Law Society

The Law Society This idea was gleaned from the lawyers’ experience working on the ineffectual Judicial Reform.

The Law Society Pakistan (TLSP) is a registered independent not-for-profit, nongovernmental, advocacy, capacity building and legal aid development organization working since its inception in 2010. In winter of 2010, a group of reform-minded lawyers from the Karachi Bar Association decided to found The Law Society based on the belief that judicial reform must come from the bottom up rather than the

19/05/2024

ریمانڈ کے دوران ہتھکڑی کھولنے کے نئے ریٹ مقرر۔۔۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس چورن پور مغربی ضلع کے جوڈیشل مجسٹریٹس کا ہنگامی اجلاس مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا جس میں اکثریت رائے سے یہ طے پایا کہ ریمانڈ کے موقع پر کورٹ کے اندر ہی ملزم کی ضمانت منظور کرکے ہتھکڑی کھولنے کا ریٹ پچیس ہزارروپیہ مقرر کردیاگیاہے
اس موقع پر جوڈیشل مجسٹریٹس چورن پور کے مغربی ضلع کے ججز کی یونین کے صدر قابل احترام جوڈیشل مجسٹریٹ " اللہ ہی بچائے" نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ہمیں اپس میں اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور امید ظاہر کی کہ کوئی بھی مجسٹریٹ پچیس ہزارروپیہ سے کم پیسے لیکر موقع پر ہی دوران ریمانڈ عدالت میں ہی کسی بھی ملزم کی ہتھکڑی نہیں کھولے گا
چند بے ضمیر منصفوں نے رشوت کے ریٹ بہت زیادہ کم کردیئے ہیں اور وہ ہزار ہزار ہزارروپیہ لیکر بھی عدالت میں ہی ہتھکڑی کھولنے کا دھندہ کررہے ہیں جس سے رشوت کے ریٹ بہت زیادہ کم ہوئے ہیں ایسے بے شرموں کا فوری ٹرانسفر ہونا چاہیئے کیونکہ ایسے کم ظرف ججز کی وجہ سے چورن پور کے عوام میں چورن پور کی عدلیہ کا وقار ختم ہوگیاہے مہنگائی کے اس دور میں ہزار روپیہ رشوت لیکر منہ کالا کرنے والے بے شرموں کو ڈوب کے مرجانا چاہیئے
چورن پور غربیہ کے صدر جوڈیشل مجسٹریٹ اللہ ہی بچائے نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ ہتھکڑی کھولنے کے موقع پر قابل احترام کسٹمرز کو ٹھنڈی لسی بھی پلائی جائے اور خاطر تواضع بھی کی جائے
اس موقع پر یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ چورن پور کے ضلع غربیہ میں جو اکادکا چند دانے رہ گئے ہیں جو تاحال رشوت نہیں لیتے ان کی بھی سرکوبی کی ضرورت ہے ان کو فوری طورپر کسی دوسرے ضلع میں ٹرانسفر کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے ججز جو رشوت نہیں لیتے وہ پورے ضلع کا ماحول خراب کررہے ہیں
اجلاس کے اختتام پر چورن پور کے چیف جسٹس مجید عباسی کی قیادت پر بھی مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ چورن پور کے ججز کو ایسے ہی دلیر اور بہادر چیف جسٹس کی ضرورت تھی اور چیف صاحب کی دلیرانہ پالیسیز ہی کی وجہ سے کاروبار میں ریکارڈ اضافہ ہواہے
ان کی پالیسی "سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھنا اور خاموشی سے بیٹھ کر تماشہ دیکھنے کی پالیسی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا
چورن پور ضلع غربیہ کے جوڈیشل مجسٹریٹس نے چیف صاحب کا شکریہ بھی ادا کیا کہ وہ کسی بھی معاملے میں "کباب" میں ہڈی نہیں بنتے اور پوری دلیری اور بہادری سے ایک چپ سوسکھ کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں

17/05/2024

The judicial system of Pakistan has lost all sense of shame, modesty, and honor. Teach these corrupt people to at least take bribes properly. They were vultures preying on the living until yesterday; now, they aren’t even sparing the dead. The judicial system of Pakistan is in complete shambles. No matter how much salary is given to a dishonest judge, even if it's fifty crore rupees a month, they will still loot the wealth of orphans and widows. Until the Sindh High Court declares an all-out war on these corrupt individuals, such shameful incidents will keep occurring. As the saying goes, "A fish rots from the head down."

16/05/2024

"Unbelievable Corruption Story in the Judiciary"

15/05/2024
کالا جج۔ تحریر: صفی الدین اعوان -Safiudin Awan 30/04/2024

کالا جج۔ تحریر: صفی الدین اعوان -Safiudin Awan کالا جج۔ تحریر: صفی الدین اعوان -Safiudin AwanListen column of -Safiudin Awanقانون کی لاقانونیتکالا جج۔تحریر: صفی الدین اعوانکاش نیلی آنکھ والےگورے جاتے وقت...

29/04/2024
29/04/2024

گالی کی ایک خاصیت ہے یہ پیٹھ پیچھے دی جائے تو ( قانوناً) جرم نہیں ۔مرد کو پبلکلی دی جائے تو کم جرم ہے۔مطلب سزا ہوسکتی مگر ایف آئی آ ر نہیں۔عورت کو پبلکلی دی جائے تو سیشن ٹرائل ہے مطلب بڑا جرم ہے اور ایف آئی آر ممکن ہے۔دیکھیں ایک گالی ہے recipient فرق ہو تو جرم کی دنیا بدل جاتی ہے۔

واہ رے قانون تیسری وی بھین دی سری۔

28/04/2024

انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کے تحت ورکر اور ورک مین کی تعریف اور سکوپ کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ!

کیس کے حقائق:
مدعاعلیہ جس کا نام رضوان علی خان ہے پٹیشنر بینک کہ سکردو برانچ میں میں بطور کیشیئر کام کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کو پروموشن ملی اور یہ افیسر گریڈ-2(OG-II) بنا۔ 2006 میں اچانک مینجر کے مستعفی ہونے پر مدعاعلیہ کو عارضی طور پر مینیجر مقرر کیا گیا ۔2008 میں عہدے کے غلط استعمال کے الزام میں مدعاعلیہ کو عہدے سے برطرف کیا گیا۔
مدعاعلیہ نے اس برطرفی کو چیف کورٹ گلگت میں چیلنج کیا لیکن سپریم ایپلٹ کورٹ نے چیف کورٹ کے پاس اختیار سماعت نہ ہونے پر اس کا فیصلہ مسترد کر دیا جس کے بعد مدعاعلیہ نے اسلام آباد کے لیبر کورٹ میں درخواست دی۔ لیبر کورٹ سے بھی اس کی درخواست مسترد ہو گئ جس کے بعد مدعاعلیہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گیا لیکن وہاں سے بھی مدعاعلیہ کی پٹیشن مسترد ہوئی۔ بالآخر معاملہ سول پٹیشن فار لیو ٹو اپیل(CPLA) کے تحت سپریم کورٹ پہنچ گیا تو سپریم کورٹ نے سی-پی-ایل-اے کو اپیل میں تبدیل کر کے معاملہ لیبر کورٹ بھیج دیا کہ آیا مدعاعلیہ ورکر کے ضمرے میں آتا ہے یا نہیں۔
اسی دوران 2012 میں ایک نیا قانون پاس ہوا ( 2012 Industrial Relations Act) جس کے تحت مدعاعلیہ نے نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن (NIRC) میں پٹیشن دائر کیا۔ این-ائ- آر-سی نے مدعاعلیہ کے پٹیشن کو قبول کیا اور اس کے برترفی کے درخواست کو منسوخ کر دیا جس پر پٹیشنر بینک نے این-ائ- آر-سی کہ فل بینچ کے سامنے فیصلے کو چیلنج کر دیا وہاں سے ان کی درخواست منظور نہ ہوئی تو ہائی کورٹ میں چلے گئے۔ ہائی کورٹ نے بھی ان کی درخواست کو مسترد کر کے پٹیشنر بینک کو ہدایت کی کہ مدعاعلیہ کو پانچ لاکھ کی رقم ادا کرے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے پٹیشنر بینک سپریم کورٹ پہنچ گیا۔

