Syeda Writes

Syeda Writes

تعارف کیلئے یوں تو ہیں الفاظ بہت
المختصر یہ کہ اک عام سی بندی ہوں
سیدہٓ

11/03/2024

سب کو سیدہ کا سلام✨
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ✨
تمام اہلِ اسلام کو دل کی گہرائیوں سے رمضان مبارک اللّٰہ اس بابرکت مہینے کے صدقے ہم سب کی دلی تمناؤں کو قبول کرے اور ہم سے راضی ہو جائے ✨
آمین ثم آمین ❤️

20/12/2023

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم

"نازک آبگینے"
آخری قسط
ازقلم:سیدہ

Don't copy paste without my permission 🚫

"السلام و علیکم!"اندر داخل ہوتے ہی ان لوگوں کا سامنا امام صاحب سے ہوا تھا۔امان نے انہیں دیکھ سلام کیا۔

ان لوگوں کیلئے دروازہ بھی اختر صاحب نے ہی کھولا تھا اور ان تینوں نفوس کے علاوہ اختر صاحب ہی یہاں موجود تھے۔

اس نے انہیں سلام کیا تھا لیکن مہابیہ اور مسرت دونوں بالکل خاموش ایک دوسرے سے جڑی کھڑی تھیں جبکہ امام صاحب کے چہرہ کے تاثرات کرخت تھے۔

"آپ لوگ ولیمہ پر نہیں آئے،میں منتظر تھا آپ سب کا۔اماں کو تو میں ساتھ ہی لے گیا تھا مگر آپ لوگ اس دن گھر پر موجود نہیں تھے ورنہ آپ سب کو بھی ساتھ ہی لے جاتا۔"امان نے ان کے تاثرات نظر انداز کر شگفتہ لہجہ میں بات کا آغاز کیا۔

"بنا اجازت اس گھر سے قدم باہر کیسے نکالا ناہنجار عورت۔"امان کو مکمل نظر انداز کر امام صاحب مسرت کے نزدیک آئے،انہیں بازو سے دبوچ کر اپنے مدمقابل کیا اور ان کے سہمے ہوئے چہرہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا۔یہ سب اتنی اچانک ہوا تھا کہ کچھ پل کیلئے امان اپنی جگہ سے ہل نہ سکا تھا۔

دوسری جانب مسرت یہ وار سہہ نہ سکی تھیں۔ایک تو تھپڑ کا کاری وار اور پھر داماد کے سامنے اتنی سبکی دونوں نے ہی مل کر انہیں شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔

وہ سہم کر ہاتھ جوڑے،سر جھکائے کھڑی تھیں جبکہ مہابیہ نے ان کو دوسری جانب سے پکڑا ہوا تھا۔اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے جبکہ امان کیلئے تو یہ عمل ہی ناقابل برداشت تھا۔

"کیا ہوگیا ابا؟وہ میرے ساتھ گئی تھیں،میں ان کا داماد ہوں،ان کا محرم۔کوئی غیر تو نہیں۔"شدید غصہ آنے کے باوجود اس نے قدرے تحمل سے بولا تھا۔

"چپ کرو تم۔ہمارے درمیان بولنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔"مسرت کا بازو چھوڑ انہوں نے امان کو انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔

"میں آپ کے درمیان نہیں بول رہا۔یہ آپ دونوں میاں بیوی کا معاملہ ہے بےشک لیکن ایک عورت سے اس طرح بات کرنا اور اس پر ہاتھ اٹھانا ایک مومن مرد کا شیوہ نہیں۔"اس کا انداز مضبوط اور لہجہ ہموار تھا۔

"او بس بدتمیز لڑکے!ہم کوئی میاں بیوی نہیں ہیں،یہ غلام ہے میری،زر خرید غلام۔۔"جاہلانہ اطوار دکھاتے وہ ہر حد پار کر گئے۔

"امام صاحب خدا کیلئے داماد کے سامنے اس طرح مت کریں۔میں ہاتھ جوڑتی ہوں آپ کے آگے۔بیٹا تم مہابیہ کو لے کر چلے جاؤ۔یہاں سب ٹھیک ہو جائے گا۔"مسرت نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے ساتھ ہی امان کو ہدایت دی جسے مکمل طور پر نظر انداز کر وہ امام صاحب کے نزدیک آیا اور ان کا ہاتھ مسرت کے بازو سے ہٹا دیا۔

ان کا ہاتھ ہٹتے ہی مہابیہ نے اپنی ماں کو تھاما جو نڈھال ہو کر ہاتھوں میں آرہی تھیں۔

امان جیسے کڑیل جوان کے آگے امام صاحب کچھ بےبس سے ہوئے تھے۔

"سب سے پہلے اگر یہ آپ کی بیوی نہیں ہیں تو انہیں چھونے کا حق نہیں ہے آپ کو۔اسی لئے جو کہنا ہے فاصلہ سے کہیں۔"اب کی بار اس کی آنکھوں میں جلال تھا۔

"میرے سامنے مت آ لڑکے۔یہ میری غلام ہے اور میری مرضی میں اپنی غلام کے ساتھ جیسا سلوک کروں۔"وہ حسب معمول غرور کی انتہاؤں پر تھے۔

"امام صاحب۔۔۔زبان کو لگام میں رکھیں۔اچھا ہوا آج آپ کا یہ مکروہ چہرہ میرے سامنے عیاں ہوگیا۔آپ نے عورتوں پر بہت بس چلا لیا۔مجبوری میں اماں آپ کی ہر بات مانتی رہیں اور طلاق کے بعد بھی ساتھ رہتی رہیں مگر اب انہیں کوئی مجبوری نہیں ہے۔ان کا بیٹا ہے اب ان کا سہارا بننے کیلئے۔"اب کی بار امان نے ساری تمیز بالائے طاق رکھ دوبدو بات کی۔

"امان۔۔۔اماں کو دیکھیں کیا ہوا؟"اس سے قبل وہ مزید کچھ کہتا پیچھے سے آئی مہابیہ کی آواز پر پلٹا تو مسرت کو اس کی گود میں بےہوش پایا۔

"اماں۔۔۔"وہ گھبرا کر نزدیک آیا۔

"اماں اٹھیں نا۔۔۔"مہابیہ بھی روتے ہوئے مسلسل انہیں پکار رہی تھی۔

"میری جان حوصلہ کرو۔یہ بےہوش ہوئی ہیں بس۔چلو ہم انہیں ہاسپٹل لئے چلتے ہیں ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"مہابیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر امان نے اسے تسلی دی اور مسرت کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا۔

"اسے لے کر تم کہیں نہیں جاؤ گے۔اپنی بیوی کو لو اور دفع ہو یہاں سے۔"امام صاحب دروازے کے سامنے آکھڑے ہوئے۔

"کیوں؟میں انہیں لے کر جاؤں گا۔مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔"وہ درشتی سے گویا ہوا۔

"ٹھیک ہے شوق سے لے جاؤ مگر پہلے اس کی قیمت ادا کرو۔"اختر صاحب کے چہرہ پر مکاری عیاں تھی۔

"کیا قیمت لگائی تھی تم نے اور تم جیسے بےضمیروں نے ایک انمول ہستی کی؟"امان کی رگیں قیمت والی بات پر تن گئی تھیں۔مہابیہ مسلسل اپنی ماں کا چہرہ تھپتھپاتی انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔

"دو لاکھ۔"انہوں نے تحمل سے جواب دیا۔

"میرا اللّٰہ شاہد ہے کہ یہ قیمت میں نے ایک عورت کی نہیں چکائی بلکہ یہ قیمت ایک بد ذات مرد کے ضمیر کی چکائی ہے۔"امان نے مسرت کو زمین پر احتیاط سے لٹایا اور اپنی جیب سے چیک بک نکال کر دو لاکھ کا چیک پھاڑ ان کی جانب اچھال دیا اور واپس ان کو گود میں اٹھائے اس گھر سے انہیں لئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے روانہ ہو گیا۔

************

مسرت ہسپتال کے بیڈ پر بے حس و حرکت لیٹی تھیں۔ مہابیہ ان کے سرہانے بیٹھی بے آواز رو رہی تھی۔یہ آنسو خوشی کے تھے۔

اسے اپنی ماں کے تکان زدہ چہرہ کو دیکھ کر پہلی بار خوشی محسوس ہورہی تھی۔اس کی ماں اس جہنم سے آزاد ہو چکی تھی۔

کیسا عجیب سا احساس تھا۔وہ اور اس کی ماں آزاد ہو چکے تھے۔آنسو بہانے کی پہلے بھی بہت سی وجوہات تھیں اس کی زندگی میں لیکن امان کی صورت اس کی آنکھوں میں آنے والے یہ آنسو تشکر کے تھے جو اسے بڑے بھلے لگ رہے تھے۔

وہ یونہی مسرت کو نہارتی اپنی سوچوں میں غلطاں تھی کہ کمرہ کا دروازہ کھلا اور امان اندر داخل ہوا۔اس کے ہاتھ میں کچھ شاپرز اور شاپنگ بیگز موجود تھے۔

