائے
کسی صورت بھی ہو وہ دوبدو تو شعر ہوتا ہے
سنانا چاہتا ہوں میں جنہیں سب حالِ دل اپنا
نہیں ہوتی جب اُن سے گفتگو تو شعر ہوتا ہے
مری بیتاب آنکھوں کو کہیں تاریکیٔ شب میں
دکھے جب چاند چہرہ ہوبہو تو شعر ہوتا ہے
جہاں کے شور سے بچ کر میں بیٹھوں جب کبھی تنہا
سنائی دے مجھے جب ہاؤہو تو شعر ہوتا ہے
طبیعت بے قراری پر اُتر آئے ظہیراحمد
جو لے انگڑائی کوئی آرزو تو شعر ہوتا ہے
ظہیراحمدمغل (حویلی کہوٹہ آزاد کشمیر)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پاس آنے کی سہولت نہ میسر آتی
اس ہوس میں مجھے الفت نہ میسر آتی
ایک دوجے سے ہیں اکتاۓ ہوۓہم دونوں
اس سے بہتر تھا کہ قربت نہ میسر آتی
جان پاتا میں بھلا کیسے کسک روحوں کی
گر مجھے آپ کی حیرت نہ میسر آتی
آبرو چیز ہے کیا جس کو یہ معلوم نہیں
ایسے کم ظرف کو عزّت نہ میسر آتی
تیری آنکھوں کاتبسم ہی مجھےکافی تھا
تیرے رخسار کی رنگت نہ میسر آتی
مار دیتی مجھےسورج کی تپش, بہتر تھا
چاندنی رات کی راحت نہ میسر آتی
شاعری کا یہ ضیا روگ لگایا ہم کو
کاش ماجد کی رفاقت نہ میسر آتی
Zai ur rahman zai
Plandri
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غزل
خوش آتی ہے مگر پھر کاٹتی ہے
وہی ایک چیز جو تلوار سی ہے
جو اپنے خون سے سیراب کی تھی
وہ دھرتی پھر سے بنجر ہوگئی ہے
مرا تو شور بھی سہما کھڑا ہے
تری تو خامشی بھی چیختی ہے
کھنک لہجے کی لفظوں میں نہ آئے
وہ ایسا خوبصورت بولتی ہے
پڑی چڑیا کے لب کا زاویہ چپ
خنک راتوں کی تلخی بولتی ہے
جبین وقت پر اب بھی شکن تھی
بہت کچھ سوچ کر تھوڑی سی پی ہے
ترے تو لفظ کا کاجل ہی پھیلا
مری تو شاعری ہی میرسی ہے
ابھی سے آنکھ بھر آئی ہے قائم
ابو تو درد نے انگڑائی لی ہے
امجد گردیزی قائمؔ باغ آزاد کشمیر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دل کے اُس پار ہو گیا تھا جی
لفظ تلوار ہو گیا تھا جی
اچھا خاصا ذہین لڑکا تھا
پھر اُسے پیار ہو گیا تھا جی
اس چنبیلی کے لوٹ آنے سے
گاؤں گلذار ہو گیا تھا جی
اتنا کچھ تھا نہیں ہمارے بیچ
جتنا پرچار ہو گیا تھا جی
وہ تو یوں ہی ذرا پریشاں تھی
اور میں بیمار ہو گیا تھا جی
اُس کے گاؤں کا ایک عرصے تک
حسن, معیار ہو گیا تھا جی
اُس میں اور چاند میں گھڑی بھر کو
فرق دشوار ہو گیا تھا جی
روز تھوڑی نہ پیار ہوتا ہے
ایک دو بار ہو گیا تھا جی...