کورٹ کے سامنے بنیادی سوال:
کیا مدعاعلیہ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کے تحت ورکر یا ورک مین کے ضمرے میں آتا ہے یا نہیں؟

وکلاء کے دلائل:
پٹیشنر بینک کا موقف تھا کہ مدعاعلیہ ورکر کے ضمرے میں نہیں آتا کیونکہ افسر(OG-II) کے طور پر اپنی ذمہ داری نبھا رہا تھا بینک مینجر ہونے کے ناطے اس کا کام انتظامی تھا نہ کہ دستی اور کلیئرکل جس کی بنا پر اس کو ورکر نہیں کہا جا سکتا چونکہ وہ ورکر نہیں تو این ائی ار سی اور لیبر کورٹ کے پاس اختیاری سماعت نہیں ہے۔

مدعاعلیہ کا موقف تھا کہ وہ ایک ورکر تھا کیونکہ اس کا کام مختلف لیجرز میں اندراج اور دستخطوں کی تصدیق کرنا تھا اور مزید یہ کہ نہ اس کے پاس کسی کو ملازمت دینے کا اختیارتھا اورنا ہی کسی کو برطرف کرنے کا اختیار تھا۔
کورٹ کا فیصلہ:
عدالت نے یہ طے کیا کہ چیک بک جاری کرنا ، لیجرز کی جانچ پڑتال کرنا اور اکاؤنٹس کے سٹیٹمنٹس کی تیاری جیسے فرائض محض دستی یا کلیریکل کام نہیں ہے اور یہ کسی مزدور یا ورکر کے کام میں نہیں آتے۔
12-05-2006 کا ٹرانسفر آرڈر واضح طور پر مدعاعلیہ کے بینک مینجر کے طور پر تقرری کو ظاہر کرتی ہے۔ مزید یہ کہ 2007 کی پرفارمنس رپورٹ صاف واضح کرتی ہے کہ مدعی علیہ (OG-II)/ بینک افسر کے طور پر کام کر رہا تھا۔
مدعاعلیہ کے لیبر کورٹ پٹیشن میں اس نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ (OG-II) بینک افسر تھا۔
عدالت نے بالآخر فیصلہ کیا کہ مدعاعلیہ ورکر کے ضمرے میں نہیں آتا اور اس کے نتیجے میں عدالت نے ہائی کورٹ اور این ائی ار سی کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔

حوالہ:

یہ اہم فیصلہ سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس عائشہ ملک صاحبہ نے لکھا ہے اور اسے 2024 SCMR 360 کے طور پر تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

سعد انور شریعہ اینڈ لاء بين الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد

22/04/2024

Invitation for Speech Competition
Join the Debate: Pakistan Law Defenders TV's Speech Competition
Pakistan Law Defenders TV, a project of The Law Society, cordially invites law students and advocates to participate in a prestigious speech competition in Karachi.
Date: 25 May
Venue: District Courts Karachi
Registration Deadline: 15th May 2024
Topics for Speech:
Judicial Activism: Balancing Power or Overstepping Bounds?
The Role of Technology in Enhancing Access to Justice
Ensuring Independence and Accountability in the Judiciary
Alternative Dispute Resolution: A Path to Speedier Justice
Protecting Human Rights: Challenges and Solutions

Attention Participants,

Please note the following rules for the upcoming speech competition:

Speeches must not target any nationality, race, or religion.
Avoid mentioning specific individuals or groups for criticism.
Speeches should not contain derogatory remarks about the judiciary.
Adhere to the specified time limit (e.g., 5-7 minutes).
Deliver your speech in the designated language (e.g., Urdu or English).
Ensure your topic is relevant to the theme of the competition and approved by the organizers.
Thank you for your cooperation.
Join us for an intellectually stimulating event and showcase your advocacy skills on these important legal topics.

Contact us at 03343093302
We look forward to your participation!
Sincerely,
Safiudin Awan
Pakistan Law Defenders TV,
The Law Society.

واٹس اپ گروپ میں شامل ہوں
"A WhatsApp group named 'Law Debate 2024' is being introduced for participation in the speech competition. You can join the group and participate in the competition by using the following link."

chat.whatsapp.com

21/04/2024

"A WhatsApp group named 'Law Debate 2024' is being introduced for participation in the speech competition. You can join the group and participate in the competition by using the following link."

chat.whatsapp.com

21/04/2024

Invitation for Speech Competition
Join the Debate: Pakistan Law Defenders TV's Speech Competition
Pakistan Law Defenders TV, a project of The Law Society, cordially invites law students and advocates to participate in a prestigious speech competition in Karachi.
Date: 25 May
Venue: District Courts Karachi
Registration Deadline: 15th May 2024
Topics for Speech:
Judicial Activism: Balancing Power or Overstepping Bounds?
The Role of Technology in Enhancing Access to Justice
Ensuring Independence and Accountability in the Judiciary
Alternative Dispute Resolution: A Path to Speedier Justice
Protecting Human Rights: Challenges and Solutions
Join us for an intellectually stimulating event and showcase your advocacy skills on these important legal topics.

Contact us at 03343093302
We look forward to your participation!
Sincerely,
Safiudin Awan
Pakistan Law Defenders TV,
The Law Society.

