Zamatv

Enjoy The #LogonKaMuhBandKarnyWaliBaatein and share your #LogonKaMuhBandKarnyWaliBaatein with us. Love Yew Fans! Muhhhhaaawww! :* :D

07/09/2024

سانحہ لنجوٹ۔۔۔..!
ایک درد بھری قیامت خیز رات۔۔۔۔۔24 اور 25 فروری 2000 کی درمیانی شب آزادکشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل نکیال میں ایل او سی کے عین اوپر واقعہ گاوں لنجوٹ میں ابھی شام کو سالانہ ختم سے فارغ ہو کر گاوں کے لوگ گھروں کو روانہ ہوئے تھے جبکہ امام مسجد مولوی فیض محمد رات پڑنے کی وجہ سے اسی گھر میں رک گئے تھے۔ یہ علاقہ کا ایک بڑا گھر تھا اس رات گھر میں عورتوں بچوں سمیت کل 18 افراد قیام پذیر تھے۔ گھر کی خواتین گھر کے صحن میں بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھیں کہ انہیں گھر کے قریب جھاڑیوں میں سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ جنگلی جانور سمجھ کو انہوں نے نظر انداز کر دیا۔ آہستہ آہستہ ہلکی ٹھنڈی شب کا اندھیرا گہرا ہوتا گیا اور گھر کے مکین کمروں میں چلے گئے۔ لائن آف کنٹرول پر حسب معمول کراس فائرنگ بھی جاری تھی۔ سب لوگ فائرنگ کی آوازوں میں سو گئے کہ یکایک فائرنگ کی آواز بہت تیز ہو گئی۔ بچے سوتے رہ گئے اور گھر میں موجود بڑے جاگ گئے۔ صحن میں کافی لوگوں کے بھاگنے کی آوازیں آنے لگیں پھر اچانک دروازے پر فائر لگے اور دروازے کی چٹخنی ٹوٹ گئی۔ بھارتی فوجی وردی میں ملبوس کافی تعداد میں فوجی گھر کے اندر گھسے اور گھر میں موجود سوتے جاگتے سب افراد پر فائر کھول دیا۔ گھر کے اندر موجود افراد نے بھاگنے کی کوشش کی مگر بے سود، گھر کے ایک جوان مرتضی کو دروازے میں لٹا کر زبحہ کیا گیا جبکہ بزرگ محمد عالم کا سر کاٹ کر انکی لاش کرسی پر بٹھا دی گئی۔ مرتضی کی نوبیاہتہ اہلیہ جو زخمی حالت میں نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی تھی اسے گھر سے کچھ فاصلے پر پکڑا گیا اور پتھر کی جائے نماز پر لٹا کر زبحہ کیا گیا۔ اسکی لاش قریب درخت کے ساتھ کھڑی کر کے اسکا سر اور بازو کاٹ کر بھارتی کمانڈوز اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ محمد اشتیاق اور محمد یونس گولیاں لگنے کے باوجود کھڑکی سے باہر نکلے اور قریبی پہاڑی سے چھلانگ لگا کر قریبی آبادی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور قریبی آبادی کے مکینوں کو سانحہ کی اطلاع دی جس پر مقامی آبادی گھٹاٹوپ اندھیرے میں سانحہ کی جگہ پہنچ گئی تب تک درندے اپنا درندگی کی داستان رقم کر کے جا چکے تھے۔
اطلاع ملنے پر سب سے پہلے اس گھر میں پہنچنے والے محمد شوکت اعوان نے جو مناظر دیکھے وہ بیان کرتے ہیں کہ
"24 اور 25 فروری2000 کی درمیانی شب بارہ بجے بجلی بند ہو گئی۔بجلی بند ہونے کے چند لمحوں بعد ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔جس سے درودیوار ہل گئے۔ہم سب لوگ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔۔۔
اس دھماکے کیساتھ ہی۔۔۔۔گولہ باری اور شدید فائرنگ کا ایسا طوفان برپا ہوا۔۔۔کہ اگلے ڈیڑھ گھنٹے تک ہمیں اپنی آواز بھی سنائی نہ دی۔بظاہر جنگ کا ماحول ہی لگ رہا تھا۔اور ہم خوف میں ذہنی طور پر تیار تھے کہ دشمن پیش قدمی کر رہا ہوگا۔کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ہم نچلے محلے والے اپنی محدود حکمت عملی میں مصروف تھے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔۔۔بھاگ سکتے نہیں تھے۔اس لئے یہ کیا کہ گھروں سے نکل کر دائیں بائیں کچھ عارضی پناہ گاہوں میں چھپ کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔۔۔۔۔اور طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتے رہے۔۔۔
اسی خوفناک صورتحال میں رات کے ڈیڑھ بج گئے۔پھر اچانک گولہ باری کا طوفان بالکل تھم گیااور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔۔
خاموشی کے اولین لمحے میں ہمارے عقب سے کراہنے کی خوفناک آوز آئی۔تو ہم ڈر گئے۔۔لیکن ہمت کر کے پکارا۔۔۔
کون ہے؟؟ کون ہے؟؟؟
"میں اشتیاق ہوں۔مجھے گولی لگی ہے۔مجھے بچاو۔۔۔"
(اشتیاق عبد الحمید کا نواسہ تھا جو فوج میں تھا اور چھٹی پر تھا)
ہم بھاگ کر اشتیاق کی پاس پہنچے۔اسے چادر میں لپیٹا۔اور نیچے گھرلائے۔کپڑے سے اس کا خون بند کیا۔اتنی دیر میں شور بلند ہونے لگا تھا۔ایک اور فوجی نوجوان جو چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔۔وہاں سے زخمی حالت میں بھاگنے میں کامیاب ہو چکا تھا ورایک محفوظ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔۔
اشتیاق نے مختصرا بتایا کہ نانا جان کے گھر انڈین کمانڈوز نے سب کو ماردیا ہے۔۔۔۔
وہ پھر بےہوشی میں چلا گیا۔۔بہت شدید زخمی تھا۔سینے میں خوفناک سوراخ ہو چکا تھا۔اور سردی سے ٹھٹھر چکا تھا۔ہم نے اسے چادروں میں لپیٹااور چند ساتھیوں کےحوالے کیا کہ اسکو خاموشی کیساتھ فائرنگ رینج سے نکالو۔۔۔۔