ہم نہ تھے لوگ ہارنے والے
پیٹھ پر وار ہو گیا تھا جی
عثمان لیاقت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غزل
یاد آ جاتا ہے عاشور کی اس رات کا دکھ
مجھ سے دیکھا نہیں جاتا کبھی سادات کا دکھ
آپ کی بیٹی نہیں , آپ نہیں سمجھیں گے
خالی جاتی ہوئی واپس کسی بارات کا دکھ
جب کوئی دکھ نہیں موجود تو کیسی خوشیاں
یعنی ہم سے کہیں بڑھ کے ہے سماوات کا دکھ
تم مجھے چھوڑ گئے تھے وہ تمھیں چھوڑ گیا
اسے کہتے ہیں مری جان مکافات کا دکھ
لذت ِ ہجر کے ثمرات نہ گنوا مجھ کو
میں نے جھیلا ہوا ہے یار ملاقات کا دکھ
مجھ سے چھینی ہے مہک بھیگی ہوئی مٹّی کی
پکّے آنگن نے دیا ہے مجھے برسات کا دکھ
آپ ٹہنی سے فقط نوچ کے کھا لیتے ہیں
آپ پوچھیں نا کبھی پیڑ سے ثمرات کا دکھ
میری اطراف میں پھیلے ہوئے یہ جھوٹے لوگ
میری اطراف میں پھلا ہوا سقراط کا دکھ
یہ بہت دیر سے گھر رات پلٹتے لڑکے
کاش سمجھیں یہ کبھی ماؤں کے خدشات کا دکھ
اپنے اپنے ہیں فراوانی کے بھی دکھ ساگر
تھر کا دکھ اور ہے,اور ہے مری گلیات کا دکھ
مسعود ساگر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غزل
دشتِ جنوں میں خاک اُڑاتا ہوں آج کل
خود کو محیطِ ذات میں پاتا ہوں آج کل
بود و نبود جبر و قدر حادث و قدیم
ایسے ہی کچھ قضیے مٹاتا ہوں آج کل
شوقِ وصالِ یار بہت دُور لے گیا
زینے مجاز و حق کے ملاتا ہوں آج کل
سُن کر جنھیں فرشتے بھی آتے ہیں وجد میں
نغماتِ سرمدی وہ سناتا ہوں آج کل
سنتے ہیں شوق سے وہ مری داستانِ غم
اشکوں سے بزمِ ناز سجاتا ہوں آج کل
اک بے کلی ہے سوزشِ پنہاں ہے درد ہے
میں میر کا کلام پڑھاتا ہوں آج کل
Imran Shafi
Mirpur
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنت قیس ادا کر کے میں جب گھر آیا
شہر کا شہر مجھے دیکھنے باہر آیا
تو یہ کہتا تھا محبت مجھے کھا جائے گی
دیکھ میں پورے کا پورا ہی پلٹ کر آیا
اتنا آسان تھا کب خود سے رہائی پانا
کتنی دیواریں گرائیں تو کہیں در آیا
ایڑیاں اونچی نہیں کی ہیں نمو پائی ہے
میں سلیقے سے ترے قد کے برابر آیا
مصطفٰی نام ہے اور اس کا تخلص جاذب
ارض کشمیر سے اک تازه سخن ور آیا
Mustafa Jazib
Mir pur
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جتنے الزام _ ہوس مجھ پہ ہیں , رد کرتا ہوں. . .
عشق کرتا ہوں مگر ایک عدد کرتا ہوں. .
یہ درختوں کی سی خصلت ہے مری فطرت میں. . .
جتنا کاٹے ہے کوئی اتنا ہی قد کرتا ہوں. .
میں سہارے کا کسی طور نہیں ہوں قائل. .
میں تو ہر حال میں خود اپنی مدد کرتا ہوں. . .
آئینے! تو ہی بتا دے کہ حقیقت کیا ہے. . .
لوگ کہتے ہیں کہ میں تجھ سے حسد کرتا ہوں. .
خود پہ ہوتا ہے گماں جب بھی فرشتے کا مجھے . . .
اختیار آپ کی ہی صحبت _ بد کرتا ہوں
فیصل مضطر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اترے ہوے چہرو تمہیں آزادی مبارک
اجڑے ہوئے لوگو تمہیں آزادی مبارک
سہمی ہوئی گلیو کوئی میلہ کوئی نعرہ
جکڑے ہوئے شہرو تمہیں آزادی مبارک
زنجیر کی چھن چھن پہ کوئی رقص و تماشا
نعروں کے غلامو تمہیں آزادی مبارک
اب خوش ہو کہ ہر دل میں ہیں نفرت کے الاو
اے دین فروشو تمہیں آزادی مبارک
بہتی ہوئی آنکھو زرا اظہار مسرت
رستے ہوئے زخمو تمہیں آزادی مبارک
اکھڑی ہوئی نیندو مری چھاتی سے لگو آج
جھلسے ہوئے خوابو تمہیں آزادی مبارک
ٹوٹے ہوئے خوابوں کو کھلونے ہی سمجھ لو
روتے ہوئے بچو تمہیں آزادی مبارک
مسلک کے زبانوں کے علاقوں کے اسیرو
بکھرے ہوئے لوگو تمہیں آزادی مبارک
احمد فرہاد
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مسکراتا ہے تو الجھا کے چلا جاتا ہے
پھول کی آنچ سے زخما کے چلا جاتا ہے
عشق مضمون ہی ایسا۔۔ کہ بیچارہ ناصح
جو سمجھتا ہے وہ سمجھا کے چلا جاتا ہے
آج اک شعر سنائیں گے محبت پہ اسے
بس خیال آتا ہے اور آ کے چلا جاتا ہے
روز آتا ہے مداری نیا کرتب لے کر
اک تماشائی کہ شرما کہ چلا جاتا ہے
اک پرندہ ہے جو اڑتا بھی نہیں ہے لیکن
ہر شکاری اسے ٹھکرا کے چلا جاتا ہے
جھوٹ پر جھوٹ سمجھتے ہیں اسے گاؤں کے لوگ
شیر آتا ہے مجھے کھا کے چلا جاتا ہے
عاصم سلیم بٹ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک تازہ غزل
کیا کروں۔۔ اس مسئلے کے سامنے؟
دشت ہے کچے گھڑے کے سامنے
تہہ بہ تہہ منظر کھلے گا آنکھ پر
آئینہ ہے۔۔۔۔ آئینے کے سامنے
اس لرزتے اشک کی ہمت تو دیکھ
ڈٹ گیا ہے ۔۔۔قہقہے کے سامنے
جان لے کہ تیرے لب کچھ بھی نہیں
آگہی کے۔۔۔ ذائقے کے سامنے!