21/04/2024

ججزز احتساب کیس میں جسٹس جمال خان مندوخیل صاحب کا فکر انگیز نوٹ:

کیس کا مختصر پس منظر:

ایک خاتون، عافیہ شہر بانو، نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے خلاف اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت درخواست دی تھی۔ مگر وہ درخواست ثاقب نثار صاحب لے کر بیٹھ گیے تھے اور انہوں نے وہ درخواست نہ کونسل کو بھیجی اور نا ہی کونسل کی میٹنگ بلائی۔ اور یوں وہ اپنی مدت پوری کر کے ریٹائرڈ ہوگیے۔ مگر ان کے خلاف درخواست کی سماعت نہیں ہوئی۔

بعد میں سپریم کورٹ نے اس حوالے سے ایک فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 209 ریٹائرڈ یا مستعفی جج پہ نافذ نہیں ہوتا بھلے اس کے خلاف درخواست اس کے سروس کے دوران آئی ہو۔ لہذا عافیہ شہر بانو کی درخواست خارج کر دی گئی۔

سپریم کورٹ کے سامنے اسی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی گئی جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا کہ سپریم کورٹ کا سابقہ فیصلے کو modify کرتے ہوئے قرار دیا کہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفیٰ اس کے خلاف دائر درخواست یا کاروائی ختم نہیں کرتی۔ اسی فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل صاحب نے ایک اہم ترین نوٹ لکھا۔

عدلیہ کی آزادی:

عدلیہ کی آذادی پہ جسٹس جمال صاحب تمہید باندھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث ہو یا پھر عصری قوانین سبھی مساوات کی بات کرتے ہیں مگر ججز کو صرف عدلیہ کی آزادی کی خاطر اس سے استثنیٰ حاصل ہے اور ان کا احتساب الگ طریقے سے ہوتا ہے۔ ججز کو جو یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ ججز کو غیر ضروری فیور دینے کے لیے نہیں بلکہ عدلیہ کی آذادی کو برقرار رکھنے کی وجہ سے حاصل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جج کا عہدہ جج کے پاس عوام کی ایک امانت ہے اور ہر جج ایک حلف لیتا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ وہ عوام کے ساتھ اور خدا کے ساتھ عہد کرتا ہے کہ وہ پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی زمہ داریاں سر انجام دے گا۔

یہ ساری تمہید باندھنے کے بعد وہ آرٹیکل 209 کے باریکیوں کی طرف آتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اس آرٹیکل میں کہیں نہیں لکھا کہ جج کے استعفیٰ کے ساتھ اس کے خلاف درخواست یا کاروائی بھی ختم ہو جائے گی۔ بلکہ آرٹیکل یہ کہتا ہے کہ صدر نے ہر صورت کونسل کو ھدایت جاری کرنی ہے اگر کسی جج کے خلاف اس کے پاس کچھ ٹھوس ثبوت موجود ہوں۔ یہاں پہ لفظ shall کا استعمال ہوا ہے جس کا معنی لازمی کا ہے یعنی اس کے بعد کونسل پہ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ باقاعدہ جج کے خلاف تحقیق کرے اور معاملے کو اپنی منطقی انجام تک پہنچائے۔ درخواست کو منطقی انجام تک پہنچانے کے سوا دوسرا کوئی راستہ کونسل کے پاس نہیں ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ فرض کریں جج کے استعفیٰ سے اس کے خلاف درخواست یا کاروائی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ہم یہی قرار دے تو اس کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 209 کی چابی مذکورہ جج کے پاس ہے نہ کہ کونسل پاس۔ وہ جج جب چاہے استعفیٰ دے کر کونسل کی کاروائی کو ہی غیر ضروری کر دے۔ یوں کونسل جج کے ہاتھوں کھلونا بن جائے گا اور آرٹیکل 209 کا اصل مقصد ہی فوت جائے گا۔
مزید انہوں نے اس بات پہ بہت تاسف کا اظہار کیا کہ سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے خلاف جب یہی درخواست آئی تھی تو کونسل 2005 کے رولز آف پروسیجر کے تحت ان کو کونسل میں اگلا سینیر جج بیٹھا کر کونسل کی میٹنگ بلانی چاہیے تھی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 2005 کے رولز میں جمال صاحب نے ایک اہم نقص کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان رولز میں درج ہے کہ کونسل کی میٹنگ صرف اور صرف کونسل کا چیرمین یعنی کہ چیف جسٹس بلا سکتا ہے۔ یہ قاعدہ وہ کہتے ہیں اس لیے صحیح نہیں کہ جب چیف جسٹس کے خلاف درخواست آتی ہے وہ میٹنگ نہیں بلاتا۔ لہذا یہ اختیار کونسل کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ کونسل کے چیرمین کے پاس تاکہ سبھی کا برابر احتساب ہو۔

انہوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ ثاقب نثار کے دور میں دیگر ججز کا احتساب اسی آرٹیکل کے تحت انہوں نے شروع کیا تھا مگر وہ خود اپنے خلاف دائر ہونے والی درخواست کا فیصلہ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کر رہے تھے۔ یہ نہ صرف دیگر ججز کے ساتھ امتیازی سلوک تھا بلکہ ثاقب نثار کا آئینی ذمہ داری سے انحراف بھی تھا۔

جمال صاحب نے مزید کہا کہ عدلیہ پہ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ججز کا احتساب ہو۔ اگر محض استعفیٰ سے ہی کسی جج کے خلاف کونسل کی کاروائی کالعدم ہو جاتی ہے تو اس سے عدلیہ پہ عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ لہذا ضروری ہے کہ مستعفی ججز کے خلاف کونسل کاروائی کرے ۔ کونسل کو کسی جج کے استعفیٰ پہ منحصر نہیں رکھا جاسکتا بلکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے جو کہ خودمختار ہے۔ اسے محض جج کے استعفیٰ کے نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا مذکورہ آرٹیکل کی روح کے منافی ہوگا۔

آخر میں جسٹس جمال صاحب نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ بھلے کوئی جج استعفیٰ دے مگر اس کے خلاف شروع ہونے والی کارروائی نہ صرف کونسل چلائی گی بلکہ اسے منطقی انجام تک پہنچانا کونسل کی آئینی ذمہ داری ہے۔ کیوں کہ جج ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بہت سی مراعات لیتا ہے اور وہ بہت سی آئینی عہدوں کے لیے اہل ہوتا ہے۔ لہذا یہ احتساب ضروری ہے۔

سجاد حمید یوسفزئی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

20/04/2024

ایک سے زائد مقدمات میں نامزد ملزم کو ، کورٹ کی جانب سے کسی بھی ایک مقدمے میں ضمانت ملنے کے بعد،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سابقہ مقدمات میں گرفتار کرسکنے/نہ کر سکنے کے اختیارات سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ !

