Mirrat Ul Arifeen International
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Mirrat Ul Arifeen International, Magazine, 8 & 9, Aslam Arcade, Mcleod Road Lakshami Chowk, Lahore.
جیسا کہ آپ جانتے ھیں کہ دُنیا کے مختلف خطوں (بالخصوص بر صغیر پاک و ھند) میں اسلام کی ترویج میں صوفیأ نے بہت بڑا کردار ادا کیا ان صوفیأ میں حضرت سلطان باھو(۱۶۲۹ تا ۱۶۹۱) ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتے ھیں جن کا پنجابی و فارسی کلام دنیا کے بڑے بڑے فنکاروں نے گایا ھے اور دنیا کی معروف جامعات میں ان کی تعلیمات پر تحقیق کی گئی ھے ۔ حضرت سلطان باھو کی خانقاہ پنجاب میں (ملتان کے قریب) ضلع جھنگ میں واقع ھ
دستک
خلوص و صداقت پہ نسلِ نو کی سیرت سازی
تعلیماتِ غوثیہ کا احیاء: وقت کی اہم ضرورت
اگرچہ عصر ِحاضر کا انسان سائنسی و مادی ترقی کے لحاظ سے بامِ عروج پر ہے جس کی بدولت دنیا ایک عالمی گاؤ ں( Global Village) کی صورت اختیار کرچکی ہے -لیکن اس تمام تر ترقی کے باجود آج معاشرہ احترامِ آدمیت ،وحدتِ نوعِ انسانی، امن و آشتی،پر امن بقائے باہمی،برداشت اور رواداری جیسی انسانی و اخلاقی اقدار سے محروم ہوچکا ہے -بالفاظِ دیگر معاشرے سے روحانی الذہن افراد نا پید ہوچکے ہیں اور معاشرہ بدترین روحانی ضعف و بے یقینی اور فکری پسماندگی سے دوچار ہے جس کی ایک بنیادی وجہ انسانیت کا صداقت و خلوص جیسے شیریں چشموں سے سیراب نہ ہونا ہے -
تاریخ شاہد ہے کہ جب انسانی معاشرے میں سماجی وروحانی خرابیاں واقع ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے ہردور میں انسانی اصلاح و تربیت کیلئے انبیائے کرام (علیہم السلام) مبعوث فرمائے تاکہ خلقِ خدا کو راہِ حق کی جانب گامزن کیا جائے- خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے(ﷺ)کی ذاتِ گرا می پر باب ِ نبوت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوا تو انسانیت کی فلاح و اِصلاح کا بیڑا اکابرین امت ،آئمہ عظام اور صوفیائے کرام (رحمۃ اللہ علیہم)نے اٹھایا - اولیاء و صوفیاء کی پوری جماعت میں محبوب ِ سُبحانی ،شہبازِلامکانی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)کی شخصیت سرِفہرست ہے - آپؒ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو خلوص و صداقت کا معیار پتہ چلتا ہے -
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی سیرت و تعلیمات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ نے جس دور میں آنکھ کھولی، اُس دور میں مسلمانوں بالخصوص دین پہ چاروں طرف سے مختلف طریقوں سے یلغار کی جا رہی تھی ،جس میں اپنے پرائے سب شریک تھے -یہ سخت اور کاری حملے دین ِاسلام کی بنیادوں پر تھے - ان حالات میں حضرت محی الدین (رحمۃ اللہ علیہ) نے سب سے پہلے آقا کریم سیّدالمرسلین(ﷺ) کی سنت مبارک (ترک ماسوی اللہ اور توکل علی اللہ ) کو اپناتے ہوئے خود کو علمِ دین کے لیے وقف فرمایا اور خلوص و صداقت کی بنیاد پہ لوگوں کی تربیت فرمائی ۔
حصول ِ علم اورتکمیل ِ علم کے بعد آپؒ مجاہد ہ ِ نفس اور تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہوئے جس کے متعلق آپؒ ارشادفرماتے ہیں :
’’ 40سال تک مَیں عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتا رہا-مَیں عشاء کے بعد کھڑا ہو کر قرآن مجید شروع کرتااور نیند کے خوف سے اپنا ایک ہاتھ کھونٹی سے باندھ دیتا اورا خیررات تک قرآن مجید کو ختم کر دیتا-(نزہۃ الخاطر الفاطر فی مناقب سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ؓ)
المختصر!حضرت والیِ بغداد(رحمۃ اللہ علیہ) کی سیرت و تعلیمات کا بنظرِ عمیق مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ(رحمۃ اللہ علیہ) نے سب سے پہلے اپنے آپ کوعلم وعمل کے سانچے میں ڈھالا- جب اللہ عزوجل نے آپؒ کوعلم وعمل کا پیکر بنایا-توآپؒ نے اللہ عزوجل اور اس کے حبیب مکرم (ﷺ) کے حکم مبار ک اور اجازت سے اُمت مسلمہ کی اصلاح کا بیڑہ اُٹھایا-آپؒ نے جہاں درس وتدریس کے ذریعے امت مسلمہ کو بیدار فرمایا وہاں اپنے دست ِ اقدس سے کئی کتب مبارکہ رقم فرمائیں -عصر حاضر میں آپؒ کی روحانی تعلیمات ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہوگئی ہیں جو خلوص و صداقت کا مرقع ہونے کے سبب سماجی و روحانی برائیوں کے تدارک و سدباب کیلئے تریاق کی حیثیت رکھتی ہیں -لہذا!آج آپؒ کی تعلیمات کے احیاء کی بہت ضرورت ہے جس کے لئے نہ صرف عام قاری کو آپؒ کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ بالخصوص نوجوان نسل میں آپ کے تربیتی طریقہ کار کا شعور بیدارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے کے ایک پاکیزہ ، روحانی الذہن اور کارآمد فرد کے طور پر سماجی فلاح اور تعمیر و ترقی میں اپنا کرادار ادا کرسکیں -اسی طرح اگرآج مسلم اُمہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(رحمۃ اللہ علیہ) کی سیرت مبارکہ اور آپؒ کی تعلیمات کو اپنالے جو قرآن و حدیث کے صحیح فہم پر مبنی ہیں توعالم اسلام اپنی تمام محرومیوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے-
مزید برآں! عصر حاضر میں ضرور ت اس امر کی ہے کہ حضرت محی الدین (رحمۃ اللہ علیہ) کی تصانیف کو عام کر کے نہ صر ف مدارس میں سبقاً پڑھایا جائےبلکہ سرکاری سطح تک سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے کیونکہ روحانی تعلیماتِ ہی موجود دور میں انسانیت کی سماجی ، سیاسی ،علمی اور اخلاقی و روحانی بقاء کی ضامن ہیں -بقول حکیم الاُمت علامہ محمد اقبالؒ انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے:
(1)کائنات کی روحانی تعبیر (2) فرد کا روحانی استخلاص اور (3) ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشو و نما میں رہنما ہوں-