اندر داخل ہو کر اس نے دھیمی سی مسکان سے مہابیہ کو نوازا۔وہ بھی آنسوؤں سے تر چہرہ لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں بہت سے جذبات پنہاں تھے۔امان اس کے جذبات اچھے سے سمجھ رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے جو ہوا وہ مہابیہ کیلئے برداشت کرنا مشکل تھا۔وہ اس کے نزدیک آیا اور بنا کچھ کہے اسے خود سے لگا کر پیار بھری تھپکی دی۔

"میری ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے۔اماں دوا کے زیرِ اثر ہیں، ابھی دس پندرہ منٹ میں ان شاللہ ہوش آجائے گا تو پھر انہیں لے کر گھر چلیں گے۔"اسے خود سے الگ کر وہ مسرت کے بیڈ کے پاس ہی کرسی ڈال کر بیٹھ گیا۔

"امان۔۔۔۔"رندھی ہوئی آواز میں مہابیہ نے اسے مخاطب کیا۔قبل اس کے کہ وہ اس کی شکر گزار ہوتی یا کوئی اور بات کہتی امان نے اسے "ششش"کہہ کر چپ کرا دیا کہ یہ وقت مناسب نہیں تھا کسی بھی قسم کی بات کیلئے۔

"مہابیہ۔"کچھ دیر بعد امان نے اسے پکارا۔

"جی۔۔کہیں۔"اب وہ رو نہیں رہی تھی بس آنکھیں نم تھیں جو خشک ہو کے ہی نہیں دے رہی تھیں۔

"تم اماں کو یہ بات کبھی نہیں بتاؤ گی کہ وہاں ان کے بے ہوش ہو جانے کے بعد میرے اور اختر صاحب کے درمیان کیا باتیں ہوئیں اور میرے گھر والوں سے بھی جو بات کرنی ہوگی وہ میں خود کر لوں گا۔"وہ مسرت کی طرف دیکھ رہا تھا مگر مخاطب اس سے تھا۔

مہابیہ نے دیکھا کہ وہ اس بات کو کرتے ہوئے اسے دیکھنے سے بھی کترا رہا تھا۔وہ تو پہلے ہی امان کی اس محبت کے آگے جھکی جا رہی تھی اور اس کی عاجزی کا یہ عالم دیکھ وہ اس کے سامنے خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہی تھی۔

اللّٰہ نے اسے اتنا نواز دیا تھا کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے آگے حیران کھڑی تھی۔اسے کیسا اعلیٰ مرتبہ والا شوہر دیا گیا تھا جو جانتا تھا احسان کر کے جتایا نہیں جاتا، وہ تو بس اپنے رب کی خوشنودی کیلئے اس کے بندوں پر کیا جاتا ہے۔

وہ کوئی جواب نہیں دے پائی تھی،وہ دے ہی نہیں سکتی تھی۔

اس کی آواز تشکر کے سیلاب نے گھونٹ دی تھی۔امان جانتا تھا وہ جواب نہیں دے گی اور وہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس وقت کچھ بولے۔وہ چاہتا تھا کہ وہ چپ رہے اور کسی کو کچھ نہ بتائے۔

تھوڑی دیر بعد مسرت کو ہوش آنے لگا تھا۔

"اماں۔۔۔اماں۔۔۔ٹھیک ہیں نا آپ۔۔"مسرت کی آنکھیں ہولے ہولے کھل رہی تھیں۔مہابیہ فوراً کھسک کر قریب ہوئی تھی،امان بھی کرسی سے کھڑا ہوگیا تھا۔وہ ہوش میں آگئی تھیں۔انہیں ہوش میں آتا دیکھ ان دونوں کو ہی راحت ملی تھی۔

"میں۔۔۔ہم یہاں کیا کر رہے ہیں مہابیہ؟"ان کا ذہن ہولے ہولے بیدار ہوا تو خود کو ہسپتال کے بستر پر لیٹا پایا اور امان مہابیہ کو اپنے نزدیک دیکھا تو قدرے پریشانی سے اٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔

"اماں آپ لیٹی رہیں اور پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے بس آپ بے ہوش ہوگئی تھیں تو ہلکا پھلکا چیک اپ کیا ہے ڈاکٹر نے۔اب جب آپ کو ہوش بھی آگیا ہے تو پھر بس اب ہم گھر چلتے ہیں۔وہاں سب ہمارے منتظر ہیں۔" امان نے مسرت کے پیچھے کا تکیہ صحیح کرتے انہیں آرام دہ انداز میں بیٹھایا اور نرمی سے وضاحت دی۔

"لیکن ہم لوگ تو گھر گئے تھے نا اور وہاں۔۔۔"وہ مہابیہ کو دیکھ بول رہی تھیں لیکن امان کی موجودگی کے باعث بات ادھوری چھوڑی۔

"اچھا مطلب آپ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتیں،آپ کو آپ کی بیٹی زیادہ پیاری ہے۔"امان نے ماحول کو سازگار کرنے کیلئے مصنوعی خفگی دکھائی۔

"نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔"مسرت تھوڑا جھینپ گئیں۔

"جب ایسی کوئی بات نہیں ہے پیاری اماں تو آپ یہ لیں۔ جلدی چینج کرکے فریش ہو جائیں اور میرے اور مہابیہ کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کریں ہمارے گھر میں۔"امان نے کسی بچہ کی طرح ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا بیگ ان کی طرف بڑھایا جو وہ ابھی دواؤں کے ساتھ لایا تھا۔

"میں آپ کے گھر کیسے رہ سکتی ہوں بیٹا اور میں اپنے گھر کیوں نہیں جاسکتی؟۔۔"امان کے الفاظ مسرت کے دل میں بیک وقت خوشی اور خوف کا باعث بنے تھے۔ان کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔

"سب سے پہلے تو آپ کو میری کچھ باتیں سننی پڑیں گی اور ساتھ بنا کسی جراح کے ماننے بھی پڑیں گی۔۔"وہ مہابیہ کی ماں تھیں۔امان سمجھ گیا تھا وہ بات تو کریں گی مگر اس سے زیادہ روئیں گی سو ہلکی سی مسکان لئے ان کے جواب کا انتظار کئے بنا ہی اس نے اپنی بات آگے بڑھائی۔

"پہلی بات آپ کہنے کا یہ تکلف جو آپ کر رہی ہیں وہ نہ کریں۔میں داماد ہوں آپ کا،ایک بیٹے کے جو فرائض ہوتے ہیں وہی داماد کے بھی ہوتے ہیں۔دوسری بات میں نے ہمارے گھر کہا ہے ہمارے میں،میں،مہابیہ اور آپ ہم تینوں آتے ہیں اور رہی بات آپ کے پرانے گھر کی تو آپ اس گھر میں نہیں جائیں گی کیونکہ مجھے وہ آپ کیلئے پسند نہیں۔تیسری،آخری اور سب سے اہم بات اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میرے گھر والے کیا کہیں گے تو اس بات سے بےفکر ہو جائیں۔انہیں اس سب معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔ہمارے گھر میں ہر ایک کو شخصی آزادی حاصل ہے۔اسی لئے میرے ذاتی معاملات میں کوئی دخل نہیں دے گا مجھے یقین ہے۔بس اب سمجھیں آپ یا کچھ اور بھی سوال ہیں میرے لئے۔۔۔"اس کے لہجہ میں بیک وقت لاڈ،مصنوعی خفگی اور پیار بھری تنبیہہ تھی۔

مسرت کا کلیجہ کٹ رہا تھا۔وہ انسانوں کے اس روپ سے ناآشنا تھیں اور اب آشنا ہوئی بھی تھیں تو اپنے داماد کے روپ میں۔وہ اپنی خوش نصیبی کا حساب تو لگا ہی نہ پا رہی تھیں مگر حسب عادت ان کے آنسو ہر جذبہ عیاں کر رہے تھے۔

"دامادوں کے گھر میں ساس رہتی اچھی نہیں لگتی۔یہ معاشرہ اس چیز کو پسند نہیں کرتا۔"وہ کچھ دیر بعد گھٹی ہوئی آواز میں بولی تھیں۔

ان کی بات سن امان نے ذرا جھک کر ان کا ہاتھ تھاما اور مسکرایا۔

"اماں معاشرہ ایک حقیقت ہے میں جانتا ہوں لیکن دین حقیقی ہے۔جب میرے اللہ نے آپ کی بیٹی سے نکاح کے بعد آپ کے اور میرے رشتہ کو محرم قرار دیا تو معاشرے کی سوچ بے معنی ہوگئی۔میں یہ بھی جانتا ہوں لوگ بولیں گے اور میں انہیں چپ نہیں کراؤں گا،میں انہیں بولنے دوں گا۔وہ اپنے شوق سے رب کے فرمان کو ٹھکرا رہے ہوں گے تو ان کی زبانیں اللّٰہ خود بند کر دے گا،جب وہ چاہے گا۔یہ مسلمان مردوں کے فرائض ہیں کہ وہ اپنی محرم عورتوں کی کفالت کریں،انہیں محبت اور عزت دیں اور ان کے محافظ کے طور پر انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ ساتھ ہیں ان کے۔"اس نے سر کو خم دیا اور لحظہ بھر کو رکا اور اسی لمحہ دوسری طرف منہ کئے تشکر کے آنسو بہاتی مہابیہ نے ان دونوں کی طرف دیکھا۔