اب کیا کیا جائے۔۔اوپر والے گھر پہنچنا تھا۔ایک دو نوجوان کمر بستہ ہو گئے۔ اور اوپر کی طرف چل پڑے۔۔جب قریب پہنچنے لگےتو ہماری پاک فوج کے جوان بھی پہنچ گئے۔انہوں نے آگے جانے سے روکنا چاہا۔۔لیکن ہم نے کہا کہ آپ ہمیں کور فائر دیں۔ہم آگے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم فائر نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوزیشن لے لی ہے۔آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔فائر کیا تو واپس نکلنا مشکل ہو جائے گا۔انتہائی ضرورت میں فائر کر کے نیچے ہو جائیں گے۔۔۔آپ اپنے رسک پر جا سکتے ہیں۔
ہمیں خدشہ تھا کہ دشمن آس پاس ہوا تو ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔ بہرحال ہمت کر کے کچھ آگے بڑھے۔مکان کے بلکل قریب سے جائزہ لیا۔بلکل خاموشی تھی۔یعنی کسی کے زندہ بچنے کے کوئی آثار نہیں لگ رہے تھے۔۔
ہم نے اپنی ساری قوتوں کو مجتمع کیا۔کچھ اور لوگ بھی پہنچ گئے۔ آنے والی خواتین چیخ و پکار کرنے لگی۔مرد حضرات انکو چپ کرا رہے تھے۔بہرحال۔۔
یہ ایک خود کش ہمت والی بھرپور کوشش تھی کہ ہم تین چار لوگ ایک ساتھ گھر کے اندر داخل ہو گئے۔
مکان کے لکڑی کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ہمارے پاس ٹارچ تھی۔اندر داخل ہوتے ہی بارود کی بدبو نے ہمارا استقبال کیا۔اوپر سے دشمن یقینا ہمیں مانیٹر کر رہا تھا لیکن وہ خاموش تھا۔ٹارچ جلائی تو سامنے فرش پر ایک لاش پڑی تھی۔اسکی گردن ساتھ نہیں تھی۔پاس میں ایک چارپائی ٹوٹی ہوئی تھی جو اسکی طرف سے کی گئ مزاحمت کی عکاسی کر رہی تھی۔ ہم نے غور کیا تو یہ حال ہی میں شادی کے بندھن میں بندھنے والا نوجوان مرتضی تھا۔کچھ کاغذات وغیرہ اسکے سینے پر پڑے ہوئے تھے۔جو اسکی جیب سے نکلے تھے۔۔لیکن اسکی بیوی ہمیں نہ مل سکی۔
۔یہ مکان کا داخلی حصہ تھا جسکو اپنی زبان میں" پسار" کہتے ہیں۔وہاں ہمیں دو تین لاشیں اور بھی ملیں۔لیکن پہچان نہ ہو سکی۔جب ہم نے باتیں کرنا شروع کیں اور لاشوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔تو نیچے سے ہمیں دو بچیاں زندہ سلامت مل گئیں۔انہیں بال برابر زخم نہیں تھا لیکن وہ شاک میں تھیں۔جب ہم نے ہلایا تو وہ چیخ پڑیں۔انکو اٹھا کر ہم نے نیچے بھیجا وہاں سے ہمیں دوبچے بھی زندہ ملے جو زخمی تھے اور شاک میں تھے۔بعد ازاں ہاسپٹل میں انکی بھی شہادت ہو گئی۔۔۔
اب ہم ایک اور کمرے میں داخل ہوئے۔اس کمرے میں دونوں بزرگ تھے۔90 سالہ بابا محمد عالم۔ اور انکے ہم عمر مولوی فیض۔
بابا عالم ایک صوفے پر بیٹھے تھے لیکن انکی گردن ساتھ نہیں تھی۔۔۔
ساتھ ہی دوسری کرسی پر سفید ریش مولوی فیض۔۔۔
ایسا لگا وہ بلکل زندہ سلامت ہیں۔لیکن خاموس تھے۔ہم نے ہلایا تو انکی گردن دوسری طرف ڈھلک گئی۔وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔۔۔
اب تیسرے کمرے کی طرف بڑھے۔۔وہاں دو معصوم بچے فریاد اور عماد۔۔اپنی والدہ کی گود میں دم توڑ چکے تھے فریاد کا آدھا چہرہ اڑ چکا تھا اور اسکی والدہ کو کئی گولیاں لگی تھی۔وہ تینوں دم توڑ چکےہوئے تھے۔
ہم کسی شہید کو نہیں اٹھا رہے تھے۔بلکہ زندہ اور زخمیوں کو تلاش کر رہےتھے۔
اب آخری کمرے میں داخل ہوئے۔تو ایک خاموش زخمی خاتون نے اچانک چیخ ماری۔ہم پاس پہنچے۔اسکی 8 سالہ بچی اسکے پاس شہید پڑی تھی۔۔ہم نے اس خاتون کو اٹھانے کی کوشش کی۔تو اسنے بتایا کہ میرا پیٹ کٹا ہوا ہے۔مجھے نہ اٹھانا۔
دل دہلا دینےوالا منظر تھا۔وہ خاتون حاملہ تھی۔اسکا پیٹ پھاڑا ہوا تھا۔وہ زندہ تھی۔لیکن اس کی انتڑیاں باہر تھیں۔اسکو ایک چادر میں لپیٹا اور کچھ لوگ اسکو لیکر بھاگتے ہوئے فائرنگ رینج سے نکلنے لگے۔۔۔
اب زخمی اور زندہ لوگوں کو نکال چکے تھے۔یہ زخمی خاتون ۔۔۔زخمی نوجوان یونس کی اہلیہ تھی۔اسکو جب لیکر ہم تھوڑے نیچے پہنچے تو اس نے کہا کہ مجھے آگے نہ لے جاو۔ اپنے اکلوتے بچےسے ملوا دو۔ لیکن زخمی بچے کو ہم پہلے ہی روانہ کر چکے تھے۔
یہ خاتون چند لمحے زندہ رہی۔پھر اپنے زخمی خاوند کیساتھ باتیں کرتے کرتے شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئی۔۔۔
اب ہم نے جو گنتی کی تھی اسکے مطابق ہمیں مرتضی کی
نو بیاہتا بیوی نہیں مل رہی تھی۔
جس کھڑکی سے اشتیاق اور یونس نکل کر بھاگے تھے۔اور بھاگتے ہوئے زخمی ہوئے تھے اسی کھڑکی سے وہ خاتون بھی نکلی اور چیخ و پکار کرتے جب بھاگی تو بھاگتےہوئے پہلے اسکو گولیاں ماری گئی۔پھر ادھر نماز کے لئے پتھروں سے ایک جگہ بنائی ہوئی تھی۔وہا اسکو ذبح کیا گیا اور دایاں بازوں اور گردن لیکر دشمن فرار ہو گیا۔اسکی لاش صبح کے وقت ملی۔"
اس سانحہ میں گھر میں موجود 18 افراد میں سے 14 کی شہادت ہو گئی۔ 2 بچیاں جو لاشوں کے نیچے تھیں اور بھارتی فوجی انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے

آج اس سانحہ کو بیتے 24 سال پورے ہو چکے ہیں۔ شروع میں تو اس سانحہ کو سرکاری سطح پر یاد کیا جاتا تھا تاکہ نئی نسلوں کو پتہ چلے کشمیریوں نے خونی لکیر میں کس قدر خون کی ندیاں بہائی ہیں مگر پھر روایتی بے حسی حکمرانوں پر غالب آ گئی۔ شہداء کو ڈبسی کے مقام پر سپردخاک کیا گیا جہاں ایک صف میں 14 قبریں اور قبرستان کے دروازے پر لکھی عبارت اس داستان کو زندہ رکھے ہوئے ہے جبکہ لنجوٹ ہائی سکول اور گراونڈ کو شہدائے لنجوٹ سے منسوب کیا گیا۔ 24 سال گزر جانے کے باوجود حکومت پاکستان نے ان سرکٹی لاشوں کے سر اور بازو بھارت سے واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔

01/09/2024

ایک نامرد کی بیوی کی کہانی:
میرا شوہر نامرد ہے اور مجھے خلع چاہیے۔ وہ نکاح ختم کروانے کا عام سا کیس تھا۔
اچھی پڑھی لکھی فیملی تھی۔ دو پیارے سے بچے تھے کیوٹ اور معصوم سے۔ لیکن خاتون بضد تھی کہ اسکو ہر حال میں خلع چاہیے، جبکہ میرا موکل یعنی کہ (شوہر) شدید صدمے کی کیفیت میں تھا۔
جج صاحب بھی پورا کیس سنتے وقت کبھی حیرانی سے شوہر کو دیکھتے اور کبھی اس کی بیوی کو تو کبھی ان کے ساتھ کھڑے دو بچوں کو۔
جج صاحب اچھے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ میاں بیوی کو چیمبر میں لے جا کر صلح کی کوشش کرلیں شاید بات بن جائے۔ (شوہر) کا وکیل ہونے کے ناطے مجھے تو بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں بحثیت وکیل یہ کیس ہار رہا تھا۔ میں نے فوری حامی بھر لی۔ جبکہ مدعیہ (بیوی) کے وکیل نے اس پر اچھا خاصہ ہنگامہ بھی کیا لیکن خاتون بات چیت کے لئیے راضی ہوگئی۔
چیمبر میں دونوں میاں بیوی میرے سامنے بیٹھے تھے:-
" ہاں خاتون ! آپ کو اپنے شوہر سے کیا مسئلہ ہے"؟ - -
"وکیل صاحب یہ شخص مردانہ طور پر کمزور ہیں اور نامرد ہیں۔"
میں اسکی بے باکی پر حیران رہ گیا۔ میرے منہ سے ایک موٹی سی گندی سی گالی نکلتے نکلتے رہ گئی۔ البتہ منہ میں تو دے ہی ڈالی۔ ویسے تو کچہری میں زیادہ تر بے باک خواتین سے ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن اس خاتون کی کچھ بات ہی الگ تھی۔
اسکے شوہر نے ایک نظر شکایت اس پر ڈالی اور میری طرف امداد طلب نظروں سے گھورنے لگا۔ میں تھوڑا سا جھلا گیا کہ کیسی عورت ہے ذرا بھی شرم حیا نہیں ہے۔ دو بچوں کی ماں ہو کر بھی اپنے شوہر کو نامرد کہہ رہی ہے۔
بہرحال میں نے بھی شرم و حیا کا تقاضا ایک طرف رکھا اور تیز تیز سوال کرنا شروع کر دیے۔
جب اس سے پوچھا :-
" کیا تمہارا اپنے شوہر سے گزارہ نہیں ہوتا؟
تو وہ بیوی کہنے لگی:
" ماشاءاللہ دو بچے ہیں ہمارے۔ یہ جسمانی طور پہ تو بالکل ٹھیک ہیں مگر پھر بھی نامرد ہیں۔"
مجھے اس کی بات سے حیرت کا جھٹکا لگا کہ بچے بھی ہیں اور نامرد بھی، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ عجیب عورت ہے۔
تو بی بی پھر مردانہ طور پر کمزور کیسے ہوئے؟
میں نے استفسار کیا۔۔۔
وکیل صاحب ! صرف ازدواجی زندگی سے اولاد ہو جائے یہ ہی مردانگی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی ایسی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں میاں بیوی کے درمیان جس پر بیوی مرد سے مطمئن نہیں ہو پاتی اور مرد نا مرد ہی رہتا ہے۔
مجھے اس عورت کی منطق کسی بھی طرح سمجھ نہیں آئی تھی۔۔ مجھے حیرت تھی کہ وہ فقط مطمئن نہ ہونے پر کس طرح سے اپنے مرد کی عزت یوں کوٹ کچہری میں اچھال رہی ہے یہ معاملہ تو ان دونوں کے مابین بھی حل ہو سکتا تھا۔۔
میں نے اک نظر اٹھا کر اس کے شوہر کو دیکھا۔۔
جس کے چہرے پر اپنا سچ کھل جانے کا خوف لاحق تھا۔۔
آپ کو اگر خدا نے اولاد سے نواز رکھا ہے بی بی اور اگر یہ جسمانی طور پر بھی ٹھیک ہیں تو اگر آپ کو ان سب کے باوجود کسی دشواری کا سامنا ہے تو آپ ڈاکٹر سے رابطہ کر سکتی تھی یوں کوٹ کچہری آنا اس معاملے کا حل نہ تھا۔
میں نے غصے پر قابو کرتے جواب دیا
ان کی کمزوری کسی بھی ڈاکٹر سے دور نہ ہو سکتی تھی وکیل صاحب تبھی مجھے یہ راہ چننی پڑی۔۔
عجب عورت تھی اک تو انتہا کی بے باکی اوپر سے کمال کا کانفیڈینس۔ اور وجہ ایسی کہ کوئی اور ہوتا تو شرم سے ڈوب مرتا جانے یہ کیسی عورت تھی۔۔
اس کا حلیہ اس کی باتوں سے زرا نہ ملتا تھا مگر ہر کسی کے ماتھے پر تھوڑا ہی نہ لکھا ہوتا ہے کہ باطن بھی ظاہر جیسا ہے۔۔
بی بی ہر مسلے کا حل ہوتا ہے مجھے اب اس عورت پر غصہ آنے لگا تھا اور اس کے شوہر پر ترس۔۔
میں آپ کو ایک اچھے ڈاکٹر کا پتہ دیتا ہوں آپ وہاں جائیں سب بہتر ہو گا جہالت کی ضد میں آ کر گھر نہ توڑیں۔۔
میں نے اپنے غصے کو پس پشت ڈالتے اپنے فیملی ڈاکٹر کا ایڈریس دینے کا کہا جو کہ مردانہ کمزوری کا ماہر مانا جاتا تھا اور اپنی طرف سے ہر حد کوشش کر کے اس جاہل عورت کو اس اقدام سے روکنا چاہا۔۔
نہیں وکیل صاحب کبھی نہیں میں ان کا علاج کرانا دور ایسے مرد کے ساتھ اک منٹ نہیں رہوں گی۔۔
جانے وہ عورت کیوں اتنی ضد کر رہی تھی۔۔
جب آپ کی اولاد ہے تو پھر یہ بیماری اتنی بھی ںڑی بیماری نہیں۔ جانے آپ نے اس بیماری کو کیوں وجہ بنا رکھا ہے۔
اب کی بار میرا ضبط جواب دینے لگا تھا
بیماری ہے وکیل صاحب بیماری ہے۔۔
اب کی بار وہ بھی دبا دبا چلائی تھی۔۔
اگر ہے تو وضاحت کر دیں پھر۔۔
اگر وہ بے باک تھی اتنی تو اصل مدعے تک پہنچنے میں پھر میں نے بھی اپنی شرم اک طرف رکھی تھی۔۔
مگر جب وہ بولی تو مجھے حیرت اور شرمندگی کے سمندر نے آن گھیرا۔۔
صرف بچے پیدا کرنا ہی مردانگی نہیں ہوتی وکیل صاحب
میرے بابا دیہات میں رہتے ہیں اور زمینداری کرتے ہیں۔ پورا گاؤں کہتا ہے کہ ان جیسا مرد کبھی نہیں دیکھا۔ ماشاءاللہ گبھرو، بااخلاق اور انتہائی مدد کرنے والے انسان ہیں، ہمیشہ دوسروں کی بہو بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔
ہم دو بہنیں ہیں اور میرے والد نے ہمیں کبھی" دھی رانی" سے کم بلایا ہی نہیں جبکہ میرے شوہر مجھے" کتی " کہہ کے بلاتے ہیں - - -" یہ کونسی مردانہ صفت ہے وکیل صاحب ؟- - " اب بتائیں مرد میرے باپ جیسا شخص ہوا یا یہ کتی کہنے والا؟
مجھ سے کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہوجائے تو یہ میرے پورے میکے کو ننگی ننگی گالیاں دیتے ہیں؟ - -" آپ ہی بتائیں جی اس میں میرے مائیکے کا کیا قصور ہے - - - یہ مردانہ صفت تو نہیں نا کہ دوسروں کی گھر والیوں کو گالی دی جائے - -
وکیل صاحب۔! میرے بابا مجھے شہزادی کہتے ہیں - - - اور یہ غصے میں مجھے " کنجری" کہتے ہیں - -
وکیل صاحب ! مرد تو وہ ہوتا ہے نا جو کنجری کو بھی اتنی عزت دے کہ وہ کنجری نہ رہے اور یہ اپنی بیوی کو ہی کنجری کہہ کر پکارتے ہیں - - - یہ کوئی مردانہ بات تو نہیں ہوئی نہ - - - ؟؟
وکیل صاحب اب آپ ہی بتائیں کیا یہ مردانہ طور پر کمزور نہیں ہیں" ؟ - -
میرا تو سر شرم سے جھک گیا تھا۔ اس کا شوہر بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔
میری اس سوچ کو وہ عورت واقع ہی سچ ثابت کر گئی تھی کہ ضروری نہیں جیسا باطن ہو ویسا ہی ظاہر بھی ہو
" اگر یہی مسئلہ تھا تو تم مجھے بتا سکتی تھیں نا۔ مجھ پر اس قدر ذہنی ٹارچر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔" ؟
شوہر منمنایا۔۔۔
" آپ کو کیا لگتا ہے آپ جب میری ماں بہن کے ساتھ ناجائز رشتے جوڑتے ہیں تو میں خوش ہوتی ہوں۔۔؟ - -
اتنے سالوں سے آپکا کیا گیا یہ ذہنی تشدد برداشت کر رہی ہوں اس کا کون حساب دے گا؟ "
جب آپ میری بہن اور ماں کو اتنی گندی گندی گالیاں اور باتیں کرتے ہیں آپ کیا جانیں میرے دل پر کیا گزرتی ہے۔ لیکن ہر چیز کی حد ہوتی اب مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔
بیوی کا پارہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔
خیر جیسے تیسے منت سماجت کر کے سمجھا بجھا کے انکی صلح کروائی ۔۔
میرے موکل نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اب کبھی اپنی بیوی کو گالی نہیں دے گا اور پھر وہ دونوں چلے گئے۔ اب ان کے گھر میں سکون ہے، چھوٹے موٹے مسائل تو گھروں میں آتے رہتے ہیں لیکن اب ان کے گھر پہلے والے حالات نہیں ہیں۔
جب یہ واقعہ ہوا تو میں کافی دیر تک وہیں چیمبر میں سوچ بچار کرتا رہا کہ گالیاں تو میں نے بھی اس خاتون کو اس کے پہلے جواب پر دل ہی دل میں بہت دی تھیں تو شاید میں بھی نامرد ہوں اور شاید ہمارا معاشرہ نامردوں سے بھرا پڑا ہے۔آپکی عورت نےاپنے ارمانوں کا سہرا آپ کے سر پر باندھا ھے اس کا مان مت توڑیں۔۔۔۔بلکہ اس کی تربیت اپنے مزاج کے مطابق کریں
منقول عورتیں اس معاشرے میں ۔

