Sardar Atif Majeed Barq Advocate
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Sardar Atif Majeed Barq Advocate, Public Figure, 1114 W Blaine, Riverside, CA.
I regard myself to be a very open minded person, ready for new challenge, especially when People consider me to be a social, temperamental person who doesn't hesitate in giving my opinion for what I think and believe in, honest and respectfully.
اللہ قائد کے مجمسے کو سلامت رکھے
آمین
I love Mercedes ❤️
Mohamed Aziz, a 72-year-old bookseller, living in Rabat, Morocco, spends 6 to 8 hours a day reading books. Having read over 5000 books in French, Arabic, and English, he remains the oldest bookseller in Rabat, spending more than 43 years in the same location. When asked about leaving his books unattended outside, where they could potentially be stolen, he responded that those who can't read don't steal books, and those who can, aren't thieves.
اپنی عمر کے پہلے پچیس سال تک میرے اپر پورشن اور لوئر پورشن میں کئی کیڑے تھے۔ ان میں ایک کیڑا تھا جو کہتا تھا کہ اس ملک میں ایک ہی ادارہ ہے جو ٹھیک چل رہا ہے۔پھر میں اپنی چھوٹی سے بیٹھک سے باہر نکلا اور اندرون و بیرون ممالک کے سفر کئیے تو معلوم ہوا کہ اس ملک میں ایک ہی ادارہ ہے جو کسی بھی ادارے کو چلنے نہیں دیتا۔
ایک کیڑا ایسا تھا جو کہتا تھا کہ اس ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوانان پر مشتمل ہے جو افرادی قوت کے سبب اس ملک کا سرمایہ بنیں گے۔پھر معلوم ہوا کہ لیٹ نوے اور دو ہزار کی دھائی میں پیدا ہونے والی نسل کا کتابوں سے واسطہ نہیں، تاریخ سے آشنائی نہیں اور ساری نسل پروپیگنڈا وار کی فی سبیل اللہ مجاہد ہے۔اختلاف پر گالی ہے یا ٹرولنگ۔
ایک کیڑا تھا جو ہر دم کاٹتا تھا کہ گوادر سونے کی کنجی، بلوچستان سونے کی کانیں، تھر کوئلے کا کوہ ہمالیہ، چنیوٹ لوہے کا عظیم خزانہ، شمال میں زمرد کے پہاڑ، جنوب میں گیس کے ذخائر، مشرق میں اجناس کا سرپلس اور مغرب میں تیل ہی تیل ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ دراصل یہ کہانیاں سنڈریلا ان ونڈرلینڈ کا مقابلہ کرنے کو سنائیں گئیں ہیں۔
ایک کیڑا تھا جس کے مطابق مارشل لاء رجیم کرپٹ نہیں ہوتی بلکہ ملک کی ترقی کا ضامن ہوتی ہے۔ ایوبی ، ضیائی اور مشرفیاتی ترقی کی مثالیں سن کر انگلیاں دانتوں میں داب لیتا تھا اور سیاستدانوں کو روزانہ رات گالیاں دے کر سو جاتا تھا۔ پھر دھیرے دھیرے انکشاف ہوا کہ مملکت کے کُل رقبے کا چالیس فیصد تو اس ترقی رجیم نے اپنے پاس رہن رکھا ہے۔
