Dia Zahra Novels

" ‏وَمِن شَرِِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ " 🌸🤲🦋

12/06/2024

اگلی قسط کی ہلکی سی جھلک

دلکشی ختم ہو گئی اس پر
دلبری ختم ہو گئی اس پر

قدم بہ قدم چلتا وہ بیڈ کے قریب آتا زیر لب پڑھتا رامین پر نظر جمائے ہوئے تھا ۔

اس کے بارے میں بات کرنی تھی
بات ہی ختم ہو گئی اس پر

سرخ عروسی لباس میں ملبوس وہ پور پور اس کے لیے سجی ہوئی تھی یہ احساس اس کے لیے کافی جان لیوا تھا ۔

عمر بھر بس اسی کی خواہش کی
زندگی ختم ہو گئی اس پر

لبوں پر مسکراہٹ سجائے وہ اپنی خوش قسمتی پر گہرا مسکرایا تھا ۔

وہ سراپا مٹھاس ایسا ہے
چاشنی ختم ہو گئی اس پر

روحیل کی گھمبیر آواز سنتی رامین کے وجود میں لرزش طاری ہوئی تھی ۔

پیاس بجھتی نہیں تھی آنکھوں کی
تشنگی ختم ہو گئی اس پر

رامین کے وجود میں لرزش محسوس کرتا وہ خمار زدہ نظروں سے اسے دیکھتا اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔

نور اس جسم سے شروع ہوا
روشنی ختم ہو گئی اس پر

ہاتھ بڑھا کر رامین کا حنائی ہاتھ تھامتا وہ لبوں کے قریب لے کر جاتا مسکرایا تھا ۔

با ادب بوئے گل ہوئی حاضر
با خوشی ختم ہو گئی اس پر

محبت سے ہاتھ کی پشت پر لب رکھتا وہ رامین کی عارض پر سایہ فگن خم دار پلکوں کا رقص دیکھ کر بے چین ہوا تھا ۔

یار بچپن کے ہو گئے ناراض
دوستی ختم ہو گئی اس پر

مزید خود پر کنٹرول نا کر پاتا وہ گھونگھٹ پلٹتا اسے اپنے روبرو کرگیا تھا ۔

قافیے اس بدن کے شیدا ہیں
شاعری ختم ہو گئی اس پر

سرخ رنگ میں گلاب کی طرح کھلتی وہ روحیل کی دھڑکنیں منتشر کرگئی یک ٹک اسے دیکھتا وہ تھوڑا سا اس کی جانب جھکتا اس کی پیشانی پر عقیدت سے بوسہ دیتا مسکرایا تھا ایک طویل عرصے کی مسافت یہاں تمام ہوئی تھی چاہت محبت سب سے آگے اس کے عشق کے ہجر نے مسکرا وہاں سے راہ موڑی تھی وصل کی گھڑیاں اس پر مہربان ہوئیں تھیں ۔

بہت خوبصورت لگ رہی مینو اتنی کہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہو جائے گا میرے لیے ،،، اس کی آنکھوں میں تشکر سے نمی اتری تھی رامین کے وجود سے اٹھتی بھنی بھنی دلفریب خوشبو اسے اپنے حواس پر طاری ہوتی محسوس ہوئی تھی کہ تبھی اس کی نظر سرخ رنگ سے سجے لبوں پر ٹھہری جنہیں دیکھ کر دل نے انہیں چھونے کی خواہش کی تھی جس کے آگے وہ بے بس ہوتا تھوڑا سا اس کی سمت جھکا تھا مگر رامین کو خود میں سمٹتے دیکھ کر وہ گہرا سانس بھرتا سیدھا ہوا ۔

رامین کیا تم خوش ہو ،،، محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتا وہ رامین کے ہاتھ کی انگلیوں میں انگلیاں پھنستا گویا ہوا اس کا گریز کہاں گوارا تھا آج تو وہ شرم کے ہر پردے کو گرانے کو تیار تھا اس کے انگ انگ پر آپ ق حق جمانے کو بے قرار تھا اس پر رامین کا خود سے گھبرانا اسے پریشان کرگیا ۔

ہ،،،ہاں خوش ہوں ،،، روحیل کی بولتی نگاہوں میں دیکھنا اسے اس وقت دنیا کا مشکل ترین عمل لگا تھا تبھی وہ سر جھکاتی منمنائی تھی ۔

رامین میری طرف دیکھ کر کہو ،،، تھوڑی پکڑتا وہ اسے اپنے روبرو کرتا مسکرایا تھا ۔

آپ ایسے مت دیکھیں مجھے ڈر لگ رہا ہے ،،، روحیل کی بولتی نظروں سے خائف آتی وہ منمنائی تھی اور وہی روحیل کا برجستہ قہقہہ کمرے میں گونجا تھا ۔

تم دیکھنے سے ڈر رہی ہو اور میرے ارادے تو آج رات کو لے کر بہت خطرناک ہیں مینو محبت پالنے کا سرور محبوب کو قریب سے محسوس کرنے کے بعد ہی تھوڑا پرسکون ہوگا جب روحوں کا ملن ہوگا ،،، رامین کی خوف سے لرزتی پلکیں دیکھ وہ اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے قریب کرتا اس کے کان کے قریب سرگوشی نما بولا تھا ۔

مم،،، مطلب ،،، روحیل کی اس قدر بے باک گفتگو پر شرم سے سرخ ہوتی نظر جھکا گئی اور ہاتھ کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگی تھی مگر اس کی بات کا مفہوم نا سمجھ پاتی وہ معصومیت سے گویا ہوئی ۔

رامین ،،، مخمور نگاہوں سے اسے دیکھتا وہ محبت سے پکار گیا جب نگاہیں اٹھاتی وہ ایک نظر اسے دیکھتی واپس سے سر جھکا گئی ۔

یہ روحیل خان تم پر نثار ہے پاگل ،،، رامین کی معصوم ادا پر نثار ہوتا وہ مزید خود پر قابو نا پاتا اس کی تھوڑی پر شدت بھرا لمس چھوڑتا دور ہوا تھا جبکہ رامین نے شرم و حیا سے جھکی پلکوں کو سختی سے بند کرتے روحیل کی شیروانی کو اپنی مٹھی میں دبوچ گئی ۔

مجھے چینچ کرلوں مجھے سانس نہیں آرہی اس میں ،،، بھاری بھرکم ڈریس اس پر روحیل کی راوفتگیاں جن سے اس کا ڈانس پھولنے لگا تھا اور اس ڈریس میں اس کا دم گھٹتا محسوس ہوا تھا اوپر سے روحیل کی ایکسرا کرتی جسم کے آر پار ہوتی نظریں خود پر جمے دیکھ کر رامین نے گھبراہٹ سے پوچھا تھا ۔

السلام وعلیکم ڈئیر ریڈرز کیسے ہیں آپ سب 🥰 میں قسط لکھ رہی ہوں ان شاءاللہ رات تک ہوسٹ ہو جائے گی جب تک آپ لوگ سینک کو انجوائے کریں اور اپنا پیارا پیارا سا رویو دیں 🥰😍 تو کیا آپ سب تیار ہیں روحیل اور رامین کی شادی کے لیے 🥳 سب جلدی جلدی شاپنگ شروع کردیں 😜 کیونکہ ہماری ازحا کے مما پاپا کی شادی ہے 😁

Novel read krne k Liye page follow krn Shukriya 👇🏻
https://www.facebook.com/profile.php?id=61557542095324&mibextid=kFxxJD

Group link 👇🏻👇🏻
https://facebook.com/groups/362823179746967/

01/06/2024

Episode 23 se scene........

” میں تمھاری حالت پوچھنے آئی تھی ، آہ !! میرا مطلب تمھاری صحت اب کیسی ہے ۔۔۔؟؟ میں ہاسپیٹل سے واپس آ رہی تھی تو سوچا پوچھتی جاؤں “
اُس کے بیڈ کے قریب کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے اُس نے اپنا بیگ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے اُسے مسکراتی نظروں سے دیکھتے تفصیلاً پوچھا ۔
مبشرہ نے اُسے اوپر سے نیچے تک بغور دیکھا ، وہ کسی سسپنس فلم کی ایک تیز طرار اور سٹائلش ولن معلوم ہو رہی تھی ، ایسا کردار جو ہر کہانی میں کہانی کو ایک نیا رنگ دینے کے لیے لکھا گیا ہو ۔۔۔۔!!