عدالت کے سامنے بنیادی سوال:

کیا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک سے زائد مقدمات میں نامزد ملزم کو ، کورٹ کی جانب سے کسی بھی ایک مقدمے میں ضمانت ملنے کے بعد، سابقہ مقدمات کی آڑ میں دوبارہ گرفتار کیا جاسکے؟

کیس کے مختصر حقائق:

سائل( پیٹیشنر) دو مختلف ایف۔آئی۔آر ، جو کہ 2/6/2023اور 3/8/2023 کو ان کے خلاف درج ہو چکے ہوتے ہیں، میں عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری عارضی حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن ان کو ایک دفعہ پھر ایک تیسرے ایف۔آئی۔آر جو کہ 2/11/2023 کو ان کے خلاف درج ہو چکا ہوتا ہے، میں گرفتار کیا جاتا ہے ۔جس میں وہ ضمانت بعد از گرفتاری کے لئے درخواست دیتا ہے۔
سائل آئین کے آرٹیکل 19۔اے کے تحت پشاور ہائی کورٹ میں رِٹ پیٹیشن دائر کرتا ہے جس میں وہ عدالت سے درج ذیل استدعا کرتا ہے کہ؛
عدالت سے یہ استدعا کی جاتی ہے کہ وہ مسئول علیھم (ریپسانڈنٹس) کو یہ حکم دے کہ وہ سائل کو سائل کے خلاف درج تمام فوجداری مقدمات اور زیرِ التوا انکوائریوں کے بابت معلومات فراہم کرے۔ (تاکہ وہ اسی حساب سے اپنا ڈیفینس تیار کر سکے اور عدالت سے ریلیف حاصل کر سکے)۔
عدالت مسئول علیھم کو یہ حکم جاری کرتی ہے کہ وہ اگلی تاریخ کو سائل کے خلاف درج تمام فوجداری مقدمات اور زیرِ التوا انکوائریوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔
اس دوران عدالت کے علم میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ زیرِ غور پیٹیشن کے علاوہ سائل نے ایک اور درخواست بھی عدالت میں جمع کی ہے جس میں اس نے عدالت سے درج ذیل استدعا کی ہے کہ؛
عدالت سے یہ استدعا کی جاتی ہے کہ وہ مسئول علیھم کو یہ حکم دے کہ وہ سائل کو پہلے سے درج شدہ پرانے ایف۔آئی۔آروں میں گرفتار کرنے سے باز رہے۔
زیرِ غور پیٹیشن کو بتاریخ 7/12/2023 بحث کے لئے رکھا جاتا ہے۔ اور یوں اس مقدمے کا آغاز ہوتا ہے۔

عدالت کے سامنے بنیادی سوال:

عدالت قرار دیتی ہے کہ استغاثہ کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب کسی ملزم کو، اس کے خلاف درج مقدمات میں سے کسی مقدمے میں، عدالت کی جانب سے ضمانت مل جائے تو اس سے پہلے کہ استغاثہ اس کو ضمانت کے تحت رہا کرے، اس ملزم کو کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ گرفتاری ویسی کی ویسی جاری رہتی ہے۔
کیا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک سے زائد مقدمات میں نامزد ملزم کو ، کورٹ کی جانب سے کسی بھی ایک مقدمے میں ضمانت ملنے کے بعد، سابقہ مقدمات کی آڑ میں دوبارہ گرفتار کیا جاسکے؟
عدالت قرار دیتی ہے کہ گو کہ سائل کا زیرِ غور مقدمہ بالکل سادہ ہے جس میں وہ چاہتا ہے کہ عدالت آئین کے آرٹیکل 19۔اے ، جو کہ حقِ معلومات کی بات کرتا ہے، کے تحت مسئول علیھم کو یہ حکم دے کہ وہ سائل کو سائل کے خلاف درج تمام فوجداری مقدمات اور زیرِ التوا انکوائریوں کے بابت معلومات فراہم کرے، لیکن عدالت چاہتی ہے کہ اس قانونی نقطے پر ایک حاکمانہ فیصلہ جاری کرے تاکہ اس قضیے کو ہمیشہ کے لئے حل کیا جا سکے۔
اس کے بعد معزز عدالت ضابطۂ فوجداری کے مختلف دفعات جیسےکہ دفعہ 46 ،54 ،61 ،62 اور دفعہ167 کا حوالہ دیتی ہے اور تجزیہ کرتی ہے۔

ضابطۂ فوجداری کے دفعہ167کا تفصیلی تجزیہ:

دفعہ167 کے ضمن میں تجزیہ کرتے ہوئے معزز عدالت قرار دیتی ہے کہ ریمانڈ کی حیثیت آئین مین درج شخصی آزادی پر قدغن کی ہے اور یہ عمومی قاعدے سے استثناء کی طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ لہٰذا اس کی تعبیر و تشریح کڑے طور پر ہونی چاہئے ناکہ کھلے ڈھلے طرز پر۔ اور جب تک مذکورہ دفعہ کے سارے لوازمات کو پورا نہ کیا گیا ہو تب تک عدالت کو چاہئے کہ ریمانڈکی منظوری نہ دے۔
اسی طرح، مذکورہ دفعہ کسی ایسے شخص، جو کہ ایک سے زائد مقدمات میں مطلوب ہو، کے مسلسل اور لگاتار گرفتاری کو متصور نہیں کرتا۔ بلکہ ایک سے زیادہ فوجداری مقدمات میں مطلوب ملزم جب گرفتار ہو گا تو اسے اس کے خلاف درج تمام مقدمات میں گرفتار تصور کیا جائے گا۔ مزیدبرآں، کسی مقدمے میں گرفتار ملزم سے، اس کے خلاف درج کسی دوسرے مقدمے میں، تفتیش کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔(یعنی کسی ملزم سے ایک ہی گرفتاری میں مختلف مقدمات سے متعلق تفتیش کی جا سکتی ہے اور ہر ایک مقدمے میں ملزم کو تفتیش کے لئے الگ سے گرفتار کرنا لازمی نہیں ہے بلکہ یہ خلافِ اصل ہے جیسا کہ معزز عدالت نے بیان کیا)۔ بلکہ قانوناً یہی مناسب ہے کہ جب کسی ملزم، جو کہ ایک سے زائد مقدمات میں مطلوب ہو یا اس کے خلاف ایک سے زائد ایف۔آئی۔آر درج ہوں، کوگرفتار کیا جائے اور اس کو جسمانی ریمانڈ پر دے دیا جائے تو تفتیشی ادارے کو چاہئے کہ وہ اس ملزم سے اس کے خلاف درج جملہ مقدمات میں تفتیش کرے۔
معزز عدالت نے قرار دیا کہ ضابطۂ فوجداری اور پولیس رُولز میں کہیں پر بھی یہ نہیں لکھا کہ جب ایک سے زائد مقدمات میں مطلوب ملزم کو کسی مقدمے میں گرفتار کیا جائے گا تو اسے صرف اُسی مقدمے میں گرفتار تصوّر کیا جائے گا۔ اور نہ ہی یہ کہ کسی ملزم کو بیک وقت ایک سے زیادہ مقدمات میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت قرار دیتی ہے کہ یہ دفعہ محض یہ بتاتا ہے کہ مجسٹریٹ گرفتار کئے گئے یا حراست میں لئے گئے شخص کو زیادہ سے زیادہ 15 دن تک ریمانڈ میں دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ دفعہ کسی خاص کیس کی بات نہیں کرتا بلکہ یہ صرف حراست (کسٹڈی) کی بات کرتا ہے۔ فلہٰذا ایک سے زائد مقدمات میں مطلوب ملزم کو 15 دن سے زیادہ حراست میں رکھنا غیر قانونی ہے۔ کیونکہ یہ بات زیادہ قانون سے مطابقت رکھتی ہے کہ ایک سے زائد فوجداری مقدمات میں مطلوب ملزم جب گرفتار ہو جائے تو اُسے اُس کے خلاف درج تمام مقدمات میں گرفتار سمجھا جائے گا۔
اعلٰی عدالتوں کی نظائر کا حوالہ دیتے ہوئے معزز عدالت نے کہا کہ اعلٰی عدالتیں یہ قرار دیتی ہیں کہ اس مملکت کے ہر شہری کی (شخصی)آزادی کو آئین کے آرٹیکل چار، نو، دس۔اے اور آرٹیکل پندرہ کا تحفظ حاصل ہے۔ لہٰذا کسی بھی ایسے غیر معقول اور بلا سبب/وجہ فعل، جو شہریوں کی آزادی کو محدود کرتا ہو یا سرے سے ختم کرتا ہو، کا آئین کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت محاسبہ کیا جائے گا۔ بلکہ دراصل یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی آزادی کو یقینی بنائیں۔
معزز عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلے(صغراں بی بی بنام ریاست)کا متعلقہ حصہ بھی نقل کیا ہے۔ جس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ؛
کسی شخص کو محض کسی ایف۔آئی۔آر میں نامزدگی کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جا سکتا الّا یہ کہ تفتیشی افسر کو اس بات کا اطمینان ہو کہ اس کے پاس ملزم کی گرفتاری کےلئے معقول عذر/جواز موجود ہے۔ اور اسکو اپنے اطمینان کےلئے ضابطۂ فوجداری اور پولیس رُولز سے رہنمائی لینی ہوگی (نہ کہ اطمینان کے اپنے بنائے ہوئے تصور سے)۔ لہٰذا تفتیشی افسر کو چاہئے کہ وہ گرفتاری کو اس وقت تک مؤخر کرے جب تک اس کے سامنے اہم ثبوت سامنے نہ آئے اور اسکو مطئن نہ کر دے جو بادی النظر میں ملزم کا اُس جرم میں ملوّث ہونے پر دلالت کرتا ہو.
چنانچہ یہ رِٹ پیٹیشن، عدالت کے درج ذیل احکام کے تحت ،اپنے فیصلہ کن انجام(ڈسپوز) کو پہنچتی ہے کہ؛
۱۔ مسئول علیھم سائل کو سائل کے خلاف درج تمام فوجداری مقدمات اور زیرِ التوا انکوائریوں کے بابت معلومات فراہم کرے۔
۲۔ مسئول علیھم سائل کو، سائل کے (ضمانت پر)رہا ہونے کے بعد ،ان مقدمات میں بار بار گرفتار کرنے سے باز رہے جو اس کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف درج ہو چکے ہیں۔