کر رہی ہے بے ثباتی پر خطاب!
ایک سوئی۔۔۔۔ بلبلے کے سامنے
جانتا ہوں ماسک کے پیچھے کا دکھ
رو رہا ہوں مسخرے کے سامنے
سن رہا ہے وہ بھی میری شاعری؟
کانٹ چپ ہے دانتے کے سامنے!
راز احتشام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یاد در یاد سفر اور یہ سگریٹ کا دھواں
رات، ویران ڈگر اور یہ سگریٹ کا دھواں
ایک بے نام اداسی کا لرزتا سایا
تیرے چھن جانے کا ڈر اور یہ سگریٹ کا دھواں
نیم تاریک سے کمرے کی فسردہ چُپ میں
میری سوچوں کے بھنور اور یہ سگریٹ کا دھواں
میرے ماحول میں تحلیل ہوئے جاتے ہیں
تیری فرقت کا اثر اور یہ سگریٹ کا دھواں
دور دھندلانے لگے پھر تری بستی کے چراغ
میری نمناک نظر اور یہ سگریٹ کا دھواں
جذب کرتا ہوں تو شعروں میں اُتر آتے ہیں
چشم ِ نم سے یہ گُہر اور یہ سگریٹ کا دھواں
عمران شفیع
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنت قیس ادا کر کے میں جب گھر آیا
شہر کا شہر مجھے دیکھنے باہر آیا
تو یہ کہتا تھا مجھے کھا جائے گی
دیکھ میں پورے کا پورا پلٹ کر آیا
اتنا آسان تھا کب خود سے رہائی پانا
کتنی دیواریں گرائیں تو کہیں در آیا
ایڑیاں اونچی نہیں کی ہیں نمو پائی ہے
میں سلیقے سے ترے قد کے برابر آیا
مصطفیٰ نام ہے اور اس کا تخلص جاذب
ارض کشمیر سے اک تازه سخن ور آیا
مصطفی جازب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نہ رہزن ہوں نہ راہنما ہوں، بہت برا ہوں
عجیب الجھن ہوں مسلہ ہوں ، بہت برا ہوں
ہمارے گاؤں میں شیر آیا نہیں کبھی بھی
میں اپنے گاؤں کا گڈریا ہوں ، بہت برا ہوں
وہ جس دیے نے مکان اپنا جلا دیا تھا
حضور ہاں میں وہی دیا ہوں ، بہت برا ہوں
میں اپنے اندر ہزار صدمے لیے ہوئے ہوں
میں اپنے اندر ہی چیختا ہوں ، بہت برا ہوں
یہاں پہ لوگوں کو چپ لگی ہے نجانے کیونکر
میں شہر خاموش کی صدا ہوں ، بہت برا ہوں
یہاں پہ لوگوں نے درجنوں بار دل لگی کی
میں اک محبت میں پھنس گیا ہوں ، بہت برا ہوں
تمہاری مجھ سے جو نفرتیں ہیں بجا ہیں یارا
میں تیرے چہرے کا آئینہ ہوں ، بہت برا ہوں
یہ دریا مجھ سے خفا ہیں اتنی سی بات لے کر
میں الٹی جانب کو تیرتا ہوں ، بہت برا ہوں
میں اسکے ہاتھوں میں مر رہا تھا ، بہت بھلا تھا
میں اپنے ہاتھوں میں جی رہا ہوں ، بہت برا ہوں
یہ شاعری ہے بڑی منازل کی راہ احسن
میں اپنے قصے سنا رہا ہوں ، بہت برا ہوں
احسن سلیمان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وصل کی رات آخری ہوگی
اب محبت کبھی کبھی ہوگی
اس کے بن مجھ کو موت پڑتی ہے
جانے وہ میری زندگی ہوگی
مجھ سے کہتی ہے تجھ سے نفرت ہے
پھر محبت بھی پہلے کی ہوگی
میں جہاں جاؤں واں ہے مایوسی
غالباً ہم میں دوستی ہوگی
فہم کہتا ہے چھوڑ دے اس کو
دل یہ کہتا ہے وہ تری ہوگی
تِیرگی پھیل جائے جب ہر سُو
روشنی تب ہی روشنی ہوگی
وہ مجھے روز خوش ہی رکھتی ہے
میری الفت میں کچھ کمی ہوگی
ناامیدی ہے میری ہر جانب
آس کو مجھ سے دشمنی ہوگی
آرزو کر کے بھی نہیں آتی
موت کو موت آگئی ہوگی
درد سے دل لگا ، حمید رضا
تب کہیں جا کے شاعری ہوگی
حمید رضا
سکردو بلتستان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا غضب تو نے یہ تقدیر بنائی اپنی
ہم کو خود بھی نہ میسر ہے رسائی اپنی
ہم نے کچھ یوں بھی مصیبت ہے بڑھائی اپنی
در و دیوار کو روداد سنائی اپنی
مفت خوری کا ہمیں آج ہیں طعنہ دیتے