21/08/2024

کہتے ہیں بھلے وقتوں میں ماہرین فن اساتذہ کے ہاں بڑی عمر کے شادی شدہ طلباء بھی پڑھا کرتے تھے،
اسی طرح ایک استاد کے پاس ایک طالب علم زیر تعلیم تھا، استاد کی دو شادیاں تھیں اور طالب علم کی ایک۔
استاد روز طالب علم سے کہتا،
ایک شادی میں کیا مزا،
اصل مزا تو دوسری شادی میں ہے
شاگرد سن سن کر آخر دوسری شادی پر آمادہ ہو گیا۔
دوسری شادی والے دن ہی دوستوں میں کچھ دیر ہوئی،
نئی دلہن کے در پر پہنچا تو دروازہ بند۔
کھٹکھٹایا،
جواب ملا جاؤ اسی چڑیل کے پاس جس کے پاس اب تک بیٹھے تھے ،،
یہاں تو پانی پت کی لڑائی چھڑنے کو تھی۔
سمجھانے کی کوشش کی کہ بھلی مانس دوستوں کے پاس تھا،
پر بیوی کا شک کیسے نکلے،
اس کے علاج سے تو حکیم لقمان بھی عاجز ٹھہرے،
سو نہ مانی۔
سوچا چلو پہلی بیوی تو کہیں گئی نہیں۔
وہیں جاتا ہوں،
آخر جاڑے کی رات بھی تو گزارنی ہے۔
وہاں گیا وہ دروازہ بھی بند،
کھٹکھٹایا ،
جواب ملا جو نئی بیاہ کر لائے ہو وہیں جا مرو اب یہاں کیا لینے آئے ہو؟
منت سماجت کی کہ وہ بھی دروازہ نہیں کھول رہی۔
یہ اور شیر ہو گئی کہ مجھے کیا پڑی ہے دروازہ کھولنے کی ۔
سوچا چلیں مسجد چلتے ہیں کہ در بدروں کا ٹھکانہ وہی ہے۔ کوئی دری یا صف لپیٹ کر رات کی سردی کا مقابلہ تو کریں۔ افتاں و خیزاں مسجد پہنچے،
لائٹ کا دور تھا نہیں ،
دیا جلانے کی ضرورت نہیں تھی۔
اندھیرے میں صف کو ہاتھ ڈالا تو کچھ نرم نرم چیز محسوس ہوئی،
اندھیرے میں استاد جی کی آواز بلند ہوئی،
آخر آہی گئے ہو ۔
روز میں یہاں اکیلا ہوتا تھا سوچا چلیں دو تو ہوا کریں گے !!!😀😀😀

07/08/2024

کسی نے خشونت سنگھ سے پوچھا ، "سردار جی آپ یہ فرمائیں کہ لاھور اور دِلّی میں کیا فرق ھے؟؟

خشونت نے سر ھِلا کر کہا ، ''بھئی جب میں لاھور گیا تو مجھے کنیئرڈ کالج میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ تقریر کے دوران میں نے ھال میں براجمان سینکڑوں لڑکیوں میں سے کسی ایک ایسی لڑکی کو تلاش کرنا چاھا جو شکل کی اچھی نہ ھو۔ ایک بھی نہ تھی۔

پچھلے ھفتے میں یہاں دلّی کے ایک گرلز کالج میں بلایا گیا تو تقریر کرتے ھُوئے میں نے ھال میں بیٹھی ھُوئی لڑکیوں میں سے کسی ایک ایسی لڑکی کو تلاش کیا جس کی شکل اچھی ھو ، ایک بھی نہ تھی۔

یہ فرق ھے لاھور اور دلّی میں۔

"مستنصر حسین تارڑ"

04/08/2024

وہ آزماتا ہے۔
لے کر بھی اور دے کر بھی۔
اپنوں کے ذریعے بھی اور غیروں کے ذریعے بھی۔
دوست کے ذریعے بھی اور دشمن کے ذریعے بھی۔
بس تم ان آزمائش کے دوران صبر سے کام لینا وہ تمہیں اس کا بہت اچھا صلہ دے گا۔
اگر وہ تمہیں آزمائش سے نا گزارتا تو تم مضبوط کیسے بنتے؟
کیا تم نے کبھی غور کیا ؟
کہ ان مشکلات کے بعد جو تمہاری زندگی میں آئیں، تم بہت بدل گئے ہو۔ تم اب وہ نہیں رہے جو تم پہلے تھے۔
اب تمہیں اپنی عزتِ نفس کا خیال ہے، تمہیں دوست اور دشمن میں فرق پتا چل گیا ہے، تمہیں معلوم ہوگیا ہے کہ کون تمہارے ساتھ مخلص ہے اور کون نہیں۔
کیا تم نے نہیں سنا " اللّٰہ پاک انہیں کو آزماتا ہے جن سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتا ہے " یہی تو ہے اس کی محبت کے وہ تمہیں ایک بہترین اور مضبوط انسان بنانا چاہتا ہے اور بغیر آزمائش کے یہ ممکن نا تھا۔ کیا اب تمہیں اندازہ ہوا ہے کہ یہ آزمائشیں در حقیقت اللّٰہ پاک کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک ہیں۔ جو تمہیں ایک بہترین انسان بنانے کیلئے آتی ہیں، لوگوں کی اصلیت سے واقف کرواتی ہیں اور تمہیں تمہارے ربّ کے مزید قریب کر دیتی ہیں۔
" اور تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"🌸♥️

