Falcon Property Consultants
Nearby law practices
Dha Quetta Site, Kuchlak
islamabad
Office
Sahiwala
G-6
F-8 Markaz
Defence Road, Rawalpindi
Office Address
Tumair
F-11 Islamabad
44000
District Courts
44220
We provide legal & consultancy services in Islamabad, Rawalpindi & Attoc areas. We have proven track
Lagan (Rent) لگان
ایسی واجب الادا رقم جو کسی مزاع کو مالک زمین کو نقدی یا جنس کی صورت میں اراضی کے استعمال یا قبضہ کی بنا پر دینی پڑتی ہے
In case a piece of land is cultivated by someone else other than the owner, he/she is liable to pay the owner the value of mutually agreed share of the produce. The agreement between the parties is known as ‘Lagan’.
As per Punjab Land Administration & Management Manual
Procedure of Revenue Courts is governed by Civil Procedure Code
Türkiye’s President Erdogan has said that Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu has committed one of the ‘greatest atrocities’ of the century, and that he will go down in history as the ‘Butcher of Gaza.’ Erdogan’s remarks came during a meeting in parliament on Wednesday, where he added that hope for a prolonged ceasefire was dwindling thanks to remarks made by Netanyahu’s government.
This is not the first time the Turkish president has used strong words to describe his counterpart, having previously called Netanyahu a ‘terrorist’ and an ‘invader’ over IDF’s use of force in Gaza.
اگر آپ کا اسلام آباد میں کوئی مسئلہ یا کیس ہے جس کے لیے آپ کو کسی وکیل کی خدمات درکار ہیں مگر آپ وکیل کی فیس دینے سے قاصر ہیں تو رابطہ کیجیے انشاءاللہ آپ کو مفت قانونی مدد فراہم کی جائے گی
عبدالرحمن ملک
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
موبائل
03200814584
03347515683
رجسٹر حقداران زمین میں مالک قبضہ کا اندراج
جو شخص بلاحصہ شاملات اراضی خرید کرے وہ مالک قبضہ کہلائے گا
مطلب حقوق شاملات کے بغیر جو شخص اراضی /زمین کی ملکیت خرید کرے وہ مالک قبضہ کہلاتا ہے
اسلام علیکم
*Falcon Consultants*
Real Estate Solutions Providers, Multi Gardens B-17
کو ایسے باصلاحیت اور ایماندار نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ریئل اسٹیٹ / پراپرٹی کے کاروبار میں اپنے شاندار مستقبل کی تلاش میں ہوں۔ فالکن کنسلثینٹس ایسے نوجوانوں کو کچھ معمولی تنخواہ اور کمیشن کا بڑا حصہ فراہم کرے گا۔
ایسے محنتی نوجوان جن کی کم از کم میٹرک تعلیم ہو، ایماندار ہوں اور بات کرنے کا سلیقہ رکھتے ہوں
درج ذیل نمبروں پر رابطہ کریں
03467266391
03347515683
A suit for declaration & permanent injunction is not maintainable against co-sharer
سالگرہ مبارک میرے چھوٹے بھائی عمار مظہر اللہ تعالی آپ کو.اچھی صحت والی لمبی عمر اور رزق میں برکت عطا فرمائے آمین
سالگرہ مبارک میرے پیارے چھوٹے بھائی اسامہ اظہر
اللہ تعالی آپ کو اچھی صحت والی لمبی عمر اور رزق میں برکت عطا فرمائے آمین
خوش دل شاہ کی ایشیا کپ میں کارکردگی
بمقابلہ انڈیا 7 گیندوں میں 2 رنز
بمقابلہ ہانگ کانگ 15 گیندوں میں 35 رنز
بمقابلہ انڈیا 11 گیندوں میں 14 رنز
بمقابلہ افغانستان 3 گیندوں میں 1 رنز
بمقابلہ سری لنکا 8 گیندوں میں 4 رنز
کون سی مجبوری ہے کہ حیدر علی کو موقع نہیں دیا
دیوانی (civil) کیس کے بارے چند معلومات
جب کوئی عدالت کسی دیوانی کیس کا تمام ضروری کارروائی کے بعد آخری فیصلہ کرتی ہے تو ڈگری(decree)
کہلاتا ہے.
فرض کر لیجیے آپ نے کیس دائر کیا آپ مدعی (plaintiff) بن گئے. جن لوگوں کے خلاف کیس دائر کیا وہ مدعا علیہان (defendants) ہو گئے.