حوالہ:

ڈویژن بینچ کا یہ انتہائی اہم فیصلہ جسٹس اشتیاق ابراہیم کا تحریر کردہ ہے جو کہ ذیل حوالے کے ذریعے پڑھا جا سکتا ہے۔
اسد قیصر بنام سرکار خیبر پختونخواہ۔(Writ Petition No.5281-P/2023 with CM No.2615-P/2023)۔

تلخیص کنندہ:
محمد مخدوم شاہ ۔ ممبر آئین و قانون۔
شعبہ شریعہ و قانون، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔

19/04/2024

شادی کے لئے کم سے کم عمر کے تعین میں جنس کی بنیاد پر تفریق کے حوالے سے عدالت عالیہ لاہور کا ایک اہم فیصلہ !

عنوان :

اذکیٰ وحید بنام صوبہ پنجاب وغیرہ

بنچ و فیصلہ کے مصنف جج :

یہ پٹیشن لاہور ہائی کورٹ لاہور کے سنگل بنچ نے سنی اور اس پٹیشن کا فیصلہ جسٹس شاہد کریم نے تحریر کیا۔

استدعا :

معاملہ کچھ یوں ہے کہ پٹیشنر نے سال ٢٠٢٣ میں پٹیشن دائر کی کہ ٢٠١٥ میں صوبہ پنجاب کی حد تک ہونے والی ترمیم کے بعد Child Marrige Restraint Act, 1929 کی شق نمبر ٢(الف) یعنی 2(a) جنسی تفریق پر بنیاد رکھتی ہے اور اس شق کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی۔ اس استدعا کی بنیاد یہ تھی کہ متذکرہ بالا شق بچے یعنی child کی تعریف کو بیان کرتے ہوئے کم از کم عمر مقرر کرتی ہے اور عمر کا یہ تعین جنسی تفریق پر بنیاد رکھتا ہے کیوں کہ اس میں شادی کے لیے بچی کی کم از کم عمر ١٦ سال اور بچے کی کم از کم عمر ١٨ سال ہے۔ اس سے جنسی بنیاد پر تفریق پیدا ہوتی ہے، لہذا اس شق کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

زیر غور قانونی سوال :

اس پٹیشن میں عدالت کے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا شادی کی کم از کم عمر کا تعین کرتے ہوئے child کی تعریف میں جنسی تفریق کرنا آئین سے متصادم ہے۔

عدالتی کارروائی اور استدلال :

اس پٹیشن میں پٹیشنر کے وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ متذکرہ بالا شق آئین پاکستان کے آرٹیکل ٢٥ سے متصادم ہے، لہذا اس کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔ حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل صاحب نے ایک شاندار بریف پیش کیا، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ اسلامی فقہ و قانون اور جدید سائنس میں یہ حقیقت مسلم ہے کہ بچیاں بچوں کی نسبت جلدی بلوغت حاصل کر لیتی ہیں، لہذا متذکرہ بالا شق غیر آئینی نہ ہے بلکہ وہ اسلامی فقہ و قانون اور جدید سائنس پر بنیاد رکھتی ہے۔ ان تمام دلائل کو پرکھنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ لاہور کے فاضل جج جسٹس شاہد کریم نے فیصلہ لکھتے وقت بیان کیا کہ اس ایکٹ کا مقصد شادی کے لیے کم از کم عمر مختص کرنا ہے نا کہ بلوغت کی بنیاد پر شادی کا معاملہ چھوڑنا کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو اس قانون میں بلوغت، جو کہ مختلف انسان مختلف عمر میں حاصل کرتے ہیں، کو نظر انداز کر کے شادی کے لیے کم از کم عمر کا تعین نہ ہوتا۔ جسٹس شاہد کریم نے واضح کیا کہ اس پٹیشن میں بھی یہ ہی سوال زیر بحث ہے کہ شادی کے لیے کم از کم عمر مختص کرتے وقت جنسی تفریق کرنا آئینی طور پر درست ہے یا نہیں نا کہ بلوغت کا سوال زیر بحث ہے۔ بعد ازاں جسٹس شاہد کریم نے آئین پاکستان میں موجود Principles of Policy کے باب سے آرٹیکل ٣٥ کا حوالہ دیتے ہیں کہ اس کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے شادی، خاندان، ماں اور بچے کی حفاظت کرے۔ معزز جج صاحب اس سے استدلال کرتے ہیں کہ جب شادی اور خاندان کی حفاظت کے لیے ماں کی حفاظت ضروری ہے تو ریاست قانون سازی کرتے وقت ماں یعنی عورت کی کم از کم عمر نے تعین میں تفریق کس طرح پیدا کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے آئین کے آرٹیکل ٢٥ کا حوالہ دیا کہ جنسی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق روا نہیں رکھی جائے گی اور یہ شق عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے ریاست کو خاص قوانین بنانے کا اختیار بھی دیتی ہے اور اس کی بنیاد امریکہ کے آئینی قانون (Constitutional Law) کا تصورِ ایجابی عملِ سرکار (Affirmative Action) ہے۔