27/07/2024

ہمارا ٹائیٹینک !!
کبھی ایسے جہاز ہمارے دریاؤں میں چلتے تھے
تین منزلہ جہاز ۔۔۔ نچلے حصہ میں جانور
درمیانی حصہ میں عوام اور عرشہ پر خواص سفر کرتے
پھر پل بنتے چلے گئے اور جہاز ڈوب گئے
یہ مشہور جہاز ایس ایس جہلم ہے
جو 1980 کی ایک طوفانی رات ڈوب گیا
میری اماں ڈیرہ اسماعیل خان سے تھیں۔

جب جانا ہوتا تو اماں صبح سویرے پراٹھے آملیٹ اچار رومال میں باندھے ہمیں لے کر بھکر ریلوے اسٹیشن آتیں۔ وہاں سے ٹرین پر دریاخان اترتے۔ تانگہ میں دریا کنارے پیر سلطان کا مزار پتن تھا۔ (شاید اب بھی ہوگا) وہاں کچھ لوگ کشتیوں میں کچھ لانچ میں کچھ جہاز سے ڈیرہ کا سفر کرتے۔ گرمیوں کی مون سون بارشوں میں پیر سلطان کے مزار سے ڈیرہ کنارے تک تمام پانی ہوتا تھا۔ (کہتے تھے یہ فاصلہ 10-12 میل کا بنتا تھا۔)

سردیوں میں دریا شاخوں میں تقسیم ہو جاتا تو ہر شاخ پر کشتیوں کے پل بنا دیئے جاتے۔ پل کے دونوں کناروں پر نقارہ بجانے والے بیٹھے ہوتے تھے۔ جب مشرق والا نقارہ بجاتا تو اس کا مطلب تھا مشرقی ٹریفک کھل گئ ہے۔ مغرب کی ٹریفک وہیں رک جاتی تھی۔ مغرب کا نقارہ بجتا تو مشرقی ٹریفک رک جاتی جب تک مغربی ٹریفک گزر نہ جاتی۔ یہ اس دور کے ٹریفک سگنل اور ٹریفک انتظامیہ تھی۔ انسان ہر دور میں اپنے مسائل خود حل کرتا آیا ہے۔

اس جہاز SS Jehlum کے 3 عرشے تھے۔ نیچلے عرشے میں جانور بھیڑ ، بکری ، گدھا ، گھوڑا ، گائے اور اونٹ وغیرہ سوار کئے جاتے تھے۔ درمیانی عرشے پر کم ٹکٹ والی عوام ہوتی تھی۔ ٹاپ والے عرشے پر مہنگے ٹکٹ والے خواص ہوتے تھے کیونکہ وہاں کھلا آسمان ، زمین ، دریا اور آبادیوں کے مناظر دیکھنے کو ملتے تھے۔ ہوائ جہاز کی طرح کھانا ٹکٹ میں شامل ہوتا تھا۔ تمام مسافروں کو دال اور بھٹی پر پکائے مانے serve کئے جاتے تھے۔ پسند کا کھانا اپنے پیسوں سے پکوا سکتے تھے۔

جہاز کا کیپٹن جانو کپتان ہوتا تھا۔ عملہ بانس سنبھالے افراد پر مشتمل ہوتا جو جہاز کے چاروں طرف بانس سے پانی کی گہرائی ناپتے جاتے تھے تاکہ جہاز کم پانی یا ریت میں نہ پھنس جائے۔ جہاز کے bonnet پر ایک بندہ بانس سے گہرائی ناپ کر ہر منٹ باآواز بلند بولتا 15 فٹ اے۔ 12 فٹ اے۔ 16 فٹ اے۔ یہ اس دور کا navigating pilot ہوتا تھا جو اوپر کیبن میں بیٹھے جانو کپتان کو گہرائی کی پوزیشن بتاتا جس سے وہ جہاز کی سپیڈ اور رخ کو adjust کرتا جاتا تھا۔

اسی طرح کوٹلہ جام سے ڈیرہ اسماعیل خان کا پل بن گیا تو ss Jhelum متروک ہو گیا۔ اور 1980ء دہائ کی ایک طوفانی رات ساحل کے قریب ہی ڈوب گیا۔ ڈوبنے کے اس حادثہ کو ڈیرہ کا Titanic سے تمثیل کیا گیا۔

میں جب فیملی کے ساتھ سعودیہ سے ہمیشہ کے لئے واپس آیا تو آبائی گاؤں موضع سیال، بھکر شہر بازار دوست احباب اور ڈیرہ کو دیکھنے کے لئے دل بہت ترسا ہؤا تھا۔ گاڑی نکالی اور پہنچ گئے۔ ڈیرہ کنارے جیدو لالہ کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ وہ مجھے ٹائٹینک کی ڈوبنے والی جگہ اور کنارے پڑی زنگ آلود وہ لانچ دکھا رہا تھا جس پر فلم "ایک رات کی دلہن" کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ ہیروئن ڈیرہ کی مسرت شاہین تھی۔ (لانچ کی تصویر کے ساتھ یہ کہانی پوسٹ بنا کر میں نے پندرہ بیس سال قبل فیسبک پر بھی لگائی تھی۔)

چلتے چلتے میں نے جانو کپتان کا ذکر کیا۔ جیدو لالہ نے کہا کہ عرصہ ہؤا وہ فوت ہو چکا ہے ، اس کے پوتے سے ملواتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ہم پوتے کی لانچ نما کشتی پر بیٹھے تھے اور وہ ہمیں دریا کی سیر کرا رہا تھا۔ جانو کپتان، ٹائٹینک، ایک رات کی دلہن والی لانچ اور جانے کن صدیوں کی باتوں کا ذکر ہؤا۔ اس وقت موبائل فون خواب میں بھی نہ تھے۔ میرے پاس SLR Canon کیمرہ تھا پوتے کی تصویریں بناتا رہا۔ شام کو میں نے اس کی تصویروں کی البم پیش کی۔ بہت خوش ہؤا۔ مجھے اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا۔ مگر "پھر کبھی" کہہ کر میں نے معذرت کر لی۔

پتن کنارے کپتان مسافر چلے گئے۔ جہاز لانچیں کشتیاں تیراک ڈوب گئے۔ آہنی پل بیراج پھیل گئے۔ دریاوں کے آنسو بہتے بہتے سوکھ گئے۔ یار دوست دھڑکنیں بچھڑ گئے۔ پرندے اداس گھونسلے چھوڑ کسی اور دیس کو اڑ گئے۔

زمانہ بڑے شوق
سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے
داستاں کہتے کہتے۔
قریشی منظور بھکر، حال لاہور

01/07/2024

میخائل کوسس یا عبداللہ انتقال(? - 1328) میں ۔ میخائل کوسس، جو سلطنت عثمانیہ کے قیام کے دور میں عثمان غازی کے ساتھی تھے، اسلام قبول کرنے اور عثمانی صفوں میں شامل ہونے والے پہلے اہم بازنطینی کمانڈر ہیں۔ Mihaloğulları کے آباؤ اجداد میخائل کوسس نے مسلمان ہونے کے بعد عثمان غازی کی تجویز پر عبداللہ کا نام لیا اور اس کا نام عبداللہ میہل غازی پڑ گیا۔
عثمان سردار کا سخت ترین دشمن تھا عثمان بے کے ساتھ لڑتے ہوئے پکڑا گیا جیل میں کافی سارا وقت رہا ۔اور عثمان بے کے رویے سے متاثر ہوکر اس نے اسلام قبول کرلیا۔
میہل بے نے 1313 میں عثمان غازی کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اسلام قبول کیا اور عثمان بے کی تجویز پر اس نے عبداللہ کا نام لیا۔ اس طرح ان کا نام عبداللہ میہل غازی ہو گیا۔