آپ کی طرف سے جو عرضی جمع کروائی گئی وہ دعوی (plaint) ہے اور مدعا علیہ کی طرف سے آپ کے دعوی کا جواب (written statement) جواب دعوی کہلاتا ہے.
دعوی اور جواب دعوی میں جو اختلافی باتیں ہوتی ہیں ان پر عدالت تنقیحات (issues) وضح کرتی ہے. مثال کے طور پر کہ آپ کا دعوی بنتا ہے یا نہیں. آپ کا ریلیف بنتا ہے یا نہیں.
ان تنقیحات پر دونوں فریقین کے وکلاء اپنے موقف کی تائید میں شہادت (evidence) پیش کرتے ہیں. زبانی شہادت کے بعد وکلاء دستاویزی شہادت پیش کرتے ہیں.
اس کے بعد دونوں وکلاء آخری / حتمی بحث کرتے ہیں. جس کے بعد جج صاحب تنقیحات کی بنیاد پر دونوں فریقین کی شہادت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیس کا حتمی فیصلہ کرتا ہے. اس حتمی فیصلہ کی بنیاد پر کیس ڈگری ہوتا ہے.
حتمی فیصلہ دراصل ڈگری ہوتا ہے اور اس کو آرڈر شیٹ کے علاوہ الگ سے تحریر کیا جاتا ہے.
جس کے حق میں ڈگری جاری ہو اسے ڈگری دار (decree holder)اور جس کے خلاف کیس کا فیصلہ ہوا ہو اسے مدیون ڈگری (Judgement Debtor) کہتے ہیں.
فلائیٹ لیفٹیننٹ
ریٹائرڈ عبدالرحمن ملک
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
یہ طے شدہ اصول ہے کہ زرعی زمین کی تقسیم مختلف کھیوٹ کو ملا کر نہیں کی جاسکتی
جمعبندی پڑھنے کا طریقہ
جمعبندی ریونیو کے ریکارڈ کی سب سے اہم دستاویز ہے. یہ مختلف ناموں کے استعمال ہوتی جیسے چار سالہ، رجسٹر حق داران زمین وغیرہ ہے.
یہ ریکارڈ بہت سی چیزوں کا اظہار کرتا ہے. ملکیت اور قبضہ، زمین کی قسم، اس کے انعقاد کی حیثیت، پودے ، اس پر تعمیر کی نوعیت، مالک کی نوعیت، زمین کی جگہ، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کی قسم اور بہت سارے دوسری چیزیں.
عام طور پر جمعبندی کے 10 (دس) کالم ہوتے ہیں. ہر کالم میں منفرد معلومات درج ہوتی ہیں. کچھ کالموں میں معلومات بہت اہم ہے اور کچھ کالم میں یہ کم اہمیت کی حامل ہوتی ہیں.
جمعبندی کے سب سے اوپر پر حدبست نمبر (یہ آمدنی گاؤں کی حد ہے)، جمعبندی کا سال (عموما جمعبندی ریکارڈ ہر چار برس کے بعد بنایا جاتا ہے) گاؤں، تحصیل اور ضلع کا نام ذکر کیا جاتا ہے.
جمعبندی کے پہلے کالم میں کھیوٹ نمبر ہے. یہ مالک / مالکان کا مخصوص نمبر ہے. یہ سیاہ سیاہی سے لکھا جاتا ہے. یہ نمبر اگلی جمعبندی میں تبدیل ہوتا ہے. اس کالم میں سرخ سیاہی سے سیاہ نمبر کے نیچے ایک نمبر لکھا جاتا ہے. یہ صرف حوالہ کے لئے ذکر کردہ آخری جمعبندی کا کھیوٹ نمبر ہوتا ہے. ایک اصطلاح MIN بھی کبھی تحریر کی جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے کھیوٹ نمبر کا حصہ جس میں مزید حصوں میں تقسیم ہوتا ہے. کالم 3 میں مالک اراضی کی تفصیل بیان کی گئی ہوتی ہے یا پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کالم نمبر 3 میں درج کردہ مالکان ایک کھیوٹ کی تفصیل ہیں جو کالم نمبر 1 میں بیان کی گئی ہے.