’’ابھی تو تعمیرِ پاکستان کا عظیم تر کام باقی ہے ،جس کے لئے ہماری تمام تر توانائی کی ضرورت ہوگی لیکن اللہ تعا لیٰ کے فضل وکرم سے ہم دنیا میں اس نئی عظیم خود مختار اسلامی ریاست کو مکمل اتحاد، تنظیم اور ایمان کے ساتھ تعمیرکرسکیں گے،مسلمانانِ ہند پوری صلاحیت سے اپنی ذمہ داری پوری کریں گے اورامن عالم کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے ‘‘-
(دی ڈان ،8 جولائی 1947ء)
’’اپنے دین کے مرض کی دوا مجھ سے لو اوراسے استعمال کرو،صحت وتندرستی ہوجائے گی- پہلے لوگ اولیاء اللہ اور صالحین کی تلاش میں مشرق تامغرب سفر میں رہتے ،یہی لوگ (اولیاء اللہ) دلوں اور دین کے طبیب ہیں ،ان میں سے جب کوئی مل جاتا تواس سے اپنے دینوں کی دوا طلب کرتے تھے - آج تمہارا یہ حال ہے کہ تمہارے نزدیک ناپسندیدہ فقہاء، علماء اور اولیاء اللہ ہیں (حالانکہ وہ) تمہیں ادب اور علم سکھانے والے ہیں- ایسی حالت میں تمہارے ہاتھ دوا نہیں لگے گی- میرا علم اور میری طب تمہیں کیا فائدہ دیں گے- مَیں تو ہر روز تیرے لیے ایک بنیاد بناتا ہوں اور تو اسے گرا دیتا ہے، مسلسل تیرے مرض کی دوا تجویز کرتا ہوں مگر تو اسے استعمال نہیں کرتا‘‘ -
(الفتح الربانی)
ب
بَغداد شہر دی کِیا نِشانی اُچیاں لَمیاں چِیراں ھو
تَن مَن مِیرا پُرزے پُرزے جیوں درزی دیاں لِیراں ھو
اینہاں لِیراں دی گل کفنی پا کے رَلساں سنگ فقِیراں ھو
بَغداد شہر دے ٹُکڑے مَنگساں باھوؒ تے کرساں مِیراں مِیراں ھو
’’حضرت معاذبن جبل(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ)کو ارشادفرماتے ہوئے سُنا کہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا :’’میرے جلال (ذات) کی خاطر آپس میں محبت کرنے والوں کے لیےایسے نور کے منبر ہوں گے کہ جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے (یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہید لیکن پھر بھی اتنے اعلیٰ مقام پہ فائز ہیں ‘‘-
(سُنن الترمذی ،ب بَابُ مَا جَاءَ فِي الحُبِّ فِی اللہ)
’’اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهَ ط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ ‘‘(التوبہ:122)
’’ سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم-وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں -انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں- اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ‘‘-
اس کا مقام بلند، اس کا خیال عظیم
اس کا سرور اس کا شوق، اس کا نیاز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز
(بالِ جبریل)
فلسطین
(صدا بحضورِ غوث الوریٰ)
صاحبزادہ سلطان احمد علی
میرے غوث! تیری اجازت ہو گر
کہوں کچھ، کرم کی اگر ہو نظر
کہستان و صحرا کے وہ شہسوار
ترے کُرد عاشق ترے جانثار
تیرے نام سے ان کے جذبے بلند
تیرے فیض سے وہ ہوئے ارجمند
تیرے نام کی دَف بجاتے ہیں وہ
تیرے نام پر جھوم جاتے ہیں وہ
ہیں لنگر چلاتے تیرے نام پر
ہیں قربان جاتے تیرے نام پر
جو ایوبی، سالارِ اسلام تھا
تیرے فیضِ صحبت میں ہی وہ پلا
زِرہ پوش جب آیا یہ کُرد شیر
تو پا بوس اس کے ہوا اردشیر
وہ کُردوں کی عظمت کا مینار تھا
زمیں پر خُدا کی وہ تلوار تھا
جو یورپ سے آئے کئی بادشاہ
کٹے اُن کے لشکر تو اُتری کُلاہ
بتا کیسے بھولوں میں حطّین کو
سلامی کروں مُحسنِ دین کو
امانت، جو فاروق نے لے کے دی
حفاظت اِسی کُرد نے اس کی کی
عبیدہ کی سُنت کو دُہرا دیا
قُدُس کو نصاریٰ سے چھڑوا لیا
مرے شیخ! اُس سے یہ کیونکر ہوا؟
اُسے کس کے ہاتھوں نے کندن کیا؟
وہ کس کی دعا کا اثر بن گیا؟
وہ کس کی دُعا کا ثمر بن گیا؟
میں تحدیثِ نعمت میں کیوں چُپ رہوں
ترے فیض کا خُوب چرچا کروں
اُسے آب دی تربیت نے تری
جو مہر اُس نے تاریخ پر ثبت کی
اثر تھا ترے وعظ و تلقین کا
جو ہے کارنامہ ’’صلادین‘‘ کا
ہوں افکار جن کے بھی ملاں نژاد
نہ کر پائیں گے وہ مبارک جہاد
وہ لاتے ہیں اُمت میں پہلے فساد
ہلاتے ہیں اسلامیوں کی نہاد
کہ صوفی مگر نیک و مسعود ہے
وجود اس کا اُمّت میں محمود ہے
“صلا دیں” پہ تیرا ہی فیضان تھا
وجود اُس کا اُمت کو احسان تھا
مجاہد جو لشکر میں شامل ہوئے
بکثرت “اَزَج” کے وہ طُلّاب تھے
تیرے شاہزادے ہیں عبد العزیز
ہوئے جن سے اہلِ خبر مستفیض
ہزاروں مریدین کے سنگ میں
وہ ساتھی تھے اُس کرد کے جنگ میں
زباں غوطہ زن رہتی قرآن میں
مگر تیغِ برّاں تھے میدان میں
وہاں معرکے آپ نے تھے لڑے
جہاں سے حجر عسقلانی ہوئے
ہر اِک شخص کو واں پہ معلوم ہے
کہ جبلِ عزیز اُن سے موسوم ہے
قُدُس کے تقدس کی خاطر لڑے
وہ تلمیذ تھے یا کہ بیٹے تیرے
ہمارے دلوں پر بھی شفقت کریں
کہ اقصیٰ کی خاطر تڑپتے رہیں
٭٭٭
حضرت فرید الدین عطار()
کی نعتیہ شاعری
(فارسی شاعری میں نعت کی روایت کے تناظر میں)
ڈاکٹر شوکت حیات
اسسٹنٹ پروفیسرشعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی، لاہور
نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی وصف و خوبی اور تعریف و توصیف کے ہیں لیکن اصطلاح میں لفظ نعت صرف حضور نبی کریم (ﷺ) کی منظوم تعریف و توصیف اور مدح کے لئے مخصوص ہے-
مصباح اللغات میں نعت کا لغوی معنی یوں بیان کیا گیا ہے:
’’نعتہ (ف) نعتاً: تعریف کرنا، بیان کرنا(اور اکثر اس کا استعمال صفات حسنہ کے لیے ہوتا ہے)‘‘-
حوالہ: بلیاوی، مولوی عبدالحفیظ؛ مصباح اللغات، ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی، لاہور، ص 887
ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق لکھتے ہیں:
’’اصولاً آنحضرت (ﷺ) کی مدح سے متعلق نثر اور نظم کے ہر ٹکڑے کو نعت کہا جائے گا، لیکن اردو اور فارسی میں جب لفظِ نعت کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر آنحضرت (ﷺ) کی منظوم مدح مراد لی جاتی ہے‘‘-
