CHILD HEAVEN SCHOOL
Nearby schools & colleges
Uttara, Dhaka
Dhaka 1230
House No. 12, Road, Dhaka
House, 13, Road, uttara
Road 15, Dhaka
Sector/6, Dhaka
House 2 Road 1, uttara
Road 15, uttara
15, Dhaka
Uttara, Dhaka
House, Dhaka
Uttara, Dhaka
Uttara, Dhaka
Well Come to knowledge state
محترم والدین ۔ پنجاب کےتمام تعلیمی ادارے بروز ہفتہ بند رہیں گے شکریہ
ایک بی ایم ڈبلیو کار کے دروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اسکے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا. کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا؛
-سرگوشی سنو گے یا اینٹ سے بات سنو گے !
ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. مگر پھر بھی اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا۔ ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا ڈینٹ پڑ چکا تھا.
اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا
میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے.
"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟
میں ہاتھ اٹھا کر بھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی جانب اشارہ کیا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے اُٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟"۔
بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر ایک حیرانی آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا تو دیکھا ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی میں پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ شائد وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں گئی اور نیچے آگری اور ساتھ ہی پکے ہوئے چاول بھی گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے۔
"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا۔
نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے پھندا سا لگ گیا۔ اسے معاملہ سمجھ آگیا اور اپنے غصے پر پر ندامت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا۔ بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا۔
وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے۔ پھر ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا۔ بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر باپ کو لیکر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا۔ اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا۔
نوجوان نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔
وہ بی ایم ڈبلیو اس کے پاس مزید پانچ سال رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے طرف اینٹ بھی اچھال دیتا ہے۔
پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے۔
ہم جہاں ملازمت، بزنس، خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بکھری پڑی ہیں۔ اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آئے۔ 🙏🤝
موجودہ میٹرک کا امتحانی نظام
ایک دور تھا کہ میٹرک میں 850 نمبروں میں سے 550 سے لیکر 600 + نمبر آنا قابلیت کی ضمانت تھا اور ایسے طلبا کا شمار قابل، ذہین اور پڑھنے والوں میں ہوتا تھا۔ ایسے طلبا کی تعداد بھی کافی محدود ہوتی تھی۔ زیادہ تر لوگ سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوتے اور زیادہ تر کے میٹرک میں نمبرز اسکی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر آتے تھے.. جو لوگ بہت محنتی اور قابل ہوتے ان کو 600 سے 650 نمبرز مل جاتے .. مگر آج شاید واقعی تعلیم اس قدر عام ہو چکی ہے.
1100 میں سے 1092 نمبر ز آ رہے ہیں، یعنی اگر اس وقت سے موازنہ کیا جاے تو 850 میں سے 840 نمبرز۔ آج کسی کے 900 سے 800 نمبرز آ جائیں تو کم محسوس ہوتے ہیں بلکہ حقیقت کہیں تو وہ تعلیمی میدان کی دوڑ میں کافی پیچھے رہ جاتا ہے۔
پرانے امتحانات کے نظام میں تمام پرچہ جات میں حصہ موضوعی 75 سے 80 فیصد ہوتا اور یہ نمبرز لینے کیلیے بہت زیادہ محنت درکار ہوتی اور مکمل سیلیبس پڑھنا پڑتا.. افسوس کہنا پڑ رہا ہے کے 2005 کے ادوار میں محکمہ تعلیم کے ماہر افسروں نے مغربی تعلیی نظام سے متاثر ہو کر ہمارے ایک اچھے تعلیمی نظام کو فرسودہ اور بیہودہ قرار دے کر امتحان کا طریقہ کار موضوعی سے تبدیل کر معروضی کر دیا گیا۔ لمبے تفصیلی سوالات جن سے بچوں کی قابلیت و ذہانت کو پرکھا جاتا تھا کو فضول ترین قرار دے کر انکی جگہ مختصر سوالات، خالی جگہ اور کثیر الانتخابی سوالات کو امتحانی پرچوں میں شامل کیا گیا ، تو پھر صورتحال یہ بن گیئی جہاں بہترین اور مدلل لکھ کر بھی پورے نمبر نہیں آتے تھے وہاں ٹِک لگا کر اور ایک سطر کا رٹایا ہوا جواب لِکھ کر پورے پورے نمبر آنے لگے اور یہیں سے نمبروں کی دوڑ کا آغاز ہوا، جہاں %75 نمبر بھی کافی معلوم ہوتے تھے وہاں %90 بھی ناکافی لگنے لگے.
