Sunni Hanafi Darul Ifta Odisha-سُنّی حنفی دارالافتاء اڑیسہ

صرف علمي سوالات کریں, انشاءاللہ سوالات کامعقول جواب دی? All Sharie Questions

14/03/2024

Khulasa e Quran 03

01/02/2024

26/01/2024

21/11/2023

کامیابی کی تعریف ہر شخص اپنے خاص نقطۂ نظر کے مطابق کرتا ہے،
شہید نصب العین کی سربلندی کی خاطر لہو کا آخری قطرہ بہا دینے کو کامیابی سمجھتا ہے، جب کہ بزدل مشکل حالات میں میدانِ جنگ سے فرار ہوکر جان بچالینے کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے-

Syed Qamrul Islam

18/11/2023

‏شراب کو ڈرِنک، زَنا کو ڈیٹ، سُود کو اِنٹرسٹ، بے پردگی کو فیشن اور مُفادپرستی کو پولیٹِکس کا نام دے کر آج ہم سب زلیل ہو رہے ہیں۔

31/10/2023

کفری قول کے قائل و متکلم کے انکار کی صورت میں شرعی حکم.......................................
سوال:اگر کوئی قول و عمل متفقہ طور پر کفری ہو لیکن قائل و متکلم اور عامل اس کا اقراری نہ ہو بلکہ اس سے انکار کرتا ہو اگر چہ اس کے خلاف دو عادل گواہوں کی گواہی بھی پیش ہو چکی ہو اور قاضی اسلام نے ان گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ بھی کردیا ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا ؟ اس شخص کے انکار کا اعتبار کیا جائے گا کہ نہیں ؟ اس سلسلے میں مستند فقہائے اسلام اورائمۂ عقائد کیا فرماتے ہیں ؟
مستفتی: طالب رضا علیمی منظری،مقصود پور اورائی،مظفرپور،بہار....................................
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جواب:اگر کوئی کلام یقینی اور متفقہ طور پر کفری ہواور اس کے قائل و متکلم پر گواہی بھی پیش ہوگئی ہو لیکن قائل و متکلم اس سے انکار کر رہا ہو تو فقہائے کرام اور متکلمین کے نزدیک اس کا ا نکار ہی رجوع وتو بہ مان لیا جائے گا ۔
اس سلسلے میں حضرت امام محمد بن احمد شمس الائمہ سرخسی (٤٨٣ھ) رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’شرح السیر الکبیر ‘‘ میں فرماتے ہیں :
فَإِذَا شَهِدَ بِذَلِكَ مُسْلِمَانِ قَضَى الْقَاضِي بِوُقُوعِ الْفُرْقَةِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ، وَقَسَّمَ مَالَهُ بَيْنَ وَرَثَتِهِ ۔۔۔ثُمَّ جَاءَ الرَّجُلُ مُسْلِمًا فَأَنْكَرَ مَا شَهِدَ بِهِ عَلَيْهِ الشَّاهِدَانِ مِنْ الرِّدَّةِ لَمْ يُبْطِلْ الْقَاضِي قَضَاءَهُ بِإِنْكَارِهِ ۔۔۔وَلَكِنَّهُ يَجْعَلُ إنْكَارَهُ هَذَا إسْلَامًا مُسْتَقْبَلًا مِنْهُ.( )
دو عادل گواہ کسی کے اسلام سے پھر جانے کی گواہی دیں اور قاضی ان کی گواہی پر اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کر دے اور اس کی جائدادورثا میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنا دے ۔۔۔ اس کے بعد وہ شخص مسلمان بن کر آئے اور گواہوں نے جس بات کی گواہی دی تھی ، اس بات سے انکار کر دے ، تو قاضی کا فیصلہ باطل نہیں ہوگا ۔۔۔البتہ اس کے انکار کے وقت سے اس کو مسلمان مانا جائے گا ۔
امام بر ہان الدین بخاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ ( ۶۱۶ ھ) کی کتاب ’’ المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی ‘‘کے حوالے سے فتاویٰ عالمگیری میں نقل ہے :
إذَا ‌شَهِدَ ‌رَجُلٌ ‌عَلَى امْرَأَتِهِ مَعَ رَجُلٍ أَنَّهَا ارْتَدَّتْ - وَالْعِيَاذُ بِاَللَّهِ - وَهِيَ تَجْحَدُ وَتُقِرُّ بِالْإِسْلَامِ ۔۔۔وَأَجْعَلُ جُحُودَهَا الرِّدَّةَ وَإِقْرَارَهَا بِالْإِسْلَامِ تَوْبَةً.( )
اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے خلاف کسی دوسرے مرد کے ساتھ گواہی دے کہ اس نے ارتداد کیا ہے - خدا نہ کرے کہ ایسا ہو - اور وہ خاتون انکار کرے اور اسلام کا اقرار کرے۔۔۔تو اس کے انکار ارتداد اور اسلام کے اقرار کو توبہ مانا جائے گا ۔
حضرت علامہ امام ابن ہمام کمال الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ ( م ۸۶۱ ھ) اپنی کتاب ’’ فتح القدیر ‘ ‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
وَإِذَا شَهِدُوا ‌عَلَى ‌مُسْلِمٍ ‌بِالرِّدَّةِ وَهُوَ مُنْكِرٌ لَا يُتَعَرَّضُ لَهُ لَا لِتَكْذِيبِ الشُّهُودِ الْعُدُولِ بَلْ؛ لِأَنَّ إنْكَارَهُ تَوْبَةٌ وَرُجُوعٌ.( )
کسی مسلمان کے بارے میں مرتد ہونے کی گواہیاں گزرچکیں اور وہ اس کا انکار کررہا ہو تو اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا ، اس لیے نہیں کہ عادل گواہوں کو جھوٹا قراردیا جارہا ہے ، بلکہ اس لیے کہ اس کا انکار ہی اس کے حق میں تو بہ و رجوع ہے۔
اسی طرح حضرت علامہ ابن نجیم حنفی(۹۷۰ھ) نے اپنی کتاب ’’ الْأَشْبَاهُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْهَبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ‘‘ میں ۔علامہ زين الدين بن ابراہیم ابن نجیم حنفی مصری رحمۃ اللہ علیہ (٩٧۰ ھ)نے ’’بحر الرائق ‘‘ میں. ( )علامہ حصکفی حنفی (۱۰۷۷ھ) نے در مختار میں ( )علامہ ابن عابدین شامی(۱۲۵۲ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے رد المحتار میں ( )صاحب ’’ غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر‘‘ نے . ( )علامہ عبد الرحمٰن الجزیری (۱۳۶۰ھ)نے ’’الفقہ على المذاهب الأربعہ‘‘میں .( )علامہ علی بن مصطفٰی طنطاوی اپنی کتاب ’’تعريف عام بدين الإسلام‘‘ میں.( ) نقل کیا ہے ۔
اس باب میں تمام علما و متکلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی کے ارتداد یا کفر کی گواہی صرف عادل گواہوں کی ہی قبول کی جائے گی اور بعض نے چار گواہوں کا اعتبار کیا ہے اور بعض نے دو کی گواہی کو ہی کافی مانا ہے احناف کے نزدیک بھی دو عادل گواہوں کی گواہی ہی کافی ہے ،ایسا نہیں کہ کسی نے بھی کچھ کہہ دیا تو اس بنیاد پر شرعی احکام بیان کردیا جائے گا ،یوں ہی قاضی اور مفتی پر یہ بھی لازم ہے کہ جب کسی مسلمان کے بارے میں اس کے پاس کوئی منفی بات پہنچے تو قاضی پہلے تحقیق کرے اور اتمام حجت کے بعد ہی کوئی فیصلہ دے ۔
اور اگر قاضی نے دو عادل گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر کسی مسلمان کے کفر و ارتداد کا فیصلہ کربھی دیا لیکن مشہود علیہ( جس کے خلاف گواہی دی جا چکی ہے )نے انکار کردیا اور اس نے یہ بیان کردیا کہ میں نے فلاں کام نہیں کیا یا فلاں کلام کا میں قائل و متکلم نہیں ہوں تو محققین علمائے اہل سنت کے نزدیک اس کے انکا ر کو ہی توبہ و رجوع مان لیا جائے گا اور اس کے اسلام کو بعینہ قبول کیا جائے گا ،کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم یہ بتاتا ہے کہ کافر اصلی بھی اگر حالت جنگ میں کلمہ و شہادت کا اظہار کرے گا تو اس کو قبول کر لیا جائے گا اور اس سے جنگ نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی جان و مال کی حفاظت شرعی طور پر لازم و ضروری ہو گی،یوں ہی مرتد کے حق میں بھی انکار ارتداد کے ساتھ کلمہ شہادت کی عظمت و افادیت کو بحال رکھا جائے گا اور قبول کیا جائے گا ۔
کوئی ذمی غیر مسلم مر جائےاور ایک بھی عادل مسلمان مرد یا عورت گواہی دے کہ وہ مرنے سے پہلے مسلمان ہو گیا تھا تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کوغسل دے کر کفن پہنائیں اور اس کی نماز جنازہ پڑھیں ،فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ مَاتَ فَشَهِدَ مُسْلِمٌ عَدْلٌ، أَوْ مُسْلِمَةٌ أَنَّهُ أَسْلَمَ قَبْلَ مَوْتِهِ وَأَنْكَرَ أَوْلِيَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ ذَلِكَ فَمِيرَاثُهُ لِأَوْلِيَائِهِ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ بِحَالِهِ وَيَنْبَغِي لِلْمُسْلِمِينَ أَنْ يُغَسِّلُوهُ وَيُكَفِّنُوهُ وَيُصَلُّوا عَلَيْهِ.( )
اہل ذمہ میں سے کوئی شخص مر گیا اور ایک عادل مسلمان مرد یا مسلمان عورت نے گواہی دی کہ اس نے اپنی موت سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کے اولیا و وارثین انکار کریں اور کہیں کہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا تو اس کی وراثت اہل ذمہ میں سے اس کے اولیا و وارثین کے لیے ہوگی اور مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ وہ اس کو غسل دیں اور کفن پہنائیں اور اس کی جنازے کی نماز ادا کریں ۔
اسلام دین حق ہے اور حق کو باطل پر فوقیت حاصل ہوتی ہے ،حق کے ثبوت کے لیے ایک گواہ بھی کافی ہے خواہ عورت ہی کی گواہی کیوں نہ ہو ، جب کہ حق کے ارتفاع کے لیے دلیل بدیہی قطعی اور ثبوت متواترہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بعد بھی اقوال کفریہ اور افعال ارتدادیہ کا فاعل و متکلم اپنے افعال و اقوال سے انکار کر بیٹھے تو تقریبا تمام فقہائے اسلام کے نزدیک اس کا انکار ہی توبہ و رجوع مان لیا جائے گا اور اس کے اسلام کو بدستور قبول کیا جائے گا ۔
لیکن افسوس کہ ہمارے دور کے اکثر فقہا نے اپنی ضد ، جرأت و جہالت اور عناد کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام کی جو درگت بنا رکھی ہے اس پر جتنا ماتم کریں کم ہے ،اپنی تکفیر مزاجی کی وجہ سے مسلمانوں کو اس قعر عمیق میں پہنچا دیا ہے جہاں سے واپس آنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے،اہل جرأت مصلحین علما و دعاۃ جب مسلسل صدیوں جد وجہد کریں گے تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ امت تکفیریت کے اس کاری زخم سے شفا پاسکے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کو کافر بنانا اس کو قتل کرنے کی طرح ہے :
وَمَنْ ‌قَذَفَ ‌مُؤْمِنًا ‌بِكُفْرٍ ‌فَهُوَ ‌كَقَتْلِهِ. ( )
جس نے کسی مومن کو کافر کہا تو گویا اس نے اس کو قتل کردیا ۔
اور مسلمان کو ناحق قتل کرنے کے سلسلے میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایاہے:
لَزَوَالُ الدُّنيَا وَمَا فِيهَا أَهوَنُ عِندَ اللّهِ مِن قَتلِ مُؤمِنٍ، وَلَو أَنَّ أَهلَ سَمَاوَاتِه وَأَهلَ أَرضِه اشتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤمِنٍ لَأَدخَلَهُمُ اللّهُ النَّارَ.( )
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا کسی مسلمان کے ناحق قتل سے زیادہ ہلکا ہے، اگر سارے آسمان وزمین والے مل کر کسی مومن کا خون بہائیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان سب کو جہنم میں داخل کردے گا۔
امت مسلمہ اس وقت تفرقہ کا شکار ہے ، کلمہ طیبہ کی عظمت کو پامال کر نے والے تکفیری علما نے امت کے ایک ایک فرد کے اندر نفرت اور فرقہ بندی کا زہر گھول دیا ہے جس کے نتیجے میں ایک فرد دوسرے فرد کا ،ایک گاؤں دوسرے گاؤں کا ،ایک ملک دوسرے ملک کا جانی دشمن بنا ہوا ہے، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ کلمہ گو ایک دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھیں اور ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی فکر کریں ۔
ہمارے دور میں ایک شخص اپنے اسلام و سنیت کا اعلان و اقرار کررہا ہوتا ہے اور اپنے اوپر لگے تمام الزامات کو خارج قرار دیتا ہے اس کے باوجود بعض شدت پسند علما ان کے اسلام و سنیت کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور نہ ان کے انکار و برأت کی وجہ سے ان کے توبہ و رجوع کےاسلامی اصول پر عمل کے لیے آمادہ ہے۔بس عناد و جہالت اور فرقہ بندی کا ایسا نشا چھایا ہوا ہے کہ شرع مطہر پر جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود بھی اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں اور جو تکفیر سے سکوت کرتا ہے اس کو بھی کافر بنا کر ہی دم لیتے ہیں ، الامان والحفیظ۔
مذکورہ تمام مستند علما و فقہا کے فرمودات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے دور کے علما و مفتیان کرام کے لیے کسی صورت یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کے اسلام سے ارتداد کا فیصلہ کریں جب تک کہ وہ خود یہ اعلان نہ کر دے کہ اس نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے، یہ ایک بڑے خطرے اور بڑے نقصان کا باب ہے، اس لیے ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم کسی ایسے مسلمان کے کفر کا فیصلہ کریں جس نے کوئی بیان جاری کیا ہو اور وہ بیان کفر اور عدم کفر کا احتمال رکھتا ہو ،یا اس کا قائل کفری معنی کا اقرار نہ کرتا ہو، یا قائل اس قول کا ہی منکر ہو تو ہمارے لیے کسی صورت میں قائل پر کفر کا حکم جاری کرنا اسلامی اصول کے مطابق ہرگز درست نہیں ہوگا۔
علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی بات کسی مسلمان کی طرف سے آئی ہو اور اس بات میں ننانوے پہلوکفر کے ہوں،صرف ایک پہلو اسلام کا ہو تو اسلام ہی مانا جائے گا کیوں کہ اسلام دین حق ہے اور کفر باطل، اور حق باطل پر غالب ہوتا ہے، لیکن افسوس کہ آج ہم اپنی شدت کی وجہ سے خواہ مخواہ حق کو مغلوب کرنے میں مصروف ہیں۔
اس مفہوم کو علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ(۱۰۱۴ھ) اپنی معروف کتاب ’’ شرح الشفاء‘‘ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
وقد قال علماؤنا إذا وجد تسعة وتسعون وجها تشير إلى تكفير مسلم ووجه واحد إلى ابقائه على إسلامه فينبغي للمفتي والقاضي أن يعملا بذلك الوجه وهو مستفاد من قوله عليه السلام : ادْرَءُوا الْحُدُودَ مَا اسْتَطَعْتُمْ عَنِ الْمُسْلِمِينَ ، فَإِنْ وَجَدْتُمْ لِلْمُسْلِمِ مَخْرَجًا فَخَلُّوا سَبِيلَهُ ، فَإِنَّ ‌الْإِمَامَ ‌لَأَنْ ‌يُخْطِئَ ‌فِي ‌الْعَفْوِ ، ‌خَيْرٌ ‌لَهُ ‌مِنْ ‌أَنْ ‌يُخْطِئَ ‌فِي ‌الْعُقُوبَةِ،رواه الترمذي وغيره والحاكم وصححه)( )
ہمارے علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اگر مسلمان کو کافر قرار دینے کے ننانوے پہلو ہوں اور اس کے اسلام پر قائم رہنے کی ایک ہی وجہ ہو تو مفتی اور قاضی کو اس ایک وجہ پر عمل کرنا چاہیے، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مستفاد ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں سے جہاں تک ہو سکے حدود(شرعی سزاؤں ) کو ٹال دو، اگر تم مسلمان کے لیے کوئی راہ نکال سکو تو نکالو، کیونکہ امام (حاکم، مفتی و قاضی) کا معاف کرنے میں غلطی کرنا ، سزا دینے میں غلطی کرنے سے بہتر ہے۔ترمذی ،حاکم اوردیگر محدثین نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد مجیب الرحمٰن علیمی کان اللہ تعالیٰ لہ
۱۹/ اکتوبر ۲۰۲۳ء/۳ ربیع الآخر ۱۴۴۴ھ