حوالہ: اشفاق، ڈاکٹر رفیع الدین؛ (1976ء)، اردو کی نعتیہ شاعری، اردو اکیڈمی، سندھ، ص 21
نعت کے لئے کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں ہے- یہ کسی بھی صنف سخن یعنی قصیدہ، مثنوی، غزل، قطعہ، رباعی، مخمس، مسدس، دوہے وغیرہ میں لکھی جا سکتی ہے-
نعت گوئی کا آغاز سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا- حضور نبی اکرم (ﷺ)کے زمانے ہی سے نعت گوئی کا رواج شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور پھیلتا چلا گیا- آپ (ﷺ)کی مدح میں سب سے پہلے جس نے لب کشائی کی وہ آپ (ﷺ) کے مربی ومحسن و عمِّ نامدار ابوطالب ہیں - سیرۃ النبی میں ابن ہشام نے ایک قصیدہ کے سات شعر نقل کیے ہیں جس میں حضرت ابوطالب نے پرجوش اشعار میں حضور نبی کریم(ﷺ) کی مدح کی اور اپنے خاندان (بنو ہاشم) کی خصوصیات کا ذکر کیا-
حوالہ: ابن ہشام، سیرۃ النبی، طبع بیروت، ج 1، ص 156
اسی طرح اولین نعت گو شعراء میں آپ (ﷺ) کے صحابی، حضرت حسان بن ثابت (رضی اللہ عنہ ) کا نام بھی سرفہرست ہے- اسی سلسلے میں ایک اور نام حضرت کعب بن زہیر (رضی اللہ عنہ ) کا ہے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور حضور نبی اکرم (ﷺ)کی خدمت اقدس میں نعتیہ قصیدہ پیش کیا- عربی نعت گوئی میں ایک بہت اہم اور ممتاز نام ساتویں صدی ہجری کے محمد بن سعید بوصیری کا ہے جن کا ’قصیدہ بردہ شریف‘ دنیائے اسلام میں آج بھی مخصوص محفلوں میں عقیدت و محبت سے سنایا جاتا ہے اور جس کے تراجم مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں- نعت گوئی کا یہ سلسلہ آج بھی عربی شاعری میں جاری ہے-
عربی نعت کے زیر اثر فارسی زبان میں بھی نعت گوئی کا آغاز ہوا-فردوسی کے شاہنامہ میں نعتیہ اشعار موجود ہیں- ابو سعید ابو الخیرکی رباعیات میں نعتیہ کلام موجود ہے-ان کے علاوہ خاقانی شروانی، حکیم سنائی غزنوی، فریدالدین عطار، نظامی گنجوی، مولانا جلال الدین رومی، سعدی شیرازی ،امیر خسرو، مولانا عبدالرحمٰن جامی، عرفی شیرازی اور قدسی مشہدی (رحمتہ اللہ علیہ )وغیرہ جیسے عظیم المرتبت شعراء نے بھی جابجا اپنے کلام میں مدحتِ رسول اکرم (ﷺ)کو بیان کیا ہے-
نعت گوئی کا سفر عرب سے ایران اور پھر ہندوستان تک پہنچا- حضرت امیر خسرو، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز، قلی قطب شاہ، ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، امیر مینائی اور محسن کاکوروی، جگر مرادآبادی، اقبال سہیل، الطاف حسین حالی ، علامہ محمد اقبال، احمد رضا خان بریلوی، مولانا ظفر علی خان، محمد علی جوہر، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، حفیظ تائب اور مظفر وارثی وغیرہ نے نعت نگاری میں نئے نئے مضامین کا اضافہ کیا- بقول مولانا سید ابو الحسن علی ندوی:
’’نعت گوئی، عشق رسول (ﷺ) اور شوق مدینہ ہندوستانی شعراء کا محبوب موضوع رہاہے اور فارسی شاعری کے بعد سب سے بہتر اور سب سے مؤثر نعتیں اردو ہی میں ملتی ہیں‘‘-
حوالہ: ندوی، سید ابو الحسن علی؛ کاروان مدینہ، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، ندوہ، لکھنؤ، ص 176
جب عربی، فارسی اور اردو کی نعت کا ذکر کیا جائے تو پنجابی زبان کے نعت گو شعراء کا ذکر بھی لازمی بن جاتا ہے- پنجابی زبان و ادب میں نعت اس قدر رائج ہے کہ اس کا موازنہ دنیا کی کسی بھی زبان سے کیا جا سکتا ہے- پنجابی زبان کے معروف نعت گو شعراء کی تعداد سیکڑوں میں ہے- پنجابی صوفی شعراء یعنی بابا فرید، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، حضرت سلطان باہو، میاں محمد بخش(رحمتہ اللہ علہم) وغیرہ کے صوفیانہ کلام میں جا بجا نعتیہ اشعار ملتے ہیں- ان کے علاوہ عبدالستار نیازی، اعظم چشتی، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، استاد عشق لہر، فیروز دین شرف، یونس احقر، سید ضمیر جعفری، حافظ امرتسری، صائم چشتی، پیر فضل گجراتی، اقبال زخمی اور ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد اور دیگر بے شمار پنجابی شعراء نے مدحتِ رسولِ اکرم (ﷺ)کو اپنی شاعری کا خاصہ بنایا-
ایران کے اسلامی دور میں فارسی شاعری اگرچہ باقاعدہ تیسری صدی ہجری میں شروع ہوتی ہے مگر نعتیہ اشعار چھٹی صدی ہجری میں نظر آتے ہیں- اس کےبعد سے فارسی شاعری کے تقریباً تمام ادوار میں شعراء نے نعت کو موضوع فکر بنایا-غزل کی ہیئت ہو یا نظم کی کوئی بھی خارجی شکل، فارسی شاعری میں نعت کا موضوع اپنے مکمل خدوخال کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے- فارسی ادب کے ہر دور سے متعلق نعت گو شعراء کا فرداً فرداً تفصیلی جائزہ لیا جائے تو ایک ضخیم دفتر بھی اس کا متحمل نہ ہوسکے گا- لہٰذا یہ مقالہ فارسی میں نعتیہ تحریک اور نعتیہ رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت فرید الدین عطار نیشاپوری(رحمتہ اللہ علیہ ) کی نعتیہ شاعری کے بارے میں ایک مختصر بیان ہے- جنہوں نے ناصرف اپنی تصوفانہ مثنویوں میں فن کاری و صنعت و ہنرمندی کے جوہر دکھائے بلکہ دوسری طرف عشق نبی (ﷺ) کا جذبہ درون وارفتگی بن کے ان کے قلب و روح پر طاری رہا اور انہوں نے الہامی طور پر نعت کے والہانہ اشعار قلم بند کیے-
