Team Syed Ahmad Hassan Shah ASC

Thank you for encouraging me to meaningfully engage in Islamabad Bar matters. Our sustained participation will ensure due Dignity of the Bar.

Remaining Committed, I request your continuing Support.

25/12/2022

Happy Quaid e Azam Day

16/12/2022

جمعہ کی سعادتیں مبارک

طالب دعا!
سید احمد حسن شاہ
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
03000051968

13/12/2022

طالب دعا!
سید احمد حسن شاہ
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
03000051968

Judicial Reform: Time To Devise Precise Criteria For Appointments To Superior Courts - The Friday Times - Naya Daur 13/11/2022

Judicial Reform: Time To Devise Precise Criteria For Appointments To Superior Courts

Judicial Reform: Time To Devise Precise Criteria For Appointments To Superior Courts - The Friday Times - Naya Daur Judicial appointments are the starting point of realizing the State’s promise of access to, and delivery of, justice. If nothing else, inner workings of the Judicial Commission (the “Commission”) that recently surfaced fueled misgivings: is the fish about to rot from the head? Despite its cheq...

10/11/2022

*تحریر، سید احمد حسن شاہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 03000051968*

(3/3)
ضابطہ اخلاق:
اعلیٰ عدلیہ کے لیے ایک نۓ ضابطہ اخلاق کے جاری ہونے کی اشد ضرورت ہے، جو عالمی معیار اور توقعات پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ سودیسی مسائل اور تاثرات کا ادراک بھی رکھتا ہوں۔ موجودہ جج صاحبان نظام پر یقین اور اعتماد میں اضافہ کریں گے اگر وہ سالانہ بنیاد پر اثاثے ظاہر کریں۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں کی پیشہ ورانہ مصروفیات (بلخصوص وکالت) کی معلومات بھی ظاہر کریں تاکہ براہ راست یا بالواسطہ مفادات کے تصادم کا اندیشہ ہی جنم نا لے۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی سپریم کورٹ جج کو کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری، ریگیولییٹری باڈی یا کوئی اور نوکری پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ بیشتر قوانین میں ریٹائرڈ ججز کی تائناتی کی گنجائش موجود ہے۔ اصولی طور پر ان قوانین میں ترمیم درکار ہے۔ پر جب تک ایسا نا ہو عدلیہ کو خود اپنے ضابطہ اخلاق میں درج کرنا چاہیے کہ دوران ایسی سرکاری نوکری بہیثیت سپریم کورٹ جج پینشن اور دیگر مرعات فراہم نہیں ہوں گی۔

بنچوں کی تشکیل:
بنچوں کی تشکیل اور تحلیل کے اختیار کی بہت تنقید ہوتی ہے جو نہ صرف عوام میں تشویش کا باعث بنی ہے بلکہ موثر عدالتی کاروائی میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

کیا ہ بہتر نا ہو گا کہ سپریم کورٹ کے کُل تین مستقل بینچ ہوں؟ دو پانچ ججوں پر مشتمل بنچ اور تیسرا سات ججز پر مشتمل ہو جس کی سربراہی چیف جسٹس صاحب کریں؟ بنچ II اور III کی سربراہی دو سینئر ترین ججوں کو سونپی جائے؟ یقیناً کسی نا گزیر مجبوری یا مستقل بنچ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں تین یا چار ججز پر مشتمل بنچ بھی سمعات کرے پر کسی صورت دو ججز پر مشتمل بنچ نہیں ہونے چاہیے۔ سب سے اہم، بنچ II اور III میں چاروں صوبوں سے نامزد ججز کو شامل کرنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تائنات جج اگر کسی صوبے کی سیٹ پر تقرر ہوۓ تھے تو انہیں اپنے صوبے کی نشست پہ سپریم کورٹ میں مقرر ہونا جاہیے۔ ان مستقل بنچوں کو پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق صوبائی رجسٹریوں میں بھی بیٹھنا چاہیے۔ کیسز کی سمعات کمپیوٹرایزڈ نظام پر مبنی ہونی چاہیے۔ اور ہاں، منتخب نمائندوں کے مقدمات جن میں آئینی تشریح درکار ہو وہ فل کورٹ کے ذریعے ہی طع ہونے چاہیے۔