08/09/2023

08/09/2023

Hi everyone! 🌟 You can support me by sending Stars - they help me earn money to keep making content you love.

Whenever you see the Stars icon, you can send me Stars!

02/09/2023
Photos from Saeedi Network's post 30/08/2023
20/08/2023

نظر کا لگ جانا

سوال:بعض لوگ نظر کے لگ جانے کا یقین کرتے ہیں اور بعض لوگ نہیں کرتے، کیا نظر کا لگنا حق ہے؟ اور اگر ہے تو اس سے بچاوٴ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اور اگر نظر لگی ہو تو اس کا اثر کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟
جواب نمبر: 35
بسم الله الرحمن الرحيم

نظر کا لگ جانا حق ہے، العین حق ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جاتی تو نظر کا لگنا ہے۔ اسی طرح دوسری حدیثوں میں نظر لگنے کی صورت میں رُقیہ (تعویذ) کی اجازت دی گئی ہے اور ایک حدیث میں فرمایا کیا کہ کسی پسندیدہ چیز کو دیکھنے کے وقت بارک اللہ اور ماشاء اللہ کہہ دیا کرو تاکہ نظر بد سے حفاظت رہے۔ ایک حدیث میں ان کلمات کا پڑھنا نظر بد سے حفاظت کے لیے بتلایا گیا ہے: أعوذ بکلمات اللہ التامات من غضبہ وعقابہ وشر عبادہ ومن ہمزات الشیاطن وأن یحضرون، عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے بالغ بچوں کو مذکورہ دعا سکھادیتے تھے تاکہ وہ خود پڑھ کر دم کرلیں اور نابالغ بچوں کے لیے تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالدیتے تھے (مشکاة: ۲۱۷) بعض بزرگوں سے اس آیت کا پڑھنا نظر بد سے حفاظت کے لیے منقول ہے۔ وَاِنْ یَکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوْا الذِّکْرَ۔ (الآیة)
واللہ تعالیٰ اعلم