فرید الدین عطار، 1145ء یا 1146ء میں ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور 1221ء میں وفات پائی- آپ کا اصل نام ابوحمید ابن ابوبکر ابراہیم تھا مگر وہ اپنے قلمی نام فرید الدین اور شیخ فرید الدین عطار سے زیادہ مشہور ہیں- وہ ایک اعلیٰ پائے کے فارسی شاعر، صوفی اور ماہر علوم باطنی تھے- ان کا علمی خاصہ اور اثر آج بھی فارسی شاعری اور صوفیانہ رنگ میں نمایاں ہے- انہیں بچپن سے ہی صوفی نظریات سے انسیت تھی- ان نظریات کو پروان چڑھانے میں انہیں اپنے والد کی مکمل حمایت حاصل رہی- شیخ فرید الدین عطار(رحمتہ اللہ علیہ ) کو صوفیائے کرام کے احوال زندگی سے انتہائی لگاؤ تھا اور وہ اپنی زندگی ان صوفیائے کرام کے فرمان کے عین مطابق گزارنے کے خواہاں رہے اور یہی صوفیائے کرام زندگی میں ہر موڑ پر ان کی رہنمائی اپنے فرمودات اور نظریات سے کرتے رہے- یہی وجہ ہے کہ ان کی طبیعت میں سوز و گداز کے ساتھ ساتھ عشق نبی (ﷺ)بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور عشق کا یہی جذبہ بار بار نعتیہ اشعار کی صورت میں جلوہ گر ہوتا رہا- شیخ محمد فریدالدین عطارؒ، اللہ کے برگزیدہ انسان اور ولی کامل تھے-وہ اپنی بے مثال صوفیانہ شاعری کی بدولت بھی دنیا بھر میں مقبول ہوئے- وہ نعت رسول الله (ﷺ) کو بھی فرض عین سمجھتے تھے-انہوں نے اپنی ہر کتاب میں نعت رسول مقبول (ﷺ) کو بہت احترام سے نظم کیا ہے- انہوں نے اپنی معروف مثنوی ’’مصیبت نامہ‘‘ میں نعت پیامبر (ﷺ)کے ضمن میں دو سو سے زیادہ اشعار لکھے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
آنچه فرض عین نسل آدم است
نعت صدر و بدر هر دو عالم است
’’جو کام اولادِ آدم پر فرضِ عین ہے دو دونوں عالم کے سردار (ﷺ) کی نعت ہے-
آفتاب عالم دین پروران
خواجهٔ فرمان ده پیغامبران
’’آپ (ﷺ) دین پروری کے جہان کا سورج ہیں، آپ (ﷺ) پیغمبروں کے فرمانروا اور خواجہ ہیں‘‘-
پیشوای انبیا و مرسلین
مقتدای اولین و آخرین
’’آپ (ﷺ) تمام انبیاء اور رسولوں کے پیشوا ہیں، سے سے پہلے اور آخری امام ہیں‘‘-
جلوه کرده آفتاب روی او
آسمان صد سجده برده سوی او
’’سورج ان کے چہرے کا نظارہ کرتا ہے آسمان ان کے سامنے سینکڑوں سجدے کرتا ہے‘‘-
هشت جنت جرعه ای از جام او
هر دو عالم از دو میم نام او
’’ان کی محبت کےجام کے ایک گھونٹ میں آٹھ جنتیں ہیں -دونوں جہان ان کے نام کی دو میموں کی وجہ سے ہیں‘‘-
ای زمین و آسمان خاک درت
عرش و کرسی خوشه چین جوهرت
’’زمین و آسمان ان کے در کی خاک ہیں، عرش اور کرسی ان کے موتی چننے والے ہیں‘‘-
تا که یک جان دارم و تا زنده ام
بند بندت را به صد جان بنده ام
’’جب تک میرے اندر روح ہے اور جب تک میں زندہ ہوں، میرا ایک ایک جوڑ سینکڑوں جانوں سے آپ (ﷺ) کا غلام رہے گا‘‘-
در ز فانم جز ثنای تو مباد
نقد جانم جز وفای تو مباد
’’میری زبان پر آپ (ﷺ) کی تعریف کے علاوہ اور کچھ نہ ہو-میری زندگی کی جمع پونجی آپ (ﷺ) سے وفاداری کے علاوہ اور کچھ نہ ہو‘‘-
نیستم من مرد وصف ذات تو
اینقدر هم هست از برکات تو
’’میرے اندر اتنی جرأت نہیں کہ آپ (ﷺ) کے اوصاف بیان کر سکوں، میں جو کچھ بھی ہوں آپ (ﷺ) کی برکت کی وجہ سے ہوں‘‘-
آن که او وصف از خدا داند شنید
وصف کس آنجا کجا داند رسید
’’آپ (ﷺ) کی ذات وہ ذات ہے جس کے اوصاف خدا جانتا ہے، کسی اور شخص میں یہ خوبی نہیں کہ وہ آپ (ﷺ) کے اوصاف کے بارے میں جان سکے‘‘-
حوالہ: عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1386 ش)، مصیبت نامہ، بتصحیح دکتر محمد رضا شفیعی کدکنی، انتشارات سخن، تہران، ص 132-133
فارسی کے شعری ادب میں’منطق الطیر‘ ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے- اس کی ابتدا ہی میں فرید الدین عطار (رحمتہ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
خواجهٔ دنیا و دین گنج وفا
صدر و بدر هر دو عالم مصطفےٰؐ
’’آپ (ﷺ) دین و دنیا کے مالک ہیں اور وفا کا خزانہ ہیں-مصطفےٰ (ﷺ) دونوں جہانوں کے سردار اور چودھویں کے چاند ہیں‘‘-
آفتاب شرع و گردون یقین
نور عالم رحمت للعالمین
’’آپ (ﷺ) شریعت کے آفتاب ہیں اور یقین و ایمان کے آسمان ہیں، سارے جہانوں کا نور اور تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں‘‘-
هر دو گیتی از وجودش نام یافت
عرش نیز از نام او آرام یافت
’’دونوں جہانوں کا نام آپ (ﷺ) کے وجود کی برکت کی وجہ سے ہے -عرش بھی آپ (ﷺ) کے نام سے آرام پاتا ہے‘‘-
آفرینش را جز او مقصود نیست
پاک دامن تر از او موجود نیست
’’تخلیقِ جہان کا مقصد آپ (ﷺ) کی ذات کے سوا اور کچھ نہیں ہے- آپ (ﷺ) کی ذات سے زیادہ پاکیزہ کوئی اور موجود نہیں ہے‘‘-
حوالہ: عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ منطق الطیر، کتابفروشی تایید، اصفہان، ص:25
نعتیہ شاعری میں نہ صرف شعر و سخن کی آزمائش ہوتی ہے بلکہ اس کسوٹی پر عقیدۂ توحید و رسالت اور عشق حقیقی کی پرکھ بھی بدرجہ اتم ہوتی ہے- اس لیے اربابِ سخن نعتیہ شاعری کو دو دھاری تلوار سے تشبیہ دیتے ہیں - حضرت فرید الدین عطار (رحمۃ اللہ علیہ) نے بھی نعت لکھتے ہوئے کامل احتیاط سے کام لیا ہے اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی مثنوی ’’الٰہی نامہ‘‘میں حضور نبی اکرم (ﷺ)کی ستائش میں بہترین اشعار لکھے ہیں:
ثنایی گو بر ارباب بینش
سزای صدر و بدر آفرینش
’’تعریف اس بصیر خدا کی جس نے دونوں جہان کے سردار اور چودھویں کے چاند حضور نبی کریم (ﷺ) کو پیدا کیا‘‘-
محمدؐ آنکہ نور جسم و جانست
گزین و مھتر پیغامبر انست
’’محمد (ﷺ) جسم اور جان کا نور ہیں-تمام پیغمبران میں سے برگزیدہ سردار ہیں‘‘-
ز نورش ذرۂ خورشید و ماھست
ھمہ ذرات را پشت و پناھست
’’سورج اور چاند ان کے نور کا ایک ذرّہ ہیں-ایسے تمام ذرات کے لئے آپ (ﷺ) پشت و پناہ ہیں‘‘-
فلک یک خرقہ پوش خانقاھش
بسر گردان شدہ در خاکِ راھش
’’آسمان آپ (ﷺ) کی خانقاہ کا ایک خرقہ پوش (فقیر) ہے-وہ آپ (ﷺ) کی راہ کی خاک سامنے سر جھکائے ہوئے ہے‘‘-
تمامت انبیا را پیشوا اوست
حقیقت عاشقان را رھنما اوست
’’آپ (ﷺ) تمام انبیاء کے پیشوا ہیں -عشقِ حقیقی کے راستے پر چلنے والوں کے راہنما ہیں‘‘-
ز نور اوست اصل عرش و کرسی
چہ کروبی چہ روحانی چہ قدسی
’’عرش و کرسی کی اصلیت آپ (ﷺ) کا نور ہے-فرشتے اور قدسیان سب کی تخلیق آپ (ﷺ) کے وجودِ بابرکت کے سبب ہوئی‘‘-
