Kalam-Ka-Fasana
"Inked Expressions: Journeying through the Captivating World of Poetry 📚"
like & share
Kalam-Ka-Fasana
غصہ بھی ہے تہذیب تعلق کا طلب گار
ہم چپ ہیں، بھرے بیٹھے ہیں، غصہ نہ کریں گے
Kalam-Ka-Fasana
مسلک جُدا مِلے، کہیں فرقے جُدا مِلِے..
اب ایسی بِھیڑ بٙھاڑ میں، کیسے خُدا مِلے؟
Kalam-Ka-Fasana
وہ دونوں کلاس فیلو تھے‘ لڑکی پوری یونیورسٹی میں خوبصورت تھی اور لڑکا تمام لڑکوں میں وجیہہ‘ دونوں ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے اور آخر میں دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے‘ معاملہ رومیو جولیٹ جیسا تھا‘ دونوں کے خاندان ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے‘ شادی مشکل تھی‘ دونوں باعزت گھرانوں کے سعادت مند بچے تھے‘ یہ بھاگ کر شادی کیلئے تیار نہیں تھے اور خاندان اپنے اپنے شملے نیچے
نہیں لا رہے تھے لہٰذا معاملہ پھنس گیا‘ لڑکے اور لڑکی نے پوری زندگی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ دونوں اپنے اپنے گھر میں رہتے رہے‘ پانچ سال دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہ ہوا‘ والدین شادی کی کوشش کرتے مگر یہ انکار کرتے رہے یہاں تک کہ لڑکی کے والدین ہار مان گئے‘ لڑکی نے لڑکے کو فون کیا‘ لڑکے نے فون اٹھایا‘ لڑکی کی صرف ہیلو سنی اور کہا ”مجھے بتاؤ‘ میں نے بارات لے کر کب آنا ہے“ دونوں کے والدین ملے‘ شادی ہوئی اور دونوں نے اپنا گھر آباد کر لیا‘ لڑکے نے کاروبار شروع کیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور وہ خوش حال ہو گئے‘ یہ شادی بیس سال چلی‘ اس دوران تین بچے ہو گئے‘ خاتون کو اپنے حسن‘ اپنی خوبصورتی پر بہت ناز تھا‘ وہ تھی بھی ناز کے قابل‘ وہ 45 سال اور تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود جوان لگتی تھی‘ خاوند بھی روز اول کی طرح اس پر فریفتہ تھا‘ وہ روز جی بھر کر بیوی کی تعریف کرتا تھا لیکن پھر ایک دن وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا‘ خاتون کی پر چھوٹی سی گلٹی نکلی اور یہ گلٹی پھیلتے پھیلتے ناسور بن گئی‘ ڈاکٹروں کو دکھایا‘ ٹیسٹ ہوئے‘ پتہ چلا خاتون جلد کے کینسر میں مبتلا ہیں‘ خاوند صرف خاوند نہیں تھا وہ اپنی بیوی کا مہینوال تھا‘ وہ اپنی ران چیر کر بیوی کو کباب بنا کر کھلا سکتا تھا‘ وہ بیوی کو لے کر دنیا جہاں کے ڈاکٹروں کے پاس گیا‘ ایک کلینک سے دوسرے کلینک‘ ایک ڈاکٹر سے
دوسرے ڈاکٹر اور ایک ملک سے دوسرے ملک‘ وہ دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا‘ خاتون کا جسم گلٹیوں سے بھر گیا‘ یہ مصیبت ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ایک دن دوسری آفت آن پڑی‘ خاوند کی گاڑی ٹرک سے ٹکرائی اور وہ شدید زخمی ہو گیا‘ وہ ہسپتال پہنچا‘ پتہ چلا وہ بینائی کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے‘ آپ اس کے بعد المیہ ملاحظہ کیجئے‘ شہر کا خوبصورت ترین جوڑا‘ بدقسمتی‘ ب جلد کے کینسر کی مریض اور خاوند آنکھوں سے اندھا‘