سنی حنفی دارالافتاء،اڑیسہ ۔۔۔۔۔

20/08/2023

نماز جنازہ کے فرائض :
1۔ چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا، ہر تکبیر یہاں قائم مقام ایک رکعت کے سمجھی جائے گی۔
2۔ قیام یعنی کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھنا، جس طرح فرض واجب نمازوں میں قیام فرض ہے اور بغیر عذر کے اس کا ترک جائز نہیں ۔

نمازِ جنازہ میں سلام واجب ہے۔ اور تین چیزیں سنت ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا۔

2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔

3۔ میت کے لیے دعا کرنا۔ فقط واللہ اعلم

17/08/2023

میت کو غسل دینے کا مسنون طریقہ مطلوب ہے ؟
سوال:میت کو غسل دینے کا مسنون طریقہ مطلوب ہے ؟
جواب۔
بسم الله الرحمن /
میت کو غسل دینے کا طریقہ درج ذیل ہے: جس تختہ پر غسل دیا جائے پہلے اس کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ لوبان وغیرہ کی دھونی دے لیں، اس پر میت کو قبلہ رخ کرکے یا جیسے بھی آسان ہو لٹایا جائے، اس کے بعد میت کے بدن کے کپڑے چاک کرلیں اور ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر بدن کے کپڑے تارلیں، یہ تہبند موٹے کپڑے کا ناف سے لے کر پنڈلی تک ہونا چاہیے تاکہ بھیگنے کے بعد ستر نظر نہ آئے، پھر بائیں ہاتھ میں دستانے پہن کر میت کو استنجا کرائیں، اس کے بعد وضو کرائیں اور وضو میں کلی نہ کرائیں نہ ناک میں پانی ڈالا جائے اور نہ گٹوں تک ہاتھ دھوئے جائیں، ہاں البتہ کوئی کپڑا یا روئی وغیرہ انگلی پر لپیٹ کر تر کرکے ہونٹوں، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر دیں، پھر اسی طرح ناک کے سوراخوں کو بھی صاف کردیں، خاص کر اگر میت جنبی یا حائضہ ہو تو منہ اور ناک پر انگلی پھیرنے کا زیادہ اہتمام کیا جائے، اس کے بعد ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں میں روئی رکھ دیں؛ تاکہ وضو وغسل کراتے ہوئے پانی اندر نہ جائے، وضو کرانے کے بعد ڈاڑھی وسر کے بالوں کو صابن وغیرہ سے خوب اچھی طرح دھوویں ، پھر مردے کو بائیں کروٹ پر لٹاکر بیری کے پتوں میں پکا ہوا یا سادہ نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر خوب اچھی طرح تین مرتبہ نیچے سے اوپر تک بہادیں تاکہ پانی بائیں کروٹ کے نیچ پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ پر لٹاکر اس طرح بائیں کروٹ پر سر سے پیر تک تین مرتبہ پانی ڈالا جائے کہ پانی دائیں کروٹ تک پہنچ جائے، نیز پانی ڈالتے ہوئے بدن کو بھی آہستہ آہستہ ملا جائے، اگر میسر ہو تو صابن بھی استعمال کریں۔ اس کے بعد میت کو ذرا بٹھانے کے قریب کردیں اور پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں اگر کچھ نجاست نکلے تو صرف اس کو پونچ کر دھو ڈالیں، وضو وغسل لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس کے بعد اس کو بائیں کروٹ پر لٹاکر کافور ملا ہوا پانی سرسے پیر تک تین دفعہ ڈالیں، پھر سارے بدن کو تولیہ وغیرہ سے پونچھ دیا جائے، ویوضع کما مات کما تیسر في الأصح علی سریرٍ مجمرٍ وترًا إلی سبعٍ فقط ”فتح“ ککفنہ․․․ إلی قولہ: وینشف في ثوبٍ إلخ․ (الدر المختار مع رد المحتار: ۳/ ۸۴-۸۹، ط: زکریا دیوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم

23/06/2023

نہیں بدلے گا تو یہ فتوی, مگر جب مودی یوگی چاہیں, اور معلوم کہ مودی یوگی ایسا چاہیں گے نہیں, وجہ ظاہر ہے, لہذا علماے بریلی بھی صبحِ قیامت تک اپنی ضد پر قائم رہیں گے.

(ویڈیو کلپ میں صدر مفتی اشرفیہ مفتی نظام الدین رضوی صاحب کا بیان ہے)

Tayammum Ke Farayez Aur Sharayet| Conditions Of Tayammum |Rules Of Tayammum|Rais Ahmad| 17/08/2022

https://youtu.be/SjRK_ZAAJKA

Tayammum Ke Farayez Aur Sharayet| Conditions Of Tayammum |Rules Of Tayammum|Rais Ahmad| Tayammum Ke Farayez Aur Sharayet| Conditions Of Tayammum |Rules Of Tayammum|Rais Ahmad|

