Nafs e Islam
Nearby shops
Qurban Road
المملكة العربية السعودية
King Abdullah Branch Road
Medina 42391
Al 'Asibat
Ring Road
المملكه العربيه السعوديه
شارع سلطانة
حمى النقيع الرانوناء
العام
طريق سلطانة/بئر عثمان2742-الأثير بلازا 2/الدخيل بلازا 2 سابقا
Al Rashid Mega Mall
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Nafs e Islam, Religious Bookstore, Medina.
علماء فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا اپنی امت کے معاملے میں اندیشے کا اظہار کرنا اس وجہ سے تھا کہ کہیں دنیا کی محبت ان کے دل میں نہ بیٹھ جائے، دنیا کی خوبصورتی ان کو اپنی طرف کھینچ نہ لے. مال کی کثرت کہیں انہیں اعمالِ صالحہ سے نہ روک دے اور انہیں علوم نافعہ یعنی قرآن و حدیث اور فقہ کے علم سے غافل نہ کر دے، اور پھر وہ ان اسباب میں مبتلا ہو جائیں جو دین میں بگاڑ کی طرف لے جانے والے ہوں۔ عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ غریبی میں خدا یاد رہتا ہے اور امیری میں بھول جاتا ہے۔ (دلیل الفالحین، مرقاۃ المفاتیح و مرآۃ المناجیح)
تقویٰ کا ادنی درجہ کفر و بدعقیدگی سے بچنا ہے، درمیانی درجہ گناہوں سے بچنا اور اعلیٰ درجہ غافل کرنے والی چیزوں سے بچنا ہے۔ یوں ہی خوش خلقی کا ادنی درجہ یہ ہے کہ کسی کو جانی و مالی نقصان نہ پہنچائے اور کسی کی بے عزتی نہ کرے اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ برائی کا بدلہ بھلائی سے کرے، یہ بہت اعلیٰ صفت ہے۔ الله کریم نصیب فرمائے!
صوفیا فرماتے ہیں نیک بختی کی نشانی یہ ہے کہ بندے پر زندگی میں خوف خدا غالب ہو اور مرتے وقت امید۔ نیکو کار نیکیاں قبول ہونے کی امید رکھیں اور بدکار معافی کی۔ امید کی حقیقت یہ ہے کہ انسان نیکیاں کرے اور اس کے فضل کا امیدوار رہے، بدکاری کے ساتھ امید رکھنا دھوکا ہے امید نہیں۔ اس حدیث کی بنا پر بعض بزرگوں نے کہا کہ خوف کی عبادت سے امید کی عبادت بہتر ہے۔
یعنی گزشتہ امتوں کی آزمائشیں مختلف چیزوں سے ہوئیں، میری امت کی سخت آزمائش مال سے ہوگی۔ رب تعالیٰ مال دے کر آزمائے گا کہ یہ لوگ اب میرے رہتے ہیں یا نہیں! اکثر لوگ اس امتحان میں ناکام ہوں گے کہ مال پا کر غافل ہو جائیں گے۔ اس کا تجربہ برابر ہو رہا ہے، اکثر قتل و غارت، غفلت اور مال کی وجہ سے ہوتا ہے اور تقریباً ستر فیصد گناہ مال کی بنا پر ہوتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح، جلد ۷، صفحہ ۹۲)
یعنی اللہ پاک کی عبادت میں خوب حرص کرو اور اس پر انعام کا لالچ رکھو مگر اس عبادت میں بھی اپنی کوشش پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ کریم سے مدد مانگو۔ خیال رہے کہ دنیاوی چیزوں میں قناعت اور صبر اچھا ہے مگر آخرت کی چیزوں میں حرص اور بے صبری اعلی ہے، دین کے کسی درجہ پر پہنچ کر قناعت نہ کر لو بلکہ آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔
یہ بھی فقط سمجھانے کے لیے ہے ورنہ فانی اور متناہی کو باقی غیر فانی غیر متناہی سے وجہ نسبت بھی نہیں جو بھیگی انگلی کی تری کو سمندر سے ہے۔ خیال رہے کہ دنیا وہ ہے جو اللہ سے غافل کر دے۔ عاقل عارف کی دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے اس کی دنیا بہت ہی عظیم ہے۔ غافل کی نماز بھی دنیا ہے جو وہ نام نمود کے لیے کرتا ہے۔ عاقل کا کھانا پینا سونا جاگنا بلکہ جینا مرنا بھی دین ہے کہ حضور ﷺ کی سنت ہے۔ مسلمان اس لیے کھائے پیے سوئے جاگے کہ یہ حضور ﷺ کی سنتیں ہیں۔ حیاۃ الدنیا اور چیز ہے، حیوۃ فی الدنیا اور، حیاۃ للدنیا کچھ اور یعنی دنیا کی زندگی، دنیا میں زندگی، دنیا کے لیے زندگی، جو زندگی دنیا میں ہو مگر آخرت کے لیے ہو دنیا کے لیے نہ ہو وہ مبارک ہے۔ کشتی دریا میں رہے تو نجات ہے اور اگر دریا کشتی میں آجائے تو ہلاکت ہے۔ (مرآۃ المناجیح، جلد ۷، صفحہ ۳)
اس طرح کہ دل سے شہادت کی آرزو کرے، زبان سے دعا کرے، بقدر طاقت جہاد کی تیاری کرے، اور ہمیشہ موقع کی تاک میں رہے۔ شہادت کا مرتبہ اس طرح عطا ہوگا کہ یہ حکمی شہید ہوگا، جو جنت میں شہداء کے ساتھ رہے گا۔ رب تعالی کی عطا ہمارے وہم و گمان سے وراء ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ایمان و عافیت کے ساتھ گنبد خضرا کے سائے میں شہادت کی موت، جنت البقیع میں مدفن اور جنت الفردوس میں نبی کریم ﷺ کا پڑوس نصیب فرمائے۔
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ ﷺ نے حضرت سیدنا براء بن مالک رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے براء! آدمی جب اپنے بھائی کی اللہ کے لیے مہمانی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے ہیں اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی لذیذ غذائیں جنتِ خُلد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔ (كنزالعمال، كتاب الضيافة، الجزء التاسع، جلد ۵، صفحہ ۱۱۹، حديث ۲۵۹۷۲)
حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے. بلاشبہ، نورِ ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی. آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے. (مسند ابی یعلیٰ، جلد ٦، صفحہ ٢٩١، حدیث ٧٤٦٣)
وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مرد و عورت میں بے پردگی ہوتی ہو)، مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پِدر آزادی جدت و ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ ان میں نورِ ایمان کتنا کم ہو گیا ہے؟ والعیاذ باللہ تعالی!
اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ معمولی سالن بھی پڑوسیوں کو بھیجتے رہنا چاہئیے کیونکہ سرکار ﷺ نے یہاں شوربہ فرمایا گوشت کا ہو یا کسی اور چیز کا۔ دوسرے یہ کہ ہر پڑوسی کو ہدیہ دینا چاہئیے، قریب ہو یا دور اگرچہ قریب کا حق زیادہ ہے۔ تیسرے یہ کہ ہمیشہ لذت پر الفت اور محبت کو ترجیح دینا چاہئیے کیونکہ شوربے میں فقط پانی بڑھانے سے مزہ تو کم ہو جائے گا لیکن اس کے ذریعے پڑوسیوں سے تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ اسی لیے فرمایا کہ صرف پانی ہی بڑھا دو اگرچہ گھی، مصالحہ یا کچھ اور نہ بڑھا سکو۔ (مرآۃ المناجیح، زکوٰۃ کا بیان، باب: بہترین صدقہ، حدیث ۱۹۳۷)