نئی آنے والی حکومتوں نے بجائے اصلاحات کرنے کے مزید تجربات کیے اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ پچھلے سال نہم کے امتحان میں ایک بچی نے 505 میں سے 504 نمبر لے کر سب کے منہ بند کر دئیے۔ 😷😷
میرا یہ ماننا ہے کہ جتنا بھی اچھا لکھ لیا جاے تب بھی بہتری کی گنجائش رہتی ہے، کہاں گئی کوالٹی اور کدھر گئے وہ لوگ جو کوالٹی ایجوکیشن کی بات کرتے تھے۔
ایک زمانے میں اس نئے طریقہ کار کا انتہائی ناقد رہا اور اکثر حلقہ احباب میں اظہار بھی کرتا مگر میں حیران تھا کہ کیوں کوئی اس نظام پر آواز نہیں اُٹھاتا نہ ہی کسی اہل علم، تعلیم فورم پہ اس کے خلاف کوئی تحریک یا اصلاح پیش کی گئی نہ کبھی عدالتوں نے نوٹس لیا کہ ذیادہ نمبر اور تجدیدی امتحانات کا نئی نسل اور معاشرے پہ اچھا اثر نہیں پڑ رہا۔ نمبروں کی یہ دوڑ بچوں کیلیے کسی عذاب سے کم نہیں وہ اپنا بچپن اسکول، ٹیوشن اور گھر میں پڑھائی کے علاوہ کسی بھی قسم کی تفریح، کھیل سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس نظام سے ہمارے بچوں کو صحت کے مسایل ،اور تندرست زندگی گذارنے کیلیے انتہایی ضروری تفریحی سرگرمیوں سے محروم ہو چکے ہیں۔
گذشتہ دنوں وزیر تعلیم نے بجا کہا ہے کہ 1100 میں سے 1092 نمبر آ کیسے سکتے ہیں، اتنے نمبرز ذہانت کی بنیاد پر نہیں آ سکتے، مطلب تھوڑی فکر رکھنے والے جان سکتے کہ اس نظام مِیں گڑ بڑ ہے رٹے پہ رٹا لگوایا جا رہا ہے، جب اتنے زیادہ نمبرز آئے تھے تو چاہئیے یہ تھا کہ نتیجے کا اعلان کرنے سے پہلے اس بچے کے تمام پرچہ جات کی مختلف ماہرین سے ری مارکنگ کروائی جاتی اور ذمہ داروں کی سرزنش ہوتی
محترم وزیر تعلیم سے گذارش ہے کہ آپ کے پاس اختیار ہے خدارا اس نظام کو بدل کر نئی نسل کو تباہ ہونے سے بچائیے اور آپ اگر یہ ایک کام کر گئے تو تاریخ میں رقم ہو جائیں گے۔۔
یورپ کےسکولوں میں گریڈ سسٹم ہے ۔ ان کے اداروں کا معیار بھی بہت اچھا ہے اور طلباء ذہنی اعتبار سے بھی بہت بہتر ہیں مگر اس کے باوجود کبھی کسی کے تمام مضامین میں A گریڈ نہیں آتے۔
نیز اس نئے نظام نے جو جو قباحتیں پیدا کی ہیں ان میں سے سرفہرست یہ ہے کہ طلبا میں قابلیت، ذہانت اور محنت سے ہٹ کر صرف نمبروں کی دوڑ شروع ہو چکی ہے، تعلیمی معیار کا رجحان پستی کی طرف ہے، اور بہت سے ذہین و قابل طلبا کیلیے اچھے نمبروں کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں رہا۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلہ دیتے وقت بھی معیار کو نہیں پرکھا جاتا، اسی قسم کا امتحان انٹری ٹسٹ لیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تمام تعلیمی ادارے زیادہ تر نمبروں کی دوڑ میں شامل ہو چکے، اور والدین ہی کیا سکول کالج بھی اپنے بچوں کے نمبروں کو برانڈ بنا کر پیش کرتے ہیں اور کم نمبروں والے بچوں کے والدین منھ چھپاتے پھرتے ہیں۔
اس نمبروں کی دوڑ میں علم کا حصول کہیں کھو گیا ہے، طلبا کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔اس تناظر میں والدین کو چاہئیے کہ مذکورہ تعلیمی ماہرین سے اپیل کریں کہ اگر اچھا نظام نہیں لا سکتے خدارا مزید تجربات کرنے کی بجائے ہمیں پرانا نظام امتحانات ہی لوٹا دو 🤲🤲ازطرف:-عباس خان سنگین ایڈوکیٹ