مسرت بہتے آنسوؤں سے تر چہرہ لئے امان کے جھکے سر کو دیکھ رہی تھیں۔امان ذرا جھکا کھڑا تھا اور اس کی نظریں اپنے ہاتھ کی پشت پر تھیں جس میں مسرت کے دونوں ہاتھ تھے۔

"میں آپ کے ساتھ ہوں اماں۔"وہ نظریں اٹھا کر مسرت کو دیکھ مسکرایا۔

اس کے الفاظ سن مسرت کا دل رک کر دھڑکا تھا۔اب تو کچھ گنجائش ہی نہیں رہی تھی۔امان نے سوال جواب کے سارے راستے بند کر دیئے تھے۔

********

مسرت کپڑے تبدیل کر کے باتھ روم سے باہر نکلیں۔وہ اس وقت گہرے نیلے رنگ کے لان کے سوٹ میں ملبوس تھیں۔یہ کپڑے ان کے ان گھسے ہوئے کپڑوں سے کافی اچھے تھے جو وہ معمول کے دنوں میں پہنا کرتی تھیں۔اختر صاحب کے گھر میں وہ اپنی جیٹھانی کے گھسے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں۔اس کے علاوہ کبھی کبھی ان کی بہو انہیں کوئی عزت کا جوڑا سب سے چھپ کر لا دیتی تو اسے وہ پہننے کی بجائے مہابیہ کیلئے سنبھال کر رکھ دیتی تھیں۔

آج اتنے سالوں بعد نیا جوڑا پہن کر وہ ایک نئی ہی خوشی سے سرشار ہوئی تھیں اور یوں پھر سے ان کے آنسو بہہ نکلے تھے۔

وہ امان کا لایا ہوا عبایا پہن کر تیار تھیں۔مہابیہ نے بھی ان کی دوائیں اٹھا لی تھیں اور امان کے آنے کے انتظار میں تھی۔

کچھ دیر بعد امان کمرے میں داخل ہوا اور مسکراتا ہوا ان دونوں کی طرف آیا۔

"چلیں۔"اس نے شرارت سے اپنا ایک ایک ہاتھ ان دونوں کے آگے کیا۔جسے ان دونوں نے ہی بھیگے چہرے اور مسکراہٹ کے ساتھ تھام لیا اور وہ تینوں ساتھ آگے بڑھ گئے کیونکہ اب پیچھے مڑ کر کسی نے نہیں دیکھنا تھا۔

*********

ہنزہ کی خوبصورت وادی میں بہار کی یہ شام کچھ زیادہ ہی حسن لئے اتری تھی۔نیلگوں آسمان پر جگہ جگہ بادلوں کے ڈیرے تھے۔سورج بادلوں کے پیچھے چھپا اپنی کرنوں کی مدھم روشنی بکھیرتا مستی میں تھا۔پرندے اونچے درختوں پر بنے اپنے گھونسلوں میں سکون کی وادیوں میں محو رقص تھے۔

وہ کندھوں پر مخمل کی ڈارک پرپل شال اوڑھے لکڑی کے بنے دلکش کاٹیج کی بالکونی میں کھڑی نیچے نظر آتے منظر پر نظریں جمائے مسکرا رہی تھی۔لِلیک کلر کی اے لائین شرٹ اور پاجامہ زیب تن کئے وہ خاصی پروقار لگ رہی تھی۔اس کی بھوری آنکھیں سامنے کا منظر دیکھ چمک رہی تھیں اور بھورے ریشمی سیدھے بال ہوا کی دوش پر لہرا رہے تھے۔وہ اس وقت حجاب میں نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ امان کی پرائیوٹ پراپرٹی میں موجود تھے اور یہاں محض مہابیہ،امان اور ان کے بچے ہی موجود تھے۔وہ سب یہاں ویکیشنز کیلئے آئے تھے۔

بہار کی آمد آمد تھی۔جس کی سبب کاٹیج کے باغ میں موجود کلیاں پھوٹ رہی تھیں۔کچھ کھل رہی تھیں تو چند ایک کھل چکی تھیں۔اسی کے ساتھ خزاں کا موسم اب رخصت لے رہا تھا مگر جاتے جاتے کچھ زردیاں بکھیر رہا تھا۔درختوں کے کچھ زرد پتے ابھی بھی جھڑ رہے تھے۔یوں یہ دو خوبصورت موسم باہم مل کر اس جگہ کے حسن کو دوام بخش رہے تھے۔بہار اور خزاں کا یہ حسین امتزاج سراہے جانے کے قابل تھا۔

گارڈن میں امان دونوں بچوں کے ساتھ مستیاں کر رہا تھا۔تینوں ہی مہابیہ کے سوٹ کی ہم رنگ ٹی شرٹ اور بلیو کلر کے ٹراؤزر میں ملبوس تھے۔وہ انہیں دیکھ مسکرا رہی تھی۔وہ تینوں ایک دوسرے میں مگن تھے۔خولہ اور یحییٰ کے پیچھے بھاگتا امان خود بھی چھوٹا بچہ معلوم ہو رہا تھا۔

تھوڑی دیر کی اس بھاگم بھاگی کے بعد اب وہ تینوں ایک پتھر پر ٹک گئے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔نہ جانے کیا باتیں ہو رہی تھیں۔اتنی دور سے وہ تو اسے سمجھ نہ آئیں مگر پھر امان نے اپنے ٹراؤزر کی جیب سے لکڑی کا کنگھا نکالا اور پتھر پر خولہ کو ٹکایا پھر وہ دونوں باپ بیٹا مل کر اس کے بال سنوارنے لگے۔خولہ مسکراتی ہوئی اپنے باپ اور بھائی کے لاڈ وصول کر رہی تھی۔مہابیہ کی تو کل کائنات ہی اس منظر میں سمائی ہوئی تھی۔

ہری ہری گھاس پر اونچی نیچی چھوٹی چھوٹی چوٹیاں بنی تھیں۔ان کے اطراف میں رنگ برنگی کلیاں بہار کی آمد کا پیغام ہر سو پھیلا رہی تھیں تو گھاس پر پڑے زرد پتے قدموں کے نیچے چرمراتے ہوئے خزاں کو الوداع کہہ رہے تھے۔گارڈن کے اطراف میں کئی چوٹیاں کھڑی تھیں جن سے چشمہ پھوٹ رہے تھے جو وہیں بہتی شفاف ندی میں گرتے موسم کو ٹھنڈک بخش رہے تھے۔قدرت کے نظارے چہار سو بکھرے ہر دیکھنے والی آنکھ کو دعوت نظارہ بخش رہے تھے۔

اس کی زندگی ان چھ سالوں میں یکسر بدل گئی تھی۔امان کی محبتوں بھری سنگت میں دین اسلام کی اصل روش پر چلتے اس کی زندگی بھی خزاں سے بہار میں داخل ہو چکی تھی اور پھر شادی کے ایک سال بعد جڑواں بچوں کی پیدائش نے جنت کو اس کے قدموں کا مکین کر دیا تھا۔اس کے خالق و مالک نے اسے بہت نوازا تھا۔قدرت نے امان کی صورت اس پر ہوئے ہر ظلم کا مداوا کر دیا تھا۔وہ اپنے رب کا جتنا شکر کرتی کم تھا۔اس کا اپنا خاندان تھا۔اس کا محبت کرنے والا شوہر،دو پیارے سے بچے،وہ مکمل تھی اور سونا پر سہاگہ کہ اس کی ماں بھی اب مطمئن زندگی گزار رہی تھی۔وہ ان کے ساتھ ہی رہ رہی تھیں۔امان نے داماد ہونے کا فرض بھی بخوبی نبھایا تھا۔وہ اس کی مقروض تھی۔کبھی کبھی وہ سوچنے بیٹھتی تو سوچتی چلی جاتی کہ امان کے کتنے احسانات تھے اس کی ذات پر،وہ کیسے اس کے احسانات کا بدلہ چکائے گی اور جب اسے کوئی راہ نہ دکھتی تو وہ شکرانے ادا کرتی اور اپنے رب کا ڈھیروں شکر ادا کرتی کہ بےشک یہ اسی پاک ذات کی عنایت تھی۔

