HALL O EHWAL
ہر وقت ہر حال
حال و احوال
بالوں کو دوبارہ اگنے کے لئے حجامہ کروائیں ،،حجامہ علاج بھی سنت بھی
HIJAMA FOR HAIR REGROWING حجامہ بالوں کو دوبارہ اگنے کے لئے اگر کسی کو حجامہ کروانا ہے تو کمنٹ میں اپنا نمبر دیں اس کو فری حجامہ کروایا جائے گا ،،سامان اس کا خود کا ہوگا ،،
یہ ایک غریب بندہ ہے شادی کور کا رہائشی ہے ،کچھ وقت ہوا اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے کمانے والا کوئی نہیں ہے بلوچ قوم سے مدد کی درخواست ہے ،،اور اس کو اپنے گروپوں میں بھی شئر کریں ،اور اس پوسٹ کو بھی زیادہ سے زیادہ شئیر کریں ،،
ایسی غلطی کبھی مت کرنا
نوید بلوچ کا گلہ نیشنل پارٹی والوں سے
NAVEED BALOCH TALKING ABOUT NATIONAL PARTY KECH نوید بلوچ کا گلہ نیشنل پارٹی والوں سے
حب چوکی کی دھاندلی کی ویڈیو جاری
گوادر: (حال و احوال) حلقہ NA-259 گوادر-کیچ کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم، آر او نے فریقین کو طلب کرلیا۔
حلقہ این اے 259 گوادر کم کیچ کے متنازعہ نتائج کے پیش نظر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم جاری، آر او نے تمام فریقین کو طلب کرلیا۔ 12 فروری کو ڈپٹی کمشنر آفس میں فریقین کی موجودگی میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوگی۔
مذکورہ نشست پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، سابق ایم این اے یعقوب بزنجو، حق دو تحریک کے چیرمین حسین واڈیلہ اور پیپلزپارٹی کے کنڈیڈیٹ ملک شاہ گورگیج مدمقابل تھے۔ ملک شاہ کو بھاری مارجن کیساتھ کامیاب قرار دینے کے خلاف تمام فریقین احتجاج کررہے ہیں۔
گورگیج خاندان پر معجزوں کی بارش
باپ بیٹے اور داماد کامیاب ہوگئے۔ ملک شاہ گورگیج گوادر سے، اس کا بیٹا عبید گورگیج سریاب سے جبکہ داماد صمد گورگیج مری آباد کوئیٹہ سے جیت گئے*
ان کے لئے ووٹ کہاں سے آئے اس حوالے سے صرف بلوچستان پریشان نہیں بلکہ پورا دنیا پریشان ہے۔
اس الیکشن کے نتائج آنے میں ایک پوری رات اور ایک پورا دن گزرنے کی وجہ صرف یہی تھی کسی طرح سے تیر نشانے پہ لگے!
مولانا ہدایات الرحمن اگر سچ میں حسین واڈیلا کا وفادار ہے تو وہ شام سے پہلے اپنی وفاداری کا ثبوت دے، مولانا سرعام اپنا اسمبلی نوٹیفیکیشن منشیات کے ڈھیر پر رکھ کر ہندوؤں کے پرانے شمشان گھاٹ میں چتا کی طرح جلا دے!
میں نے پہلے دھرنے میں مولانا سے کہا تھا کہ مکران میں ٹرالرمافیا، ڈرگ مافیا اور بارڈر مافیا کے علاوہ الیکشن کو بھی ایک مافیا رن کرتا ہے الیکشن کے بعد یہ تمام مافیا الیکشن مافیا کے کنٹرول میں کام کرتے ہیں_
بلوچستان کی آنے والی حکومت میں ٹرالرمافیا، ڈرگ مافیا اور بارڈر مافیا کی چاندی ہونے والی ہے اور پریشان کر دینے والی بات یہ ہے کہ مولانا ہدایت الرحمن بھی اس کابینہ کا حصہ ہونگے!
مولانا لوگوں کو کیوں بیوقوف بنا رہے ہیں جب آپ صوبائی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی کابینہ میں شامل ہونگے تو کیسے حاجی ملک شاہ گورگیج کے خلاف حسین واڈیلا کے حق میں تحریک چلائیں گے یا مزاحمت کریں گے؟
کل شام دھرنے میں مولانا کے لہجے میں بہت نرمی تھی اور وہ انتہائی سکون سے بات کر رہے تھے،ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے خرگوش نے اپنے بل تک پہنچنے کیلئے واڈیلا کی بلی چڑھا دی!