شبهة القول بقتل المرتد 07/07/2022

گستاخ رسول کا قتل
علامہ شامی کے نظریات مع حواشی وتعلیقات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان احمد مصباحی
علامہ محمد امین ابن عابدین شامی (۱۲۵۲ھ/۱۸۳۶ء)انیسویں صدی کے ممتاز فقیہ اور عالم اسلام کے نمائندہ عالم دین تھے۔ الدر المختار پر ان کا حاشیہ جو رد المحتار یا فتاویٰ شامی کے نام سے معروف ہے ، گذشتہ دو سو سالوں میں،کتب فتاویٰ میں اسے علماے احناف کا سب سے بڑا ماخذ کہا جائےتو بے جا نہ ہوگا۔ اسی طرح ان کی رسم المفتی بر صغیر میں اصول و آداب فتویٰ کے لیے تمام بڑے مدارس میں شامل نصاب ہے۔ گستاخان انبیا و صحابہ کے حوالے سے ان کی کتاب تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام او احد اصحابہ الکرام اپنے موضوع پر ایک مکمل اور بصیرت افروز کتاب ہے۔ فقہ حنفی کی تحقیق اور عصر حاضر کے پس منظر میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔یہ کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب گستاخ رسول سے متعلق ہے، جب کہ دوسرا باب گستاخ صحابہ سے متعلق۔ یہاں ہم پہلے باب کی تلخیص کرتے ہیں۔اصل کتاب سے پہلے تمہید میںعلامہ شامی نے جو باتیں کی ہیں، ان میں یہ باتیں خاصی دلچسپ ہیں:
۱- اسلامی سزاؤں کے نفاذ کے لیے شہادت اور قضا ضروری ہے۔ یہ بات آج اس لیے بہت اہم ہے کہ موجودہ عہد میں عالم اور مفتی کہلانے والے بہت سے حضرات بھی بسا اوقات احترام قوانین کے بجائے لا قانونیت اور بدنظمی کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔
۲- حدود کا معاملہ یہ ہے کہ شبہات کی بنیاد پر یہ ساقط ہوجاتے ہیں، اسی لیے اگر کوئی شخص اسلام ظاہر کرتا ہو تو اگرچہ قرائن یہ ثابت کرتے ہوں کہ وہ ڈر کی وجہ سے اسلام قبول کر رہا ہے، پھر بھی اس کے ظاہر قول کا اعتبار کیا جائے گا اور اسے سزا سے باز رکھا جائے گا۔
۳- اگر تحقیق تام ہوجائے اور ماہ تمام کی طرح حق بے حجاب ہوجائے تو اس امت کے اصاغر کو بھی یہ حق ہوگا کہ اکابر کی باتوں کے ساتھ اپنا اختلاف درج کرادیں۔ یہ بات علامہ شامی نے اس پس منظر میں کہی ہے کہ جب انھوں نے گستاخ رسالت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو ان کے عہد کے بعض بڑے علما کو اس پر شبہات ہوئےجن کے ازالے کے لیےانہوں نے یہ کتاب لکھی۔
۴- جذبات کا تقاضا تو یہ ہے کہ گستاخ رسول کی توبہ قبول نہ ہواور بہر صورت اسے قتل کردیا جائے یا جلا دیا جائے، لیکن ہمیں ایسی دلائل نقلیہ مل گئیں، جن سے توبہ کی صورت میں قبولیت توبہ اور عدم قتل ثابت ہوتا ہے اور بہر کیف! دین میں عقل پر نقل غالب ہے۔
۵-علامہ شامی کےپیش نظر قاضی عیاض مالکی (۵۴۴ھ/۱۱۴۹ء) کی الشفاء، شیخ ابن تیمیہ (۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء) کی الصارم المسلول علی شاتم الرسول اور علامہ تقی الدین سبکی(۷۵۶ھ/۱۳۵۵ء) کی السیف المسلول علی من سب الرسول رہی ہیں۔ان کے بقول اس موضوع پر احناف کی طرف سے پہلی مفصل اور محقق کتاب ہے۔ (۱)
باب اول میں تین فصلیں ہیں۔پہلی فصل میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرتدگستاخ رسول اگر دوبارہ اسلام میں داخل ہونا چاہےتوبہتر، ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔دوسری فصل میں گستاخ رسول کی قبولیت توبہ اور اس کے بعد اس کے عدم قتل کے سلسلے میں مذہب امام ابوحنیفہ کی تحقیق وتنقیح کی گئی ہے۔تیسری فصل میں اس بات کی تحقیق کی گئی ہے کہ اسلامی ریاست کا اگر کوئی غیر مسلم شہری گستاخی کرتا ہے تب کیا احکام ہوں گے؟
مرتد گستاخ رسول کا قتل قبل توبہ اجماعی ہے
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان گستاخی رسالت کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس سے توبہ نہیں کرتا تو ایسے گستاخ کو لازمی طور پر قتل کردیا جائے گا۔ اس مسئلے پر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس چاروں سے استدلال کیا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے قرآن کی تین آیات نقل کی ہیں، جن میں سے دو (احزاب: ۵۷/توبہ: ۶۱)میں صرف عذاب و لعنت کا ذکر ہے، جب کہ تیسرے میں قتل کا بھی تذکرہ ہے۔(۲)
قبل توبہ مرتد گستاخ رسول کے قتل کے سلسلے میں علامہ شامی نے تین احادیث پیش کی ہیںجن میں پہلی وہ حدیث ہے، جس میں واقعۂ افک کے پس منظر میں عبد اللہ بن ابی سلول منافق کا ذکر ہے ۔ ایک دن نبی کریم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور دوران خطبہ آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی طرف سے مجھے کون جواب دے گا جس کی طرف سے مجھے اپنے اہل خانہ کے معاملے میں اذیت پہنچی ہے؟مَنْ يَعْذُرنِى مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَ أذَاهُ فِى أهلِ بَيْتِى؟ اس پر سعد بن معاذ نے کہا : حضور میں آپ کو اس شخص کی طرف سے جواب دیتا ہوں۔أنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللهِ!اگر اس کا تعلق میرے قبیلۂ اوس سے ہے تو میں اسے قتل کردوں گا اور اگر اس کا تعلق قبیلہ خزرج سے ہے تو جیسا آپ کا حکم ہوگا۔ علامہ شامی نے اس حدیث کو نقل کرکے اس سے بطور تقریر رسول گستاخ رسول کی سزا قتل ثابت کیا ہے۔ (۳)
علامہ شامی نے اس سلسلے میں دوسری حدیث کے طور پر فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی طرف سے بعض گستاخان رسول کے لیے فرمان قتل کو پیش کیا ہے۔آپ ﷺ نے اس موقع پر چند اہل مکہ کے قتل کیے جانے کا حکم صادر فرمایا، پھر ان میں سے بھی بعض کو کسی کی سفارش پر معاف کردیا اور بعض کو قتل کرادیا۔علامہ شامی نے اس واقعے سے گستاخ رسول کی سزاے قتل، جو ان کے نزدیک حد ہے ، ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔(۴)
اس سلسلے میں علامہ شامی کی پیش کردہ آخری حدیث یہ ہے: من سب نبيًا فاقتلوه، ومن سب أصحابي فاضربوه.(جو کسی نبی کی گستاخی کرے اسے قتل کردو اور جو میرے صحابہ کی گستاخی کرے اسے کوڑے لگاؤ۔علامہ شامی نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ اس کی سند میں عبد العزیز بن محمد ہیں جن پر ابن حبان وغیرہ نے جرح کیا ہےاور ابن صلاح اس کی سند سے واقف نہ ہوسکے، اس لیے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔(۵)
علامہ شامی نے اس مسئلےپر اجماع اور قیاس کا بھی حوالہ دیا ہے۔ قاضی عیاض مالکی کے حوالے سے لکھا: أجمعت الأمة على قتل متنقصه من المسلمين وسابه۔نبی کریم ﷺ کی شان میں اہانت اور گستاخی کرنے والے کے قتل پر امت کا اجماع ہے۔(۶)
قیاس کا حوالہ دیتے ہوئے علامہ شامی نے لکھا ہے کہ چوں کہ گستاخ رسول مرتد ہے اور مرتد کے قتل پر اجماع ہے(۷) اور بہت سے نصوص ہیں، لہٰذا گستاخ رسول بھی واجب القتل ہے۔ مرتد کے قتل پر جو نصوص دلالت کرتے ہیں، ان میں سے ایک کا حوالہ دیا ہے اور وہ یہ ہے: مَن بَدَّلَ دِینَہ فَاقتُلوہ۔ جو اپنا دین بدلے اسے قتل کردو۔ (۸)
گستاخ رسول مرتد کا قتل بطور حد ہے
گستاخ رسول مرتد کی سزائے قتل کے بارے میں علامہ شامی نے لکھا ہے کہ یہ سزا بطور حد ہے، محض کفر کے سبب نہیں ہے؛ کیوں کہ کافر حربی کا قتل بھی واجب نہیں ہوتا اور نہ اسے دوبارہ اسلام کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ مرتد کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر وہ بالغ مرد ہے اور توبہ نہیں کرتا ہے تو اسے واجبی طور پر قتل کردیا جائے گا۔
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ حدود ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو اللہ کی طرف سے مقرر ہوتی ہیں۔پھر حدود ثبوت کے بعد ساقط نہیں ہوتے، اس لیے حد میں سفارش بھی جائز نہیں۔ (۹)
علامہ ابن نجیم مصری نے البحر الرائق میں صرف چار حدود کا شمار کرایا ہے؛ حد زنا، حد سرقہ، حد شراب نوشی اور حد قذف۔ علامہ شامی نے لکھا ہے کہ تحقیق یہ ہے کہ راہ زن اور مرتد کی سزا بھی حد ہے، یہ الگ بات ہے کہ حنفیہ نےان کو کتاب الحدود کے بجائے کتاب الجہاد میں بیان کرنا زیادہ مناسب سمجھا ہے۔ علامہ شامی نے مزید لکھا ہے کہ حنفیہ میں سے کسی نے اسے حد نہیں کہا ہے اور حد نہ کہنا ہی ہمارے مطلوب کے زیادہ موافق ہے، لیکن انھوں نے حد کی جو تعریف کی ہے، اس کے پیش نظر تحقیق یہی ہے کہ اسے حد ہی کہا اور سمجھا جائے۔
علامہ شامی نے اپنے موقف پر یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ اگر ارتداد کی سزا حد ہے تو پھر اس کا اطلاق عورتوں پر کیوں نہیں ہوتا؟ اور پھر اس کا جواب دیا ہے کہ چوں کہ بسبب کفر عورتوں کے قتل سے شرع میں ممانعت آئی ہے، اس لیے ان کو ارتداد کی سزا سے بھی مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ (۱۰)
گستاخ مرتد کےقتل کی علت؟
علامہ شامی نے آگے لکھا ہے کہ مرتد گستاخ کے قتل کا سبب صرف ارتداد ہےیا صرف گستاخی،یا دونوں ہیں؟ حسب ذیل دونوں حدیثوں سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں اس کی علت ہوں:
۱-مَن بَدَّلَ دِینَہ فَاقتُلوہ۔
۲-من سب نبيًا فاقتلوه۔
لیکن یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اس کی علت ارتداد ہے، گستاخی کو اگر اس کی وجہ بتائی جاتی ہے تو وہ اس لیے کہ گستاخی خود بھی ارتداد ہے۔ گویا اصل وجہ ارتداد ہے، یہی وجہ ہے کہ گستاخی کے بعد اگر کوئی توبہ کرلیتا ہے تو چوں کہ اب ارتداد قائم نہیں رہا، اس لیے اس کی معافی ہوجاتی ہے اور گستاخی اگر کوئی غیر مسلم کرتا ہے تو حاکم اسلام کو از راہ سیاست اس میں قتل و عدم قتل کا اختیار ہوتا ہے، اس کا قتل بطور حد واجب نہیں ہوتا، چوں کہ وہاں پر ارتداد نہیں پایا گیا۔
علامہ شامی نے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ نکتہ بہت اہم ہے، اسے یاد رکھیں آئندہ بہت کام آئے گا۔
گستاخ رسول کی توبہ