وہ اپنے ماضی کو اور باپ بھائی کے مظالم کو بھی یکسر بھول چکی تھی۔اس میں بھی امان نے ہی اس کی رہنمائی کی تھی۔شروع شروع میں اس کا دل بےچین رہتا تھا۔اس کا دل انتقام کی آگ میں جلتا تھا۔وہ اپنے ابا اور بھائی کو برباد دیکھنا چاہتی تھی مگر بقول امان کے "اللّٰہ ظالموں کی رسی دراز کرتا ہے اور ظلم انتہاؤں کو پہنچتا ہے پھر ایک دن مٹ جاتا ہے سو مظلوموں کو چاہیے کہ صبر کریں کہ بےشک اللّٰہ صابرین کے ساتھ ہے۔"

وہ یونہی سوچوں میں گم کھڑی ان تینوں کو دیکھ مسکرا رہی تھی کہ تبھی امان نے بچوں سے فارغ ہو کر نیچے سے اسے اشارہ کر اپنے پاس بلایا۔وہ اسے دیکھ مسکرا رہا تھا۔وہ بھی مسکرائی اور گردن کا اشارہ کر بالکونی کے ساتھ بنی لکڑیاں کی سیڑھیاں اترنے لگی۔

امان اسے آتا دیکھ تھم گیا تھا اور محو ہو کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھ منتظر کھڑا تھا۔وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

ساتھ ہی اس کے بچے اب پھر سے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے کہ تبھی خولہ لڑکھڑائی،مہابیہ کے قدم تھمے،امان نے اسے تھمتا دیکھ اپنے عقب میں نگاہ دوڑائی مگر اس سے قبل کہ اس کی پانچ سالہ بچی گرتی اس کے بھائی نے پیچھے سے آکے اسے تھاما اور سیدھا کھڑا کر دیا۔وہ کھکھلائی اور دونوں بہن بھائی دوبارہ دوڑنے لگے۔امان نے ہنستے ہوئے سر جھٹکا پھر اس کی جانب مڑ کر تھوڑا سا جھکا اور اسے دوبارہ آنے کا اشارہ کیا۔وہ بھی سانس میں سانس بھر دوبارہ قدم نیچے کی جانب بڑھا گئی۔

سیدھی چلتی وہ اس کے نزدیک آئی اور اپنے محبوب شوہر کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر اس کے سینے سے لگ گئی۔وہ دونوں ساتھ کھڑے تھے۔وہ اس کی پناہوں میں محفوظ تھی اور وہ اس کے گرد حصار کئے اس کی حفاظت پر معمور۔

"بہت شکریہ۔۔میری خزاں کو بہاروں سے ہمکنار کرنے کیلئے۔"وہ اس کے سینے سے سر اٹھا کر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی۔

"بہت شکریہ۔۔۔میری زندگی کو بہاروں کی آماجگاہ بنا کر ان میں دلکش رنگ بھرنے کیلئے۔"اس کی جانب محبت سے دیکھ اس نے شکر گزاری کا جواب مزید شکر گزاری سے دیا۔

وہ دونوں کچھ لمحہ ایک دوسرے میں کھو سے گئے کہ تبھی یحییٰ کے زور سے ہنسنے کی آواز نے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا۔

وہ دونوں بھاگتی دوڑتی دنیا کی فکروں سے آزاد اپنی عمر کے اس بےفکر حصہ کے مزے لوٹتے کھلکھلا رہے تھے۔آنے والے وقت سے انجان مہابیہ اور امان بھی مسکراتے ہوئے ان دونوں کی طرف آئے۔

امان اور مہابیہ کی اولادیں ان کے زیر سایہ زندگی کی پر لطف بہاروں کے مزے لوٹ رہی تھیں۔ان کے گلشن کے ان ننھے گلابوں کی بہاریں عروج پر تھیں اور وہ اس میں پھل پھول رہے تھے مگر زندگی محض بہاروں کا ہی مسکن نہیں،یہ خزاؤں کی روش بھی ہے۔بہاروں میں سیر کرتے خولہ اور یحییٰ کیا خزاؤں کی سختیاں جھیل کر سرخرو کر سکیں گے اپنے والدین کو یا مرجھا کر جدا ہو جائیں گے اپنے شجر سے۔۔۔

ختم شد۔

20/12/2023

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم

"نازک آبگینے"
بارہویں قسط
ازقلم:سیدہ

Don't copy paste without my permission 🚫

"یا اللہ میری بچی کا گھر آباد رکھنا۔میرے مالک امان کے دل کو سدا اس کیلئے نرم رکھنا۔میرے رب میری بچی کو معاف کر دے۔اس کی زندگی جہنم نہ بن جائے میرے مالک۔اس نے بہت دکھ جھیلیں ہیں،اب مزید اذیت سے بچا لے اسے۔اسے اپنے گھر میں آباد رکھ۔آمین۔"مہابیہ کو سونے کیلئے بھیج کر مسرت نے تہجد کی نماز ادا کی اور اپنے خالق کے حضور ہاتھ پھیلا کر اپنی بچی کی پرسکون زندگی کیلئے سہما ہوا دل لئے روتی ہوئی فریاد کرنے میں مشغول ہو گئیں۔

*********

صبح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آن وارد ہوئی۔آج امان اور مہابیہ کا ولیمہ تھا سو گھر میں معمول سے زیادہ گہما گہمی مچی ہوئی تھی۔مہمانوں کی آمد ہوچکی تھی۔سب ہی رشتہ دار گھر میں موجود تھے اور خوش گپیاں چل رہی تھیں۔

امان کی کزنز مہابیہ کو گھیرے ہوئے اس سے ڈھیروں باتیں کر رہی تھیں۔وہ بھی ہوں ہاں کرتی ان لوگوں کا ساتھ دے رہی تھی۔مسرت بھی رخسار بیگم کے ساتھ بیٹھی ان سے اور باقی رشتہ دار خواتین سے باتوں میں مشغول تھیں جبکہ تمام مرد ڈرائینگ روم میں بیٹھے کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔الغرض گھر میں خوب رونق لگی ہوئی تھی۔

"مہابیہ میں آفس جا رہا ہوں شام تک ہی لوٹوں گا۔پانچ بجے کے قریب تمہارا ڈریس گھر آجائے گا سو تم تیار ہو جانا۔"امان فارمل ڈریس میں تیار سا اس کے پاس آیا اور عجلت میں بولا۔

مہابیہ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو نگاہ اس پر ٹھہر سی گئی۔سرمئی رنگ کے ڈریس پینٹ اور کوٹ کے ہمراہ سی گرین شرٹ اور سفید ٹائی میں ملبوس وہ عام حلیہ سے قدرے مختلف اور زیادہ جاذب نظر لگ رہا تھا۔مہابیہ کی نگاہ اس پر اٹھی تو ہٹنے سے انکاری ہوگئی۔

"اف او۔۔بھئی امان بھائی کو تو بھابھی کی ایک ایک چیز کی اپڈیٹ ہے۔میاں ہیں یا پرسنل سیکرٹری۔۔۔"امان کی چچا زاد نے مہابیہ کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور شرارت سے گویا ہوئی۔

اس کا جھٹکا لگنے پر وہ یکدم ہوش میں آئی اور نظریں جھکا گئی۔

"ہاں بھئی بالکل پرسنل سیکرٹری ہوں۔ہاں بس کچھ زیادہ ہی پرسنل۔۔۔۔"امان نے اسے شوخ نظروں میں لیتے ذومعنی انداز اپنایا تو وہ مزید سمٹی جبکہ ساری کزنز نے ہوٹنگ کر مہابیہ کو اور بلش کرنے پر مجبور کر دیا۔

امان اپنا جملہ مکمل کر اسے اللّٰہ کے سپرد کرتا مرکزی دروازہ کی جانب بڑھ گیا جبکہ پیچھے ابھی بھی سب لڑکیوں کی چھیڑ چھاڑ جاری تھی۔

*********

شام کے سات بج رہے تھے۔ولیمہ کی سادہ سی پروقار تقریب کم دعوت کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا گیا تھا جہاں ان سب لوگوں کو آٹھ بجے پہنچنا تھا سو اسی لئے سب ہی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔اسے بھی تیار ہونا تھا مگر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح تیار ہو؟

امان بھی ابھی تک آفس سے نہیں لوٹا تھا۔فی الحال تو اسے یہ مناسب ہی لگ رہا تھا کہ اس سے سامنا نہ ہو۔اس نے دل میں ٹھان لی تھی کہ رات میں ولیمہ کی تقریب سے لوٹنے کے بعد وہ اس سے زوبیہ والے معاملہ پر بات کرے گی اور پھر جو اس کا فیصلہ ہوگا وہ کھلے دل سے قبول کر لے گی اور اماں کو ساتھ لئے اس گھر سے اور امان کی زندگی سے چلی جائے گی۔لاکھ اماں کے منع کرنے کے باوجود بھی اس کا دل امان کو دھوکہ میں رکھنے سے انکاری تھا۔

وہ یونہی سوچوں میں گم تھی کہ ایمن کمرے میں اجازت لے کر داخل ہوئی۔

"کن سوچوں میں گم ہو دلہنیا؟"وہ اس کے نزدیک آبیٹھی۔

"کیسے تیار ہونا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔"اس نے اپنی جیٹھانی کو اپنی فی الوقت کی مشکل بتائی۔