مجوزہ لارجر مستقل بنچز کو 'متنازعہ' قرار دینے کا امکان کم ہو گا۔ عدالتی فیصلوں میں بھی ہماہنگی آئے گی۔ “ہم خیال” بنچ جیسی اصطلاح کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ ایسی اصطلاحات نہ صرف عدالت کے تصور کو رد کرتی ہیں بلکہ عوام الناس کے اجتماعی احساس کو مجروع کرتی ہیں اور ریاست کے عدل فراہمی کے واعدہ کی تحقیر ہیں۔

چیف جسٹس کی میعاد:
چیف جسٹس کی تقرری چند دنوں یا چند ہفتوں کے لیے کسی فردِ واحد کی انا کی تسکین کے کام تو آ سکتی ہے مگر ایسی قلیل مدت کوئی موثر انتظامی بھلائی کا موجب نہیں بن سکتی اور نا ہی رہی ہے! ہمارے ہاں بہت لمبی مدت بھی کچھ راس نہیں آئی ہے۔

اس ہی لیے، عمر سے قطع نظر، چیف جسٹس کے دفتر کی اِک متعین مخصوص مدت بھی ہونی چاہیے۔ دو سال ایک ایسی مناسب مدت ہے جس میں چیف بہحیثیت سربراہ کسی بھی پالیسی یا ہدایت کو جسے وہ اہم سمجھتے ہیں دیگر برادر ججز سے مشاورت کے بعد عمل میں لا سکتے ہیں۔

اُمید:
جوڈیشل کمیشن کے اندر کی آوازوں سے گمان ہوتا ہے کہ ممبرانِ کمیشن مزید انتظامی شفافیت اور واضح قوائد و ضوابط کے خواں ہیں۔ وقت دور نہیں جب سربراہ جوڈیشل کمیشن (موجودہ یا آئیندہ) چیف کےانفرادی اختیارات کمیشن کی اجتماعی صوابدید کے سپرد کر دیں گے۔

جوڈیشل کمیشن کو خود مختار و بااختیار ادارہ بنانا ارکانِ کمیشن کی اولین ترجیح اگر نہ بن سکی تو تاریخ عدلیہ کو ہی قصور وار ٹہراۓ گی۔ پہلے ہی عدلیہ سپریم جوڈیشل کونسل کی متنازعہ اور غیر فعال کارکردگی کی ذمہ دار قرار دی جاتی ہے۔ اور، جوڈیشل کمیشن کا مثالی ادارہ بننا ممکن ہی نہیں ہو گا اگر پارلیمانی کمیٹی غیر فعال رہی۔ دونوں کی باہمی کاوش سے ہی بہترین عدلیہ کا انتخاب یقینی ہوسکتا ہے۔

عدلیہ کی آئینی ذمہ داری اور اس سے منسلک احتساب کا معروضی پیمانہ اس امر کا طلب گار ہے کہ نظامِ عدل کے انتظامی امور کا از سرِ نوع جائزہ لیا جاۓ۔ اس کاوش کو اوپر سے ہی شروع ہونا ہوگا تاکہ دیر پا اثر نیچے پہنچے۔

انتہائی خوش آئیند بات ہے کہ موجودہ جج صاحبان سپریم کورٹ کی ماضی کی ناکامیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن، اگر اس احساس کے نتیجے میں عملی کاروائی بروۓ کار نا لائی گئی تو یہ محض لب کشائی ہے۔ آج جب عدم اطمینان اور غیر یقینی صورتحال کا گھیرا تنگ ہوتا محسوس ہو رہا ہے یہ عدلیہ ہی ہے جو اپنے قابل تحسین تصوراتی کردار کو مد نظر رکھتے ہوۓُاور دیگر آئینی و قانونی اداروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوۓ، انصاف کی فراہمی عوام کی دہلیز تک پہنچاۓ۔