مرتد گستاخ رسول کی توبہ کو علامہ شامی نے مختلف فیہ بتایا ہےاور اس سلسلے میں علما کے بہت سے حوالے پیش کیے ہیں۔اس تعلق سے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ اس کی توبہ قبول نہ ہوگی اور اسے بہر صورت قتل کیا جائے گا، دوسرا قول یہ لکھا ہے کہ اس کی توبہ عند الناس قبول نہیں ہوگی ، لہٰذا اسے بہر صورت قتل کیا جائے گی، جہاں تک عند اللہ کی بات ہے تو اس کی توبہ اس کو مفید ہوگی، ایک تیسرا قول یہ لکھا ہے کہ اگر وہ دوبارہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہوگی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ایک قول یہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعض لوگ اس میں گرفتاری سے پہلے توبہ اور گرفتاری کے بعد کی توبہ میں فرق کرتے ہیں۔ پہلی توبہ مقبول ہے جب کہ دوسری غیر مقبول۔
گستاخ رسول سے مطالبۂ توبہ
علامہ شامی نے کہا ہے کہ جن علما کی رائے یہ ہے کہ گستاخ رسول کی توبہ قبول نہیں ، ظاہر ہے ان کے یہاں مطالبۂ توبہ بھی نہیں ہے، البتہ جن کے یہاں اس کی توبہ مقبول ہے وہ مطالبۂ توبہ کے قائل ہیں۔ اب اس سلسلے میں اختلاف یہ ہے کہ اس سے یہ مطالبہ مستحب ہے یا واجب ہے۔علامہ شامی نے کہا ہےکہ چوں کہ گستاخ رسول کا کیس مرتد والا کیس ہے، اس لیے اس کی توبہ کے بھی وہی احکام ہوں گے جو مرتد کے احکام ہیں۔ احناف کی عبارات سے ظاہر ہے کہ یہ محض مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔فقہ حنفی کی متن کنز الدقائق میں ہے کہ مرتد کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، اس کے شبہات کا ازالہ کیا جائے گا اور تین دن تک اس کو قید میں رکھا جائے گا، اگر اس مدت میں وہ توبہ کرلیتا ہے تو فبہا، بصورت دیگر اگر وہ مرد ہے تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اگر عورت ہے تو اسے محبوس رکھا جائے گا۔
مذہب حنفی کی تحقیق
علامہ شامی نے فتاویٰ حامدیہ پر تعلیق لکھی تھی اور اس میں یہ بتایا تھا کہ مذہب امام میں مرتد گستاخ رسول کی توبہ قبول ہے اور توبہ کی صورت میں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس پر بعض معاصرین کو شبہہ ہوا تھا جس کے ازالے کے لیے علامہ شامی نے یہ رسالہ لکھا۔ اس ضمن میں انھوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ مذہب امام کے مطابق توبہ مقبول ہے اور توبہ کرلینے کی صورت میں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہی امام شافعی کا مذہب معروف ہے اور امام مالک اور امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے، الا یہ کہ مذہب امام کے مطابق اگر گستاخ عورت ہے تو اگر وہ توبہ نہیںکرتی ہے پھر بھی اسے قتل نہیں کیا جائے گا، اسےصرف قیدمیں رکھا جائے گا،جب تک وہ توبہ نہیں کرلیتی۔
اسی مسئلے کی تحقیق کے لیے یہ کتاب لکھی گئی ہے، اس لیے علامہ شامی نے اس مسئلے کو بہت تفصیل اور تحقیق سے لکھا ہےاور اس پر پیدا ہونے والے بعض شبہات کا ازالہ کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ فتاویٰ بزازیہ وغیرہ میں جو یہ منقول ہے کہ گستاخ رسول کی توبہ قبول نہیں ہے اور بہر صورت اسے قتل کیا جائے گا، یہ قاضی عیاض کی الشفا اور ابن تیمیہ کی الصارم المسلول کی بعض عبارات سے یہ شبہہ پیدا ہوا، جو تحقیق کے خلاف ہے۔ اس کے لیے انھوں نے متون حنفیہ کی عبارات کے علاوہ امام ابویوسف کا ایک فرمان بطور خاص پیش کیا ہے۔
طویل اعتراضات و جوابات کے بعد بطور خلاصہ علامہ شامی نے لکھا ہے کہ گستاخ رسول کے قتل و توبہ سے متعلق حنفیہ کے کل تین اقوال ہیں:
۱-کوئی توبہ قبول کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہونا چاہے تو اس کی توبہ قبول ہوگی اور قتل سے بچ جائے گا، ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
۲-بہر صورت اسے قتل کردیا جائےگا۔
۳-قاضی کی بارگاہ میں پیشی سے قبل توبہ قبول ہے، پیشی کےبعد نہیں۔
پھر آخر میں لکھا کہ ان میں پہلی رائے ہی دراصل مذہب امام ہے، جس کی میں نے تحقیق کی اور میں اسی کی تقلید کرتاہوں، اگرچہ اپنی تحقیق کسی پر مسلط نہیں کرتا۔
حق رسالت
گستاخ رسول کی معافی اور قبولیت توبہ کےسلسلے میں ایک شبہہ یہ پیش کیا جاتاہے اگر نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات ظاہری میں بعض گستاخوں کو معاف کیا تویہ ان کا حق تھا، لیکن اب ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم اسے معاف کریں، بلکہ یہ حق الرسول ہے، جس کی ادائیگی واجب ہے اور یہ ادائیگی قتل کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
علامہ شامی نے اس اعتراض کو نقل کیا ہے، پھر اس کے متعدد جواب دیے ہیں، مثلاً:
۱-نبی کریم ﷺ کی شان کریمی یہ ہے کہ وہ اپنی امت سے اپنے حق کے لیے انتقام نہیں لیتے، بلکہ اللہ کے حق کے لیے انتقام لیتے ہیں، اگر یہ حق الرسول ہے تو اس کے سقوط سے رضا ہی رحمت دوعالم ﷺ سے متصواور اگر حق اللہ ہے تو ظاہر ہے کہ وہ توبہ سے ساقط ہوجائے گا۔اور جہاں تک من سب نبیا فاقتلوہ کا معاملہ ہے تو یہ من بدل دینہ فاقتلوہ کی طرح ہے، جس میں توبہ ورجوع سے معافی ہوجاتی ہے۔
۲-ہمارے نزدیگ گستاخ رسول کی سزا ے قتل گستاخی کے سبب نہیں، ارتداد کے سبب ہے اور جب دوبارہ اس نے اسلام قبول کرلیا تو ارتداد رہا نہیں، اس لیے اسے اب سزا نہیں دی جائے گی۔
۳-حدیث پاک:ان الاسلام یجب ما قبلہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ماقبل کے سارے گناہ کو مٹادیتاہے اور اس عموم میں گستاخی رسالت کا گناہ بھی شامل ہے۔
۵-قبول اسلام کے بعد بھی اللہ کے رسول ﷺ نے کسی کو قتل کیا ہو، ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔ گویا توبہ کی صورت میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی امت کی گستاخی کے جرم کو خود ہی معاف کردیا ہے اور اب آپ کی معافی کے بعد کسی حاکم کونفاذ سزا کا حق نہیں دیا جاسکتا۔
۶-مختلف آیات مرتد کی توبہ کی قبولیت پر شاہد ہیں، مثلاً یہ آیت:
قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ(انفال: ۳۸)
آپ کفر کرنے والوں سےکہہ دیں کہ اگر وہ اپنے کفر سے باز آجاتے ہیں تو ان کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
غیر مسلم گستاخ رسول کی سزا
مسلم ریاست کے غیر مسلم شہری’’ذمی‘‘اگر گستاخی رسالت مآب کا مرتکب ہوتا ہے تو ائمۂ ثلاثہ کے نزدیک اس کا عقد ذمہ ٹوٹ جائے گا، یعنی اس کی شہریت منسوخ ہوجائےگی اور اسے قتل کردیا جائے گا، جب کہ مذہب حنفی کے مطابق نہ اس کی شہریت منسوخ ہوگی اور نہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ البتہ علامہ شامی کے مطابق تحقیق یہ ہے کہ اگر غیر مسلم کی گستاخی انتہائی اعلانیہ اور پے در پے ہوتی ہے تو اس صورت میں اگرچہ اس کی شہریت منسوخ نہیں ہوگی، لیکن اسے قتل کردیا جائے گا، خواہ وہ عورت ہی کیوں نہ۔ جو احناف اس صورت میں بھی عدم قتل کے قائل ہیں اور اس کی شہریت کی عدم منسوخی سے اس کے عدم قتل پر استدلال کرتے ہیں، وہ خطا پر ہیں۔ کیوں کہ شہریت کا منسوخ نہ ہونا عدم قتل کو مستلزم نہیں۔ اسی طرح متقدمین کے جو حوالے عدم قتل کے ہیں، وہ بطور حد کے ہیں، یعنی ایسے غیر مسلم کو بطور حد قتل نہیں کیا جائےگا، البتہ اگر حکمت و مصلحت قتل کی متقاضی ہو تو ایسی صورت میں حاکم اسے بطور تعزیر اور بطور سیاست قتل بھی کرسکتا ہے۔
دعوت فکر
یہ سارے احکام خود مختارمسلم ریاست کے ہیں۔ عالمی سیاست میں مجبور مسلم ریاست یا سیکولر ریاست میں گستاخ رسول کی سزا کیا ہو؟ یہ مسئلہ متقدمین کے یہاں نہیں تھا ، اس لیے ان کے یہاں یہ بحث بھی نہیں ہے۔ یہ ایک جدید اور اجتہادی نوعیت کا مسئلہ ہے، جس کی تحقیق ضروری ہے۔
اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے حدود متعین ہیں اور اپنے حدود میں خود مختار ہونے کے باوجود وہ سب کے سب بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے پر منحصر ہیں، جس کے لیے انہیں مختلف بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔الغرض اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک کلی طور سے بین الاقوامی معاملات میں خود مختار نہیں ہے۔ پھر بین الاقوامی سطح پر ان کی جو کچھ خود مختاری ہے وہ ان کی طاقت کے تناسب سے ہے۔ اس سیاق میں مسلم ممالک بطور خاص ضعف وانحلال کا شکار ہیں اور چوں کہ ان کا اپنا کوئی مضبوط وفاق نہیں ہے، اس لیے ان کی بین الاقوامی ساکھ بہت کمزور ہے۔ یہاں ایک دوسری بات یہ اہم ہے کہ موجودہ عہد گلونلائزیشن کا عہد ہے، اس لیے آج جو کچھ ایک ملک میں ہوتا ہے ، اس کے سیاسی، سماجی،معاشی، مذہبی اور نفسیاتی اثرات پوری دنیا میں مرتب ہوتے ہیں۔ اب ایسی صورت حال میں خود مسلم ممالک کے لیے یہ پورے طور پر ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے حدود میں ارتداد کی سزا قتل نافذ کرسکیں۔ ایسا کرنا ان کے لیے بین الاقوامی تعلقات سے دست برداری اورسیکولر ممالک میں مسلمانوں کے گرد زندگی کا حصار تنگ کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ جس طرح سیکولر ممالک میں آزادی رائے کا قانون ہے، جس کی وجہ سے وہاں مسلم مبلغین دعوتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، مذہب کے اختیار و تبدیلی کے معاملات میں مسلم ممالک کو بھی آزادی فکر کو قانونی درجہ دینا ہوگا جس کا ذکر آیت کریمہ لا اکراہ فی الدین میں آیا ہے۔رہی بات گستاخ رسول کے قتل کی تو جیسا کہ علامہ شامی کی تحقیق گزری کہ احناف محققین کے نزدیک یہ صرف بعض صورتوں میں ہے، لیکن آج ان بعض صورتوں پر عمل درآمدگی کے لیے بھی مسلم حکمرانوں کو بین الاقوامی فورم پر اپنا مقدمہ مضبوطی سے رکھنا ہوگا۔