"بس اتنی سی بات۔اس میں تو کچھ مشکل نہیں۔چلو آؤ میں تمہاری مدد کرتی ہوں تیار ہونے میں۔تم اپنا جوڑا پہن کر آجاؤ۔"ایمن نے چٹکیوں میں اس کی مشکل حل کر دی۔

"ٹھیک ہے۔"وہ مسکرائی اور جوڑا اٹھائے چینج کرنے کی غرض سے اٹیچ باتھ کی جانب چل دی۔

پیچھے ایمن اس کی باقی ضروریات کا سامان اکھٹا کر اس کا انتظار کرنے لگی جو کہ جلد ہی ختم ہوا اور وہ ولیمہ کا جوڑا پہنے باتھ روم سے باہر نکلی۔

"ماشاءاللہ دیورانی صاحبہ آپ پر تو یہ جوڑا بہت جچ رہا ہے۔چلو اب جلدی یہاں بیٹھو تو میں تمہیں مکمل تیار کر دوں۔"اسے دیکھ بےساختہ ایمن نے تعریف کی اور اسے تھام کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بٹھا دیا۔

************

ولیمہ کا انتظام ایک ہوٹل کے پرائیوٹ ایریا میں کیا گیا تھا۔یہ ایک بڑی سی ہال نما جگہ تھی جہاں دو ٹیبلز لگی تھیں۔جن میں سے ایک ٹیبل پر ساری خواتین براجمان تھیں جبکہ دوسری ٹیبل مردوں کیلئے مخصوص کی گئی تھی۔

مہابیہ اور امان سب کے پہنچنے کے بعد ایک ساتھ تقریب میں داخل ہوئے تو سب ہی نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر ان کو خوش آمدید کہا۔

وہ دونوں میچنگ ڈریس پہنے ایک دوسرے کے ہمراہ بالکل مکمل لگ رہے تھے۔مہابیہ نے پستئی رنگ کی میکسی زیب تن کی تھی جس پر نفیس سا نقشی کا کام ہوا تھا۔چہرہ کے گرد اسی کا ہم رنگ مخملیں حجاب لپیٹا ہوا تھا اور چہرہ میک اپ سے عاری بالکل سادہ تھا جبکہ جیولری اور چوڑیاں مفقود۔

دوسری جانب اس کے ساتھ کھڑا امان بھی پستئی رنگ کی شرٹ کو سیاہ رنگ کے کوٹ پینٹ کے ہمراہ زیب تن کئے،بائیں کلائی پر سیاہ رسٹ واچ اور اسی رنگ کے جوتے پہنے خاصا دلکش لگ رہا تھا۔

دونوں ساتھ ساتھ اندر داخل ہوئے۔امان نے اسے خواتین کی ٹیبل پر بٹھایا اور خود جا کر مردوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔

ان کے پہنچنے کے کچھ دیر بعد ویٹرز کھانا سرو کر گئے تھے۔انتہائی خوشگوار ماحول میں سب نے مزیدار کھانے سے لطف اٹھایا اور یوں ان کے ولیمہ کی سادہ سی شام نہایت خوبصورتی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔

***********

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو تم اس کلر میں۔"امان نے نزدیک آکر اسے پیچھے سے تھاما اور آئینہ میں نظر آتے اس کے عکس کو اپنی شوخ نظروں کے حصار میں لیا۔وہ جو اپنی ہی سوچوں میں گم صم کھڑی تھی امان کی گمبھیر آواز پر چونکی۔

اس کی آواز سن اس کا دل الگ ہی لے پر دھڑکا تھا۔

"ویسے کل تم نے بڑی زیادتی کی میرے ساتھ۔اماں کے آتے ہی شوہر کو نو لفٹ کا سائن دے کر چلی گئیں۔پتہ ہے پوری رات تڑپتا رہا تمہارے لئے۔"اس کا ذومعنی انداز اور آنکھوں کی گستاخیاں مہابیہ کو پسینہ پسینہ کر گئیں۔

نگاہیں اسے دیکھنے کی تاب نہ لا سکیں اور خود بخود جھک گئیں۔

"چلو اب ادھر دیکھو۔کیا آئینہ کے سامنے ہی کھڑی رہو گی بیڈ پر تشریف لے آؤ تاکہ یہ بندۂ ناچیز کو بھی کچھ پل راحت کا سامان ہو۔"اس کا رخ اپنی جانب کر اس نے اس کی جھکی گردن اٹھائی۔

دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور مہابیہ نے پھر نگاہیں چرا لیں۔

اب کی بار امان نے بنا کچھ کہے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور لا کر احتیاط سے بیڈ پر بٹھا دیا۔

"مجھے۔۔۔۔مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔"وہ جو ابھی پیش قدمی کر ہی رہا تھا اس کی آواز سن بدمزہ ہوا تھا۔

"کیا ہے یار؟تمہیں اس وقت کیا بات بتانی ہے؟"اس کا سارا موڈ غارت ہوگیا تھا۔

مہابیہ نے کن انکھیوں سے اس کی جانب ڈرتے ہوئے دیکھا۔

"اچھا بتاؤ،میں سن رہا ہوں۔"اس کے چہرہ پر خوف دیکھ وہ ٹھنڈا ہوا اور ہموار لہجہ میں اس کو خود سے نزدیک کر بولا۔

"وہ کل دوپہر میں جب ہم لوگ شاپنگ پر گئے تھے تب۔۔۔۔۔"وہ ساری ہمت جمع کر بولنا شروع ہوئی۔

"تب کیا؟؟"اس کا ادھورا جملہ امان کو کھلا۔

"تب زوبیہ ملی تھی نا۔۔؟یاد ہے آپ کو۔"وہ ڈرتے ہوئے بول رہی تھی۔

"ہاں یاد ہے تو؟"اسے اس وقت اس بات کو کرنے کا مطلب کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

"اس نے جو بات کہی تھی آڈیشن والی۔۔۔"اس کی آنکھوں سے ضبط کے باوجود بھی آنسو بہہ نکلے۔

"تو اس میں رونے کی کیا بات ہے میری جان۔یوں خود کو ہلکان نہ کرو۔"امان کو اس کے آنسو دیکھ تکلیف ہوئی تھی جو اس کے چہرہ سے بھی عیاں تھی۔

"امان میں۔۔۔میں آپ کو سب بتاتی ہوں کہ میں آڈیشن کیلئے کیوں گئی تھی۔۔۔"وہ رونے کے درمیان بول رہی تھی۔

"کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے مہابیہ۔مجھے کچھ نہیں جاننا۔جو کچھ بھی ہوا،تمہارے آڈیشن پر جانے کی جو بھی وجہ تھی،تم نے ماضی میں جو بھی کچھ کیا مجھے نہیں جاننا۔میں ہوتا کون ہوں تمہارے ماضی کو جاننے والا یا اس کی بنیاد پر تمہیں جج کرنے والا۔ہو آئی ایم؟نتھنگ بٹ آ سِن فل ہیومن۔"وہ اس کے آنسو پونچھتا اپنے الفاظ سے اس کی تکلیف پر مرہم رکھ رہا تھا۔

"مگر یہ آپ کا حق ہے کہ آپ جانیں کہ آپ کی بیوی کیسی عورت تھی اور پھر اس بنیاد پر فیصلہ کریں کہ میں اس لائق ہوں کہ آپ کی زوجیت میں رہوں۔۔۔۔۔"وہ ہنوز شرمندہ تھی اور اپنی بات پر قائم۔

"میری بیوی ایک باحیا مقدس عورت ہے جو میرے سچے جذبوں کی قدر دان ہے اور مجھے اس کے ماضی سے کوئی سروکار نہیں۔میں اپنی بیوی کی ہمراہی میں جنت تک کا سفر کرنا چاہتا ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ جنت میں بھی تم ہی میری ہم سفر بنو۔"اس کے سارے خدشات کو مٹی کرتا وہ اسے بانہوں میں بھرے اس کو سکون بخش رہا تھا۔

"اور ایک بات میری جان اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم نے ماضی میں کوئی ایسا کام کیا ہے جو اللّٰہ کی حدود سے باہر تھا تو اس کی معافی اللّٰہ سے طلب کرو۔وہ رحمن ہے تمہیں معاف کر دے گا۔دل میں کبھی کسی بھی قسم کا خوف مت لانا۔اللہ نے مجھے تم سے ملایا ہے۔مجھے تم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔سمجھیں میری جگر کی ٹکڑی۔۔۔"متانت سے بات مکمل کر وہ آخر میں شوخی سے بولا تو مہابیہ کو لگا کہ اس کا دل آزاد ہوگیا۔

وہ اب مطمئن تھی۔امان نے اسے یقین کی طاقت بخشی تھی اور اس کے دل سے سارے ڈر نکال دیے تھے۔وہ اس کے سینے سے لگی طمانیت سے مسکرا رہی تھی۔