قلمکار_جاویدحیات۔copy paste
آ وران کا اسپشل رزلٹ تیار ہو رہا ہے ،،،
عمران خان دوبارہ وزیراعظم ،
اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ مذاکرات میں ہے اگر عمران خان مان گۓ تو تو بلا یعنی پی ٹی آئی کو پھر سے بحال کیا جائے گا سارے انڈیپنڈنٹ امیدوار پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کریں گے ،عمران خان وزیر اعظم بن جائے گا اگر نہ مانے تو بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم ہونگے ،نوازشریف بالکل نہیں ہونگے ،کیونکہ ملک کے حالات خراب ہیں ،کیونکہ ابھی جتنے بھی پاکستانی ہیں وہ نواز شریف کو وزیراعظم نھیں دیکھنا چاہتے ،،تو اسٹبلشمنٹ چاہتے ہوئے بھی نواز کو نھیں لا سکتے ،،
ملک شاہ کی جیت کےلیے امپائر نے اچھا کردار ادا کی
حسین واڈیلہ صاحب ! ہر کسی سے ملکر غرور سے کہتے تھے کہ میں حمل کلمتی کو ہرواؤں گا کیونکہ حمل کلمتی نے مجھے سینیٹر نہیں بنایا
اب کیا حال ہے آپ کا جیتا ہوا ایم این اے کا سیٹ زبردستی چھین کر لے جارہے ہیں کیا کروگے۔۔۔؟
دھوکہ حمل کلمتی نے نہیں دیا ، دھوکہ آپ کو جماعت اسلامی کے شاطر مولوی نے دیا اب دیکھتے ہیں جماعت اسلامی آپ کے ساتھ کہاں تک کھڑا رہے گا ، کہاں دھرنا ہوگا کب تک دھرنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔اور آپ بھی اپنے ساتھ ہونے والے ناانصافی کیخلاف کیا کرو گے
میں لکھ کر دیتا ہوں کہ ملک شاہ کیخلاف مولانا ہدایت الرحمان آخری حد تک نہیں جائے گا حسین واڈیلہ کو خوش کرنے کیلئے تھوڑی شور مچائے گا پھر خاموشی جاکر اسمبلی بیٹھے گا کیونکہ ملک شاہ اور مولانا کا اتحاد دھرنے کے دوران پی سی ہوٹل کے خفیہ ملاقات سے ہوا تھا وہ آج تک جاری ہے اور جاری رہے گا مولانا ہدایت الرحمان کی جیت کا سہرا بھی ملک شاہ کے سر جاتا ہے۔۔۔ copy
یونین کونسل نمبر 8 کے ڈپٹی چیئرمین مجیب الرحمٰن کا مختلف علاقوں کا دورہِ،،،، نوکباد ،شنزدر ،مغربی پٹھان کہور ،شنزدر،،مشرقی پٹھان کہور، آپسی کہن ، کوشقلا ت،،،دورے میں علاقے کے خواتین ماں ،بہنوں ،بھائیوں ،دوستوں ،بزرگ سے ملاقات کی ،ملاقات میں بلوچی روایتی حال و احوال ہوا ، پھر آ نے والے الیکشن کے بارے میں بات ہوئی ،بعض مرد ،خواتین سمیت ،مایوس تھے ،کہ ہم الیکشن میں حصہ نھیں لیں گے ، لیکن پھٹان کہور کے بعض خواتین کا،، ملا (احمد پیرانداد آسکانی )کی حمایت کی ،،کہ وہ ہمیں جہاں بولیں گے ہم ان کو ووٹ دیں گے ،مغربی پٹھان کہور کے لوگوں کا کہنا تھا ، ابھی تک کوئی ہمارے پاس نھیں آ یا ہے ، جو سیاستدان آ ئیں گے ، ہم اپنے مسائل ان کے سامنے رکھیں گے اگر وہ ان کو حل کریں گے تو ہم ان کو ووٹ دیں گے ،،
27-1-2024 پٹھان کہور بنڈک بمقام حاتم مراد کے گھر کارنر میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں مہمان خاص علاقے کے ڈپٹی چیئرمین مجیب الرحمٰن تھے ،میٹنگ کا اصل ایجنڈا یہ تھا کہ ہم اپنے ووٹ کے خود مالک ہیں ،کوئی میر ،واجہ،معتبر ،سماجی شخصیت نھیں ھے ،اب لوگوں کو شعور آ چکا ہے انھی میر معتبروں کی وجہ سے علاقےکے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اب جس کو ووٹ چائیے بذات خود ہم سے رابط کرے ہم سے ملے، میٹنگ میں یہ طے پایا کہ ہر فیملی کا سربراہ بذات خود وہی ہے جو فیملی کا سربراہ ہے۔