” میں ٹھیک ہوں “ اُس نے لبوں پر زبان پھیرتے مختصراً کہا اور گود میں رکھی کتاب کو بند کرتے سائیڈ ٹیبل پر اُس کے ہینڈ بیگ کے پاس رکھا ۔۔۔
اب مبشرہ شاہ کی کتاب اور شیزا سلطان کا ہینڈ بیگ دونوں مساوی تھے !!
مبشرہ شاہ نے قدرے چونک کر کتاب کے بعد بیگ کی زپ کے ساتھ لٹک رہی چین پر ایک نظر ڈالی اُس چین پر ایک مکھوٹا بنا ہوا تھا ۔۔۔ مبشرہ شاہ نے اپنی کتاب کے کوور پر ایک نظر ڈالی ۔۔۔۔ کوور پر کئی مکھوٹے بنے ہوئے تھے اور ٹائٹل پر ”گمنام“ لکھا ہوا تھا ۔۔۔
کتاب اور ہینڈ بیگ ایک جیسے ہو رہے تھے !!
اُس نے پھر شیزا سلطان کو دیکھا وہ مسکرا کر اُسے ہی دیکھ رہی تھی

” آ ۔۔۔!! لگ بھی رہا ہے تم پہلے سے زیادہ ٹھیک لگ رہی ہو بلکہ ایسا لگ ہی نہیں رہا کہ تم بیمار تھی “
شیزا سلطان نے گردن موڑ کر بائیں جانب رکھے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھا اور پھر مبشرہ شاہ کو ۔۔ نیلی آنکھوں میں ایک سرد تاثر تھا ۔۔۔!! سرد اور خوفناک

” کیا لو گی تم “ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے مبشرہ نے اُس کی بات کو یکسر نظر انداز کر دیا
” چائے ۔۔!! ہاں لیکن شوگر مت ڈالنا “
اُس نے اُسے دیکھتے کہا تھا کمرے میں یکدم ہی عجیب سا سسپنس بکھرا تھا ۔۔ مبشرہ شاہ نے تھوک نگلتے سامنے بیٹھی اپنی دوست کی شخصیت کے اثر کو زائل کیا تھا

” سمجھ سکتی ہوں !! “ اُس سے دھیمی پُر سکون آواز میں مخاطب ہوتے اُس نے ملازمہ کو آواز لگاتے بلایا اور دو کپ چائے لانے کو کہا تھا ۔۔
اُس کی بات پر شیزا سلطان نے لب بھینچے وہ اُس پر خفیف سا طنز کر گئی تھی ۔۔ شیزا سلطان کے مسکراتے لب سمٹ گئے تھے ۔۔۔
” کچھ دنوں بعد میرا نکاح ہے ! “ وہ رکی اور مبشرہ شاہ کی طرف دیکھا ۔۔ وہ کچھ تلاش رہی تھی لیکن ۔۔۔!! نظر مایوس لوٹ گئی اُس کا چہرہ پر جذبات سے عاری تھا
یہ تو مشکوک بات تھی ۔۔۔!! مبشرہ شاہ اور آدم سلطان کے چھین لیے جانے پر کوئی جذبات ظاہر نہ کریں ۔۔ یہ تو یوں تھا جیسے پانی میں پتھر مارا گیا ہو اور لہر پیدا نہ ہو

” میں اپنی اچھی دوست کو سب سے پہلے بتانا چاہتی تھی ۔۔۔۔!! اب جو کچھ بھی ہوا سب بھول جاؤ میں بھی بھول گئی “ اُس نے آگے جھکتے مبشرہ شاہ کے ہاتھ بڑے پیار سے اپنے ہاتھوں میں لیتے دبائے ۔۔

مبشرہ شاہ ہنسی !! اور پھر لب بھینچ کر مسکراتی گئی شیزا سلطان کی مسکراہٹ پھیکی پڑی تھی ۔۔۔!!
مبشرہ شاہ !! مبشرہ شاہ !! یہ وہ مبشرہ شاہ نہیں تھی جس سے وہ ہاسپیٹل میں مل کر آئی تھی یہ کوئی اور تھی ۔۔ یہ مبشرہ شاہ الگ تھی ۔۔۔! باقی کچھ نہیں پتہ لیکن یہ مبشرہ شاہ معصوم نہیں تھی

” کوئی بات نہیں بیسٹی دوستوں میں تو سب چلتا ہیں ، میں تو کب کی بھول گئی سب کچھ “
مبشرہ شاہ نے دوسرے ہاتھ سے اپنے ہاتھوں میں قید اُس کے ہاتھ کو تھپکتے ہوئے ”سب کچھ “ پر زور دیتے کہا اُس کے وائن کلر کی لپ اسٹک سے سجے ہونٹ کھل کر مسکرائے تھے اور اُس کی آنکھیں ۔۔۔!! شیزا سلطان کے چہرے کو دیکھتے اُس کی آنکھیں بھی مسکرا رہی رہیں تھیں ۔۔۔۔ مسکراتی پُر اعتماد ہلکی شہد رنگ آنکھیں

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

ہمارے گھر میں پھر سے ایک مسلہ آ گیا ہے اور ڈالا بھی بہت قریبی لوگوں نے ہیں اور مسلہ بھی سیریس ہیں ۔۔۔ ہم آپ لوگوں کو نہ بتاتے اگر ہم گیپ کے بعد واپس نہ آئے ہوتے ۔۔ ایک اتنے دن بعد واپس آئے اور پھر سے قسط کو لیٹ ہوتا دیکھ شاید آپ لوگ ہم سے اکتا جائے اس لیے ہم نے آج پیج اوپن کر کے آپ کو بتانا مناسب سمجھا ہے ۔۔۔

دعاؤں کی درخواست ہیں کیوں کہ اپنوں کے لگے زخم زیادہ دُکھتے ہیں

😬🙃

25/05/2024

Book form name :





" CHAPTER CLOSE "

” تمھارے لیے کال ہے“ کمرے کے اندر داخل ہوتے یزدان علی شاہ نے سیل فون کان سے ہٹاتے اُس کی جانب بڑھایا
” ہاں ۔۔!! “ اُس نے چونک کر اپنی جانب بڑھے یزدان کے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو دیکھا ۔۔۔ اُس نے تیزی سے شیشہ گود میں رکھا اور لبوں پر زبان پھیری
” کس کا ہے ؟ “
” لو بات کرو “ یزدان نے موبائل اُس کی جانب مزید بڑھاتے موبائل کو اور پھر اُسے دیکھتے کہا ۔ وہ اُس کے ہاتھ سے موبائل پکڑتی کان سے لگا گئی اور ایک نظر یزدان کو قدرے نا سمجھی سے دیکھا وہ پلٹ رہا تھا اور پھر کمرے سے باہر چلا گیا ۔

”السلام و علیکم ! کون ؟“ اُس نے لب کاٹتے پوچھا ساتھ وہ گود میں رکھے آئینے پر اپنے ماند ہو چکے نقوش بھی دیکھ رہی تھی
اُس نے شاید سیل فون کی سکرین کو نہیں دیکھا تھا ورنہ اس حد تک پوچھنے کی زحمت نہ آتی !!
دوسری جانب ایک گہرا سانس کھینچا گیا تھا اور پھر مدھم آواز میں سانس خارج کیا گیا
کچھ لمحوں تک جب دوسری جانب سے کوئی بھی آواز اُس لڑکی کی سماعت سے نہ ٹکرائی تو اُس نے حیرت سے موبائل کان سے ہٹاتے آنکھوں کے سامنے کیا سیل فون کی سکرین روشن ہوئی تھی اور اگلے ہی لمحے اُس نے آنکھیں بند کرتے روشن سکرین کو پھر سے اندھیروں کی نظر کر دیا ۔۔۔۔ اُس نے گہرا سانس بھرا اور خود کو کمپوز کرتے سیل فون دوبارہ کان سے لگایا

