Zainab Ali Utmankhel
Journalism
Dull voices started coming, but despite my efforts, my eyes wouldn't open. I felt a thirst so intense that my throat felt parched, and even breathing was a struggle. No one seemed to hear me speak, and then, a nurse arrived with an oxygen mask. I asked for water, both in Urdu and Pashto, but no sound escaped my throat.
Under the influence of medication, a thought crossed my mind that maybe if I spoke in English, they would understand me. So, I mustered all my courage and said, "Take off my oxygen mask, I cannot breathe in it."
I thought maybe they still couldn't hear me, but the male nurse said in Pashto to the female nurse, "She's speaking English again." Hearing this, I was relieved that they could hear me. The nurse asked, "Zainab, are you okay?" I quickly responded, "Water," and they brought me a glass of water. They told me to take only a sip, and when I did, I realized a tube was in my throat.
As the effects of anesthesia started to wear off, I remembered what the doctor had said before surgery, that if cancer had spread too far, they might cut my abdomen from one side only and not two sides.
I realized that I had only one cut. Thoughts swirled in my mind. "Am I dying? How far has the cancer spread?" Despite the haze of medication, I whispered to myself, "Be brave, Zainab, I'm dying. Everyone dies."
As I lay on a stretcher, they began to transfer me to another stretcher. I thought I might stand up and move to the other stretcher, but I realized that I couldn't. This was my first-ever surgery, and I had no idea. Before this, I had never been admitted to a hospital. I was always afraid of hospitals, doctors, and nurses. And now, I found myself in Shaukat Khanum Hospital, wondering if I would survive.
I told the nurses that my home was far from Peshawar, and I couldn't go home as Islamabad was far away from Peshawar. They all smiled and reassured me that they weren't sending me home but to the ward. Those two days in the ward, I will never forget. The care and concern the nurses and doctors showed me made me feel that my survival was of utmost importance to them.
Dr. Irfan ul Islam, the surgeon, came to see me and asked how I was feeling. I replied, "I cannot smile or laugh as it hurts because of the surgery." He said, "Try to laugh less today." Everyone laughed at his response. Before I could ask about the spread of my cancer, he said that the cancer had not spread. I immediately asked him why there was only one cut. He explained that they had to insert a camera for surgery and there were two cuts. A glimmer of hope filled my heart.
In those two days, I couldn't eat or drink, walk, or even sit up by myself. I felt like a helpless child. On the night of August 16, I had my surgery. On August 19, I was discharged from the hospital. On August 21, I had another appointment with the doctor. After being discharged, I was not in a condition to move around without assistance, so I decided to stay in Peshawar. I found it suitable to live there. I spent time from August 19 to August 25 in a hostel near Shaukat Khanum Hospital, during which I also had one of my chemotherapy sessions.
The few days I spent in Peshawar were life-changing. They taught me so much. I had never seen Peshawar before my cancer diagnosis. The first time I went to Peshawar, it was with a cancer-stricken body. On the night of my first chemo on August 24, I took a taxi to the hostel even though it was nearby. My condition was deteriorating. When I reached the hostel and tried to wash my hands, it felt like someone had pierced my hands and face with sharp pins. I quickly moved my hands away from the cold water.
My sister, who was with me at the hostel, told me to keep my hands away from cold water. The nurses had forbidden me from eating anything two hours before and after chemo. I waited for two hours, and when I took a sip of water, it felt like I was swallowing a hot coal. Despite the thirst, I couldn't drink water. My sister brought food from the canteen of RMI near Shaukat Khanum, but I had no appetite.
I felt as if my heart was going to burst. The next day, when I boarded the bus from Peshawar to Islamabad, only God knows how those three hours of travel felt. My younger sister took care of me like a child. When I reached Faizabad, it was the same Faizabad where I used to come for reporting for Geo News and Dawn News, but on that day, even Faizabad felt like a place of torment.
Today, on the 23rd of October, I am sitting in my office, writing all of this. My three chemotherapies have been completed, and now I await my next chemotherapy on the 26th of October with extreme fear but I must get through all of this. I have resumed going to the office, and I'm still taking my medications. Perhaps I am accepting everything and moving forward with life. I spend normal days as I did before. I still wait for my salary every month just like before. I still go out with my siblings, and I still attend university.
As humans, we are as brave as we are vulnerable. I have learned to live with challenges, and I have upheld the dignity of my name ‘’Zainab’’. I will never die before death.