کارنر میٹنگ کے شرکاء کا کہنا تھا کہ ہماری ووٹوں کی بدولت وزیر بن جانے کے بعد وہ ہمیں نھیں پوچھتے ، پوچھنے پر جواب ملتا ہے کہ فلان واجہ سے اپنا مسئلہ حل کروالو ان کی وجہ سے آپ نے ہمیں ووٹ دیا ہے،کارنر میٹنگ میں اکرم ولد حیدر،واجہ علی ولد شاہ سبزل،حنیف ولد فقیر بنڈک والا ،واجہ برکت،حاتم مراد ،بھٹو بہار ،مہب اللّٰہ ولد مجبور،ایوب ولد عیسیٰ ،زمان ولد میاہ داد مہراللہ ولد مقیش،اور دیگر نوجوان شامل تھے۔
آج کی تازہ خبر اور سب سے بڑی اہم خبر مولانا ھدایت رحمان نے سردار اختر جان مینگل اور حمل کلمتی صاحب میر یعقوب بزنجو کے جلسے کی جلسہ جو کل ہو رہا ہے لوگوں کو اس میں شرکت کی اپیل۔ویڈیو ثبوت کے ساتھ
ا س لام آ باد پ و لی س بلوچ یکہجتی کمیٹی کو کمبل لے جانے نھیں دے رہے ہیں
*بلوچستان نیشنل الائنس کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس* بلوچستان نیشنل الائنس کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں حالیہ انتخابات کے امیدواروں کے نام فائنل کیے گئے. موصول شدہ درخواستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمانی بورڈ کے ممبران نے کیچ 1- pb-25 بلیدہ زعمران سے لالا نزیر احمد ایڈوکیٹ ، کیچ 2 تربت Pb - 26سے چاکر پیرل بلوچ، کیچ 3-pb-27 دشت و مند سے میجر جمیل احمد دشتی ، کیچ4 - pb-28 تمپ کلاتک سے لالا ایوب محمد اور گوادر کم کیچ NA259 سے واجہ قاسم دشتی اور پنجگور کم کیچ NA258 سے چاکر پیرل بلوچ کے نام فائنل کیے گئے. اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان نیشنل الائنس کیچ کے تمام حلقوں میں انتخابات میں حصہ لیکر بلوچ و بلوچستان کے حقوق کے دفاع کیلئے غاصب اور کرپٹ سیاسی قوتوں کے مقابلے میں اپنے امیدواروں کو سامنے لائیں گے. گزشتہ کئی دھائیوں سے سیاست کے نام پر چور اور بدعنوان ٹولہ اپنے گھناؤنے سازشوں سے بلوچ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالے ہؤئے ہیں . بلوچستان نیشنل الائنس اپنے تمام ممبران و کارکنان سے گزارش کرتی ہے کہ کل بروز اتوار کلاتک میں منعقد ہونے والی کارنر میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے تمام کارکنان و ممبران شام تین بجے سے پہلے میر باھڈ جمیل دشتی ھاؤس میں اپنی آمد یقینی بنائیں.
اعلامیہ . بلوچستان نیشنل الائنس کیچ
کوئٹہ کے ڈاکٹرز قصائی بن گئے۔
صحت کارڈ ہونے کے باوجود آپریشن کے لیے زیادہ رقم مانگا جا رہاہے۔ ڈاکٹرز نے صحت کارڈ ہونے کے باوجود مریضوں سے زیادہ رقم مانگنے کا الزام
کوئٹہ: آپریشن کے لیے مریضوں سے معمولی رقم زیادہ مانگنے کا الزام ڈالا گیا ہے،
متعلقہ رپورٹ کے مطابق، سٹی انٹرنیشنل اور اکرم ہسپتال میں ڈاکٹروں کے پاس ایک مریض آیا تو ڈاکٹر نے 70 ہزار کی ڈیمانڈ کی۔ اور کہا کہ صحت کارڈ میں صرف 37ہزار کی حد ہے۔ بقیہ پیسے دینے پڑیں گے۔ غریب مریض کے مطابق کہ صحت کارڈ ہونے کے باوجود بھی ڈاکٹرز مالی مفاد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
وزیر صحت سے اپیل ہے کہ اس معاملے کا جائزہ لے تاکہ مریضوں کو اچھی صحتیابی کیلئے معقول قیمتوں میں خدمات دی جا سکیں۔
نوٹ : اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں.