رہی بات سیکولر ریاستوں کی تو ظاہر ہے کہ وہاں اس کے لیےجو قانون ہوگا، اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا اور ظاہر ہے کہ سیکولر ریاستوں میں گستاخی یا ارتداد کی سزا قتل نہیں ہوسکتی۔ عالمی سطح پر آزادی مذہب کو اور اس کے ذیل میں تبدیلی مذہب کو ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس لیے ارتداد پر سزا اور وہ بھی سزاے قتل، سیکولر ریاستوں میںاس کا تو تصور ہی نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک گستاخی رسالت کی بات ہے تو اس کا تعلق مذہبی جذبات کی مجروحیت سے ہے اور اس حوالے سے مختلف ممالک میں بعض دفعات موجود ہیں، جن کے تحت گستاخی رسول کا مقدمہ فائل کیا جاسکتا ہے۔اس میں مزید شدت کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ بعض احباب اس بات کے بھی قائل ہیں کہ وہاں بھی سزاے قتل کا مطالبہ کیا جائے۔ میری حقیر رائے میں ایسا مطالبہ چند وجوہ سے قرین حکمت نہیں ہے:
۱-جوڈھول پھٹ گیا ہو اور اس کے بجنے کی امید نہ ہو، اس کو پیٹے جانا ایک سعی لاحاصل ہے۔
۲-ایسے وقت میں جب کہ دنیا نےاظہار رائے کی آزادی کو انسان کے بنیادی حقوق میں شامل کرلیا ہے اور بعض دفعہ آزادی رائے اور گستاخی کا فرق بہت مشکل ہوجاتا ہے، ایسے میں دنیا اس جرم کو قابل موت جرم تسلیم کرلے، عملاً ناممکن ہے۔
۳-بالفرض اگر ایسا مطالبہ ہوتا ہے تو سیکولر ریاستوں میں صرف پیغمبر اسلامﷺ کی گستاخی کے لیے ایسا مطالبہ کرنامنصفانہ نہ ہوگا اور نہ صرف پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے اس کا تسلیم کیا جانا ممکن ہوگا،ایسے میں بفرض محال اگر کوئی ایسا قانون بنتا ہے تو ظاہر ہے کہ دیگر مذاہب کے تقدسات کی گستاخی بھی اس میں شامل ہوگی جس کا شکار بدقسمتی سے مسلمان ہوں گے۔ اس لیے اس حوالے سے ہمیں حال اور جذبات کے ساتھ مآل اور نتائج کی بھی فکر کرنی چاہیے۔
آخری بات یہ کہ قانون ہاتھ میں لینا شرعی، قانونی اور اخلاقی جرم ہے، جس کی حوصلہ افزائی کسی صورت نہیں کی جاسکتی۔
یہ اس مسئلے کااجمالی خاکہ ہے، اس کی تفصیلی تحقیق وتجزیہ ابھی باقی ہے۔مولیٰ کریم توفیقات بخشے۔
ظظظظ
حواشی وتعلیقات
(۱)-اس سے پہلے احناف کے یہ رسالے بھی اسی موضوع پر ہیں: -۱-السيف المشهور على الزنديق وشاتم الرسول/ أخوين(۹۰۴ھـ) -۲-رسالة/حسام جلبي (۹۲۶ھـ) - ۳-السيف المسلول في سب الرسول/ ابن كمال باشا(۹۴۰ھـ) -۴-رشق السهام في أضلاع من سب النبي عليه السلام/ابن طولون (۹۵۳ھـ)
(۲)پہلی آیت یہ ہے:إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا (احزاب: ۵۷)بےشک جو لوگ اللہ و رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں ، دنیا اور آخرت میں ان پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔
دوسری آیت یہ ہے: وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (توبہ: ۶۱)انہیں میں کچھ لوگ وہ ہیں جو پیغمبر کو اذیت دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر کان کے کچے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ وہ کان تمہاری بھلائی کے لیے ہیں۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتےہیں اور اہل ایمان کی باتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ تم میں جو اہل ایمان ہیں ان کے لیے انتہائی رحمت ہیں۔ البتہ جو لوگ رسول اللہ کو اذیت دے رہے ہیں، ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
تیسری آیت یہ ہے: لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا -مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (الاحزاب: ۶۰-۶۱) منافقین ، وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہےاور جو مدینے میں افواہوں کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں،اگر اب بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے ہیں تو ہم آپ کو ان کے اوپر مسلط کردیں گے، پھر وہ آپ کے قریب کچھ دن ہی ٹھہر پائیں گے(۶۰)،ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھار ہوگی اور جہاں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح قتل کیے جائیں گے۔ (۶۱)علامہ شامی نے اس مقام پر صرف آیت نمبر ۶۱ کو نقل کیا ہے، جس میں حکم قتل ہے۔ یہ حکم قتل کن کے تعلق سے ہے ؟ اس کا ذکر اس سے پہلے والی آیت میں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم بعض منافقین، مریض القلب اور افواہیں پھیلانے والوں سے متعلق ہے۔ یہ شدید حکم ان سے متعلق کیوں ہے؟ اس کی وضاحت علامہ جصاص کی اس توجیہ سے ہوتی ہے۔ مشہور حنفی فقیہ علامہ ابوبکر جصاص (۳۷۰ھ)لکھتے ہیں: ’’کچھ منافقین اور کچھ دوسرے بے بصیرت اور ضعیف الاعتقاد لوگ ایسے تھے جو افواہ پھیلا رہے تھے کہ کفارو مشرکین جمع ہوچکے ہیں، وہ مضبوط اور متفق ہیں اور مسلمانوں کی طرف آرہے ہیں۔ وہ اس طرح کفار کی ہیبت بڑھاتے اور مسلمانوں کو ان سے ڈراتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہی کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی اوریہ حکم فرمایا کہ ایسے لوگ اپنی ان حرکتوں سے باز نہیں آتے توقتل اور شہر بدر کیے جانے کے مستحق ہیں۔ ‘‘(احکام القرآن، متعلقہ آیت)اس توجیہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں ؛ ایک یہ کہ یہ آیت راست طور پر گستاخ رسول کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اسلامی ریاست کی فوج میں بزدلی پیدا کرنے والے اور دشمن کے تعلق سے غلط افواہیں گرم کرنے والوں کے لیے ہیں۔ ایسا عمل ریاست کے خلاف سازش اور بغاوت کا عمل ہے، نہ کہ مجرد گستاخی رسالت کا عمل۔ پھر اس پر بھی جو قتل کی سزا ہے وہ اس شرط سے مشروط ہے کہ اگر یہ لوگ اس عمل سے باز نہیں آتے اور اسی پر مصر رہتے ہیں تب یہ سزا ہے۔
(۳)جب کہ معاملہ یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ کے بعد، سعد بن عبادہ-جن کا تعلق خزرج سے تھا- کھڑے ہوئے اور وہ سعد بن معاذ کے خلاف بولنے لگےاور اس کے بعد محفل میں نزاع کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ بالآخر نبی کریم ﷺ نے سب کو خاموش کرایا اور آپ بھی خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد عبد اللہ ابن ابی سلول سالوں زندہ رہا، حتیٰ کہ آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ تو کیا محض اتنی سی بات سےگستاخ رسول کے لیے حد کا ثبوت ہوجاتا ہے؟وہ حد جو کہ من اللہ متعین سزا ہے جس میں تبدیلی کا اختیار خود پیغمبر کو نہیں ہوتا۔
(۴) سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے حق میں آپ ﷺ نے عام معافی کا حکم دیا، کیا ان میں کوئی گستاخ نہیں تھا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا جن کے قتل کا حکم دیا گیاوہ عام سے گستاخ تھےیا ان کا اسپیشل کیس تھا؟اور کیا اسپیشل کیس میں کسی کو قتل کرادیاجائے تو اس سے عام حالات میں قتل کرنے کا ثبوت بطور حد ہوجاتا ہے؟بطور خاص اس صورت میں کہ حنفیہ-بشمول علامہ شامی-اس بات کے قائل ہیں کہ قتل کی علت گستاخی نہیں، بلکہ گستاخی کے ضمن میں ارتداد ہے۔ تو کیا جن لوگوں کو قتل کرایا گیا وہ سب مرتد تھے؟یہ تیسرا سوال ہے۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جن ظالموں اور گستاخوں نےحضور ﷺ کی اذیت ناکی میں انتہا کی تھی اور جن کی معافی ہوئی ان میں عم رسول حضرت حمزہ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ، بزبان خود اس وقت رسول اور اصحاب رسول کی نظر میں سب سے بدتر سہیل بن عمرو، فتح مکہ کے موقع پر قتل رسول کا ارادہ رکھنے والےفضالہ بن عمیر لیثی، اسلام اور مسلمانوں کا ہجو گو شاعرعبد الله بن زبعری ، کعب بن زہیراور ان جیسے بے شمار لوگ تھے جو رسول اللہ ﷺ کے گستاخ ، ان کو اذیتیں پہنچانے والے اور ان کے محبوبین کو قتل کرنے والے تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو عام اعلان معافی کے بعد بھی اپنی سابقہ گستاخیوں اور شرانگیزیوں کے سبب فراریا روپوش ہوگئے تھے، جن کے لیے مختلف اصحاب رسول نے خصوصی سفارشیں کیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو امان دے دیا۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے امان پانے سے پہلے یا اس کے بعد بھی فوراًاسلام قبول نہیں کیا، بلکہ ایک زمانے تک کفر پر قائم رہے، مثلاً صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو وغیرہ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ عند التحقیق فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نےجن افراد کے قتل کیے جانے کا حکم دیا، یہ مجرد گستاخ رسول نہیں تھے، بلکہ بڑے سنگین مجرم تھے، جو اپنے جرم کی سنگینی کے سبب واجب القتل تھے۔ پھر ان میں بھی ایک طبقہ ایسا تھا جسے قبول اسلام کی صورت میں یا محض معافی تلافی کی صورت میں معاف کردیا گیا۔ اسلام قبول کرنے والوں میں عبد اللہ بن سعد، قریبہ، سارہ، ہبار بن اسود، وحشی بن حرب، کعب بن زہیر، عبد اللہ بن زبعری اورہندہ بنت عتبہ ہیں، جب کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی امان پانے والوں میں حرث بن ہشام، زہیر بن ابی امیہ ، عکرمہ بن ابوجہل اور صفوان بن امیہ ہیں۔ ان میں کون ہے جو اعلیٰ درجے کا گستاخ نہ ہو۔اس موقع پر جن افراد کو قتل کیا گیا وہ یہ ہیں:
۱-ابن خطل مسلمان ہوا تھا، اس نے اپنےمسلم غلام کو قتل کردیا، پھر قصاص کے خوف سے مرتد ہوگیا، پھر پیغمبر ﷺ کی ہجو گوئی شروع کردی اور اپنی باندیوں سے ہجو سننے لگا۔گویا اس کے قتل کے پیچھے اس کے دیگر جرائم کے ساتھ مقدمۂ قصاص بھی ہے۔
۲-مقیس بن صبابہ مسلمان ہوا تھا، پھر ایک انصاری مسلمان کو قتل کیا تھا اور اس کے بعد مرتد ہوکر مکہ آگیا تھا۔گویا اس کے خلاف جو مقدمات تھے ان میں قصاص کا مقدمہ بھی تھا۔
۳-حویرث بن نقیذ، شاعر تھا، حضور کی ہجو کرتا تھااور آپ کے درپے آزار رہتا تھا۔ حضرت عباس جب حضور ﷺ کی صاحب زادیوں سیدہ فاطمہ اورسیدہ ام کلثوم کو مکہ سے لے جارہے تھے، اس نے ان کا تعاقب کیا، ان کی اونٹنی کو نیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ گر پڑیں۔
۴- فرتنیٰ، ابن خطل کی دو باندیوں میں سے ایک، جو حضور اکرم ﷺ کی ہجو گایا کرتی تھیں۔ ۵-حارث بن طلاطل، شاعر تھا اور نبی اکرم ﷺ کی ہجو گوئی کیا کرتا تھا۔