اور ایک کیڑا تو ایسا تھا جس کی دم جگنو کی مانند چمکتی تھی۔ ملک اسلام کا قلعہ ہے۔ ایٹمی قوت کی بدولت عالم اسلام میں بہت عزت ہے۔ دوست ممالک ہر دم ہمارے ناز اٹھاتے ہیں۔ ہم امت مسلمہ کے ہاتھوں کا چھالا ہیں۔ پھر عقدہ کھُلا کہ ہم صرف و صرف عرب و عجم کے بخشو ہیں۔
ایک کیڑے کا سینہ پھُولا رہتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ صرف بھارت ہی دشمن ہے باقی ہمسائیوں سے تو جینے مرنے کا رشتہ ہے۔ پھر پتہ چلا کہ سوائے سمندر کے کوئی ہمسائیہ دوست نہیں اور رضیہ غنڈوں میں گھِری ہوئی ہے۔
ایک کیڑا کہتا تھا کہ علمائے اکرام سروں کے تاج ہیں پھر عقدہ کھُلا کہ دراصل یہاں اُلومائے کرام ہیں جن سے بچے محفوظ ہیں نہ منبر پہ سلامتی بچی ہے۔
صاحبو، یہ سارے کیڑے مارنے میں وقت لگا تھا۔ میں سمجھ سکتا ہوں جب کوئی بائیس پچیس سالہ نوجوان فرطِ جذبات میں اپنے سیاسی نظرئیے،ادارہ جاتی اُلفت یا اپنے مولوی کی حمایت میں اُبھر کر سامنے آ کر ناچنے لگتا ہے تو وہ اپنی عمر، تجربے اور مطالعہ کے لحاظ سے ٹھیک ہوتا ہے۔ اس کے کیڑے مرتے وقت لگے گا اور جس دن کیڑے مر جائیں گے اس دن سے اسے ابدی چین نصیب ہو گا۔ اس لیے میرا کہنا ہے کہ آپ میں سے جو جو جہاں جہاں لگا ہوا ہے لگا رہے۔ یہ ارتقاء کا پراسس ہے۔شعور خود ہی اپنا راستہ طے کرتے منزل پاتا ہے۔
نشرِ مُکرر
" سیاست کی کربلا کا اکیلا حسین۔"
تحریر؛ راجہ زکی جبار ایڈووکیٹ۔
(یہ تحریر سردار خالد ابراہیم مرحوم کی وفات پہ لکھی تھی ، وہی دوبارہ شئیر کر رہا ہوں۔ )
اس میں کوئی شک نہیں کہ سردار خالد ابراہیم مرحوم نے جب آنکھ کھولی تھی تو اس وقت تک سیاست میں کردار زندہ تھا،یقیناً غازئ ملت سر دار محمد ابراھیم کا فرزند ہونا اور ان کی ہم عصر عظیم سیاسی شخصیات مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان اور خورشیدٍملت کے ایچ خورشید کی سیاسی فہم و فراست سے مستفید ہونا بھی غازئ ملت کے " خالدی" کے مقدر میں تھا۔۔۔، پہلے سیاسی رہنماء اور کارکن قومی مقاصد کے تناظر میں جہدوجہد کرتے ہوئے سیاست کو ایک مقدس مشن سمجھتے ہوئے اپنا سب کچھ وار دیتے تھے،اس دور میں سیاست سے دولت کمانا شاید بد تر ازگناہ گردانا جاتا تھا، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گزرے وقتوں میں سیاست میں " دستار سر سے افضل" سمجھی جاتی تھی۔
1980 کی دھائی کے اختتام پہ آزادکشمیر کی سیاست نے بھی اپنا رخ بدلا،سیاسی کارکنوں کی جگہ " ٹاؤٹوں" اور شخصی دم چھلوں نے لے لی،یہاں تک کہ 1996 میں آزاد کشمیر کی سیاست میں " بریف کیس " نے فلمی ہیرو کیطرح دبنگ انٹری ماری۔)ممکن ہے بریف کیس کا"ٹک پرچون" کردار پہلے بھی مختلف وقتوں میں رہا ہو،لیکن اس کا "قائدانہ کردار" 1996سے باضابطہ شروع ہوا ۔(۔سیاست اور سیاسی جماعتوں کا رنگ اس انداز میں بدلا کہ سیاسی جماعتوں اور کارکنوں نے اپنی شناخت ہی کھو دی ۔۔سیاست سے نظریات نام کی چیز غائب ہو گئی،چاپلوسی،خوش آمد، اقربا پروری،دھوکہ بازی،لوٹ کھسوٹ، منافقت سمیت ہر سماجی اور اخلاقی برائی ہماری سیاست کا جزو لاینفک بن گئی ۔۔