ایک زمانہ تھا یہودی فلسطین میں عبادت کرنے کے لئے اجازتِ نامہ لیتے تھے
فلسطینیوں کی حمایت میں ملین مارچ
سلطنت برطانیہ اور آل سعود کے درمیان معاہدہ
میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور تاریخ کا وہ حصہ میری خصوصی دلچسپی کا موضوع ہے جس کا تعلق اب سے دو صدیاں پہلے کی دو عظیم مسلم سلطنتوں خلافت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ کے خلاف یورپی ملکوں کی سازشوں سے ہے۔ اور اس حوالہ سے وقتاً فوقتاً ان کالموں میں کچھ لکھتا بھی رہتا ہوں۔ اسی مناسبت سے مجھے ایک معاہدہ کی تفصیلات کی تلاش تھی جو برطانوی حکومت اور آل سعود کے درمیان ہوا تھا اور جس پر اب تک بدستور عمل ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر سے ملاقات اور ان کی بیمار پرسی کے لیے گکھڑ منڈی گیا تو ان کی لائبریری میں حسب عادت کتب گردانی کرتے ہوئے ہندوستان سے حجاز جانے والے ایک وفد کے دورے کی مطبوعہ رپورٹ مل گئی جس میں اس معاہدہ کی تفصیل موجود ہے۔ اسے قارئین کے سامنے لانا چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے اس کا تھوڑا سا پس منظر واضح کرنا بھی ضروری ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران خلافت عثمانیہ کو جرمنی کی حمایت کی سزا دینے اور اس بہانے سے اس کا وجود ختم کرنے کے لیے حکومت برطانیہ نے عرب ممالک کو خلافت عثمانیہ سے باغی کرنے کا پروگرام بنایا۔ اور خلافت عثمانیہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے والی حسین بن علی کو، جسے شریف مکہ کہا جاتا تھا، اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ اگر وہ خلافت عثمانیہ سے بغاوت کا اعلان کر دے تو اسے پورے عرب کا بادشاہ بنا دیا جائے گا اور ترک خلیفہ کی بجائے اس کے سر پر خلیفۃ المسلمین کا تاج رکھ دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے شریف مکہ کے بیٹے امیر عبد اللہ اور برطانوی نمائندہ لارڈ کچر کے درمیان 1915ء میں قاہرہ میں باقاعدہ معاہدہ طے پایا جس کے مطابق شریف مکہ نے خلافت عثمانیہ سے بغاوت کر کے میدان جنگ میں ترک فوجوں کو شکست دی۔ لیکن جب ترک فوجیں شکست کھا کر پسپا ہوگئیں اور عرب ممالک سے خلافت عثمانیہ کا اقتدار ختم ہوا تو انگریزوں نے شریف مکہ حسین بن علی کو عرب دنیا کا بادشاہ تسلیم کرنے کی بجائے اس کے بیٹے امیر عبد اللہ کو دریائے اردن کے کنارے پر ایک پٹی کا بادشاہ بنا دیا جو اردن کی مملکت ہاشمیہ کے نام سے معروف ہے۔ اور اردن کے موجودہ بادشاہ عبد اللہ اسی امیر عبد اللہ کے پڑپوتے ہیں۔ جبکہ حجاز مقدس میں آل سعود کو آگے بڑھایا جو اس سے پہلے نجد اور اس کے اطراف کے حکمران تھے، انہوں نے شریف مکہ حسین بن علی کو شکست دے کر حجاز مقدس پر قبضہ کیا اور سعودی مملکت قائم کر لی۔
شریف مکہ کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کی فوجوں کی شکست کے بعد آل سعود کے اچانک آگے بڑھنے اور اس سے حجاز مقدس کا کنٹرول چھین لینے سے عام مسلمانوں کو یہ اطمینان ہوا کہ ایک غدار کو اپنے جرم کی سزا مل گئی ہے اور اس کی جگہ حجاز مقدس ایک مذہبی اور دیندار خاندان کی تحویل میں آگیا ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ اس خاندان کے پیچھے بھی برطانوی حکومت تھی اور اس کی منصوبہ بندی کے مطابق اس سارے ڈرامے کی تکمیل ہوئی۔
سعودی مملکت قائم ہونے کے بعد اس کی طرف سے مزارات اور مقابر کے انہدام کے حوالہ سے ہندوستان کے عام مسلمانوں میں اضطراب اور تشویش پیدا ہوئی تو مختلف دینی حلقوں نے مسلمانوں کے جذبات سعودی حکومت تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔ ان میں ایک لکھنو کی جمعیۃ خدام الحرمین بھی تھی جو فرنگی محل کے معروف علمی مرکز کے سربراہ حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی کوششوں سے قائم ہوئی۔ اس کا ایک وفد 1926ء میں حجاز مقدس گیا اور سعودی مملکت کے بانی شاہ عبد العزیز بن سعود مرحوم سے ملاقات کر کے انہیں ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا۔ اس وفد کے دورہ کی رپورٹ جمعیۃ خدام الحرمین کے سیکرٹری جنرل شیخ مشیر حسین قدوائی بار ایٹ لاء نے لکھنو سے شائع کی جو اس وقت میرے سامنے ہے۔ اور اس میں ایک ضمیمہ کے طور پر اس معاہدہ کا متن عربی اور اردو زبانوں میں درج ہے جو 1915ء میں کویت میں شاہ عبد العزیز بن سعود اور برطانوی نمائندہ لیفٹیننٹ کرنل سر پرسی کاکس کے درمیان تحریری طور پر طے پایا۔ اس معاہدہ کے بعد آل سعود کے سربراہ شاہ عبد العزیز کو برطانوی حکومت کی طرف سے ’’ستارہ ہند‘‘ کے سرکاری اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ اور سرپرسی کاکس نے شاہ عبد العزیز کے سینے پر ’’ستارہ ہند‘‘ کا تمغہ آویزاں کرنے کے بعد جو گروپ فوٹو کھنچوایا وہ بھی اس رپورٹ میں موجود ہے۔
اس پس منظر میں معاہدہ کا متن ملاحظہ فرمائیے:
’’چونکہ حکومت عالیہ برطانیہ اور نجد و احساء و قطیف و جبیل اور اس کے ملحق مقامات کے حاکم عبد العزیز بن عبد الرحمان بن فیصل السعود کی خود اور اپنے ورثاء اور قبائل کی طرف سے ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ طرفین (برطانیہ اور ابن سعود) میں دوستانہ راہ و رسم کی تجدید ہو جائے اور فریقین کے اغراض و مقاصد کے مضبوط کرنے کے لیے عمدہ تصفیہ ہو جائے، اس لیے حکومت برطانیہ نے سرپرسی کاکس بالقابہ نمائندہ برطانیہ متعینہ خلیج فارس کو سلطان ابن سعود سے مذکورہ بالا مقصد کا ایک معاہدہ طے کرنے کے لیے اپنا وکیل مقرر کیا۔ چنانچہ سر مذکور اور ابن سعود میں حسب ذیل امور پر معاہدہ طے ہوا کہ:
دفعہ نمبر ۱
حکومت برطانیہ اعتراف کرتی ہے اور اس کو اس امر کے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں ہے کہ علاقہ جات نجد، احساء، قطیف، جبیل اور خلیج فارس کے ملحقہ مقامات جن کی حد بندی بعد کو ہوگی، یہ سلطان ابن سعود کے علاقہ جات ہیں۔ اور حکومت برطانیہ اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ ان مقامات کے مستقل حاکم سلطان مذکور اور ان کے بیٹے اور ان کے جانشین ہیں۔ ان کو ان ممالک اور قبائل پر خود مختار حکومت حاصل ہے اور اس کے بعد اس کے لڑکے بالے ان کے صحیح وارث ہوں گے۔ لیکن ان ورثاء میں سے ایک کو سلطنت کے لیے انتخاب و تقرر کی یہ شرط ہوگی کہ وہ شخص سلطنت برطانیہ کا کچھ بھی مخالف نہ ہو اور مشروط مندرجہ معاہدہ ہذا کی رو سے شخص مذکور برطانیہ کے خلاف نہ ہو۔
دفعہ نمبر ۲
اگر کوئی اجنبی طاقت سلطان ابن سعود اور اس کے ورثاء کے ممالک پر حکومت برطانیہ کے مشورہ کے بغیر یا اس کو ابن سعود کے ساتھ مشورہ کرنے کی فرصت دیے بغیر حملہ آور ہوگی تو حکومت برطانیہ ابن سعود سے مشورہ کر کے حملہ آور حکومت کے خلاف ابن سعود کو امداد دے گی اور اپنے حالات ملحوظ رکھ کر ایسی تدابیر اختیار کرے گی جن سے ابن سعود کے اغراض و مقاصد اور اس کے ممالک کی بہبود محفوظ رہ سکے۔
دفعہ نمبر ۳
ابن سعود اس معاہدہ پر راضی ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ کسی غیر قوم یا کسی سلطنت کے ساتھ کسی قسم کی گفتگو یا سمجھوتہ اور معاہدہ کرنے سے پرہیز کرے گا۔ مالک مذکور بالا کے متعلق اگر کوئی سلطنت دخل دے گی تو ابن سعود فورًا حکومت برطانیہ کو اس امر کی اطلاع دے گا۔
دفعہ نمبر ۴
ابن سعود عہد کرتا ہے کہ وہ اس سے پھرے گا نہیں اور وہ ممالک مذکورہ یا اس کے کسی حصے کو حکومت برطانیہ سے مشورہ کے بغیر بیچنے، رہن رکھنے، مستاجری یا اور کسی قسم کے تصرف کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ اور اس کو اس امر کا اختیار نہ ہوگا کہ وہ کسی حکومت کی رعایا کو برطانیہ کی مرضی کے خلاف ممالک مذکورہ بالا میں کوئی رعایت یا لائسنس دے۔ ابن سعود وعدہ کرتا ہے کہ وہ حکومت برطانیہ کے ارشاد کی تعمیل کرے گا اور اس امر کی قید نہیں ہے کہ وہ ارشاد اس کے مفاد کے خلاف ہو یا موافق۔
دفعہ نمبر ۵
ابن سعود عہد کرتا ہے کہ مقامات مقدسہ کے لیے جو راستے سلطنت سے گزرتے ہیں وہ باقی رہیں گے اور ابن سعود حجاج کی آمد و رفت کے زمانے میں ان کی حفاظت کرے گا۔
دفعہ نمبر ۶