جن پہ چھڑکی تھی کبھی ہم نے کمائی اپنی
کوئی تعبیر بتاو مجھے کیا کیا ہو گا
آج شب خواب میں تصویر جلائی اپنی
ہم ہیں اوروں کیلئیے جان گنوانے والے
ہم سے ہوتی نہیں سرکار بھلائی اپنی
آج ماں نے مجھے حسرت سے کہا گھر آو
ایک مدت سے نہیں شکل دکھائی اپنی
اب تو صائم اتر آئی ہے وہ وحشت ہم میں
ہم سے زنجیر بھی مانگے ہے رہائی آپنی
کامران خان صائم
بیٹھک بلوچ آزاد کشمیر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میرے احباب مرے پاس نہ آئے ہائے
ساتھ دیتے رہے کچھ لوگ پرائے ہائے
مجھ کو خالق نے تھا کچھ نام سکھا کر بھیجا
پھر زمانے نے وہ اسباق سکھائے ہائے
کوئی پوچھے تو درختوں سے کڑی دھوپ کا دکھ
کس قدر قیمتی ہو تے ہیں یہ سائے ہائے
وقت پلٹے مرے بچپن کی طرف کاش کبھی
اور مری ماں مجھے گودی میں سلائے ہائے
بیج پھوٹا کہ تہہ_خاک بغاوت پھوٹی
ایک ہی جڑ سے تنے دو نکل آئے ہائے
آندھیوں کا مرے آنگن سے گزر رہتا ہے
میں نے اس خوف سے پودے نہ اگائے ہائے
اس قدر درد کا غلبہ ہے مرے دل پہ رفیق
چیختا رہتا ہوں خوشیوں میں بھی ہائے ہائے
محمد صداقت طاہر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روزوشب جو یہ دائرے میں ہوں
اک خسارے کے فائدے میں ہوں
مجرموں کے خموش زنداں میں
جرم کرتا ہوں قاعدے میں ہوں
رات کی روشنی نے گاڑا ہے
غار کے وسط زاویے میں ہوں
یوں مردف ہوں آخری حد تک
شعر الجھن کے قافیے میں ہوں
زہر اپنا بھی چکھ نہیں سکتا
زندگی تیرے ذائقے میں ہوں
آخری ہے غزل یہ سانسوں کی
موت کے اک مشاعرے میں ہوں
کوئی نیلام گھر نہیں شیداّ
میں ازل سے ہی ماہدے میں ہوں
علی شیدا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میں اُس انجمن کو سجانے چلی ہوں
نٸی ایک دُنیا بسانے چلی ہوں
جِسے آزمایا کٸی بار میں نے
عبث پھر اُسے آزمانے چلی ہوں
یقیناً کوٸی اس میں خوبی تو ہو گی
جو روٹھے ہوۓ کو منانے چلی ہوں
زمانے میں اہلِ نظر اور بھی ہیں
یہ احساس اُس کو دِلانے چلی ہوں
نیا تجربہ ہے یہ روبینہ میرا
میں طُوفاں میں ناٶ بہانے چلی ہوں
روبینہ میر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خیبر، سندھ، پنجاب، بلوچستان میں رہتا ہوں
میں کشمیر ہوں سارے پاکستان میں رہتا ہوں
پریوں والی جھیل مری آنکھوں میں بہتی ہے
میں روگی شہزادہ ہوں ناران میں رہتا ہوں
میں نے جس کو پایا اس کو جان کے ہار دیا
میری یہ عادت ہے میں نقصان میں رہتا ہوں
پُورب، پچھم، اُتر، دکھن سارے اپنے لوگ
میں دنیا کے ہر زندہ انسان میں رہتا ہوں
(اعجاز نعمانی، مظفرآباد)
انتخاب
کشمیری شعراء کے منتخب اشعار,کچھ ترامیم اور اضافوں کے ساتھ(بشکریہ جاوید سحر)
ہم سفر یہ بتاو کہ تم بھی کبھی
عشق میں ؛ خیر چھوڑو چلو ہم سفر
افتخار مغل
میرا اس سے ہے عطا سچی ہوس کا رشتہ
میں نے فی الحال اسے عشق بتایا ہوا ہے
احمد عطااللہ
ہر راہ لیے جاتی ہے اس بند گلی تک
رستہ کوئی اس شوخ کے گھر تک نہیں پہنچا
مخلص وجدانی
وقت ٹھہرا ہے نہ ٹھہرے گا کبھی
ڈال کر پاؤں ندی میں خوش ہوں
ایاز عباسی
شاید تری تلاش میں گزرے تمام عمر
شاید مری تلاش کا مقصد بھی ہے یہی
شفیق راجا
میرا ہمزاد مری تشنہ لبی میں خوش ہے
بیچ دریا بھی نہیں ,پیاس بجھانے دیتا
ناز مظفر آبادی
کتنا مشکل تھا بھولنا تجھ کو
کتنا آسان کر دیا میں نے
احمد فرہاد
ترا خیال کہ سرطان ہے لہو میں مرے