لوگ انہیں دیکھتے تھے تو کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے لیکن یہ دونوں اس کے باوجود مطمئن تھے‘ یہ روز صبح باغ میں واک بھی کرتے تھے‘ سینما بھی جاتے تھے اور ریستورانوں میں کھانا بھی کھاتے تھے‘ بیوی خاوند کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ ساتھ چلتی تھی‘ وہ اسے گائیڈ کرتی تھی اور خاوند بیوی کی گائیڈینس پر چلتا جاتا تھا‘ یہ سلسلہ بھی کئی ماہ تک چلتا رہالیکن پھر بیوی نے خاوند سے ایک عجیب مطالبہ کر دیا‘ وہ اکیلی سوئٹزرلینڈ جانا چاہتی تھی‘ خاوند نے وجہ پوچھی‘ بیوی کا کہنا تھا وہ دس پندرہ دن اکیلی رہنا چاہتی ہے‘
خاوند نے اس کے ساتھ جانے کی ضد کی لیکن وہ نہ مانی‘ اصرار اور انکار بڑھتا رہا یہاں تک کہ آخر میں وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوتا ہے‘ خاوند نے بیوی کو اجازت دے دی۔بیوی سوئٹزر لینڈ چلی گئی‘ خاوند نے وہ دس دن بڑی مشکل سے گزارے‘ وہ شادی کے 20 برسوں میں ایک دن کیلئے بھی اکیلے نہیں ہوئے تھے‘ یہ ان کی جدائی کے پہلے دس دن تھے‘ یہ دس دن پہاڑ تھے‘ خاوند اس پہاڑ تلے سسکتا رہا‘ دس دن بعد بیوی نے آنا تھا‘ خاوند ائیرپورٹ پہنچا لیکن بیوی نہ آئی‘
خاوند کو دنیا ڈولتی ہوئی محسوس ہوئی‘ وہ سارا دن بیوی کو فون کرتا رہا‘ بیوی سے رابطہ نہ ہوا لیکن شام کو بیوی کا خط آ گیا‘ وہ خط ان کے بیٹے نے پڑھا‘ وہ خط صرف خط نہیں تھا‘ وہ ایک تحریری قیامت تھی اور پورا خاندان اس تحریری قیامت کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں اس قیامت کی طرف آنے سے قبل آپ کو دنیا کی ایک خوفناک لیکن دلچسپ حقیقت بتاتا چلوں۔دنیا میں ایسے بے شمار سینٹرز ہیں جہاں آپ اپنی مرضی سے مر سکتے ہیں‘ یہ سینٹرزلاعلاج مریضوں کیلئے بنائے گئے ہیں‘
دنیا میں یہ لوگ جب امراض کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک جاتے ہیں اور یہ چین کی موت مرنا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ان سینٹرز میں جاتے ہیں‘ اپنی میڈیکل رپورٹس دکھاتے ہیں‘ ڈاکٹرز ان کی حالت اور رپورٹ چیک کرتے ہیں‘ ان سے یہ حلف نامہ لیتے ہیں ”ہم اپنی مرضی سے دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں“ ان کی مرضی سے ان کی موت کا دن اور وقت طے کرتے ہیں‘ ان کی آخری خواہش پوری کرتے ہیں اور پھر انہیں زہر کا ٹیکہ لگا کر دنیا سے رخصت کر دیتے ہیں‘ یہ عمل طبی زبان میں یوتھانیزیا(euthanasia)یعنی آسان موت کہلاتا ہے‘یہ دنیا کے 7 ممالک میں قانونی ہے اور اتنے ہی ملکوں میں اس کی اجازت کیلئے بحث چل رہی ہے‘
سوئٹزر لینڈ بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں یوتھانیزیا کو قانونی سٹیٹس حاصل ہے‘ زیورخ شہرمیں یوتھانیزیا کا سینٹر بنا ہے‘ یہ سینٹر انتہائی خوبصورت جگہ پر قائم ہے‘ سینٹر کے کمرے پہاڑوں‘ آب شاروں اور جھیلوں کے کنارے بنائے گئے ہیں‘ مریض بیڈ پر لیٹ کر زندگی کی آخری صبحیں اور شامیں دیکھتے ہیں اور آخر میں مہربان ڈاکٹروں اور نرسوں کے ہاتھوں میں زندگی کی سرحد پار کر جاتے ہیں‘ وہ خاتون بھی یوتھانیزیاکیلئے سوئٹزر لینڈ گئی تھی‘ وہ کینسر کا دکھ برداشت نہیں کر پا رہی تھی چنانچہ اس نے آسان موت لینے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ زیورخ گئی‘