جب مقاصد بڑے اور معتبر نہ ہوں تو انسان اور معاشرہ دونوں اپنی اخلاقی روح کھو دیتے ہیں، یہی حال آزادکشمیر کی سیاست کا بھی ہوا ۔سیاسی جماعتیں جن کی روح اور طاقت نظریاتی اور متوسط طبقے کے سیاسی کارکن ہوا کرتے تھے، وہ نو دولتیوں کی پروردہ بن کر رہ گیئں، جماعتیں بھی ذاتی اور تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگیں...آزادکشمیر کی سیاست میں 2001 کے بعد سرمایہ دار قابض ہو گئے، ممبران اسمبلی کوڑیوں کے بھاؤ بکنے لگے،اب صورت حال یہ ہے کہ کردار اور اعتبار کے لحاظ سے سب سے کمزور شخص ممبر اسمبلی ہوتا ہے، سوائے چند لوگوں کے۔۔۔
اس سارے عرصے میں جب پارلیمانی سیاست کی " طوائف" سر بازار رقص کرتی رہی، صرف ایک شخص یا سیاسی کردار ایسا تھا جس نے غازیوں اور شہیدوں کا بھرم باقی رکھا، جس کا نام سردار خالد ابراہیم تھا،" خالدی " جب بھٹو کا جیالا تھا تو ہتھکڑی اس کا زیور اور جیل اس کا سسرال رہا،اس کی جنگ اقتدار کے حصول کے بجائے اقدار کی سربلندی کے لئے رہی،ایک سے زیادہ مرتبہ اقتدار نے خالدی کے دروازے پہ دستک دی لیکن اقتدار کو شرمندہ ہو کر پچھلے قدموں لوٹنا پڑا، خالدی نے ضدی،ہٹ دھرم،اور اپوزیشن کی علامت یعنی "نوآب زدہ نصراللہ " ہونے کے طعنے سنے لیکن اصولوں کی " ثریا" سے کبھی نیچے نہیں آیا،
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری،
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر بازار،
گرجے ہیں بہت شیخ سر گوشۂ ممبر،
کڑکے ہیں اہل حکم برسردربار،
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام،
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت،
اس عشق نہ اْس عشق پہ نادم ہے مگر دل،
ہر داغ ہے اس دل پہ،بجز داغ ندامت ۔۔
پارلیمانی اور مفاداتی سیاست کی منڈی تمام جماعتوں اور شخصیات کو اپنا " فیض" پہنچاتی رہی لیکن یہ جال کبھی بھی خالدی کو اپنے دام میں نہیں پھنسا سکا،جس اسمبلی ممبری اور وزارت کی خاطر اکثر ممبران اسمبلی ہمیشہ " for sell" رہے اس کو خالدی نے اکثر پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھا۔۔۔
ہم مفادات اور مصلحتوں کو جتنا بھی پوجیں خالدی کا جنازہ آزادکشمیر کے لوگوں کو بتا گیا کہ جیت ہمیشہ کردار،مقاصد اور اصولوں کی ہوا کرتی ہے،