” یحییٰ ب ۔۔۔!! “ وہ تیزی سے کہتے کہتے رک گئی دوسری جانب اُس نے بھی اُس کی بات کو نوٹ کرتے لب دبایا تھا
عادتیں اتنی جلدی نہیں بدلتی ، نہ چھوٹتی ہیں اور کبھی کبھار تو انسان کے اختتام پر ختم ہوتی ہیں !! کبھی کبھی پرانی عادتوں کو صرف موت ہی ختم کرتی ہے
” کیسے ہیں آپ ؟ مجھے لگا آپ نے کال ڈسکنیکٹ کر دی “ اُس نے بے آواز سانس کھینچتے خود کو پر سکون کرتے مسکرا کر بات شروع کی
” مجھے پتہ ہے مقابل آپ ہیں آپ کال ڈسکنیکٹ نہیں کر سکتا“ اُس کی سنجیدہ سی آواز سیل فون کے سپیکر سے اُبھری تو اُس کی بات پر مبشرہ شاہ کی گرفت سیل فون پر سخت ہوئی تھی
غیرارادی طور پر اُس کی نظر پھر سے گود میں پڑے آئینے پر گئی تھی
وہ اتنی بھی اچھی نہیں دِکھتی وہ اُسے کیوں چاہتا ہے ۔۔۔؟ اِس کیوں کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا وہ ڈھونڈنا چاہتی تھی لیکن یحییٰ شاہ کے سیدھے سے جواب اُسے مزید الجھا دیتے تھے
”میں نے کچھ اور بھی پوچھا تھا“ اُس نے بات بدلنے کی غرض سے کہا
”جو ضروری تھا اُس کا جواب دے چکا ہوں“ دوسری جانب سے فوراً جواب آیا تھا
”ہممم“ اُس نے گود میں رکھے آئینے میں نظر آتے اپنے عکس پر انگلیاں چلاتے صرف ہممم کہنے پر ہی اکتفا کیا
” آپ کیسی ہیں؟“ عام سا لہجہ تھا مبشرہ نے خود کو دیکھنے کے بعد ہاسپیٹل کے کمرے پر ایک نظر ڈالی
” میں بلکل ٹھیک الحمدللہ“ وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی خاص کر تب جب وہ پچھلی بار اُس سے خفا ہو کر گیا تھا ۔۔۔
”اچھا ! کہاں ہے آپ اس وقت ؟“ اُس نے پھر سے سوال داغا تھا انداز اِس بار بھی عام ہی تھا مبشرہ لمحے کو چونکی
”میں ؟ میں ، اپنے کمرے میں ہوں“ آئینے پر مختلف نقش و نگار بناتی اُس کی انگلی لمحے کو رک گئی وہ جھوٹ بولتے ہوئے ایسا ہی کرتی تھی ۔۔۔ حرکت کرتے ہوئے وجود کو ساکت کر لیتی تھی ۔۔

”اب آپ مجھ سے جھوٹ بولے گی مبشرہ ؟ تو خلش اِس حد تک ہے کہ ہم دوست نہیں ہیں اب ۔۔ ہاں ۔ ہممم“
اُس کی سنجیدہ آواز میں قدرے رنج تھا مبشرہ نے بے ساختہ آنکھیں میچیں ۔۔۔ یہ دو آنسو نجانے کب کے پلکوں پر لرز رہے تھے جو اب رخساروں پر پھسل چکے تھے ۔۔۔۔
”اب آپ یوں رو کر میرے دل کو ویران کرنے کا فریضہ بھی بڑے شوق سے سر انجام دے گی خوب ۔۔ بہت خوب ۔“
گھمبیر اور قدرے خفا سی آواز
” یحییٰ !!“ آنسوؤں سے تر سانس کھینچتے پکارا گیا تھا دوسری جانب وہ سر بینچ کی پشت سے ٹکا گیا زرد پتا اُس کے آنکھوں پر گرا تھا
کچھ لوگوں کے پاس یہی اختیار ہوتا ہیں آپ کو زرد پتوں کی مانند اداس کر دینے کا ایسے لوگ خطرناک ہوتے ہیں ۔۔۔
ہمیں اپنے جذبات کو کسی کی مُٹھی میں قید نہیں ہونے دینا چاہیے
ہر کوئی اچھا پہرے دار نہیں ہوتا اور پھر محبوب تو اکثر بے حس واقع ہوئے ہیں

”جن پر دل و جان سے یقین کیا جاتا ہے وہ یقین کیوں توڑتے ہیں ۔؟ و۔وہ “ سسکتے ہوئے سانس ہموار کی گئی وہ خاموشی سے اُسے لڑکی کو سن رہا تھا وہ اُسے سننا چاہتا تھا ۔۔۔ اُسے سننا اُسے اچھا لگتا تھا
”وہ یہ کیوں سمجھتے ہیں ہم بُرے ہیں ! کیا میں بُری ہوں“ اُس نے بچوں کی طرح پوچھا تھا یحییٰ شاہ سیدھا ہوا تھا زرد پتا اب پھسل کر اڑتا ہوا اُس کے جوتوں کے قریب زمین بوس ہو گیا
کسی کے لیے ہمارے جذبات بھی بس اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنا کہ وہ زرد پتا جو شاخ سے جدا ہو کر زمین بوس ہو جاتا ہے ۔

” کیوں کے وہ خود بُرے ہیں“ اُس نے آنکھیں کھولتے مختصراً جواب دیا سکینڈ کے ہزاروں حصے میں اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا تھا اور پھر سب صاف دِکھنے لگا اُس کی آنکھ کے کنارے ہلکی سی نمی بھی تھی ۔۔۔! بہت زیرک نظروں سے وہ دِکھتی تھی

اُس کی آنکھیں اگر چہ نم تھی تو وجہ اُس لڑکی کا یوں رونا ہی تھا ۔۔ یا شاید اُس کے آنسو نہ پونچھنے کا غم !!
جو بھی تھا لیکن مبشرہ بہت بھاری اختیار رکھتی تھی اُس پر ۔۔
” بُرے لوگ مجھے ہی کیوں ملے یحییٰ ؟“ ایک اور سوال آیا تھا اب لہجہ قدرے کم بھیگا معلوم ہوتا تھا وہ بینچ سے کھڑا ہو گیا اُس نے دائیں جانب گردن موڑ کر ہاسپیٹل کے اندر جاتی سڑک کو دیکھا ۔

”کیوں کہ آپ اچھی ہیں مبشرہ ... اچھی اور سیدھی“ اُس نے مدھم سنجیدہ گھمبیر آواز میں اُسے ایک جملے سے بہت کچھ باور کروا دیا تھا وہ لب بھینچ کر رہ گئی ۔۔۔
وہ اُسے اچھے سے جانتا ہے ۔۔ وہ اچھے سے صرف اُسے ہی تو جانتا ہے
” کیا آپ نے مجھے مس کیا ؟ “ اُس نے لہجے کو خوشگوار بناتے بات بدلی
” ہاں ۔۔!! کیا مطلب “ اُس کے غیر متوقع بات پر اُس کی زبان لڑکھڑائی تھی
” آپ مجھ سے شادی پر راضی نہیں ہے نا ؟ میں تایا جان سے بات کروں گا“ یہ دوسری غیر متوقع بات تھی ۔۔۔ یہ انتہائی غیر متوقع بات تھی
” یحییٰ آپ ۔۔۔! “ اُس نے لب کچلا وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی اُس کی نظر پھر سے گود میں پڑے چھوٹے سے آئینے پر پڑی اُس کے ذہن میں سارے خیالات ساری باتیں گڈ مڈ ہونے لگی
شیزا سلطان ، آدم سلطان ۔۔ اُن کے تو نام بھی ایک دوسرے سے ملتے تھے اور پھر کچھ وقت پہلے آدم سلطان نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔!!
اُس نے سر جھٹکا پھر سر اٹھا لیا آنکھیں نمکین پانیوں سے جو بھر رہی تھیں اُس نے پلکیں جھپک کر حلق میں اٹکیں آنسوؤں کی گرہوں کو حلق میں ہی اتار دیا ۔۔۔۔۔۔
” کچھ لوگ جو آپ کو نہیں ملتے وہ آپ کے لیے نہیں ہوتے پھر چاہے آپ زمانوں کی گرد چھانے یا سو سال انتظار کریں وہ آپ کے نہیں ہو سکتے“
اُس نے لب دبا کر سسکی روکی اور لب پھیلا کر مسکرائی ۔۔۔ لبوں کو مسکراہٹ کی شکل دی گئی ۔۔۔۔۔