زندگی کے آخری دس دن گزارے اور عین اس وقت اپنے لئے موت کا تعین کر لیا جب اس کی فلائیٹ نے وطن کی مٹی کو چھونا تھا‘ ادھر فلائیٹ اتری اور ادھر وہ زندگی کی سرحد پار کر گئی‘ خاتون کا آخری خط بیٹے کے ہاتھ میں تھا‘ وہ سسکیاں لے لے کر خط پڑھ رہا تھا اور خاوند سر جھکا کر اپنی بیگم کا ایک ایک لفظ سن رہاتھا۔بیوی نے اپنی پوری زندگی کا احاطہ کیا‘ اس نے بتایا‘ وہ جب پہلی بار یونیورسٹی میں ملے تھے تو اس نے کیا محسوس کیا تھا‘ وہ یونیورسٹی میں لڑتی کیوں تھی اور وہ کون سا دن تھا جب لڑتے لڑتے اسے اس سے محبت ہو گئی تھی‘ اس نے فراق کے وہ پانچ سال کیسے گزارے تھے اور اس نے شادی کے بعد اپنے بچوں کو ملازموں کے رحم وکرم پر کیوں چھوڑے رکھا تھا ”میں اپنی محبت کو تقسیم نہیں کر سکتی تھی‘ میں تمہارا حصہ اپنے بچوں کو بھی نہیں دے سکتی تھی“
اس نے 20 سال کی ازدواجی زندگی کس مسرت اور سرشاری میں گزاری اور پھر جب اسے پہلی گلٹی نکلی تو اس نے کیا محسوس کیا‘ وہ خود کو روز بروز بدصورت ہوتا ہوا دیکھتی تھی تو اس کے دل پر کیا گزرتی تھی‘ وہ قدرت کا یہ فیصلہ بھی سہتی چلی گئی لیکن پھر عجیب واقعہ ہوا”آپ نے پہلے بچے بورڈنگ سکول میں بھیج دیئے‘ میں جانتی تھی آپ نے یہ فیصلہ کیوں کیا‘ آپ نہیں چاہتے تھے میرے بچے مجھے اس حالت میں دیکھیں اور پھر میں ان کی آنکھوں میں اپنے لئے ترس دیکھوں‘
پھر آپ ملازموں کو رشوت دیتے تھے اور وہ روزانہ کوئی نہ کوئی شیشہ توڑ دیتے تھے‘ میں آپ سے شیشے لگوانے کا کہتی تھی‘ آپ ہنس کر ٹال جاتے تھے یوں آہستہ آہستہ گھر سے سارے آئینے غائب ہو گئے‘ آپ نہیں چاہتے تھے میں اپنی آنکھوں سے اپنی بدصورتی دیکھوں‘ بات اگر یہاں تک رہتی توبھی میں برداشت کر جاتی لیکن آپ نے آخر میں عجیب کام کیا‘ آپ نے ایکسیڈنٹ کیا اور خود کو اندھا ڈکلیئر کر دیا‘ میں جانتی ہوں آپ کی آنکھیں ٹھیک ہیں‘ آپ مسلسل چھ ماہ سے اندھے پن کی ایکٹنگ کر رہے ہیں اور میں یہ بھی جانتی ہوں آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نہیں چاہتے تھے
میرے دل میں ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال آئے میں آپ کو بدصورت دکھائی دے رہی ہوں یا میں آپ کی آنکھوں میں اپنی بدصورتی کو پڑھ لوں چنانچہ آپ اندھے بن گئے‘ آپ کا یہ مصنوعی اندھا پن محبت کی انتہا تھی‘ میں یہ انتہا برداشت نہ کر سکی چنانچہ میں نے دنیا سے رخصت ہونے کا فیصلہ کر لیا‘ میں دنیا سے جا رہی ہوں‘ آپ اب پلیز اندھے پن کی یہ ایکٹنگ بند کر دیں‘ یہ خط پکڑیں اور خود پڑھنا شروع کر دیں“ یہاں پہنچ کر بیٹے کے منہ سے چیخ نکل گئی‘
باپ نے اس کے ہاتھ سے خط لیا اور اونچی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا ”آپ پلیز میرے بعد اپنا خیال رکھئے گا‘ سارے تولئے الماری میں رکھے ہیں‘ میں درزی کو پانچ سال کے کپڑے دے آئی ہوں‘ وہ سال میں دس جوڑے سی کر دے جائے گا‘ آپ نے وہ سارے کپڑے پھٹنے گھسنے تک پہننے ہیں‘ دانت چیک کراتے رہا کریں اور صبح کی سیر کبھی نہیں بھولنی اور آخری بات چڑیوں کو روز دانا ڈالنا ہے اور میری بلیوں کا ہمیشہ خیال رکھیئے گا۔