الله تعالی کی راہ میں سفر کی بہت صورتیں ہیں۔ جیسے: جہاد کے لیے جانا، نماز کے لیے مسجد میں جانا، طلب علم دین کے لیے مدرسہ یا استاذ کے پاس جانا، تبلیغ و تدریس دین کے لیے جانا، اپنے مسلمان بھائی کی مدد و خیر خواہی کے لیے سفر کرنا وغیرہ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا، ”جس شخص کے پاؤں راہ خدا میں خاک آلود ہوں، انہیں جہنم کی آگ نہ چھوئے گی۔“ (صحیح البخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب من اغبرت قدماہ…الخ، حدیث ۲۸۱۱)
مصیبتیں الله کے حکم سے بہت سی پوشیدہ حکمتوں اور وجوہات کے پیشِ نظر آتی ہیں۔ کبھی اس سے لوگوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ صبر کرتے ہیں یا بے صبری؟ کبھی اس سے نیک بندوں کے مراتب و درجات کی بلندی ہوتی ہے؛ کبھی گناہوں کا کفارہ تو کبھی گناہوں کی سزا۔ ایک اور حدیث شریف میں فرمایا: جتنی آزمائش کڑی ہوگی اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوگا۔ (جامع الترمذی، حدیث ۲۳۹٦)
یقیناً زبان الله پاک کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جو شخص اس نعمت کا اچھا استعمال کرتا ہے تو اس سے دنیا میں بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی برکتیں دیکھے گا۔ لیکن جو اپنی زبان کو کھلی آزادی دے کراس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے تو وہ دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا منہ دیکھتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ یہ دعا نہایت جلد قبول ہوتی ہے۔ فرشتے کہتے ہیں، ”اس کے حق میں تیری دعا قبول ہو اور تجھے بھی اسی طرح کی نعمت ملے۔‘‘ ایک اور حدیث پاک میں مروی ہے کہ یہ دعا حاجی و غازی و مریض و مظلوم کی دعاؤں سے بھی زیادہ جلد قبول ہوتی ہے۔ بلکہ ایک اور جگہ ارشاد ہوا کہ اس سے زیادہ جلد قبول ہونے والی کوئی دعا نہیں۔ اور ایک حدیث شریف میں آیا کہ یہ دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم!
یعنی جنت کی تھوڑی سی اور معمولی جگہ بھی دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہے۔ واقعی جنت کی نعمتیں دائمی ہیں اور دنیا کی فانی؛ دنیا کی نعمتیں تکالیف سے مخلوط ہیں اور جنت کی نعمتیں خالص؛ دنیا کی نعمتیں ادنیٰ ہیں اور جنت کی نعمتیں اعلیٰ؛ اسی لیے دنیا کو جنت کی ادنیٰ سی جگہ سے بھی کوئی نسبت ہی نہیں۔ الله کریم ﷻ ہم سب کو جنت الفردوس میں پیارے آقا کریم ﷺ کا پڑوس نصیب فرمائے۔ آمین!
جس نے طِب کے اُصول و ضوابط نہ پڑھے ہوں اور وہ لوگوں کے سامنے خود کو طبیب ظاہر کر کے علاج کرے اور اُس کے علاج سے کوئی مر جائے یا مریض کو کسی قسم کا نقصان پہنچے تو وہ جعلی طبیب دیت (یعنی وہ مال جو جان کے بدلے میں لازم ہوتا ہے) کا ضامن ہے۔ غور کیجیے! اگر جعلی طبیبوں کا یہ معاملہ ہے جو لوگوں کی جان سے کھیلتے ہیں تو جعلی عالم، خود ساختہ مذہی سکالرز اور ڈھونگی فاسق و فاجر جاہل پیروں فقیروں کے لیے کتنا سخت حکم ہوگا جو اپنی جہالت کی وجہ سے لوگوں کے دین و ایمان سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ والعیاذ بالله تعالی!