مری زیست پر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

مجھے حسن نے ستایا، مجھے عشق نے مٹایا
کسی اور کی یہ حالت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

وہ جو بے رخی کبھی تھی وہی بے رخی ہے اب تک
میرے حال پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

وہ جو حکم دیں بجا ہے، مرا ہر سخن خطا ہے
انہیں میری رو رعایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

جو ہے گردشوں نے گھیرا، تو نصیب ہے وہ میرا
مجھے آپ سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

تیرے در سے بھی نباہے، در غیر کو بھی چاہے
میرے سر کو یہ اجازت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

تیرا نام تک بھلا دوں، تیری یاد تک مٹا دوں
مجھے اس طرح کی جرأت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

میں یہ جانتے ہوئے بھی، تیری انجمن میں آیا
کہ تجھے میری ضرورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

تو اگر نظر ملائے، میرا دم نکل ہی جائے
تجھے دیکھنے کی ہمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

جو گلہ کیا ہے تم سے، تو سمجھ کے تم کو اپنا
مجھے غیر سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

تیرا حسن ہے یگانہ، تیرے ساتھ ہے زمانہ
میرے ساتھ میری قسمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

یہ کرم ہے دوستوں کا، وہ جو کہہ رہے ہیں سب سے
کہ نصیرؔ پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

” ن۔نہیں جو ہو رہا ہے ہونے دیں “ اُس نے آنکھیں بند کرتے نچلا لب دانتوں تلے دباتے کہا دو آنسو ٹوٹ کر گالوں پر بہہ گئے
اُس نے آنکھیں کھولیں منظر نم تھا لیکن صاف تھا اُس نے پل میں فیصلہ لے لیا تھا ۔۔۔۔ اللہ سے اُسے مانگنے کا ارادہ ترک ہو چکا تھا ۔۔۔ آدم سلطان کا چپٹر کلوز ہو رہا تھا
اُس نے سامنے دیکھا دروازہ میں لگے چھوٹے ٹرانسپیرنٹ شیشے کے ذریعے وہ گزر کر کہی جا رہا تھا مبشرہ شاہ نے مسکرانے کی کوشش کی پھر اُس نے اُس کے ہاتھ میں شیزا سلطان کے نام کی انگھوٹھی تصور کی تھی اب وہ مسکرا نہیں پا رہی تھی اُس نے فون بند کرتے سائیڈ پر رکھا سیل فون کے پٹخے جانے کی آواز کے بعد کمرے میں دبی دبی نسوانی سسکیاں گونجنے لگی تھی

آدم سلطان کچے رنگ کی طرح نہیں تھا جو چڑھا اور پھر آسانی سے اُتر گیا آدم سلطان تو اُس پکے رنگ کی مانند تھا جو چڑھا اور تا حیات دامن کو داغدار کرتا ہی گیا ۔۔

اُس نے گود میں پڑے آئینے کو دیکھا آنسو ٹوٹ کر آئینے پر گرتے اُس کے عکس کو دھندلانے لگے تھے
شیزا سلطان اُس کے لیے پرفیکٹ تھی وہ خوبصورت تھی اور مبشرہ شاہ ۔۔۔؟؟ وہ اب خوبصورت نہیں دِکھ رہی تھی وہ آدم سلطان کے ساتھ اچھی نہیں لگے گی ۔
اُس نے نجانے کیوں لیکن موازنہ کیا تھا ۔۔۔
محبت خود میں خود خوبصورت ہیں وہ خوبصورتی کو نہیں دیکھتی اور کوئی محبت صرف خوبصورتی کو دیکھے تو کتنی نادان ہے وہ محبت کہ فنا ہونے والی تمام چیزوں میں ایک اہم چیز حُسن یوں آنکھ بھر کر دیکھتی ہے ۔۔۔ گویا کچھ دیر کی لذت کے لیے حقیقت کو جھٹلانا !!

اُس نے آئینے کو اٹھا کر بے ساختہ سائیڈ کی دیوار میں دے مارا آئینہ ٹوٹ کر جو بکھرا تو اپنے مطلب بھی تبدیل کر گیا
کچھ دیر پہلے جو آئینہ خوبصورت نظر آ رہا تھا اب وہی آئنیہ ایک خطرناک ہتھیار میں تبدیل ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔
جذبات بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ٹوٹ کر بکھر جائے تو یا انسان کو عقل مند بنا کر سنوار دیتے ہیں یا پاگل بنا کر بگاڑ دیتے ہیں

اُس نے لرزتے ہاتھوں سے اپنے بال سمیٹے تھے پھر ویسے ہی چہرہ صاف کیا سر اٹھایا دو لمحے پلکیں جھپکتے گزارے اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کھینچی ۔۔۔۔۔
اب ٹھیک ہیں ۔۔۔!!
اُس نے چپٹر کلوز کر دیا تھا بس اتنی سی بات تھی اور ایک باب ختم ہو گیا تھا ۔۔۔۔ ہاں اندر بہت اندر کچھ ٹوٹا تو تھا لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔ کیا ہی فرق پڑتا ہے ۔۔۔؟
اب اُسے صفحہ پلٹ کر دیکھنا تھا وہ دیکھنا چاہتی تھی ایک باب کے برے اختتام کے بعد کا صفحہ اُسے سنوارا ہوا ملتا ہیں یا بگڑا ہوا ۔۔!!
زندگی مختلف جذبات رکھتی ہیں ۔۔۔!! زندگی کا ہر چپٹر اچھا نہیں ہوتا ۔۔۔ زندگی کسی کے لیے بھی فیری ٹیل نہیں ہوتی ۔۔ ہو ہی نہیں سکتی
لا حاصل چیز ہو یا انسان وہ ساحل کی اُس ریت کے مترادف ہیں کہ اگر وقتی طور پر آپ ریت کو مٹھی میں قید کر بھی لیں تب بھی وہ کہی نہ کہی سے جگہ بنا کر پھسل ہی جائے گی ۔۔۔
لاحاصل شے بھی ریت کی مانند ہے اور زندگی مٹھی کی مانند ، ریت مٹھی سے پھسل ہی جاتی ہے ۔۔

کال ڈسکنیکٹ ہونے پر اُس نے سیل فون نظروں کے سامنے کیا تھا اُس نے پھر ہاسپیٹل کو دیکھا وہ بہت مشکل سے وقت نکال کر اُس سے ملنے آیا تھا لیکن اب وہ پلٹ رہا تھا ۔۔۔ اُس سے ملے بغیر وہ جا رہا تھا ۔۔
انسان زندگی کے چاہے کسی بھی مقام پر ہو وہ کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی خود غرضی کر ہی جاتا ہے چاہے خود غرضی کی مقدار کم ہو یا زیادہ ۔۔۔

جیسے اِس وقت یحییٰ شاہ نے کی تھی مبشرہ شاہ سے نہ ملنے کا فیصلہ کر کے کہ کہی مبشرہ شاہ نے کچھ لمحے پہلے جو ایک جملہ ادا کرتے اُسے زرد پتوں سے نکال کر بہار کیا تھا وہ کہی پھر زرد پتوں میں اُسے نہ دھکیل دے ۔۔

اب وہ سیدھا اپنے نکاح سے ایک دن پہلے یہاں آنے کا ارادہ رکھتا تھا اُس نے کار کا دروازہ کھولتے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی ہاسپیٹل کے آگے سے زن سے بھگا لے گیا

” رہنے دے جیسا چل رہا ہے ویسا چلنے دے “ کہی نہ کہی دل نے اُس کے اِس جملے کو سنتے اُسے خود غرض کر دیا تھا

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

جاری ہے ۔۔۔

معذرت گھر میں مہمان آنے والے ہیں ۔۔۔ اور اگلی قسط اچھی ہو گی اور اُس قسط کے بعد جو سٹوری شروع ہو گی وہ کہانی کو بدل دے گی یقیناً آپ حیران ہو گے ۔۔۔

22/05/2024

کتابی نام ۔۔۔۔۔

•••••••••••••••••••

I Love You !