جمعبندی کا دوسرا کالم کھتونی نمبر ہے. یہ مالک کے قبضہ یا کاشتکاروں کے بارے ہے. کاشتکار یا قبضے کی وضاحت کا ذکر کالم نمبر 4 میں درج ہوتا ہے. ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کالم نمبر 4 میں بیان کردہ جو کسان یا کاشتکار قابض ہیں وہ کھتونی نمبر کے ہیں جو کالم نمبر 2 میں بیان کی گئی ہیں. اس میں مالک خود کاشتکار بھی ہوسکتا ہے.
کالم نمبر 3 میں زمین کے مالکان کی تفصیل درج ہوتی ہے. اس میں مالک کا نام مع والد تحریر ہوتا ہے. بعض اوقات نام مالک کے ساتھ والدہ، شوہر، بیوہ، پسر، بھائی یا بہن وغیرہ بھی اضافی طور پر تحریر ہو سکتا ہے. ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ مالک کو وہ رقبہ کسی رشتہ دار کی وراثت میں ملا ہوتا ہے تو اس لیے جس مرحوم کا ترکہ اسے بطور وراثت ملا ہے اس کے ساتھ اس کا رشتہ تحریر کیا جاتا ہے. یہ اس کی شناخت کو یقینی بنانے کے لیے لکھا جاتا ہے کیونکہ اسی نام کا کوئی دوسرا شخص بھی اسی گاؤں میں موجود ہو سکتا ہے.
اگر زمین پنچائت / ٹرسٹ / وقف بورڈ / شمولیت (چاک /گاؤں /کلی والوں کے عام حقوق) کے نام پر ہے تو اس کا نام اس کالم میں ذکر کیا جاتا ہے. بعض معاملات میں جب ماضی میں فروخت کی گئی / منتقلی / تحفے کی گئی تھی تو اس کالم میں یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے. اگر موجودہ جمعبندی کی مدت میں منتقلی کی جاتی ہے تو اس کا اندراج کالم نمبر 10 (ریمارکس کالم) میں ہوتا ہے تو پھر کالم نمبر10 میں تفصیل حتمی ہے، اور کالم نمبر 3 کے داخلے میں کوئی وزن نہیں ہوتا.
کالم نمبر 4 میں قابض یا کاشتکار کی تفصیل بیان کی جاتی ہے. اگر پچھلے کالم میں ذکر کردہ مالکان زمین کے قابض ہیں اور کاشتکار بھی ہیں تو "خودکاشت ، یا مقبوضہ مالکان ". اگر یہ معاملہ نہیں ہے تو پھر اصطلاح "غیر موروثی " جس کا مطلب ہے کہ عارضی غیر مجاز ملکیت یا پھر "کچی مجراہی" کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے. اگر یہ "غیر دخیل کار" ہے تو یہ مستقل غیر مجاز ملکیت ہے.
کالم نمبر 5 میں خسرہ نمبر تحریر ہوتا ہے. خسرہ جات تقسیم شدہ بھی ہو سکتے ہیں اور ایک ہی خسرہ تقسیم یا بٹا نمبر کے بغیر من کے ساتھ بھی درج ہو سکتا ہے. اس صورت میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ایک خسرہ کا کل رقبہ وہی ہے جو فیلڈ بک میں درج ہے اگر من کرتے ہوئے یا تقسیم کرتے ہوئے رقبہ میں کمی بیشی ہوگئی ہے یعنی مختلف تقسیم شدہ خسروں کا رقبہ کم ہو گیا ہے یا بڑھ گیا ہے تو اس صورت میں بائع یا مشتری کا نقصان ہو گا.
خانہ نمبر 6 میں رقبہ و قسم زمین تحریر ہوتی ہے. مطلب خسرہ نمبر کے سامنے اس کا رقبہ تحریر ہو گا اور ساتھ زمین کی نوعیت جیسے میرا، بارانی، غیر ممکن آبادی، مکان، ڈھوک، چاہ آبنوشی، ٹیوب ویل، کٹھہ وغیرہ تحریر ہوتا ہے.
کالم نمبر 7 میں وسائل آبپاشی معہ نام چاہ، راجباہ وغیرہ کا ذکر تحریر ہوتا ہے.
کالم نمبر 10 میں کیفیت جس میں انتقالات کی تفصیل، عمل درآمد شدہ اور غیر عمل درآمد شدہ انتقالات کی تفصیل مع نوعیت درج ہوتی ہے تو کہ خریدار ان انتقالات کو بھی حسب ضرورت چیک کر سکے.