رد گرد سے مدہم سی آوزیں آنے لگیں، لیکن کوشش کے باوجود میری آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں، پیاس ایسی لگی تھی کہ گلہ سوکھ گیا تھا، سانس لیتے ہویے مشکل ہو رہی تھی، میرے بولنے کے باوجود کوئی مجھے سن نہیں پا رہا تھا، میرے پاس ایک نرس آیا جو مجھے آکسیجن ماسک لگا رہا تھا، میں اردو میں پانی اور پشتو میں "اوبا" کی صدا لگا چکی تھی لیکن میرے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی، ادویات کے نشے کے زیر اثر میرے زہن میں خیال آیا کہ شاید میں انگریزی میں بات کرونگی تو ان کو سمجھ آئے گی لہذا میں نے پوری ہمت سے نرس کو کہا ۔۔ ´
Take off my oxygen mask, I cannot breathe in it.
مجھے لگا شاید اب بھی کوئی مجھے نہیں سن پایا، لیکن اس میل نرس نے ساتھ بیھٹی فی میل نرس کو پشتو میں کہا کہ یہ تو پھر انگریزی بول رہی ہے ،یہ سن کر میں خوش ہوئی کہ یہ لوگ مجھے سن پا ریے ہیں، نرس نے آکر کہا ۔۔زینب تم ٹھیک ہو نا اور میں نے جلدی سے کہا ۔پانی۔۔۔۔پانی لایا گیا اور مجھے کہا کہ صرف ایک گھونٹ پینا ہے۔۔۔۔ایک گھونٹ پانی حلق سے اتارا تو محسوس ہوا کہ گلے میں تو پائپ لگی ہے۔۔نشے کا اثر جیسے اترنے لگا مجھے احساس ہوا کہ سرجری سے پہلے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر کینسر پھیلا ہوا ہوگا تو ایک ہی طرف کٹ لگا کر واپس سب بند کر دینگے ورنہ دو کٹ لگے گے، یہ یاد آتے ہی میں نے اپنا کمزرہاتھ اٹھایا اور معلوم کرنے لگی کہ کیا مجھے ایک کٹ لگا یے یا دو۔۔۔۔۔
مجھے احساس ہوا کہ کٹ ایک ہے،،اس کا ملطلب کینسر پھیلا ہوا ہے۔۔۔زہن میں خیالات آنے لگے ۔۔۔۔۔۔کیا میں مرنے لگی ہوں۔۔۔۔کینسر کہاں تک پھیلا ہوگا،،،،،،پھر خود سے کہا زینب بہادر رہو،،،،میں مرنے لگی ہوں۔۔سب مرتے ہیں ۔۔نشے کا اثر پھر ہونے لگا مجھ پر اور میں خود سے کہنے لگی کہ اب تو تم مرنے لگی ہو، کیا امی ابو کے احسانوں کا بدلا دیے بغیر میں دنیا سے چلی جاونگی۔۔۔کیا میں اپنے بہن بھائیوں کو بڑا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکونگی؟
ایک سٹریچر سے مجھے دوسرے سٹریچر پر تبدیل کرنے لگے تو مجھے لگا کہ میں خود اٹھ کر دوسرے سٹریچر پر شفٹ ہو جاونگی پر احساس ہوا کہ میں تو نہیں اٹھ سکتی۔۔یہ زندگی میں پہلی بار میری کوئی سرجری ہوئی تھی اس لیے مجھے اندازہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے میں کبھی ہسپتال میں ایڈمٹ نہیں ہوئی تھی۔ میں جب بھی بیمار ہوتی تو خود ٹھیک ہو جاتی تھی لیکن ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتی تھی۔ مجھے ہسپتال، ڈاکٹرز، نرسس ان سے خوف آتا تھا۔ اور اب میں شوکت خانم میں سٹریچر پر پڑی سوچ رہی تھی کہ کیا میں زندہ رہ پاونگی۔
میں نرسس سے کہنے لگی کی میرا گھر بہت دور ہے پشاور سے ،،مجھے ہسپتال سے ڈسچارج مت کرنا، میں اس حال میں اسلام اباد نہیں جا سکتی،،،وہ سب مسکرانے لگے کہ اپکو گھر نہیں وارڈ بھیج رہے ہیں۔۔۔۔۔
وارڈ میں گزارے وہ دو دن میں کبھی نہیں بھول پاونگی۔ نرسس اور ڈٓاکٹرز نے جس طرح خیال رکھا مجھے لگا جیسے میرا زندہ رہنا بہت ضرروی یے۔۔۔میرا بہترین خیال رکھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عرفان السلام وارڈ میں آئے اور کہا کیسی طبیعت ہے لڑکی۔۔۔میں نے کہا 'جب ہسنا ہوتا ہے تو درد ہوتا ہے سرجری کی وجہ سے' تو انہوں نے کہا کہ چلو کم ہنسا کرو۔۔یہ سن کر سب ہنسنے لگے۔ میں ان سے پوچھنے ہی لگی تھی کہ کیا میرا کینسر پھیلا ہوا ہے؟ پر میرے پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے کہا کہ کینسر پھیلا نہیں ہوا تو میں نے فوراً پوچھا کہ پھر ایک کٹ کیوں لگا ہے تو انہوں نے کہا کہ کٹ دو ہی ہیں اور اندر کیمرہ ڈال کر آپریشن کیا۔۔۔میرے دل میں زندہ رہنے کی تھوڑی امید پیدا ہوئی.