follow Kalam-Ka-Fasana
Kalam-Ka-Fasana
اگر لکھنے پہ آجاؤں
قلم سے سر قلم کردوں
Kalam-Ka-Fasana
ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگا
سر کٹانا ہے تو ہتھیار نہ ڈالے جائیں
Follow Kalam-Ka-Fasana
Follow Kalam-Ka-Fasana
Follow💗 Kalam-Ka-Fasana
مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک جب حادثے کا شکار ہوا تو اسکے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔۔
سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی دوری پہ تھا۔ سیمسن کے عملے نے نہ صرف ٹائی ٹینک کے عملے کی طرف سے فائر کئے گئے سفید شعلے (جو کہ انتہائی خطرے کی صورت میں فضا میں فائر کئے جاتے ہیں) دیکھے تھے
بلکہ مسافروں کی آہ و بُکا کو بھی سُنا۔ لیکن کیونکہ سیمسن کے لوگ غیر قانونی طور پہ انتہائی قیمتی سمندری حیات کا شکار کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پکڑے جائیں لہذا ٹائی ٹینک کی صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی بجائے مدد کرنے کے وہ جہاز کو ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں بہت دور لے گئے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی گناہوں بھری زندگی میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ان کے اندر سے انسانیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور پھر وہ ساری زندگی اپنے گناہوں کو چھپاتے گزار دیتے ہیں۔
یہ ہے انسانوں کا پہلا رویہ
دوسرا جہاز جو قریب موجود تھا اس کا نام کیلیفورنین (Californian) تھا جو حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے چودہ میل دور تھا۔ اس جہاز کے کیپٹن نے بھی ٹائی ٹینک کی طرف سے مدد کی پکار کو سنا اور باہر نکل کے سفید شعلے اپنی آنکھوں سے دیکھے لیکن کیونکہ وہ اس وقت برف کی چٹانوں میں گھرا ہوا تھا
اور اسے ان چٹانوں کے گرد چکر کاٹ کے ٹائی ٹینک تک پہنچنے میں خاصی مشکل صورتحال سے دو چار ہونا پڑتا لہذا کیپٹن نے اس کی بجائے دوبارہ اپنے بستر میں جانا اور صبح روشنی ہونے کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔
صبح جب وہ ٹائی ٹینک کی لوکیشن پہ پہنچا تو ٹائی ٹینک کو سمندر کی تہہ میں پہنچے چار گھنٹے گزر چکے تھے اور ٹائی ٹینک کے کیپٹن ایڈورڈ اسمتھ سمیت 1569 افراد موت کے گھاٹ اتر چکے تھے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان افراد کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی کی مدد کرنے کو اپنی آسانی سے مشروط کر دیتے ہیں اور جب تک حالات حق میں نہ ہوں کسی کی مدد کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتے۔
یہ ہے انسانوں کا حارثہ کے بارے میں دوسرا رویہ
تیسرا جہاز کارپیتھیا (Carpathia) تھا جو ٹائی ٹینک سے 68 میل دور تھا۔ اس جہاز کے کیپٹن نے ریڈیو پہ ٹائی ٹینک کے مسافروں کی چیخ و پکار سنی۔ صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی باوجود اس کے کہ یہ ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں جنوب کی طرف جا رہا تھا،