جو کمی کوتاہی اور غلطی ہو اس کی پلیز نشاندہی کر دیجیئے تا کہ درستگی کر سکوں.
مزید یہ کہ کچھ عرصہ سے میں اور میری شریک حیات بیمار ہیں اور ہسپتال داخل ہیں آپ دوستوں سے درخواست ہے کہ ہماری صحت یابی کے لیے دعا کیجیئے.
دعا گو
فلائیٹ لیفٹیننٹ ریٹائرڈ
عبدالرحمن ملک
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
زمین کی رجسٹری کروانے کا طریقہ
بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) کے درمیان زمین کی خریدو فروخت سے متعلق جو معاہدہ طے پاتا ہے اسے اسٹامپ (اشٹام) پیپر پر تحریر کرنا بیعنامہ یا معاہدہ بیع کہلاتا ہے.
تحریر شدہ بیعنامہ کو رجسٹرار یا سب رجسٹرار کے پاس جا کر رجسٹرڈ کروانا رجسٹری کہلاتا ہے. مطلب بیعنامہ جب رجسٹرار آفس میں رجسٹرڈ ہو جاتا ہے تو اس دستاویز کو رجسٹری کہتے ہیں.
رجسٹری کروانے کا طریقہ کار
جب مابین بائع و مشتری معاہدہ زبانی کی شرائط طے پا جائیں تو پھر رجسٹری کا عمل شروع ہوتا ہے.
اس مقصد کے لیے بائع اپنا اراضی کا فرد برائے ریکارڈ مشتری کو فراہم کرتا.
ای اسٹامپ کی ویب سائٹ پر جا کر متعلقہ اسٹامپ پیپر کے حصول کے لیے چالان پر کیا جاتا ہے جس میں بائع اور مشتری کی مکمل تفصیل اور اراضی منتقلہ کی تفصیل درج کی جاتی ہے. 3 فیصد اسٹامپ ڈیوٹی مع رجسٹریشن فیس کا چالان پرنٹ کر کے بینک آف پنجاب میں جمع کروایا جاتا ہے اور وہاں سے اسٹامپ پیپر حاصل کیا.جاتا ہے.
اس اسٹامپ پیپر پر پھر معاہدہ کی جملہ شرائط درج کی جاتی ہیں جیسا کہ
بائع کا نام
مشتری کا نام
اراضی کی تفصیل
کل قیمت خرید
ادائیگی کا طریقہ کار اور مکمل ادائیگی کی وصولی کا بیان
قبضہ لیے جانے کا بیان
منتقلہ اراضی میں کمی کی صورت میں بائع اور اس کے وارثان کی ذمہ داری وغیرہ
نیز ان پر گواہان کے نام بھی تحریر ہوتے ہیں
اس معاہدہ کی کم از کم تین کاپیاں بنائی جاتی ہیں جن میں ایک اصل اسٹامپ پیپر پر اور دیگر دو فوٹو کاپی. لیکن اس میں جو اہم بات ہے وہ یہ کہ دونوں فوٹو کاپیوں پر بھی اصل دستخط و نشان انگوٹھا ثبت کیے جاتے ہیں
رجسٹری کے متعلقہ دیگر فیسیں جیسا کہ ضلع کونسل فیس، ایڈوانس ٹیکس، کیپیٹل ویلیو ٹیکس CVT متعلقہ ادارہ یا بینک میں جمع کروائی جاتی ہے.
اس کے بعد تینوں کاپیاں رجسٹرار کے دفتر میں جمع کروائی جاتی ہیں اور وہاں بائع، مشتری اور گواہان پیش ہوتے ہیں. رجسٹرار کا عملہ متعلقہ رجسٹر میں اس بیعنامہ کا اندراج کرتا ہے اور رجسٹرار کے سامنے بائع، مشتری اور گواہان پیش کرتا ہے جہاں رجسٹرار بائع و مشتری کے بیان لیتا ہے. جس میں بائع سے اراضی کی فروخت اور زر بیع / اراضی کی قیمت کی وصولی کے بارے اور مشتری سے قبضہ کے حصول کے بارے سوال کرتا ہے.
اس کے بعد رجسٹرار آفس کا عملہ رجسٹری کی دیگر کارروائی مکمل کرتا ہے اور بائع کو چند دن کا وقت دیا جاتا ہے کہ اس کے بعد آکر وہ اصل رجسٹری (اصل اسٹامپ پیپر والی) وصول کر لے.