ختم شد

10/11/2022

*تحریر، سید احمد حسن شاہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 03000051968*

تقرری کا مختلف معیار:
ہائی کورٹ جج اور سپریم کورٹ جج کی تقرری کا معیار مختلف ہونا چاہیے۔ دیگر وجوہات اپنی جگہ، ایک بنیادی فرق ملحوظ خاطر رہے کہ سپریم کورٹ کی کمپوزیشن میں ایک واضح 'وفاقی' رنگ ہے، جو ہائی کورٹ کی تشکیل کےلیے درکار نہیں۔

اس ہی لیے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تقرریوں کے لیے مناسب صوبائی نمائندگی کے اصول کی وضاحت ہونا لازم ہے۔ صوبائی تعصب اور دیگر خدشات کو ہوا نہیں دی جا سکتی۔ نسلی بنیاد یا قابل ترین جج کی تلاش مرقب معیار نہیں۔ مزید وسیع معیار درکار ہے۔ ڈومیسائل کے ساتھ ساتھ صنفی توازن بھی ضروری ہے۔ اسے بھی اہم ہے کہ صوبائی متناسبت سے سیٹوں کی تعداد مختس کی جائے۔

بنیادی خصوصیات:
سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے کردار، اختیار کا آزادانا استعمال یا قابلیت کا راگ الاپنا حیران کن ہے۔ یہ بنیادی خصوصیات تو ہر ایک جج میں موجود ہیں تب ہی تو سپریم کورٹ نامزدگی کے مرحلے تک پہنچنے ہیں۔ اگر حقیتاً کوئی مسئلہ ہو تو آئین سپریم جوڈیشل کونسل کی شکل میں حل فراہم کرتا ہے۔ یہی آئینی تقاضا اور ذمہ داری ہے۔

براہ راست تقرری:
اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جاۓ کہ ہائی کورٹ میں موزوں ججوں کی قلت ہے تو آئینی منشا کے مطابق عدالت عظمیٰ میں براہ راست تقرری بھی ہو سکتی ہے۔ اہل اور قابل وکلاء کی کوئی کمی نہیں۔ متعلقہ صوبائی بار سے موزوں امیدواروں پہ غور پر کیا امر مانع ہے؟ اور نہیں تو سینئر ایڈوکیٹس کے رول سے استفادہ لیا جا سکتا ہے۔

سینیارٹی:
مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں دیکھا جاۓ تو محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے میں 'سینارٹی' کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ سینیارٹی سے یہ تو ممکن ہے کہ زیادہ مدت ملازمت کی وجہ سے کثیر تعداد میں مقدمات سنے ہوں مگر یہ دیگر برادر ججز سے زیادہ قابلیت کی ضامن کیسے ہو سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں صرف طویل مدت ملازمت کی بنیاد پر تقرری منفی استحقاق کے احساس کی ترویج کے مترادف ہے۔ ہمارے ہاں تو سینیارٹی صبح شام یا ایک آدھ دن کے فرق سے اوتھ لینے کو بھی مانا جاتا ہے۔

اگلی پوسٹ میں انصاف کے موثر نظام و انتظام کے لیے کم از کم تین اور معملات کی نشان دہی۔

(2/3 ۔ جاری)

10/11/2022

*تحریر، سید احمد حسن شاہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 03000051968*

بہت دنوں سے اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کی باتیں ہو رہی تھیں۔ سوچا اپنے چند خیال تحریر کروں اور اپنی وکلا فیملی سے شیئر کروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اعلیٰ عدلیہ میں تقرری

یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ ریاست کی انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری کا آغاز عدلیہ میں تقرری سے ہوتا ہے کیونکہ عدل و انصاف کا نظم و نسق قائم رکھنے کا محور عدلیہ ہی ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ عوام ذیلی عدلیہ کے غیر موثر انتظام سے نہ صرف مصالحت کر چکی ہے بلکہ بتدریج اعتبار کھو رہی ہے۔ پر ریاست اعلیٰ عدلیہ میں ایسی صورتِ حال کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ماضی قریب میں جوڈیشل کمیشن کے اندرونی معملات کا منظرِ عام پر آنا مزید تشویش اور اضطراب کا باعث رہا ہے۔