یہ حدیث تمام مجتہدینِ کرام کو شامل ہے کہ مجتہد سے اگر غلطی بھی ہو جائے تب بھی اجتہاد کی محنت کا ثواب ہے۔ لہذا چاروں مذہب یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بر حق ہیں کہ اگرچہ ان میں سے درست و صحیح تو ایک ہی ہے، مگر گناہ کسی میں نہیں بلکہ جن آئمہ مجتہدین سے خطا ہوئی ایک ثواب انہیں بھی ہے۔ نیز مولا علی و امیر معاویہ (رضی الله عنہما) میں گنہگار کوئی نہیں، حق پر مولا علی ہیں اور امیر معاویہ سے اجتہادی خطا ہوئی، گنہگار وہ بھی نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ حکم مجتہد عالم کے لیے ہے، اگر خود عالم و فقیہ نہ ہو تو فقہاء کے علم سے استفادہ کرنے والا، ان کا مقلد اور متبع ہو۔ غیر مجتہد یا غیر عالم اگر غلط مسئلہ بتائے گا تو گنہگار ہوگا، بلکہ غیر عالم کو فتویٰ دینا ہی جائز نہیں۔ اور مسئلہ بھی فروعی اجتہادی ہو کہ اصولِ شریعت میں غلطی معاف نہیں ہوتی۔
مدعی (دعوی کرنے والے) کے ذمہ گواہی اور مدعیٰ علیہ (جس پر دعوی کیا گیا) پر قسم ہونا عظیم الشان قاعدہ ہے اور یہ حدیث معنیً متواتر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر مدعی کے پاس گواہی موجود نہ ہو اور مدعیٰ علیہ اس کے دعویٰ کا اقراری نہ ہو بلکہ انکاری ہو اور مدعی اس سے قسم کا مطالبہ کرے تو قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ یہ تینوں شرطیں خیال میں رہنی چاہئیں۔
نوٹ: اس قانون سے حدود یعنی شرعی مقررہ سزائیں اور لعان وغیرہ علیٰحدہ ہیں کہ ان میں گواہی و قسم اس طرح نہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے معتمد علماء اور کتب فقہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
اس فرمانِ عبرت نشان سے معلوم ہو رہا ہے کہ ذی روح جاندار کے چہرے کی تصویریں یا مجسمے بنانے والے، بنوانے والے اور ان کو شوقیہ رکھنے والے سب ہی اس مذکورہ سزا کے مستحق ہیں۔ یاد رہے کہ محتاط، معتمد و مستند علمائے کِبار کے نزدیک تصویر کھینچنا یا ویڈیو بنانا سخت حرام ہے اور تصویر کھنچوانا، بنوانا، اسے محفوظ کرنا اور اسے حرمت سے رکھنا اس لیے حرام ہے کہ یہ گناہ پر مدد ہے۔ اللہ کریم ہمیں اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
یہاں وہ بخیل مالدار مخاطب ہیں جو مال کا واجبی صدقہ نہ دیں۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے خطاب نہیں کہ وہ لوگ بلاشبہ حضور قاسمِ نعمت ﷺ کی صحبتِ پاک کی برکت سے اعلیٰ درجہ کے مُتّقی اور اوّل درجے کے سخی تھے۔ اچھی بات سے مراد یا تو کلمۂ شہادت ہے یا ذکرِ خُدا و رسول ہے یا فقیر سے اچھی بات کہہ دینا، معذرت کر دینا، یا آئندہ کے لیے وعدہ کر لینا کہ ابھی کچھ نہیں، جب کچھ ہوگا تب إن شآء اللّٰه تم کو دیں گے۔ اسی کو قرآن مجید نے قولِ معروف فرمایا ہے۔
ہمارے آقا و مولا پیارے مصطفیٰ کریم ﷺ حضرات حسنین کریمین (رضي الله عنهما) سے بے پناہ محبت فرمایا کرتے تھے. کبھی اپنے مبارک کندھوں پر بٹھا لیا کرتے تو کبھی پیٹھ پر، کبھی ان کی خاطر سجدہ طویل فرماتے تو کبھی انہیں سینے سے لگاتے، پیشانی کو چومتے اور انہیں پھولوں کی طرح سونگھا کرتے۔ اس میں ہمارے لیے یہ درس بھی موجود ہے کہ ہم بھی ان دونوں شہزادوں سے خوب خوب محبت کریں، ان کے دشمنوں سے نفرت و دوری اختیار کریں؛ اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔
یہ حدیث مبارکہ عاشوراء کے دن اہل و عیال کے نفقہ میں وسعت و کشادگی کرنے اور ان پر فراخ دلی سے خرچ کرنے کی فضیلت میں ہے۔ یعنی اگر کوئی محرم کی دسویں تاریخ کو اپنے بال بچوں، خادموں، فقراء، مساکین کے لیے مختلف قسم کے کھانے تیار کرے یا ان کا انتظام کرے تو ان شاء الله سال بھر تک ان کھانوں میں برکت ہوگی۔ علامہ ابن عابدین شامی حنفی نے رد المحتار میں حضرت جابر کی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے چالیس سال اس کا تجربہ کیا اور کبھی اس کے خلاف نہیں پایا۔ اسی طرح حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ہمارے اور ہمارے ساتھیوں کے تجربہ میں آئی ہے اور واقعی اس عمل سے برکت ہوتی ہے۔ وما توفيقي الا بالله!