اس کے بعد رجسٹرار آفس والے نمبر اور مہریں لگا کر اصل رجسٹری مشتری کو واپس کر دیتے ہیں ایک کاپی اپبے ریکارڈ میں رکھ لیتے ہیں جبکہ ایک کاپی اراضی ریکارڈ سنٹر پر انتقال کرنے کے لیے بھجوا دیتے ہیں اس طرح سے رجسٹری کی کارروائی مکمل ہو جاتی ہے
فلائیٹ لیفٹیننٹ ریٹائرڈ
عبدالرحمن ملک
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
محکمہ مال کا سفر
برصغیر میں سرکاری سطح پر زمینوں کے انتظام وانصرام کی تاریخ شیر شاہ سوری سے لے کر اکبراعظم اور برطانوی راج سے لے کر پنجاب میں موجودہ کمپیوٹرائزیشن تک پھیلی ہوئی ہے۔
انگریز نے سنہ 1860 میں اس مںصوبے پر کام شروع کیا اور سنہ 1900 میں پہلا بندوبست اراضی ہوا۔ سنہ 1940 کے بندوبست میں اس نظام کو صحیح معنوں میں جامع اور موثر طریقے سے نافذ کیا گیا۔
آج بھی ہمارے ملک میں بنیادی طورپر اصل ریکارڈ سنہ 1939-40 ہی کا چل رہا ہے۔
پنجاب میں ریوینیو کی موجودہ کمپیوٹرائزیشن پر بات کرنے سے پہلے لینڈ ریکارڈ کے اس نظام کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ یہ نظام دراصل کن بنیادوں پر اور کیوں تیار کیا گیا تھا۔ جب برطانوی حکومت نے محکمہ مال کا آغاز کیا تو 40 کتابیں تیار کی گئیں۔
سب سے پہلے 'شرط واجب العرض' نامی کتاب وجود میں آئی، جو شاید سب سے اہم دستاویز بھی کہلائی جا سکتی ہے۔ اس دستاویز میں ہر گاؤں کو 'ریونیو سٹیٹ' قرار دے کر اس کی مکمل تفصیل درج کی گئی جس میں گاؤں کے نام کی وجہ، اس کے پہلے آباد کرنے والوں کے نام، قومیت، عادات و خصائل، ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل، رسم و رواج، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کے معاملات طے کرنے جیسے قوانین کا تذکرہ، زمینداروں، زراعت پیشہ، غیر زراعت پیشہ دستکاروں، حتیٰ کہ پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض، انھیں فصلوں کی کٹائی کے وقت دی جانے والی شرح اجناس کی ادائیگی (جس کے بدلے میں وہ اپنے اپنے ہنر سے گاؤں بھرکے لیے خدمات بجا لاتے تھے)۔ اس کے علاوہ نمبردار اور چوکیدارکے فرائض اور ذمہ داریاں تک طے ہوئیں۔
گویا ہر گاؤں کے جملہ معاملات کے لیے 'شرط واجب العرض' وجود میں لائی گئی جو آج بھی ریونیو ریکارڈ کا حصہ ہے۔
'روزنامچہ ہدایاتی' میں پٹواری اعلیٰ افسران کی طرف سے دی جانے والی ہدایات درج کرتا ہے۔ 'روزنامچہ واقعاتی' میں پٹواری ہر روز عیسوی، دیسی اور اسلامی تاریخ درج کرتا ہے۔
اس کے نیچے وہ اپنی دن بھر کی کارگزاری لکھتا ہے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ وہ گرداور اور اعلیٰ افسران کی طرف سے روزنامچہ واقعاتی پر ان کے دستخط کرواتا ہے۔
ایک دستاویز 'روزنامچہ کارگزاری' بھی پٹواری تحریر کرتا ہے۔ وہ سارادن جو کام کرتا ہے اس کی ایک نقل تحصیل آفس میں دفتر قانون گو میں جمع کراتا ہے اور 'روزنامچہ پڑتال' پر اعلیٰ افسران اپنے ریمارکس لکھتے ہیں۔
برطانوی راج کے دوران جب محکمہ مال کا آغاز ہوا تو حیرت انگیز طریقے سے زمین کے چپے چپے کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگاؤں، کرنال سے شروع ہونے والی بغیر مشینری اورجدید آلات کے زمین کی پیمائش ضلع اٹک، دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں آنے والے ندی، نالے، دریا، سڑکیں، راستے، جنگل، پہاڑ، کھائیاں اورآبادیوں وغیرہ کا بھی اندراج ہوا۔
ہر گاؤں، شہر کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے جس بھی شکل میں موجود تھے ان کو نمبرات خسرہ، کیلہ وغیرہ الاٹ کیے گئے۔
ہر نمبر کے گرد چاروں طرف پیمائش'کرم' (ساڑھے پانچ فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لیے ہر گاؤں میں 'فیلڈ بک' تیار کی گئی۔