عبداللہ میہل غازی، جس نے سلطنت عثمانیہ کے قیام کے دوران بہت بڑا تعاون کیا، خود اور ان کے بیٹوں اور پوتے دونوں نے عثمانی فتوحات میں شاندار کامیابیاں دکھائیں۔ عبداللہ میہل غازی، جو اکنکی تنظیم کے بانی بھی تھے، جس کا عثمانی فتوحات میں بڑا کردار تھا، اورحان غازی کے دور میں برسا کی فتح میں حصہ لینے کے بعد 1328 میں انتقال کر گیا۔ ان کا مقبرہ ہرمانکی میں ہے۔

Copied

23/06/2024

پاکستان کے نامور کامیڈین و اداکار افتخار ٹھاکر کا کہنا ہے کہ میں زندگی بھر میزبان و صحافی آفتاب اقبال کا مشکور رہوں گا۔

کامیڈین افتخار ٹھاکر نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے پروگرام میں شرکت کی اور کھل کر اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔

دورانِ انٹرویو میزبان نے ان سے کہا کہ کوئی ایسا شخص ہے جس کے آپ مشکور ہوں ، جس نے آپکو مشکل میں سہارا دیا ہو؟ سوال کا جواب انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جس نے میری مشکل میں ساتھ دیا اس شخص کا نام آفتاب اقبال ہے اور میں ان کا احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔

اپنی بات کی وضاحت پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آفتاب اقبال صاحب کا میں اس لیے مشکور ہوں کیونکہ انہوں نے میری بیٹی کا علاج کروایا تھا ، ماضی میں ہوا کچھ یوں تھا کہ میری بیٹی جب بھی قرآن مجید پڑھ کر آتی تھی تو گھر کے ڈرائنگ روم میں پڑے صوفے کی بیک پر چڑھ کر اپنا وہی سبق پڑھا کرتی تھی تو ایک دن وہ اپنی عادت کے مطابق سبق پڑھتے پڑھتے نیچے گر گئی اور پھر اس کی حالت خراب ہونے لگی۔

افتخار ٹھاکر کے مطابق یہی بات میں نے آفتاب اقبال صحب کو بتائی تو وہ اپنا شو چھوڑ کر میرے ساتھ سب سے مہنگے اسپتال گئے وہاں کے مالک سے ملاقات کی اور یہی نہیں بلکہ سب سے مہنگے ڈاکٹر کو میری بیٹی کے علاج کی ذمہ داری دی اور تو اور اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھے جب تک میری بچی سکون میں نہیں آئی۔

واضح رہے کہ گفتگو کے آخر میں کامیڈین افتخار ٹھا کر نے یہ بھی بتایا کہ میری بچی کی گردن اور سر کے درمیان والی نس پچک گئی تھی ، جس کے علاج میں آفتاب صاحب نے 21 لاکھ روپے لگا ڈالے۔

21/06/2024

یہ چیز..

‏یہ شاہراہ قراقرم پر حادثے کا شکار ہونے والے ٹرک کی تصاویر ہیں.
ٹرک پر گھریلو استعمال کا کوکنگ آئل لدا ہوا تھا. لوگ آئے، ڈرائیور اور اس کے ساتھی کو نکالا ، ہسپتال روانہ کیا.
ٹرک پر لدا سامان اتار کر ترتیب سے رکھا اور مالکان کو اطلاع کر کے اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے. نہ ہی تیل کو مال غنیمت جانا اور نہ ہی مال مفت دل بے رحم ہوا۔۔۔۔

01/06/2024

*کسی کیلئے ڈسٹ بن نہ بنیں*

مفاسد معاشرہ لوگ
معروف عرب مفکر ڈاکٹر علی طنطاوی مرحوم لکھتے ہیں،،،
ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ جا رہا تھا، ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڑ پر چڑھا قریب تھا کہ ان کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے ،،،
،،،لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گئے، ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا، ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا
مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہو سکتے تھے پھر آپ نے ان سے معافی کیوں مانگی؟
ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا وہ کہنے لگے کہ،،،
،،،، کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں، وہ گندگی اور کچرا لاد کر گھوم رہے ہوتے ہیں،
وہ غصہ، مایوسی، ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں،،،،
،،،،، انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے، وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،
،،،،،جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لہذا ہم ان کے لئے ڈسٹ بِن اور کچرا دان کیوں بنیں؟
اس قبیل کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے،،،،
،،،، تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں۔
*

15/04/2024

Copied
🤍
*فٹ رہنے کا فارمولا*

ائیرمارشل نور خان ایک طلسماتی شخصیت تھے‘ وہ 1923 میں پیدا ہوئے‘ 1941 میں انڈین ائیرفورس جوائن کی‘ 1947ء میں پاکستان ائیر فورس کا حصہ بنے اور پھر ہیرو کی زندگی گزاری‘ وہ ’’مین آف اسٹیل‘‘ کہلاتے تھے۔

وہ 1965 کی جنگ میں ائیر چیف تھے لیکن خود جہاز اڑا کر حساس ترین مقامات پر چلے جاتے تھے‘ ان کی خدمات کا دائرہ صرف ائیرفورس تک محدود نہیں تھا‘ وہ 1959 سے 1965 تک پی آئی اے کے ایم ڈی رہے اور اسے دنیا کی پانچ بہترین ائیر لائینز میں شامل کرا دیا‘ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے اور پاکستان کو ہاکی کا ورلڈ چیمپیئن بنوا دیا ‘ وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے اور ہم کرکٹ کی دنیا میں ’’مین پلیئر‘‘ بن گئے۔

نور خان نے اپنی زندگی میں جس ادارے میں قدم رکھا وہ ادارہ انٹرنیشنل بن گیا اور دوسرے ملکوں نے وہ ماڈل بعد ازاں نقل کیا تاہم یہ تمام کامیابیاں ائیر مارشل نور خان کی پروفیشنل زندگی تھی‘ آپ کو زندگی میں ایسے بلکہ ان سے بھی بہتر لوگ مل جائیں گے لیکن ان کا اصل کمال ان کی ذاتی زندگی تھی‘ وہ 1969 میں ریٹائر ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے 42 سال بعد 2011 میں 88 سال کی عمر میں فوت ہوئے مگر وہ مرنے تک سپر فٹ تھے۔
وہ اسلام آباد میں روز مارگلہ ہلز کی ٹریل تھری پر ٹریکنگ کرتے تھے اور 40 منٹ میں بغیر رکے آخری پوائنٹ تک پہنچ جاتے تھے‘ میں اکثر انھیں ٹریل تھری پر دیکھتا تھا‘ وہ دائیں بائیں دیکھے بغیر بیس بیس سال کے نوجوانوں کو کراس کر جاتے تھے‘ ہم لوگ ان کے مقابلے میں جوان بھی تھے اور ’’سپر فٹ‘ بھی لیکن ہم جوان لوگ انھیں کبھی کراس نہ کر سکے‘ ہم جب آخری پوائنٹ پر پہنچتے تھے تو وہ نیچے پہنچ چکے ہوتے تھے‘ وہ 88 سال کی عمر میں بھی چالیس سال کے لگتے تھے‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کے گھٹنوں میں درد ہوتا تھا‘ ہم مسلسل چار دن ٹریک نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ آندھی ہو یا طوفان وہ وقت مقررہ پر مارگلہ کی پارکنگ میں ہوتے تھے اور ہاتھ پیچھے باندھ کر اوپر چڑھنا شروع کر دیتے تھے۔