وہ غنودگی میں ہی قدموں کی چاپ اپنے آس پاس محسوس کر رہی تھی جیسے کوئی اِس کے نزدیک اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہا ہو اُس کے نقاہت زدہ چہرے پر بے چینی رقص کر رہی تھی
” وہ پاگل ہو گئی ہے ، اور اب وہ شاید مر جائے گی “ مدھم آواز میں بولا ایک جملہ غنودگی میں بھی اُس کے ذہن کے پردوں پر بُری طرح حاوی ہونے لگا
” آہ !! “ بے چینی برداشت نہ کرتے اُس کے دل نے خود پر کئی گنا بوجھ محسوس کیا جس کے نتیجے میں وہ ایک گہرا سانس بھرتی نیند سے جاگ چکی تھی

” ن۔نہیں ک۔“ حد سے زیادہ تیز دھڑکنوں کے شور میں اُس نے گھبراتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا وہ ہاسپیٹل کے بیڈ پر بیٹھی تھی اُس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے
” مبشرہ کیا ہوا ؟ “ ہاسپیٹل روم میں داخل ہوتی میراب سلطان نے اُس کی یوں پسینے پسینے ہوئی حالت دیکھ متفکر ہوتے اُس کی جانب بڑھتے پوچھا

” مبشرہ تم ٹھیک ہو ؟ کیا ہوا بھائی اِسے ؟ “ اُس نے مبشرہ کے کندھے پر ہاتھ جماتے پہلے اُس سے اور پھر پاس کھڑے اپنے بھائی کو دیکھتے پوچھا

اُس کی بات پر ڈاکٹر آدم سلطان نے نفی میں سر ہلاتے شانے آچکا دیے اُس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی اور آنکھوں پر گلاسز لگائے مبشرہ کو قدرے متفکر انداز میں دیکھ رہا تھا
” مبشرہ بتا سکتی ہو کیا ہوا تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو ؟ “ اُس کے آگے جھکتے سلطانہ کا لہجہ فکری مندی لیے ہوئے تھا
جبکہ مبشرہ شاہ نے گردن دائیں جانب موڑ کر سر اٹھا کر آدم سلطان کو دیکھا وہ اُسے کیسے نظر انداز کر گئی ۔۔۔۔؟ گھبراہٹ اس قدر تھی اُس نے نوٹ ہی نہ کیا وہ یہاں کھڑا ہے
” کچھ نہیں آپی “ اُس نے سرایت سے نظریں آدم سلطان سے ہٹاتے میراب سلطان کو دیکھتے کہا ساتھ ہی تھوک نگلتے حلق تر کیا ۔۔۔ اُس نے دماغ کو تھوڑا پر سکون کرنا چاہا تھا

” شکر ہے تم نے مجھے آپی کہا یہ بھابھی سن سن کر ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نجانے کتنی زیادہ اولڈ ایج ہوں “
میراب اُس کے کندھے کو تھپکتی سیدھی ہو کر بیٹھی اور ہنس کر کہنے لگی ارادہ ماحول کی کثافت کو کم کرنا تھا جس میں وہ کچھ حد تک کامیاب بھی ٹھہری کے مبشرہ دھیما سا مسکرائی تھی
” آپی یہاں ۔۔۔ یہاں کون چل رہا تھا ؟ “ اُس نے آدم سلطان کو ابھی تک نظر انداز ہی کیے رکھا تھا
” یہاں تو میں تھی اور میرے بعد بھائی وہ تمھیں چیک کرنے آئے تھے کیوں کیا ہوا ؟ “ اُس نے عام سے لہجے میں کہا
” ڈاکٹر ۔۔۔!! “ وہ بہت مدھم آواز میں یک لفظی کچھ کہتی خاموش ہو گئی اور پھر واپس دائیں جانب گردن موڑ کر آدم سلطان کو دیکھا
” کیا آپ یہاں چل رہے تھے ؟ “ اُس کا لہجہ خالی خالی سا تھا ۔۔۔ عجیب خالی سا لہجہ
” کیا ہوا ہے مبشرہ ؟ “ میراب نے اُلجھتی نظروں سے آدم اور پھر مبشرہ کو دیکھتے استفسار کیا
” ہاں میں ہی چل رہا تھا ۔۔۔“ اُس نے فائل سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ایک قدم مزید اُس کے بیڈ کی جانب بڑھایا اب مبشرہ کے ساتھ میراب بھی اُسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ اُس کی آنکھیں سنجیدہ تھی ۔۔۔ سنجیدہ اور سپاٹ بھوری آنکھیں !

” میں ایک جگہ کھڑے رہ کر آپ کا چیک اپ نہیں کر سکتا تھا محترمہ اِس لیے مجھے چلنا پڑا کیا یہ غلط تھا ۔؟ “ سنجیدہ آنکھوں میں اب ایک سوال تھا
” ہاں ۔۔ نہیں ! بلکل نہیں ، میں بس !! “ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی آدم اب قدرے جھک کر اُس کی پیشانی پر پہلی دو انگلیاں رکھے چیک کر رہا تھا
مبشرہ نے پوری طرح آنکھیں اٹھا کر اُسے دیکھا یکدم سب کچھ پس منظر میں چلا گیا ہاسپیٹل کا کمرہ ، اُس کی گھبراہٹ اور خود مبشرہ شاہ کا ذہن بھی اب وہاں صرف اُس کا دل تھا اور ماتھے کو چھوتی آدم سلطان کی دو انگلیاں
” وہ پاس سے زیادہ ہینڈسم دِکھتا ہے “ اُس نے دو لمحوں کو سوچا اور پھر سر جھٹکا اُسے ایسا نہیں سوچنا چاہیے ۔۔۔ وہ بری دوست نہیں ہیں !!
اِس دوران وہ اِس کی بازو پکڑے اُس کی نبض چیک کر رہا تھا ۔۔۔
” سب کچھ بہتر ہے آپ کو شام تک ڈس چارج کر دیا جائے گا میں ڈسچارج پیپر دیکھتا ہوں آپ ریسٹ کرے تب تک “ اُس نے فائل سائیڈ ٹیبل سے اٹھائی اور جیب سے پین نکالتے وہ اب اُس فائل کے صفحے پر کچھ گھسیٹتے ہوئے ہدایات دے رہا تھا

” اوو ۔۔ شکر الحمدللہ “ میراب نے نرم نظروں سے مبشرہ کو دیکھتے خدا کا شکر ادا کیا
” باقی کی کنسلٹیشن پیشنٹ کے ساتھ جو بھی ہے وہ ڈسچارج کے بعد مجھ سے آ کر کر لے “
اُس نے فائل بند کی سفید کوور والا پین واپس جیب میں رکھا اور میراب سلطان پر قدرے ایک اجنبی نظر ڈالتے اپنی بات مکمل کی
” بھائی !! “ میراب کا لہجہ کچھ افسوس جتاتا تھا
” اب میں چلتا ہوں ؟ ٹیک کئیر آف یور سیلف “ وہ پیشہ وارانہ انداز میں مسکرایا اور وہاں سے چلا گیا میراب اُسے جاتا دیکھتی رہی وہ شاید ناراض ہو چکا تھا ؟ ۔۔۔۔۔۔ شاید نہیں یقیناً ہاں

”بھائی کی وجہ سے کیا وہ آپ سے ناراض ہے آپی ؟ “
” ہممم ، نہیں ایسا کچھ نہیں میں آدم کو سنبھال لوں گی “ اُس نے چونکتے ہوئے کہا
” اچھا تم ذرا آرام کرو میں آتی ہوں اوکے “ اُس کے رخسار کو تھپتھپاتی وہ اٹھتے ہوئے وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔۔
مبشرہ شاہ بیڈ پر نیم دراز ہوئی تھی اُس نے ابھی تک دیوار سے لگے ٹیبل پر پڑا وہ وائس ریکارڈر اور دوسری چیزیں نہیں دیکھی تھی

اُس نے غیر محسوس انداز میں ہاتھ اٹھا کر اپنے ماتھے کو چھوا تھا اور پھر وہی ہاتھ سامنے کرتے اپنی انگلیوں کی پوروں کو دیکھا
من پسند شخص جادوگر ہوتے ہیں !!
کلک کی آواز پر دروازہ کھلا تھا اُس نے سامنے دیکھا ہاتھوں میں نیلے گُل داؤدی کا بوکے پکڑے کھڑی وہ لڑکی اُس کی دوست تھی ۔۔۔ وہ شیزا سلطان تھی
مبشرہ نے نجانے کیوں لیکن اپنا وہ ہاتھ گود میں چھپانا چاہا تھا جس سے اُس نے اپنی پیشانی کو چھوا تھا ۔۔۔ جیسے اُس کی چوری پکڑی گئی ہو