ان دو دنوں میں، میں نہ کچھ کھا سکتی تھی اور نا پی سکتی تھی، نہ چل سکتی تھی اور نہ خود بیٹھ سکتی تھی۔۔۔اس دن مجھے انسان کی بے بسی کا احساس ہوا۔۔۔سترہ اگست کو میری سرجری ہوئی۔ انیس اگست کی شام کو میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے۔ اکیس اگست کو دوبار ہ ڈاکٹر کے ساتھ اپوییمنٹ تھی اور ڈسچارج ہونے کے بعد میں سہارے کے بغیر چلنے پھرنے کی حالت میں نہیں تھی اس لئے میں نے پشاور میں رہنا مناسب سمجھا۔ شوکت خانم ہسپتال کے قریب ایک ہوسٹل میں انیس اگست سے لے کر پچس اگست تک ٹائم گزارا جس کے درمیان میری ایک کیمو بھی ہوگئ۔
میں نے کبھی زندگی میں ہوسٹل میں وقت نہیں گزارا۔ اور ان چند دنوں نے مجھے بہت کچھ سیکھا دیا۔ ایک مکمل انجان شہر میں گھر سے اتنے دن دور رہی۔ یہاں بتاتی چلوں کہ کیسنر سے پہلے میں نے کبھی پشاور نہیں دیکھا تھا۔ پہلی بار میں پشاور گئی تو کینسر زدہ جسم کے ساتھ شوکت خانم گئی ۔ پہلی کیمو چوبیس اگست کو تھی، رات گیارہ بجے کیمو ختم ہوئی تو ہاسٹل قریب ہونے کے باوجود میں ٹیکسی میں گئی ۔ میری حالت خراب ہورہی تھی۔ ہاسٹل میں آکر منہ ہاتھ دھونے لگی تو لگا جیسے کسی نے میرے منہ ہاتھوں میں ایک دم سوئیاں چھبا دی ہو، میں جلدی پانی سے دور ہٹی، ہاسٹل میں میرے ساتھ میری چھوٹی بہن تھی جو ہر مشکل میں میرے ساتھ ہوتی ہے۔ اس نے مجھے ٹھنڈے پانی سے دور رہنے کو کہا۔ نرسس نے مجھے کیمو سے دو گھنٹے پہلے اور کیمو کے دو گھنٹے بعد کچھ کھانے پینے سے منع کیا تھا۔ میں نے دو گھنٹے انتطار کرنے کے بعد جب پانی کا ایک گھونٹ حلق میں اتارا تو محسوس ہوا جیسے میں آگ کے گولے پی رہی ہورہی ہوں۔ پیاس کے باوجود میں پانی نہیں پی سکی۔
میری بہن شوکت خانم کے قریب ار۔ایم۔ائی سے کھانے پینے کی چیزیں لائی لیکن کچھ کھانے کا دل نہیں کر رہا تھا، لگ رہا تھا کہ دل منہ کو آجائے گا۔ اگلے دن پشاور سے اسلام اباد کے لئے جب بس میں بیٹھی تو صرف میرا خدا جانتا ہے کہ وہ تین گھنٹے کا سفر مجھ پر کیسے گزرا۔ میری بہن مجھ سے چھوٹی ہونے کے باوجود کسی بچے کی طرح میرا خیال رکھ رہی تھی۔ جب میں فیض اباد پہنچی تو یہ وہی فیض اباد تھا جہاں جیو نیوز اور ڈان نیوز کی جانب سے رپورٹنگ کے لئے میں آتی تھی لیکن اس دن وہ فیض آباد بھی مجھے کسی عذاب سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔راستے میں سوچ لیا تھا کہ گھر میں خوش رہنا ہے تا کہ امی ابو پریشان نہ ہو،،لیکن گھر آنے کے بعد جب روزانہ مجھے چھ گولیاں کھانی ہوتی تھی اور ایک گولی کے بعد ہی میں الٹایاں شروع کرتی تو سب پریشان ہو جاتے تھے۔
