DAR_E Suffah School System_kotli
Dar e suffah school
پروفیسر انور مسعود کی89ویں سالگرہ مبارک
*جس ملک کے میدان آباد ہوتے ہیں اس ملک کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں اور جس ملک کے میدان ویران ہوتے ہیں اس ملک کے ہسپتال آباد ہوتے ہیں.*
کھیل تفریح کا ایک ایسا طریقہ ہے جس میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کا درس ملتا ہے.اس سے اخترامِ قانون بھی سیکھا جاتا ہے.اطاعت امیر کا جذبہ ابھرتا ہے.اتحاد و اتفاق کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے.
یہ تقریب ہمارے اسکول کے نصاب کا ایک اہم حصہ ہے، جو ہمارے طلباء میں جسمانی اور ذہنی تندرستی کو فروغ دیتا ہے۔
الحمداللہ بچوں کو تفریح کے لیے *دارِ صُفہ سکول سسٹم میں 22٫23٫24 اکتوبر کو سپورٹس گالا کا انقعاد* کیا جا رہا ہے۔ جو بچوں کی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو فروغ دے گا۔
منجانب: دارِصفہ سکول سسٹمز
Hi everyone! 🌟 You can support me by sending Stars - they help me earn money to keep making content you love.
Whenever you see the Stars icon, you can send me Stars!
*وہ تمام والدین/سرپرست/ذمہ داران بالخصوص طلبا کرام متوجہ ہوں!!!*
بچوں نےمیٹرک کا امتحان دے دیا ہے۔ اب آگے کیاکرنا ہے؟
یہ ایک ایسا سوال ہےجسکا طلبہ اور والدین کو جواب تلاش کرنے میں بہت دقت پیش آتی ہے۔
دراصل پلے گروپ سے لیکر دہم کلاس کے آخری دن تک قریباً ایک جیسی دنیا، ایک جیسے شب و روز اور ایک سا شیڈول ہوتاہے۔
*لیکن میٹرک بعد یکدم سارا منظر اور شیڈول بدل جاتا* ۔
*میٹرک بچوں، والدین اور سکول کی دس سال کی محنت کا اختتام ہوتاہے۔*
لیکن یہ سفر فقط دہم جماعت میں پاس فیل ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ تعلیمی سفر کی ایک منزل پالینے کا نام ہے۔
یہ تعلیمی سفر کا اختتام نہیں بلکہ ایک نٸے جہان کا آغاز ہے۔ ایک نٸے انداز اور ماحول کا آغاز ہے۔ جہاں سے بچے مزید تعلیمی منازل طے کریں گے۔یا ہنر مند بنیں گے۔
احباب گرامی!
*👈میٹرک کے بعد کیاکریں* ؟
*کرنا یہ چاہیے کہ*
👈۔ جیسے ہی بچہ امتحانات سے فارغ ہو
١۔ اس اسکے شوق کے مطابق کم از کم بیس دن گزارنے دیں۔
٢۔ اسے کھیلنے کودنے، سیر کرنے، دوستوں کیساتھ گھومنے، مطالعہ کرنے، موباٸل چلانے جیسے تفریحی مواقع فراہم کریں۔
٣۔ اس دوران ان سے مستقبل بارے پلاننگ بھی ذکر کرتے رہیں۔
جب آپ دیکھیں بچہ پرسکون ہوچکاہے۔ امتحان کے دباٶ سے نکل چکا ہے اور آپ اسے مزید پڑھانا چاہتے ہیں یا پڑھا سکتے ہیں تو اسے
١۔ کسی مقامی کمپیوٹر اکیڈمی میں کسی بھی بنیادی کورس میں داخل کروادیں۔
کیونکہ میٹرک کے بعد اگلی ساری تعلیم میں کہیں نا کہیں کسی نا کسی درجہ میں بچے کو کمپیوٹر سے واسطہ پڑے گا۔
👈 لیکن اگر بچے کو مزید نہیں پڑھاسکتے تو پھر اسکا مزید وقت ضاٸع کیے بغیر اسے کسی بھی ہنر سیکھنے میں لگادیں۔
آج کل موباٸل ریپٸرگ،اے سی ٹیکنیشکن، الیکٹریش، پلمبر، موٹرساٸیکل مکینک، رزی، یف وغیرہ جیسے شعبہ بہترین سکوپ رکھتے ہیں اور بہترین روزگار کمانے کے علاوہ ملکی ترقی میں ہاتھ بٹا سکتاہے۔
*👈 اگر آپ بچے کو مزید پڑھانا چاہتے ہیں اور آپکے وساٸل بھی اجازت دیتے ہیں تو بچوں کی تعلمی کارکردگی اور رزلٹ* *دیکھیں*