اگر بنیادی آئینی حقوق کومستحکم بنیاد پر قائم رکھنا ہے تو موجودہ نظام و انتظام عدل و انصاف میں اعلیٰ عدلیہ کے کردار پر مثبت تنقید کا خیر مقدم کرنا ہو گا۔

پس منظر:
اٹھارویں آئینی ترمیم نے ججوں کی تقرری کا اختیار چیف جسٹس صاحب سے لے کر جوڈیشل کمیشن کے سپرد کیا تھا۔ سات اراکین پر مشتمل کمیشن میں اکثریت حاضر سروس جج صاحبان کی نہ تھی۔ اس وقت کی حکومت افتخار چوہدری پیراڈائم کی تاب نہ لا سکی اور انیسویں آئینی ترمیم لانے کو مجبور ہوئی جس میں جوڈیشل کمیشن میں حاضر سروس ججوں کی اکثریت مقرر کی گئی۔ اور پھر جب پارلیمانی کمیٹی نے جوڈیشل کمیشن کی نامزدگیوں سے اختلاف کیا تو سپریم کورٹ نے پارلیمانی کمیٹی کی رائے مسترد کر دی۔ یوں پارلیمانی کمیٹی غیر فعل کر دی گئی۔ یہ معرکہ ’عدلیہ کی آزادی‘ کا جھنڈا گاڑنے کی غرض سے کیا گیا۔ تاہم، اس کا اصل فائدہ محترم چیف جسٹس صاحب کو ہوا۔ وہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کا مرکز بن گۓ۔ آج بھی یہی دستور رائج ہے۔

پارلیمانی ردِ عمل:
ارکان پارلیمان دوبارہ مقابلہ کی تیاری میں ہیں! آئین میں مزید ترمیم کا ایک بل اگست 2022 میں سینیٹ میں پیش کیا گیا جس کا ہدف جوڈیشل کمیشن کا انتظامی ڈھانچا اور عدالتی تقرریوں کا طریقہِ کار ہے۔ تجویز ہے کہ:

(ا) موجودہ ججوں کی اکثریت ۴:۳سے ہو گی پر جوڈیشل کمیشن کی کل رکنیت میں دو سیٹوں کی کمی ہو گی۔
(ب) ہائی کورٹ میں تقرری کے لیے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اس میں بھی موجودہ ججوں کی ۳:۲سےاکثریت ہو گی۔ اسامیاں پر کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کو نام یہ کمیٹی تجویز کرے گی۔
(پ) پارلیمانی کمیٹی کو نامزد افراد کی اسناد، صلاحیت، اخلاقی اور مالی امور کی تحقیق کا جائزہ لینے کا مکمل اختیار ہو گا۔

مجوزہ آئینی ترمیم میں ملک گیر مشاورتی عمل کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ کیا موجودہ اختیار کو قائم رہنے کے لیے عدلیہ اندرونی مخالفت نظر انداز کرے گی؟ یہ ایک دلچسپ مفروضہ تو ہے لیکن یہ جوڈیشل کمیشن کے اندرونی تعطل یا عدم اطمینان و اعتماد کی تشخیص وحل کی دلیل نہیں۔

اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کے حوالے سے معیار ترتیب دینے کا وقت آ گیا ہے۔ اس پسِ منظر میں، عدالت عظمیٰ میں تقرری کے حوالے سے چند نکات و گزارشات اگلے پوسٹ مین۔

(1/3 - جاری)

Photos from Team Syed Ahmad Hassan Shah ASC's post 09/10/2022

طالب دعا!
سید احمد حسن شاہ
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
03000051968

Want your practice to be the top-listed Law Practice in Islamabad?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