میں نے ایک دن ان سے پوچھا ’’سر آپ کے گھٹنوں میں درد نہیں ہوتا‘ وہ ہنس کر بولے ’’مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں پہاڑ پرچڑھنے اور اترنے سے گھٹنے جواب دے جاتے ہیں لیکن مجھے آج تک کسی جوڑ میں درد نہیں ہوا‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہ شاید آپ کے طاقتور جینز کا کمال ہے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’نہیں ہرگز نہیں‘ میرے خاندان کے زیادہ تر لوگ جلد فوت ہو گئے تھے‘‘ میں نے ان سے وجہ پوچھی‘ ائیر مارشل صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے ’’ینگ مین وِل ٹیل یو نیکسٹ ٹائم‘‘ اور تیز تیز قدموں سے پہاڑ چڑھنے لگے۔

مجھے محسوس ہوا وہ ایکسرسائز کے ساتھ ساتھ وقت کے بھی ٹھیک ٹھاک پابند ہیں‘ میں اس کے بعد ان سے کئی مرتبہ ملا‘ سلام کیا ’’نیکسٹ ٹائم‘‘ کا حوالہ بھی دیا لیکن وہ مسکرا کر آگے نکل گئے لیکن پھر ایک دن معجزہ ہو گیا‘ وہ میرے قریب سے گزرے اور بولے ’’آپ اگر آج فارغ ہیں تو بات ہو سکتی ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’سر وقت ہی وقت‘ آپ فرمائیے‘‘ وہ بولے’’میں 40 منٹ میں نیچے آ جائوں گا‘ ہم آدھ گھنٹہ گپ لگا لیں گے‘‘ میں نے سلام کیا اور اوپر جانے کی بجائے نیچے کی طرف چل پڑا کیونکہ میں جانتا تھا میں 40 منٹ میں واپس نیچے نہیں پہنچ سکوںگا‘ میں بمشکل نیچے پارکنگ میں پہنچا‘ آپ یقین کیجیے وہ 88 سال کی عمر میں 39 منٹ میں اوپر آخری پوائنٹ کو ہاتھ لگا کر نیچے آ گئے تھے۔

ٹریل تھری کی پارکنگ کے سامنے کسی صاحب ذوق نے گھر میں کلب ٹائپ ریستوران بنا رکھا تھا‘ ہم وہاں چلے گئے‘ میرے پاس وقت کم تھا اور سوال زیادہ چنانچہ میں نے ان سے فٹنس کا راز پوچھنا شروع کر دیا‘ وہ بولے ’’صحت اٹھارہ اصولوں کا مکمل پیکیج ہے‘ ایکسرسائز اس پیکیج کا صرف ایک اصول ہے‘ ہم جب تک باقی 17 اصولوں کو ایکسرسائز جتنی اہمیت نہیں دیتے ہم اس وقت تک سپر فٹ نہیں ہو سکتے‘‘ میرے لیے یہ نئی بات تھی‘ میں خاموشی سے سننے لگا‘ وہ بولے ’’وقت کی پابندی صحت کا پہلا اصول ہے‘ آپ جب تک وقت کو کنٹرول نہیں کرتے‘ آپ اس وقت تک صحت مند نہیں ہو سکتے۔

میں نے اپنی زندگی میں وقت کی پابندی نہ کرنے والے کسی شخص کو 60 سال سے اوپر جاتے نہیں دیکھا‘ میں نے 18 سال کی عمر میں گوروں کے ساتھ کام شروع کیا تھا‘ میں نے وقت کی پابندی ان سے سیکھی‘ ٹائم اور ٹائمنگ فلائنگ کے بنیادی اصول ہیں‘ فلائنگ نے میری یہ عادت پختہ کر دی چنانچہ کچھ بھی ہو جائے میں وقت کی پابندی کرتا ہوں‘ مجھے صدر ایوب خان نے بلایا تھا‘ وہ چار منٹ لیٹ تھے‘ میں ماتحت ہونے کے باوجود ملاقات کے بغیر واپس آ گیا تھا‘ وہ دوسرے دن خود میرے دفتر آئے۔

دوسرا‘ میں سگریٹ اور شراب نہیں پیتا‘ چائے اور کافی بھی زیادہ نہیں لیتا‘ میری نوکری کے زمانے میں سگریٹ اور شراب فوجی کلچر کا حصہ تھی‘ ہمیں کوٹہ ملتا تھا‘ میں اپنا کوٹہ اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیتا تھا‘ میرے کوٹے کو انجوائے کرنے والے تمام لوگ چالیس سال پہلے فوت ہو گئے جب کہ میں آج بھی روزانہ پہاڑ پر چڑھتا ہوں‘ تیسرا‘ میں زندہ رہنے کے لیے کھانا کھاتا ہوں‘ کھانا کھانے کے لیے زندہ نہیں رہتا‘ میں نے کیریئر کے شروع میں انگریز افسروں کو فاقے کرتے دیکھا تھا‘ ہمارے بیس میں ایک بودھ بھکشو آیا کرتا تھا‘ وہ افسروں کو فاقہ کراتا تھا‘ افسر فاقے کے بعد چاق و چوبند ہو جاتے تھے‘ میں نے ان کی دیکھا دیکھی روزے رکھنا شروع کر دیے۔

میری جسمانی اور ذہنی صحت روزوں کی وجہ سے زیادہ اچھی ہو گئی‘ میں نے اس تجربے سے سیکھا روزہ بھی اچھی صحت کا ایک اصول ہے‘ میں یہ اصول بھی کیری کرتا ہوں‘ رمضان کے سارے روزے بھی رکھتا ہوں اور عام دنوں میں بھی ہر مہینے دو چار روزے رکھ لیتا ہوں‘ میرا جسمانی نظام ٹھیک رہتا ہے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’میں نمک‘ چینی‘ مسالے اور گھی کم استعمال کرتا ہوں‘ تلی ہوئی اشیاء نہیں کھاتا‘ گوشت کی جگہ مچھلی کھاتا ہوں اور وہ بھی گرلڈ‘ ہمیں اچھی صحت کے لیے ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ مچھلی کھانی چاہیے‘ یہ ہمیں فٹ رکھتی ہے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’پریشانی‘ دکھ اور غم انسان کو جلد بوڑھا کر دیتے ہیں‘ میں پریشان ہونے کی بجائے ہمیشہ اپنی پریشانی کا حل تلاش کرتا ہوں‘ حل نکل آئے تو ٹھیک ورنہ اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر لیتا ہوں‘‘۔

وہ رکے اور مسکرا کر بولے ’’میں روز اپنا وزن کرتا ہوں‘ میں نے باتھ روم میں وزن کی مشین رکھی ہوئی ہے‘ میں صبح اٹھ کر وزن دیکھتا ہوں جس دن میرا وزن زیادہ ہو میں اگلے دن روزہ بھی رکھ لیتا ہوں اور ٹریکنگ کا دورانیہ بھی بڑھا دیتا ہوں‘ وزن کا صحت سے گہرا تعلق ہے‘ آپ کا وزن جتنا بڑھتا جاتا ہے‘ آپ اتنا اپنی قبر کے قریب ہوتے جاتے ہیں چنانچہ آپ کسی قیمت پر اپنا وزن نہ بڑھنے دیں‘ آپ فٹ رہیں گے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’میں دوستوں کے معاملے میں بھی بہت سخت ہوں‘ میں صرف ہم مزاج لوگوں کو دوست بناتا ہوں‘ چڑچڑے‘ بدتہذیب‘ نمائشی اور نالائق لوگوں سے پرہیز کرتا ہوں لیکن جو لوگ میرے دوست بن جاتے ہیں میں روز ان سے ضرور ملتا ہوں۔