میں کینسر سے پہلے بخار، زکام کسی چیز کی گولی نہیں کھاتی تھی، مجھے گولیوں سے سخت نفرت ہے لیکن اب ایک، دو نہیں پوری چھ گولیاں کھانی پڑتی، میں روتی تھی، ہسنتی تھی پر سمجھ نہیں اتی تھی کہ میں آخر کیا کروں،، گولیاں کھا کر سب کچھ دھندلا نطر اتا، ہاتھ پاوں کھانپتے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی،۔۔۔آج 23 اکتوبر کو افس میں بیٹھ کرمیں یہ سب لکھ رہی ہوں،،، میری تین کیمو ہو چکی ہیں اور ابھی چھبیس اکتوبر کو پھر میری کیمو ہے جس کا سوچ سوچ کر ڈر سے میرا خون خشک ہو رہا ہے لیکن مجھے اس سب سے گزرنا ہوگا۔ میں نے آفس جانا شروع کر دیا یے اور میں اب بھی گولیاں کھاتی ہوں لیکن شائد میں سب کچھ تسلیم کر کر زندگی کے ساتھ اگے بڑھ رہی ہوں، میں پہلے کی طرح نارمل دن گزارتی ہوں۔ میں اب بھی مہینے کی پہلی تاریخ کا انتظار کرتی ہوں کہ تنخواہ کب ملے گی، میں اب بھی بہن بھائیوں کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے جاتی ہوں اور میں اب بھی یونیورسٹی جاتی ہوں
۔انسان جتنا کمزرو ہے اتنا بہادر بھی ہے۔۔۔میں نے مشکلات کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔۔اور میں نے اپنے نام ''زینب" کی لاج بھی رکھ لی ہے۔۔میں موت سے پہلے کبھی نہیں مرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1st chemotherapy 🌚
مجھ میں کینسر کی تشخیص کے بعد-
After diagnosis of cancer in me.
تمام ڈاکٹروں سے ایک عاجزانہ درخواست، ایک ایسے انسان کی جانب سے جس میں ابھی ابھی کینسر کی تشخیص ہوئی ہے۔
A humble request to all Doctors from someone who has recently been diagnosed with cancer.
اختر دی مبارک شا۔
عید مبارک۔
عید مبارکاں۔
ईद मुबारक
Eid Mubarak.
Petal Goat be like: "Chal hatt nikal yaha sy"
#عیدقربان #عیدمبارک #عیدالضحی #عید
پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ورکرز ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوتے ہیں جبکہ انہی پارٹیوں کے لیڈرز کے ایک دوسرے سے گہرے تعلقات ہوتے ہیں اور ذرا سی مشکل آنے پر یہ لوگ ایک دم پارٹی بدل دیتے ہیں۔
The workers of PTI, PML-N and PPP act as if thry are enemies of each other, while the leaders of these parties have close relations with each other and whenever there is a difficult time for the party, these people change the party in a blink of an eye.
Credit : Syed Sheraz Gardezi of Geo News
آپ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کہ آج میرے لیے گرمی سے سڑک پر کھڑے ہونا مشکل ہو رہا تھا۔ ٹریفک پولیس اہلکار سخت گرمی میں انتہائی جرآت سے اپنی نوکری کرتے ہیں۔ اس پر میں ایک رپورٹ بنا رہی تھی اور سڑک پر کھڑے ہو کر جب میں کمیرہ کے سامنے تھی تو مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے پاوں جل رہے ہیں۔ برائے مہربانی اس شدید گرمی کی اپنا ڈھیر سارا خیال رکھیں۔
You can see in the video that today it was difficult for me to stand on the road due to the extremely hot weather. My topic of coverage was how the"Traffic policemen do their job with utmost courage in the scorching heat" and while I was making a report on this and standing on road, in front of the camera, I felt like my feets were on fire. Please take care of yourself in this extreme weather.