جب حد موضع (ریونیو سٹیٹ) قائم ہو گئی تو اس میں نمبرات خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر کی چہار اطراف سے جو کرم کے حساب سے زمین برآمد ہوئی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا کے تحت وضع کر کے اندراج ہوا۔ فیلڈ بک میں ملکیتی نمبرات خسرہ کے علاوہ سڑکوں، عام راستوں، بن، روہڑ، وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کی گئی۔
اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام افسران بالا نے کیا۔ اس کا نقشہ آج بھی متعلقہ تحصیل اور ضلع کے محافظ خانوں میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری گاؤں کا نقشہ (لَٹھا) تیار کرتا ہے۔ جب نیا بندوبست ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔
اس پیمائش کے بعد ہر 'ریونیو سٹیٹ' کے مالکان قرار پانے والوں کے نام بقدر حصہ درج کیے گئے۔ ان لوگوں کا شجرہِ نسب تیار کیا گیا اورجس حد تک پشت مالکان کے نام معلوم ہو سکے، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا۔
یہ دستاویز آج بھی اتنی موثر ہے کہ آپ لاکھ اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کریں مگر ایک ذرا تحصیل یا ضلعی محفظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے یہ ریکارڈ آپ کے دادا کے پردادا کی بھی قوم اور کسب نکال کر دکھا دے گا
جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے ان کے وارثان کے نام شجرہ کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثت کے مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں۔
پٹواری کی لال کتاب
شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت ایک اہم ترین کتاب میں مرتب کیا جاتا تھا جسے پہلے 'جمع بندی' کہتے ہیں اور اب اس کا نام 'رجسٹرحقداران زمیں' رکھا گیا ہے۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام، نمبر کھیوٹ، کتھونی، خسرہ ، کیلہ، مربع، اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوتا ہے۔
ہر چار سال بعد پٹواری اس دوران منظور ہونے والے انتقالات میعہ، رہن، ہبہ، تبادلہ، وراثت وغیرہ کا عمل اور زمین کی تبدیلی حیثیت کا اندراج، نیز گذشتہ چار سال کی تبدیلیاں از قسم حقوق ملکیت و حصہ وغیرہ کا اندراج کر کے نیا رجسٹرحقداران زمین تیار کرتا ہے اور اس کی ایک نقل محافظ خانہ میں جمع کراتا ہے۔ رجسٹر حقداران زمین کی تیاری کا انتہائی منظم اور اعلیٰ طریقہ رائج ہے۔
اس کی تیاری میں جہاں پٹواری کی ذمہ داری مسلمہ ہے، وہاں گرداور اور تحصیلدار سو فیصد جانچ پڑتال کر کے نقائص برآمدہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان افسران کا گاؤں میں جاکر مالکان کی موجودگی میں ان اندراجات کو پڑھ کر سنانا اور اغلاط کی فہرست تیارکرنا ضروری ہے۔
آخر میں تحصیلدار سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ یہ دستاویز اب غلطیوں سے پاک ہے۔
رجسٹرحقداران زمین کے ساتھ 'رجسٹر گردواری' بھی پٹواری تیار کرتا ہے۔ مارچ میں وہ فصل ربیعہ اور ستمبر میں فصل خریف کے مطابق ہر نمبر خسرہ، کیلہ پر جا کر مالکان اور کاشتکاران کی موجودگی میں فصل اور مالک کا نام درج کرتا ہے۔ ہر فصل کے اختتام پر پٹواری اس کتاب کے آخر میں درج کرتا ہے کہ کون سی فصل کتنے ایکڑ سے اور کتنی برآمد ہوئی۔
اس کی نقل تحصیل کے علاوہ بورڈ آف ریونیو کو بھی ارسال کی جاتی ہے جس سے صوبے اور ملک کی آئندہ پیداوار کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ یہ محکمہ مال کی ایک اہم دستاویز ہے جس کی جانچ پڑتال گرداور سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک موقع پر جا کر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
'رجسٹرانتقالات' میں پٹواری جائیداد منتقلہ کا اندراج کرتا ہے اور گرداور تصدیقی نوٹ لکھتا ہے۔