انسان کو اچھے اور ہم مزاج لوگوں کی کمپنی ہمیشہ انرجی دیتی ہے‘ میں یہ انرجی بھی لیتا ہوں‘ میں نے دوستوں سے محروم تنہائی پسند لوگوں کو بھی جلد مرتے دیکھا‘‘ وہ رکے اور بولے ’’آپ اگر اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے رہیں تو بھی آپ صحت مند رہتے ہیں‘ امید انرجی ہوتی ہے اور یہ شکر سے جنم لیتی ہے‘ آپ اللہ کا شکر کرتے جائیں‘ آپ کی امید بڑھتی جائے گی‘ میں نے مایوس اور ناشکرے لوگوں کو ہمیشہ بیمار بھی دیکھا اور جلدی قبرستان پہنچتے بھی چنانچہ کچھ بھی ہو جائے امید اور شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دو تم لمبی اور صحت مند زندگی پائو گے‘‘۔

وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور فرمایا ’’فیملی بھی آپ کو انرجی دیتی ہے‘ آپ اگر دن کا ایک حصہ بچوں اور ان کے بچوں میں گزارتے ہیں تو بھی آپ جوان اور صحت مند رہتے ہیں‘ میں پوری زندگی فیملی مین رہا ہوں‘ میں نے فیملی کو دور جانے دیا اور نہ خود ان سے دور گیا چنانچہ میں آج بھی چاق وچوبند ہوں‘ میں نے ان لوگوں کو بھی بیمار اور لاچار پایا جو صاحب اولاد نہیں تھے یا جو بچوں سے دور رہتے تھے جب کہ بچوں والوں کو خوش بھی دیکھا اور فٹ بھی‘‘۔

میں ان کی گفتگو غور سے سن رہا تھا‘ وہ بولے’’صحت کے چند اور اصول بھی ہیں مثلاً آپ اگر دوسروں کے کام آتے ہیں‘ چیریٹی ورک کرتے ہیں تو بھی آپ صحت مند ہوں گے‘ مثلاً آپ کم سے کم ریڈیو سنیں اور کم سے کم ٹی وی دیکھیں آپ صحت مند رہیں گے‘ مثلاً آپ جلدی سوئیں اور جلدی جاگیں‘ کم از کم نو دس گھنٹے نیند لیں‘ آپ کی جسمانی بیٹریاں چارج رہیں گی‘ مثلاً آپ فطرت کے قریب رہیں‘ میری طرح روزانہ پہاڑ پر آئیں‘ جنگلوں میں نکل جائیں‘ جھیلوں اور دریائوں کے ساتھ واک کریں اور برف میں چلیں‘ مثلاً آپ روز چند منٹوں کے لیے خاموش بیٹھ جائیں‘ کسی سے بات کریں اور نہ کسی کی سنیں‘ یہ مراقبہ بھی آپ کو صحت مند بنا دے گا۔

مثلاً خوراک میں سبزیاں اور فروٹ بڑھا دیں‘ ڈرائی فروٹ بھی کھائیں‘ مثلاً آپ کی زندگی کا کوئی نہ کوئی گول‘ کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے‘ بے مقصد لوگ زمین پر بوجھ ہوتے ہیں‘ زمین انھیں جلد اتار دیتی ہے اور مثلاً آخر میں روزانہ ایکسرسائز بلاناغہ‘ ریس لگائیں‘ نہ لگا سکیں تو جاگنگ کریں‘ یہ بھی نہ کر سکیں تو واک ضرور کریں‘ آپ لمبی زندگی گزاریں گے‘‘۔ وہ رکے‘ گرین ٹی کا آخری گھونٹ بھرا اور بولے ’’آخری ٹپ‘ تجربہ کار لوگوں سے تجربے کی باتیں سیکھتے رہا کریں‘ علم بھی انسان کو رواں اور صحت مند رکھتا ہے‘‘ وہ اٹھے‘ ہاتھ ملایا اور رخصت ہو گئے‘ وہ چند دن بعد بیمار ہوئے‘ اسپتال داخل ہوئے اور دو دن بعد انتقال فرما گئے‘ وہ اسپتال جانے سے پہلے بھی ٹریل تھری پر آئے تھے اور اپنی آخری واک مکمل کی تھی۔

Want your business to be the top-listed Computer & Electronics Service in Islamabad?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

موجودہ تعلیمی نظام کے منہ پر زوردار تھپڑ ،،، اور تھپڑ رسید کس نے کیا وہ بھی دیکھیں
In today's era, we need such scholars who explain the subject with facts#Engineer #sceince #Mirza #quranic
A wonderful music composition 👍👍👍👍👍👍😘😘😘😘😘😘 #musicmaker #musiccomposer #composer #musicschool #baby  Panini Fun
شیطانی جنوں کا رقص! کالا جادو افریقہ میں بڑے پیمانے پر رائج ہے۔ اپنے خاص دن پر، جادوگر لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے شیطانی...
بپر جوائے کی تازہ ترین صورتحال .....#KarachiWeather #Zamatv #karachi #real #leasedeals #lgbtq #اشفاق #leaks
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں " باؤ جی" کا کردار 😂#Zamatv #Real #bollywood #imrankhanfans #PositivePakistan #lgbtq #اش...
Every Men Need This Pain Killer at Every Moment of Life 🧬 #fights #smile #Real #bollywood #imrankhanfans
استاد آخر استاد ہوندن ۔۔۔🤣🤣🤣🤣
tiktok

Address

G9 Markaz
Islamabad
44000

Other Islamabad computer & electronics services (show all)
Life at Zigron Life at Zigron
Plot No. 42, 43, Pearl Heights, Business Square Gulberg Greens
Islamabad, 44000

Zigron is a US-based Company with offices in Arlington VA and world-class infrastructure in Islamaba

Crazenators Technologies Crazenators Technologies
OffIce #17 Vip Plaza I/8 Markaz
Islamabad, 44000

..:::Crazenators Technologies:::.. Solution For Excellence

Business Intelligence Business Intelligence
Islamabad, 44000

Offering business startup ideas with complete business solution's and consultancy.

Mega Dot PK - Online Shop Mega Dot PK - Online Shop
Shop 11 & 12, Ahmed Center, I-8 Markaz
Islamabad, 44000

Mega.PK is best online shopping Store in Pakistan Providing high-quality Laptops & All IT Products.

djuice pakistan djuice pakistan
Islamabad

Pakistan's first and largest youth telecommunication brand. Follow us on the web: https://twitter.com/djuicepakistan https://www.djuice.com.pk

wi-tribe Pakistan wi-tribe Pakistan
14N. F8 Markaz
Islamabad, 44000

Welcome to wi-tribe Pakistan's official page. Got a question? Email us at [email protected] or call us on 111-187-423.

Capital Campus - Muhammad Abdullah Capital Campus - Muhammad Abdullah
Sector I-8 Islamabad
Islamabad, 44000

Muhammad Abdullah https://twitter.com/iMAbdullahMalik

DatumSquare IT Services DatumSquare IT Services
STP-3, Ground Floor, Service Road North
Islamabad, 44000

Effectively managed by a professional team of IT experts, DatumSquare IT Services, founded in 2009

Needful Things Needful Things
Located At Beverly Center, Blue Area
Islamabad, 44000

Re-define yourself with the coolest accessories you will ever find on this side of the Indus!

Thunderbolt Systems Thunderbolt Systems
House # 22, Street # 3, Sector F-8/3
Islamabad, 44000

http://thunderbolt.zxq.net We re-invent personal & business computing, taking your experience with the digital world to a whole new level of creative freedom. Here at Thunderbolt ...

U-Gangsters U-Gangsters
Confidential
Islamabad

A fun box for all those who are a part of Ufone and Ufone Call Center...Islamabad & 4 every one who wants to join it:)

Professional Computer Services Professional Computer Services
Office No. 42, Basement Al-Ghaffar Plaza, G-11 Markaz
Islamabad, 44000

Computer Hardware, Software, Network & CCTV Solution