” میری پیاری دوست کیسی ہو تم ؟ “
وہ مسکرائی ، اور پھر نیلے گُل داؤدی کے پھولوں کا بوکے تقریبآ لہراتے وہ اُس کی جانب بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔
مبشرہ نے اُس کے سرخ لپ اسٹک سے سجے ہونٹوں پر موجود بڑی واضع مسکراہٹ کو بہت غور سے دیکھا اور پھر اپنی جانب بڑھتے اُس کے پُر اعتماد قدموں کو جن میں اُس نے بلیک ہائی ہیل پہن رکھی تھی جس کی ٹک ٹک کی آواز پر مبشرہ نے لبوں کو آپس میں پیوست کیا تھا ۔۔۔۔۔
اب وہ مسکراتے چہرے سے اُس کے سامنے کھڑی تھی مبشرہ نے سر تا پیر اُسے دیکھا
کالے لباس پر اُس نے کالے رنگ کی ہی ہائی ہیل پہن رکھی تھی لبوں پر لگی ریڈ لپ اسٹک دھیان اپنی جانب کھینچ رہی تھی لمبی پلکوں کو مسکارے سے کھینچ کر خم دیا گیا تھا اُس کی نیلی آنکھیں بڑی واضع تھیں ۔۔۔۔۔۔

” مجھے پتہ ہے تمھیں بلیو ڈیزی بہت پسند ہے اسپیشلی تمھارے لیے منگوائے ہیں اپنے کافی پیسے خرچ کر دیے میں نے لیکن ۔۔۔۔!! “ وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی یا جتا رہی تھی بہرحال وہ ٹھہری اور پھر بولی ” تم میری دوست ہو آخر “
وہ نیلے پھولوں کو اُس کی جانب بڑھاتے یوں بولی جیسے کوئی تلخ واقعات اُن کے درمیان نہ ہوئے ہو مبشرہ نے اُس کے ہنستے چہرے کو دیکھا اور پھر دیکھتی رہی
” وہ خوبصورت تھی ۔۔ شیزا سلطان خوبصورت ہے “

” لے لو میری پیاری دوست“ اُس نے تراشے ہوئے بھنوؤں کو اوپر اٹھاتے ہوئے پھولوں کو اُس کی جانب مزید بڑھاتے اپنی بات پر زور دیا

” شکریہ “ لبوں پر زبان پھیرتے مدھم لہجے میں کہتے مبشرہ شاہ نے وہ پھول اُس کے ہاتھوں سے تھام لیے

” کیسی ہو تم ؟ جیسے ہی مجھے پتہ چلا میں آنا چاہتی تھی لیکن مجھے تمھارے پسندیدہ پھول ہی نہیں مل رہے تھے “
اُس نے سٹول کھینچا ہاتھ میں پکڑے ریڈ پرس کو سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور پُر اعتمادی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے بیٹھ گئی البتہ اب ہاتھ گود میں تھے جبکہ بائیں ہاتھ دائیں ہاتھ کے اوپر رکھا گیا تھا
مبشرہ نے اُس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں چمکتی ہیرے کی انگوٹھی کو دیکھا ۔۔۔ پھر وہ اُسے غیرارادی طور پر دیکھتی رہی

” کیا ہوا ؟ اوو ہاں تم میری منگنی میں شامل کیوں نہیں ہوئی؟“ اُس نے افسوس سے کہا مبشرہ نے نظر اُس کی رِنگ سے ہٹا کر اُس کے چہرے پر ڈالی
” ہاں !! مجھے یاد آیا تم تو ٹھیک نہیں تھی ناں “ وہ نیلی آنکھیں اٹھاتے بولی اُس کا لہجہ بظاہر افسوس جتاتا تھا ۔۔ لیکن صرف بظاہر ہی
” خیر ۔۔!! میرے منگیتر نے تمھارا خیال اچھے سے رکھا نا ۔۔؟ اُس نے ہی مجھے تمھاری طبیعت کا بتایا تو میں نے خاص تاکید کی تھی اُسے تمھارا خیال رکھنے کی آخر کو میری اکلوتی دوست ہو تم “
مبشرہ اچھے سے جانتی تھی وہ کیوں اُس کے سامنے اِس طرح کہہ رہی تھی وہ اُس باور کروانا چاہتی تھی کہ آدم سلطان اب اُس کا ہے ۔۔ شیزا سلطان کا آدم سلطان ۔۔!!
سوچتے ہی اُس کے بائیں جانب اوپر حصے میں کچھ ٹوٹ پھوٹ ہوئی
” ہاں بہت اچھے سے “ اُس نے نقاہت زدہ آواز میں جواب دیا شیزا نے اثبات میں سر ہلایا
” کب ڈسچارج مل رہا ہے تمھیں ؟ “
” کیوں ۔۔۔؟! تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟ “ مبشرہ کی خود کو پُر اعتماد ظاہر کرتی نظر نے اُس کی نیلی آنکھوں کو چھوا
” تمھاری بہت فکر ہے مجھے میری پیاری دوست “
وہ مسکرائی ۔۔ پھر آگے جھکتے دھیرے سے اُس نے دو انگلیوں سے اُس کے رخسار کو چھوا
” واقعی ؟ “ مبشرہ نے خود اعتمادی قائم رکھنی چاہی تھی
” بلکل ! تم سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ اپنی چیزوں کی مجھے کس قدر فکر رہتی ہے “ جتاتا انداز
” ہمممم !! “ مبشرہ صرف ہنکار بھر سکی شیزا سلطان میں کمال کی خود اعتمادی تھی وہ دو لمحوں میں خود میں خود اعتمادی بھر کر اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔ ایسا مشکل تھا
مبشرہ شاہ مبشرہ تھی اور شیزا سلطان شیزا سلطان تھی

” ارے ۔۔۔!! کیا کوئی اور بھی جانتا ہے تمھیں بلیو ڈیزی پسند ہے ؟ “ اُس نے دیوار کے ساتھ لگے میز کی طرف دیکھتے کہا مبشرہ نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا ۔۔۔۔۔
اُس کی آنکھیں ایک پل کو خوف سے بھر گئیں اُس نے پھر شیزا سلطان کو دیکھا وہ اُسے ہی دیکھ رہی تھی اچانک ہی اُسے شیزا سلطان کا خوبصورت چہرہ سیاہ لگنے لگا تھا ۔۔
غیرارادی طور پر اُس کے ایک ہاتھ نے بیڈ شیٹ کو مُٹھی میں جکڑا جبکہ نیلے پھولوں کا بوکے اُس کے ہاتھ سے اُس کی گود میں گر چکا تھا ۔۔!!
شیزا سلطان کھڑی ہو چکی تھی پھر وہ کچھ مسکرائی اُس کی نیلی آنکھیں مسکراتے ہوئے چمکتی تھیں
” مجھے تم سے بہت اچھے کی امید ہے میری پیاری دوست ۔۔۔!! تم سمجھ رہی ہو نا تم اخلاقیات میں کھڑی ایک اچھی دوست ہو “
کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پر دونوں نے بیک وقت دروازے کی جانب دیکھا آدم سلطان اور نرس رخسانہ اندر آئے تھے مبشرہ نے دوسرے لمحے شیزا سلطان کا چہرہ دیکھا تھا ۔۔۔۔
وہ اُس کی جانب بلکل اُس کے چہرے کے سامنے جھکی رہی تھی ۔۔!! بلآخر اُس کے چہرے سے تھوڑے فاصلے پر رکی اور اُسے دیکھا ، مبشرہ شاہ بھی اُسے دیکھ رہی تھی
” آئی ۔۔ لو ۔۔ یو !! مجھے مایوس مت کرنا میری پیاری دوست “ وہ بہت مدھم آواز میں بولی مبشرہ نے صرف اُس کے سرخ لپ اسٹک سے سجے ہلتے لب محسوس کیے تھے آواز کہی پس منظر میں چلی گئی وہ مسکرائی اور پھر سے دو انگلیوں سے اُس کے رخسار کو چھوتے سیدھی کھڑی ہو گئی
مبشرہ شاہ کا دل اب گھبراہٹ کے مارے تیز دھڑک رہا تھا اُس نے محسوس نہیں کیا لیکن اُس کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے ۔۔!!
وہ سیدھی ہو چکی تھی لیکن مبشرہ شاہ اُسی نقطے کو گھور رہی تھی جہاں وہ پہلے جھکی ہوئی تھی
اُسے لگا جیسے اُس نے کسی سائیکو پیتھ کی آنکھوں میں دو لمحوں کو آنکھیں ڈال کر دیکھا ہو اور اب وہ مرنے والی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے ٹیبل سے اپنا سرخ رنگ کا بیگ اٹھایا اور اب اُس کی ہائی ہیل کی ٹک ٹک کمرے میں پھر سے گونج رہی تھی وہ پُر اعتمادی سے چلتی ہوئی آدم سلطان کے سامنے رکی اُس نے ایک نظر نرس رخسانہ کو دیکھا جو وہاں سے ہٹتی مبشرہ شاہ کی جانب بڑھ گئی