کاغذات مال متذکرہ کی کئی اور کتابیں بھی ہوتی ہیں، جن سے ریکارڈ آپس میں مطابقت کھاتا ہے اور غلطی کا شائبہ نہیں رہتا۔ پٹواری کے پاس ایک 'لال کتاب ' بھی ہوتی ہے جس میں گاؤں کے جملہ کوائف درج ہوتے ہیں، جیسے اس گاؤں یا شہر کا کُل رقبہ، مزروعہ کاشتہ، غیر مزروعہ بنجر، فصلات کاشتہ، مردم شماری کا اندراج، مال شماری، جس میں ہر قسم کے مویشی اور ان کی تعداد، نر، مادہ، مرغیاں، گدھے، گھوڑے، بیل، گائیں، بچھڑے وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے۔
اس نظام کو فرسودہ کیوں کہا جاتا ہے؟
ماہرین کے مطابق جس طرح یہ محکمہ بنایا گیا تھا اورذمہ داریاں مقرر کی گئیں تھیں اگر ان پر عمل ہوتا رہتا تو زمینوں کے لیے اس سے بہتر نظام کوئی نہیں تھا۔ انگریز دور تک تو یہ نظام ٹھیک چلتا رہا مگر آزادی کے بعد ہم 'آزاد' ہو گئے، ریکارڈ میں جعل سازیاں اور ہیرا پھیریاں فروغ پانے لگیں حتیٰ کہ بدنام زمانہ 'پٹوار کلچر ' وجود میں آیا۔
پٹواری سفارش پر بھرتی ہونے لگے اور افسران اہم پوسٹوں کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اپنانے لگے۔ پٹواریوں، گرداوروں، تحصیلداروں، اسسٹنٹ کمشنروں، اور ڈپٹی کمشنروں کو کام میں دلچسپی اور سمجھ بوجھ نہ رہی۔
اوپر سے حکمران بھی ایسے آتے گئے جنھیں عوامی مسائل سے کوئی غرض نہ تھی۔ ریونیو عملہ فیلڈ میں جانے کی بجائے دفتر ہی میں بیٹھا رہتا۔
افسران نے پٹواری کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنا لیا جو رشوت سے اپنے خرچوں کے علاوہ افسران کے کچن اور اللے تللے چلانے لگے۔ سیاستدانوں نے بھی پٹواریوں سے اپنی جلسہ گاہیں بھرنے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور اس طرح اس نظام سے اعتبار اٹھنے لگ گیا۔
سنہ 2008 میں ورلڈ بنک کے تعاون سے پنجاب میں محکمہ مال کو کمپیٹرائزڈ کرنے کا کام شروع کیا گیا۔
یوں تو ایک لمبا کام تھا لیکن اسے عجلت سے کرنے کی کوشش کی گئی۔ آزادی کے بعد ریکارڈ میں کافی غلطیاں آچکی تھیں۔ پہلے تو پنجاب حکومت نے طے کیا کہ کمپیوٹرائزیشن سے پہلے ہر تحصیل میں محکمہ کے چار ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں یہ غلطیاں ٹھیک کریں گی مگرریکارڈ کا ستیاناس ہو چکا تھا اور اکثر غلطیوں کی درستی کے لیے سنہ 1940 کے ریکارڈ سے لے کر موجودہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی ضرورت تھی۔
پھر صوبائی حکومت نے عجلت میں حکم دیا کہ جوں کا توں غلط ریکارڈ، لینڈ ریکارڈ میں جمع کرا دیا جائے۔ اب تک پنجاب کے 26000 موضعات کمپیوٹرائزڈ ہو چکے ہیں اور 3000 بقایا ہیں۔ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے قبل ضروری تھا کہ اراضی کا بندوبست کرایا جاتا، جو ہر چالیس برس بعد ہوتا ہے اورآخری بندوبست انگریز حکومت نے سنہ 1940 میں کرایا تھا۔
اگلا بندوبست سنہ 1980 میں ہونا تھا جو ابھی تک نہیں ہوا۔
اکثر انتقالات کا عمل پٹواریوں نے یا لینڈ ریکارڈ سنٹر نے نہیں کیا اور رقبہ بدستور بیچنے والے کے نام پر ہے۔ لینڈ ریکارڈ والے ناخواندہ عوام کو حکم دیتے ہیں کہ پٹواری، تحصیلدار سے بذریعہ فرد بدر ریکارڈ درست کرا کے لائیں، حالانکہ تمام ریکارڈ بمعہ نادرا ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے اور وہ با آسانی نام یا رقبہ درست کر سکتے ہیں۔
اب موجودہ حکومت اس تجویز پر غور کررہی ہے کہ ہر تحصیل میں ایک ایک قانون گوئی (چھ سات گاؤں) واپس پٹواریوں اور تحصیلداروں کو دے دیے جائیں اور وہ پرانے نظام کی طرح کام کریں۔
اگر اس طرح لوگوں کی مشکلات حل ہو گئیں تو شاید پرانا نظام واپس آ جائے مگر وہ انگریز والا نہیں 'پٹواری کلچر' والا ہی ہو گا۔
کاپی
7 C’s of Communication
Definition: The 7 C’s of Communication is a checklist that helps to improve the professional communication skills and increases the chance that the message will be understood in exactly the same way as it was intended.