میڑک کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے والے طالب علموں کو مبارک
میدان عرفات میں حضرت محمدﷺ نے جو خطبہ حج دیا تھا۔ آئیے اس خطبے کے اہم نکات کو دہرا لیں، کیونکہ ہمارے نبی نے کہا تھا، میری ان باتوں کو دوسروں تک پہنچائیں۔
*۱*۔ اے لوگو! سنو، مجھے نہیں لگتا کہ اگلے سال میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا۔ میری باتوں کو بہت غور سے سنو، اور ان کو ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں پہنچ سکے۔
*۲*۔ اے لوگو! جس طرح یہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ جگہ عزت و حرمت والے ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی، عزت اور مال حرمت والے ہیں۔ (تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے )۔
*۳*۔ لوگو کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو،
*۴*۔ کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو۔ تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔
*۵*۔ یاد رکھو، تم نے اللہ سے ملنا ہے، اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔
*٦*۔ اللہ نے سود کو ختم کر دیا، اس لیے آج سے سارا سود ختم کر دو (معاف کر دو)۔
*۷*۔ تم عورتوں پر حق رکھتے ہو، اور وہ تم پر حق رکھتی ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق پورے کر رہی ہیں تم ان کی ساری ذمہ داریاں پوری کرو۔
*۸*۔ عورتوں کے بارے میں نرمی کا رویہ قائم رکھو، کیونکہ وہ تمہاری شراکت دار (پارٹنر) اور بے لوث خدمت گذار رہتی ہیں۔
*۹*۔ کبھی زنا کے قریب بھی مت جانا۔
*۱۰*۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو، صرف اللہ کی عبادت کرو، پانچ فرض نمازیں پوری رکھو، رمضان کے روزے رکھو، اورزکوۃ ادا کرتے رہو۔ اگر استطاعت ہو تو حج کرو۔
*۱۱* ۔زبان کی بنیاد پر, رنگ نسل کی بنیاد پر تعصب میں مت پڑ جانا, کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر, عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں, ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب اللہ کی نظر میں برابر ہو۔
برتری صرف تقوی کی وجہ سے ہے۔
*۱۲*۔ یاد رکھو! تم ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے،خبردار رہو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔
*۱۳*۔ یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ، نہ کوئی نیا دین لایا جاےَ گا۔ میری باتیں اچھی طرح سے سمجھ لو۔
*۱۴*۔ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں، قرآن اور میرے اہل بیت، اگر تم نے ان کی پیروی کی تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔
*۱۵*۔ سنو! تم لوگ جو موجود ہو، اس بات کو اگلے لوگوں تک پہنچانا۔ اور وہ پھر اگلے لوگوں کو پہنچائیں۔اور یہ ممکن ہے کو بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ (اور عمل) کر سکیں۔
*پھرآسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور کہا*،
*۱٦*۔ اے اللہ! گواہ رہنا، میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا۔
: اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے، جو اس پیغام کو سنیں/پڑھیں اور اس پر عمل کرنے والے بنیں۔ اور اس کو آگے پھیلانے والے بنیں۔ اللہ ہم سب کو اس دنیا میں نبی رحمت کی محبت اور سنت سے محبت کرنی عطا کرے، اور آخرت میں جنت الفردوس میں اپنے نبی کے ساتھااکٹھا کرے، آمین۔
تمام اہلیان اسلام کو عیدالفطر کی خوشیاں مبارک
سالانہ امتحانات کا رزلٹ
تمام مسلمانوں کو رمضان مبارک
AFAQ AFAQ is a not for profit organisation dedicated to improving education in Pakistan through dynamic cu
21 اگست بروز سوموار سے سکول ٹائم ٹیبل 7:30 سے 1:00 بجے ہوگا
جشن آزادی پروگرام
I Love Pakistan
جشن آزادی کے پروگرام کی تصویری جھلکیاں (جشن آزادی مبارک )
لوہے کی ایک بار کی قیمت 5 ڈالر ہے
اس سے اگر آپ گھوڑوں کے لئے نعل بنا دیں تو اسکی قیمت 12 ڈالر ہو گی۔
اس سے سوئیاں بنا دیں تو اسکی قیمت 3500 ڈالر ہو گی۔ اور اگر اس سے آپ گھڑیوں کے لئے بیلنس سپرنگ بنا دیں تو اسکی قیمت تین لاکھ ڈالر ہو گی۔
*آپ نے اپنے آپ کو کیا بنایا ہے یہ امر آپکی قیمت طے کرتا ہے*
مٹی کو بازار میں بیچیں تو قیمت بہت کم ہوگی
لیکن برتن بنا کر بیچیں تو کچھ زیادہ قیمت ہوگی
وہی مٹی کو پکا کر اینٹیں بنا کر بیچیں تو دس گنا قیمت ہوگی اور مٹی کو خوبصورت مورتی یا مجسمہ بنا کر بیچیں تو وہ لاکھوں میں بکے گی۔
آپ خود کو دنیا میں کیا بنا کر پیش کرتے ہیں؟
ایک عام،روایتی اور منفی سوچ سے بھر پور انسان یا پھرایک بہترین،مثبت اور پر امن محبت پھیلانے والا فائدہ مند قیمتی ترین انسان ؟
فیصلہ آپ نے کرنا ہے....
تمام بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں شروع ہونے پر خوش آمدید
چاند رات مبارک
Annual Prize Distribution 2023
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the school
Telephone
Website
Address
Near ZTBL Farooq Naher. Ward No. 1
Fatehpur
The Educators Sardar Ali Campus Ward 2 Main Bazar Fatehpur
Fatehpur, 31050
"The Educators "aims for a quality education and learning experience for the students.
Ward No 2 Main Bazar
Fatehpur, 31050
"THE EDUCATORS" aims for a quality learning experience for the students and quality training for the faculty by providing excellence in education within our socio-cultural framewor...
Fatehpur
Fatehpur, 31050
Ourat ki izat kro khawatin ko tahafuz do apny or apny rishtydaron ky leyah
Ward No 2 Fatehpur District Layyah//Shams Public School
Fatehpur, 31050
Empowering students to pursue their dreams.
Near Doctor Zulfiqar Hospital Karor Road Fateh Pur
Fatehpur, 31050
HAJI TRAVELS AND TOURS FATEHPUR , LAYYAH
Fatehpur, 31050
Planning any type of travel can be overwhelming, which is why it’s beneficial to have an experienc