یہ کہنا کہ صرف یہی پانچ گستاخ تھے باقی گستاخ نہیں تھی، اعلیٰ درجے کی سادہ لوحی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جن کو معاف کردیا گیا وہ گستاخ نہیں تھے اور جن کو قتل کیا گیا صرف وہی گستاخ تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ پانچوں مرتد تھے اور ان کے علاوہ کوئی مرتد نہیں تھا،بلکہ معاملہ کچھ اور ہے:
علامہ شبلی نعمانی نے کہا ہے کہ صرف ابن خطل کا قتل بخاری کی روایت سے ثابت ہے۔ اسی طرح مقیس کا قتل بھی از روئے قصاص ہے۔ باقی قتل کے جو بھی واقعات ہیں، ان سب میں ضعف ہے۔ نیز از روئے درایت بھی درست نہیں، کیوں کہ حضور نے اپنے لیے بڑے سے بڑے دشمن سے انتقام نہیں لیا۔ (سیرۃ النبی: ۱/۳۷۲)عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْوَاللَّهِ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ قَطُّ، حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ، فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ.(صحیح البخاری:۸/۱۶۰)
مولانا وحید الدین خان کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ نے کل سترہ لوگوں کے قتل کا حکم دیا تھا، جن میں سے گیارہ افراد کو براہ راست یا بالواسطہ طلب معافی پر معاف کردیا گیا، پانچ آدمی جنھوں نے معافی کی درخواست نہیں کی تھی، انہیں قتل کیا گیا اور ایک شخص بھاگ گیا جو طبعی موت مرا۔ بہر کیف! طلب معافی کے بعد کسی کو بھی قتل نہیں کیا گیا۔(پیغمبر انقلاب: ۱۶۰)
ڈاکٹر طاہر القادری کی تحقیق کے مطابق اس موقع پر صرف ابن خطل، مقیس بن صبابہ اور حویرث بن نفیذکا قتل ہوا، اول الذکر دوکے خلاف دیگر مقدمات کے ساتھ قصاص کا مقدمہ بھی تھا، جب کہ تیسرے کا قتل اگرچہ گستاخی رسالت کے جرم میں ہوا، لیکن اس کے علاوہ دیگر جرائم بھی رہے ہوں گے، کیوں کہ حضور ذاتی انتقام کے قائل نہیں تھے۔(سیرۃ الرسول: ۸/۶۷۳)
ایسے میں چند خصوصی مجرموں کے قتل کی بنیاد پر بطور عموم گستاخ رسول کی سزاے قتل کو حد ثابت کرنا،دراصل ایک مخصوص دلیل سےایک عام اور کلی حکم کا اثبات ہے۔
(۵)طبرانی کی معجم صغیر، قاضی عیاض کی شفا اور تمام رازی کی فوائداور دیگر متاخر اورثانوی کتابوں میں منقول ہے۔ ان میں سے ہر روایت سنداً ضعیف ہےجس سے حدود کا اثبات نہیں ہوتا، بلکہ حنفیہ میں امام کرخی وغیرہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ باب حدود میں سرے سے خبر واحد معتبر ہی نہیں ہے۔
(۶)گستاخ رسول کی سزائے قتل اجماعی ہے، یہ بات درست ہوتے ہوئے بھی مبہم ہے، اس کی وضاحت حسب ذیل تین مقدمات سے ہوتی ہے:
۱-احناف کے نزدیک اس قتل کی علت ارتداد ہے، نفس گستاخی نہیں ہے۔احناف، شوافع اور ایک روایت کے مطابق مالکیہ کا مذہب محقق یہی ہے کہ شاتم رسول کا حکم بھی عام مرتد کا ہےاور شتم رسول فی نفسہ حدِ قتل کا موجِب نہیں ہے، جیسا کہ حنابلہ اور عام مالکیہ کا موقف ہے۔
۲-ارتداد کی وجہ سے قتل بھی مطلقاً نہیں ہے، بلکہ احناف کے یہاں، محاربہ اور بغاوت ہے، یہی وجہ ہے کہ احناف کے نزدیک اس قانون کا اطلاق بچوں اور عورتوں پر نہیں ہوتا۔ اصول بزدوی میں ہے: وقلنا في الصبي إذا ارتد أن لا يقتل وان صحت ردته عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله لان القتل يجب بالمحاربة لا بعين الردة ولم يوجد فاشبه ردة المرأة.(۳۲۷)
۳-پھر ارتداد کی صورت میں بھی معافی کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ حکم ارتداد کے بعد قتل سے قبل احناف کے نزدیک مستحب ہے کہ اسے توبہ اور تجدید ایمان کی دعوت دی جائے اور اسے تین دن کی مہلت دی جائے، اگرچہ یہ واجب نہیں ہے۔شوافع اور مالکیہ کے یہاں یہ واجب ہے۔ حنابلہ سے بھی ایک روایت یہی ہے، جب کہ دوسری روایت ہے کہ اسی وقت اس پر اسلام پیش کیا جائے، اگر قبول کرلے تو فبہا ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔( الفقہ علی المذاھب الاربعۃ: ۵/۳۷۴)
(۷)قتل مرتد پر اجماع کے حوالے سے مذکورہ بالا تین مقدمات کو نظر میں رکھنا چاہیے۔
(۸)یہ حدیث صحیح ہے جس کو امام احمد، بخاری، ترمذی، ابوداؤود اور دیگر ائمہ حدیث نے نقل کیا ہے۔ اس سلسلے میں مفتی جمہوریہ مصر مفتی شوقی علام کے ایک تفصیلی فتوے کا یہ اقتباس بہت اہم ہے:’’ ازہر کے سابق شیخ الجامعہ شیخ شلتوت رحمہ اللہ کی رائے میں مرتد کا قتل حد نہیں ہے۔ فرماتے ہیں:’’اس مسئلے میں ایک مختلف زاویۂ نظر بھی ہے۔ قابل غور ہے کہ بہت سے علما نے لکھا ہے کہ حدود، احادیث احاد سے ثابت نہیں ہوتےاور یہ کہ نفس کفر، جواز قتل کو ثابت نہیں کرتا،قتل کا جواز مسلمانوں سے قتال ،ان کے خلاف بغاوت اور ان کے دین میں فتنہ اندازی سے ثابت ہوتا ہے۔نیز قرآن کی بہت سی آیات کا ظاہر اکراہ فی الدین کے خلاف ہے۔‘‘لہٰذا قتل مرتد کا سبب محض ارتداد نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ایک زائد امر بھی شامل ہے جو مسلمانوں کے بیچ تفریق پیدا کرنے سے عبارت ہے۔ چوں کہ لوگ ارتداد کے عمل کو مسلمانوں کو ان کے دین سے مرتد بنانے کے لیے انجام دیتے تھے، جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے: وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (آل عمران: ۷۲)اہل کتاب کے ایک گروہ نے کہا کہ اہل اسلام پر جو دین نازل ہوا ہے، اس پر صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو اس سے پھر جاؤ، تاکہ یہ سب بھی مرتد ہوجائیں۔۔۔۔سابقہ گفتگو سے ہمارے سامنے یہ بھی واضح ہوا کہ قتل مرتد کا قضیہ موجودہ عملی زندگی میں قابل انطباق نہیں ہےاور تشریعی مصادر میں اس کا وجود آزادی فکر و عقیدہ کے خلاف بطور سزا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انتظامی قانون سے ہے۔ وَمِمَّا سَبَقَ يَتَبَيَّنُ لَنَا: أَنَّ قَضِيَّةَ قَتلِ المُرتَدِّ غَيرُ مُطَبَّقَةٍ فِي الوَاقِعِ العَمَلِي المَعِيشِ، وَوُجُودُهَا فِي المَصَادِرِ التَّشرِيعِيِّةِ لَم يَكُن عُقُوبةً ضِدَّ حُرِّيَةِ الفِكرِ وَالعَقِيدَةِ، وَإِنَّمَا تَخضَعُ لِلقَانُونِ الإِدَارِي. ‘‘ (www.dar-alifta.org/AR/Viewstatement.aspx?sec=media&ID=4435)
(۹)علامہ شامی نے حدود کی یہ درست توضیح کی ہے۔ اسی سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ان اصحاب نظر کی رائے زیادہ درست معلوم ہوتی ہے جو گستاخی رسالت کے جرم کو حد نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے گستاخوں کے معاملات میں صحابہ کی طرف سے سفارش اور اس سفارش پر پیغمبر رحمت علیہ السلام کی طرف سے معافی کے واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً عبد اللہ ابن ابی سرح کی سفارش حضرت عثمان نے کی، عکرمہ بن ابوجہل کی ان کی زوجہ ام حکیم نے، کعب بن زہیر کی حضرت ابوبکر نے، حارث بن ہشام اور زہیر بن ابی امیہ کی حضرت ام ہانی نے اور صفوان بن امیہ کی عمیر بن وہب نے سفارش کی اور حضور اکرم ﷺ نے ان سفارشات کو قبول فرمایا اور ان افراد کو امان دیا جو اس سے قبل اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن اور حضور نبی کریم ﷺ کے کھلے گستاخ تھے۔
(۱۰)اس توجیہ سے کم از کم یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قتل مرتد کے حکم میں تخصیص ہے، یہ صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ اب اس کے بعد سوال یہ پیداہوتا ہے - بطورخاص عہد جدید میں- کہ قتل مرتد کی علت کیا ہے؟ کیا اس حکم کی کوئی عقلی توجیہ بھی ہے یا خلاف عقل محض یہ ایک دینی فریضہ ہے؟ ان سوالات کے پیش نظر عہد جدید میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مرتد کے قتل کو بہرحال ضروری نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اس کے لیے قیدوبند کو بھی ایک متبادل سزا تسلیم کرتے تھے۔ ابراہیم نخعی اور پھر سفیان ثوری بھی مرتدکے قید کیے جانے کے ہی قائل تھے۔(مصنف عبد الرزاق،كتاب اللقطة، باب في الكفر بعد الإيمان) اس حکم کی عقلی توجیہ کے سلسلے میں شاہ ولی اللہ صاحب کی رائے یہ ہے کہ در اصل یہ نجات اخروی کے پیش نظر اخلاقی اور دینی جبر کے تحت ہے۔ ابن تیمیہ کی رائے یہ ہے کہ ارتداد دراصل تحفظ اسلام اور دفاع دین کے لیے ہے۔ مولانا مودوی اسے نظام اسلامی کو اختلال سے بچاؤ کے معنی میں لیتے ہیں۔جاوید غامدی اسے مشرکین عرب کے لیےخاص مانتے ہیں اور اس کے لیے وہ دلیل اتمام حجت کو پیش کرتے ہیں، جب کہ محمد عمار خان ناصر اسی اصول کے تحت اسےعہد رسالت کے مشرکین واہل کتاب کے لیے عام سمجھتے ہیں۔ فقہاے احناف اسے محاربہ کا ہم معنی سمجھتے ہیں۔ عمر احمد عثمانی کی رائے میں یہ بالفعل محاربہ کی سزا ہے اور اس وقت ارتداد کی صورت یہی تھی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: حدود وتعزیرات/ محمد عمار خان ناصر)میری رائے میں عمر احمد عثمانی کی رائے فقہاے احناف کی رائے کی ہی توضیح و تشریح ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک یہی رائے درست ہے، جس کی تائید قتل مرتدکے حوالے سے منقول روایات کے بعض کلمات سے ہوتی ہے۔ رَجُلٌ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلاَمِ(بخاری:كِتَابُ الدِّيَاتِ،بَابُ القَسَامَةِ) وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ(مسلم،كِتَابُ الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ،بَابُ مَا يُبَاحُ بِهِ دَمُ الْمُسْلِمِ)ان روایات میں مرتد کے لیے حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ اورالْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِکےالفاظ سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ قتل مرتد کی بنا محض ارتداد پر نہیں، بلکہ اللہ و رسول سے محاربہ اور جماعت اسلامیہ میں محاربہ پر مبنی ہے۔ ان دونوں الفاظ کا اجمال لفظ ’’بغاوت‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔اس اجمال کی تفصیل ان شاء اللہ پھر کبھی۔