عدالتی فیصلہ :

تمام تر استدلال کے بعد معزز جج جسٹس شاہد کریم نے فیصلہ دیا کہ متذکرہ بالا شق جنسی تفریق پر بنیاد رکھتی ہے، لہذا اسے غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے اور حکومت پنجاب کو ہدایت جاری کی جاتی ہے کہ اس فیصلہ کی روشنی میں مذکورہ ایکٹ کا نظر ثانی شدہ/ ترمیم شدہ ورژن جاری کرے اور پندرہ دن کے اندر اندر اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے۔

حوالہ :

W.P. No. of 32798 of 2023 in Lahore High Court, Lahore

2024 LHC 1392

تحریر :

عاقب فاروق حامی

19/04/2024

24 گھنٹے 24 سیکنڈز ۔۔۔۔۔تحریر صفی الدین اعوان
عید سے ایک دن پہلے ضلع ویسٹ کی عدالت میں ایک ریمانڈ پیش ہوا تو لنک جج نے سماعت کی میں نے ملزم کی طرف سے ضمانت کی درخواست پیش کی جس پر سرکاری وکیل کو چوبیس گھنٹے کا نوٹس کردیا گیا صاحب نے کہا کہ ویسے بھی میں تو لنک جج ہوں حسب روایت تاریخی جوڈیشل ارڈر پاس کیا
ORDER
put before presidng officer
جج صاحب نے سرکاری وکیل کو دیئے گئے 24 گھنٹے کے نوٹس کی قانونی اہمیت کے بارے میں لیکچر دیا میں نے کہا صاحب کل عید ہے جرم بھی سنگین نہیں ہے کل سزا بھی پانچ سال ہے لیکن صاحب نے کہا کہ ہائی استغفار ہے 24 گھنٹے کا نوٹس ضروری ہے خیر ملزم جیل چلاگیا اور کئی روز بعد ضمانت ہوئی
تھوڑی دیر بعد دوسرا ملزم پیش ہوا وہی لنک جج وہی کورٹ جبکہ سیکشن بھی سنگین صاحب نے پراسیکیوشن کو نوٹس کیا اور 24 گھنٹے کا نوٹس صرف 24 سیکنڈ میں تبدیل ہوگیا صاحب نے مال منڈی جیب میں ڈالی اور کریز سے باہر دونوں قدم باہر نکال کر زوردار چھکا ماردیا ملزم کی ہتھکڑیاں کورٹ میں ہی کھول دی گئیں
ملزم ناچتا ہوا گھر روانہ ہوگیا

19/04/2024

Official Announcement

The Board of Directors of Pakistan Law Society is pleased to announce that the TV channel affiliated with Pakistan Law Society will be named "Pakistan Law Defenders TV," i.e., PLD-TV. The official opening ceremony for PLD-TV will take place in mid-May. We are excited to launch this channel as a platform to promote legal awareness and uphold the principles of justice. Stay tuned for further updates!
Safiudin Awan

19/04/2024
19/04/2024

بچے کے ساتھ ریپ کے کیس میں بچے کی واحد گواہی پر ملزم کو سزا سنانے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا ایک انتہائی اہم فیصلہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عدالت عالیہ کے سامنے اہم ترین سوالات یہ تھے :

1) کیا بچے کی شہادت کی اہلیت جانچنے کے لئے وائر ڈائر ٹیسٹ کروانا لازمی ہے؟ کیا اس ٹیسٹ کے بغیر بچے کی گواہی ناقابل ادخال شہادت ہے؟

2) کیا جنسی زیادتی کے شکار واحد بچے کی شہادت پر ملزم کو سزا سنائی جا سکتی ہے؟

مختصر واقعات مقدمہ:
مستغیث محمد جاوید نے بمورخہ 4 فروری 2021 تھانے میں درخواست دی کہ اس کا بیٹا "الف" بعمر 10 سال تحصیل چشتیاں ضلع بہاولنگر کے ایور گرین نامی پبلک سکول میں چوتھے جماعت کا طالب علم ہے۔ جب الف بمورخہ 2 فروری 2021 سکول سے واپس آیا تو وہ انتہائی خوفزدہ ہو کر بخار میں مبتلا تھا۔ الف نے روتے ہوئے محمد شبیر (PW-2)، محمد اکرم اور محمد یاسین کے روبرو یہ بتایا کہ وہ آئندہ سکول نہیں جائے گا کیونکہ پرنسپل امداد اللہ (اپیلانٹ) روزانہ اسے اپنے دفتر بلا کر اس کے ساتھ جنسی طور پر چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ مذکورہ بالا تاریخ کو بھی اپیلانٹ نے سکول کی چھٹی سے کچھ دیر پہلے الف کو دفتر بلایا، دروازے کی چٹخنی چڑھائی اور اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اس کے بعد اپیلانٹ نے الف کو سخت دھمکیاں دے کر کسی کو بھی بتانے سے منع کیا۔ مستغیث نے برخلاف اپیلانٹ اپنے بیٹے الف کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بابت ایف آئی آر درج کروایا۔

مستغیث نے بدوران ٹرائل پانچ گواہان: مستغیث محمد جاوید(PW-1)، محمد شبیر(PW-2)، الف(PW-3)، ڈاکٹر محمد ادریس(PW-4) اور تفتیشی افسر محمد اسلم(PW-5) پیش کئے۔

اپیلانٹ اپنے بیان زیر دفعہ 342 ض ف میں بیانی ہوا کہ اس کے خلاف جھوٹی ایف آئی درج کروانے کی واحد وجہ اس کا اپنی بیوی نسیم کوثر کو طلاق دینا ہے۔ پس مستغیث نے یہ ایف آئی آر بہ ایماء و سازش سسرال اپیلانٹ و پولیس درج کروایا ہے۔ تاہم اپیلانٹ نے نہ تو (2)340 کے تحت برحلف بیان دیا اور نہ ہی اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش کیا۔

ایڈشنل سیشن جج صاحب نے بمورخہ 25 اگست 2022 فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو دفعہ 377B مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت 14 سال قید بامشقت بمعہ 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ مذکورہ فیصلے سے رنجیدہ ہو کر اپیلانٹ نے اپیل ہذا دائر کیا۔