” میری پیاری دوست کا خیال رکھئیے گا “ اُس نے خود کو تکتی مبشرہ شاہ کو دیکھتے کہا ” اور اپنا بھی خیال رکھئیے گا۔“ اُس نے آدم سلطان کے گال کو دو انگلیوں سے چھوا اور مسکرائی
آدم سلطان نے سختی سے لب بھینچے اور نا محسوس انداز میں چہرہ پیچھے کیا تھا
” مجھے تم پر یقین ہے مبشرہ میری پیاری دوست تم جلد ٹھیک ہو جاؤں گی “
وہ جس انداز میں کہہ رہی تھی مبشرہ کے ساتھ ساتھ آدم بھی بخوبی سمجھ گیا تھا وہ صاف کہہ رہی تھی کہ وہ آدم سلطان سے دور رہے
” اوکے ! اب میں چلتی ہوں “ اُس نے ہاتھ اٹھا کر انگلیوں کو جنبش دیتے ” بائے “ کہا تھا اور پھر وہ کمرے سے نکل گئی
اُس کی دور جاتی ہیل کی ٹک ٹک کی آواز ابھی تک مبشرہ شاہ کے کانوں میں باز گشت کر رہی تھی

” وہ پاگل ہو گئی ہے ، اور اب وہ شاید مر جائے گی“
اُس کے ذہن میں وہی جملہ گونجا جو نیند میں اُس کے ذہن میں گونج رہا تھا ۔۔۔ کسی بھیانک خواب اور تلخ حقیقت کی طرح ۔۔
جو لوگ کئی چہرے رکھتے ہیں وہ جذبات صرف ایک ہی رکھتے ہیں ، حسد !! حسد جس کے کئی معنی ہے ۔۔۔ خود غرضی ، منافقت ، جلن ، اور بربادی لیکن لفظ ایک تھا ”حسد“۔!!

•••••••••••••••••••••••••••••

وہ دونوں جیسے ہی سلطان ہاؤس داخل ہوئے تھے انہیں باہر لان کی کرسیوں پر ہی شاکرہ بیگم بیٹھی نظر آئی تھی ۔۔
میراب نے اے جے کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور بے آواز قدم اٹھاتی آگے کی جانب بڑھی
” چچی جان “ وہ اونچی آواز میں چیخی تو شاکرہ بیگم ہڑبڑا کر کرسی سے اٹھی تھی پھر اپنے پیچھے کھڑی سلطانہ کو دیکھ اُن کی سانس میں سانس آئی اور اگلے ہی لمحے وہ اِسے گھور رہی تھی
” آ جاؤ اے جے “ وہ شاکرہ خاتون کے گلتے مسکرائی اور پھر دور کھڑے آہل جیند کو آواز دیتے بلایا وہ اُن دونوں کی جانب آیا تھا
” یہ اے جے کیا ہوتا ہے صیحح سے نام لیا کرو میراب ۔۔۔۔ آہل بیٹے کیسے ہو تم “ انہوں نے میراب کو آنکھیں دیکھائی اور اپنے سامنے مسکرا کر جھکتے آہل جیند کے سر پر ہاتھ رکھا
” میں بلکل ٹھیک ہوں آنٹی آپ سنائیں “ وہ مسکراتے اتنی تہذیب سے بول رہا تھا کہ میراب اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی
” ڈراما کہی کا “ وہ نخوت سے بڑبڑائی
” آپ جانتی ہے اسے ؟ “ کرسی پر بیٹھتے اُس نے شاکرہ خاتون سے پوچھا
” ہاں ایک بار آیا تھا آدم نے ملوایا تھا ۔۔ اور بیٹے بابا ٹھیک ہے تمھارے “ انہوں نے میراب کو جواب دیا اور پھر اے جے سے مخاطب ہوئی
” جی آنٹی “ وہ تابعداری سے مسکرایا میراب سے تو اِس کا اتنا اچھا طرز تخاطب ہضم ہی نہیں ہو رہا تھا
” کہاں آتے ہی اِدھر ٹک گئی ہو تم گرمی لگ رہی ہو گی اُسے “ شاکرہ خاتون نے آرام سے کرسی پر بیٹھی میراب کو دیکھتے ہلکا سا ڈپٹتے کہا
” رہنے دے چچی یہ اور گرمی ۔۔ اسے بس ایک ہی صورت میں ہیٹ سٹروک ہو سکتا ہے جب لڑکی اِسے نظر نہ آئے “
اُس نے پہلا جملہ اونچی اور پھر آخری بڑبڑاتے ادا کیا جس پر شاکرہ خاتون نے اُسے گھورا جبکہ اے جے نے بھی لب دبائے اُسے گھورنے کی ناکام کوشش کی کیوں کہ وہ اُس کی آخری بڑبڑاہٹ سن چکا تھا
” خیر میں ملازمہ سے کہہ کر بیگز اندر رکھا دیتی ہوں“ وہ میراب کو نظر انداز کرتی ملازمہ کو آواز دیتی بیگ اندر رکھنے کا کہتے ساتھ مہمان کے لیے کچھ لانے کا بھی بولی تھی
تھوڑی دیر میں ملازمہ اُن کے آگے ریفریشمنٹ رکھ کر جا چکی تھی
اور شاکرہ خاتون اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی اور پھر اُس کی شادی کی بات پر آئی تھی
” ارے رہنے دے چچی شادی انسان کرتے ہیں “
میراب نے سامنے پلیٹ میں پڑی نمکین چگتے ہنکارا بھرتے طنز کیا
” افسوس اِس طرح پھر تم از سے ابد تک کنواری ہی رہو گی سانولی سلطان “ وہ مسکرا کر بولا تو میراب نے اسے ترش نظروں سے گھورا جبکہ وہ اِس کی ترش نظروں کو نظر انداز کرتے مسکراتی ہوئی شاکرہ خاتون سے مخاطب ہوا
” چھوڑے آنٹی اسے یہ شادی کی باتیں ہی تو میرا سہارا ہے“ ٹھنڈی آہ بھرتے اُس نے آنکھیں بند کرتے نفی میں یوں سر ہلایا جیسے نجانے کتنا بڑا غم ہو اُسے
” ویسے آنٹی خوبصورت تو آپ بھی کم نہیں ہے“ اُس نے سامنے بیٹھی شاکرہ خاتون کو دیکھتے آنکھوں میں چمک لیے کہا اُس کی بات پر وہ مسکرا دی جبکہ میراب کے ہاتھ کا دھموکا اُس کی پیٹھ پر پڑا تھا

” سلطانہ “ وہ درد سے کراہتے دبی دبی آواز میں دانتوں پر دانت جمائے اُس کے نام پر دباؤ دیتے بولا جبکہ بظاہر وہ مسکرا رہا تھا مرد سخت جان اپنی جگہ لیکن اِسے سلطانہ کا ہاتھ واقعی کافی سخت معلوم ہوا تھا۔۔۔۔

” ہاں کیا ۔۔؟ میں تو تمھیں آنے والے مستقبل کا ڈیمو دے رہی تھی کیوں کہ چچا جان بلکل ایسا ہی کرے گے “
اُسے خود کو گھورتا پا کر اُس نے رعب سے بھنویں اٹھاتے کہا تھا جبکہ اُن کی باتیں سنتی شاکرہ خاتون مسکرا دی وہ تینوں اِس وقت لان میں بیٹھے تھے