ترا یہ دھیان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
واحد اعجاز میر
حسن اور اتنی فراوانی کے ساتھ
دیکھتا رہتا ہوں حیرانی کے
اعجاز نعمانی
اس ایک بات پہ اٹکی ہوئی ہے سانس مری
میں مر گیا تو مرے خواب کون دیکھے گا
شہباز گردیزی
ایک سر کیا گرا سرِ مقتل
اور پھر سر ہی سر نکل آئے
ہدایت سائر
ہوس ہوتی تو پوری کر ہی لیتے
محبت تھی ادھوری رہ گئی ہے
ماجد محمود
یاد کی گٹھڑیاں ہیں طاقوں میں
ہجر دالان میں پڑا ہوا ہے
عمران شفیع
اب دکھائی نہیں دیتا کہ کہاں رکھا تھا
لوٹ آنے کے لیے ایک نشاں رکھا تھا
آصف اسحق
کچھ نہیں کچھ بھی نہیں گر ترا کردار نہیں
تو فلاں ؛ ابن فلاں ہے یہ تو معیار نہیں
مسعود ساگر
پھینکیں گے کہیں مانند پتھر مجھے حالات
مٹھی میں لیے مجھ کو گھمانے میں لگے ہیں
صداقت طاہر
پہلے آنکھوں میں ترا عکس اتارا میں نے
اور پھر ان انکھوں کو شیشے میں سجا کے رکھا
فرہاد احمد فگار
اُس دیس کا باسی ہوں کی جس دیس کا ہاری
مایوس ہے شاخوں پہ ثمر ہوتے ہوئے بھی
شوزیب کا شر
دیواریں ملی ہیں ہر گھر کی پھر بھی ہیں جدا دل آپس میں
ہر شخص یہاں پر تنہا ہے یوں لوگ ہزاروں رہتے ہیں
فاروق صابر
ان کی غزل کا شہر میں اپنا مقام ہے
ان کی غزل ہے یار یہ ایسی بھی خوب ہے
عثمان لیاقت
مرے سورج اگر تم لوٹ آو
تو آ جائے مرا سایہ پلٹ کر
زوالفقار اسد
محمد کی غلامی میں ہے پنہاں میری سلطانی
یہ تخت و تاج تم رکھ لو مجھے خاک مدینہ دو
اشرف بابا ( سری نگر)
بجھا بجھا سا اک دیا کسی اندھیری رات میں
بھٹک رہا ہوں دربدر تمھاری کائنات میں
ساگر کشمیری(سری نگر,غالبا)
الہی بس تو ہی مشکل کشا ہے
چلیں کیسے کٹھن یہ راستہ ہے
زباں کھولیں تو ظالم گھیر لیں گے
تمہارا بس تمہارا آسرا ہے
زاہد جمال بانڈے ( کپواڑہ کشمیر)
اس شہرِ عداوت میں زلیخا نہیں کوئی
یوسف کہ اتر خواب نگر سوچ سمجھ کر
عادل اشرف ( سری نگر)
اپنی قسمت ہے کہ ہم نادم و غمگین رہے
ورنہ اجداد تو دلّی کے سلاطین رہے
فیصل مضطر
میں نے دیکھا تھا خواب بچپن میں
جیسے تتلی ستا رہی ہو مجھے
ظہور منہاس
میں نے تجھ کو خدا سے مانگا ہے
جو بھی کہنا ہے اب خدا سے کہو
اخلاق رانا
چاہے جتنے بھی خوبصورت ہوں
لفظ کردار ہو نہیں سکتے
لیاقت شعلان
ہاں کبھی سوز دروں ان کو گھلا دے شاید
ورنہ نالوں سے ہمارے وہ پگھلنے کے نہیں
کاشف رفیق
ہم وہ انا پرست ہیں صائم کہ دہر میں
گھٹ گھٹ کے مر گئے ہیں پکارا نہیں اسے
کامران صائم
اس لرزتے اشک کی ہمت تو دیکھ
ڈٹ گیا ہے قہقہے کے سامنے
راز احتشام
دل سے کھیلے ہیں اس گلی کے لوگ
ہم جہاں کھیلتے رہے برسوں
عاصم سلیم بٹ
کون ہے علوی گھر میں اپنا
کس کی خاطر گھر جاتے ہو
اسحق علوی
خدا کے بارے میں واعظ کے ہر فسانے میں
جو کچھ بتایا گیا تھا وہ جھوٹ تھا پیارے
مصطفی جازب
میں خود سے بھی بچھڑتی جا رہی ہوں
یہ کیسے موڑ پہ تو آ ملا ہے
آمنہ بہار
میں مسافر ہوں ابھی آٹھ کے چلا جاؤں گا
اے شجر میرے لیے دھوپ سے جھگڑا مت کر
نظامت حسین
خون میٹھا ہے اس لئے عاجز
زخم بھرنے میں وقت لگتتا ہے
عبدالوحید عاجز
نشتر بہت دکھاتے تھے دم خم حیات میں
یہ کیا ہوا کہ ایک ہی ہچکی میں سو گئے
محمد خان نشتر
مجھے تنشیط بچپن سے یہ والد کی نصیحت ہے
لباسِ آبرو بیٹے کبھی میلا نہیں کرنا
بشارت تنشیط
رات پھیلی تو پریشان تھے بستی والے
ایک درویش نے گدڑی سے نکالا سورج
وسام علی اعجاز
تجھ کو فرصت سے سوچنا چاہا