کیا آپ جانتے ہیں؟ جنت میں کوئی بھی بوڑھا نہیں ہوگا بلکہ سب بوڑھے اور بچے جنت میں ٣٠ سال کے جوان ہوں گے اور حضرات حسنین طیبین کریمین (رضي الله عنهما) جوانی میں فوت ہونے والے اہلِ جنت کے سردار ہیں۔ لہذا اس سے یہ لازم نہیں کہ حضرات سبطين کریمین (رضي الله عنهما) حضور ﷺ یا دوسرے انبیاء کرام (عليهم السلام) یا خلفائے اربعہ (رضي الله عنهم) کے بھی سردار ہوں۔
سبحان الله! معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا مولا علی المرتضی مشکل کشا شیر خدا (کرم الله وجہہ الکریم) ایمان کی کسوٹی ہیں۔ جو اپنے ایمان کی تحقیق کرنا چاہے کہ میں مؤمن ہوں یا منافق وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں غور کرے کہ مجھے ان سرکار سے کتنی محبت ہے۔ خیال رہے کہ جو لوگ محض محبتِ علی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر پھر اولادِ علی و حضرات صحابۂ کرام، جو حضرت سیدنا علی المرتضی کے دوست ہیں، ان کی شان میں گستاخیاں بھی کرتے ہیں، وہ محبان علی ہرگز نہیں بلکہ دشمنان علی ہیں۔ والعیاذ بالله تعالی!
زرقانی و مدارج النبوۃ میں ہے کہ خاتونِ جنت حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی الله تعالی عنہا اعلانِ نبوت سے پانچ سال قبل مکۂ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ وصال ۳ رمضان ۱۱ھ کو مدینۂ منورہ میں ہوا اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔ آپ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی لاڈلی بیٹی، حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم کی زوجۂ محترمہ، امام حسن و امام حسین رضی الله عنہما کی والدۂ مشفقہ اور جنت میں تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ ایک اور روایت میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنتی عورتوں کی سردار چار عورتیں ہیں: (1) مریم (2) فاطمہ (3) خدیجہ اور (4) آسیہ (رضی الله تعالی عنہن)۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جو شخص اولاد عبد المطلب میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اس کا صلہ دنیا میں نہ پائے تو میں بہ نفس نفیس روز قیامت اس کا صلہ عطا فرماؤں گا۔ (تاریخ بغداد)
ایک اور روایت میں فرمایا: جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو الله تعالی اسے اپنی دی ہوئی نعمت سے بہتر مند کرے تو اسے لازم ہے کہ میرے بعد میرے اہل بیت سے اچھا سلوک کرے۔ جو ایسا نہ کرے اس کی عمر کی برکت اُڑ جائے اور قیامت میں میرے سامنے کالا منہ لے کر آئے۔ (کنز العمال)
حضور نبی کریم علیه افضل الصلاۃ واکمل التسلیم کے ارشاد مبارک کا معنی یہ ہے کہ میں تمہیں اپنے اہل بیت یعنی آل و ازواج کے ادب و احترام، ان کی تعظیم اور ان سے محبت و مؤدت کے معاملے میں الله کے حق سے آگاہ کرتا ہوں اور ان کی شان کے حوالے سے تمہیں الله سے ڈراتا ہوں کہ تم انہیں اپنے افعال و اقوال سے تکلیف نہ دو بلکہ ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے رہو۔ ان کی نافرمانی و بے ادبی بھول کر بھی ہرگز ہرگز نہ کرنا ورنہ دین کھو بیٹھو گے۔ والعیاذ بالله تعالی!