١۔ *90 فیصد سے زاٸد نمبر ہوں بچے کو ایف ایس کرواٸیں۔*
*جو بچہ انتہاٸی قابل ہے اور لمبی انوسیٹمنٹ کرسکتے ہیں اسے بیالوجی رکھواٸیں۔ یا* *انجینٸرنگ کروادیں۔*
٢۔ *اگر 60 سے 90 فیصد کے درمیان نمبر ہوں بچے کو بجاۓ ایف ایس کروانے کےاسے ٹیکنیکل ڈپلومہ کرواٸیں۔*
*گوکہ ایف ایس سی میں دو سال اور ڈپلومہ میں تین سال لگتے ہیں لیکن ڈپلومہ کے بعد بچہ* *کسی نا کسی درجہ میں ملازمت کے قریب پہنچ جاتاہے* ۔
👍 *آجکل الیکٹریکل/مکینکل /آٹو/سولر ٹیکنالوجی، شیف کا ڈپلومہ بہت مانگ میں ہے۔*
☝ممکن ہے ڈپلومہ کی بات سے بہت سے لوگ مثالیں دینا شروع کردیں فلاں ڈپلومہ کرکے فارغ ہے بے روزگار ہے
بھٸی ڈپلومہ کا مطلب کاغذوں کا پلندہ نہیں بلکہ بہترین تھیوری کیساتھ ساتھ پریٹکل کا حامل ہوا بھی ہے۔
کمیونیکیشن بہت اچھی ہونی چاہیے آپ کو اپنے فیلڈ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا پتہ ہو ۔انٹرویو سکلز آتی ہوں ۔اگر ملٹی نیشنل یا بیرون ملک جاب کے لیے اپلائ کرنا ہے تو سپوکن انگلش اچھی ہونی چاہیے۔
جیسے آپ بچے کو الیکٹرک یا لیبارٹری کا یا ڈسپنسر وغیرہ کا ڈپلومہ کرواتے ہیں تو ساتھ ہی بچے کو کسی الیکٹریشن، لیبارٹری یا میڈیکل اسٹور پر بھی بھیجیں تاکہ جب تین سال بعد بچے کا ڈپلومہ حاصل تو بچہ بہترین شعبہ کا ماہر بن چکا ہو۔ تو پھر روزگار کے مواقع ایسے بچے کیلیے بے شمار ہونگے۔ وہ اپنا کام بھی شروع کرسکتاہے۔
٣۔ *40 سے 50 فیصد سے کم نمبروں والے بچے کو فری لانسنگ میں ڈال دیں۔*
کمپیوٹر کے شعبہ میں بےشمار ایسے پروگرام ہیں جن میں مہارت حاصل کرکے بچہ بہترین روزگار کماسکتاہے۔
جیسے
▪️١۔ *گرافکس ڈیزاٸننگ*
▪️٢۔ *ڈیجیٹل مارکیٹنگ*
▪️٣۔ *سوشل میڈیا منیجمنٹ*
▪️ ٤۔ *ویب ڈویلمنٹ*
▪️٥۔ *ویڈیو ایڈٹنگ*
▪️٦۔ *ورچوٸیل اسسٹنس*
▪️٧۔ *ڈیٹا انٹری*
▪️٨۔ *ایس ای او*
▪️٩۔ *ای۔کامرس*
▪️١٠۔ *کانٹینٹ راٸٹنگ*
▪️ *١١٠نرسنگ*
▪️ *١١٠ہاسپٹل* *اور لیب کےحوالے* *سے مختلف کورسسز*
وغیرہ بے شمار شعبے ہیں جسمیں بچہ مہارت حاصل کرکے بہترین روزگار کماسکتاہے۔
*بہرحال میٹرک کے بعد کوٸی قدم اٹھانے سے پہلے کسی مخلص ماہر تعلیم یا تجربہ کار شخص سے مشورہ ضرور کرلینا* چاہیے۔
👈👈یہ بھی یاد رکھیں
سینکڑوں والدین آپکو بچوں کیلیے پریشان دکھاٸی دیں گے جنکے بچے ایف اے کرکے یا بی اے کرکے بے کار و بے روزگار ہیں۔ لیکن انکےمقابلے میں وہ بچے جو بروقت ہنرمند بن گٸے وہ برسرروزگار بھی ہیں اور انکے والدین بھی سکون میں ہیں۔
میرے احباب!
*ڈاکٹر ہو،انجینٸیر ہو یا اسی لیول کی کوٸی اور ڈگری یہ ساری ڈگریاں ٹیکنکل ڈگریاں* *ہیں، مہارت کی ڈگریاں ہیں۔ اسی طرح پلمبر، مکینک،* *الیکٹریشن، کارپینٹر، درزی، شیف، حجام، موچی، ترکھان* ، *اور دوکاندار وغیرہ یہ سب بھی ٹینکل ڈگریاں ہیں جو باقاعدہ یونیورسٹی سے تو نہیں ملتیں مگر بہت کھٹن محنت کے بعد* *ملتی ہیں* ۔
*جس طرح ڈاکٹر،انجینٸر، وکیل، اساتذہ وغیرہ کی ملک و قوم کی ضرورت ہیں اسی طرح* *پلمبر، مکینک، الیکٹریشن، کارپینٹر، درزی، شیف، حجام،* *موچی، ترکھان، اور دوکاندار وغیرہ معاشرے، ملک و قوم کی ضرورت ہیں۔*
*چنانچہ میٹرک کے بعد بچوں کوخوب تحقیق کے بعد کسی ڈگر پر ڈالیے۔*
خلاصہ کلام!