"Q" hai? 😄
اگر حکومت کو کھلا میدان ملا ہے تو یہ کارنامہ بھی عمران خان کا اپنا ہے، سراج الحق
پی۔ٹی۔آئی چھوڑنے والوں اکثریت وہی ہے جنہوں نے کسی نظریے کے تحت نہیں بالکل مفادات کے لیے پارٹی جوائن کی تھی، سراج الحق
Majority of those who left PTI are those who joined the party for (their personal) interests and not under any ideology: Sirajul Haq
Siraj Ul Haq :Siraj ul Haq is a Pakistani politician who was elected as the chief of Jamaat-e-Islami, a religious political party in Pakistan which seeks to establish an Islamic legal system. He also served as the senior minister of Khyber Pakhtunkhwa, in the Pervez Khattak administration.
چین، تھائی لینڈ، نیپال اور انڈونیشیا کے سفارت کاروں سمیت غیر ملکیوں کے وفد نے تخت بھائی میں آثار قدیمہ کا دورہ کیا۔ وزیر مملکت اور گندھارا سیاحت پر وزیر اعظم ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے وفد کی قیادت کی۔ اس موقع پر پاکستان میں مقیم چینی طلباء، سول سوسائٹی، غیر ملکی اور میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
A delegation of foreigners including diplomats from China, Thailand, Nepal, and Indonesia visited archaeological sites in Takht Bhai. The minister of state and chairman of the Prime Minister Task Force on Gandhara Tourism, Dr Ramesh Kumar Vankwani, led the delegation. A large number of Chinese students living in Pakistan, civil society, foreigners, and media representatives were also present on the occasion.
روال ڈیم کے کنارے خوبصورت بانسری بجانے والا یہ شخص سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔
This man playing the flute on the side of Rawal Dam attracts everyone's attention.
مچھلیاں پکڑنے کے لیے راول ڈیم کے پانی میں زہر ملانے کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا، ڈان
Two persons were arrested after being found to be involved in poisoning the water of Rawal Dam to catch fish: DAWN
Pressurising people to leave their political party is "NEVER OKAY".
کبھی جون جولائی میں سخت گرمی ہوتی تھی اور اب جون اور جولائی میں لگتا ہے کہ سردی کے مہینے ہیں۔ اسلام آباد میں صبح کی وقت ایسا لگتا ہے جیسے دسمبر آگیا یے، بے شک موسم خوشگوار ہو گیا ہے لیکن پاکستان محکمہ موسمیات کے مطابق اس موسمی تبدیلی سے فصلوں کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
There used to be intense heat in June and July but now June and July seem to be summer months. In the morning in Islamabad, it seems as if December has arrived. Although the weather has become pleasant, this change in weather could damage the crops according to Pakistan Meteorological Department.
Pakistan Meteorological Department
عائشہ گلالئ وزیر کا دیر کی خوبصورتی سے متعلق بیان۔
Ayesha Gulalai Wazir about beauty of Dir.
"جادوئی کرسی"
میں زینب علی اپنے پورے ہوش و حواس میں پی-ٹی-آئی سے بغیر کسی "پریشر" کے استعفی دیتی ہوں🤣
اس جادوئی کرسی پر پی-ٹی-آئی کا جو بھی ممبر بیٹھتا ہے، استعفی دے دیتا ہے، وجہ "نامعلوم" ہے۔
Video Credit: Asad Ullah Bhatti
یہ بہادر اور خوبصورت لڑکی ایمان مزاری، شیریں مزاری کی بیٹی ہیں۔ شیریں مزاری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن اور ایک پاکستانی سیاست دان ہیں جنہوں نے 20 اگست 2018 سے 10 اپریل 2022 تک انسانی حقوق کی وفاقی وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
رمضان میں ایک انٹرویو کے لیے مجھے شیریں مزاری صاحبہ کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، جہاں ماں بیٹی ایک ساتھ بیٹھی ہمیں بتا رہی تھیں کہ کیسے ان کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ شیریں مزاری کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے پھر بھی ان کی بیٹی کھل کر پی ٹی آئی پر تنقید کرتی ہیں ۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شیریں مزاری کی گرفتاری کے بعد ایمان مزاری اپنی والدہ کی رہائی کے لیے اس طرح جدوجہد کر رہی ہیں جو ایک بیٹا بھی نہ کرے۔
سیاسی پسند ناپسند ایک طرف ( کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میرے دل میں پی ٹی آئی کے لیے نرم گوشہ ہے) میں جانتی ہوں کہ ایمان کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن اس ملک کو ان جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔
This brave and beautiful girl, Iman Mazari, is the daughter of Shireen Mazari. Shireen Mazari is a Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) member and a Pakistani politician who served as the Federal Minister for Human Rights from 20 August 2018 to 10 April 2022.