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ کی خصوصیات میں سے ایک بہت بڑی خصوصیت اور عظیم فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ وہ واحد خلیفہ ہیں جن کے بارے میں رسول الله ﷺ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے۔ آپ کے علاوہ کسی خلیفہ کے لیے یہ فرمان جاری نہ ہوا۔ اعلی حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ اس حدیث مبارکہ کو ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:
”یعنی آپ کی فطرت اتنی کاملہ تھی کہ اگر دروازۂ نبوت بند نہ ہوتا تو محض فضلِ الہٰی سے وہ نبی ہو سکتے تھے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے نبوت کا کوئی مستحق نہیں۔“
ایک اور موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آسمان میں کوئی ایسا فرشتہ نہیں جو عمر کی عزت نہ کرتا ہو اور زمین میں کوئی ایسا شیطان نہیں جو عمر سے گھبراتا نہ ہو۔ (کنزالعمال)
ایک اور مقام پر فرمایا: عمر کے اسلام لانے کے بعد شیطان جب بھی عمر سے ملا تو وہ منہ کے بل ہی گِرا ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
حضرت مولی علی مشکل کشا شیر خدا کرم الله وجہہ الکریم ارشاد فرماتے ہیں: ہم تمام صحابہ رضی الله عنہم کا یہی ماننا ہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ کے ساتھ جو شیطان ہے وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ آپ کو کسی غلط کام کا حکم دے۔ (کنز العمال)
خلیفۂ ثانی، امیر المؤمنین، امام العادلین، حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی الله عنہ کی ذاتِ گرامی کو الله کریم نے قدرتی رعب و دبدبہ سے نوازا تھا۔ آپ رضی الله عنہ کے دل پر پاک پروردگار کی عظمت غالب رہتی تھی جس کی وجہ سے جن و انس کے شیاطین آپ کے خوف سے دور بھاگتے تھے، کفار تھرتھراتے اور لوگ مرعوب رہتے تھے۔
واقعی قرآن کریم کی عظمت و رفعت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کا پڑھنا عبادت، اس کا سننا عبادت، اس کو چھونا عبادت حتی کہ اسے دیکھنا بھی عبادت ہے۔ قرآن کریم بروز قیامت اپنے پڑھنے والے گنہگاروں کی مغفرت کی سفارش کرے گا اور صالحین کی بلندی درجات کی۔ ہمیں بھی قرآن مجید کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے درست مخارج کے ساتھ صبح و شام جس قدر ممکن ہو سکے، تلاوتِ قرآن پاک کا معمول بنانا چاہیے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرنی چاہیے۔ الله کریم ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ!
ظاہری جسم اور لباس کی صفائی ستھرائی اپنی جگہ لیکن دل کی پاکیزگی کی اپنی اہمیت ہے۔ ہم اپنے ظاہری چہروں کا تو خیال رکھتے ہیں، انہیں دھوتے ہیں، میل کچیل سے ستھرا رکھتے ہیں تاکہ مخلوق ہمارے چہروں کے کسی عیب پر مطلع نہ ہو مگر دل کا خیال نہیں رکھتے جو دراصل رب العلمین کی نظر کا مقام ہے! چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے دلوں کو پاکیزہ رکھتے، انہیں آراستہ کرتے تاکہ رب العلمین کو اس میں کوئی عیب نہ دکھائی دے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ دل تو گندگی، پلیدی اور غلاظت سے لبریز ہیں مگر جس پر مخلوق کی نظر پڑتی ہے اس کے لیے کوشش ہوتی ہے کہ اس میں کوئی عیب و قباحت نہ پائی جائے!
عمل کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (۱) جان بوجھ کر، (۲) غلطی سے، اور (۳) بھول کر۔ جس نے جان بوجھ کر گناہ کیا اور سچے دل سے توبہ کر لی تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ اور اگر توبہ نہ کی تو الله تعالی کی مرضی ہے چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو سزا دے۔ واضح رہے کہ شرک اور کفر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا۔ البتہ غلطی، بھول اور کسی کی طرف سے زبردستی کی صورت میں انسان مجبور ہوتا ہے۔ لہذا ان صورتوں میں گنہگار نہ ہوگا، البتہ دنیا میں شرعی احکام کا نفاذ بعض اوقات اسی کے مطابق ہوتا ہے اور بعض اوقات احکام مختلف ہوتے ہیں جن کی تفصیل کے لیے علماء و کتب فقہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ نے بارہ سال خلافت پر فائز رہ کر ۱۸ ذوالحجة الحرام سن ۳۵ ہجری میں بروزِ جمعہ روزے کی حالت میں تقریباً ٨٢ سال کی طویل عمر پا کر نہایت مظلومیت کے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت کے بعد حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله تعالی عنہما نے رحمتِ عالم ﷺ کو خواب میں فرماتے ہوئے سنا: ”بیشک! عثمان کو جنت میں عالیشان دولہا بنایا گیا ہے۔“ (الریاض النضرۃ، جلد ۲، صفحہ ٦٧)
یاد رہے! ہر بالغ، مقیم، مسلمان مرد و عورت، مالکِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ جو لوگ قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود اپنی واجب قربانی ادا نہیں کرتے، ان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اول یہی خسارہ کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے سے اتنے بڑے ثواب سے محروم ہو گئے۔ مزید یہ کہ وہ گناہ گار اور جہنم کے حقدار بھی ہوئے۔ والعیاذ بالله تعالى!