حوالہ: عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1940ء)، الٰہی نامہ، بتصحیح ھ ۔ ربز، النشریات الاسلامیہ، لجمعیتہ المستشرقین الالمانیہ، جرمنی، ص 11
نعت گوئی میں نہ تو زبان دیکھی جاتی ہے اور نہ بیان پر نظر جاتی ہے، نہ فنی نکات تلاش کئے جاتے ہیں- اس کی روح صرف اخلاص اور محبتِ رسول(ﷺ) ہے- اگر بات دل سے نکلی ہے تو دلوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ)میں وہ نذرانہ عقیدت اور محبت قبول ہوجائے تو اشعار کو حیات جاویدانی نصیب ہوجاتی ہے- جیسے فارسی میں سعدی شیرازی، عبد الرحمٰن جامی، محمد جان قدسی (رحمتہ اللہ علہم ) وغیرہ کی بعض نعتیں اس کی شہادت دے رہی ہیں - یہی وہ صادق جذبہ اور عشق ہے جس کی وجہ سے الٰہی نامہ میں تین سو اشعار پر مشتمل نعتِ پیغمبر (ﷺ) لکھنے کے بعد بھی فرید الدین عطار(رحمتہ اللہ علیہ)کا دل نہیں بھرتا اور وہ مزید کہنے لگتے ہیں کہ:
چه گویم چون صفات تو چنانست
که صد عالم ورای عقل و جانست
’’میں کیا کہوں کیونکہ آپ (ﷺ) کی صفات ایسی ہیں کہ سینکڑوں جہان آپ (ﷺ) کی عقل و جان کے صدقے ہیں‘‘-
ندانم تا ثنایت گفته آید
و گر آید ترا پذرفته آید
’’میں نہیں جانتا کہ آپ (ﷺ) کی تعریف کیسے کروں اور اگر کر لوں تو نہیں معلوم کہ وہ آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں قبول ہوگی یا نہیں‘‘-
حوالہ: عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1355ش)، الٰہی نامہ، بدستور سید محمد مبرکمالی خوانساری و سید احمد اخوان، کتابفروشی اسلامیہ، تہران، ص 26
ایک فاسق عورت کی حکایت بیان کرنے کے بعد جو مکہ سے مدینہ حضور نبی اکرم(ﷺ) کے پاس آئی تھی، فرید الدین عطار(رحمتہ اللہ علیہ ) اس کے متعلق یوں بیان کرتے ہیں:
بر امید عطای تو رهی دور
ز پس کردم من مسکین مهجور
’’یا رسول اللہ (ﷺ) میں مسکین ہجر کی ماری، آپ (ﷺ) کی عطا کی امید میں بہت دور دراز کا سفر کر کے آئی ہوں‘‘-
زن آنگه گفت: از پیکار و جنگت
ز بیم خنجر و بیم خدنگت
’’پھر اس عورت نے کہا: آپ (ﷺ) سے جنگ اور دشمنی کے خوف سے-آپ (ﷺ) کے خنجر اور چھڑی کے خوف سے‘‘-
ز صیت قوت و اندازهٔ تو
ز فضل معجز و آوازهٔ تو
’’آپ (ﷺ) کی قوت اور جسامت کی وجہ سے، آپ (ﷺ) کے معجزانہ فضل و کرم اور شہرت کی وجہ سے‘‘-
سوارانِ عرب را سست شد پای
کسی را سوی مطرب چون بود رای
’’عرب کے سواروں کے پاؤں(آپس کی دشمنی میں) سُست ہو گئے ہیں، آپ (ﷺ) پر ایمان لانے کی وجہ سے ‘‘-
حوالہ: عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1355ش)، الٰہی نامہ، بدستور سید محمد مبرکمالی خوانساری و سید احمد اخوان، کتابفروشی اسلامیہ، تہران، ص 27
حضور نبی کریم (ﷺ) اس عورت کی بات سننے کے بعد اپنی چادر اسے بخش دیتے ہیں اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) سے بھی فرماتے ہیں کہ ان کے پاس بھی جو کچھ ہے، وہ اس عورت کو بخش دیں- شیخ عطار بھی اسی عورت کی مثال کو سامنے رکھ کر اپنے حضور نبی اکرم(ﷺ) کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے ہیں:
زنی را یا رسول الله که دور است
میان شرک در فسق و فجور است
’’یا رسول اللہ (ﷺ) وہ عورت جو آپ (ﷺ) کی تعلیمات اور آپ (ﷺ) کی ذات سے بہت دور ہے، جو شرک اور بے حیائی سے معمور ہے‘‘-
چو بستاید ترا حرفی دو یک بار
ز جودت می بیابد مال بسیار
’’اگر وہ بھی آپ (ﷺ) کی مدحت میں دو لفظ کہہ دے تو اسے بھی آپ (ﷺ) کی جود و سخا کی بدولت بے شمار مال و دولت مل جاتی ہے‘‘-
نمی گردانیش نومید از خویش
نمی ماند ز انعام تو درویش
’’آپ (ﷺ) اسے بھی نا امید نہیں کرتے تو یہ درویش بھی آپ (ﷺ) کے انعام سے محروم نہیں رہے گا‘‘-
تو می دانی که در وصف تو عطار
بسی گردید بر سر همچو پرگار
’’آپ (ﷺ) جانتے ہیں کہ عطار آپ کی مدحت میں ہر طرف پرکار کی طرح بہت گھوما ہے‘‘-
چو خاک کوی تو وصفت به جان کرد
قبولش کن بدان گر میتوان کرد
’’اس نے آپ (ﷺ) کے رستے کی خاک کی خوبی کو اپنا لیا ہے-(یعنی خود کو آپ (ﷺ) کی راہ کی خاک جیسا بنا لیا ہے) آپ بھی یا رسول اللہ (ﷺ) اسے قبول فرما لیں‘‘-
چو آن زن را رسید از تو ردائی
رسد از تو به من آخر نوایی
’’اگر وہ عورت آپ (ﷺ) سے ردا حاصل کر سکتی ہے تو مجھے بھی یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کی طرف سے قبولیت کی آواز کا انتظار ہے‘‘-
به تشریفی مشرف کن تنش را
که نبود زان خبر پیراهنش را
’’آپ (ﷺ) تشریف آوری سے اس شخص کے وجود کو مشرف فرمائیں جو اپنے لباس کے بارے میں بھی بے خبر ہو چکا ہے‘‘-
حوالہ: عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ (1355ش)، الٰہی نامہ، بدستور سید محمد مبرکمالی خوانساری و سید احمد اخوان، کتابفروشی اسلامیہ، تہران، ص 28
’’منطق الطیر“شیخ عطار(رحمتہ اللہ علیہ ) کا شاہکار ہے- اس کتاب میں انہوں نے تصوف کے مسائل کوتمثیل کی صورت میں بیان کیاہے- اسی کتاب میں حضور نبی اکرم(ﷺ) کی نعت کے ضمن میں ایک حکایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مادری را طفل در آب اوفتاد
جان مادر در تب و تاب اوفتاد
’’ ایک ماں کا بچہ گہرے پانی میں گر گیا-ماں بیچاری اپنی مامتا کی وجہ سے تڑپ اٹھی‘‘-
در تحیر طفل می زد دست و پای
آب بردش تا بناب آسیای
’’بچہ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، پانی اس کو چھو رہا تھا اور اس کو آگے بہا کرلے جارہا تھا‘‘-
خواست شد در ناو مادر کان بدید
شد سوی درز آب حالی بر کشید
’’ماں سے یہ دیکھا نہ گیا اور وہ اپنے بچے کو بچانے کے لئے پانی میں کود گئی‘‘-
مادرش در جست او را بر گرفت
شیر دادش حالی و در بر گرفت
’’اس نے جلدی سے بچے کو بہتے پانی میں سے نکال لیا اسے گود میں لیا اور اسے دودھ پلایا‘‘-
حکایت بیان کرنے کے بعد فرید الدین عطار التجا کرتے ہیں کہ:
ای ز شفقت داده مهر مادران
هست این غرقاب را ناوی گران
’’یا رسول اللہ (ﷺ) اپنی امت پر آپ ماں سے کہیں زیادہ شفیق اور مہربان ہیں-اس گرداب سے نکلنےکے لیے کشتی کی مانند ہیں ‘‘-
چون در آن گرداب حیرت اوفتیم
پیش ناو آب حسرت اوفتیم
’’ جب ہم گناہوں کے گرداب میں حیران و پریشان ہو کر پھنسے ہوئے ہوں گے توہمیں اس کشتی کے سامنے شرمندگی ہو گی ‘‘-
مانده سرگردان چو آن طفل در آب
دست و پایی می زنیم از اضطراب
’’میری حالت اس بچے کی طرح ہے جو پانی میں ڈوب چلا ہو-میں اسی پریشانی میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں‘‘-
آن نفس ای مشفق طفلان راه
از کرم در غرقهٔ خود کن نگاه
اے بچوں پر شفقت کرنے والے نبی(ﷺ)! مہربانی فرما کر اپنے غرق ہونے والے کو بچا لیجیئے-
رحمتی کن بر دل پرتاب ما
بر کش از لطف و کرم در ز آب ما
’’ہماری اس جان پر رحم کیجئے-جو آپ (ﷺ) سے دور ہو کر گہرے پانی میں ڈوب رہی ہے‘‘-
حوالہ: عطار، فریدالدین محمد بن ابراھیم نیشاپوری؛ منطق الطیر، کتابفروشی تایید، اصفہان، ص 31-32
نعت گوئی حضرت فریدالدین عطارؒ کی شاعری کا جزو لا ینفک ہے- وہ صوفی با صفا تھے اور عشق نبی (ﷺ) کی دولت سے مالامال تھے- ان کی تمام مثنویاں اور دیوان، تصوفانہ اسرار و رموز کا خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ نعتِ رسول مقبول (ﷺ) اور ستائش پیغمبر اکرم کا بھی بہترین نمونہ ہیں- ان کی شاعری نا صرف صوفیانہ رنگ میں رنگی ہوئی ہے بلکہ مدحت حضور نبی اکرم (ﷺ) سے بھی بھرپور ہے-اہل عشق آج بھی ان کے کہے ہوئے نعتیہ اشعار سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں-
٭٭٭
ماحول دوست زندگی
سیرت نبوی (ﷺ) کی روشنی میں
انجینئر رفاقت ایچ ملک
سیرت طیبہ (ﷺ) ایک آفاقی پیغام ہے جس میں ہر ایک شئے کے لیے خیر ہے- آج انسانی ماحول کو درپیش مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی سیرت طیبہ (ﷺ)میں راہنمائی موجود ہے- ماحول سے مراد انسان کے گردوپیش ہے جس میں انسان، جانور اورنباتات زندہ رہتے ہیں -ماحول تمام کیمیائی،طبی و حیاتیاتی عوامل کا مجموعہ ہے- جو جاندار اشیاء پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی ہیت اور زندہ رہنے کے امکانات پہ بھی اثر ڈالتا ہے- اس کرۂ ارض کا ماحول جاندار چیزوں کے زندہ رہنے کیلئے موزوں ترین ہے- فضاء میں موجود آکسیجن کی مقدار اور کرۂ ارض کا درجہ حرارت ہر شئے ایک خاص مقدار میں موجود ہے- جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں- قرآن حکیم میں خالق کائنات نےانسان کو یہ دعوت دی ہے :
’’تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہو گی‘‘-
بد قسمتی سے انسانی عوامل کے باعث انسانی ماحول تیزی سے ابتری کا شکار ہو رہا ہے- اس وقت انسانی جان کی بقاء کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے اُن میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی ہے- ماحولیاتی آلودگی سے مراد قدرتی ماحول میں ایسے اجزاء شامل کرنا ہے کہ جس سے ماحول پہ منفی اثرات مرتب ہوتےہیں- ان اجزاء میں صنعتی و گھریلو کیمیائی آلودگی ہے- ماحولیاتی آلودگی کی اقسام میں زمینی آلودگی، ہوائی آلودگی اور اور آبی آلودگی شامل ہیں- صنعتوں اور ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے نامیاتی ایندھن کے باعث فضاء میں بڑی مقدار میں مضر صحت گیسوں کا اخراج ہوتا ہے- جس کی وجہ سے بڑے شہروں کی فضاء صحت کے لیے نقصان دہ ہو جاتی ہے- پاکستان میں لاہور، کراچی، راولپنڈی اور پشاور کا ائیر کوالٹی انڈیکس 100 کے قریب پہنچ چکا ہے جو کہ ایک خطرناک پوائنٹ ہے- اس کے علاوہ پلاسٹک کا استعمال زمینی و آبی آلودگی کا باعث بن رہا ہے-
دنیا میں سالانہ 400 ملین ٹن پلاسٹک بنائی جا رہی ہے- جس کا آدھا حصہ محض ایک دفعہ استعمال کے لیے ہے اور10 فیصد سے بھی کم کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے- اس میں سے 23 ملین کے قریب دریاؤں اور سمندروں میں چلا جاتا ہے جو پانی کو آلودہ کر رہا ہے اور سمندری حیات کے لیے بڑا خطرہ ہے- یہ بنی نوع انسان کو درپیش مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے-
ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بھیانک اثر ماحولیاتی تبدیلی ہے- جس کے باعث کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے جو کہ انسانی جانوں و دیگر حیاتیاتی نظاموں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے- دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد کارخانوں اور ٹرانسپورٹ کی وجہ سے فضا میں گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے- گرین ہاوس گیسزمیں کاربن ڈائی آکسائیڈ ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور دیگر گیسیں شامل ہیں جو کہ نامیاتی ایندھن کے جلانے سے پیدا ہوتی ہیں- 1850ء تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ppm280 تھی جو کہ 2019 ء میں بڑھ کر ppm410 ہو گئی ہے- IPCC کی رپورٹ کے مطابق زمینی سطح کے اوسط درجہ حرارت میں 1850ء سے لے کر اب تک 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ ااضافہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے - 1970 ء کے بعد اوسط درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے- موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ، سمندر کی سطح میں اضافہ، بارشوں کے سلسلوں میں تبدیلی، قحط سالی اور سیلاب جیسی آفات کا انسانیت کو سامنا ہے - 2022ء کا سال انسانی تاریخ میں ماپا جانے والا پانچواں گرم ترین سال تھا-
سیرت طیبہ (ﷺ) میں ماحول کوصاف رکھنے،گندگی کی روک تھام، قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط اور خدا تعالیٰ کی دی گئی تمام نعمتوں کی حفاظت پہ متعدد بار زور دیا گیا ہے -