خالدی ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں،تمہیں زندگی میں با کردار ماننے کے باوجود اصولوں اور مفادات کی جنگ میں ہم نے تمہیں ہمیشہ اکیلا چھوڑا،خالدی تم ہماری شناخت کی خاطر اکیلے نغمہ سرا رہے،ہم کبھی کبھار تمہاری تعریف کر لیتے لیکن درپردہ ہم ہمیشہ غنیم کے طرف دار رہے ، خالدی ہم تم سے بے وقت معافی مانگنے پر شرمندہ ہیں،ہم نے اپنی شناخت اور خود داری کو اکثر ٹکے ماروں کے ہاں گٍرو رکھا، لیکن تو واحد سیاستدان تھا جس کی غیرت عشق کبھی بھی مال تجارت کا حصہ نہیں بنی،ہم مفادات کے اسیروں کو ہمیشہ ایوان شاہی کے در راس آتے رہے،ہم ہم ہمیشہ دربار کی سطوت کے پرستار رہے لیکن تم لٹیروں کی طرف داری کرنے کے بجائے زور دستوں کو اکیلے ہماری مدد سے بے نیاز اپنے مخصوص انداز میں للکارتے رہے ۔
بیعت شاہٍ دوراں سے انکار پر،
منصف و محتسب" تم" سے نالاں رہے۔
شوق رقصاں رہا تیغ کی دھار پر،
" تم" بغاوت کی لے میں رجز خواں رہے ۔۔
خالدی ٰ؛ تمام سیاسی جماعتوں کے اکثر فیصلے زردار کے در پہ جھکتے رہے،لیکن اس طرح کی مصلحت ہمیشہ تمہارے دین میں حرام رہی۔جب لوگ طاقتوروں کے دربار میں معتبر ہونے کے لئے خوش آمد کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ،جب بھٹو کی بیٹی کی مقبولیت عروج پر تھی، تم نے آزادکشمیر کےلوگوں کی خود داری کو اپنے اکیلے کندھے پر اٹھا کر لاڑکانہ کی سطوت شاہی کو اپنا عکس دکھایا،جب پارلیمانی سیاست کے طوائفانہ تقاضوں نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں سے ان کی نظریاتی روح چھین لی،جب ( معذرت کے ساتھ ) تمام سیاسی جماعتیں سرمایہ دار اور زردار کی لونڈی بن کر رہ گیئں،اس وقت بھی خالدی نے بظاہر اپنا سیاسی نقصان اٹھا کر اپنی جماعت اور سیاسی کارکن کو اس بازار میں بکنے سے محفوظ رکھا۔۔۔کسی بھی جماعت کے کسی مؤقف کی حمایت یا مخالفت تاجرانہ مفادات پہ تولنے کے بجائے ہمشیہ اصولوں کی بنیاد پہ کی، باقی جماعتیں اسمبلی ممبری یا کشمیر کونسل کی ممبری کی خاطر اپنا آپ سستے داموں فروخت کرتی رہیں، لیکن خالدی نے اپنی جماعت کا سودا کبھی نہیں ہونے دیا،اسلام آباد کے ایوانوں کے بعض چپراسی باقی جماعتوں اور سیاستدانوں کو اپنی انگلیوں پہ نچاتے رہے،لیکن خالدی نے کبھی ان کے بڑوں کو بھی گھاس نہیں ڈالی،اسلام آباد میں بیٹھے کمیشن ایجنٹ سب کی قیمت لگانے کی کوشش کرتے رہے لیکن خالدی کے دام لگانے کی جرات کوئی نہیں کر سکا۔۔جب سارے سیاسی لشکر مفادات کی کمیں گاہوں میں پناہ لیتے رہے،اس وقت خالدی اکیلا اپنے اصولوں کو تلوار اور ڈھال بنا کر ہم سب کی شناخت کی جنگ لڑتا رہا،
مگر ایسے ایسے غنی بھی تھے،
اسی قحط زار دمشق میں ۔
جنہیں کوئے یار عزیز تھا،
جو کھڑے تھے مقتل عشق میں ۔۔
خالدی سچ کی قربان گاہ پہ ہمیشہ سیاسی نقصان کا خراج دیتا رہا۔دوسری طرف اپنے اتحادیوں کے " کوفیانہ" وار بھی سہتا رہا،چانکیائی سیاست میں چاروں طرف سے گھرا ہوا خالدی ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پہ نعرہ زن رہا۔بار بار ریاست کے لوگوں اور نوجوانوں کے دل ودماغ پہ خودداری کی دستک دیتا رہا کہ شاید کسی وقت ان لوگوں کے شعور پہ لگا زنگ اتر جائے،شاید کسی وقت ذہنوں پہ لگے لالچ اور چھوٹے مفادات کے تالے کھل جایئں۔