(مولانا )ذیشان احمد مصباحی
جامعہ عارفیہ۔سیدسراواں۔

شبهة القول بقتل المرتد تمثل قضية "قتل المرتد" في الفكر الغربي إشكالية كبيرة، فيظنون أن الإسلام يُكْرِه الناس حتى يتبعوه، ويغفلون عن دستور المسلمين في قضية حرية الاعتقاد التي يمثلها ق...

Want your school to be the top-listed School/college in Bhubaneswar?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

#masjidnabawi
Khulasa e Quran 03
#AgniPariksha #Aag_me_kudne_k_challenge
#Happy_Republic_Day
#happyrepublicday2024
Urs Mahboobe ilahi & Mahboobe Subhahi
#madina #madinasharif
#Urs_Mujaddide_Alf_e_Sani_Sarhindi_Farooqi_RA#مجددالف #ثانی
#Jannati #fifa23 #FIFAWorldCup

Telephone

Address


Puri Bhubaneswar Road
Bhubaneswar
751002

Other Education Websites in Bhubaneswar (show all)
OJTA_Odisha Junior Teachers' Association OJTA_Odisha Junior Teachers' Association
Bhubaneswar, Odisha
Bhubaneswar, 751001

OJTA ( Odisha Junior Teachers'Association) is always ready to help Elementary teachers of Odisha

Eduflicks.in Eduflicks.in
Bhubaneswar

We are a group of people who prefer to live on the edge, push our limits, do more and live more. We

Asst.Prof D.R Sahoo-GEC-Gandhi Business School Asst.Prof D.R Sahoo-GEC-Gandhi Business School
Gandhi Vihar
Bhubaneswar, 752054

A professionally managed and self cultured program for graduate students. This is Masters in Business Administration, at Gandhi Business School. A program with NAAC accreditation a...

BTAI Certified Course BTAI Certified Course
XIMB
Bhubaneswar, 751013

A place where you will learn how AI can help in transforming businesses.

OKCL Mastering Series OKCL Mastering Series
Jaydev Vihar
Bhubaneswar, 751013

Mastering series can be explained in simple words as a “Test Series”. We have launched this with

GITA Department Of CIVIL GITA Department Of CIVIL
BADARAGHUNATHPUR, MADANPUR, JANLA, ODISHA Bhubaneswar
Bhubaneswar, 752054

The Page aims to provide all the information regarding Gita civil branch including its fests,college life,infrastaructure and achievements.

Afilmyhit.eu.org Afilmyhit.eu.org
Bhubaneswar

Movie Reviews, Entertainment News, OTT Release - https://www.afilmyhit.eu.org

Er Deepak Kumar Er Deepak Kumar
BHUBANESWAR ODISHA
Bhubaneswar, 751001

I choose my own destiny. I’m not trying to be different. To me, I’m just being myself. I’m a simple

Iims Bhubaneswar Iims Bhubaneswar
Khandagiri, Odisha
Bhubaneswar, 751030

Admission OPEN for BBA / BSc-ITM / BJMC / MA-PMIR / BDF / PGDM

Diploma Electrical Engineering Diploma Electrical Engineering
Bhubaneswar

📚Diploma⚡️Electrical⚙️Engineer (DipEEngg) ▪️▪️▪️▪️ USiNo 10(a)(b) ▪️▪️ BGSPlusLYB (📚Learn-⚡️Yearn-🔬Brilliance)

Digital_skilled Digital_skilled
Bhubaneswar

OdishaCa OdishaCa
Odisha
Bhubaneswar

this page is mainly related to current affairs of Odisha, National and international level.