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ایک آدمی نے قطعاً کوئی نیکی نہیں کی سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے، خواہ اسے درخت سے کاٹ کر کسی نے ڈال دیا تھا یا کسی اور طرح پڑی تھی تو اس کی تکلیف دہ چیز کو (راستے سے ہٹانا)اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل فرما دیا‘‘-
حوالہ: (سنن ابی داود، کتاب الادب)
شجر کاری کی ترغیب:
ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام میں شجرکاری اہم کردار ادا کرتی ہے- محسنِ انسانیت نے جس پُر زور انداز میں شجر کاری کی ترغیب دی اس کی کوئی نظیرنہیں ملتی -
سیدنا حضرت انس (رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
”اگر قیامت قائم ہونے لگے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو اگر وہ قیامت برپا ہونے سے پہلے پہلے اسے لگا سکتا ہے تو لگا دے “-
حوالہ: ( مسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث:12 125)
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جب کوئی مسلمان شجر کاری یا کاشتکاری کرتا ہے پھر اس میں سے کوئی پرندہ، انسان یا حیوان کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے‘‘-
حوالہ: (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 2320)
درخت لگانے کی فضیلت پر ایک روایت میں حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص کوئی درخت لگاتا ہے تو جتنا اس کے ساتھ پھل لگتا ہے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر لکھتاہے‘‘-
حوالہ: (کنزالعمال، رقم الحدیث: 9057)
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم )بھی درخت لگانے کا اہتمام فرماتے تھے -حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں ایک دن درخت لگا رہا تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کا میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا :اے ابو ہریرہ! کیا کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا (یا رسول اللہ (ﷺ) درخت لگا رہا ہوں‘‘-
حوالہ: (سُنن ابن ماجه ، کتاب الأدب)
درختوں کی حفاظت :
فضاء کو صاف رکھنے میں درختوں اور جنگلات کا بہت بڑا کردار ہے - جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذ ب کرتے ہیں جو گرین ہاوٗ س گیس ہے جس کے اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے- جنگلات بے شمار جانوروں اور پرندوں کی آماجگاہ ہیں اور کرۂ ارض پہ حیاتیاتی تنوع کو قائم رکھنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں - اس ضمن میں رسول اللہ (ﷺ) کی حیات طیبہ سے انسانیت کے لیے ایک اہم سبق ہے-
آپ (ﷺ)نے بلاوجہ پیڑ کاٹنے والوں کے لیے وعید فرمائی ہے- چنانچہ حضرت عبداللہ بن حُبْشِىّ (رضی اللہ عنہ ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص کسی پیڑ کو (بلاضرورت)کاٹے گا ، اللہ تعالیٰ اس کا سر جہنم میں ڈالے گا‘‘-
حوالہ: (سنن ابوداؤد، رقم الحدیث: 5239)
حضرت امام ابوداؤد سے اس حدیث کے معنی و مفہوم سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ:
’’یہ حدیث مختصر ہے، ( پوری حدیث اس طرح ہے ) کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا‘‘-
حوالہ: (سُنن أبى داؤد، باب فِى قَطْعِ السِّدْرِ)
حشرات و جانوروں کی حفاظت:
کرۂ ارض پہ موجود ہر جاندار چیز کا کوئی نہ کوئی کردار ہے- اگر محض حشرات کی ہی بات کی جائے تو حیاتیاتی نظام میں ان کی اہمیت مسلم ہے - حشرات زمین مختلف الانواع فاضل مادوں کو تحلیل کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں - حشرات زمین پر پائے جانے والی مخلوقات کا ایک بڑا حصہ ہیں اوریہ انسانوں سمیت دوسری مخلوقات کے لیے نفع بخش ہیں- یہ نہ صرف پرندوں اور چھوٹے ممالیہ جانوروں کے لیے خوراک کا کام دیتے ہیں- بلکہ دنیا میں 75 فیصد فصلوں کی تخم کاری کا باعث بنتے ہیں، مٹی کو زرخیز بناتے ہیں اور اس میں موجود ضرررساں کیڑوں کی تعداد کنٹرول میں رکھتے ہیں- سائنسی تحقیق کے مطابق 40 فیصد حشرات کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے- جو کیڑے مار ادویات کے استعمال، بڑھتی آبادی، زراعت کے جدید طریقوں اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ناپید ہو رہے ہیں- حیاتیاتی نظام کے تحفظ کا اندازہ مندرجہ ذیل حدیث سے لگایا جا سکتا ہے-
سیدنا عبدالرحمٰن بن عثمان (رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے:
’’ایک طبیب نے حضور نبی اکرم (ﷺ) سے دوا میں مینڈک کے استعمال کے متعلق سوال کیا تو آپ (ﷺ) نے مینڈک قتل کرنے سے منع فرمایا ‘‘-
حوالہ: (سنن ابو داؤد، رقم الحدیث: 3871)
صفائی و پاکیزگی کا اہتمام:
آپ (ﷺ) کا ارشاد ہے:
’’الطهور شطر الإيمان‘‘
’’پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے‘‘-
حوالہ: (سنن الترمذی، ج:5، ص:420، دارالغرب الاسلامی)
طہارت نہ صرف اجر و ثواب کے حصول کا باعث ہے بلکہ اس کے متعدد دنیوی فوائد بھی ہیں- طہارت سے انسانی صحت اور نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں- اس کے برعکس گندگی اور آلودگی معاشرے کے اجتماعی ماحول پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں- جدید سائنس کے مطابق آلودہ ماحول میں رہنے والے وقتاً فوقتاً بیماریوں کا شکار رہتے ہیں مثلاً ڈائریا،ٹائیفائڈ،ٹی بی اور جلدکی بیماریاں خارش وغیرہ- طہارت میں جسم کی صفائی سے لے کر گلی، محلہ اور شہر تک کی صفائی ہے- اقوام متحدہ کے مطابق:
“Access to safe water, sanitation and hygiene is the most basic human need for health and well-being”.