یہ بات درست کے غازیٔ ملت کا بیٹا ہونا خالد ابراہیم صاحب کے لئے ایک عظیم شناخت تھی، لیکن جس طریقے سے خالدی نے غازیٔ ملت کے وارث ہونے کے ناطے سیاسی اور قومی کردار نبھایا،یقیناً اس پہ غازئ ملت کی روح نے فخر کا اظہار کیا ہو گا،خالدی تمہیں کھونے کے بعد ہمیں تمہارے کردار کی عظمت کا اندازہ ہوا ہے،تمہاری ناقدری کرنے پہ تولی پیر بھی ہم سے شکوہ کرتے ہوئے آنسو بہا رہی ہے،موت کی کیا اوقات کے تمہارے کردار کو جسم کی طرح بے جان کرتی،آپ کے جنازے پہ حقیقت میں ہم سب تمہارا ساتھ نہ دینے پہ پچھتاوے کے گھونٹ پی رہے تھے اور ساتھ ہی اپنی بے حسی پہ آنسوؤں کے لبادے میں اپنی شرمندگی بھی بہا کر اپنا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں۔۔خالدی تم نے ثابت کیا کہ "مفاداتی سیاست کے کربلا میں تم اکیلے حسین تھے" ۔۔تمہاری جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی انشاء اللہ، ہو سکتا ہے تمہارے کردار کی روشنی نئی نسل میں سے کسی کا شعور جگا دے۔
مایئں رکھیں گی تیرے نام پہ بچوں کے نام،
باپ بیٹوں کے لئے تیری بیاضیں لیں گے ۔
جن پہ قدغن ہے وہ اشعار پڑھے گی خلقت،
اور دْکھتے ہوئے دل تجھ کو سلامی دیں گے۔۔۔
خالدی تیرا کردار اتنا بلند تھا کہ آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے میرے قلم کو سلیقہ نہیں آرہا،میں اپنا خراج تحسین نا مکمل روکتا ہوں۔۔۔
چپ کی زنجیر ہونٹوں پہ پڑھتی رہی،
تم زبان قلم سے گل افشاں رہے،
حکم سلطاں پہ سب سر بسجدہ ہوئے،
اک تمہی اس گناہ سے گریزاں رہے۔۔
ہر اک دور میں ہر زمانے میں " تم"
چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے،
جان دیتے رہے زندگی کے لئے،
ساعت وصل کی سر خوشی کے لئے،
جو بھی رستہ چنا اس پہ چلتے رہے،
مال والے حقارت سے تکتے رہے،
طعن کرتے رہے ہاتھ ملتے رہے ۔۔۔
" تم نے ان پر کیا حرف حق سنگ زن،
جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی رہی،
جن پہ آنسو بہانے کو کوئی نہ تھا،
تمہاری آنکھ ان کے غم میں برستی رہی،
سب سے اوجھل ہوئے حکم حاکم پہ تم،
قید خانے سہے تازیانے سہے،
لوگ سنتے رہے ساز دل کی صدا،
" تمہارے نغمے سلاخوں سے چھنتے رہے،
خونچکاں دہر کا خونچکاں آئینہ،
دکھ بھری خلق کا درد بھرا دل تھے" تم
منصف خیر و شر،حق وباطل تھے " تم۔۔۔
Names of General Asim Munir and Chief of Islamic Army General Raheel Sharif:
Since its establishment, Israel has not stopped fighting for a single day, but it has also developed and become stronger, while the Muslim countries that fled from the war have become weaker day by day.