اور فرصت نصیب ہی نہ ہوئی
لطیف آفاقی
اسی خیال سے پہنچا کتب فروش کے پاس
کہ شب کے خواب کی تعبیر کی کتاب ملے
جواد آفتاب
ترے بچھڑنے سے بنیادیں ہل گئ ہیں مری
یہ تیرا ہجر بھی شامل ہے زلزلوں میں کہیں
عمار اعظم عمار
وہ جس دیے نے مکان اپنا جلا دیا تھا
حضور ہاں میں وہی دیا ہوں بہت برا ہوں
احسن سلیمان
جس روز وہ اپنوں کی طرح دیکھ لے ہم کو
مر جایں اسی روز یہ احسان اٹھا کر
تقویم طاہر
تشنگی جب شہر میں سلمان حد سے بڑھ گئی
سوے صحرا چل دیے دیوانگی کے ساتھ ہم
سلمان رفیق
ہاں مری راہ میں آیا تھا وہ پتھر بن کر
مانگنا پڑ گیا پھر بھیک میں رستہ اس کو
مجید مہر
عشق وہ امتحان ہے جس میں
سب سے پہلا سوال دل کا ہے
زکریا ش*ذ
روبرو وعدہ شکن کے ہو گئے تھے پھر نہ پوچھ
ہم پشیماں ہو گئے ان کو پریشاں دیکھ کر
عبدالبصیر تاجور
شیخ کو چپ جو کرانا ہو تو ہم رندوں کی
اور تو کچھ نہ سہی ایک ہی ہو کافی ہے
احمد وقار
کیفیت جب خود پہ طاری کی گئی
تتلیوں پہ نقش کاری کی گئی
باسط منشاد
حسن پرستی مردوں کی مجبوری ہے
عاشق؛ شاعر ہجر کے مارے ایک سے ہیں
ابراہیم گل
مر کر جینے والے ہم ہیں مٹ کر بننے والے ہم
وقت حوالہ بن جاتا ہے ہم جیسے دیوانوں کا
صغیر صفی
کیجیے دشمنوں سے ہم سفری
یار یہ یار چھوڑ جاتے ہیں
بشارت کاظمی
میں دستیاب رہا ہر جگہ ہواکی طرح
مرا مزاج بھی ہے دوستو خدا کی طرح
علی عارفین
میں مسافر ہوں اگلی منزل کا
تو مری گرد کا تماشائی
محمد علی
کوئی شہزادہ نہیں آے گا میرے بعد سن
تیرے دروازے پہ ایسا اسم پڑھ کر جاوں گا
سرمد بٹ
سنا ہے آج کل اس کی کسی سے بھی نہیں بنتی
سنا ہے آج کل بس سلفیوں پہ شعر کہتی ہے
حنیف محمد
آندھیاں کیا بجھایں گی منصور
ان چراغوں میں خون جلتا ہے
منصور راٹھور
تم عہد رفتہ سنبھال رکھنا
میں اگلی نسلوں کی سوچتا ہوں
راشد بخاری
اس جگہ تھک کے آن بیٹھے ہیں
جس جگہ احتجاج کرنا تھا
زبیر حسن زبیری
ایک معصوم بچہ خوش ہو گا
گرم انڈے خرید لیتے ہیں
عابد محمود عابد
گردنیں یوں پھیر کر تکتے ہو کیا
جانے والو ! رک نہیں سکتے ہو کیا
توقیر گیلانی
وہ دیکھو روشنی اُتری کہیں پربت کے ٹیلوں پر
یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی چاند سا دیکھا
نعمان افتخار
مجھے مانو یا نہ مانو
مری مانو تمہارا ہوں
علی عازش
سنانا چاہتا ہوں میں جنہیں سب حال دل اپنا
نہیں ہوتی جب ان سے گفتگو تو شعر ہوتا ہے
ظہیر مغل
تہمارے ساتھ بھی اکثر بہت بے چین پھرتا تھا
تہمارے بعد کیسا ہوں یہ پوچھوتوزرامجھ سے
مشتاق بخاری
ہوس کو اس نے محبت سمجھ لیا ہے سو اب
یہ لڑکی جلد؛ بہت جلد ماری جائے گی
جاوید سحر
کچھ تو الفاظ کا حق ہوتا ہے
دیکھ لو سینہ بهی شق ہوتا ہے
محمد اقبال خان
شعری روایت کا امین شوزیب کاشر
تحریر ، سید شہباز گردیزی
شوزیب کاشر کے شعری اسلوب میں مصنوعی تکلف نہیں بلکہ مردانہ وجاہت ہے وہ تکرار الفاظ سے جادو کی کیفیات پیدا کرتا چلا جاتا ہے ، وہ قاری کو اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کر دیتا ہے ، ہر چند کہیں کہیں اس اسلوب پر افتخار مغل کے ہونے کا شائبہ ہوتا ہے لیکن شوزیب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنے مخصوص رنگ ڈھنگ سے مزید خوبصورت بنا دیا ہے ، اس نے اس اسلوب کو اپنے قوت اظہار سے یوں صقیل کیا کہ اب اس کا ہر لفظ لو دیتا محسوس ہوتا ہے اور پڑھنے والا اس روشنی میں اس کے ساتھ دور تک کھینچا چلا جاتا ہے ۔ شوزیب کے ہاں مطالعے کا وفور ، مشاہدے کی فراوانی اور گہرائی میں جھانکنے کا انداز نمایاں ہے ، اس کا اسلوب ذہن کو بوجھل نہیں ہونے دیتا ، اس کی شاعری اپنے پڑھنے والوں کو صرف مرغوب ہی نہیں کرتی بلکہ اسے اپنا ہم خیال بنا دیتی ہے یہ بہت عجیب صلاحیت ہے ، شوزیب کا نام ذہن میں آتے ہی کہیں دور سے کانوں میں ایک مانوس اور سریلی آواز کی جلترنگ سنائی دینے لگتی ہے سننے والا اس جلترنگ کے ساتھ خود بھی گنگنانے لگ جاتا ہے ،،،
احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا
جانے کے لئے یار جگہ دی ہے چلا جا
اے موم بدن تیرا گذارا نہیں ممکن
یہ آگ میں جلتی ہوئی وادی ہے چلا جا
شوزیب کاشر نے مجموعی طور پر روایتی کلاسیکی لفظیات کو اپنی شاعری کی زینت بنایا ہے ، اساتذۃ سخن سے بھی کسب فیض حاصل کیا اور اپنے رومانوی ، جمالیاتی ، محب وطنی اور مذہبی فلسفے کے اظہار کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں معنویت کے در کھولنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہوا ہے ، شوزیب کی شعری حسن و خوبی اور اس کے اسلوب کی پہچان بننے والے رومانوی ، جمالیاتی انداز فکر اور اس کی مذہبی فکر کی تفہیم کے لیے لفظوں کا استعمال کسی تغیر و تبدل کے ساتھ اس کے خوبصورت لب و لہجے کا غماز ہے ،
غزل کی فصل اگاتے ہیں حق اسامی پر
کہ سرقہ والے نہیں تیرے خوشہ چیں، مرے دوست
یہاں پہ چلتے نہیں تیرے جیسے موم بدن
ہمارے دل کا ہے ماحول آتشیں، مرے دوست
ایک اچھا شاعر من کے گیت ہی نہیں سنتا بلکہ وہ تن کے زخموں کی داستان بھی بیان کرتا ہے، وہ اپنے باطن کے نہاں خانوں سے امن، شانتی، پیار، خلوص اور محبت کے سچے موتی بھی رولتا ہے بلکہ ظاہر کی دنیا کے زخم، دکھ، پریشانیاں، درد، ظلم، محکومی اور استحصال کی تصویر کشی کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہے، شوزیب کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دل کی دنیا میں اس قدر کھو جائے کہ گرد و پیش کی خبر ہی نہ رہے،
روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب
مہنگائی اس قدر ہے کہ مر جائے آدمی
# # # #
چلتی ہیں روز گولیاں دیکھ لہو کی ہولیاں
کنگ ہیں اہلِ اقتدار ، صبح بخیر شب بخیر
# # # #
حسن کے لعل و جواہر پہ نہیں حق میرا
میں کہ صحرا ہوں سمندر پہ نہیں حق میرا
شوزیب کاشر نے اپنے منفرد اسلوب کو وسیع مطالعہ ، مشاہدۃ کائنات ، زندگی کی حقیقی معنویت سے مہمیز ، تصورات خلوصِ اور درد مندی سے معطر ، جذبات اور متنوع تخلیقی آور ذہنی تجربات کی اساس پر استوار کیا ہے ، زبان و بیان اور ہیت کے نادر تجربات نے اس کی غزل کو زندگی کی حقیقی معنویت کا ترجمان بنا دیا ہے ۔ اس کی غزل رنج اور راحت ، دکھ اور سکھ ، شادی و غم اور جذباتی نشیب و فراز کا باہمی تعلق اساسی کے بجائے حقیقی حثیت کی حامل ہے ، ایک حقیقی تخلیق کار کی حیثیت سے شوزیب کاشر نے قارئین ادب پر واضح کر دیا ہے کہ جہاں شادمانی ہماری زندگی کے معمولات کو کسی سمت لے جانے کا اہم ذریعہ ہے وہاں ہجوم یاس میں انسان کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور یہ کیفیت کی تفہیم پر اصرار کرتی ہے ۔ اس نے غزل کے جملہ اسرار و رموز کو پیش نظر رکھا ہے ، غزل کا ہر شعر ایک مستعمل حثیت اور واضح مفہوم رکھتا ہے ۔ اس نے غزل کی روایت کو جس خوش اسلوبی سے اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے مگر اس سب کے باوجود اس نے اپنے فن میں شاعرانہ تعلی سے اجتناب برتا ہے ،