*آجکل کے دور میں مہنگاٸی* *اور افراتفری کے دور میں اپنے بچوں کو جلد سے جلد* *برسرروزگار بنانے کی کوشش کریں۔*
بے جا اور بیکار تجربات میں بچے کا وقت ضاٸع نہ کریں۔
عثمان غنی رانا
Alhamdulillah
💥 *وقتا فوقتاً اپنے بچوں کے سکول بیگز چیک کرتے رہا کریں، بچوں کی سٹیشنری* *چیک کریں* ،
اگر کوئی چیز ایکسٹرا نظر آئے تو بچے سے پوچھیں کہ "بیٹا یہ آپ نے کہاں سے لی ہم نے تو نہیں لے کر دی؟"
بچے کو آئندہ کےلیے سختی سے منع کریں کہ " آپ نے کسی سے کوئی بھی چیز نہیں لینی، نہ گارڈ انکل سے، نہ آیا آنٹی سے، نہ کسی بچے سے، نہ کسی ٹیچر سے، اور نہ ہی سکول کی کوئی چیز گھر لے کر آنی ہے"
بچے کو پیار سے سمجھائیں کہ آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو آپ ہمیں بتاؤ۔
اور بچوں کی ڈائری روزانہ چیک کریں، بکس چیک کریں، کاپیاں چیک کریں، سارا کام ٹیوٹر اور ٹیچرز پے ہی نہ چھوڑیں، ٹیچرز اور ٹیوٹر تو صرف اچھا پڑھا کر ہمارے بچوں کو کلاس میں پوزیشن ہولڈرز بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، جبکہ ہمیں ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تربیت بھی کرنی ہے اور اس معاشرے میں اپنے بچے کو پوزیشن ہولڈر بنانا ہے۔
اور بچوں کو دفاع کرنا سکھائیں، مقابلہ کرنا سکھائیں، اس بات کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ آپ اپنے بچے کو بدتمیزی سکھائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بچہ آپ کے بچے سے لڑائی جھگڑا کرے تو آپ کے بچے کو جوابا کاروائی کرنی آتی ہو۔
بچے کو یہ بات اچھی طرح سمجھائیں کہ" سکول میں کہیں بھی کسی کے ساتھ تنہائی میں نہیں بیٹھنا خواہ کوئی بھی ہو، جہاں سب بیٹھے ہوں وہیں بیٹھو" *بچوں کی تنہائی شیطانی افعال کو جنم دیتی ہے* (الامان و الحفیظ)، اور بچوں کو " گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ" کے بارے میں بھی بتائیں۔
ہر وقت بچوں کو نصیحتیں کرنا بھی غلط بات ہے، بچے نصیحتوں سے تنگ آجاتے ہیں، کبھی کبھار بچوں کو انٹرٹین کرنے کےلیے اپنے موبائل پے اپنی نگرانی میں اچھی ویڈیوز، اچھے کارٹون، اسلامی باتیں اور آرٹ اینڈ کرافٹ وغیرہ دکھائیں، موبائل کا اس لیے کہا کیونکہ انٹرنیٹ کا دور ہے تو بچے موبائل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
ویسے ہم والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے موبائل میں اچھی چیزیں ہی سرچ کریں، غلط چیزوں اور فحش ویڈیوز سے اپنے موبائل کو پاک رکھیں تاکہ کبھی آپ کا موبائل بچے کے ہاتھ لگ بھی جائے تو آپ کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
ایک بہت اہم بات بچے کا لنچ کبھی بھی بعد میں مت بھجوائیں، بچے کو اس چیز کی عادت ہی مت ڈالیں، جو بھی دینا ہو بچے کو صبح سکول جاتے وقت ساتھ ہی دیں، ہم مائیں بچوں کے جانے کے بعد پیچھے سے لنچ بھیج رہی ہوتی ہیں، بچے کو کیا معلوم کون کیا دے کر چلا جائے۔
*بچوں کے لنچ باکس میں ہمیشہ کھانے کی چیزیں تھوڑی زیادہ ڈالیں، اور بچے کو بتائیں کہ " یہ لنچ آدھا آپ کا آدھا آپ کے فرینڈز کا* " *فرینڈز کے ساتھ لنچ شئر کرنا* *سکھائیں* ۔
بہت ضروری بات...! *بچوں کو سمجھائیں کہ "دوستی ہمیشہ اچھے اور صاف ستھرے بچوں سے کریں، آپس میں اچھی باتیں* *کریں کیونکہ گندی باتیں کرنے والے شیطان کے دوست ہوتے ہیں"*
اور ہمیشہ خود بھی بچوں کے دوست بن کر رہیں، *ہر بات بچوں سے پوچھیں، بچے کو اعتماد میں لیں تاکہ وہ ہر بات آپ سے دوستانہ انداز میں کرے، ہر وقت* *رعب جھاڑنا بھی غلط بات ہے،*
اور بچوں کو بتائیں کہ " *لڑکیاں صرف اچھی لڑکیوں سے اور لڑکے صرف اچھے لڑکوں سے ہی دوستی کرتے ہیں، لڑکی اور لڑکا فرینڈز نہیں ہو سکتے* اللّہ پاک ناراض ہوتے ہیں"
ویسے تو ہر سکول میں ہی یہ طریقہ ہونا چاہیے کہ کم از کم اول یا دوئم کلاس سے ہی بچیوں اور بچوں کی کلاسز علیحدہ کردینی چاہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں بچے ہیں پھر کیا ہوا...؟
*بچے ہیں اسی لیے تو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے، بچے معصوم ہوتے ہیں غلط اور صحیح میں تمیز نہیں کر سکتے* ۔
صبح سکول جاتے ہوئے بچوں پر تین بار آیت الکرسی پڑھ کر پھونک دیں اور بچوں کو بھی پڑھنے کی ترغیب دیں، اور بچوں کو اللّہ کی امان میں دے دیں، انشاءاللہ بچے باحفاظت رہیں گے، اور شیطان کے شر سے بھی محفوظ رہیں گے۔
اللّہ پاک ہمارے بچوں کو ہمیشہ اپنی حفظ وامان میں رکھے، آمین
دعاؤں میں یاد رکھیں..!