اس نے فورا اپنے جہاز کا رخ موڑا اور برف کی چٹانوں اور خطرناک موسم کی پروا کئے بغیر مدد کے لئے روانہ ہو گیا۔ اگرچہ یہ دور ہونے کے باعث ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے دو گھنٹے بعد لوکیشن پہ پہنچ سکا
لیکن یہی وہ جہاز تھا جس نے لائف بوٹس پہ امداد کے منتظر ٹائی ٹینک کے باقی ماندہ 710 مسافروں کو زندہ بچایا تھا اور انہیں بحفاظت نیو یارک پہنچا دیا تھا۔
اس جہاز کے کیپٹن کیپٹن آرتھر روسٹرن کو برطانوی نیوی کی تاریخ کے چند بہادر ترین کیپٹنز میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کے اس عمل پہ انہیں کئی سماجی اور حکومتی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا تھا۔
ہماری زندگی میں ہمیشہ مشکلات رہتی ہیں، چیلنجز رہتے ہیں، لیکن وہ جو ان مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے بھی انسانیت کی بھلائی کیلئے کچھ کر جائیں انہیں ہی انسان اور انسانیت یاد رکھتی ہے
دعاکریں کہ اللہ کسی کی مدد کی توفیق دے کیوں کہ یہ انسانیت کی معراج اور اعلی ترین درجہ ہے.
منقول
Kalam-Ka-Fasana
آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے
پہلے دل پھر دل ربا پھر دل کے مہماں ہو گئے
Kalam-Ka-Fasana
دعا کرو کہ سلامت رہے مری ہمت
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
Follow Kalam-Ka-Fasana
غیروں سے پوچھتی ہے طریقہ نجات
اپنوں کی سازشوں سے پریشان زندگی
Kalam-Ka-Fasana
اپنی آواز کی توقیر بچانے کے لیے
سب کی آواز میں آواز ملا دیتا ہوں
Kalam-Ka-Fasana
اب جو دامن پہ گرا خوں تو شکایت کیسی
میں تو کہتا تھا ، مجھے دور سے مارو پتھر
Kalam-Ka-Fasana
کون اِس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
Kalam-Ka-Fasana
---
مشکل ہےکہ اب شہرمیں نکلےکوئی گھرسے
دستار پہ بات آ گئی۔۔ ہوتے ہوئے سر سے
Kalam-Ka-Fasana
---
Kalam-Ka-Fasana
Kalam-Ka-Fasana
دل کی بات دل میں رہ گئ
ہائے بات ادھوری رہ گئی
Kalam-Ka-Fasana
,..
Kalam-Ka-Fasana
Kalam-Ka-Fasana
---
محبت کے کچھ آخری لمحات جن کا اختتام مجبوریاں ہیں۔۔
قربانی تو اس نے دی ہے۔ ہم سمجھے ہماری تھی۔
خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے
Kalam-Ka-Fasana
قطرہ اب احتجاج کرے بھی تو کیا ملے
دریا جو لگ رہے تھے سمندر سے جا ملے
Kalam-Ka-Fasana
ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف
پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستا ملے
Kalam-Ka-Fasana
---
درد مہماں ہے مگر جاتا نہیں
آپ میری میزبانی دیکھیئے
Kalam-Ka-Fasana
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the public figure
Website
Address
Makkar Paroa
Dera Ismail Khan
یہی ہے ناں تمہیں بچھڑ جانے کی جلدی ہے۔ ملنا کبھی تمہارے مسلے کا حل نکالیں گے۔۔
Diyal Road D I Khan
Dera Ismail Khan, TENSION
Please like page and Do not forget to share
Dera Ismail Khan
AIOU All Classes Assignments, Thesis, Lesson Plans and Teaching Practices Available
Dera Ismail Khan
Pashto poetry of Mahmood Khel Kundi,Pashto best poetry, Pashto emotional poetry, Interesting poetry