ابن سعود اپنے پیشرو سلاطین نجد کی طرح عہد کرتا ہے کہ وہ علاقہ جات کویت، بحرین، علاقہ جات روسائے عرب، عمان کے ان ساحلی علاقات جات اور دیگر ملحقہ مقامات کے متعلق جو برطانوی حمایت میں ہیں، اور جن کے حکومت برطانیہ کے ساتھ معاہدانہ تعلقات ہیں، کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔ ان ریاستوں کی حد بندی بعد کو ہوگی جو برطانیہ سے معاہدہ کر چکی ہیں۔
دفعہ نمبر ۷
اس کے علاوہ حکومت برطانیہ اور ابن سعود اس امر پر راضی ہیں کہ طرفین کے بقیہ باہمی معاملات کے لیے ایک اور مفصل عہد نامہ مرتب و منظور کیا جائے گا۔
یہ معاہدہ کویت میں 26 نومبر 1915ء کو طے پایا۔ اس پر سلطان عبد العزیز بن سعود اور برطانوی نمائندہ بی زیڈ کاکس کے دستخط ہیں۔ اور اس کی توثیق ہندوستان میں برطانوی وائسرائے چیمس فورڈ نے 18 مئی 1916ء کو شملہ میں اس پر دستخط ثبت کر کے کی۔ اور اس پر سیکرٹری پولیٹیکل اینڈ فارن ڈیپارٹمنٹ حکومت ہند رے ایچ گرانٹ کے بھی دستخط ہیں۔
اس معاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت برطانیہ نے شریف مکہ کے خاندان اور آل سعود سے ایک ہی سال کے دوران یعنی 1915ء میں دو الگ الگ معاہدے کیے۔ اور شاید ابتداء میں اس کا پروگرام حجاز اور نجد میں دو الگ الگ حکومتوں کو قائم رکھنے کا تھا، لیکن شریف مکہ کو خلافت عثمانیہ سے بغاوت میں کامیابی کے بعد اپنے لیے زیادہ مفید نہ سمجھتے ہوئے حکومت برطانیہ کا ارادہ بدل گیا اور حجاز مقدس بھی آل سعود کی تحویل میں دے دیا گیا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام:
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:
۲۴ نومبر ۱۹۹۹ء
فلسطین میں یہودی آباد کاری کا پس منظر
اسرائیلی وزیر اعظم ایہود بارک نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر یہودی بستی میں دس گنا اضافے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کا مقصد نیم خود مختار فلسطینی شہر نابلس کے قریب 70 ایکڑ کے رقبہ پر آباد یہودی بستی کو 700 ایکڑ تک پھیلانا ہے جس سے اس علاقہ میں یہودی آبادی کا تناسب بڑھ جائے گا۔
فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی تاریخ زیادہ طویل نہیں ہے اس کا آغاز اسی صدی کے آغاز میں ہوا تھا۔ یہودیوں نے فلسطین میں اپنی آباد کاری کی راہ ہموار کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلے وہ مکر و فریب کی ایک دلخراش داستان کے طور پر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور آج جبکہ اس آباد کاری کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے ایہود بارک کی قیادت میں اسرائیلی حکومت اپنے منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کے سامنے اس دور کے حالات کا ایک خاکہ رکھا جائے جب یہودی فلسطین میں تھوڑی سی جگہ کے حصول کے لیے بھی عثمانی خلیفہ کی ہر شرط ماننے کو تیار تھے۔ مگر عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمیدؒ نے ان کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا جس کے نتیجے میں یہودی سازشوں کا رخ سلطنت عثمانیہ کی طرف پھر گیا اور انہوں نے یورپی حکومتوں کے ساتھ ساز باز کر کے خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کرنے کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی، بلکہ یہودی سلطنت کے قیام کی راہ ہموار کی۔
یورپ کی متعصب عیسائی حکومتوں نے ایک دور میں یہودیوں پر جینا حرام کر رکھا تھا اور کلیسا کے زیر سایہ ان حکومتوں نے یہودیوں پر دباؤ ڈالا ہوا تھا کہ وہ عیسائی مذہب اختیار کر لیں یا ملک چھوڑ دیں۔ عیسائیت قبول نہ کرنے کے جرم میں لاکھوں یہودی ان حکومتوں کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔ حتیٰ کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ان ملکوں میں یہودیوں کا رہنا ناممکن ہوگیا، جبکہ اسی دور میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کے زیر سایہ ممالک میں یہودی نہ صرف آزادی کے ساتھ رہ رہے تھے بلکہ سیاسی عمل میں بھی شریک تھے اور مختلف علاقوں میں وزارتوں اور عہدوں پر بھی متمکن ہو جاتے تھے۔