تحریر،، طیبہ شاہد
انتخاب،، عابد چوہدری
🌼 *تربیت کا انداز*🌼
آپ کا بچہ جب اسکول جا رہا ہو اور آپ اسے رخصت کر رہی ہوں تو اس کے ٹفن میں کھانے کی چیز دو عدد رکھیں
*اور اس سے کہیں : ایک تمہارے لیے ہے اور دوسری تمہارے دوست کے لیے.*
✅ *اس طرح آپ کا بچہ محبت اور احسان کا سبق سیکھے گا.*
بچے کے بیگ میں قلم ایک سے زائد رکھیں اور اس سے کہیں : اگر کوئی اسٹوڈنٹ اپنا قلم بھول جائے تو آپ مدد کے طور پر یہ قلم اس کو دے دینا.
✅ *اس طرح آپ کا بچہ اپنی ذمہ داریاں اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ سیکھے گا.*
*جب بچہ گھر واپس آئے تو اسے بتائیں کہ اس کے آنے سے گھر کی رونق بڑھ جاتی ہے.*
✅ *اس طرح اسے اپنی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا.*
*جب وہ گھر لوٹے تو اس سے پوچھیں : آج آپ نے سب سے اچھا کام کیا کیا ہے ؟*
✅ *اس طرح اسے اچھے برے کی تمیز ہوگی اور اگلی بار وہ آپ کے بغیر پوچھے آپ کو بتائے گا.*
💥 *تربیت ایک سادہ اور آسان سا فن ہے، زبان سے لمبی چوڑی تقریر کرنے کا نام تربیت نہیں ہے۔*
*گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین اپنے بچوں سے کم از کم ایک* *درخت* 🌲 *ضرور* *لگوائیں* ۔
*ان شاءاللہ لاکھوں درخت صرف دو ماہ میں لگ* *جائیں گے* ۔
السلام علیکم!
میری طرف سے آپ کو اور آپ کی فیملی کو تہہ دل سے عید مبارک
اللہ تعالی آپ کو عید کی خوشیاں مبارک کرے، آپ کی قربانیاں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، آپ کی عمر دراز فرمائے اور زندگی میں آسانیاں عطا فرمائے اور اس بابرکت عید کے صدقے ہم سب پر اپنی رحمتوں و برکتوں کا نزول فرمائے۔آمین
🌼 *بچوں کو جگانا* 🌼
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بچوں کو جگانے کے لیے یہ طریقہ غلط ہے:
1۔ اُن کے اوپر سے کمبل، رضائی، لحاف کھینچ لینا۔
2- اُن پر پانی چھڑکنا۔
3۔ درشت لب و لہجہ میں غرّاتے ہوئے بار بار کہنا "اُٹھو، اُٹھو"۔
4۔ اُنہیں کوسنے دینا۔ طنز وتشنیع بھرے جملے یوں ادا کرنا جیسے پتھر مار رہے ہوں۔
5- دھمکیاں دینا ۔۔۔ "دو منٹ میں باہر نہ آئے تو یہ کر دوں گی، وہ کر دوں گی۔"
*یہ سب بدتمیزی کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔*
ایسا کرنے میں نقصان کیا ہے؟
*بچے قطرہ قطرہ یہ کلچر جذب کر رہے ہیں۔*
اِس صورتحال کے لیے اُنہیں بس یہ تربیت ملی کہ کسی خلافِ توقع اور خلافِ مزاج وقوعے پر "اِس" مزاج اور طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
وہ اپنے بچوں کو اسی طور جگائیں گے، اور یوں یہ "تہذیبی ورثہ" نسل در نسل منتقل ہو گا۔
درست طریقہ کیا ہے؟
اوّل، بچوں کو اِس طور ڈسپلن کرنے کی خواہش و عادت ترک کرتے ہوئے خود اپنے آپ پر نظم و ضبط لاگو کریں۔ دیکھیں کہ فالٹ کہاں ہے؟
کہیں خود آپ سے کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی؟
کیا آپ اور بچے رات درست وقت پر سو جایا کرتے ہیں؟ یا گھر کا نظام قطعی ڈھیلا ڈھالا، بےاصول قسم کا ہے جس میں کسی بھی معاملہ میں کوئی ترتیب، کوئی نظم و ضبط نہیں پایا جاتا؟
ضروری نہیں آپ گھر کو کیڈٹ کالج بنا ڈالیں مگر چند ایک اصول و ضوابط ۔۔۔ ؟
کیا آپ نے 'بتدریج' والے اصول پر عمل کرتے ہوئے بچوں کو آواز دینے پر 'اٹھ جانے' کی ترتیب و تہذیب سکھائی/بتائی ہے۔ کسی ڈسپلن کے لیے ذہناً تیار کیا ہے؟ کیا آپ خود اس معاملے میں درست طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں؟
دوم، بچوں میں یہ پرابلم ہے تو اس معاملے میں 'پہلے سے' کہہ رکھنے والی نفسیاتی ترکیب پر عمل کریں۔ ایک ترتیب بتائیں۔ مکالمہ کریں۔ بچوں کے ساتھ مل کر ایک 'رائزنگ کوڈ' طے کریں کہ صبح کیسے اٹھنا ہے۔ جوش و خروش والے انداز میں!