اپیلانٹ کے وکیل کے دلائل:
اپیلانٹ کے وکیل نے موقف اپنایا کہ دفعہ 3 اینٹی ریپ ایکٹ 2021 کے تحت شیڈول جرائم کو سننے کا اختیار صرف خصوصی عدالتوں کو ہے۔ عدالت مذکور خصوصی عدالت نہ ہونے کی بناء پر اختیار سماعت نہیں رکھتا تھا۔ مزید یہ کہ ایف آئی آر کا اندراج کافی تاخیر سے ہوا، اپیلانٹ کو بہ ایماء و سازش سسرال اپیلانٹ و پولیس پھنسایا گیا اور PW-1 و PW-2 وقوعے کے چشم دید گواہ نہ تھے۔

وکیل استغاثہ کے دلائل:
وکیل استغاثہ نے موقف اپنایا کہ عدالت مذکور 2021 کے ایکٹ کے تحت باقاعدہ طور پر نوٹیفائڈ تھا۔ پس عدالت مذکور کو اختیار سماعت حاصل تھا۔ مزید یہ کہ الف کا بیان استغاثہ کے کیس کی بھرپور حمایت کرتا ہے کیونکہ وہ جرح کے دوران بالکل ثابت قدم رہا ہے۔ اسی طرح PW-1 اور PW-2 کے بیانات بھی الف کے بیان کی تائید کرتے ہیں۔ مزید برآں، وائر ڈائر ٹیسٹ نہ کروانے کی وجہ سے کیس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اور جھوٹی اور سازشی ایف آئی آر کے بابت وکیل ملزم نے کسی قسم کی شہادت پیش نہیں کی۔

چند تکنیکی سوالات:
عدالت عظمی نے میرٹ پر آنے سے پہلے تکنیکی سوالات پر بحث کچھ یوں کی۔

وفاقی حکومت نے محمد نواز بھٹی، ایڈشنل سیشن جج صاحب چشتیاں کو 2021 ایکٹ کے دفعہ 3 کے تحت خصوصی عدالت بروئے نوٹیفکیشن مورخہ 11 مئی 2022 قرار دیا تھا۔ پس وکیل ملزم کا یہ موقف کہ عدالت مذکور نے دستخط کرتے وقت اپنے نام کے ساتھ خصوصی عدالت نہیں لکھا تھا، انتہائی تکنیکی نوعیت کا ہے جو کہ قانونی اثر نہیں رکھتا۔

اسی طرح عدالت عظمی نے ایف آئی آر میں تاخیر کو جسٹیفائڈ قرار دیا کیونکہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز میں عموماً لاعلمی، شرم، خوف، اور دھمکیوں کی وجہ سے متاثر فریق بروقت رپورٹ نہیں کر پاتا۔

پہلا اہم ترین سوال: کیا بچے کی شہادت کی اہلیت جانچنے کے لئے وائر ڈائر ٹیسٹ منعقد کروانا لازمی ہے؟ کیا اس ٹیسٹ کے بغیر بچے کی گواہی ناقابل ادخال شہادت ہے؟

عدالت عالیہ نے کینیڈین سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے گواہ کے اہلیت کے لئے تین معیارات کا ذکر کیا: گواہ کے مشاہدے اور تشریح کی صلاحیت، یاد رکھنے کی صلاحیت اور بیان کرنے کی صلاحیت۔ اگر گواہ میں یہ تینوں معیارات پائے جائے تو وہ گواہی دینے کا اہل ہوگا۔ اس کے بعد عدالت "ایڈمیسیبیلیٹی" اور "ایویڈینشری ویلیو" کے مسئلے پر غور کرے گی۔ اگر گواہی مقدمہ کے ساتھ متعلق ہوگی تو وہ "ایڈمیسیبل" یعنی قابل ادخال شہادت ہوگی۔ اسی طرح "ایویڈینشری ویلیو" کے تعین کے لئے عدالت گواہ کے کردار، بیان میں داخلی تضادات اور دوسرے گواہان کے بیانات کے ساتھ تضاد جیسے امور کو دیکھے گی۔

قانون شہادت کا آرٹیکل 3 اور 17 گواہ کی گواہی کی اہلیت کو عمر کے ساتھ ہرگز مشروط نہیں کرتا۔ اگر کوئی بچہ بھی سوال کو سمجھنے اور اس کا منطقی جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہو تو وہ گواہی دینے کے لیے اہل تصور کیا جائے گا۔ اسی لئے عدالتیں بچوں کی گواہی کی اہلیت کے لئے وائر ڈائر ٹیسٹ منعقد کرواتی ہے اور گواہ کے سامنے مختلف سوالات رکھتی ہے کہ آیا گواہ سوالات کو سمجھنے اور منطقی جوابات دینے کی ذہانت رکھتا ہے؟ اگر ہاں، تو وہ گواہی دینے کا اہل قرار دیا جاتا ہے اور اس کا بیان باقاعدہ طور پر قلمبند کروایا جاتا ہے۔

عدالت عالیہ نے مختلف ملکی اور بیرونی جیوریسڈکشن کے عدالتوں کے فیصلہ جات کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ اگرچہ عدالتوں کو بچوں کی شہادت کی اہلیت جانچنے کے لئے وائر ڈائر ٹیسٹ/ ریشنلٹی ٹیسٹ منعقد کروانا چاہیے، تاہم یہ لازمی نہیں ہے اور اس کے بغیر بھی اگر عدالت بچے کے انداز و اطوار سے مطمئن ہو کر سمجھتی ہے کہ بچہ سوالات سمجھنے اور منطقی جوابات دینے کا اہل ہے تو ایسے بچے کی گواہی بالکل قابل ادخال شہادت ہو سکتی ہے۔

دوسرا اہم ترین سوال: کیا جنسی زیادتی کے شکار واحد بچے کی شہادت پر ملزم کو سزا سنائی جا سکتی ہے؟

عدالت عالیہ نے مختلف فیصلہ جات کا جائزہ لے کر یہ قرار دیا کہ بچے اپنی کم عمری کی وجہ سے عموماً انتہائی ناقابل اعتبار گواہان ہوتے ہیں کیونکہ یہ خواب کو حقیقت سمجھتے ہیں، لوگوں کی باتوں میں آتے ہیں اور جزا کی امید اور سزا کا خوف بھی ان پر جلد اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لئے احتیاط کا تقاضا ہے کہ صرف ایک بچے کی گواہی پر مکمل انحصار نہ کیا جائے اور تائیدی شہادت کا مطالبہ کیا جائے۔ اسی کو "رول آف پروڈینس" کہتے ہیں، تاہم یہ ہرگز کوئی قاعدہ یا قانون نہ ہے۔

دوسری طرف جنسی جرائم نجی نوعیت کے ہوتے ہیں اور عموماً متاثر بچے کے علاوہ کوئی اور گواہ موجود نہیں ہوتا، اس لئے اگر صرف متاثر بچے کی شہادت کیس کے مخصوص حالات و واقعات میں قابل اعتماد معلوم ہوتی ہو تو عدالتوں کو اضافی شہادت پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔

موجودہ کیس میں الف پر بھرپور جرح ہوا، تاہم وہ بدوران جرح بالکل ثابت قدم رہا اور کہیں بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔ لہذا اس کی شہادت "کریڈیبل" یعنی قابل اعتماد شہادت ہے، تائیدی شہادت کی ضرورت نہیں ہے، اور واحد الف کی شہادت پر بھی ملزم کو سزا ہو سکتی ہے۔