سبحان الله! عیدِ قربان پر الله پاک قربانی کا فریضہ سر انجام دینے والے خوش نصیبوں کو ان کے جانوروں کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی عطا فرماتا ہے. قربانی کرنے والوں کو دوزخ کی آگ سے نجات ملتی ہے. جانور کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے پہلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں. قیامت کے دن قربانی نیکیوں کے پلڑے میں رکھی جائے گی تو وہ بھاری ہو جائے گا. قربانی کرنے والا مسلمان اپنے جانور پر سوار ہو کر پل صراط سے بآسانی گزر جائے گا. اور اس جانور کا ہر عضو قربانی پیش کرنے والے مسلمان کے ہر عضو کے لیے دوزخ سے آزادی کا فدیہ بنے گا.
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ سال بھر کے تمام دنوں سے زیادہ نویں ذی الحجہ کو گنہگار بخشے جاتے ہیں۔ عبد کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن عام مسلمانوں کی بخشش ہوتی ہے چاہے وہ حاجی ہوں یا غیر حاجی۔ ایک اور روایت کے مطابق یوم عرفہ سے زیادہ کسی دن میں شیطان کو زیادہ صغیر و ذلیل و حقیر اور سخت غصے میں بھرا ہوا نہیں دیکھا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں رحمت کا نزول اور الله تعالی کا اپنے بندوں کے بڑے بڑے گناہ معاف فرمانا شیطان دیکھتا ہے۔
سَیِّدہ عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم نور مجسم ﷺ یوم عرفہ کے روزے کو ہزار روزوں کے برابر بتاتے تھے مگر حج کرنے والوں کو جو میدان عرفات میں ہوں ان کو اس روزہ سے منع فرمایا۔ چنانچہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ غیر حاجی کے لیے سنت ہے اور حاجی کے لیے سنت نہیں بلکہ ایسے کمزور کو جو روزہ رکھ کر ارکان حج ادا نہ کر سکے مکروہ ہے۔
نوٹ: جن کے ذمہ فرض روزے قضاء ہوں انہیں چاہیے کہ ادائے قضاء کی نیت سے روزہ رکھیں۔ اِن شَآءَ اللّٰه یومِ عرفہ کے روزے کی برکات بھی حاصل ہوں گی۔
یعنی خوش الحانی، بہترین لہجے اور غمگین آواز سے تلاوت کرو اور ہر حرف کو اس کے مخرج سے صحیح ادا کرو۔ مگر گا کر تلاوت کرنا جس سے مد و شد میں فرق آ جائے حرام ہے۔ ایک بار حضرت عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کسی مجلس پر گزرے جہاں ایک گوَیّا بہت اچھی آواز سے گا رہا تھا آپ نے فرمایا کاش یہ آواز قرآن شریف پر استعمال ہوتی۔ یہ خبر گوَیّے کو پہنچی، اس نے سچی توبہ کی اور حضرت ابن مسعود کے ساتھ رہنے لگا حتی کہ قرآن کریم کا عالم و قاری ہو گیا۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Website
Address
Medina
Medinah
Medina, 42224
Allah (God) is sufficient for me. There is none worthy of worship but Him. Mu'awiyah (رضي الله عنه) reported: Rasulallah(ﷺ) said, "When Allah wishes good for someone, He bestows ...
Medina
Hafâza melekleri şahit olsun sırrınıza… Bu AŞK’ın meali ALİ ise , tefsiri sen'sin ya FA