اب عملی طور پر کیسے؟
رات سونے سے پہلے:
خوب سنجیدہ لب و لہجے میں:
"9 بج کر پچاس منٹ ہو گئے۔ صرف دس منٹ باقی ہیں۔ لیٹ جائیں، *اور دعا پڑھنے سے پہلے بتائیں کہ ماما جب صبح آواز دیں گی تو کیا کرنا ہے؟ رِپیٹ کریں* *شاباش* ۔"
بچے (ہنستے مسکراتے ہوئے): *پہلی آواز پر نہیں اٹھنا۔ صرف نیند سے واپس آنا ہے real world میں۔*
آپ: اور دوسری آواز پر؟
*بچے: دوسری آواز پر بھی نہیں اٹھنا۔ بلکہ کروٹ بدلنی ہے، اپنا مائنڈ ریڈی کرنا ہے،* *اور تیسری آواز کا انتظار کرنا ہے۔*
آپ: گڈ۔ پھر؟
*بچے* : *تیسری آواز پر اپنا ہاتھ کمبل میں سے نکال کر ماما یا بابا کی طرف بلند کرنا ہے، یعنی جو بھی جگانے آئے گا۔ اور پھر اُٹھ کر بیٹھ جانا ہے۔*
آپ: پھر؟
*بچے: سب سے پہلے دُعا پڑھنی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْ رُ۔*
*پھر پورا ایک منٹ بیٹھے رہنا ہے، ایک دم سے کھڑے نہیں ہو جانا، یہ میڈیکلی نقصان دہ ہے۔ اس دوران جو* *بھی سامنے ہو اُسے سلام کہنا ہے۔*
آپ: پھر؟
بچے: تب اٹھ کر کھڑے ہو جانا ہے۔
صبح آپ خود اسی ترتیب کا مظاہرہ کریں:
1- پاس آ کر نرم آواز میں پکاریں۔
2- آپ کی آواز زیادہ پچکارنے اور لاڈ کرنے والی نہ ہو، اور نہ زیادہ سنجیدہ و سپاٹ یا غصیلی۔
3- بچے کے سر پر اور گالوں پر ہلکا سا تھپتھپا دیں تا کہ وہ نیند سے واپس آ جائے۔
4- منہ سے بول کر کہیں "اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔" ساتھ میں وقت بتا دیں۔ پھر ہٹ جائیں۔
5- دوسری آواز تین سے پانچ، سات منٹ کے بعد، دور سے: "فرحان، اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔ دِس از سیکنڈ ٹائم۔" لب و لہجہ خوشگوار یا نارمل۔
6- تیسری دفعہ پاس آ کر، وقت بتاتے ہوئے:
"فرحان، آ جائیں بیٹا۔ آپ نے عائشہ سے پہلے واش رُوم جانا ہے۔ یہ تیسری دفعہ ہے۔ لائیں جی، اپنا ہاتھ باہر نکالیں۔۔۔"
بچے ابتدا میں چوں چرا کریں گے۔ رفتہ رفتہ ترتیب بن جائے گی۔
7- بچے جب سکول سے واپس آ جائیں، یا شام کے کھانے پر، یا رات سونے سے پہلے آپ مثبت لب و لہجہ میں سوال کریں، "آج کس کس نے کوڈ آف رائزنگ کو فالو کیا تھا؟" ۔۔۔
یہ سوال بذات خود تنقید ہے۔ اس طرح نرمی اور سنجیدگی سے مکالمہ کریں۔ بتدریج بچے ٹیون ہو جائیں گے۔ ہر روز تھوڑی سے اِمپروومنٹ آنی چاہیے ۔۔۔ اور بالآخر یہ سب اِس گھر کا کلچر بن جائے گا۔ نسلوں تک جائے گا۔
خلاصہ کیا ہے؟
عین موقع پر نہیں! ۔۔۔ پہلے سے، پیچھے سے۔
ذہنی تیاری، ترتیب، تدریج، خود عمل، صبر و استقامت ۔۔۔ دعائیں ☘️❤️
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر،، ہمایوں تارڑ
انتخاب،، عابد چوہدری
❂▬▬▬▬▬https://www.facebook.com/daresuffahschool❂
💥 *اپنے بیٹوں کی پرورش میں یہ چند غلطیاں کبھی مت کیجیے گا:*
اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی اللہ کی دَین ہوتی ہے اور دونوں کی ہی تربیت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ایک خاندان کی نہیں بلکہ معاشرے کے نقصان کا سبب بنتی ہے۔۔۔لیکن ہمارے معاشرے میں تربیت کا حقدار صرف بیٹیوں کو ہی مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی تو گھر سنبھالنا ہے۔۔۔انہوں نے ہی تو اگلے گھر جانا ہے۔۔۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس بھرم اور اس کوشش میں ہم اپنے بیٹوں کی تربیت میں کچھ ایسی بنیادی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جس کا خمیازہ آنے والی کئی نسلیں بھی پورا نہیں کر پاتیں۔۔۔
*بیٹوں کے جذبات پر پابندی نا* *لگائیں*
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں رونے والی آنکھیں صرف بیٹیوں کی بنا دی گئی ہیں۔۔۔غم اور دکھ یا تکلیف کے اظہار کا حق صرف بیٹیوں کو دے دیا گیا ہے۔۔۔۔لیکن آپ کا بچہ چاہے کسی بھی عمر کا ہے اسے ہر جذبے کے اظہار کا بھرپور حق دیں۔۔۔اکثر مائیں یا گھر کے بڑے بوڑھے بیٹوں کو چوٹ لگنے پر یہ کہتے ہیں۔۔۔مرد بن مرد۔۔۔لڑکیوں کی طرح کیوں رو رہے ہو۔۔۔اتنی سی تکلیف پر رو رہے ہو۔۔۔رونا مت کیونکہ مرد روتے نہیں۔۔۔یاد رکھیے! بیٹوں کو اگر اپنے ہی درد کی شدت محسوس نہیں ہوگی تو وہ کسی اور کی تکلیف کا اندازہ کیسے لگا پائیں گے۔۔۔ان کے دل کو سخت مت کیجیے۔۔۔کیونکہ کل کو وہ اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کے آنسوؤں کی تڑپ سے بھی نا واقف ہی رہیں گے۔۔۔