1483ء میں فرانس کے بادشاہ لوئی دوازدہم نے یہودیوں کو سرکاری طور پر نوٹس دے دیا کہ وہ عیسائیت قبول کرنے کا اعلان کریں یا ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس وقت فرانس کے یہودیوں نے خلافت عثمانیہ کے صدر مقام استنبول میں یہودی جماعت کے سربراہ ’’حاخام‘‘ کو راہنمائی کے لیے خط لکھا جس کا جواب انہیں یہ ملا کہ چونکہ ان میں ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے اس لیے بظاہر عیسائیت قبول کر لیں لیکن دل میں اپنے ’’موسوی مذہب‘‘ پر قائم رہیں۔ عیسائیت قبول نہ کرنے والے یہودیوں کو فرانس، برطانیہ، روس اور اسپین سمیت اکثر یورپی ملکوں سے جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ اور انہوں نے خلافت عثمانیہ کے زیر سایہ ممالک کو اپنے لیے زیادہ مناسب سمجھتے ہوئے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ عثمانی خلیفہ سے بات کر کے عثمانی سلطنت میں یہودیوں کی باقاعدہ آباد کاری کے لیے اجازت حاصل کی جائے۔ بلکہ کوشش کی جائے کہ اگر فلسطین میں یہودیوں کو آباد ہونے کا موقع فراہم کر دیا جائے تو بیت المقدس کے اردگرد یہودی آبادی اور بالآخر ایک یہودی ریاست کے قیام کی صورت بھی نکل آئے گی۔
اس مقصد کے لیے عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید سے عالمی یہودی تحریک کے نمائندہ لارنس اولیفینٹ نے ملاقات کی اور پیشکش کی کہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں آبادکاری کی سہولت فراہم کر دی جائے تو اس کے عوض یہودی سرمایہ کار سلطنت عثمانیہ کی تمام مشکلات میں ہاتھ بٹانے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے جواب میں سلطان مرحوم نے کہا کہ یورپی ملکوں سے نکالے جانے والے یہودیوں کو سلطنت عثمانیہ کے کسی بھی حصہ میں آباد ہونے کی اجازت اور انہیں پورے شہری حقوق دینے کے لیے تیار ہیں، مگر فلسطین میں چونکہ یہودی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ ان کے ذہنوں میں موجود ہے اس لیے اس خطہ میں کسی یہودی کو آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس کے بعد 1893ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے یہودی رکن لارڈ سموئیل نے استنبول جا کر سلطان عبد الحمید سے ملاقات کی اور کثیر مالی معاونت کی پیشکش کے عوض یہ اجازت چاہی کہ شام کے شمالی اور اردن کے مشرقی علاقہ میں یہودی بستیاں بسانے کی سہولت دی جائے۔ اس کے جواب میں بھی سلطان عبد الحمید مرحوم نے اپنا موقف دہرایا کہ فلسطین کے علاوہ سلطنت عثمانیہ کے جس حصہ میں یہودی آباد ہونا چاہیں انہیں پوری سہولت دی جائے گی، مگر فلسطین میں انہیں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کے بعد صیہونی تحریک کے سربراہ ہرتزل نے خود خلافت عثمانیہ سے رابطہ قائم کیا۔ 1896ء سے 1902ء تک پانچ بار استنبول کا دورہ کیا اور دوبار سلطان عبد الحمید مرحوم سے مل کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دیں۔ مگر سلطان مرحوم نے صاف انکار کر دیا۔
یہودی تحریک کے عالمی سربراہ نے سلطان مرحوم کے قریبی دوست عزت بک مرحوم کو بھی واسطہ بنایا مگر سلطان اپنے موقف پر اڑے رہے اور واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ فلسطین کی ایک انچ زمین بھی کسی قیمت پر یہودیوں کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر عزت بک نے ہرتزل سے کہا کہ وہ فلسطین کی بجائے کوئی اور خطہ زمین خریدنے کی بات کریں تو وہ سلطان کو اس پر آمادہ کر لیں گے۔ اس پر ہرتزل نے خود اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ اس نے فلسطین کے متبادل کے طور پر قبرص کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا لیکن اس سوچ کو زیادہ دیر اپنے دماغ میں جگہ نہ دے سکا۔ ایک موقع پر ہرتزل نے سلطان عبد الحمید مرحوم کے سامنے بلینک چیک پر دستخط کر کے رکھ دیا کہ وہ اس پر جتنی رقم چاہیں لکھ لیں مگر فلسطین کا ایک قطعہ زمین یہودیوں کی آبادی کے لیے ضرور مرحمت فرما دیں جس پر سلطان مرحوم نے سخت طیش کے عالم میں اسے دربار سے نکل جانے کا حکم دیا اور اپنے عملہ کو ہدایت کی کہ آئندہ اس شخص سے ان کی ملاقات نہ کرائی جائے۔