"اچھا اب تو ہوگئی نا تمہاری بات مکمل؟"یکدم ہی اسے خود سے الگ کر اس نے اسے سامنے کیا۔

"جج۔۔جی۔۔"وہ اٹک کر بولی۔

"تو اگر اب آپ کی اجازت ہو تو آپ کا یہ ہینڈسم سا شوہر اپنی خوبصورت،نازک اندام،شرمیلی گھبریلی،سراپا حسین و دلکش بیوی کے ساتھ کچھ پیار بھری جسارتیں کرنے کی کوشش کر سکتا ہے؟"وہ خاصا سنجیدہ تھا اور مہابیہ تو ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی مگر آخر تک آتے آتے جب اسے بات سمجھ آئی تو بےساختہ نظریں جھک گئیں۔

امان کی بےقراریوں کو مزید نہ بڑھاتے وہ بالآخر خود کو اس کے سپرد کر خود کو اور اسے دونوں کو مطمئن کر گئی۔

اس کی زندگی میں اب بہاریں ہی بہاریں تھیں۔امان کی پل پل بڑھتی محبت اسے یقین دلا رہی تھی اور وہ اس کی محبتوں کی بارش میں بھیگتی سرشار ہو رہی تھی۔

**********

وہ لوگ کار میں بیٹھے اسلام آباد سے لاہور کی جانب محو سفر تھے۔امان اور مہابیہ آگے کی سیٹ پر بیٹھے تھے اور مسرت آرام دہ انداز میں پیچھے کی سیٹ پر براجمان تھیں۔

ہلکی پھلکی باتوں کے درمیان ان کا یہ سفر جاری و ساری تھا۔

"گھر سے بنا اجازت کے آ تو گئی اب واپسی پر نہ جانے امام صاحب کیا سلوک کریں گے۔اگر انہوں نے ہاتھ اٹھایا تو داماد کے سامنے میری کیا عزت رہ جائے گی۔یا اللّٰہ تو میری لاج رکھنا۔"

"اماں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے نا؟آپ کو کچھ چاہیے؟"بیک ویو مرر میں نظر آتا مسرت کا فکروں میں جکڑا چہرہ دیکھ امان نے انہیں پکارا تو وہ سوچوں سے باہر آئیں اور اس کی جانب متوجہ ہوئیں۔

"نہیں بیٹا بس یونہی۔اتنا سفر کرنے کی عادت نہیں ہے نا تو تھکن سی ہو رہی ہے۔"اب کچھ تو بہانہ بنانا ہی تھا۔

"تو آپ سیٹ سے تھوڑی ٹیک لگائیں وہ پیچھے کو ہو کر سیدھی ہو جائے گی،آپ اس پر نیم دراز ہو جائیے گا۔"امان نے ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں تفصیل سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بھی بنا کسی حیل و حجت کے اس کی ہدایت پر عمل کیا اور آرام دہ ہو کر بیٹھ گئیں۔وہ الگ بات تھی کہ دل ان کا ہنوز بےچین تھا۔

************

سفر اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوتا بالآخر امام اختر خان کے گھر کے مرکزی دروازے کے سامنے تمام ہوا۔کار رکتے ہی مسرت کا دل بھی رکا تھا۔

"یا اللّٰہ عزت رکھنا۔"مسلسل یہی گردان دل میں دہراتی وہ امان کے دروازہ کھولنے پر اس کا بڑھا ہاتھ تھام کر نیچے اتریں۔

"اماں گھر میں جائیں گی آپ؟"مہابیہ نے ان کے نزدیک آکر سوال کیا۔چہرہ پر فکرمندی کی لکیریں اور لہجہ میں خوف نمایاں تھا جسے امان نے شدت سے محسوس کیا تھا۔

"مطلب؟کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ مہابیہ۔"اس نے اسے کندھے سے تھام کر دھاڑس بندھائی۔

"نہیں بیٹا تم پریشان مت ہو۔"جواب مسرت کی جانب سے آیا۔

"چلیں تو پھر اندر چلتے ہیں۔"ایک جانب سے مہابیہ کا ہاتھ تھام دوسرے ہاتھ سے مسرت کو کندھے سے پکڑ کر وہ اپنی بیوی اور ساس کو لئے مرکزی دروازہ کی جانب بڑھا۔

**********

جاری ہے۔۔۔

27/11/2023

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم
"نازک آبگینے"