*گھر کے کاموں میں ان کی مدد* *لیں*
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیٹیاں چھوٹی بھی ہوتی ہیں تو ان سے دسترخوان اٹھوانا، پانی پلوانا، برتن لگوانا جیسے کام کروائے جاتے ہیں تاکہ کل کو انہیں سارے کام کرنے کی عادت ہو۔۔۔لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ لڑکوں سے یہ کام نہیں کروانے چاہییں۔۔۔اپنے بیٹوں کو چھوٹی عمر سے عادت ڈالیں کہ وہ اپنی چیز واپس جگہ پر رکھیں، کمرے کو اگر پھیلائیں تو واپس سمیٹیں بھی، برتن کھانے کے بعد کم سے کم کچن یا سنک تک پہنچائیں، ڈسٹنگ، جھاڑو جیسے کام کروائیں تھوڑے تھوڑا کرکے۔۔۔اور جب ٹین ایج میں پہنچے تو کپڑے خود استری کروائیں اور ان سے کچن کے کام بھی کروائیں۔۔۔انہیں بچپن سے یہ احساس دلائیں کہ گھر کی ذمہ داری لڑکے اور لڑکی کی تفریق سے بے نیاز ہے ۔۔ساتھ ہی ان میں یہ احساس بھی پیدا ہوگا کہ کوئی کام کرنے میں شرم محسوس نا کریں۔۔۔
*دوسروں کے لئے مدد کا جذبہ* *پیدا کریں*
اپنے بیٹوں کو بار بار یہ احساس دلائیں کہ انہوں نے کبھی بھی کسی کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں ہٹنا۔۔۔اور یہ کرنے کے لئے آپ کو عملی مثال بننا پڑے گا۔۔۔ماں اور باپ دونوں کو ہمیشہ لوگوں کی مدد کے لئے خود تیار رہنا ہوگا اور یہ جذبہ انہیں دیکھ کر بے اختیار بچوں میں منتقل ہوگا۔۔۔اس کی بنیاد میں سب سے پہلے یہ احساس ڈالیں کہ جب کوئی بڑا کھڑا ہو تو اس کے سامنے بیٹھنا نہیں ہے بلکہ اسے جگہ دینی ہے۔۔۔کسی کے ہاتھ میں سامان دیکھے تو انہیں پوچھے کہ کیا میں آپ کا ہاتھ بٹا سکتا ہوں۔۔۔اس سے پودے لگوائیں۔۔۔نا صرف اپنے گھر کے باہر کا کچرا بلکہ کچھ کچھ پڑوسیوں کے گھر کے باہر کا کچرا بھی صاف کروائیں۔۔۔جب ٹین ایج میں آئیں تو ان سے خون بھی دلوائیں اور انہیں مختلف فلاحی اداروں میں لے جاکر ان کے ہاتھ سے دوسروں کی مدد کروائیں۔۔۔
*رشتوں کا احترام*
بظاہر بہت معمولی لگے گا لیکن حقیقت میں یہ سب سے اہم نکتہ ہے بیٹوں کی تربیت کا۔۔۔گھر اور باہر کے ہر چھوٹے بڑے رشتے کا احترام سکھائیں۔۔۔خاص طور پر لڑکیوں کی عزت کرنے کا درس دیں اور انہیں دینی مثالیں دیں تاکہ ان میں نا صرف اپنے گھر کی بلکہ دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت اور عزت کا احساس زندہ رہے۔۔۔باپ کو چاہیے کہ بیٹے کے سامنے ہمیشہ اپنی بیوی یعنی اس کی ماں کو احترام اور عزت سے پکاریں۔۔۔تاکہ اسے یہ پتہ چلے کہ اس کا بھی یہی رویہ ہو خواتین کے ساتھ-
*ایک بیٹے کی ماں در حقیقت کسی اور کی بیٹی کے شوہر اور آنے والی ایک نسل کے باپ کی* *پرورش کر رہی ہوتی* ہے۔۔۔ایک ایسے انسان کی تربیت کر رہی ہوتی ہے جس سے معاشرے کی باقی لڑکیوں کو احساس تحفظ حاصل ہو ۔۔۔اس لئے یاد رکھیے کہ آپ کی ذمہ داری سب سے بھاری ہے۔
انتخاب،، عابد چوہدری
❂▬▬▬▬https://www.facebook.com/daresuffahschool▬❂
*🌼Join🌼*
*اس پیغام کو اور لنک کو اپنے* *پیاروں، اور مقامی گروپس میں شئیر ضرور کریں تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ* *کے ذریعے بدل*
*دے*
*ہمارے ہاں بچوں کی تربیت*
اس طرح کی جاتی تھی کہ کھاتے ہوئے منہ بند رکھنا ہے۔۔نوالہ چباتے ہوئے آ واز نہ آئے چپ چپ کی۔۔پانی پیتے ہوئے بیٹھ کر پینا اور تین گھونٹ آہستہ آہستہ حلق سے اتارنے ہیں۔۔بسم اللہ لازماً پڑہی جائے گی۔۔باتھ روم کادروازہ بند رکھا جائے گا۔۔شیطان باہر جاتا ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔
*مگر ہماری اس تربیت پہ پانی پھیر رہے ہیں اشتہارات* ۔۔۔
جی *کسی بھی اشتہار کو دیکھیں تو ہماری تربیت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔۔* *غڑپ غڑپ کرکے* *مشروب پیا جارہاہے۔۔بسکٹ کھاتے ہوئے منہ سے ٹک ٹک کی* *آ واز آ رہی ہے۔۔سب سے* *زیادہ قابل نفرت وہ یہ کہ عین* *کھانے کے دوران ایک خاتون* *گندہ ٹوائلٹ دکھا کے اسے صاف کرنے کا کلینر بیچ رہی ہے* ۔۔
*کیا یہ اشتہار ہماری روایات کی نفی نہیں کرتے۔۔*
*ڈرامے میں دیکھو تو کھڑے رہ کے پانی پیا جارہا ہے۔۔*
*کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنی روایات اور تربیت کی* *خوبصورتی کو ڈراموں میں ہی دکھادیا کریں۔۔کہ بچے سب سے* *زیادہ ان ڈراموں سے متاثر ہوتے ہیں۔
*💥💔موجودہ دور کی ایک دکھی حقیقت*
کیا یہ ایک سُلگتا ہوا اور دُکھ بَھرا سَچ نہیں ہے جو اس معاشرے کے تقریباً ہر گھر میں پَنپ رہا ہے؟
*‼️‼️معذوری !*
لڑکا یا لڑکی
👈🏻جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکے ہیں، *صحت قابل رشک ہے مگر گھر میں ایسے رہتے ہیں جیسے خصوصی افراد۔۔۔*
*🪸صبح اٹھیں گے، بستر ویسے ہی بے ترتیب چھوڑ دیں گے*۔۔۔ کہ ماں آ کر یہ درست کر دے گی۔
*🪸کپڑے تبدیل کریں گے۔۔۔*
*جہاں اتارے وہیں یا کسی کونے کھدرے میں رکھ چھوڑیں گے۔۔۔*
ماں آئے گی، اٹھائے گی، دھوئے گی، استری کرے گی اور واپس ترتیب کے ساتھ ان کی الماری میں رکھ دے گی۔
*🪸 کھانا انہیں تیار ملنا چاہیئے کھانے سے پہلے یا کھانا کھا چکنے کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔* پلیٹیں اٹھانا یا گلاس واپس رکھ چھوڑنا بالکل بھی نہیں۔۔ماں آئے گی اور وہی یہ سارے کام کرے گی۔
*🪸اسکول، کالج یا یونیورسٹی جائیں گےواپس لوٹیں گے تو سونے کے لیے*
اسنیپ چیٹ، واٹس اپ یا ٹِک ٹاک پر مستی کے لیے۔۔۔ ٹویٹر، انسٹاگرام پر وقت گزاری کے لیے یا پھر اپنے پنسدیدہ سیریل اور ڈرامے دیکھنے کے لیے
*🪸کھانا وہیں بیٹھے منگوائیں گےفقط لقمے کے لیے ہاتھ بڑھانا یا اسے نِگلنا ان کا کام ہو گا اس کے لیے بھی ان کا شکریہ*
کیونکہ اس کے بعد انہوں نے ٹی وی یا لیپ ٹاپ یا آئی پیڈ پر دوبارہ جہاد کے لیے واپس جانا ہو گا
🪸کبھی کبھار یہ اپنے فارغ وقت میں گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بیٹھنے کی مہربانی بھی کر دیتے ہیں
*مگر کیا مجال ہے کہ اس دوران یہ اپنے موبائل کی اسکرین سے نظریں ہٹائیں*
*📱یہ اپنے اُن پیاروں کے نزدیک رہنا چاہتے ہیں جنہوں نے* ابھی ابھی کوئی کمنٹ کیا ہے
قیمتی اسٹیٹس اپلوڈ کیا ہے
یا کوئی تصویر بھیجی ہے
فوراً کمنٹ کر کے ان کی دلجوئی کرنا ان کا اولین فرض ہوتا ہے۔۔۔
*🔰اور یہ والے صاحبان--- گھر میں بَھلے کوئی انتہائی چھوٹا سا کام ہی کیوں نہ ہو، وہ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے۔*
🔅اپنی جگہ پر گَند مَچا کر اُٹھ جاتے ہیں
🔅کھانا پسند نہ آئے تو ناراض ہونا اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں
🔅گھر میں کوئی قابلِ مرمت کام یا قابلِ تبدیل چیز دیکھ بھی لیں تو انجان بن کر گزر جاتے ہیں
🔅کیونکہ یہ ذمہ داری تو باپ کی ہوتی ہے
صفائی ستھرائی یا ترتیب ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے
*🥀بَدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ یہ دِلسوز مَنظر تقریباً ہر گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔*
*🔥💔اِن سب وجوہات کی بِنا پر ہم بَرملا یہ کہہ سکتے کہ تمام اعضاء صیح سلامت ہونے کے باوجود بھی ہم ایک معذور نَسل پروان چڑھا رہے ہیں*
جی ہاں بالکل ایک معذور نَسل
خیر سے ہماری تیار نسل کے تصرفات دیکھیے تو لگتا ہے یہ اس گھر میں مہمان ہیں۔
🍂نہ کوئی تعاون کرنے والے
نہ ہی کسی کام میں مدد کرنے والے
🍂نہ کوئی اپنے اطراف کی کوئی ذمہ داری اٹھانے والے
🍂پرائمری اسکول سے لے کر کالج یونیورسٹی تک
بلکہ نوکری لگ جانے کے بعد بھی
وہ اپنے والدین کے گھر میں مہمان بن کر رہتے ہیں
*🍁وہ کسی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے ما سوائے جیب خرچ لینے اور ماں باپ پر رُعب ڈالنے کے*
💔 ماں باپ دونوں گھر کی ذمہ داریوں اور مُنہ زور اولاد کے رُعبُ و دَبدبے کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں
*بَھلے عُمر جتنی ڈھلتی جائے اور قویٰ کتنے ہی کمزور کیوں نہ پڑتے جائیں۔*
*👈🏻‼️کیونکہ وہ خود ہی تو نہیں چاہتے کہ اولاد کو ان کے ہوتے ہوئے کوئی تکلیف اٹھانا پڑے*
⁉️اور اس سب کے بعد اس اولاد نے سیکھا کیا ہے؟
🌀 *معذوری*
🌀 *دوسروں پر توکل اور بھروسہ*
*کیونکہ آپ نے ان کی بنیاد ہی ایسے رکھ دی ہے*
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے
*💠تو آپ کی اس محبت کے نتائج کیسے نکلنے ہیں؟*
🔉پیارے والدین اور سرپرست صاحبان