To have effective communication, one should keep the following 7 C’s of communication in mind:
1. Clear
The message should be clear and easily understandable to the recipient. The purpose of the communication should be clear to sender then only the receiver will be sure about it. The message should emphasize on a single goal at a time and shall not cover several ideas in a single sentence.
2. Correct
The message should be correct, i.e. a correct language should be used, and the sender must ensure that there is no grammatical and spelling mistakes. Also, the message should be exact and well-timed. The correct messages have a greater impact on the receiver and at the same time, the morale of the sender increases with the accurate message.
3. Complete
The message should be complete, i.e. it must include all the relevant information as required by the intended audience. The complete information gives answers to all the questions of the receivers and helps in better decision-making by the recipient.
4. Concrete
The communication should be concrete, which means the message should be clear and particularly such that no room for misinterpretation is left. All the facts and figures should be clearly mentioned in a message so as to substantiate to whatever the sender is saying.
5. Concise
The message should be precise and to the point. The sender should avoid the lengthy sentences and try to convey the subject matter in the least possible words. The short and brief message is more comprehensive and helps in retaining the receiver’s attention.
6. Consideration
The sender must take into consideration the receiver’s opinions, knowledge, mindset, background, etc. in order to have an effective communication. In order to communicate, the sender must relate to the target recipient and be involved.
7. Courteous
It implies that the sender must take into consideration both the feelings and viewpoints of the receiver such that the message is positive and focused at the audience. The message should not be biased and must include the terms that show respect for the recipient.
Note: This checklist applies to both the written and oral communication
تقسیم اراضی
زرعی زمین کی تقسیم
تقسیم کی کارروائی کے دوران تین مختلف نقشہ جات تیار کیے جاتے ہیں جو کہ محکمہ مال کے متعلقہ ذمہ داران تیار کرتے ہیں
نقشہ الف
نقشہ ب
اور نقشہ ج
درحقیقت یہ تینوں ڈاکومنٹ نقشہ جات نہیں ہیں بلکہ یہ ایک قسم کی رپورٹ ہوتی ہے جس میں مالکان اراضی کا نام معہ حصہ و رقبہ تحریر ہوتا ہے. ان نقشہ جات کی تفصیل حسب ذیل ہے
(i) Naqsha Alif (نقشہ الف)
will show Shares/Hissas of parties in the property in question.
(ii) Naqsha Bay(نقشہ ب)
will show proposed Khasrawise shares of parties and basically in this document the mode of partition is determined and proposed Tatimaas are curved out. Basically this document denotes the division of shares and in Urdu it is known as (نقشہ ب،بٹوار).
(iii) Naqsha Jeem (نقشہ ج)
will show the proposal regarding the partition mutation and in urdu it is known as (نقشہ ج جدائی).
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the practice
Telephone
Website
Address
Fazaia Housing Scheme Tarnol
Islamabad
Islamabad, 44000
We render Consultancy Services, specially Legal and Tax Consultancy.
NUST SMME
Islamabad, 46000
Essentially, a freelance job is one where a person works for themselves, rather than for a company.
HOUSE NO. 489-A, STREET#9, F10/2
Islamabad, 44000
Lawgics® is a vibrant Law Firm with proactive team of senior, seasoned & young lawyers