نووارد اقلیم سخن بندۃ نا چیز
اک عام سا شاعر ہوں میں غالب نہیں صاحب
# # # #
ہم ایسے پیڑ بس اتنی سی بات پر خوش تھے
کہ بیل ہم سے لپٹتی ہے اور بیل سے ہم
# # # #
اسے نکالتے ہوئے یہ دھیان ہی نہیں رہا
نکل گیا تھا میں بھی اس کے ساتھ اپنے آپ سے
شوزیب نے اپنے من اور فن میں ڈوب کر زندگی کے حقائق کی غمازی میں جس انہماک کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ زندگی کے کن موضوعات پر قلم کی جولانیاں دکھانی ہوتی ہیں، وہ ادب کا نباض ہے اس لیے اس کی ہر تخلیق عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، غزل کی فنی اور جمالیاتی قدر و قیمت کے بارا میں وہ ایک واضح انداز فکر اپناتا ہے اور اظہار و ابلاغ میں ہمالہ کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، بادی النظر میں یہ حقیقت چونکا دیتی ہے کہ جس راہ میں دوسرے لوگوں کی سانس اکھڑ جاتی ہے وہاں شوزیب کاشر پورے اعتماد کے ساتھ خراماں خراماں چلتا ہوا منزل پہ پہنچ کر دم لیتا ہے،
اس فن کو غلط جاننے والوں کو خبر کیا
یہ شاعری ایسے ہے کہ جیسے کوئی منزل
عہد حاضر کی ترجیحات ہوں یا مجبوروں اور محروموں کے مسائل یا الم نصیبوں کے گھائل ہونے کا گمان، معرفت الٰہی کا بیان ہو یا حسن ر رومان کی داستان، چندے آفتاب، چندے ماہتاب حسینوں کی سراپا نگاری ہو یا ہوا و ہوس میں حد سے گزر جانے والوں کی بپتا ، علم و فضل کا احوال ہو یا معاشی آور معاشرتی جنجال، کار جہاں کے ہیچ ہونے کا تذکرہ ہو یا ہجر و فراق کی راہوں کے پر پیچ ہونے کا شکوہ، ہجر کی اذیت ہو یا وصل کی راحت غرض زندگی کا کوئی بھی پہلو اس کے دل بینا سے پوشیدہ نہیں رہتا، تخلیق فن کے لمحات میں اس نے جس جگر کاوی کا ثبوت دیا ہے وہ اس کی جدت اظہار، ندرت خیال، تخیل، اسلوبیاتی ضاعی اور زور بیان سے ظاہر ہے، پرورش لوح و قلم کو شوزیب کاشر نے ایک توازن اور ذوقِ سلیم کا آئینہ دار بنا دیا ہے، اپنی شاعری میں بالعموم اور غزل میں بلخصوص وہ مقام شوق کی اس منزل پر فائز ہے کہ پڑھنے والے اس کی کامرانیوں پر عش عش کر اٹھتے ہیں، اپنی غزل کے ذریعے اس نے مقصدیت کی جو شمع فروزاں کی ہے اسے اس کی زندگی کا بیش بہا اثاثہ قرار دیا جا سکتا ہے، وہ پوری دیانت کے ساتھ زندگی کی تعمیری اور اصلاحی اقدار کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر تخلیقی فعالیت میں مصروف ہے، آئیے اس زیرک تخلیق کار کی گل افشانی گفتار سے مزین اس دھنک رنگ منظر نامے کی ایک جھلک دیکھیں جو اس کا شعری اثاثہ ہے،
چار سو اس کا ہے شہود مگر
حسب توفیق ہے نظارہ جی
# # # #
ماں باپ کا منظور نظر ہوتے ہوئے بھی
محروم وراثت ہوں پسر ہوتے ہوئے بھی
# # # #
بچھڑ گئے تھے کسی روز کھیل کھیل میں ہم
کہ ایک ساتھ نہیں چڑھ سکے تھے ریل میں ہم
# # # #
بس بہت ہو گئے گلے شکوے
ختم شد داستاں،طلاق طلاق
# # # #
آیک ہی فارہئہ سے پیار کروں
میں کوئی جون ایلیا ہوں کیا
# # # #
مجھ کو ہے اکتساب فیض بارگہ حسین سے
اپنے اصول توڑنا میری سرشت میں نہیں۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Telephone
Website
Address
Rawala Kot