گیارہویں قسط
ازقلم:سیدہ

Don't copy paste without my permission 🚫

"شکر ہے اٹھ گئیں تم۔کب سے منتظر تھا میں تمہارے اٹھنے کا۔رات ہوگئی ہے۔"مندی مندی آنکھوں سے اس نے امان کی جانب دیکھا جو اس کے نزدیک بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
کچھ دیر تو وہ غائب دماغی سے امان کو دیکھتی رہی پھر شاپنگ مال کے باہر کا منظر یادداشت کے پردے پر لہرایا تو اٹھتے ہوئے اس کا دل سہم گیا۔
"میں تو واپس آکر دہلیز پر ہی گر گئی تھی پھر میں سو کیسے گئی اور اس کے بعد یہاں بستر پر آکر کیسے لیٹ گئی؟"اس کا ذہن مختلف سوچوں کی سبب ماؤف ہو رہا تھا۔
"تم شاپنگ سے واپسی پر اتنا تھک گئی تھیں کہ بیڈ تک بھی نہ پہنچ سکیں اور دروازے پر ہی سو گئیں؟"امان نے سادہ سے انداز میں پوچھا۔
"نہیں وہ۔۔۔۔پھر میں یہاں کیسے پہنچ گئی؟"وہ الجھن کا شکار تھی۔
"اڑ کر۔۔۔"
"ہیں!!!!!"
"ارے بابا میں جب کمرے میں آیا تو تم دروازے پر پڑی تھیں چونکہ تمہارا وزن زیادہ نہیں ہے سو میں نے تمہیں گود میں اٹھا کر یہاں لٹا دیا اور پھر انتظار کرنے لگا تمہارے اٹھنے کا۔"اس نے ہلکے پھلکے انداز میں تفصیل بتائی۔
"چلو اب اٹھو اور منہ ہاتھ دھو لو۔رات ہو رہی کھانا بھی تیار ہے اور تم شاید جب سے ہی سو رہی ہو تو نمازیں بھی قضا ہوگئیں ہوں گی تمہاری سو کھانا کھا کر پڑھ لینا۔"اس نے رسانیت سے کہا۔
وہ اس کے لہجہ میں کہیں بھی زوبیہ والی بات کا شائبہ تک نہیں کھوج پا رہی تھی سو وہ اس بات کو جھٹک کر منہ دھونے کی غرض سے کمرے میں بنے اٹیچ باتھ کی جانب بڑھ گئی۔
*********
امان چھ سات گھنٹے بعد جب واپس گھر آکر کمرے کے دروازے پر آیا تو دروازہ اندر سے مقفل تھا جو کہ اس کیلئے حیران کن بات تھی۔
"مہابیہ کو دروازہ لاک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟"سوچتے ہوئے اس نے جیب سے دروازہ کی چابی نکالی اور دروازہ کھول دیا مگر دروازہ کھلنے پر بھی پورا کھل نہیں پا رہا تھا تو اس نے جھانک کر دیکھا اور جھانکنے پر معلوم ہوا کہ مہابیہ عبایا میں ملبوس دروازے کے پاس ہی سو رہی تھی یا شاید بے ہوش تھی۔
وہ احتیاط سے اندر آیا اور اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا پھر اسے عبایا سے آزاد کر اس کا معائنہ کیا۔
وہ بے ہوش نہیں تھی بلکہ گہری نیند میں تھی سو اس نے اسے نیند سے جگانا مناسب نہ سمجھا اور برابر میں بیٹھ کر اس کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا جو کہ اب پورا ہوچکا تھا اور وہ اٹھ چکی تھی۔
********
"اماں آپ یہاں کیسے؟"وہ دونوں ساتھ ہی لاؤنج میں داخل ہوئے تھے تب اس کی نظر رخسار بیگم کے ساتھ بیٹھی چائے پیتی مسرت پر گئی تو وہ چند لمحہ تو ساکت ہی رہ گئی پھر دوڑ کر نزدیک پہنچی اور ان کے سینے سے لگ گئی۔
وہ بھی اس کے آنے پر کھڑی ہوگئی تھیں اور پیار بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔وہ جب ان کے سینے سے لگی تو ممتا سے تڑپتے دل کو بالآخر راحت مل گئی۔
دونوں ماں بیٹی کافی دیر یونہی ساتھ لگی روتی رہیں۔امان اس کے نزدیک ہی کھڑا تھا جبکہ رخسار بیگم بھی دونوں ماں بیٹی کے اس ملن کو دیکھ جذباتی ہو گئی تھیں۔
ماں کے سینے سے لگی تو نہ جانے کیا کیا یاد آیا تھا۔ابا کے ظلم،بھائی کی بےرخی،سسرالیوں کا اچھا سلوک،امان کی ایک ہی دن میں دی گئی بیش بہا محبت اور پھر زوبیہ کی مکاری۔۔۔۔۔۔۔اور اب دل امان کا سامنا کرنے سے ڈر رہا تھا۔
"مہابیہ بس کرو۔۔۔کیوں ہلکان کر رہی ہو خود کو اور پریشان کر رہی ہو اماں کو؟"روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں تو امان آگے آکر فکرمندی سے گویا ہوا اور اسے اور مسرت کو دھیرے سے الگ کیا۔
"ہاں بیٹا امان صحیح بول رہے ہیں۔بس چپ ہو جاؤ۔"مسرت نے الگ ہو کر اس کے آنسو پونچھے۔
"ہاں بھئی بہت ہو گیا رونا دھونا۔کھانا نکل گیا ہے سب چل کے پہلے کھانا کھا لو پھر باقی کا رونا دھونا کر لینا۔"ملنے ملانے کے درمیان ہی ایمن چہکتی ہوئی لاؤنج میں داخل ہوئی اور سب کو کھانے کا بلاوا دیا۔
"ہاں چلیں سب۔۔۔اماں کھانا کھائیں پھر آرام کریں۔اتنا لمبا سفر کیا ہے یقیناً تھک گئی ہوں گی۔"امان نے مسرت کو چلنے کا اشارہ کیا اور مہابیہ کا ہاتھ تھام کر سب کے پیچھے ہو لیا۔
ہاتھ تھامنے پر مہابیہ نے اس کی جانب دیکھا تھا مگر وہ سامنے دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا۔
********
خوشگوار ماحول میں سب نے مل کر کھانا کھایا اور کھانے سے فراغت کے بعد چائے کا دور چلا۔اس بیچ باتیں بھی جاری تھیں۔وہ سب لوگ مسرت کا حال احوال پوچھ رہے تھے۔مسرت بھی سب کو مختصر جواب دے رہی تھیں۔یہ ان سب کی ان سے دوسری ملاقات تھی جو کہ پہلی ملاقات کے مقابلہ خاصی مختلف تھی۔وہ آج کسی ڈر و خوف کے زیر سایہ نہیں لگ رہی تھیں۔یوں لگ رہا تھا کہ وہ مطمئن اور پرسکون ہیں۔ان کا لہجہ،ان کا انداز سب ہی کچھ اس دن سے بالکل الگ تھا جو کہ خاصا اچھا لگ رہا تھا۔
"اماں اب آپ آرام کر لیں پھر کل ولیمہ ہے تو بہتر رہے گا کہ آپ کی تھکن اتر جائے۔"کافی دیر سے چل رہی باتوں کے درمیان امان کو ان کی تھکن کی فکر ہوئی تو وہ ان کی جانب متوجہ ہوا۔
مہابیہ اور مسرت نے ایک ساتھ اس کی جانب دیکھا۔دونوں ہی کی آنکھوں میں تشکر تھا۔
"جیتے رہو بیٹا۔آپ کا بیٹا بہت فرمانبردار ہے بہن جی پورا راستہ اس نے میرا خیال رکھا اور اب بھی میری فکر کر رہا ہے۔سچ میں آپ سب سے مل کر مجھے اپنی مانگی ہوئی دعاؤں کی قبولیت پر یقین آگیا۔بہت شکریہ آپ سب کا۔"وہ جذباتی ہوتی گلوگیر لہجہ میں بولیں تو ان کے ساتھ بیٹھی رخسار بیگم نے انہیں اپنے ساتھ لگا لیا۔
مہابیہ کی آنکھیں بھی نم تھیں اور مسلسل اپنے نصیب کے ماہ کامل پر ٹکی ہوئی تھیں جو مسکراتے ہوئے اردگرد کو روشن کر رہا تھا۔
"مسرت بہن مہابیہ ہماری بیٹی ہے اور ہمارے لئے باعث رحمت ہے۔ہم اللّٰہ کی رحمت سے کیونکر منہ موڑیں اور کفرانِ نعمت کریں،ہم تو اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے تاکہ اللّٰہ ہمارے لئے آسانیاں کرے۔"جواب میں انس صاحب تفصیل سے بولتے ہوئے ان کو مزید مطمئن کر گئے۔
"بھابھی آپ اماں کو ان کا کمرہ دکھا دیں گی پلیز۔۔"امان ایمن کی طرف دیکھ متانت سے گویا ہوا۔
"ضرور۔۔۔۔"
"آئیں آنٹی میں آپ کو کمرہ دکھاؤں۔"ایمن ان کے نزدیک آئی اور انہیں لئے جانے لگی کہ تبھی مہابیہ کی آواز پر ٹھہری۔
"میں آج اماں کے پاس سو جاؤں؟"وہ دھیرے سے بنا کسی کو مخاطب کئے بولی۔
اس کی آواز پر کچھ دیر کیلئے سب ساکت ہوگیا۔سب لوگ امان کے جواب کے منتظر تھے کہ محض اس کی ہی اجازت مہابیہ کو درکار تھی۔
"جی بالکل سو جاؤ۔اچھا ہے اماں کو بھی دوسراہٹ رہے گی اور تم بھی ماں سے اپنے دکھ سکھ بانٹ لو گی۔"امان نے بہت پیار سے اسے اجازت دی تو وہ اس کی طرف شکر گزاری سے دیکھ اپنی ماں کے ہمراہ ایمن کی رہنمائی میں ان کیلئے تیار کئے کمرہ کی جانب بڑھنے لگی۔
********
"ابھی تو میں بچ گئی مگر کبھی نہ کبھی تو امان کا سامنا کرنا پڑے گا نہ اور جب وہ سوال کرے گا تو میں کیا کہوں گی۔تب۔۔۔تب تو وہ مجھے مارے گا یا شاید۔۔۔شاید مجھے طلاق۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔پھر۔۔۔پھر میں کہاں جاؤں گی۔۔۔۔۔ابا۔۔۔۔ابا تو مجھے مار ہی ڈالیں گے۔۔۔اور۔۔۔۔اور اماں تو۔۔۔۔۔اماں تو آج کتنی خوش تھیں۔۔۔۔جب انہیں۔۔۔پتہ چلے گا کہ امان اور میں اب ساتھ نہیں رہیں گے۔۔۔تو وہ تو صدمہ سے مر ہی جائیں گی۔۔۔۔۔"سوچوں کے بھنور میں بھٹکتے آنسوؤں سے تر چہرہ تکیہ میں چھپائے اس نے ہچکی کا گلا گھونٹا۔
برابر میں مسرت سو رہی تھیں سو وہ دوسری جانب رخ موڑے دھیمی آواز میں رو رہی تھی اور اپنی سسکیوں کو اپنے اندر ہی اتار رہی تھی کہ کہیں مسرت کی نیند کھلنے پر وہ اسے یوں روتا دیکھ ہلکان نہ ہو جائیں۔
وہ دبی دبی سسکیاں لے رہی تھی۔اس کا دماغ منتشر اور دل بےچین ہو رہا تھا۔رات آدھے سے زیادہ گزر چکی تھی اور نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔اسے یونہی ایک ہی کروٹ لیٹے روتے ہوئے رات کا خاصا حصہ گزر گیا تھا۔مسرت اس کے بالکل برابر میں دوسری جانب کروٹ لئے مطمئن سے سو رہی تھیں۔
سوچوں کی یلغار میں اچانک ایک خیال اس کے ذہن سے ٹکرایا اور وہ اس پر عمل کرنے کی نیت سے بستر سے اٹھ کر کمرہ میں بنے اٹیچ باتھ کی طرف چلی گئی۔
کچھ دیر بعد پانی سے بھیگا چہرہ لئے وہ واپس آئی۔دوپٹہ چہرہ کے گرد لپیٹا اور جائے نماز بچھا کر اللّٰہ کی بارگاہ میں نماز پڑھنے کیلئے کھڑی ہو گئی۔
نماز مکمل کر اس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔اس کا شفاف چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور وہ بری طرح ہچکیاں لے رہی تھی مگر آواز اماں کے خیال سے پست ہی تھی۔
"یا اللّٰہ مجھے امان کی نظروں میں گرنے سے بچا لے اور مجھے اس کا دائمی ساتھ نصیب کر۔۔۔۔۔۔"اس کے رونے میں مزید روانی آگئی تھی۔
*********
"مہابیہ یہاں کیوں سو رہی ہو بیٹا؟"مسرت کی آواز پر وہ چونک کر اٹھی تو خود کو جائے نماز پر لیٹا پایا اور انہیں متفکر سا خود کو دیکھتا۔
آنکھ کھلتے ہی سارا منظر یادداشت میں واضح ہوا اور اماں کی پریشانی کی فکر ستائی کہ اس کے پاس ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
"یہاں کیوں سو رہی تھیں اور تمہاری آنکھیں کیوں اتنی لال ہو رہی ہیں؟"مزید سوال اور بھی زیادہ پریشانی میں کئے گئے۔
"آپ کب اٹھیں اماں؟"جواب دینے کی بجائے سوال پوچھا۔
"میں تو تہجد کیلئے اٹھی تھی،تمہیں پتہ تو ہے عادتاً اسی وقت آنکھ کھل جاتی ہے۔اٹھ کر دیکھا تو تمہیں یہاں لیٹا پایا اسی لئے تمہیں دیکھنے نزدیک چلی آئی اور تم یہاں سوئی ملیں وہ بھی اس حال میں۔کیا ہوا ہے؟کچھ پریشانی ہے؟اماں کو نہیں بتاؤ گی؟"انہوں نے تفصیل سے جواب دے کر پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
بس یہی وہ لمحہ تھا جب وہ مزید ضبط نہ کر پائی اور ان کی گود میں سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"یا اللّٰہ!! کیا ہوا ہے میری بچی۔۔۔کیوں ہلکان کر رہی ہے ماں کو؟"مسرت اس کے رونے پر ہول کر رہ گئیں۔
وہ بنا کوئی جواب دیے بس روئی جا رہی تھی۔مسرت نے بھی کچھ دیر اسے رونے دیا مگر دل ان کا بری طرح لرز رہا تھا۔وہ تو سمجھ رہی تھیں کہ مہابیہ خوش ہے مگر یہاں تو وہ اکیلے گھٹ گھٹ کے رو رہی تھی وہ بھی اس بری طرح۔۔۔
"نہ جانے کیا ماجرا ہے۔۔۔۔"ان کا دل ڈوب رہا تھا۔
***********
ماں کی پناہوں میں رو کر دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا تو اس نے ہولے سے سر اٹھا کر ان کی جانب دیکھا۔وہ حسب توقع فکرمندی سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
"کیا ہوا ہے بیٹا؟مجھے بتاؤ تو سہی۔امان نے کچھ برا کیا ہے تمہارے ساتھ یا اس کے گھر والوں نے؟کیا وہ سب بھی منافق ہیں؟"وہ اس کے چہرے کو تھپک کر کسی انہونی کے زیر اثر پوچھ رہی تھیں۔
"نہیں اماں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔وہ بس۔۔۔۔۔وہ بس آپ کی یاد آرہی تھی تو اس لئے۔۔۔۔۔۔"
"اس لئے تم میرے یہاں آنے کے بعد اور سونے کے بعد یوں جائے نماز پر رو رہی تھیں۔۔۔ہے نا؟"انہوں نے بیچ میں اس کی بات کچھ یوں کاٹی کہ وہ لاجواب ہوگئی۔
"اب سچ سچ بتاؤ بیٹا کیا بات ہے،میرا دل گھبرا رہا ہے۔"ان کے چہرہ پر فکرمندی کے آثار نمایاں تھے۔
"اماں ماضی میں سرزد ہوئی ایک لغزش،میرے مستقبل کو مسمار کر گئی۔"کافی دیر شش و پنج میں رہنے کے بعد بالآخر اس نے اپنی ماں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
"کیسی لغزش؟"وہ مزید گھبرا گئیں۔
ان کی جانب دیکھ اس نے بھرائی آواز میں انہیں شروع سے لے کر آخر تک کی پوری داستاں کہہ سنائی کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
"دیکھو بیٹا جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا مطلب تم نے ایک غلط قدم اٹھایا لیکن جو ہوگیا اسے بدلا نہیں جا سکتا تو اب بہتر یہی ہے کہ تم سب بھول جاؤ اور اپنی نئی زندگی جیو۔"انہوں نے اپنے تئیں اسے مناسب مشورہ سے نوازا۔
"اماں یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟"اس کی آواز لرزی تھی۔
"جو کہہ رہی ہوں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔مہابیہ ذرا عقل سے سوچو۔امان اچھا لڑکا ہے،تمہیں چاہتا ہے۔اگر سچ پتہ چلنے کے بعد اس نے تمہیں طلاق دے دی تو تم کہاں جاؤ گی؟تمہارے ابا تمہیں جان سے مار دیں گے۔"مسرت گھبرائی ہوئی آواز میں اس کی سوچوں کو زبان دے رہی تھیں۔
"لیکن اماں امان بہت اچھے انسان ہیں۔میں انہیں دھوکہ نہیں دے سکتی۔"اس کا دل کسی طور راضی نہ تھا۔
"بیٹا یہ دھوکہ نہیں ہے۔تم اب تو ایسا کچھ نہیں کر رہیں نا؟تم اپنی ماں کا سوچو اس عمر میں کہاں خوار ہوں گی تمہیں لے کر۔"وہ بےحد خوفزدہ تھیں۔
"میں یہ نہیں کر سکوں گی۔"وہ بری طرح ٹوٹ گئی تھی۔ایک طرف اماں کی پریشانی اور دوسری طرف امان کی محبت۔۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔۔۔
"تمہیں یہ کرنا ہوگا۔۔۔بیٹا میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے سامنے۔اپنی ماں کو مزید جہنم میں مت دھکیلو۔"انہوں نے بےبسی سے اس کے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑے جو اس کی غیرت گوارہ نہ کر سکی۔ان کے ہاتھ نیچے کر اس نے انہیں سینے سے لگا لیا۔
*********