The order of Jihad appears 484 times in the Holy Quran and in the first 12 centuries, Muslims were constantly in a state of war, which made them not only called advanced but also called superpowers. In the last two centuries, we have been taught a lesson by turning cowardice into peace, due to which Muslims have not only suffered poverty but also stagnated in development. Palestine and Kashmir question us today?
اپنی گود میں پالے ہیں پیغمبر اس نے.
مومن پر واجب ہے اقصی کا تحفظ کرنا.
جنرل ایوب خان کے دور میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا ایوب نے ایجنسیوں سے اپنی عوامی مقبولیت اور قبولیت کی رپورٹ مانگی جو %100 پیش کی گئی. جس کو ایوب نے جعلی قرار دے دیا چنانچہ ایک اعلی سطحی اجلاس ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ صدر ایوب خان خود کسی سنیما ہال میں تھرڈ کلاس کیبن میں عوام کے ساتھ بیٹھ کر اپنے متعلق ایک ڈاکومنٹری فلم دیکھیں گے اور عوام کا ردعمل کا خود ملاخطہ کریں گے.
چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق صدر ایوب خان بھیس بدل کر سنیما ہال میں پہنچ گئے اور ان کے بارے ڈاکومنٹری فلم چلنا شروع ہوگئی جس پہ سارا سنیما ہال تالیوں سے گونج اٹھا ایوب خان خود تالی نہیں بجا رہے تھے مگر بہت خوش اور شاداں تھے اسی دوران ساتھ بیٹھے آدمی نے صدر ایوب خان کو ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا کہ تالی بجاؤ ورنہ پولیس گرفتار کرکے کے تھانہ میں بند کر دے گی۔
نوٹ!
اس پوسٹ کا موجودہ فوجی %88 مقبولیت سے ہی تعلق ہے..
منقول
ان صاحب کو شرم بھی نہیں آتی۔۔
Close eyes a little♟️
Going to the moon is not human progress, but the pretense of being developed. This pretense is being shown by taking away the human dignity. Going to the moon is a war for nations to look better, in which human food is thrown. India has 75 Million dollars and India spent 620 crore rupees on this mission. While India is at 107 and Pakistan at 99 in the hunger index. Do not fall for the filters of God's progress and do not provoke our regime that India has gone to the moon. Where is it? Do not sacrifice our food on the moon mission..
سبھی آسمانی کتابوں پر یقین رکھنے والوں نے انجیلوں سے بھرا چرچ جلا کر پوری کرسچن کالونی کے بے قصور مسیحیوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر کے قومی پرچم میں اقلیتوں کا سفید رنگ سرخ رنگ سے بدل کر پاکستان کو اسلام کا قلعہ نہیں نفرت کا گھر بنا دیا ہے
جب آپ کی بقا کا دارومدار ان لوگوں سے ملنے والی بھیک ہی ہو تو ایسے بینر لگانا بے غیرتی ہے...