سلطان عبد الحمید مرحوم کی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ایک مرحلہ میں ہرتزل نے یہ تجویز پیش کی کہ سلطنت عثمانیہ ایک عالمی یونیورسٹی کے قیام کی اجازت دے تو دنیا بھر کے یہودی سائنس دانوں کو جمع کر کے سلطنت عثمانیہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں خود کفیل بنانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ سلطان عبد الحمید مرحوم نے اس کے جواب میں کہا کہ وہ اس پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں اور فلسطین کے علاوہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اس کے لیے جگہ اور سہولتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کو روکنے کے لیے سلطان عبد الحمید عثمانی کا یہ بے لچک رویہ ہی ان کے خلاف عالمی سازشوں کا باعث بنا اور یہودیوں نے حکمت عملی تبدیل کر کے انہی یورپی ممالک سے ساز باز کرلی جن کی حکومتوں کے مظالم کا وہ صدیوں شکار رہے ہیں۔ اس ساز باز کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کر دیے گئے اور اس بندر بانٹ میں یہودیوں کو فلسطین کا وہ خطہ الاٹ کر دیا گیا جہاں آج اسرائیل قائم ہے اور جسے مستحکم اور وسیع کرنے کی مسلسل کوشش جاری ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام:
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:
۱۶ نومبر ۱۹۹۹ء
جی ڈی اے ہسپتال میں کسی بہن کو B پازٹیو خون ضرورت ہے ۔اگر کسی دوست کا خون پازٹیو ہے تو اس بہن کو خون عطیہ کریں ۔
ثواب کی نیت میں
رابطہ نمبر 03312429265
واحد
*ڈی بـلـوچ تـربـت دھــرنـا*
*قلم🖊️ لنگر ⚓ طــارق دشــتی*
*حق دو تحریک بلوچستان کی جانب سے مند تمپ اور دیگر علاقوں کی مکمل بجلی بحالی کے لئے ڈی بلوچ تربت میں پرامن دھرنا اپنے دوسرے روز میں داخل ہوگیا ھے،*
*موجودہ نگران سیٹ اپ کے نگرانوں کو اس معاملے کو جلد از جلد کرلینا ہی ریاست کے مفاد میں ہے، ریاستی زمہ داران اس خام خیالی میں اور احمقوں کی جنت میں ہرگز نہ رہیں کہ دھرنے کی قیادت اور شرکاء کو تھکا کر نڈھال کرکے بیک فٹ پر جانے پر مجبور کرسکتے ہیں حق دو تحریک بلوچستان گوادر کا تاریخی دھرنا جو طویل ہوتے ہوتے بالآخر سابق صوبائی حکومت بلوچستان کے گلے کی ہڈی بن کر انتہائی غلط فیصلے کی نظر ہوگیا اور کئی ہفتوں تک گوادر میں نظام زندگی شدید متاثر اور گوادر کو مقبوضہ علاقے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔*
*حق دو تحریک بلوچستان کی قیادت مولانا ہدایت الرحمان بلوچ صاحب اور واجہ حسین واڈیلا صاحب جیسے باہمت و اور قوم کا درد رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے، یہ میر ہیں نہ کہ نواب و سردار ہیں، سختیاں اور مشکلات ان کو وراثت میں ملی ہیں، پریشان حال مند کے عوام نے اپنے سابق نمائندے میروں کبیروں سے مکمل مایوسی اور بلوچستان بھر میں نظر گھمانے کے بعد مولانا ہدایت الرحمان بلوچ صاحب کو اپنی مدد و رہنمائی کے لیے آواز دی، جس کے نتیجے میں ڈی بلوچ تربت میں آج ایک تاریخ رقم ہورہا ہے۔*
*مورخین کو تاریخ میں یہ لازمی درج کرنا ہوگا کہ کیچ و مند میں درجنوں کے حساب سے عوامی نمائندوں کے ہوتے ہوئے بلوچ راج کی پکار پر گوادر سے مائیگر کے بیٹے نے آکر محمود غزنوی اور طارق بن زیاد کی داستانوں کو دہرایا۔۔*
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the business
Telephone
Address
Patankahoor
Turbat
92600
Meno Malk Abad
Turbat, 92600
The page is all about informing authorities,the local issues of Meno
Turbat, 92600
وائس آف دشت نگور ایک علاقائی گروپ ہےجس میں دشت و نگور کے عوامی و علاقائی مسائل کو سامنے لایا جائے گا۔
Shaitump
Turbat, 92600
We Want Change Something!! تربت آئن لائن ؛ ھر وقت آپکی خدمت میں حاض?