For an interview during Ramadan, I had to go to Shireen Mazari's house, where mother and daughter sat together, telling how their views differed. Shireen Mazari belongs to PTI, yet her daughter openly criticizes PTI. Adding another interesting fact here is that after the arrest of Shireen Mazari, Iman Mazari is struggling for her mother’s release in a way that even a son would not do.
Political views aside (as I feel like I have a soft corner in my heart for PTI) I know Imaan has no interest in Politics, but this country needs people like her.
عمران خان کی رہائی کے بعد اسلام آباد سمیت ملک بھر میں معاملات زندگی دوبارہ معمول پر۔
Following Former Prime Minister Imran Khan's arrest, violent protesters damaged the sixth road metro station on Wednesday night. Metro bus, Blue, and Greenline services are already suspended in Islamabad and Rawalpindi following protests by PTI workers all over Pakistan.
سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد بدھ کی رات پرتشدد مظاہرین نے سکستھ روڈ میٹرو اسٹیشن کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان بھر میں پی ٹی آئی کارکنوں کے احتجاج کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی میں میٹرو بس، بلیو اور گرین لائن سروسز پہلے ہی معطل ہیں۔
This was my first ever visit to Maidan, a valley of Dir. Dir has beautiful valleys and lush green mountains which receives heavy snow fall in winter.
دیر کی وادی، "میدان" میں پہلی بار گئ۔ دیر میں خوبصورت وادیاں اور سرسبز و شاداب پہاڑ ہیں جہاں سردیوں میں شدید برف باری ہوتی ہے۔
بے وقت کی بارشوں سے کسان وقت سے پہلے فصل کاٹنے پر مجبور۔
Two "Dirojae" in one frame.
اپنوں کی یاد عید کے دن قبرستان کھنچ لائی۔
بچھڑے لوگوں کی یاد۔
بھائی صاحب کو "خاتون" کہہ دیا تو وہ بھی کنفیوز ہو گئے😄
Minister of Overseas Pakistanis and Human Resource Development, Sajid Hussain Turi sahb.
الخدمت کمیٹی کی جانب سے روزانہ ایک لاکھ لوگوں کو مفت سحری دی جاتی ہے۔ الخدمت کمیٹی کے اسلام میں آٹھ گرینڈ کچن ہیں جہاں یہ سحری تیار ہوتی ہے اور پھر مختلف علاقوں میں پہنچائی جاتی ہے۔ یہ سحری طلباء، مزدور اور ہسپتالوں میں خاص طور پر فراہم کی جاتی ہے۔
اراکین پارلیمنٹ اور انکی رائے۔
29-03-2023
بنیادی طور پر دیر سے تعلق رکھنے والے اس مزدور بابا کی رمضان میں مذید مشکلات میں مذید اضافہ۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the public figure
Website
Address
Riyadh
12653
Riyadh, [email protected]
Allah Is One☝ Laailaaha illallaah Muhammadun Rasuulullaahi Alhamdulillaahi Galannikan Rabbiiti yoomuu
Riyadh
Makhozee news created for news and politics an Makhozee news page Zaheer Makhozai
Riyadh
هذه الصفحة تقوم بكل ما يخدم الدين والإنسانية. Cette page fait tout ce qui sert la religion et l'human
Riyadh
Machenic Danting and panting Auto Electricion.Ac technition. contact us.0559090920
السعودية
Riyadh, 32423
الشيك اوف العلاج الاول للقولون والمعدة
Riyadh
#اللِّيبرالية فلسفة تأسست على أفكار الحرية والمساواة السياسية والاقتصادية والاجتماعية والسوق الحر.