’’صاف پانی، صحت و صفائی تک رسائی انسان کی صحت اور بہتری کے لیے سب سے بنیادی ضرورت ہے‘‘-
لطافت و پاکیزگی کی اہمیت کے اظہار کیلیے آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’بلاشبہ اللہ کی ذات پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے-صاف ستھرا ہے اور صفائی کو پسند کرتا ہے ‘‘-
حوالہ: (سنن ترمذی، ج:4، ص:325، رقم الحدیث: 2808)
قدرتی وسائل ضائع کرنے کی ممانعت:
اگر ماحولیات کو آج سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ وسائل فطرت کا بے جا اورغیرمعتدل استعمال ہے-اسلام میں ماحولیاتی تحفظ پر بہت زور دیا گیا- کیونکہ انسانی بقا صحت مند ماحول کے بغیر ممکن نہیں ہے- سیرت طیبہ میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کثیر احادیث موجود ہیں- جو ایک مومن پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہیں کہ وہ قدرتی وسائل کی حفاظت میں کوئی کسر باقی نہ رکھے- جن وسائل کا استعمال ہم زمین پر کرتے ہیں، حضور نبی اکرم (ﷺ) کی تعلیمات میں ان کا طریقہ استعمال اور انہیں برتنے کا انداز بڑے اعتدال و کفایت شعاری سے ملتا ہے- پانی ایک عظیم نعمت ہے- جس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے- عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہما)سے روایت ہے کہ:
’’رسول اللہ (ﷺ) حضرت سعد (رضی اللہ عنہ) کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ کیسا اسراف ہے؟“، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو“-
حوالہ: (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 425)
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ )فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ (ﷺ)نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو‘‘-
حوالہ: (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارت وسننھا)
مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قدرتی وسائل کے استعمال میں ازحد ممکن احتیاط برتنی چاہیے جس کا اطلاق روزمرہ کی استعمال کی اشیا ء سے لے کر بجلی کے استعما ل تک ہوتا ہے- بجلی کی زیادہ تر پیداوار نامیاتی ایندھن سے ہوتی ہے- بجلی کے ضیاع کامطلب ہے ہم زیادہ سے زیادہ نامیاتی ایندھن جلا کر فضا میں خارج کر رہے ہیں جو کہ گلوبل وارمنگ کا ذریعہ ہے- لہٰذا صنعتی، کاروباری و گھریلو سطح پہ بجلی کا کم سے کم استعمال کیا جانا چاہیے اور ٹرانسپورٹ کو بھی ضرورت کے تحت استعمال کیا جانا چاہیے- حضرت جابر (رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے کہ آپ(ﷺ) صبح کے وقت چراغ جلانے سے منع فرماتے تھے-
آب و ہوا کی طہارت:
اسی طرح آپ (ﷺ)نے اپنے پیروکاروں پر پاکی و طہارت کے ذریعہ آب و ہوا کی حفاظت لازم فرمائی ہے اور تمام منفی رویوں سے اجتناب کا حکم دیا ہے-
حضرت اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں وبا پھیلی ہوئی ہے) تو وہاں نہ جاؤ- لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو‘‘-
حوالہ: (صحیح بخاری، رقم الحدیث :3473)
اسلام میں حدود حرم میں کسی نباتاتی پودے اور کسی پرندے اور جانور کے شکار کرنے کی ممانعت بھی ماحولیاتی تحفظ کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ ہے، وہ علاقے کسی مثالی خطے سے کم نہیں ہیں-مزید برآں یہ کہ آپ (ﷺ) نے کسی بھی پرندے یا جانور کو ناحق اور بے فائدہ مارنے سے شدت کے ساتھ روکا ہے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے-
حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ )فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) دعا فرمایا کرتے تھے کہ:
’’یا اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہوجانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں‘‘-
حوالہ: (صحيح مسلم ، کتاب الرقاق)
صوتی آلودگی:
شور بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے- انسانی سماعت ایک خاص فریکونسی Hz20 سے Hz2000 تک کی آواز کو سن سکتے ہیں جس سے زیادہ فریکونسی کی آواز انسان سننے سے قاصر ہوتے ہیں- مشینی دور میں صوتی آلودگی بھی ایک خطرناک مسئلہ بن چکا ہے جس کے باعث عوام میں سماعت کے مسائل اور ذہنی امراض جنم لیتے ہیں- سیرت طیبہ (ﷺ) میں صوتی آلودگی کو کم کرنے کا سبق ملتا ہے- آپ (ﷺ) ایسے شخص کو ناپسند فرماتے جس کی آواز تیز ہوتی اور پست آواز والے کو پسند فرماتے- اس کے علاوہ متعدد احادیث میں شور مچانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے- لہٰذا ہمیں چاہیے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں - ٹریفک میں بے جا ہارن کا استعمال، زیادہ شور مچانے والی گاڑیاں اور مو ٹر سائیکل عوام الناس کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے - اس کے علاوہ آبادیوں کے قریب فیکٹریوں میں شور کم کرنے کیلئے مناسب انتظام کیا جانا چاہیے- گھریلو سطح پر بھی موسیقی کے آلا ت یا شور مچانے والی مشینری سے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے-
آبی آلودگی :
آبی آلودگی سے مراد ندی، نالوں، دریاوں، سمندروں اور زیر زمین پانی کے ذخیروں میں ایسے کیمیکل کا یا جرثوموں کا شامل ہو جانا ہے جو انسانوں اور ماحول کے لیے مضر ہو- آبی آلودگی کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں زراعت میں استعمال ہونے والی ادویات ، فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے مادے ہیں جن کو براہ راست بغیر صفائی کے ندی نالوں میں چھوڑ دیا جاتاہے، گھروں کا فاضل مادہ اور سمندری پانی میں شامل ہونے والا تیل اور دیگر شامل ہیں - دنیا میں 80 فیصد استعمال شدہ پانی بغیر صاف کیے واپس ماحول میں شامل ہوتا ہے - اس میں وہ پانی بھی شامل ہے جو بارش کے بعد سڑکوں سے ہر طرح کے کوڑا کرکٹ، تیل اور گریس کو اپنے ساتھ بہا کے ندی نالوں میں لے جا تا ہے- اس کے علاوہ ایک بڑی مقدار میں استعمال شدہ پلاسٹک کی بنی اشیاء بھی پانی کے ذخیروں میں شامل ہو رہی ہیں- پانی انسانی زندگی میں جز و لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے- سیرت مبارکہ میں پانی کی طہارت پر بہت زور دیا گیا ہے-
پانی کی صفائی کے تعلق سے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
’’ایسے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرو جو جاری نہ ہو (تاکہ ایسا نہ ہو کہ) پھر تم اسی سے غسل کرو‘‘-
حوالہ: (صحیح مسلم)
حضرت جابر (رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ (ﷺ) نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘-
حوالہ: (المعجم الأوسط، رقم الحدیث: 1749)
مسلمان ہونے کے ناطے سیرت طیبہ کی روشنی میں ہم پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ملکی و انفرادی سطح پہ پانی کی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں -
سیرت نبوی (ﷺ) کی درخشندہ تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کے ضمن میں کثیر راہنمائی فراہم کی گئی ہے-جو ذاتی طہارت سے لے کر فضائی، ا ٓبی وصوتی لطافت تک پھیلی ہوئی ہے - سیرت طیبہ(ﷺ) کے بیشتر پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بصیرت ملتی ہے کہ اس کرۂ ارض پہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کے ناطے انسان کو اس زمین کے قدرتی ماحول اور حیاتیاتی نظام کی از حد حفاظت کرنی چاہیے- جو انسان کےلیے ایک طرح سے ثوابِ دارین کا ذریعہ ہے اور دوسری طرف انسان کی اپنی صحت اور حفاظت کے لیے بہترین اہتمام ہے- آج آلودگی کی کسی بھی صورت کو روکنا ہر مسلمان کی دینی و قومی ذمہ داری ہے - جدید دور میں تہذیب یافتہ قوموں کی پہچان کا پیمانہ صفائی و پاکیزگی ہے- مسلمان کی تو ابتدا اور انتہا طہارت پر ہے- مسلمان کی فطرت میں اللہ رب العزت نے طہارت و پاکیزگی کا جوہر ودیعت کیا ہے- لہٰذا ، آج ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کےلیے بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کرے-
٭٭٭
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the business
Telephone
Website
Address
Lahore
54000
Lahore, 54600
Designerz Central single information point strives to deliver 24/7 news and information from all ove
M Block Johar Town
Lahore, 54782
In an increasingly polarized world, it's hard to know whom to trust. UNZ(Universal News Zone) will b
413, Eden Heights, Jail Road, Main Gulberg
Lahore, 54660
Watan news international magazine was first that published in 1999 from Pakistan and Denmark for the
Lahore, 54000
The-NewsPaper is Pakistan’s Digital news website that provides all Latest News simultaneously from