Aal e Imran school & Academy
school Principal
کسی کو حلقہ احباب سے نکالا نہیں
جو پھل خراب تھے ٹہنی سے گِر گئے خود ہی
میرے ایک دوست نے اپنے اسکول میں کچھ اساتذہ کو بھرتی کرنا تھا تو انٹرویوز والے دن مجھے بھی بلا لیا۔ صرف دو اساتذہ کو رکھنا تھا لیکن بہت سے لوگ انٹرویو دینے آئے ہوئے تھے۔ ایک ایک کر کے ہم انھیں بلا رہے تھے۔ ساتویں آٹھویں نمبر پر ایک لڑکی حدیقہ انٹرویو دینے آئی تو ایسی علیک سلیک ہوئی جس سے مجھے لگا کہ یہ ایک دوسرے کو اچھے سے جانتے ہیں اس لیے اس انٹرویو میں میں خاموش رہا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔
رسمی سلام دعا کے بعد دوست نے کہا کہ آپ کو اس جاب کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ اس تنخواہ میں تو آپ کا ایک سوٹ بھی نہیں آئے گا۔
حدیقہ نے کہا کہ اب وہ یونیورسٹی والا دور نہیں رہا جب میں بڑی سی گاڑی میں آتی تھی۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
میرے دوست نے حالات کا مزید پوچھا کہ آپ کے والد کی تو بہت زیادہ زمینیں تھیں، بنگلے کوٹھیاں اور گاڑیاں۔۔۔ ان سب کا کیا ہوا کہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
کہنے لگی، تب میرے والد صاحب زندہ تھے، وہ میرے سارے نخرے اٹھاتے تھے اور میرا خیال بھی رکھتے تھے۔ میری ہر خواہش بھی پوری کرتے تھے۔ ایم فل کے آخری سال میں تھی تو والد صاحب ایک حادثے میں وفات پا گئے۔ والد صاحب کے بعد ساری دولت اور جائیداد دونوں بڑے بھائیوں کے پاس آگئی۔ مجھے بڑی مشکل سے آخری سمسٹر کے امتحانات دینے کی اجازت ملی۔ پھر میری تعلیم مکمل ہونے کے بعد مجھے اپنے گھر میں تقریباً قید رکھا گیا۔ وہاں ہر سہولت میسر تھی لیکن نہ باہر نکل سکتی تھی نہ کسی سے بات چیت کی اجازت تھی۔ والدہ صاحبہ کو میری حالت پر ترس آتا تھا لیکن انھیں بھی یہ تھا کہ جائیداد صرف بیٹوں کو ہی ملنی چاہیے۔ کئی بار میرے بھائیوں نے مجھے والد صاحب کی وراثت سے محروم کرنے کے لئے کاغذات پر دستخط کروانے کی کوشش کی لیکن میں نے ہر بار انکار کیا۔ اس پر مجھے تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح کئی سال گزرے۔ میری عمر ڈھلنے لگی، والدہ صاحبہ بھی وفات پا گئیں تو میری ہمت بھی جواب دے گئی۔ مجھے اس گھر سے اب وحشت ہونے لگی تھی۔ بالآخر میں نے ہار مان لی اور ساری وراثت سے دستربردار ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد ایک غریب رشتہ دار کے ساتھ میری شادی کر کے مجھے اپنی آبائی حویلی سے بھی نکال دیا گیا۔ غریب شخص کا انتخاب اس لیے کیا گیا تاکہ میرے پاس کبھی اتنے پیسے نہ ہوں کہ میں ان کے خلاف کوئی مقدمہ لڑ سکوں۔ لیکن میں نے اپنا مقدمہ اب یہاں کسی عدالت میں نہیں لڑنا، نہ ہی مجھے میری زندگی میں انصاف مل سکتا ہے۔ ہاں ایک عدالت آخرت میں ہونی ہے، اس میں اللہ میاں سے یہ ضرور کہوں گی کہ جیسے ان دونوں نے مجھے میرے حق سے محروم رکھا ہے، انھیں بھی اپنی رحمت سے محروم رکھ۔