*👈🏻اپنے بیٹے یا بیٹی کو گھر میں کچھ ذمہ داریاں اٹھانے کی عادت ڈالیے*
*👈🏻ان کی شخصیت کی تعمیر اور سماجی طور پر ان کو سرگرم کیجئے*
🪷 *ذمہ داری لینا انہیں مضبوط بناتا ہے اور آنے والی چیزوں کا سامنا کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔*
*🥀جب کہ ان کا ہر پل ہر گھڑی ماں باپ اور دوسروں پر انحصار انہیں سست، کمزور اور کمتر* *بناتا ہے* ۔
*🔔ماں اور باپ اگر اپنے بیٹے اور بیٹی کو اپنے گھر کی ذمہ داری اور حالات کا سامنا کرنا نہیں سکھائیں گے تو ان کی زندگی آنے والے دنوں میں بَد سے بَدتَر ہوتی جائے گی جس کے صرف اور صرف آپ ذمہ دار ہوں گے۔*
🟥 یاد رکھیے
*دنیا کے دیئے ہوئے سبق آپ کی توقع سے زیادہ چونکا دینے والے، بے رحم اور زیادہ ظالم ہوں گے۔*
👈🏻 *اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنے گھر میں مہمان نہ بنائیں*
👈🏻 *بلکہ انہیں آہستہ آہستہ روزمرہ کے گھریلو معمولات کے ساتھ ساتھ معاشرتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے کا پابند* *کیجئے* ۔۔۔
*🤝آئیے عَہد کیجئے کہ ہم آج سے ہی اپنے اللہ تبارک و تعالٰی سے مدد مانگتے ہوئے اپنی آل اولاد اور نسل کو ایک اچھا باعمل مسلمان بنانے کے ساتھ ساتھ اس معاشرے اور اس ملک کا مفید شہری بنانے میں اپنی بھرپور کوشش کریں گے*
🤲🏻اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ں
کتاب تربیت پر اعتماد بچوں کی
🪢 *ماں اور باپ* 🪢
ابابیل اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتی ھے.. اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ھوتی ھے اور نہ ھی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ھے
*کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ھے.. مزید کسی ٹرائی کے* *امکانات زیرو ھیں* ...
آج تک اگر کسی نے ابابیل کے کسی مرے ھوئے بچے کو کنوئیں میں دیکھا ھے تو بتا دے...
*ابابیل بچوں کے حصے کی تربیت بھی اپنی ذات پر کرتی* ھے...
*بچوں سے پہلے اگر وہ اپنے گھونسلے سے دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں* *لیتی ھے* ...
*یوں ماں اور باپ 150 اڑانیں لیتے ھیں تا آنکہ اپنے بچوں کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ھیں کہ یہاں سے اڑ کر* *سیدھا باھر جانا ھے اور بس.!!* اور کوئی آپشن نہیں ھے..
*ایک دن آتا ھے کہ بچہ ھاتھ سےنکلے ھوئے پتھر کی طرح گھونسلے سے نکلتا ھے اور سیدھا جا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ھے.!!!*
‼️ *ھماری اولاد ھمارے یقین میں سے اپنا حصہ پاتی ھے.. اگر ھم خود یقین اور عمل سے تہی* *دست ھونگے تو اولاد کو کیا دیں گے..؟*
🌀 *بچوں کو صرف کہانیاں نہ سنایئے بلکہ عمل کر کے* *دکھایئے...*
✨💯👍 *یقین کریں وہ جتنا آپ پر اعتماد کرتے ھیں دنیا کے کسی کتابی ھیرو پہ نہیں کرتے...*
کتاب۔ ،،،تربیہ پر اعتماد بچے
Come and join us.
Admission Now Open.
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Telephone
Website
Address
Gujrat
50810
Challay Sharif Road, Karianwala
Gujrat, 50830
An education system that seeks to establish enlightened schools for young minds, rooted in tradition
M. A. S SCHOOL SYSTEM JINNAH CHOWK GUJRAT
Gujrat, 50700
WESTFIELD PRE CADET ACADEMY (WPCA)
Single Road Shell Petrol Pump Shadman
Gujrat
Red Ark School System gives hands on experiences to the young learners.
Misali Cadet Model School Shadiwal Gujrat
Gujrat, 50700
Misali Cadet Model School Pakistan best school. The Education System of Misali is wonderful. English Medium School. fellow all Islamic rules. special focus on student attitude and ...
Near Govt. Boys High School Alam Garh
Gujrat
Education is the most powerful weapon which you can use to change the world.” “The power of educ
Near Ghuman Chowk, University Road
Gujrat, 50700
Play Group to 8th class
Bypass Road Near Shaheen Chowk, Murrarian Shareef Gujrat
Gujrat
We are delighted to welcome you to our Page and We look forward to learning and growing together.