وکیل ملزم نے اعتراض اٹھایا کہ PW-1 اور PW-2 وقوعے کے عینی گواہ نہیں تھے اور ان کی گواہی "ہئیر سے ایویڈینس" یعنی سنی سنائی شہادت کے زمرے میں آتی ہے۔ اگرچہ اصولاً سنی سنائی بالواسطہ شہادت قانونی اثر نہیں رکھتی تاہم اس اصول کے کئی مستثنیات موجود ہیں۔ چونکہ جنسی زیادتی کے کیسز میں عموماً متاثر بچے کے علاوہ کوئی اور عینی گواہ موجود نہیں ہوتا، اس لئے اگر بچہ کسی شخص کو وقوعے کے واقعات بتائے تو ایسے شخص کی بالواسطہ شہادت بطور تائیدی شہادت قابل ادخال شہادت ہو سکتی ہے۔

مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں عدالت عالیہ نے اپیلانٹ کا اپیل خارج کیا اور ایڈشنل سیشن جج صاحب چشتیاں ضلع بہاولنگر کا فیصلہ برقرار رکھا۔

خلاصہ:
جنسی زیادتی کے کیس میں بچے کی شہادت کی اہلیت جانچنے کے لئے وائر ڈائر ٹیسٹ کروانا لازمی نہیں ہے اور اس ٹیسٹ کے بغیر بھی بچے کی گواہی قابل ادخال شہادت ہو سکتی ہے۔ اگر بچہ سوال کو سمجھ کر منطقی جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو عدالت اسے اہل گواہ سمجھتے ہوئے اس کا بیان قلمبند کروا سکتی ہے۔ نیز ایسے بچے کی واحد شہادت پر بھی سزا سنائی جا سکتی ہے اگر مقدمہ کے مخصوص حالات میں ایسے گواہ کی گواہی قابل اعتماد معلوم ہوتی ہو۔ نیز اگر بچے نے وقوعے کے متعلق کسی شخص کو بتایا ہو تو ایسے شخص کی بالواسطہ گواہی بطور تائیدی شہادت قابل ادخال شہادت ہو سکتی ہے۔

ڈویژن بینچ کا یہ انتہائی اہم فیصلہ جسٹس طارق سلیم شیخ کا تحریر کردہ ہے جو کہ ذیل حوالے کے ذریعے پڑھا جا سکتا ہے۔
Criminal Appeal No.448/2022

~ ایڈووکیٹ حمزہ خان
ممبر #آئین و #قانون

Want your organization to be the top-listed Non Profit Organization in Karachi?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

The judicial system of Pakistan has lost all sense of shame, modesty, and honor. Teach these corrupt people to at least ...
"Unbelievable Corruption Story in the Judiciary"
یہ ہوتے ہیں بڑے نصیب کے ہیں فیصلے یہ ہوتی ہیں  بڑے نصیب کی باتیں یہ ایک پرانی ویڈیو اس نعتیہ شعر کی حقیقی تشریح ہےجسے چا...
*اختیارات کے  غلط استعمال اور شہری سے تاوان لینے پر اے ایس آئی نوکری سے برخاست۔* رشید گجر سابقہ اے ایس آئی نے ایک شہری ک...
*اختیارات کے  غلط استعمال اور شہری سے تاوان لینے پر اے ایس آئی نوکری سے برخاست۔* رشید گجر سابقہ اے ایس آئی نے ایک شہری ک...
عمران خان کو دی گئی سزاوں کے حوالے سے اپنی رائے دیجئے ؟کیا جمہوریت پر عوام کا اعتماد کم ہواہے؟اگر موقع ملا تو کیا عمران ...
نعرہ تکبیر اللہ اکبر پاک فوج بھی زندہ باد پنجاب پولیس بھی زندہ باد عوام مردہ باد
پاکستان موجودہ صورتحال پاکستان میں کسی وقت بھی کچھ "بھی" ہوسکتاہے
عید مبارک
جونیجونے اشرافیہ کوسوزوکی  گاڑی میں بٹھا دیا کڑوڑوں کی گاڑیوں والے کیا جانیں کفایت شعاری کیا ہوتی ہے آج کل کفایت شعاری ک...
کچھ آذانیں اپنی تاثیر، فطری سادگی، سوز و گداز کی وجہ سے ماحول پر گہرا اثر ڈالتی ہے. یہ ماننا ہے کہ جہاں سوز جگر قلب و رو...

Telephone

Website

Address


1725/2963 Baldia Town
Karachi
75760

Other Non-Governmental Organizations (NGOs) in Karachi (show all)
War Against R**e War Against R**e
102, Pearl Crest, 18-C, Lane # 4, Main Zamzama Boulevard, Phase 5, D. H. A
Karachi, 75500

WAR is a certified non-profit NGO working to provide an array of direct services to survivors of sexual assault and r**e. It works closely with state departments for advocacy and p...

Association for the Ill and Deprived Association for the Ill and Deprived
Ziauddin University
Karachi

We provide financial support for diagnostic tests, medications and surgeries on a daily basis for non-affording patients.

Kashif Iqbal Thalassaemia Care Centre (KITCC) Kashif Iqbal Thalassaemia Care Centre (KITCC)
A-19, Street No. 1, Mujahid Colony
Karachi

KITCC was founded in 1996 by Mr. Muhammad Iqbal. Today, with 18 affiliated centres across Pakistan.

Zindagi Trust Zindagi Trust
8-A, Street 3, Block 7/8, Al Hamra Society, Amir Khusro Road
Karachi

Striving to reform government schools through pilot projects and advocacy with the government.

Azad Foundation Pakistan Azad Foundation Pakistan
E-135/2D, Block 7, Gulshan E Iqbal
Karachi, 75300

Azad Foundation envisions a world where the rights of all children are realized, where every child is protected from violence, exploitation and abuse

WMC Women Media Center WMC Women Media Center
Karachi, 75100

Promoting Gender Equality in Media

Bahbood e Atfal Project - BAP Trust Bahbood e Atfal Project - BAP Trust
Karachi, 75300

"A NAME OF LOVE & CARE". The main mission of BAP Trust is to serve barefooted needy/destitute childr

Gender Interactive Alliance Gender Interactive Alliance
Karachi

Gender Interactive Alliance (GIA) works for the rights of and social justice for transgender people in Pakistan.

Nixor Hospital Nixor Hospital
C/59 Khayaban-e-Shaheen, Phase 6 Defence Housing Authority
Karachi, 75500

We believe that we can end the medical crisis in Pakistan by ensuring that every person has access to life’s most basic need — healthcare

NOWPDP NOWPDP
NOWPDP House, Bungalow No. 83/1, N I Line, Saghir Hussain Shaheed Road, Saddar
Karachi

A disability inclusion initiative working in the areas of education and economic empowerment.

Pakistan Flood Relief Funds Pakistan Flood Relief Funds
Karachi

Donate to Help Families in Pakistan Who Have Lost Everything in Monsoon Rains and Floods. Donate & He