حدیقہ خاموش ہوئی تو کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ شاید کسی میں کچھ کہنے سننے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی۔ سب بس بمشکل آنسو ضبط کیے بیٹھے تھے۔
چند لمحے بعد میرے دوست نے کہا کہ آپ کا ایک بھائی تو خاصا مذہبی تھا اور چھوٹا لبرل تھا جس سے اکثر یونیورسٹی میں اس موضوع پر بحث بھی ہو جاتی تھی۔
حدیقہ نے میرے دوست کی بات پوری ہونے سے بھی پہلے کہا، جی میں نے بڑے بھائی کو اسلامی حوالے بھی دیے اور کہا تھا کہ آپ کے حج اور عمرے کا آپ کو کیا فائدہ جب آپ میرا حق دبا کے بیٹھے ہیں۔
چھوٹے لبرل بھائی سے بھی کہا کہ آپ خواتین کے حقوق کے علمبردار ہیں لیکن اپنی بہن کو اس کا جائز حق دینے کے حق میں بھی نہیں۔ آپ کے لبرلزم میں تو میرا تیسرا حصہ بنتا ہے جبکہ آپ مجھے پانچواں حصّہ بھی دینے کو تیار نہیں۔
لیکن اس جائیداد والے معاملے میں مذہبی ہوں یا لبرل، سارے مرد ایک جیسے ہیں۔ خواتین کو جائیداد میں حصہ دیتے سب کو موت پڑتی ہے۔
پتہ نہیں کتنی حدیقائیں اپنے ہی بھائیوں کی لالچ کی وجہ سے اپنے حق سے محروم ہوتی رہیں گی۔ کیا کوئی بھی شخص مال و دولت کو اپنے ساتھ قبر میں لے کر گیا ہے؟ پتہ نہیں لوگ یہ کیسے کر لیتے ہیں کہ جان چھڑکنے والی بہنوں کو بھی ان کے جائز حصے سے محروم کر کے خوش رہتے ہیں۔ ایسے لوگ خود کو عذابِ قبر اور جہنم سے کیسے بچا پائیں گے؟
کسی معاشرے میں نئی نسل کو وہی سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے، جو ریاستی مقتدرہ کی مرضی و منشا ہوتی ہے ، کیونکہ ہمارے اساتذہ نہ سقراط ہیں اور نہ کنفیوشس کہ اپنے شاگردوں کو سوال کرنے کی اجازت دے کر اُن کے ذہنوں میں کلبلاتے سوالوں کی تشفی کریں۔
اس لیے اگر نصاب میں درج کر دیا جائے کہ برف کالی ہوتی ہے، تو اساتذہ برف کو کالا ہی پڑھائیں گے۔ کوئی بچہ یہ سوال کر دے کہ برف کالی نہیں بے رنگ ہوتی ہے تو اس کی سرزنش کی جاتی ہے۔ گویا ہم اپنے معاشروں میں سوال کرنے والے ذہن تیار کرنے کے بجائے ایسے روبوٹس تیار کر رہے ہیں ، جو اشرافیہ کے متعین کردہ ریاست کے منطقی جواز اور قواعد و ضوابط ہی کو حقیقی سمجھیں ہماری تعليم علم نہیں ۔🥀
وہ معاشرہ جو خواتین کو تعلیم نہیں دیتا ایک ایسے پہلوان کی طرح ہے جو اپنی ہی ایک بازو پیچھے باندھ کر لڑنے کی کوشش کرے۔
جانتا بھی ہے یہ درزی, کہ ہے مفلس کا لباس
پھر بھـی کُرتے پـہ میرے جیب بنا دیتا ہے
مسئلہ کچھ تو ہے بچ٘ے کا جو تختی پہ یونہی
کبھی روٹی ، تو کبھی سیب بنا دیتا ہے😢
When we are no longer able to chang a situation------ we are challanged to chang ourselves.