جاری ہے۔۔۔۔

Want your public figure to be the top-listed Public Figure in Sindh?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

ناولٹ:"پرینک"ازقلم: سیدہپیشِ خدمت ہے بتولن کی گندی اولاد شنو😁😜🤣#prank #syeda #syedawrites #syedaart #novelet #syedaedito...
Two fictional men of my imagination❤️😍Zard×Nazuk AbgeenyNow Syed Aman RazaThen Momin ShamsWhich one is your favourite?#n...
"Who i am?Nothing But a sinful human..."Aman Raza#NazukAbgeeny#Syedawrites#SyedaEdits#reel #novelsreel #novelreel #viral...
In the world full of "Jigar ka Tukra"Call her "Jigar ki Tukri"Amaan k Jigar ki Tukri🩷😍❤️"Nazuk Abgeeny" by "Syeda"Editor...
Novel:"Nazuk AbgeeneWriter&Editor:Syeda Writes Status:OngoingGenre:Social issue,Islamic based,Light romanceDm for links🔗...
Novel:Kalbim Senin Meskenin Written&Edit by:@syeda_editor_writer#aesthetic #syedaaesthetics #syedaaesthetics1 #editing #...
Sahir's shinning black 👀🖤#SyedaArt#mavra_e_ajab #syedaart #sahir #fictionalcharacter #reel #novelreel #trendysong #viral...
پرانی کتابوں کے پنٌے سبھی گواہی یہاں دینے آجائیں گے😭#SyedaArt#mavra_e_ajab #syedawrites #novelcharacter #sahir #fictiona...
#a_story_that_last_forever #mavra_e_ajab #Syeda_Art #SyedaWrites #reel #novel #readingtime #syeda
“A Story That Last Forever😍Who wanna read this exclusive novel?? #SyedaWrites #Syeda_Art  #Mara_e_Ajab #A_Story_that_Las...
#Syeda_Art#Classic_editing_compitition#Mera_ishq_teri_sultanat #Huriya_Chaudhary
#Syeda_Art#Classic_editing_compitition#Kalbim_Senin_Meskenin#Syeda

Category

Website

Address

Nazimabad
Sindh

Other Writers in Sindh (show all)
KashiF Writes KashiF Writes
Hyderabad
Sindh

🍁✨️________ 🌿|| Đσnʈ ʈrɣ ʈ❍ PŁαɣ Wııʈh Mə 💦 βəcαυSə I Ҝησω I Cαη Plαɣ βəʈʈəR ʈhəη ɣoυ <3 :)° 🌚👻

Javed Akhtar Khaskheli Javed Akhtar Khaskheli
Sindh
Sindh

نظم جو ٽڪرو ڪون ٿو گهرجي هاڻ تنهنجي ٻانهن جو ڪنڱڻ

Morning Scribbles Morning Scribbles
Hyderabad Lines
Sindh

کامیابی کی شرائط میں سب سے اولین شرط نظم و ضبط کی پابندی ہے۔

Mr Waqar Ali Mahar Mr Waqar Ali Mahar
Nauabad
Sindh

Initial and ISSB test preparation Initial and ISSB test preparation
Mehrabpur
Sindh

Best notes about armad tests available

Nohri sabh Nohri sabh
Chhor
Sindh

just serve humanity �

Dawat.E.Islami Hala Old Dawat.E.Islami Hala Old
Hala Old
Sindh

Hamd.O.Naat

Faqeer Hussain Ahmed Faqeer Hussain Ahmed
Kandhkot
Sindh

HaSnain ZarDari HaSnain ZarDari
Nawab
Sindh

سجاول جوڻيجو جو سٿ سجاول جوڻيجو جو سٿ
Arzi Bhutto
Sindh

تعلقي سجاول جوڻيجو جو سٿ ✌

Meer Nasrullah Bozdar Qadri Meer Nasrullah Bozdar Qadri
Jarwar
Sindh

BOZDAR VLOG

Abbas Baloch Abbas Baloch
Dodapur
Sindh