” دیکھ لوں گا تمھیں ۔۔۔!! آنٹی آپ شادی کی باتیں کرے تھوڑی سانسیں ہموار ہو میری۔۔۔ کب سے اٹک رہی ہیں “
وہ شانے جھکتے شان بے نیازی سے بولا تو شاکرہ خاتون ہنس پڑی تھی جبکہ میراب نے نفی میں سر ہلاتے جوس کا گلاس اٹھاتے لبوں کو لگایا
” ہاں کہی یہ اِدھر ہی مر نہ جائے “ جوس کا گلاس لبوں سے ہٹاتے وہ آنکھیں گھماتے کہنے لگی
” لا حول ولا قوۃ ! مرے میرے بائیں جانب بیٹھے میرے دشمن ۔۔۔ ابھی تو پوری چار شادیاں باقی ہے میری “
وہ تیزی سے کہتے ہوئے۔۔ دیکھ سامنے شاکرہ خاتون کو رہا تھا البتہ اُس کی بات پر اُس کے بائیں جانب کرسی پر بیٹھی میراب نے بے ساختہ گردن گھما کر اُسے دیکھا
” اللہ معاف کرے تم دونوں سلامت رہو آمین “ شاکرہ خاتون نے اُن دونوں کو دیکھتے کہا
جب کہ میراب ابھی تک اُسے ویسے ہی آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہی تھی البتہ ہاتھ میں پکڑا جوس کا گلاس اب اُسے دیکھتے ہوئے ہی لبوں سے لگا چکی تھی
” ایسے مت دیکھتی رہو پھر کہو گی اے جے آئی لو یو “ وہ کان کھجاتے ذرا کی ذرا اُس کی جانب جھک کر جیسے ہی بولا جوس کا فوارہ سلطانہ کے منہ سے نکلتا سیدھا اے جے کے چہرے پر پڑ گیا ۔۔ گویا تمام !!
” ارے ۔۔۔!! “ شاکرہ خاتون نے قدرے حیرت سے سامنے دیکھا تھا میراب نے دوسرے ہی پل اپنے لبوں پر ہاتھ رکھا جبکہ اے جے نے لب بھینچے اور پھر آنکھیں اب وہ ہاتھ سے چہرے پر پڑا جوس ہٹا رہا تھا
” کیا ہو گیا میراب بیٹے ؟ “ شاکرہ خاتون پریشان ہوئی تھی انہوں نے سامنے میز پر پڑا تشو باکس اے جے کی جانب کھسکاتے میراب کو آنکھیں بھی دیکھائی تھیں جو اب لب دبائے اپنا قہقہہ روک رہی تھی ۔۔۔

” سوری چچی جان ۔۔۔ سو سوری اے جے وہ ۔۔“ اُس نے بہ مشکل سوری کرتے بات اُدھوری چھوڑی ۔۔ درحقیقت اُسے ہنسی آ رہی تھی
اے جے نے چہرہ صاف کرتے خونخوار نظروں سے اُسے دیکھا ۔۔۔۔ اُسے یوں دیکھتے دیکھ اُس نے پہلے ایک ہاتھ لبوں پر جمایا اور پھر دوسرا ہاتھ بھی

” آ جاؤ بیٹا میں تمھیں تمھارا کمرہ دیکھاتی ہوں فریش ہو جاؤ تم “ شاکرہ خاتون کرسی سے اٹھتے بولی تو اے جے اُن کی جانب دیکھتے قدرے مسکرایا اور پھر کرسی سے اٹھ گیا

” آئی ۔۔۔ “ اُس نے جان بوجھ کر اونچی آواز میں ایک لفظ ہی کہا تھا کیوں کہ جس لفظ کی بدولت اے جے کے چہرے نے اورنج جوس کا ذائقہ چکھا تھا اُس کا پہلا حرف یہی تھا اے جے نے پلٹ کر اُسے دیکھا
” ایم ۔۔۔ سوری “ اُس نے باقی جملہ بھی کہا اور پھر وہ ہنسی اور کرسی پر سر گرائے وہ ہنستی چلی گئی کچھ دور آگے جاتی شاکرہ خاتون نے نفی میں سر ہلایا جبکہ اے جے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے جیسے اُس سے جنگ کا اعلان کر چکا تھا
پھر وہ قدم اٹھاتے آگے بڑھ گیا کچھ قدم اٹھانے کے بعد اُس نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا وہ ابھی بھی ویسے ہی ہنس رہی تھی اُس نے گہرا سانس لیا اور پھر واپس سامنے دیکھتے شاکرہ خاتون کی تائید میں چلنے لگا

••••••••••••••••••••••••

جاری ہے
nahi Karna koi nahi q ke hum smjh sakty abhi hum late thy is Liye 🌸 but to kar he sakty hai achy achy long se ?

Want your public figure to be the top-listed Public Figure in Toba Tek Singh?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

" Meri pehli book hai jis pe ma mehnat kar Rahi Hoon mujhe nahi pata ye kesi ho gi ..... Lekin ma un sab logo ka shukari...
Meanwhile him .... 🙆🏻‍♀️😁❤️....#fbreelsvideo #virals #novelas #global #fbreelsfypシ゚viral
اُس کی آنکھیں ۔۔۔۔ اس کی آنکھیں بادامی رنگ کی ہیں ۔۔۔ بادامی مطلب ہیزل رنگ یعنی بھورے اور سبز کا امتیاز 👀🤎💚......#urduno...
کبھی کبھی کچھ ایسا نظروں سے کے سامنے سے گزر جاتا ہے جس سے آپ کی امید آپ کی ہمت واپس لوٹ آتی ہے ۔۔۔۔! کوئی تحریر کوئی بات...
Episode 57 #2nd_part ❤️https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=297039166625197&id=100089573474614&mibextid=2JQ9oc......
Why .... ?? ..اور آپ لوگ میری ویڈو کے نیچے کومنٹس کیوں نہیں کرتے why why ... 🧐 ہٹ جاؤ سیدھے ہو جاؤ ...#viralpage #englis...
اور فجر رضوان کو لگا ۔۔۔ ! ....#sad #aesthetic#englishsongs #viralpage #followforfollowback #loveable
تمھیں وہ کب اچھی لگتی ہے ۔۔۔؟ 💞....#couples#urdunovels#viralpost #video #romanticnovel #atnight #fypシ゚ #fypシ゚viralシ2023
Korean trend with novels 🤭❤️...#korea#novel#romantic#love#possesive#funny#Novellines #diazahranovels
POV : you are falling for this romantic dheet Banda 🤭❤️Guess this Banda 🤭❤️ ?? انتہائی کوئی بے شرم ہے آپ ۔۔۔۔!وہ کیسے بھ...
👀🦋🙃🤭😍...#novels#romantic#love#couplegoals #love
افففف جازب کمال 💔🥺🔥 ....#novellover#novelvideo#newnovel#2023_besturdunovel#romanticnovels#fypシ゚

Category

Website

Address


Toba Tek Singh
36050

Other Public Figures in Toba Tek Singh (show all)
Itx Subhan Official Itx Subhan Official
Toba Tek Singh, 123456

Follow Me

Alif Meem Clothing Alif Meem Clothing
Toba Tek Singh

Masihi geet On Harmonium Masihi geet On Harmonium
Toba Tek Singh

Golden Words

Aysha_khan Aysha_khan
Toba Tek Singh
Toba Tek Singh, 1234

i' m single

Save your health keep smiling Save your health keep smiling
Toba Tek Singh

It's just a short description that helps introduce people to your company and tell them what you do.

Agr Tum Sath ho Agr Tum Sath ho
Toba Tek Singh

��حوصلہ رکھ اللّٰہ خیر کرے گا��

Syed Jawad Ali Zaidi Syed Jawad Ali Zaidi
Toba Tek Singh

Labaik ya Hussain (A.S)

Ahmad Javed Ahmad Javed
Toba Tek Singh

Ahmad Rajput 🔥

iqra iqra
Toba Tek Singh

All type vedio are available

Wajid Ali qadri Wajid Ali qadri
Wajidalihd 1
Toba Tek Singh, WAJIDALI

Sardar Waqas Khan Gadhi Sardar Waqas Khan Gadhi
Toba Tek Singh

Abdullah Sajid Abdullah Sajid
Toba Tek Singh