مائیکل جیکسن نے امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت‘ جلد‘ نقوش اور حرکات و سکنات بدل گئیں۔
سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹا اورنسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا۔ اس نے 1987ء میں بیڈ کے نام سے اپنی تیسری البم جاری کی‘ یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی‘ یہ البم بھی کامیاب ہوئی اور اس کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس البم کے بعد اس نے اپنا پہلا سولو ٹور شروع کیا۔ وہ ملکوں ملکوں ‘ شہر شہر گیا ‘ موسیقی کے شو کئے اوران شوز سے کروڑوں ڈالر کمائے۔ یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔ اس کے بعد ماضی کی باری آئی ‘ مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی سے بھاگنا شروع کر دیا‘ اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لئے‘ اس نے کرائے پر گورے ماں باپ بھی حاصل کر لئے اور اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں سے بھی جان چھڑا لی۔ ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلا گیا وہاں وہ مصنوعی زندگی کے گرداب میں بھی پھنس گیا۔ اس نے خود کو مشہور کرنے کیلئے ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی بھی کر لی۔ اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوا دئیے اور اس نے مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کرا لیا۔ ڈیبی رو کے بطن سے اس کی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیدا ہوئی۔اس کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوگئی‘ اس نے بڑی حد تک اپنے ماضی سے بھی جان چھڑا لی لہٰذا اب اس کی آخری نفرت یا خواہش کی باری تھی۔ وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔ مائیکل جیکسن طویل عمر پانے کیلئے دلچسپ حرکتیں کرتاتھا‘ مثلاً وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا‘ وہ جراثیم‘ وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ وہ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیتا تھا۔ وہ مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر بارہ ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے۔ یہ ڈاکٹر روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے‘ اس کی خوراک کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اس کا سٹاف اسے روزانہ ورزش بھی کراتا تھا‘ اس نے اپنے لئے فالتو پھیپھڑوں‘ گردوں‘ آنکھوں‘ دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا‘ یہ ڈونر تھے جن کے تمام اخراجات وہ اٹھا رہا تھا اور ان ڈونرز نے بوقت ضرورت اپنے اعضاء اسے عطیہ کر دینا تھے چنانچہ اسے یقین تھا وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے گا لیکن پھر 25 جون کی رات آئی ‘ اسے سانس لینے میں دشواری پیش آئی‘ اس کے ڈاکٹرز نے ملک بھر کے سینئیر ڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پر جمع کر لیا‘ یہ ڈاکٹرز اسے موت سے بچانے کیلئے کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے تو یہ اسے ہسپتال لے گئے اور وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی‘ جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا‘ جو کسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے چڑھا لیتا تھا‘ جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتی تھیں اور جس نے 25 برس تک کوئی ایسی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹروں نے اسے منع کیا تھا۔ وہ شخص 50 سال کی عمر میں صرف تیس منٹ میں انتقال کر گیا۔ اس کی روح چٹکی کے دورانیے میں جسم سے پرواز کر گئی۔ مائیکل جیکسن کے انتقال کی خبر گوگل پر دس منٹ میں آٹھ لاکھ لوگوں نے پڑھی‘ یہ گوگل کی تاریخ کا ریکارڈ تھا اور اس ہیوی ٹریفک کی وجہ سے گوگل کا سسٹم بیٹھ گیا اور کمپنی کو 25 منٹ اپنے صارفین سے معذرت کرنا پڑی۔ مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا احتیاط کی وجہ سے اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا‘ وہ سر سے گنجا تھا‘ اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ اس کے کولہے‘ کندھے‘ پسلیوں اور ٹانگوں پر سوئیوں کے بے تحاشا نشان تھے۔ وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ سے ’’پین کلرز‘‘ کا محتاج ہو چکا تھا چنانچہ وہ روزانہ درجنوں انجیکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجیکشنز‘ یہ احتیاط اور یہ ڈاکٹرز بھی اسے موت سے نہیں بچا سکے اور وہ ایک دن چپ چاپ اُس جہان شفٹ ہو گیا جس میں ہر زندہ شخص نے پہنچنا ہے اور یوں اس کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی۔
مائیکل جیکسن کی موت ایک اعلان ہے‘ انسان پوری دنیا کو فتح کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا۔ وہ موت اور اس موت کو لکھنے والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ کوئی راک سٹار ہو یا کوئی فرعون وہ مٹی کے بوجھ سے نہیں بچ سکتا۔ وہ قبر کو شکست نہیں دے سکتا لیکن حیرت ہے ہم مائیکل جیکسن کے انجام کے بعد بھی خود کو فولاد کا انسان سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے ہم موت کو دھوکہ دے دیں گے‘ ہم ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہیں۔
**موسم ٹھیک ہے:*
محکمہ موسمیات
*سکول بند کرو*:
ہائیکورٹ
*سکول بند رہیں گے:*
پنجاب حکومت
*سکول کھلے رہیں گے:*
وزیر
*بند رہیں گے,نوٹیفیکیشن*
نوٹیفکیشن فیک ہے.
*کل سکول بند رہیں گے:*
وزیر اعلیٰ
*سکول بندنہیں ہوں گے:*
میڈیا
*سکول بند رہیں گے:*
ٹویٹ جاری
*ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا گیا:*
میڈیا رپورٹ
*سکول معمول کے مطابق کھلیں گے:*
وزیر اطلاعات
صبح سے اب تک ابھی سکول لگنے کے ٹائم میں 12گھنٹےباقی ہیں
*شاباش ویئی شاباش۔ پاگل کر چھڈیا جے قوم نوں*😂
ہمارا آج
Today. . 2023. .