مرے سرکش ترانے سن کے دنیا یہ سمجھتی ہے
کہ شاید میرے دل کو عشق کے نغموں سے نفرت ہے
مجھے ہنگامۂ جنگ و جدل میں کیف ملتا ہے
مری فطرت کو خوں ریزی کے افسانے سے رغبت ہے
مرِی دنیا میں کچھ وقعت نہیں ہے رقص و نغمہ کی
مرا محبوب نغمہ شورِ آہنگِ بغاوت ہے
مگر اے کاش دیکھیں وہ مری پرسوز راتوں کو
میں جب تاروں پہ نظریں گاڑ کر آنسو بہاتا ہوں
تصور بن کے بھولی وارداتیں یاد آتی ہیں
تو سوزِ درد کی شدت سے پہروں تلملاتا ہوں
کوئی خوابوں میں خوابیدہ امنگوں کو جگاتی ہے
تو اپنی زندگی کو موت کے پہلو میں پاتا ہوں
میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مرا دل دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں مفلسوں کو بے کسوں کو بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
جوزف ڈیزائری کورٹ کی پینٹنگ - 1826
ہم کیا دیکھ رہے ہیں:
ایک شخص اپنے باپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے، اور اپنی بیوی اور بیٹے کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہا ہے، جو اس کے سب سے قریب ہیں۔ اور ان میں سب سے ہلکا وزن یہ ہے کہ وہ آپ کو بچاتا ہے۔
کردار کی نمائندگی:
- ماں: زندگی کی نمائندگی کرتی ہے۔
- بچہ: مستقبل کی نمائندگی کرتا ہے؛
- باپ: ماضی کی نمائندگی کرتا ہے۔
کام کی تشریح: انسان ماضی سے چمٹا ہوا ہے اور اس لیے اپنی زندگی اور مستقبل کھو دیتا ہے۔
جیسا کہ "HAVELOK" نے کہا:
زندگی گزارنے کے فن میں یہ جاننا شامل ہے کہ کب پکڑنا ہے اور کب چھوڑنا ہے۔
Painting by Joseph Desiree-Court - 1826
What are we seeing:
A person trying to save his father, and completely ignoring his wife and son, who are closest to him. And the lightest weight among them is that he saves you.
Character representation:
- THE MOTHER: represents LIFE;
- The child: represents the FUTURE;
- THE FATHER: represents the PAST.
Interpretation of the Work: man has clung to the past and, therefore, loses his LIFE, and his FUTURE.
As "HAVELOCK" said:
The art of living involves knowing when to hold on and when to let go.
مجھے کل پھانسی دے دی جاۓ گی اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے مجھے یقین ہے کہ کل میری قوم اس حقیقت سے اگاہ ہوگی جس کے لئے میں سالوں سے لڑ رہا ہوں اور جس کے لئے میں قربانی دے رہا ہوں ۔
شہید محمد مقبول بٹ
All the great things are simple, and many can be expressed in a single word: freedom, justice, honor, duty, mercy, hope.
ہر وقت ہتھوڑی ہاتھ میں ہو تو ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے۔
مجھ کو اپنے بینک کی کتاب دیجیے ۔۔۔
اپنے دل سے پوچھو یہ جھوٹ بول رہا ہے یا سچ ۔۔۔
ایک طرف میجر آصف غفور کے دوبیٹے برطانیہ میں تعلیم حاصل کررہےہیں بیٹوں کی تعلیم کا خرچہ ایک سمیسٹر کا 24 لاکھ 2 بیٹے 48 لاکھ سالانہ خرچہ 1 کروڑ 92 لاکھ مزید پڑھائی 4 سال خرچہ 7 کروڑ 68 لاکھ میجر غفور کی تنخوا 1 لاکھ 57 ہزار ماہانہ تھی۔۔
کہاں سے آتا تھا یہ پیسہ ؟؟
جبکہ دوسری تصویر فرحان عابد کی ھے جو فزکس کے ماہر استاد ہیں اور MSC فزکس ہیں۔
گھر کے اخراجات پورے نہ ہونے کیوجہ سے فرحان عابد کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ بچا، مجبوراً چپس بیچنے پر مجبور ہیں۔
اس ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان اب اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ ملک صرف جرنیلوں کی اولادوں، بیوروکریٹس، کرپٹ سیاست دانوں کے لیے ہی بنا ہے۔۔۔
یہی برسوں سے پھلتے پھولتے نظر آتے ہیں 😢
غداری کا فتویٰ لگانے یا گالیاں دینے سے پہلے پوسٹ اچھی طرح پڑھ لیں، میرا اختلاف صرف کرپٹ لوگوں سے ہے، وہ چاہے آرمی کے جنرل ہوں، سیاست دان ہوں یا عیاش بیوروکریٹ ہوں!!!
Today is my last meeting with my Father (Zulfiqar Ali Bhutto). It is a day of April 3 at Central Jail Rawalpindi.