Humble Request for your Support and Vote, thank you
Sincere gratitude to Irfanianz and Rawalianz, who made it possible to meet so many honourable seniors, peers and younger...
Sincere gratitude to Irfanianz and Rawalianz, who made it possible to meet so many honourable seniors, peers and younger...
Sincere gratitude to Irfanianz and Rawalianz, who made it possible to meet so many honourable seniors, peers and younger...
Sincere gratitude to Irfanianz and Rawalianz, who made it possible to meet so many honourable seniors, peers and younger...
As I said a couple of days back, when the final countdown to Election Day begins, the propaganda and smear campaign agai...
The final countdown!
Yes indeed! IIU alumni turned up in an amazingly large number! I am grateful to all and look forward to your continuing ...
Yes indeed! IIU alumni turned up in an amazingly large number! I am grateful to all and look forward to your continuing ...
syedahmadhassan.shah.90
ٹیم سید احمد حسن شاہ، محترم وقاص ملک صاحب، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی انتہائی ممنون و مشکور ہے جنہوں نے سید احمد حسن شاہ صاح...
Obliged and grateful to Sabzwari Sb for his kind endorsement in my campaign for the Office of President IHCBA 2022.

Telephone

Website

Address


F-6
Islamabad
44000

Other Lawyers & Law Firms in Islamabad (show all)
Sardar Wajahat Ilyas Sardar Wajahat Ilyas
F8 Kachehri Islamabad
Islamabad

Ex Coordinator To Prime Minister AJK On Youth Affairs | Ex Kashmir Youth Ambassadors at Kashmir Committee | President #PTI ISF Islamabad | #Kashmiri | #Entrepreneur | #Engineer| #...

Advocate Aamir Ali Rana Advocate Aamir Ali Rana
F-8 Markaz
Islamabad

Lawyer at Islamabad & Gilgit-Baltistan, Pakistan

Lawgics Lawgics
House No. 489-A, Street No. 9, F-10/2
Islamabad, 44000

law firm in pakistan

Hasnain Bin Arshad Kiyani Hasnain Bin Arshad Kiyani
Islamabad

We work as a single united team with market leading firms around the world and give our clients the highest quality advice possible.

KHANS LAW Chamber KHANS LAW Chamber
Islamabad, 4800

Nexis Law Associates Nexis Law Associates
Office No. 106, 2nd Floor, Golden Heights, Business Square Block C, Gulberg Greens
Islamabad, 44000

We provide legal services to the individuals and corporations at local and at International Level.

Shakir Law Consultants Shakir Law Consultants
Islamabad

Shakir_Law_Consultants is providing Legal services covering diverse nature of cases.

A.H Real estate Islamabd A.H Real estate Islamabd
Islamabad

This page is to spread legal awareness throughout Pakistan and to suggest the solutions of cases

Rahim Wazir legal consultant Rahim Wazir legal consultant
G10 Markaz Islamabad
Islamabad

we will provide best advocate for you �

Spasm Tax Consultants-STC Spasm Tax Consultants-STC
Islamabad: Ground Floor, Talal Plaza, Lehtrar Road ICT, Lahore: IEP Building Liberty Roundabout, Gulberg III
Islamabad

Provide following Services: Company/Firm, Intellectual Property, NGO, NTN Registration, Return filli

Nikah Khawan & Nikah Registrar Nikah Khawan & Nikah Registrar
Office No. 5-A, 3rd Floor, Laraib Centre, Main Mangla Road, Karachi Company, G-9 Markaz Near TCS Office Karachi Company Islamabad
Islamabad, 44090

We are an expert lawyer team in Islamabad or Karachi. We have Registered Nikah Khawan for Suni Marriage or Shia Marriage. We give you the service for Nikah khawan at home, online m...

ALC - Ahmed Abdul Rehman & Legal Consultants ALC - Ahmed Abdul Rehman & Legal Consultants
109, Street 10, E-11/4
Islamabad, 44000

ALC is a Registered Law Company that Provides Solutions to Your Legal Problems in Pakistan and abroad