Trip 2023
Two prince
لیوس ویلس 1827 میں پیدا هوا- 1905 میں اس کی وفات هوئے- اس کا ایک قول ہے کہ کسی آدمی کی سب سے زیاده آزمائش کا وقت وه هوتا ہے جب کہ بہت زیاده خوش قسمتی اس کے حصہ میں آگئی هو :
مشکل حالات میں آدمی کے بہکنے کا اندیشہ نسبتا کم رہتا ہے- لیکن اگر آدمی کو بڑی کامیابی حاصل هو جائے تو بہت کم ایسا هوتا هے کہ وه بہکنے سے بچ جائے-
اللہ تعالی نے موجوده دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کوئی اچهی چیز بہت زیاده دیر تک کسی ایک شخص یا گروه کے پاس نہ رہے- جوانی کچهہ دنوں کے بعد ڈهل جاتی ہے- دولت کبهی آتی ہے اور کبهی چلی جاتی ہے- سیاسی اقتدار بار بار ایک ہاتهہ سے دوسرے ہاتهہ میں جاتا رہتا ہے- یہ بگاڑ کے خلاف ایک فطری چیک ہے- یہ اس لئے ہے کہ لوگ ایک حد کے اندر رہیں زیاده بگڑنے نہ پائے-
مزید یہ کہ یہ صورت حال آدمی کی ذاتی اصلاح کے لئے بہت زیاده معاون ہے- حالات کی تبدیلی بار بار لوگوں کو سبق دیتی ہے- اس سے ہر آدمی کو یہ موقع ملتا رہتا ہے کہ وه اپنی حثیت واقعی کو جانے- وه اپنے آپ کو سرکشی اور غرور سے بچائے- وه اس حقیقت سے آشنا هو کہ اس دنیا میں حالات کا سرا اس کے ہاتهہ میں نہیں ہے بلکہ خدا کے ہاتهہ میں ہے- اختیار اور عظمت کا مالک صرف خدا ہے- اس کے سوا کسی اور کے لئے نہ حقیقی عظمت ہے اور نہ حقیقی اختیار-
ڈائری، 31 اگست 1990
مولانا وحیدالدین خان
اپنے بچوں کو کسی کے بھی حوالے کر کے خود بے فکر نہ ہو جائیں خواہ وہ سکول ہو، ہو یا کوئی اور جگہ۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the school
Telephone
Address
Opening Hours
Monday | 08:00 - 13:00 |
Tuesday | 08:00 - 13:00 |
Wednesday | 08:00 - 13:00 |
Thursday | 08:00 - 13:00 |
Friday | 08:00 - 11:00 |
Saturday | 08:00 - 13:00 |
Lahore, 54000
TNS is Pakistan's leading Project Based learning (PBL) & International Baccalaureate (IB) school. Welcome to the concept of Learning without boundaries.
Uet, Lahore
Lahore
Welcome to IBM-UET! Institute of Business and Management (IBM) at the University of Engineering and Technology (UET) Lahore. visit our website-- http://www.ibm-uet.edu.pk/
Punjab University Canal Road
Lahore, 54600
Not Official Page! Pioneer in offering various programs from BS to PhD in the field of Industrial Engineering and Quality Management in Pakistan.
Mall Road
Lahore
Strategic Corporate Consultation. Secretarial and Corporate Compliance Reporting Services. Share registrar services. Mergers, Acquisitions and Liquidation Proceedi...
King Edward Medical University, Nelagumbad, Anarkali
Lahore, 54000
Fanpage for the Class of 2012! Class people can join the top-secret classgroup by invites!
Lahore
Official fan page of Bright Grammar School (BGS) in Lahore, Pakistan. Founded: September 1990 by Ch Aitmad-Ud-Dula and Samina Aitmad Director BGS: Najeeb Aitmad BGS group: http:...
FAZAIA INTERMEDIATE COLLEGE MUNIR Road
Lahore, 54000
Enter to learn : leave to serve
Valancia Housing Society, E-Block
Lahore, 54000
ACADEMIA DE AVERROES CIE Center No: PK 864
2/2 Dev Samaj Road, St Nagar
Lahore, 54000
The first technical education college in Pakistan.
Lahore, 54000
SUGGEST TO FRIENDS 1.000 √ DONE █ 2.000 √ DONE ██ 2.500 suggest ███ 3.000...suggest ████ 5.000....suggest █████7.000.... suggest ██████10.000...suggest Creator : ♥ *Ss* ♥ Admins...