Baba (Father) asked inside from the jail; Why you both (Nusrat Bhutto and Benazir Bhutto) came together today at Jail?
Mom (Nusrat Bhutto – Benazir’s Mother) remained silent. Mom has no strength to reply Baba.
Baba: It seems that today is our last meeting. Baba asked from the Jail Superintendent, that is this my last meeting?
Jailer replied: Yes.
Baba: Is the date has been confirmed?
Jailer: Yes. Tomorrow Morning.
Baba: At what time?
Jailer: As per the orders at 5:00 in the morning.
Baba: When did you get this information?
Jailer: Last night.
Baba: How much time I’ve been allowed to meet with my family?
Jailer: 30 minutes
Baba: Can you make ready my stuff for bath and shave? Baba said that the world is so beautiful and I want to say goodbye to this world in a same way.
Baba said to Mom: Give love to all my kids and tell Mir, Sunny and Shah that I always tried to be the world’s best father and I wish I could say them Goodbye.
Baba said to me and Mom that you both have tolerated too many difficulties. Today, these people are going to kill me and I am leaving you all on you own will, whether you want to leave Pakistan until the constitution of Pakistan is suspended and Martial Law is imposed or stay here. I better suggest you that if you want peace of mind and would like to start your life with the new beginning, than you should go to the Europe. You all have my permissions.
Our hearts were about to cry and Mom said that we’ll not leave Pakistan as we’ll never let these dictators to feel that we’ve lost our battle.
Baba: What about you Pinky (Nickname of Benazir)?
I said that I also cannot go anywhere else from here.
Baba smiled and said, today I am very happy. Baba said to me that don’t you know that how much I love. You are very dear to me and always remained dear to me.
Superintendent said: Time has been over.
Once I heard the voice, I hold the grills of Jail strongly and begged to the Jailer to open the door of the jail so I can say goodbye to my baba, but Jailer refused.
I begged jailer again and said him that my father is elected Prime Minister of Pakistan and I am his daughter. This is our last meeting, please let me meet with my father, but Jailer refused again.
I tried to hold the hands of my dad from the grills. Baba was lying down due to Malaria and insufficient diet, his body became so weak. Instead of that, Baba got up, sat and hold my hands and gave a charming smile to me and said, today I’ll be freed from every kind of worries of this world, today I’ll meet with my Lord, my mom and dad. I am going back to my native place Larkana today, so that I can rest in the land and winds of my lands.
Baba: I’ll become a part of stories and people will applaud me. These days it is too hot in Larkana. I’ll make a shelter for myself there.
I said Goodbye to Baba with creeping voice.
Me and my mom started going out of the jail and wanted to see back to Baba, but we’d no strength. I know I was unable to let my dad come out of the jail.
I heard the voice of my dad saying; Goodbye, till we meet again.
Instead of replying my dad, we walked out of the jail, but I was feeling no senses. I was feeling like I’ve become of stone and walking through with no senses.
Courtesy: Raheel Baloch
پاکستان میں جاگیرداروں سرمایہ داروں ملاوں پیروں ججوں جرنیلوں افسروں کو پالنا غریبوں پر فرض ہے۔۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the public figure
Telephone
Website
Address
1114 W Blaine
Riverside, CA
92507
4102 Orange Street
Riverside, 92501
The Riverside Police Department is a department of dedicated professional police officers and civili
Riverside
OMG, so this one day Teri got mad cause I have all these "likes" so I decided we need to "like" Teri!, too! ~Drea
Riverside
Eliza Lovell Tibbets -- born in Cincinnati, Ohio in 1823 -- was an abolitionist, a suffragist, a Spi
Riverside
The Inland Sports Show: breaking news, highlights, big-name guests, & exclusive interviews in the In
3742 Tibbetts Street
Riverside, 92056
Middle Eastern Belly Dancer and master teacher based in So. California.